Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب میں جنسی جذبہ

سیداحتشام حسین

ادب میں جنسی جذبہ

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جنسی جذبہ تمام جانداروں میں پایا جاتا ہے اور ایک عالم گیر حیاتیاتی قانون بن کر زندگی کے باقی رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس کا عمل کسی نہ کسی شکل میں ہر زمانہ میں جاری رہا ہے۔ اگر اس کی شکل بدلی ہے تو انھیں سماجی اور معاشی قوانین کے تحت جن سے اس کی زندگی کے اور مظاہر میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

    انسانی سماج نے اپنی پیدایش سے اس وقت تک کئی منزلیں طے کی ہیں اور مختلف ملکوں میں ان کی رفتار ترقی مختلف رہی ہے، اس لئے دوسری باتوں کی طرح جنس کے متعلق بھی اس کے خیالات بدلتے ہیں۔ ایک حیثیت سے جنسی جذبہ بنیادی اور فطری جذبہ ہے، جس کا ہرصحت مند زندگی میں پیدا ہونا لازمی ہے لیکن اس کے اظہار تکمیل اور تسکین کے طریقے یکساں نہیں رہے ہیں۔ جس طرح بھوک ہے کہ اس نے ہر دور میں آسودگی کا مطالبہ کیا ہے اور انسانوں نے اپنی طاقت، سوجھ بوجھ اور ذرائع کے مطابق اپنے پیٹ کی آگ بجھائی ہے، کبھی شکار کرکے، کبھی درختوں کے پھل اور پتے کھاکر اور کبھی اناج پیدا کرکے۔ پھر جب اس کی صلاحیتیں بڑھیں تو ان ذرائع کے حاصل کرنے کے طریقے بھی بدلے، اسی طرح جنسی جذبہ ہر زمانہ اور ہرملک میں موجود رہنے کے باوجود طریق اظہار و تسکین میں معاشی نظام اور اس نظام سے پیدا ہونے والے فلسفۂ اخلاق کا پابند رہا ہے۔

    اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں محرکات میں یکسانی پائی جاتی ہے اور ان کی تکمیل کے ذرائع بھی ملتے جلتے ہیں یا دونوں میں ’’جسم کی پکار‘‘ اور آسودگی کی شکلیں یکساں ہوتی ہیں۔ بھوک جنسی جذبہ پر غالب آتی رہتی ہے اور لوگ دمشق میں عشق فراموش کرتے رہتے ہیں، پھر بھی دونوں میں سماجی نظام ہی سے تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیرمتمدن قبائل کے جنسی رسم ورواج، محبت اور شادی بیاہ کے طریقے متمدن اقوام کے طور طریقوں سے مختلف ہیں۔ اسپارٹاؔ اور یونانؔ کی جنسی زندگی میں فرق تھا۔ قدیم جنسی تعلقات اور دور وسطیٰ کے مذہبی نظریۂ اخلاق میں جو اختلاف ہے، اس کے سمجھنے کے لئے محض یہ جاننا کافی نہ ہوگا کہ انسان میں جنسی جذبہ فطری ہے کیونکہ بحث اس کے بنیادی اور فطری ہونے سے نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت، سماجی حیثیت اور بدلتی ہوئی اہمیت سے ہے۔

    ادب کے محرکات سے بحث کرتے ہوئے بھی کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوگا کہ آیا ادب جنسی جذبہ کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہوگا کہ مختلف ادبی ادوار میں جنس کے متعلق نقطۂ نظر کس طرح بدلتا رہا ہے اور ادیبوں یا شاعروں نے اس کے اظہار میں کس قسم کے سماجی فلسفہ یا اخلاقی نظام سے کام لیا ہے، اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ اس اظہار کی نوعیت محض انفرادی ہوتی ہے یا کسی شکل میں جماعتی، طبقاتی اور سماجی زندگی کا ظہار بھی کرتی ہے۔

