ادب، نفسیات کی روشنی میں!
آج کل کے زمانے میں ’’نفسیات‘‘ کانام ادیب اور ادب نواز ہر ایک کی زبان پر ہے۔ میں خود اس لفظ میں ایک عجیب و غریب کشش محسوس کرتا ہوں۔ کوئی شخص جب نفسیاتی قدروں کا ذکر کرتا ہے تو گھبرائے ہوئے پژمردہ مریضوں کی ایک قطار میرے سامنے سے گزرجاتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ماں بیٹے، باپ بیٹی، یا بھائی بہن کا رشتہ بھی دھندلا دھندلا دکھائی دیتاہے۔ بجھے ہوئے جذبات اور وہمی الجھنوں کے کیڑے غریب رجعت پسندوں کے دماغ میں رینگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہیں سب مجبوریوں اور ان کی لاشعوری وجوہات کی تاریک گلیوں میں زندگی ایک خستہ حال عمارت کی صورت نظر آنے لگتی ہے۔ ہوسکتا ہے، شاید اسی وجہ سے ’’نفسیات‘‘ کی بات چیت مجھے اتنی ہی متوجہ کرتی ہے جتنی کہ دور پردیس سے آئی ہوئی آواز۔
ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ دور جدید کی علمی بنیادوں میں ’’نفسیات‘‘ کابہت بڑا حصہ ہے۔ تہذیبی دور کے ہر ایک پہلو پر نفسیات نے کافی روشنی ڈالی ہے اور پھر علم طب، تعلیم اور فنونِ لطیفہ، موسیقی، مصوری وغیرہ میں تو اس سائنس نے کسی قدر اضافہ ہی کیا ہے۔ کیونکہ یہ نفسیاتی طریق عمل کی سائنس ہے۔ ہم ادب کی کھوج بھی نفسیات کی آنکھوں سے بخوبی کرسکتے ہیں۔ نفسیات کی یہ کھوج فن اور فن کار دونوں پر ہی ایک روشنی ڈالتی ہے۔ چنانچہ ایک ماہر نفسیات کے سامنے دو مقصد درپیش ہیں۔ ایک تو ان دماغی الجھنوں اور گتھیوں کی تحقیقات جن کی بنیادوں پر تصنیف کا مینار کھڑا کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا مقصد ہے۔ فن کار کی ان وسعتوں کو ظاہر کرنا جنہوں نے اسے ایک تخلیقی نظریہ بخشا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں میں ایک قریبی رشتہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک مصنف کی شخصیت کے بارے میں اس کی تصنیف سے کسی قدر معلومات حاصل کرسکیں۔ مگر یہ نیم حقیقت ہوگی اور ایک ماہر نفسیات کے نزدیک اس قسم کی معلومات خطرے سے خالی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم گوسوامی تلسی داس کی رامائن پڑھتے۔۔۔۔۔ لفظ پر پہنچتے ہی ہمارا خیال گوسوامی جی اور ان کی دھرم پتنی کے ذاتی تعلقات کی طرف چلا جاتا ہے۔ مگر یہ سب ایک قیاس کی حدتک تو ٹھیک ہے۔ ہم ان تعلقات کی بناپر رامائن جیسے منظوم شہپارے کی تشخیص نہیں کرسکتے۔
ایک محقق اور ماہر نفسیات کے جائزے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ تصنیف میں جس رنگ کا ہونا ایک کے لیے ضروری ہے، ہوسکتا ہے دوسرے کے لیے وہ بالکل بے معنی ہو۔ وہ ادب جسے محقق کوڑا کرکٹ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ وہی ایک ماہرنفسیات کے لیے دلچسپی کا سامان ہوسکتا ہے۔ مثلاً وہ ناول جسے ہم نفسیاتی ناول کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک محقق کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ Rider Haggard کاناول she اسی قسم کاناول ہے۔
کچھ ادب ایسا ہوتا ہے جس کی تخلیق ایک فن کار نفسیات کی کوئی کتاب پڑھ کر نہیں کرتا۔ میرا مطلب ان ادیبوں سے ہے جو اپنے کردار نفسیات کی مشین سے بناکر ہمارے سامنے پیش نہیں کرتے بلکہ زندگی کی جیتی جاگتی سچائیوں سے اپنی تصنیف کو مکمل کرلیتے ہیں۔ اور عالمِ نفسیات کے لیے کافی مسالہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں سینکڑوں ہیں James of eyes کا Ulysses Mck vela کا ناول Moby Deek یا walt went man کی شاعری۔ اس قسم کے ادب کا دوسرا رخ وہ بھی ہے جس میں جاسوسی ناول یا شرلک ہومز والے ناول آجاتے ہیں۔ نفسیاتی ادب کا دوسرا حصہ وہ ہے جس میں مصنف نے جان بوجھ کر انسان کی شعوری اور لاشعوری زندگی کی کشمکش کو اپنی تصنیف کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ امریکی ڈرامہ نگار یوجین اونیل کے بعض ڈرامے شاید تحلیل نفسی کی تختی کو سامنے رکھ کر ہی لکھے گئے ہیں۔ کچھ بھی سہی، یہ ڈرامے نفسیات کی کھلی کتابیں ہیں۔ کوئی بھی شخص ان ڈراموں میں وہمی اور خللی دنیا میں اپنا راستہ ٹٹولنے والوں کو پہچان سکتا ہے۔ رجعت پسند اور نیم پاگل لوگوں کی زندگی میں مچنے والی یہ اتھل پتھل؟ گئی ہیں۔ ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں اور ان کی دماغی مشین کی حرکات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ مگر جیسا عرض کرچکا ہوں ایک ماہر نفسیات کے نزدیک اسی ادب کی قیمت زیادہ ہے جس میں نفسی جھرمٹوں سے جان بوجھ کر گزرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے Hamle, Kinglear یا Mocbeth یا جرمنی کے مشہور شاعر ڈرامہ نگار گوئٹے کا فاؤسٹ وہ ادب ہے جو ماہر نفسیات کو قدم قدم پر چیلنج کرتا ہے۔ ہیملٹ جانتا ہے کہ اس کی ماں نے اس کے چچا سے مل کر اس کے پتا کا خون کرایا ہے۔ وہ اس خون کا بدلہ لینا چاہتا ہے مگر پھر بھی ہچکتا ہے اور یہی پریشانی اور الجھن اس ڈرامے کی جان ہے۔ شیکسپیئر ایک لاثانی ڈرامہ لکھ گیا۔ اب یہ کام Frend اور Jung جیسے نفسیات کے سپہ سالاروں کا ہے کہ وہ اس الجھن اور ہلچل کو طرح طرح کے ناموں سے پکاریں اور ہیملٹ کو Oedipus Complex کاشکار قرار دیں۔ اسی طرح گوئٹے نے Faust اور Gretchen کی محبت کی دل پذیر تصویر ہمارے سامنے پیش کی۔ مگر یہ کام کسی ماہرنفسیات کا ہے کہ وہ اس چھپے ہوئے مقصد کو ڈھونڈ نکالے۔ جس نے Gretchen کو اپنے بچے کا خون کرنے پر مجبور کیا۔ غرض یہ کہ اس قسم کی کافی مثالیں ہمیں مل جائیں گی۔ دنیا کی نظر میں یہی ادب لافانی ادب ہوسکتا ہے۔ ایک سلجھے ہوئے فن کار کے لیے فن پہلے اور اس کے نتائج بعد کو۔
دور جدید میں نفسیات کی تلاش ڈاکٹر فرائڈ کا ہی حصہ ہے۔ انہوں نے زمانے بھر کی دیومالا اور روایات کی چھان بین کی اور اپنے اصول ہمارے سامنے رکھے۔ فرائڈ کا مرکزی اصول جنسی ہے۔ ان کے قریب ماں بیٹے اور باپ بیٹی کی محبت کی بنیاد جنسی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ محض لاشعوری سطح پر ہی ہو۔ روڑھیشیا اور موہن جودارو کے تراشے ہوئے بت اس بات کی دلیل ہیں کہ تہذیب و ترقی کے پرچم لہرانے سے پہلے انسان صرف جنسی اشارات سے واقف تھا۔ گپھاؤں میں رہنے والا انسان خواہشات کا غلام رہا۔ اس کا کام تھا کمزوروں پر حکومت اور موت سے خود کو بچانے کی ترکیبیں۔ جہان بھر کی دیومالا، مذہبی قصے یا دیو کہانیاں اسی فطری تحریک سے پیدا ہوئیں۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ شروع ہوئیں۔ وہ پریوں کے دیش والی کہانیاں، جنہیں چھوٹے چھوٹے بچے آج بھی اپنی نانی اماں سے سنا کرتے ہیں۔ نانی نے کہا۔ ’’بچو، ایک بڑی خوبصورت راجکماری تھی۔۔۔ اس کی سوتیلی بہنیں اسے دیکھ کر جلتی تھیں۔ راجہ سے کہہ کر اس بیچاری کو دیش نکالا دے دیا گیا۔ غرض کہ آگے چل کر ایک دیوملا۔ پریوں کا دیش دکھائی دیا۔ پھر ایک بھیڑیا ملا جو آگے چل کر ایک خوبصورت راجکمار بن گیا اور پھر شادی۔ نانی کو نیندآگئی۔ مگر بچوں کو نیند کہاں۔ دیو سے لڑائی لڑنے کے خواب، پریوں کا دیش چاندستاروں کی دنیا اور یہی ہے نفسیات کے مطابق پوری نہ ہونے والی خواہشات کی تسکین۔ لاشعوری سطح پر اٹھکیلیاں کرنے والے ان کے بڑپن کے خواب۔
