حضرات!
یہ جلسہ ہماری ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے، ہماری سمیلنوں اور انجمنوں میں اب تک عام طور پر زبان اور اس کی اشاعت سے بحث کی جاتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ اردو اور ہندی کا جو لٹریچر موجود ہے، اس کا منشا خیالات اور جذبات پر اثر ڈالنا نہیں بلکہ محض زبان کی تعمیر تھا۔ وہ بھی نہایت اہم کام تھا۔ جب تک زبان ایک مستقل صورت نہ اختیار کر لے، اس میں خیالات و جذبات ادا کرنے کی طاقت ہی کہاں سے آئے۔ ہمار ی زبان کے پانیروں نے ہندوستانی زبان کی تعمیر کر کے قوم پر جو احسان کیا ہے اس کے لئے ہم ان کے مشکور نہ ہوں تو یہ ہماری احسان فراموشی ہوگی لیکن زبان ذریعہ ہے منزل نہیں۔ اب ہماری زبان نے وہ حیثیت اختیار کرلی ہے کہ ہم زبان سے گزر کر اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ ہوں اور اس پر غور کریں کہ جس منشاء سے یہ تعمیر شروع کی گئی تھی وہ کیونکر پورا ہو۔ وہی زبان جس میں ابتداء باغ و بہار اور بیتال پچیسی کی تصنیف ہی معراج کمال تھی، اب اس قابل ہوگئی ہے کہ علم و حکمت کے مسائل بھی ادا کرے۔
اور یہ جلسہ اسی حقیقت کا کھلا ہوا اعتراف ہے۔ زبان بول چال کی بھی ہوتی ہے اور تحریر کی بھی۔ بول چال کی زبان میرامن اور للولال کے زمانہ میں بھی موجود تھی۔ انہوں نے جس زبان کی داغ بیل ڈالی وہ تحریر کی زبان تھی اور وہی اب ادب ہے۔ ہم بول چال سے اپنے قریب کے لوگوں سے اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں، اپنی خوشی یا رنج کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ ادیب وہی کام تحریر سے کرتا ہے۔ ہاں اس کے سننے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے بیان میں حقیقت اور سچائی ہے تو صدیوں اور قرنوں تک اس کی تحریریں دلوں پر اثر کرتی رہتی ہیں۔
میرا یہ منشا نہیں کہ جو کچھ سپرد قلم ہو جائے وہ سب کا سب ادب ہے۔ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو جس کی زبان پختہ اور شستہ و لطیف ہو اور جس میں دل اور دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہو۔ اور ادب میں یہ صفت کامل طور پر اسی حالت میں پیدا ہوتی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربے بیان کئے گئے ہوں۔ طلسماتی حکایتوں یا بھوت پریت کے قصوں یا شہزادوں کے حسن و عشق کی داستانوں سے ہم کسی زمانہ میں متاثر ہوئے ہوں لیکن اب ان میں ہمارے لئے بہت کم دلچسپی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرت انسانی کا ماہر ادیب شہزادوں کے حسن و عشق اور طلسماتی حکایتوں میں بھی زندگی کی حقیقتیں بیان کر سکتا ہے اور اس میں حسن کی تحقیق کر سکتا ہے لیکن اس سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ لٹریچر میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں کا آئینہ دار ہو۔ پھر آپ اسے جس پس منظر میں چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ چڑے کی حکایت یا گل و بلبل کی داستان بھی اس کے لئے موزوں ثابت ہو سکتی ہے۔
ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس کی بہترین تعریف تنقید حیات ہے۔ چاہے وہ مقالوں کی شکل میں ہو یا افسانوں کی یا شعر کی۔ اسے ہماری حیات کا تبصرہ کرنا چاہئے۔ ہم جس دور سے گزرے ہیں اسے حیات سے کوئی بحث نہ تھی۔ ہمارے ادیب تخیلات کی ایک دنیا بنا کر اس میں من مانے طلسم باندھا کرتے تھے۔ کہیں فسانہ عجائب کی داستان تھی کہیں بوستان خیال کی اور کہیں چندرکانتا سنتی کی۔ ان داستانوں کا منشا محض دل بہلاؤ تھا اور ہمارے جذبہ حیرت کی تسکین۔ لٹریچر کا زندگی سے کوئی تعلق ہے، اس میں کلام ہی نہ تھا، بلکہ وہ مسلم تھا۔ قصہ قصہ ہے، زندگی زندگی۔ دونوں متضاد چیزیں سمجھی جاتی تھیں۔
شعراء میں انفرادیت کا رنگ غالب تھا۔ عشق کا معیار نفس پروری تھا اورحسن کا دیدہ زیبی۔ انہیں جنسی جذبات کے اظہار میں شعرا اپنی جدت اور جولانی کے معجزے دکھاتے تھے۔ شعر میں کسی نئی بندش، یا نئی تشبیہ یا نئی پرواز کا ہونا داد پانے کے لئے کافی تھا۔ چاہے وہ حقیقت سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو۔ یاس اور درد کی کیفیتیں آئینہ دار اور قفس، برق اور خرمن کے تخیل میں اس خوبی سے دکھائی جاتی تھیں کہ سننے والے دل تھام لیتے تھے اورآج بھی وہ شاعر کس قدر مقبول ہے، اسے ہم اور آپ خوب جانتے ہیں۔