    اس موضوع پر غور کرتے ہوئے بعض منطقی دماغوں میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جنسی جذبہ سے مراد کیا ہے اور اس کے کتنے پہلو ہیں۔ جب اس کا تعین ہوگا تو معلوم ہو جائےگا کہ ادیبوں اور شاعروں نے اسے ادب میں کسی طرح جگہ دی ہے۔ ایسے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شعر وادب میں محبت وعشق کے جو مختلف پہلو پیش کئے گئے ہیں، وہ سب جنسی جذبہ میں شامل ہیں۔ خواہ اس میں جنسی جذبہ کا تذکرہ ہو یا عورت اور مرد کے تعلقات کا بیان۔ چاہے یہ بیان شعوری ہو یا غیرشعوری، اس کا مقصد توازن اور سچی مسرت کی جستجو یا اصلاح ہو، چاہے یہ جذبہ صحت مند ہو یا بگڑا ہوا۔ تاریخ ادب کے ہر دور میں ان کی کوئی نہ کوئی شکل، چند پہلو یا سبھی صورتیں شعر وادب میں نمایاں رہی ہیں اور معاشرتی حالات نے جس طرح کے جنسی جذبہ کی پیدائش میں مدد دی ہے، وہی نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔

    ساری دنیا کے ادب اور تمام قوموں کے سماجی حالات کا جائزہ لے کر تاریخی حیثیت سے یہ ثابت کرنا کہ جنسی جذبہ محض ایک جوش حیات نہیں ہے بلکہ تہذیبی ارتقا کے بعض پہلوؤں سے وابستہ ہے، اس جگہ ممکن نہیں، تاہم اردو ادب کا تاریخی جائزہ لے کر اور جنسی تصورات کے سماجی پس منظر کو سمجھ کر ہم بعض موٹے موٹے اصولوں اور اہم پہلوؤں کو سامنے لا سکتے ہیں۔

    اس حقیقت کو سبھی جانتے ہیں کہ اردو ادب کا آغاز ہندوستان میں ہوا جو صدیوں سے مختلف قسم کے جاگیردارانہ اور شاہی نظام سے وابستہ تھا۔ اردو ادب کی ترقی پر سنسکرت کے مقابلہ میں فارسی شاعری اور ایرانی تصور حیات کا گہرا اثر پڑا۔ ایران بھی صدیوں سے اسی قسم کے پدری نظام کے سایہ میں پھلا پھولا تھا جو نیم شاہی اور نیم فوجی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے نظام میں خاندان کے سردار کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اس اعتبار سے بادشاہ کے احکام قوانین ہوتے ہیں، افراد کو آزادی حاصل نہیں ہوتی، عورت کا مرتبہ پست ہوتا ہے۔ یوں تو ہر مرد کو بھی معاشی آزادی حاصل نہیں ہوتی لیکن عورت تو بالکل ہی مرد کے دست نگر ہوتی ہے، چنانچہ ایسے سماج میں عورت اور مرد کے تعلقات کی بنیاد آزادانہ رفاقت یا دوستی پر مبنی نہیں ہو سکتی۔ خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے شادی بھی گھر کے بڑے بوڑھوں کے اشارے اور رضامندی سے ہو سکتی ہے۔ عورت تو خیر الگ رہی، مرد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کا انتخاب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بعض غیرمتحدہ قبائل میں ایسا نہیں ہوتا لیکن ایران اور ہندوستان کے بڑے حصے میں یہی تھا۔

