ادب اور تہذیب کی ہر روایت کا ایک خاص تاریخی پس منظر، ایک عقبی پردہ بھی ہوتا ہے۔ یہی پس منظر اجتماعی اور انفرادی تجزیوں کا اظہار کرنے والے لفظوں کا مفہوم متعین کرتا ہے۔ تاریخ کے گھیرے سے نکلنایا اسے توڑنا ایک دشوار مہم ہے۔
اردو کی ادبی روایت نے جس فضا میں پر پرزے نکالے وہ بڑی حدتک مرتب اور متوازن تھی، جستجو سے خالی اور خوش رفتار۔ ایسی صورت میں جس طرح کی سوچ کو عام قبولیت ملی، اس سے ادبی روایت کی تعمیر کرنے والوں کے عام رویے میں بھی، ایک نمایاں دھیمے پن اور بے فکری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمارا شعور روایت اور فرسودہ تجربوں کے دائرے میں گھومتا رہے تو اس کی گرفت میں آنے والے استعارے بھی کسی نئے مفہوم کی تلاش، کسی نئے امکان، تخلیقی ذمے داری کے احساس کی کسی نئی سمت کو ڈھونڈنا بند کردیتے ہیں۔ تجربے اور خیال کی دنیا کے رنگ بدل رہے ہوں تو لفظوں کے معنی اور ہماری زندگی سے اور دنیا سے ان کے رشتے بھی تبدیل ہونے چاہئیں۔
آج کی دنیا جس پر سیاست اور سرمایہ داری کا سایہ روز بہ روز گہرا ہوتا جارہا ہے، اس نے ہماری اجتماعی زندگی کے زاویے بدل دیے ہیں۔ بار بار خیال آتا ہے کہ ہم شاید تاریخ کے غلط رخ (Wrong side of history) کی پروردہ دنیا کے باسی ہیں اور ہمارا سامنا ایک عجیب و غریب اسرار سے ہے۔ پنک فلائڈ (Pink Floyd) کے لفظوں میں یہ ’’چاند کا تاریک رخ‘‘ ہے۔ ہمارا دور اپنی بے لگامی کے لحاظ سے وحشت آثار ہوتا جارہا ہے۔ مکتی بودھ کو بھی چاند کا منہ ٹیڑھا دکھائی دیا تھا۔ بیسویں صدی سے پہلے کسی بھی بڑی تہذیب کے مقاصد اتنے حقیر اور بدصورت نہیں رہے۔ اس بدبختی کی آہٹ سب سے پہلے ہماری ادبی روایت میں غالب ہی نے سنی تھی،
اسد بزمِ تماشا میں تغافل پردہ داری ہے
ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت ایک میر کے استثنیٰ کے ساتھ، غالب سے پہلے اسی غفلت شعاری کی دلدادہ تھی۔ بھلا کتنوں میں زندگی کی ’’تصویرِ عریاں‘‘ کے جائزے کی تاب رہی ہوگی۔ لیکن غالب اپنی زمین و زماں، اپنے علم اور عقیدے، یہاں تک کہ آپ اپنے وجود کو بھی اپنے آپ سے الگ کرکے، اپنے غیر کے طور پر یہ دیکھنے کا حوصلہ رکھتے تھے، اپنی دہشت اور بے چارگی کا جائزہ لے سکتے تھے اور کسی دنیوی یا الوہی سہارے کے بغیر جینے کا ہنر انہوں نے اپنے اندر پیدا کرلیا تھا۔۔۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی کہ
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
بہ ظاہر متضاد اشعار، ان کے یہاں اپنی ہستی کے اثبات اور اپنی ہستی کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تماشے کی حقیقت سے اور اصلیت سے انکار، دونوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ خیر، یہ ایک پرپیچ مسئلہ ہے اور اس پر رواداری میں گفتگو ممکن نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جب ہماری دنیا اور ہمارا اپنا وجود ہمارے لیے بیگانے ہوجائیں، اس ماحول میں زندہ رہنے کی اپنی شرطیں ہیں۔ ہماری تہذیب، عالمی اور مقامی، دونوں سطحوں پر ان دنوں اسی آزمائش سے گزر رہی ہے۔ ہٹلر کہا کرتا تھا کہ کسی ملک کے عوام کو شعوری اور براہِ راست طریقوں کے بجائے غیرشعوری طور پر جذباتی لحاظ سے تباہ کرنا زیادہ آسان ہے۔ فاشزم جذبے کی اسی تباہی سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ بیسویں صدی کے دوران پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے یورپ کو اسی قسم کے حالات درپیش تھے۔ لارنس نے اپنے ردعمل کا اظہار ان لفظوں میں کیا تھا کہ،
’’انگلستان کا حقیقی المیہ بدصورتی کا المیہ ہے۔ سرسبز وکٹوریائی دنوں میں متمول طبقوں اور صنعت کاروں نے ایک بڑا جرم یہ کیا کہ کاریگروں کو بد صورتی، بدصورتی، بدصورتی کی تخلیق پر لگادیا۔ گھٹیاپن اور بے ہیئت اور بدصورت گردوپیش، بدصورت مقاصد، بدصورت مذہب، بدصورت امید، بدصورت پیار، بدصورت لباس، بدصورت فرنیچر، بدصورت گھرانے، کاریگروں اور مالکوں میں بدصورت تعلقات۔‘‘
ادب اور آرٹ جو صدیوں سے حسن، خیر اور صداقت کی تلاش اور تخلیق کرتے آئے تھے، ہمارے زمانے تک آتے آتے ان کا خمیر اس حد تک بدلا کہ اپنے باطن یا اپنے گردوپیش کی دنیا میں حسن اور خیر کے کسی مظہر تک رسائی مشکل ہوگئی۔ ٹیگور نے انا کی کینچلی سے نکل کر دنیا کو اور اپنے آپ کو دیکھنے پر زور اسی لیے دیا تھا کہ اب لکھنے والوں اور ان کے تخلیقی شعور کے درمیان تاریخ حائل ہوچکی تھی۔ اپنی دنیا میں اجنبیت یا بے گانگی کا ایک مستقل احساس، Alienation اور علاحدگی یا اپنی ہی پیدا کردہ اشیا سے لاتعلقی کی ایک کیفیت ہر لمحہ ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ انسان اور کائنات کی وحدت کا تصور اب صرف ایک خواب تھا۔ ہماری دنیا ہمارے لیے غیر تھی اور ہم اپنی نظر میں بھی اپنے لیے اجنبی ہوتے جارہے تھے۔ ن۔ م۔ راشد نے ’’مجھے وداع کر‘’ میں اسی سچائی کی نشان دہی کی ہے،
مجھے وداع کر
اے میری ذات، پھر مجھے وداع کر
مجھے وداع کر
بہت ہی دیر۔۔۔ دیر جیسی دیر ہوگئی
کہ اب گھڑی میں بیسویں صدی کی رات بج چکی
شجر حجر وہ جانور، وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح۔۔۔
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات
مجھے، اے میری ذات
اپنی ذات
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زبان بریدہ کی پکار۔۔۔ اس کی ہاوہو،
گلی گلی سنائے دے
میں ان کے تشنہ باغیچوں میں
اپنے وقت کے دھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میں ان کے سیم وزر سے۔۔۔ ان کے جسم و جاں سے
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہاے برف
ان کے آستاں سے میں اٹھاؤں گا
انہی سے شہر نو کے راستے تمام بند ہیں
مجھے وداع کر
کہ اپنے آپ میں
میں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
میں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چکا
کہ حوصلہ نہیں۔۔۔
گویا کہ ہمارا سب سے بڑا آشوب خود ہمارا اپنا وجود ہے۔ یہ بوجھ ہم اپنے کاندھوں سے اتارنا چاہتے ہیں کہ اس وقت یہ ہمارے لیے ہمارا غیر ہے، THE OTHER۔ کائنات کے مظاہر اجنبی، ماحول اجنبی، ہم آپ اپنے لیے اجنبی۔ غالب نے کہا تھا،
کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ہر اک شخص جہاں میں ورقِ ناخواندہ
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دورِ اولیں، انیسویں صدی کے بعد سے دنیا بہت بدل چکی ہے بلکہ مزید بگڑچکی ہے اور اب انسانی ہستی کے خمیر میں گندھے ہوئے بنیادی سوالوں۔۔۔ ’میں کون ہوں‘ اور ’یہ دنیا کس لیے بنائی گئی ہے‘، ان سوالوں نے پہلے سے کہیں زیادہ دشوار، بھدی اور بے فیض شکلیں اختیار کرلی ہیں۔ روایتی ادب میں محبت کی کہانیوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بس ایک ’غیر‘ تھا۔ رقیب! ایک فیض کو چھوڑ کر، ہمارے تمام شاعروں نے اس کی مذمت کی کہ فیض نے اپنے ’غیر‘ کو ایک دردِ مشترک یا مشترکہ تجربے کے امین اور علامت کے طور پر دیکھا تھا۔ جدید دور سے پہلے نہ تو یہ عالمِ ہزار شیوہ بکھرا تھا، نہ اپنے آپ کو اس پوری کائنات میں اس کا مرکز اور حاصل سمجھنے والا سادہ لوح انسان۔
وحدت الوجود اور تصوف کی روایت سے قطع نظر، خدا اور بندے کے درمیان بھی یکجائی کے بہت سے بہانے تھے۔۔۔ تو شب آفریدی/ چراغ آفریدم۔ سفال آفریدی، ایاغ آفریدم، مگر دل زدگی اور افسردگی کے کسی شدید لمحے میں اقبال نے خود کو سرے سے الگ کرنے کی کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ۔۔۔ اگر کج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟ مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟ اور آخر میں یہ کہ،
اس کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
اصل میں تو یہ خسارہ دونوں کا ہے، لیکن یہ احساس کہ اپنے آپ کو کائنات کا مرکز سمجھنا صرف ایک خوش گمانی تھی، ہمیں بہت دیر سے ہوا۔ دو عالمی جنگیں، منظم اور منصوبہ بند اداروں کا زوال، مذاہب کی بتدریج ٹوٹتی ہوئی کمان، جدید سائنس، ٹیکنالوجی کے تئیں ہماری خوش گمانی کا خاتمہ، قدروں کی شکست و ریخت اور اپنے آپ سے روز بہ روز بڑھتی ہوئی بے اطمینانی، فطرت سے دوری، عقائد اور اقدار کے آزمودہ نسخوں کی بے اثری اور آئیڈیا لوجی کی شکست کے ایک نئے احساس نے اپنے سواہر شے، ہر شخص، ہر مظہر کو پرایا، بیگانہ بلکہ بے مہر اور اپنی تمام تر خرابی اور بے بسی کا ذمے دار سمجھنے کے رویے نے رفتہ رفتہ ہمیں اپنے ہی لیے متنازعہ بنادیا۔۔۔ آپ اپنا تماشہ۔۔۔
خود اپنا تماشہ ہوں
بے جرم و خطا ہمدم تو نامِ بتاں کردی
افسانۂ حاضر کی تقدیر خطا میری
اس لوح و قلم کی کیا قسمت ہے سزا میری
اے پردۂ درپردہ ظاہر ہے فنا میری
کس کس کو بتاؤں میں
تو بندۂ غربت رادر خاک نہاں کردی
(جیلانی کامران۔۔۔ دعا)
چلو میں بھی تماشائی ہوں خود اپنے جنم کا
مری دنیا تماشہ ہے
میں اپنے سامنے خود کو تڑپتا سرپٹکتا دیکھ سکتا ہوں
( قاضی سلیم۔۔۔ مکتی)
کون دائروں کی دیواریں اٹھا رہا ہے
دیواروں کو نچارہا ہے
مرکز مرکز کہہ کر مجھ کو کیوں صدیوں سے بنارہا ہے
(عمیق حنفی۔۔۔ سندباد)
رول نمبر، ہاؤس نمبر، فائل نمبر میرا نام
کاغذوں کا پیٹ بھر نامیرا کام
سینکڑوں آقاؤں کے قدموں میں ہے میرا مقام
(عمیق حنفی۔۔۔ شب گشت)
اپنی ادبی اورتہذیبی روایت کے سایے میں رونما ہونے والی فکری تاریخ پرنظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عرفانِ ذات (Self-realization) سے لے کر بشریت کے زوال یا خاتمے (Dehumanisation) اور ٹوٹنے بکھرنے (Fragmentation) کے موجودہ موڑ تک۔۔۔ ہم نے اور ہمارے غیر نے ایک لمبی مہم سر کی ہے۔ اس مہم نے ہمیں شاد کا م بھی کیا، دکھ بھی دیے۔ ہمیں بہت سے خواب دکھائے بھی اور توڑے بھی۔ مگر ہمارے لکھنے والوں کو ان کی ایک عادت، ایک شوق اور ایک تلاش سے دور نہ کرسکی۔ یہ تھی اپنے آپ کو سمجھنے اور اپنی دنیا کے مفہوم تک پہنچنے کی کوشش۔ یہ کوشش ہر زبان اور دنیا کے ہر علاقے میں ادب اور آرٹ کی تخلیق کرنے والوں کی مشرکہ جدوجہد کہی جاسکتی ہے۔
ٹیگور نے جو لکھنے والوں کو بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے دوران (جادو پور یونیورسٹی میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے) قومی تشخص جیسے محدود اور یک رخے تصورات سے رہائی اور ایک عالمی تشخص (Global Identity) تک رسائی کا مشورہ دیاتھا تو اس کی تہ میں اسی مشترکہ جدوجہد کو جاری رکھنے کی ترغیب چھپی ہوئی تھی۔ یہ ترغیب ادب اور آرٹ کی آزادی اور خودمختاری کا نشان بھی ہے اور آج کی دنیا میں اس کی حرمت کو قائم رکھنا پہلے سے دشوار ہوگیا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کے باشندے ہیں جہاں سیاست اور صارفیت کی بالادستی نے تہذیبی اور تخلیقی زندگی کے لیے نئے خطرے پیدا کردیے ہیں۔ فیڈرل کاسٹرو مارکیز کی تحریروں کے شاید پہلے قاری بھی تھے۔ لیکن ہمارے معاشرے نے ادب کی تخلیق کرنے والوں اور ادب پڑھنے والوں کے لیے کمر شلائزیشن اور نیشنل آئڈنٹیٹی سے وابستہ سوالوں کی ایک باڑھ، ایک نئی صف بچھادی ہے۔ شاید اسی لیے اس عہد کے ہمارے سب سے حساس اور باخبر لکھنے والوں میں، ایک فکشن نگار نے، زندوں کے لیے تعزیت نامے کے نام پر ایک نئی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ چاند کا منہ واقعی ٹیڑھا ہوچکا ہے۔
اس دور کی بے سُری سیاست، مذہبی تشدد اور دہشت، معاشرتی پراگندگی اور زوال، صارفیت، اندھی ترقی کے نام پر ماحول کو تہس نہس کردینے کی روش، اور تقریباً تمام انسانی وسائل پر بڑے صنعتی گھرانوں کی دراز دستی کب اور کہاں جاکے دم لے گی۔ اب تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک ’برے موسم میں ‘گھرے ہوئے ہیں اور چاند کا منہ واقعی ٹیڑھا ہوچکا ہے اوریہ صرف نظر کا دھوکا نہیں ہے ورنہ اسٹیفن ہاکنگ کو کسی اور زمین کی تلاش کا خیال نہ آیا ہوتا۔ قصہ یہ کہ ہمیں اپنی روایت کو گھسے پٹے دائروں میں گردش کرتے ہوئے دیکھتے رہنے اور محفوظ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔۔۔ اب کلاسیکی غزل کے ایک رقیب کی جگہ بہت سے غیروں کا سامنا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.