بے شک شعر و ادب کا منشا ہمارے احساس کی شدت کو تیز کرنا ہے لیکن انسان کی زندگی محض جنسی نہیں ہے۔ کیا وہ ادب جس کا موضوع جنسی جذبات اور ان سے پیدا ہونے والے درد و یاس تک محدود ہو یا جس میں دنیا و دنیا کی مشکلات سے کنارہ کش ہونا ہی زندگی کا ماحصل سمجھا گیا ہو، ہماری ذہنی اور جذباتی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے؟ جنسیت انسان کا جزو ہے اور جس ادب کا بیشتر حصہ اسی سے متعلق ہو وہ اس قوم اور اس زمانہ کے لئے فخر کا باعث نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے صحیح مذاق ہی کی شہادت دے سکتا ہے۔ کیاہندی اور کیا اردو شاعری دونوں کی ایک ہی کیفیت ہے۔ اس وقت ادب و شاعری کا جو مذاق تھا اس کے اثر سے بے نیاز ہونا آسان نہ تھا۔ تحسین و قدردانی کی ہوس تو ہر ایک کو ہوتی ہے۔ شعراء کے لئے اپنا کلام ہی ذریعہ معاش تھا اور کلام کی قدردانی رؤسا و امراء کے علاوہ کون کرسکتا۔
ہمارے شعراء کو عام زندگی کا سامنا کرنے اوراس کی حقیقتوں سے متاثر ہونے کے لئے یا تو موقع ہی نہ تھا یا ہر خاص و عام پر ایسی ذہنی پستی چھائی ہوئی تھی کہ ذہنی اور شعوری زندگی رہ ہی نہیں گئی تھی۔ ہم اس وقت کے ادیبوں پر اس کا الزام نہیں رکھ سکتے۔ ادب اپنے زمانہ کا عکس ہوتا ہے۔ جو جذبات اور خیالات لوگوں کے دلوں میں ہلچل پیدا کرتے ہیں وہی ادب میں بھی اپنا سایہ ڈالتے ہیں۔ ایسی پستی کے زمانہ میں یا تو لوگ عاشقی کرتے ہیں یا تصوف اور ویراگ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس دور کی شاعری اور ادب دونوں اسی قسم کے ہیں۔ جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس اور شکوہ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا ہوا ہو تو سمجھ لیجئے کہ قوم جمود اور انحطاط کا شکار ہو چکی اور اس میں سعی اور اجتہاد کی قوت باقی نہیں رہی اوراس نے درجات عالیہ کی طرف سے انہیں آنکھیں بند کرلی ہیں اور مشاہدے کی قوت غائب ہوگئی ہے۔
مگر ہمارا ادبی مذاق بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے۔ دل بہلاؤکے سوا اس کا کچھ اور بھی مقصد ہے۔ وہ اب محض عشق و عاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے۔ ان کا محاکمہ کرتا ہے، اور ان کو حل کرتا ہے۔ وہ اب تحرک یا ایہام کے لئے حیرت انگیز واقعات تلاش نہیں کرتا یا قافیہ کے الفاظ کی طرف نہیں جاتا بلکہ اس کو ان مسائل سے دلچسپی ہے جن سے سوسائٹی یا سوسائٹی کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی فضیلت کا موجودہ معیار جذبات کی وہ شدت ہے جس سے وہ ہمارے جذبات اور خیالات میں حرکت پیدا کرتا ہے۔
اخلاقیات اور ادبیات کی منزل مقصود ایک ہے، صرف ان کے طرز خطاب میں فرق ہے۔ اخلاقیات دلیلوں اور نصیحتوں سے عقل اور ذہن کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ادب نے اپنے لئے کیفیات اور جذبات کا دائرہ چن لیا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ دیکھتے ہیں یا ہم پر جو کچھ گزرتی ہے وہ چیزیں تخیل میں جاکر تخلیق ادب کی تحریک کرتی ہیں۔ شاعر یا ادیب میں جذبات کی جتنی ہی شدت احساس ہوتی ہے اتنا ہی اس کا کلام دلکش اور بلند ہوتا ہے۔ جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت و حرکت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لئے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لئے بے کار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
زمانہ قدیم میں مذہب کے ہاتھوں میں سوسائٹی کی لگام تھی۔ انسان کی روحانی اور اخلاقی تہذیب مذہبی احکام پر مبنی تھی۔ اور وہ تخویف یا تحریص سے کام لیتا تھا۔ عذاب و ثواب کے مسائل اس کے آلہ کار تھے۔ اب ادب نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس کا آلہ کار ذوق حسن ہے۔ وہ انسان میں اس ذوق حسن کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان نہیں جس میں حسن کا احساس نہ ہو، ادیب میں یہ احساس جتنا ہی بیدار اور پرعمل ہوتا ہے اتنی اس کے کلام میں تاثیر ہوتی ہے۔ فطرت کے مشاہدے اور اپنی ذکاوت احساس کے ذریعہ اس میں جذبہ حسن کی اتنی تیزی ہو جاتی ہے کہ کچھ قبیح ہے، غیر مستحسن ہے، انسانیت سے خالی ہے، وہ اس کے لئے ناقابل برداشت بن جاتا ہے۔ نیز وہ بیان اور جذبات کی ساری قوت سے وار کرتا ہے۔