    اس کا نتیجہ یہ تھا کہ زیادہ تر عشق ومحبت کا جذبہ رشتۂ ازدواج سے الگ ہوتا تھا۔ یہ چیز کبھی مرد کی محبت کی شکل میں ظاہر ہوتی تھی اور کبھی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت کے ساتھ۔ بعض زمانوں میں ان پہلوؤں کو شعر وادب میں بہت نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ فارسی شاعری میں مرد سے مرد کی محبت، عورت اور مرد کی اس علیحدگی اور آزادی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ جدید نفسیات کے ماہر ین مرد سے مرد کی محبت یا عورت سے عورت کی جنسی محبت کو کج روی کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ محض ایک انفرادی رجحان ہوتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ جس شخص نے یونانی سماج، ایرانی ادب اور زندگی کا مطالعہ کیا ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ محض انفرادی رجحان نہیں ہے بلکہ اس سماجی نظام کا ایک پہلو ہے کہ جس میں عورت اور مرد کو محبت کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ فارسی شاعری کا یہ رجحان ایک روایت بن کر ہندوستان میں بھی داخل ہو گیا۔ فارسی ادب کے نقادوں نے اسے تصوف کا مسئلہ بنا دیا۔ غالباً اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اخلاق اس کج روی کو پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔

    اس میں شک نہیں کہ کبھی کبھی یہ انفرادی جنسی رجحان بھی ہو سکتا ہے اور کسی ادیب کے یہاں ظاہر ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنی روایت، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا آسان نہیں ہے مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ جنسی تعلق میں سچی محبت اور رومان، جوش اور شدت کی جستجو کا پتہ، ادبی تخلیق میں آسانی کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔

    یہ ایک طویل بحث ہے کہ تصوف کے پردے میں جس محبت کا ذکر کیا جاتا ہے اس کی نوعیت کیا تھی۔ بہت سے صوفی شعرا نے لڑکوں سے محبت کی ہے اور اپنی اس مجازی محبت کو عشق خداوندی کا زینہ قرار دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسی محبت کو پاک اور جنسی آلودگی سے ماوراء بھی بتایا ہے۔ بہت سے شعراء نے افلاطونی محبت یعنی ’’محبت برائے محبت‘‘ کی جانب اشارے کئے ہیں اور اکثر نے جنسی محبت کو ہوس کہہ کر اپنے جذبۂ عشق کو تقدس کا جامہ پہنایا ہے لیکن ان تمام باتوں سے اگر کوئی حقیقت واضح ہوتی ہے تو وہ یہی ہے کہ رفاقت کا یہ جذبہ بھیس بدل بدل کر شعر وادب کی دنیا میں آتا رہا ہے اور ہر جگہ رشتۂ ازدواج کے علاوہ اور خانگی زندگی کی تنگنائے سے باہر اس کی تلاش جاری رہی ہے۔

    جاگیردارانہ نظام میں ادب کا بڑا حصہ اسی طبقہ کا ترجمان ہوتا ہے۔ یہاں بھی شعر وادب کی عورت بالعموم ازدواجی زندگی کا جزو نہیں ہے، اس کے باہر ہے اور چونکہ بعض ملکوں اور قوموں میں پردہ کا رواج بھی پایا جاتا ہے، اس لئے ازدواجی زندگی سے باہر محبت اور رومان کی جستجو ایک طرف تو عہد فراغت کا ایک مشغلہ بن جاتی تھی، دوسری طرف عدم کامیابی کی صورت میں ایک اندوہناک المیہ۔ محبت کا یہ بنیادی جذبہ جس گرمی اور والہانہ پن کا خواہش مند تھا، وہ ازدواجی زندگی میں نہیں ملتی تھی کیونکہ اپنی سماجی زندگی سے واقف ہوکر ایک عورت لونڈی اور فرماں بردار کنیز کی حیثیت اختیار کر لیتی تھی۔ اس لئے آپ دیکھیں گے کہ فارسی اور اردو شعر وادب میں زن وشوہر کی محبت کے پہلو شاذ ونادر ہی پیش کئے گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو محبت کا مرکز ایک خیالی یا حقیقی طوائف کی ذات ہوتی ہے جو کسی حد تک رومانی آسودگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اس محبت میں اخلاق اور جذبہ کی کشمکش کا اظہار ہر قدم پر ملےگا۔ کہیں اخلاق کی حدیں ٹوٹیں گی اور کہیں جنسی جذبہ پاکیزگی اور بے غرض عشق کا بھیس بدلےگا۔