دیوکہانیوں کا ہیرو عموماً بڑے باپ کا بیٹا ہوتا ہے۔ کسی راجہ یا دیوتا کی اولاد، بچپن میں اکثر اسے ٹوکری میں رکھ کر ندی میں بہادیا جاتا ہے۔ وہ دکھ سہتا ہے۔ لڑائیاں لڑتا ہے۔ ظلم و جبر پر فتح پاکر لوٹتا ہے۔ یعنی کہ وہی ایک دیوتا بننے کی خواہش، راجکماری سے شادی اور لوگوں پر حکومت۔
فرائڈ کا خیال تھا کہ کسی بھی تصنیف کی بنیادیں مصنف کے ذاتی تجربات میں پائی جاسکتی ہیں۔ اس کی Collective unconscious کی کھوج اس نظریے کو پیش کرتی ہے مگر فرائڈ کے اس نظریے کی معلومات ناکافی ہیں۔ کسی حدتک یہ سچ ہے۔ عصبی تغیر کی ایک تصنیف کی جڑیں بھی انسان کی نفسی گتھیوں میں پائی جاتی ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے واقعات جنہیں مصنف ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ان کا کچھ نہ کچھ رشتہ مصنف کے بچپن کے جذباتی تجربات سے ہوتا ہے۔ یہ تجربات یا تو اُس پر سچ مچ گزرے ہیں۔ یا اُن کا محض تصور کیا گیا ہے۔ شیکسپیئر Mery Fitton کی محبت حاصل نہ کرسکا۔ چنانچہ اس نے ہیملٹ سے افیلیا کو محبت کرتے دکھایا جسے ہیملٹ نے ٹھکرادیا اور بیچاری افیلیا نے خودکشی کرلی۔ ماہرنفسیات اسے شاید Vicarious Fulfillman کے نام سے پکاریں گے۔ مگر آرٹ یا ایک غیرمعمولی تصنیف کے لیے یہ ضروری ہے کہ فنی، ذاتی، شعوری یا غیرشعوری تصورات اور تجربات کے پرے صدیوں کے جیون کی روح کھینچ کر اپنی تصنیف میں پھونک دے۔ تصنیف میں فن کار کے ذاتی تجربات کاپہلو جتنا ہی زیادہ اور ابھرا ہوا ہوگا اتنی ہی وہ تصنیف محدود ہوتی چلی جائے گی۔ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ وہ فن جو اپنے ذاتی تجربات کے پرے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ خلل اعصاب کی دلیل ہے اور میں ایک فن کار یا مصنف کی دنیا میں اس کوتاہی کو گناہ سمجھتا ہوں۔ اس فن کار کی ہستی اس پودے کی طرح ہے جس کی ترقی رک گئی ہے۔ وہ درودیوار کے پرے دیکھ نہیں سکتا اور شاید وہ غم دوعالم سے واسطگی حاصل کرنے کی کوشش میں ناکامیاب بھی رہا ہے۔
ایک معمولی مصنف سے یہ شکایت ہوجانا کچھ عجب نہیں۔ مگر ساری دنیا ایک ہی لاٹھی سے ہانکی نہیں جاسکتی۔ جیسا کہ شیکسپیئر کی مثال سے ظاہر ہے۔ مصنف کی ذاتی زندگی ایک چیز ہے اور اس کی تخلیقی زندگی دوسری چیز۔ میگھدوت لکھتے وقت کالی داس نہ تو کالی داس ہی تھا او رنہ ایک شاعر ہی۔ وہ اِن حدود کے پرے اس تخلیقی دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی نگاہوں میں اُفق سے دور ایک سنہرا دیش ہے۔ جس کی زبان پر سرسوتی اور جس کی قلم میں ایک امر کہانی ہے۔
ہر ایک فن کار کے سینے میں دو تردیدی رجحانات اس کی شخصیت کو ایک کسوٹی پر رکھ دیتے ہیں۔ فن کار میں انسان اور انسان میں فن کار کی اس کشمکش میں ایک بڑی تصنیف کا جنم ہوتا ہے۔ تب ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گوئٹے نے فاؤسٹ کی تخلیق نہیں کی۔ بلکہ فاؤسٹ نے گوئٹے کی شخصیت کو تخلیقی آگ میں تپانے کے بعد ایک سانچے میں ڈھال دیا۔ یہاں فاؤسٹ بذاتِ خود ایک اشارہ ہے۔ ایک سنکیت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فنکار کے تخلیقی طوفان میں اس کی ذاتی زندگی ایک تنکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ تنکا اس طوفان کا ایک جزو بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ کام ہر شخص کے بس کا نہیں ہے۔ اسے صرف وہی شخص انجام دے سکتا ہے جو زندگی کی جدوجہد کے گہرے سوتوں سے رس کھینچ کر ایک روحانی پیغام لاتا ہے۔ جو تخیل کا دھنی ہے۔ وہی اپنی غیرعملی دنیا کے کچھ مہ و انجم لاکر ادب کی بارگاہوں کو روشن کرسکتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.