یوں کہئے وہ انسانیت کا، علویت کا، شرافت کا علم بردار ہے۔ جو پامال ہیں، مظلوم ہیں، محروم ہیں، چاہے وہ فرد ہوں یا جماعتی، ان کی حمایت اور وکالت اس کا فرض ہے۔ اس کی عدالت سوسائٹی ہے۔ اسی عدالت کے سامنے وہ اپنا استغاثہ پیش کرتا ہے اور عدالت اس کے احساس حق اور انصاف اور جذبہ حسن کی تالیف کر کے اپنی کوشش کو کامیاب سمجھتا ہے۔ مگر عام وکلا کی طرح وہ اپنے موکل کی جانب سے جاوبے جا دعویٰ نہیں پیش کرتا۔ مبالغہ سے کام نہیں لیتا۔ اختراع نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ ان ترکیبوں سے وہ سوسائٹی کی عدالت کو متاثر نہیں کر سکتا۔ اس عدالت کی تالیف جب ہی ممکن ہے جب آپ حقیقت سے ذرا بھی منحرف نہ ہوں۔ ورنہ عدالت آپ سے بدظن ہوجائے گی۔ اور آپ کے خلاف فیصلہ سنا دے گی۔
وہ افسانہ لکھتا ہے مگر واقعیت کے ساتھ وہ مجسمہ بناتا ہے مگر اس طرح کہ اس میں حرکت بھی ہو اور قوت اظہار بھی ہو، وہ فطرت انسانی کا باریک نظروں سے مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ نفسیات کا مطالعہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے کیریکٹر ہر حالت میں ہر موقع پر اس طرح برتاؤ کریں کہ جیسے گوشت پوست کے انسان کرتے ہیں۔ وہ اپنی طبعی ہمدردی اور اپنی حسن پسندی سے زندگی کے ان نکات پر جا پہنچتا ہے جہاں انسان اپنی انسانیت سے معذور ہو جاتا ہے اور واقعہ نگاری کا رجحان یہاں تک روبہ ترقی ہے کہ آج کا افسانہ ممکن حد تک مشاہدہ سے باہر نہیں جاتا۔ ہم محض اس خیال سے تسکین نہیں پاتے کہ نفسیاتی اعتبار سے یہ سب ہی کیریکٹر انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ بلکہ ہم یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ وہ واقعی انسان ہیں اور مصنف نے حتی الامکان ان کی سوانح عمری لکھی ہے کیونکہ تخیل کے انسان میں ہمارا عقیدہ نہیں ہے، ہم اس کے فعلوں اور خیالوں سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ تحقیق ہو جانا چاہئے کہ مصنف نے جو تخلیق کی ہے وہ مشاہدات کی بنا پر ہے یا وہ خود اپنے کیریکٹر کی زبان بول رہا ہے۔ اسی لئے ادب کو بعض نقادوں نے مصنف کی نفسیاتی سوانح عمری کہا ہے۔
ایک ہی واقعہ یا کیفیت سے سبھی انسان یکساں طور پر متاثر نہیں ہوتے۔ ہر شخص کی ذہنیت اور زاویہ نظر الگ ہے۔ مصنف کا کمال اسی میں ہے کہ وہ جس ذہنیت یا زاویہ سے کسی امر کو دیکھے، اس میں اس کا پڑھنے والا بھی اس کا ہم خیال ہو جائے، یہی اس کی کامیابی ہے۔ اسی کے ساتھ ہم ادیب سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ اپنی بیدار مغزی، اپنی وسعت خیال سے ہمیں بیدار کرے۔ ہم میں وسعت پیدا کرے۔ اس کی نگاہ اتنی باریک، اتنی گہری اور اتنی وسیع ہو کہ ہمیں اس کے کلام سے روحانی سرور اور تقویت حاصل ہو۔
بہتر بننے کی تحریک ہر انسان میں موجود ہوتی ہے۔ ہم میں جو کمزوریاں ہیں وہ کسی مرض کی طرح چمٹی ہوئی ہیں۔ جیسے جسمانی تندرستی ایک فطری امر ہے اور بیماری بالکل غیر فطری۔ اسی طرح اخلاقی اور ذہنی صحت بھی فطری بات ہے، اور ہم ذہنی اور اخلاقی پستی سے اسی طرح مطمئن نہیں ہوتے جیسے کوئی مریض اپنے مرض سے مطمئن نہیں ہوتا۔ جیسے وہ ہمیشہ کسی طبیب کی تلاش میں رہتا ہے، اسی طرح ہم بھی اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اپنی کمزوریوں کو پرے پھینک کر بہتر انسان بن جائیں، اسی لئے ہم سادھو اور فقیروں کی جستجو کرتے ہیں۔ پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں۔ علماء کی تقریریں سنتے ہیں اور ادب کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہماری ساری کمزوریوں کی ذمہ دار ہماری بدمذاقی اور محبت کے جذبہ سے محروم ہونا ہے۔