    طوائف کو محبت کا مرکز بنانے کے بعد یہ خواہش بھی ہوگی کہ اس میں بھی سپردگی، وفاداری اور فرماں برداری کے وہی جذبے ظاہر ہوں جو گھر کی چاردیواری میں مقید عورت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خواہش مرد کے تفوق کی یک طرفہ ترجمانی کرتی ہے لیکن اردو ادب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ باتیں واضح طور پر سامنے آئیں گی۔ عورتوں کے صحیح جذبات کی تصویر کشی بھولے بھٹکے کہیں نظر آ جاتی ہے۔ ہاں، ان کی گھٹن اور مردوں کی ان کی طرف سے بے اعتنائی کا تھوڑا بہت حال اس صنف شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے جسے ریختیؔ کہتے ہیں۔ خاندانی زندگی میں سچی محبت کی کمی وجہ سے جو تضاد پیدا ہو رہا تھا، رسمی محبت اور اس کے مصنوعی اظہار سے جنسی تعلق کا جو کھوکھلاپن ظاہر ہو رہا تھا، اس کی آواز باز گشت بھی کہیں کہیں سنائی دے جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت کی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے یا تو جنسی بھوک کا اظہار ہوتا ہے یا جنسی حبس کا۔

    جب معاشی حالات کے بدلنے کی وجہ سے ہندوستانؔ بھی صنعتی دور کی طرف بڑھا تو بعض پرانے بندھن ٹوٹے اور فرد آزاد ہوا، یا کم سے کم اسے آزادی کا احساس ہوا۔ سماجی پستی اور قدیم اخلاقی روایات کی وجہ سے عورت کی حالت میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔ اصلاحی انداز میں اس کی بے بسی اور مظلومیت کا تذکرہ ہوا، لیکن مرد کے ساتھ اس کی مساوات کا سوال پیدا ہی نہیں ہوا، ساری دنیا میں البتہ اس نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کردی۔ یہ جدوجہد آزاد محبت کی جدوجہد بھی تھی۔ وہ محض جنسی جذبہ کی تسکین کا ذریعہ نہیں بننا چاہتی تھی، اس کی برابر کی رفیق بننے کی متمنی تھی۔

    اس وقت تک ہندوستان میں جس طرح محبت اور جنس کا ذکر ہوا تھا، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کوئی جنسی شعور واضح طور پر شامل نہ تھا۔ محبت کے بے پایاں جذبہ کا تذکرہ عاشقانہ اور صوفیانہ انداز میں ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے ادیب جنس سے ماوراء ایک خاص قسم کے جذبۂ عشق کا ذکر کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ محبت اپنا محور اور اپنی معنویت بدلنے لگی۔ اس کے رسمی اظہار میں وہ گرمی آئی جو اس کی پرشور فطرت کا تقاضا تھی۔ گو اب بھی کسی نہ کسی وقت اس کا انداز رومانی، ہمدردانہ یا سرپرستانہ ہی ہوتا ہے، تاہم عورت کی طرف سے اپنی حیثیت منوانے کی جو جدوجہد جاری ہے، اس نے جنسی تعلقات کی نوعیت کو کچھ بدل دیا ہے اور اب ادیبوں کے یہاں جنس کا واضح شعور پایا جاتا ہے۔

    اردو ادب میں سرمایہ دارانہ تمدن کی پیدا کی ہوئی یہ انفرادی آزادی اور جنسی تھکن اس شدت کے ساتھ نمایاں نہیں ہو سکی جس طرح یورپ اور امریکہ کی زندگی اور ادب میں، کیونکہ وہاں آزادی کے باوجود عورت اور اس کی محبت خریداری کی ایک جنس قرار پائی اور سچی محبت سے محروم رہ کر وہ اس ناآسودگی کا شکار ہو گئی جس کی تصویریں ڈی ایچ لارنس، ہکسلے اور جیمس جوائس وغیرہ کے یہاں ملتی ہیں۔