جس میں صحیح ذوق حسن ہے، جس میں محبت کی وسعت ہے۔ وہاں کمزوریاں کیسے رہ سکتی ہیں۔ محبت ہی تو روحانی غذا ہے اور ساری کمزوریاں اسی روحانی غذا کے نہ ملنے سے یا مضر غذا کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔
آرٹسٹ ہم میں حسن کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور محبت کی گرمی۔ اس کا ایک فقرہ، ایک لفظ، ایک کنایہ اس طرح ہمارے اندر بیٹھتا ہے کہ ہماری روح روشن ہو جاتی ہے۔ مگر جب تک آرٹسٹ خود جذبہ حسن سے سرشار نہ ہو اور اس کی روح خود اس نور سے منور نہ ہو تو ہمیں یہ روشنی کیونکر عطا کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حسن کیا شے ہے؟ بظاہر یہ ایک مہمل سا سوال معلوم ہوتا ہے کیونکہ حسن کے متعلق ہمیں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔ ہم نے آفتاب کا طلوع و غروب دیکھا ہے۔ شفق کی سرخی دیکھی ہے۔ خوشما اور خوشبودار پھول دیکھے ہیں۔ خوشنوا چڑیاں دیکھی ہیں۔ نغمہ خواں ندیاں دیکھی ہیں۔ ناچتے ہوئے آبشار دیکھے ہیں۔ ان نظاروں میں ہماری روح کیونکر کھل کر اٹھتی ہے؟ اس لئے کہ ان میں رنگ یا آواز کی ہم آہنگی ہے۔ سازوں کی ہم آہنگی ہی سنگیت کی دل کشی کا باعث ہے۔ ہماری ترکیب ہی عناصر کے توازن سے ہوتی ہے اور ہماری روح ہمیشہ اسی توازن، اسی ہم آہنگی کی تلاش کرتی ہے۔
ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے، تخریب نہیں۔ وہ ہم میں دفا اور خلوص اور ہمدردی اور انصاف اور مساوات کے جذبات کی نشوونما کرتی ہے۔ جہاں جذبات ہیں وہیں استحکام ہے، زندگی ہے۔ جہاں ان کا فقدان ہے وہیں افتراق، خود پروری ہے اور نفرت اور دشمن ہے، اور موت ہے۔ یہ افتراق غیر فطری زندگی کی علامتیں ہیں، جیسے بیماری غیر فطری زندگی کی۔ جہاں فطرت سے مناسبت اور توازن ہے، وہاں تنگ خیالیوں اور خود غرضیوں کا وجود کیسے ہوگا۔ جب ہماری روح فطرت کی کھلی ہوئی فضا میں نشوونما پاتی ہے تو خباثت نفس کے جراثیم خودبخود ہو اور روشنی سے مر جاتے ہیں۔ فطرت سے الگ ہو کر اپنے کو محدود کرنے سے ہی ساری ذہنی اور جذباتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے یا دوسرے لفظوں میں اسی کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے، یہی اس کا مقصد اولیٰ ہے۔
ترقی پسند مصنفین کا عنوان میرے خیال میں ناقص ہے۔ ادیب یا آرٹسٹ طبعاً اور خلقتاً ترقی پسند ہوتا ہے۔ اگر یہ اس کی فطرت نہ ہوتی تو وہ ادیب نہ ہوتا۔ وہ پھر آئیڈیلسٹ ہوتا ہے، اسے اپنے اندر بھی ایک کمی محسوس ہوتی اور باہر بھی اسی کمی کو پورا کرنے کے لئے اس کی روح بے قرار رہتی ہے۔ وہ اپنے تخیل میں فرداور جماعت کو مسرت اور آزادی کی جس حالت میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اسے نظر نہیں آتی۔ اس لئے موجودہ ذہنی اور اجتماعی حالتوں سے اس کا دل بیزار ہوتا ہے وہ ان ناخوشگوار حالات کا خاتمہ کر دینا چاہتا ہے تاکہ دنیا جینے اور مرنے کے لئے بہتر جگہ ہو جائے۔ یہی درد اور یہی جذبہ اس کے دل و دماغ کو سرگرم کار رکھتا ہے۔ اس کا حساس دل یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک جماعت کیوں معاشرت و رسوم کی قیود میں پڑ کر اذیت پاتی رہے، کیوں نہ وہ اسباب مہیا کئے جائیں کہ وہ غلامی اور عسرت سے آزاد ہو، اس درد کو جتنی بے تابی کے ساتھ محسوس کرتا ہے اتنا ہی اس کے کلام میں زور اور خلوص پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے احساسات کو جس تناسب سے ادا کرتا ہے وہی اس کے کمال کا راز ہے مگر شاید اس تخصیص کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ ترقی کا مفہوم ہر مصنف کے ذہن میں یکساں نہیں ہے۔
جن حالات کو ایک جماعت ترقی سمجھتی ہے انہی کو دوسری جماعت عین زوال سمجھتی ہے۔ اس لئے ادیب اپنے آرٹ کو کسی مقصد کے تابع نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے خیال میں آرٹ صرف جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ ان جذبات سے فرد یا جماعت پر خواہ کیسا ہی اثر پڑے، ترقی کا ہمارا مفہوم وہ صورت حالات ہے جس سے ہم میں استحکام اور قوت عمل پیدا ہو، جس سے ہمیں اپنی خستہ حالی کا احساس ہو۔ ہم دیکھیں کہ ہم کن داخلی اور خارجی اسباب کے زیر اثر اس جمود و انحطاط کی حالت کو پہنچ گئے ہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے لئے وہ شاعرانہ جذبات بے معنی ہیں جن سے دنیا کی بے ثباتی ہمارے دل پر اور زیادہ مسلط ہو جائے۔ جن سے ہمارے دلوں پر مایوسی طاری ہو جائے، وہ حسن وعشق کی داستانیں جن سے ہمارے رسائل بھرے ہوئے ہیں، ہمارے لئے بے معنی ہیں۔ اگر وہ ہم میں حرکت اور حرارت نہیں پیدا کرتے، اگر ہم نے دو نوجوانوں کے حسن و عشق کی داستان کہہ ڈالی مگراس سے ہمارے ذوق حسن پر کوئی اثر نہیں پڑا، اور پڑا بھی توصرف اتنا کہ ہم ان کی ہجر کی تکلیفوں پر روئے تواس سے ہم میں کون سی ذہنی یا ذوقی حرکت پیدا ہوئی۔ ان باتوں سے ہمیں کسی زمانہ میں وجد آیا ہو، مگر آج کے لئے وہ بیکار ہیں، اس جذباتی آرٹ کا اب زمانہ نہیں رہا۔ اب تو ہمیں اس آرٹ کی ضرورت ہے جس میں عمل کا پیغام ہو۔ اب توحضرت اقبال کے ساتھ ہم بھی کہتے ہیں،
رمز حیات جوئی؟ جز در تپش نیابی
در قلزم آرمیدن ننگ ست آب جورا
بہ آشیاں نہ نشینم ز لذت پرواز
گہے بستاخ گم گاہ برلب جویم
چنانچہ ہمارے مشرب میں داخلیت وہ شے ہے جو جمود، پستی، سہل نگاری کی طرف لے جاتی ہے اور ایسا آرٹ ہمارے لئے نہ انفرادی حیثیت سے مفید ہے نہ اجتماعی حیثیت سے۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ میں اور چیزوں کی طرح آرٹ کو بھی افادیت کی میزان میں تولتا ہوں۔ بے شک آرٹ کا مقصد ذوق حسن کی تقویت ہے اور وہ ہماری روحانی مسرت کی کنجی ہے۔ لیکن ایسی کوئی ذوقی معنوی یا روحانی مسرت نہیں ہے جو اپنا افادی پہلو نہ رکھتی ہو۔ مسرت خود ایک افادی شے ہے اور ایک ہی چیز سے ہمیں افادیت کے اعتبار سے مسرت بھی ہے اور غم بھی۔ آسمان پر چھائی ہوئی شفق بے شک ایک خوشنما نظارہ ہے لیکن کہیں اساڑھ میں آسمان پر شفق چھا جائے تو وہ ہمارے لئے خوشی کا باعث نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اکال کی خبر دیتی ہے۔ اس وقت تو ہم آسمان پر کالی کالی گھٹائیں دیکھ کر ہی مسرور ہوتے ہیں۔ پھولوں کو دیکھ کر ہم اس لئے محظوظ ہوتے ہیں کہ ان سے پھل کی امید ہوتی ہے۔ فطرت سے ہم آہنگی اسی لئے ہماری روحانی مسرت کا باعث ہے کہ اس سے ہمیں زندگی میں نمو اور تقویت ملتی ہے۔ فطرت کا قانون نمو اور ارتقا ہے اور جن جذبات، کیفیات یا خیالات سے ہمیں مسرت ہوتی ہے وہ اسی نمو کے معاون ہیں۔ آرٹسٹ اپنے آرٹ سے حسن کی تخلیق کر کے اسباب اور حالات کی بالیدگی کے لئے سازگار بناتا ہے۔
مگرحسن بھی اور چیزوں کی طرح مطلق نہیں، اس کی حیثیت بھی اضافی ہے۔ ایک رئیس کے لئے جو چیز مسرت کا باعث ہے، وہی دوسرے کے لئے رنج کا سبب ہو سکتی ہے۔ ایک رئیس اپنے شگفتہ و شاداب باغیچہ میں بیٹھ کر چڑیوں کے نغمے سنتا ہے تو اسے جنت کی مسرت حاصل ہوتی ہے لیکن ایک نادار لیکن باخبر انسان اس امارت کے لوازمے کو مکروہ ترین چیز سمجھتا ہے جو غریبوں اور مزدوروں کے خون سے داغدار ہو رہی ہے۔ اخوت و مساوات، تہذیب اور معاشرت کی ابتدا سے ہی آئیڈیلسٹوں کا زرین خواب رہی ہے۔ پیشوایان دین نے مذہبی، اخلاقی اور روحانی بندشوں سے اس خواب کو حقیقت بنانے کی متواتر ناکام کوششیں کی ہیں۔ مہاتمابدھ، حضرت عیسیٰ، حضرت محمدؐ سبھی نبیوں نے اخلاقی بنیادوں پر مساوات کی یہ عمارت کھڑی کرنی چاہی مگر کسی کو پوری کامیابی نہ ہوئی اور آج اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفاوت جتنی بے دردی سے نمایاں ہو رہی ہے شاید کبھی نہ ہوئی تھی۔
آزمودہ، آزمودن جہل است کے مصداق اب بھی دھرم اور اخلاق کا دامن پکڑ کر ہم اس مساوات پر پہنچنا چاہیں تو ہمیں ناکامی ہی ہوگی۔ کیا ہم اس خواب کو پریشان و دماغ کی خلاقی سمجھ کر بھول جائیں؟ تب تو انسان کی ترقی و تکمیل کے لئے کوئی آئیڈیل ہی باقی نہ رہ جائے گا۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ انسان کا وجود ہی مٹ جائے، جس آئیڈیل کو ہم نے تہذیب کے آغاز سے پالا ہے، جس کے لئے انسان نے خدا جانے کتنی قربانیاں کی ہیں، جس کی تکمیل کے لئے مذاہب کا ظہور ہوا، انسانی معاشرت کی تاریخ اس آئیڈیل کی تکمیل کی تاریخ ہے۔ اسے مسلمہ سمجھ کر ٹک نہ سکنے والی حقیقت سمجھ کر ہمیں ترقی کے میدان میں قدم رکھنا ہے۔ ایک نئے نظام کی تکمیل کرنی ہے جہاں وہ مساوات محض اخلاقی بندشوں پر نہ رہ کر قوانین کی صورت اختیار کرے۔ ہمارے لٹریچر کو اسی آئیڈیل کو پیش کرنا ہے۔
ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا۔ ہمارا آرٹسٹ امراء کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا۔ انہیں کی قدردانی پر اس کی ہستی قائم تھی اور انہی کی خوشیوں اور رنجوں، حسرتوں اور تمناؤں، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا۔ اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں۔ جھونپڑے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے۔ انہیں وہ انسانیت کے دائرہ سے خارج سمجھتا تھا۔ اگر کبھی وہ ان کا ذکر بھی کرتا تھا تو مضحکہ اڑانے کے لئے۔ اس کی دہقانی وضع اور معاشرت پر چلنے کے لئے اس کا ’شین‘ ’قاف‘ درست نہ ہونا یا محاوروں کا غلط استعمال ظرافت کا ازلی سامان تھا۔ وہ بھی انسان ہے، اس کا بھی دل ہے، اس میں بھی آرزوئیں ہیں، یہ آرٹسٹ کے ذہن سے بعید تھا۔
آرٹ نام تھا اور اب بھی ہے، محدود صورت پرستی کا، الفاظ کی ترکیبوں کا، خیالات کی بندشوں کا، اس کے لئے کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔ زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں ہے۔ بھگتی اور ویراگ تصوف اور دنیا سے کنارہ کشی اس کے بلند ترین تخیلات ہیں۔ اس کے لئے یہی معراج زندگی ہے۔ اس کی نگاہ ابھی اتنی وسیع نہیں ہوئی ہے کہ وہ کشمکش حیات میں حسن کی معراج دیکھے۔ فاقہ و عریانی بھی حسن کا وجود ہو سکتا ہے، اسے وہ شاید تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے لئے حسن حسین عورت میں ہے، اس بچوں والی غریب بے حسن عورت میں نہیں جو بچے کو کھیت کی منڈیر پر سلائے پسینہ بہا رہی ہے۔ اس نے طے کر لیا ہے کہ رنگے ہونٹوں اور رخساروں اور ابروؤں میں فی الوقتی حسن کا باس ہے۔ الجھے ہوئے بالوں، پپڑیاں پڑے ہونٹوں اور کمہلائے ہوئے رخساروں میں حسن کا گزر کہاں۔ لیکن یہ اس کی تنگ نظری کا قصور ہے۔ اس کی نگاہ حسن میں وسعت آجائے تو وہ دیکھے گا کہ رنگے ہونٹوں اور رخساروں کی آڑ میں اگر نخوت اور خود آرائی اور بے حسی ہے تو ان مرجھائے ہوئے ہونٹوں اور کمھلائے ہوئے رخساروں کی آڑ میں ایثار اور عقیدت اور مشکل پسندی ہے۔
ہاں! اس میں نفاست نہیں، نمونہیں، لطافت نہیں، ہمارا آرٹ شبابیات کا شیدائی ہے اور نہیں جانتا شباب سینے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھنے اور صنف نازک کی کج ادائیوں کے شکوے کرنے یا اس کی خودپسندیوں اور چونچلوں پر سردھننے میں نہیں ہے۔ شباب نام ہے آئیڈیلزم کا، ہمت کا، مشکل پسندی کا، قربانی کا۔ اسے اقبال ؔ کے ساتھ کہنا ہوگا،
در دشت جنوں من جبریل زبون صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
یا
چو موج سازو جو دم زسیل بے پرداست
گماں مبرکہ دریں بحر ساحلے جویم
اور یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب ہماری نگاہ حسن عالمگیر ہو جائے گی۔ جب ساری خلقت اس کے دائرہ میں آجائے گی۔ وہ کسی خاص طبقہ تک محدود نہ ہوگا۔ اس کی پرواز کے لئے محض باغ کی چاردیواری نہ ہوگی بلکہ وہ فضا جو سارے عالم کو گھیرے ہوئے ہے۔ تب ہم بد مذاقی کے متحمل نہ ہوں گے۔ تب ہم اس کی جڑ کھودنے کے لئے سینہ سپر ہو جائیں گے۔ تب ہم اس معاشرت کو برداشت نہ کر سکیں گے کہ ہزاروں انسان ایک جابر کی غلامی کریں۔ تب ہماری خوددار انسانیت اس سرمایہ داری اور عسکریت اور ملوکیت کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گی۔ تبھی ہم صرف صفحہ کاغذ پر تخلیق کرکے خاموش نہ ہوجائیں گے۔ بلکہ اس نظام کی تخلیق کریں گے جو حسن اور مذاق اور خودداری اور انسانیت کا منافی نہیں ہے۔ ادیب کا مشن محض نشاط اور محفل آرائی اور تفریح نہیں ہے۔ اس کا مرتبہ اتنا نہ گرایئے۔ وہ وطنیت وسیاست کے پیچھے چلنے والی حقیقت نہیں بلکہ ان کے آگے مشعل دکھاتی ہوئی چلنے والی حقیقت ہے۔
ہمیں اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ ادیبوں کے لئے سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی ہندوستان کے ادیبوں کو۔ مہذب ملکوں میں تو ادیب سوسائٹی کا معزز رکن ہے اور وزرا اور امرا اس سے ملنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ مگر ہندوستان تو ابھی تک قرون وسطیٰ کی حالت میں پڑا ہوا ہے۔ مگر ادب نے جب امرا کی دریوزہ گری کو ذریعہ حیات بنا لیا ہو اور ان تحریکوں اور ہلچلوں اور انقلابوں سے بے خبر ہو جو سوسائٹی میں ہورہے ہیں، اپنی ہی دنیا بنا کر اس میں رونا و ہنسنا ہو تو اس دنیا میں اس کے لئے جگہ نہ ہونا انصاف سے بعید نہیں ہے۔ جب ادیب کے لئے موزوں طبیعت کے سوا کوئی قید نہیں رہی یا اسی طرح جیسے مہاتما پن کے لئے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، ان کی روحانی بلندی ہی کافی ہے تو جیسے مہاتما لوگ در در پھرنے لگے، اسی طرح ادیب بھی لاکھوں کی تعداد میں نکل آئے۔
اس میں شک نہیں کہ ادیب پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا لیکن اگر ہم تعلیم اور طلب سے اس فطری عطیے میں اضافہ اور وسعت پیدا کر سکیں تو یقینا ہم ادب کی بنیادی خدمت کرسکیں گے۔ ارسطو نے بھی دوسرے حکما نے بھی ادیبوں کے لئے سخت شرطیں عائد کی ہیں، اور ان کی ذہنی، اخلاقی، روحانی جذباتی تہذیب اور ترتیب کے لئے اصول اور طریقے مقرر کر دیے ہیں۔ مگر آج تو ادیب کے لئے ضرورت نہیں۔ وہ سیاسیات، معاشیات یا نفسیات وغیرہ علوم سے بالکل بے گا نہ ہو، پھر بھی وہ ادیب ہے۔ حالانکہ ادب کے سامنے آج کل جو آئیڈیل رکھا گیا ہے اس کے مطابق یہ سبھی علوم اس کے جزو خاص بن گئے ہیں اور اس کا رجحان داخلیت یا انفرادیت تک محدود نہیں رہا۔ وہ نفسیاتی ومعاشی ہوتا جاتا ہے۔ وہ اب فرد کو جماعت سے الگ نہیں دیکھتا بلکہ فرد کو جماعت کے ایک حصہ کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ جماعت پر حکومت کرے، اسے پنی غرض کا آلہ بنائے گویا جماعت میں اوراس میں ازلی دشمنی ہے بلکہ اس لئے کہ جماعت کی ہستی کے ساتھ اس کی ہستی بھی قائم ہے اور جماعت سے الگ وہ صفر کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہم میں جنہیں بہترین تعلیم اور بہترین ذہنی قویٰ ملے ہیں، ان کے اوپر سماج کی اتنی ہی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ جس طرح سرمایہ دار کو ہم غاصب اور جابر کہتے ہیں کیونکہ وہ عوام کی محنت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح ہم اس ذہنی سرمایہ دار کو بھی پرستش کے قابل نہ کہیں گے جو سماج کے پیسہ سے اور اونچی سے اونچی تعلیم پا کر اسے اپنی ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ سماج سے ذاتی نفع حاصل کرنا ایسا فعل ہے جسے کوئی ادیب کبھی نہ پسند کرے گا۔ اس سرمایہ دار کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے فائدہ کو اپنی ذات سے زیادہ توجہ کے لائق سمجھے۔ اپنے علم و کمال سے جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ وہ ادب کی کسی صنف میں بھی قدم کیوں نہ رکھے، اسے اس صنف پر خصوصاً اور عام حالات سے عموماً واقف ہو نا چاہئے۔
اگر ہم بین الاقوامی ادیبوں کی کانفرنسوں کی رپورٹیں پڑھیں تو ہم دیکھیں گے ایسا کوئی علمی، معاشی، تاریخی اور نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے جس پر ان میں تبادلہ خیالات نہ ہوتا ہو۔ اس کے برعکس ہم اپنے مبلغ علم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بے علمی پر شرم آتی ہے۔ ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ حاضر طبیعت اور رواں قلم ہی ادب کے لئے کافی ہے۔ ہماری ادبی پستی کا باعث یہی خیال ہے۔ ہمیں اپنے ادیب کا علمی معیار اونچا کرنا پڑے گا تاکہ وہ جماعت کی زیادہ قابل قدر خدمت کر سکے، تاکہ جماعت میں اسے وہ درجہ ملے جو اس کا حق ہے، تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ سے بحث کرسکے اور ہم دوسری زبانوں کے ادیبوں کے دسترخوان کے جھوٹے نوالے ہی کھانے پر قناعت نہ کریں۔ بلکہ اس میں خود بھی اضافہ کریں۔
ہمیں اپنے مذاق اور طبعی میلان کے مطابق موضوع کا انتخاب کر لینا چاہئے اور اس موضوع پر عالمانہ عبور حاصل کرنا چاہئے۔ ہم جس اقتصادی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس میں یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ہمارا معیار اونچا رہنا چاہئے۔ اگر ہم پہاڑ کی چوٹی تک نہ پہنچ سکے تو کمر تک تو پہنچ ہی جائیں گے، جو سطح زمین پر پڑے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگر ہمارا باطن محبت سے منور ہو اور خدمت کا معیار ہمارے پیش نظر ہو، جو اسی محنت کی ظاہری صورت ہے تو ایسی کوئی مشکل نہیں جس پر ہم فتح نہ پا سکیں۔ جنہیں دولت و ثروت پیاری ہے ان کے لئے ادب کے مندر میں جگہ نہیں ہے۔ یہاں توان اُپا سکوں کی ضرورت ہے جنہوں نے خدمت کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ جن کے دل میں تڑپ ہو اور محبت کا جوش ہو۔
اپنی عزت تو اپنے ہاتھ ہے۔ اگر ہم سچے دل سے جماعت کی خدمت کریں گے تو اعزاز و امتیاز اور شہرت بھی ہمارے قدم چومے گی۔ پھر اعزاز و امتیاز کی فکر ہمیں کیوں ستائے اور اس کے نہ ملنے سے ہم مایوس کیوں ہوں۔ خدمت میں جو روحانی مسرت ہے وہی ہمارا صلہ ہے۔ ہمیں جماعت پر اپنی حقیقت جتانے کی اس پر رعب جمانےکی ہوس کیوں ہو۔ دوسروں سے زیادہ آرام و آسائش سے رہنے کی خواہش ہمیں کیوں ستائے۔ ہم امراء کے طبقہ میں اپنا شمار کیوں کرائیں۔ ہم تو جماعت کے علمبردار ہیں اور سادہ زندگی کے ساتھ اونچی نگاہ ہماری زندگی کا نصب العین ہے۔ جو شخص سچا آرٹسٹ ہے وہ خود پروری کی زندگی کا عاشق نہیں ہوسکتا۔ اسے اپنے قلب کے اطمینان کے لئے نمائش کی ضرورت نہیں۔ اس سے اسے نفرت ہوتی ہے، وہ تو اقبالؔ کے ساتھ کہتا ہے،
مردم آزادم و آں گونہ غیورم کہ مرا
می تواں گشت بہ یک جام زلال دگراں
ہماری انجمن نے کچھ اسی طرح کے اصولوں کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھا ہے۔ وہ ادب کو خمریات اور شبابیات کا دست نگر نہیں دیکھنا چاہتی۔ وہ ادب کو سعی اور عمل کا پیغام اور ترانہ بنانے کی مدعی ہے۔ اسے زبان سے بحث نہیں۔ آئیڈیل کے وسعت کے ساتھ زبان خود بخود سلیس ہو جاتی ہے۔ حسن معنی آرائش سے بے نیاز رہ سکتا ہے۔ جو ادیب امراء کا ہے وہ امراء کا طرز بیان اختیار کرتا ہے، جو عوام الناس کا ہے وہ عوام کی زبان لکھتا ہے۔ ہمارا مدعا ملک میں ایسی فضا پیدا کرنا ہے جس میں مطلوبہ ادب پیدا ہو سکے اور نشوونما پا سکے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ادب کے مرکزوں میں ہماری انجمنیں قائم ہوں اور وہاں ادب کے تعمیری رجحانات پر باقاعدہ چرچے ہوں۔ مضامین پڑھے جائیں، مباحثے ہوں، تنقیدیں ہوں تبھی وہ فضا تیار ہوگی، تبھی ادب کے نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوگا۔ ہم ہر ایک صوبہ میں، ہر ایک زبان میں ایسی انجمنیں کھولنا چاہتے ہیں تاکہ اپنا پیغام ہر ایک زبان میں پہنچائیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہوگی کہ یہ ہماری ایجاد ہے، نہیں ملک میں اجتماعی جذبات ادیبوں کے دلوں میں موجزن ہیں۔ ہندوستان کی ہر زبان میں اس خیال کی تخم ریزی فطرت نے اور حالات نے پہلے ہی سے کر رکھی ہے۔ جابجا اس کے انکھوے بھی نکلنے لگے ہیں۔ اس کی آبیاری کرنا، اس کے آئیڈیل کو تقویت پہنچانا ہمارا مدعا ہے۔
ہم ادیبوں میں قوت عمل کا فقدان ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر ہم اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ ابھی تک ہم نے ادب کا جو معیار رکھا تھا اس کے لئے عمل کی ضرورت نہ تھی۔ فقدان عمل ہی اس کا جوہر تھا کیونکہ بسا اوقات عمل اپنے ساتھ تنگ نظری اور تعصب بھی لاتا ہے۔ اگر کوئی شخص پارسا ہو کر اپنی پارسائی پر غرہ کرے، اس سے کہیں اچھا ہے کہ وہ پارسا نہ ہوکر رند ہو۔ رند کی شفاعت کی تو گنجائش ہے۔ پارسائی کے غرور کی تو کہیں شفاعت نہیں۔ بہرحال جب تک ادب کا کام تفریح کا سامان پیدا کرنا محض لوریاں گا کر سلانا، محض آنسو بہاکر غم غلط کرنا تھا، اس وقت تک ادیب کے نئے عمل کی ضرورت نہ تھی۔ وہ دیوانہ تھا جس کا غم دوسرے کھاتے تھے۔ مگر ہم ادب کو محض تفریح اور تعیش کی چیز نہیں سمجھتے۔ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت اور ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلائے نہیں کیوں کہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.