    ہندوستانی ادب میں جنسی تصورات پر مذہب، اخلاق، رسم ورواج، جاگیرادارانہ اور سرمایہ دارانہ سماج کے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں اور نئی تعلیم کے ذریعے سے محبت کی جو تھوڑی بہت آزادی حاصل ہوئی تھی، وہ زیادہ سے زیادہ رومانی نظموں اور کہانیوں میں جلوہ گر ہو سکی۔ یہاں عورت سے رفاقت کی تمنا ہے لیکن یہ تمنا زیادہ تر مایوسی اور ترک محبت کی خواہش پر ختم ہوتی ہے کیونکہ سماج نے محبت کی آزادی آج بھی ہندوستان کو نہیں بخشی ہے۔ جنس ہر دور کی طرح ادب میں جاری اور ساری ہے لیکن ایسے نظام کی بربادی کا خواہش مند جو سچی آزاد محبت کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ رکاوٹ کبھی قدیم نظام اخلاق کی وجہ سے ہوتی ہے، کبھی اقتصادی اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے، اس لئے اردو ادب میں محبت کی مجبوریوں کا ذکر بہت ملتا ہے اور لکھنے والے محض رومان پرست نہیں ہیں، وہ اس مجبوری کا سماجی پس منظر بھی پیش کرتے ہیں۔

    گذشتہ بیس سال کا ادب جنسی الجھن کے لحاظ سے ہر طرح کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اردو کے کئی لکھنے والے فرائڈؔ کے تجزیۂ نفس کے قائل رہے ہیں۔ انھوں نے اوڈی پس کمپلکس، جنسی کج روی، لاشعوری حرکات، ہم جنسی میلان اور دوسرے مظاہر کی ترجمانی کی ہے اور خیالوں کی ساری بنیاد جنسی جذبہ پر رکھ دی ہے۔ ان لوگوں کے لئے انسان کی ہر حرکت لاشعوری طور پر جنس کے اندھے جذبہ کی مظہر ہے اور انسان اس جذبہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، یہاں تک کہ تہذیبی اور سماجی پابندیاں جب اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں، تو وہ اس جذبہ کو دبانے کی کوشش میں طرح طرح کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لکھنے والے جنسی تعلقات کے سماجی پس منظر سے ناواقف ہوتے ہیں۔

    جنس کا ذکرادب میں آیا ہے اور آتا رہےگا اور یہ ذکر زیادہ تر اپنے عہد کے جنسی میلان کا مظہر ہوگا۔ بعض حالتوں میں انفرادی گھٹن، ناآسودگی، کجروی یا بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے، تاہم اسے سمجھنے کے لئے اس جذبہ کی بدلتی ہوئی تاریخ اس کی، اس کی ترتیب اور تہذیب، اخلاق سے اس کے تعلق، اس کے معاشی پس منظر کا جاننا ضروری ہوگا۔ اگر اس میں توازن قائم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ محض ایک حیوانی حیاتیاتی جذبہ ہے جو اسی طرح ظاہر ہوگا اور اگر سماج کو متوازن بنا لیا جائے تو اس کے اظہار کے ذرائع بھی متوازن ہوں گے۔

    اس لئے موجودہ دور کے ادیبوں پر اس کے اظہار میں بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یعنی انھیں غور کرنا ہوگا کہ اس کا اظہار کن کن شکلوں میں سماجی اہمیت رکھتا ہے اور کن شکلوں میں محض فحش نگاری بن جاتا ہے۔ جب تک ان کا فنی اور سماجی شعور ان کی رہنمائی نہیں کرےگا یہ دشوار گذار منزل آسانی سے طے نہیں ہو سکےگی۔ ذرا سی غفلت ایک اچھے سماجی مسئلہ کو فحش بنا سکتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے