ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لئے تھے جنہیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہےاور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس مثالیں لے کر ان کے حسن و قبح پر غور کیا جائے اور سطح کے نیچے جاکر محض لغوی مطلب کے علاوہ انہیں معنی کی دوسری قسموں (ارادہ، مزاج، لہجہ وغیرہ) کی روشنی میں بھی دیکھا جائے۔ بحث کو صاف اور واضح کرنے کےعلاوہ اس میں ایک عام تعلیمی اور تہذیبی فائدہ بھی ہے۔
لیکن میں اتنا خوش یقین نہیں کہ نئے ادب پرعریانی کا الزام لگانے والوں کو بھی اس مقصد سے متاثر ہوتا ہوا سمجھوں۔ ان کے فائدے کے لئے تو مجھے ایک اور ہی روایت سنانی پڑے گی۔ جے، کے، دی ماں فرانسیسی فطرت نگاروں میں سے ایک تھا، اور بعضوں کے نزدیک ان میں سب سے ممتاز۔ اس کے ادبی اصولوں میں سے سماجی مقصد نہیں تھا بلکہ بدی کی رزمیہ لکھنا۔ اس کی کتاب AGAINST THE.GRANT کو، جو آسکر وائلڈ کے حلقہ میں پوجی جاتی تھی، شاید جنسی تخریبات کی انسائیکلو پیڈیا کہنا بجا ہوگا۔ لیکن آخر میں اس نے توبہ کر لی تھی اور اکثر بدی کی پرستش کرنے والے مصنفوں کی طرح رومن کیتھلک ہوگیا تھا۔ اسی زمانہ میں اس نے اناتول فرانس کے پاس پیغام بھیجا کہ بس اب بہت گندگی سے کھیل چکے۔ توبہ کرو اور سچے عیسائی بن جاؤ۔ اناتول فرانس نے بصد ادب جواب دیا، ’’میسودی ماں کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا میسو فرانس انہیں صلاح دیتے ہیں کہ وہ اپنے قارورے کا امتحان کرائیں۔‘‘
فراق صاحب کی طرح میں نے بھی بحث کے لئے چند مثالیں چنی ہیں۔ ان میں سے کچھ مصوری اور مجسمہ سازی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان پر لکیر، سطح، تناسب اور حجم کے نقطہ نظر سے غور کیا جاتا، لیکن میں ان فنون میں کورا ہوں۔ میں نے تو صرف ورق گردانی کرتے ہوئے دوچار مثالیں ایسی چھانٹ لی ہیں جنہیں فحش سمجھا گیا ہے یا بعض پاک بیں حضرات سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے خاص طور پرمذہبی آرٹ کی مثالیں چھانٹی ہیں۔
لیکن مذہبی آرٹ پر ہم اس وقت تک انصاف کے ساتھ غور نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم دوسروں کے احساسات کو بھی اتنا ہی قابل وقعت نہ سمجھیں جتنا کہ اپنے معتقدات کو۔ غالباً احساسات کا درجہ معتقدات سے بلند تر ہے۔ کم سے کم آرٹ کی دنیا میں۔ اور مذہب ہے کیا سوائے زندگی اور کائنات کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر قائم کرنے کے؟ ممکن ہے میرے مذہبی اعتقاد کی رو سے سانپوں کو پوجنے والے حبشی کا اعتقاد غلط ہو لیکن اگر میں ایماندار ہوں تو اس جذبہ کی گہرائی، خلوص اور بنیادی حیثیت سے انکار نہیں کر سکتا جس نے اسے سانپ پوجنے پر مجبور کیا۔ بلکہ ممکن ہے اس کا جذبہ میری توحید پرستی سے زیادہ پرزور، زیادہ سچا اور روح کائنات سے رشتہ قائم کرنے میں اس کی زیادہ مدد کرتا ہو۔ شاید میری باتیں اسلام کے خلاف ہوں لیکن میرا یقین ہے کہ میں ’’قرآں اور زبان پہلوی‘‘ کے الفاظ دہرا رہا ہوں،
’’موسیا، آداب داناں دیگراند۔ ‘‘
توغرض کہ ہم کسی زمانے، کسی قوم کے مذہبی آرٹ کو اس وجہ سے رد نہیں کر سکتے کہ اس میں ہمارے مذہبی معتقدات نہیں پائے جاتے۔ اس بنیادی اصول کو ماننے کے بعد زمانہ قبل از تاریخ اور افریقی قوموں کی نقاشی اور مصوری (جو سوفیصدی مذہبی ہے) سے لے کر مصری، ہندو اورعیسائی مذہبی آرٹ تک دیکھ جائیے۔ پاکیزہ ترین تصویروں اور مجسموں میں بھی جنسی اعضاء کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی، حالانکہ ان موقعوں پر کسی غیر اور نامناسب جذبے کی مداخلت گوارا نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک لمحے کے لئے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں کائنات کے متعلق صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا رد عمل دکھانا منظور ہو، وہاں کوئی ایسے عناصر داخل کئے گئے ہوں گے جن کا مقصد جنسی ترغیب و تحریک یا جنسی تجسس ہو۔ جہاں فنکار کی ساری روح ستائش و نیائش یا خوف و ہیبت کے جذبوں میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آسکتا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ کوئی فنکار اپنے فن پارے کی وحدت تاثر اتنی آسانی سے کیسے برباد کر سکتا ہے؟ اور خصوصاً جبکہ وہ محض اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ پوری قوم نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو۔۔۔ جہاں ذرا سی لغزش میں اسے ادبی لعنت مول لینے کا خدشہ ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس کی طرف جا سکتا ہے جن میں جمالیاتی احساس غائب ہو، یا جن کے دل سے چھچھورے اور سستے مزے کا خیال کبھی نہ ہو جاتا ہو۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مجسموں اور تصویروں میں جنسی اعضا اس وقت چھپائے جانے شروع ہوتے ہیں جب زمانہ انحطاط پذیر اور انحطاط پسند ہوتا ہے، جب روحانی جذبے کی شدت باقی نہیں رہتی اور خیالات بھٹکنے لگتے ہیں۔ جب فنکار ڈرتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی توجہ اصلی چیز پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا۔ پتے اس وقت ڈھکے جانے شروع ہوتے ہیں جب فن پارے کی وحدت قوم کی نظر میں باقی نہیں رہتی اور وہ اسے مختلف ٹکڑوں کا مجموعہ سمجھنے لگتی ہے۔ ان چیزوں سے قطع نظر، بعض دفعہ تھوڑا سا پردہ تصویر کو کہیں زیادہ فحش بنا دیتا ہے اور ذہن کو لامحالہ برے پہلوؤں کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ اس میں وہی SNEAKING کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس کا ذکر فراق صاحب نے کیا ہے۔ اس کی درخشاں مثالیں رائل اکیڈمی کی تصویریں اور مجسمے ہیں، جسے انجیر کا پتہ استعمال کرنا پڑ ے وہ صرف اخلاقی حیثیت سے ہی کمزور نہیں بلکہ شاید اچھا فنکار بھی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ بعض اعضا کو اپنے نقش میں کس طرح بٹھائے۔ انجیر کے پتے کے پیچھے وہ عریانی نہیں چھپاتا بلکہ اپنی فنی کمزوری۔
برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانےکے لئے بھی بڑی قوت مردمی، بڑی سنجیدگی اور بڑے گہرے اخلاقی اور روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور جنسی اعضاء کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی روح کے سامنے آسکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے اور یہ دنیا کے بڑے تمدنوں، ہندو اور یونانی کا ما بہ الامتیاز ہے اور یہ دونوں آرٹ جسمانی حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چراتے۔
یہاں میں یونانی آرٹ کی ایک خصوصیت کا ذکر کروں گا۔ یونانی آرٹ کا اصول آدرش اور مکمل ترین نمونے کی تلاش ہے۔ وہ حقیقت کو بگاڑتا ہے اسے حسین ترین شکل میں پیش کرنے کے لئے۔ اس نے اپنی ساری توجہ عورت کے جسم پر ہی صرف نہیں کی بلکہ ایک زمانے میں تو مرد کا جسم ہی حسن کا آدرش تھا۔ یونان آرٹ نے دکھایا ہے کہ مرد کے اعضائے تناسل میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہوتی ہے جتنی وینس کے سینے میں۔ اگر حسن نام ہے توازن، تناسب اور آہنگ کا اور حسن صداقت ہے تو ان مظاہر میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہے جتنا اپولو کے چہرے میں۔ یہاں پھر یہ یاد رکھئے کہ یونانی آرٹ بھی بہت حد تک مذہبی ہے، خواہ اس کی پرستش کا مرکز کوئی موہوم ہستی نہیں بلکہ انسان ہیں۔ وہ الگ الگ چیزوں کے بارے میں نہیں بلکہ پوری کائنات کے متعلق ایک نقطہ نظر کا اظہار ہے۔ یونان کے آخری دور میں لذت پرستی آگئی ہو، لیکن شروع کا زمانہ قطعاً معصوم ہے۔
یہ نہ سمجھئے کہ تصویر میں جنسی اعضاء کی شمولیت کی وجہ جواز محض حقیقت نمائی کا اصول۔۔۔ چونکہ وہ جسم کا حصہ ہیں اس لئے دکھانا پڑتا ہے۔ نہیں، بلکہ اگر فنکار میں صلاحیت ہے تو یہ حصے اظہار میں اس کی اتنی ہی مدد کر سکتے ہیں جتنی کوئی اور۔ گہری سے گہری روحانی کیفیتیں ان کے صحیح استعمال سے زیادہ واضح کی جا سکتی ہیں۔ فن پارہ ایک وحدت ہوتا ہے۔ اس کے ہرجز کو مرکزی جذبہ کا صرف تابع ہی نہیں ہونا پڑتا بلکہ اسے اظہار اور وضاحت میں بھی معاونت کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر بڑا فنکار تو ذرا سے نقطے کوبھی اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
میرے سامنے افریقہ کے ایک چوبی مجسمے کی تصویر ہے جس میں روح کائنات سے خوفزدہ ہونے اور ہیبت سے جم کر رہ جانے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ صرف دیکھنے ہی سے پتہ چل سکتا ہے کہ مڑی ہوئی متشنج رانوں کے درمیان اور باقی جسم کے تناسب سے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے نے اثر میں کیا اضافہ کر دیا ہے۔۔۔ اگو ستینودی دوچیو کی سنگ مرمر پر ابھری ہوئی تصویر ہے ’’میڈونا اور بچہ۔‘‘ عیسی کے بچپن کی جتنی تصویریں میں نے دیکھی ہیں، ان میں یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے کیونکہ عام طور پر مصور سارا زور تقدس پیدا کرنے پر صرف کر دیتے ہیں لیکن یہاں ایک ایسی چیز پیش کی گئی ہے جو تقدس اور طہارت سے کہیں بلند ہے۔ یعنی بچے میں زندگی کا ابھار، زندگی کا مچلنا، یہ معصوم شوخی اور تبسم کی لہریں جیسی چہرے پر نمایاں ہیں بالکل ویسی ہی رانوں کی سلوٹوں میں بھی۔ اور جس کیفیت سے جنسی اعضا دکھائے گئے ہیں وہ چہرہ کی معصومیت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
مائیکل اینجلو کی مشہور تصویر ہے ’’تدفین۔‘‘ عیسی کو بالکل برہنہ دکھایا گیا ہے، کیونکہ موت کےاثر کو جسم کے ہرحصے سے ظاہر کرنا مقصود تھا اور خصوصاً ٹانگوں سے۔ چہرے پر انتہائی سکون اور روحانیت طاری ہے۔ مصور کو یقین تھا کہ جنسی حصے عریاں کر دینے سے اس روحانی جمال پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ اگر اس کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا تو مائیکل اینجلو جیسا مصور کبھی بھی عریانی کی خاطر عریانی پسند نہ کرتا۔ چنانچہ روبنز نے اپنی تصویر ’’مردہ مسیح‘‘ میں تھوڑا سا ڈھک دیا ہے حالانکہ یہاں چہرہ پر جمال نہیں بلکہ کسی عام مصلوب لاش کا سا ہے۔ یہ پردہ اس وجہ سے کہ سر پیچھے کی طرف ڈھلکا ہوا ہے۔ اگر جنسی حصے جن کی جگہ تصویر میں آگے ہے، کھلے ہوتے تو وہ نظروں کو وہیں روک لیتے اور بازوؤں کی قوت اظہار میں بھی حارج ہوتے۔ یہ فیصلہ تو فنکارانہ احساس ہی کرتا ہے کہ کس جگہ عریانی موزوں ہے اور کہاں ناموزوں۔
بلیک کی تصویر ’’شیطان باغی فرشتوں کو ابھار رہا ہے‘‘ جنسی حصہ پیٹ کے عضلات سے مل کر ایک مثلث بناتا ہے جس کی لکیریں ٹانگوں کو اوپرکے جسم سے الگ کرتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس فرق سے ٹانگیں ستون بن جاتی ہیں اور مضبوطی سے اپنی جگہ گڑی ہوئی معلوم ہونے لگتی ہیں اور شیطان کو توغالباً انجیر کا پتہ سجتا بھی نہیں۔
روویں کے مجسمے (BRONZE AGE) پرغور کیجئے۔ یہاں انسان کے اندر فطرت کا احساس پیدا ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ احساس پیروں سے سر تک چڑھتا چلا گیا ہے اور جذبہ کی شدت سے آدمی کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے ہیں۔ کپڑے پہنا کر تو خیر یہ خیال ظاہر ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اگر ہوتا بھی تو اتنا قوی اور صحت ور نہ ہوتا۔ لیکن اگر بیچ میں ذرا سی دھجی ہوتی تو یہ فائدہ ضرور تھا کہ نیک لوگوں کو اسے دیکھ کر آنکھیں نیچی نہ کرنی پڑتیں۔ مگر لائنوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا۔ نظر بیچ میں اٹک جاتی اور ساتھ ہی اس احساس کی روانی بھی وہیں ٹوٹ جاتی اور مجسمے میں وہ بے اختیاری اور از خود رفتگی نہ رہتی جواب ہے۔ اب تو شدت تاثر اور ہم آہنگی کا یہ عالم ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ سارا جسم سن ہو گیا ہے اور سارا احساس کھنچ کر سر اور بندھی ہوئی مٹھی میں آ گیا ہے۔۔۔ گویا روح ایک نقطے پر یکایک جل اٹھی ہے۔ یہاں جنسی اعضا کی سکون پذیری کیا اثر پیدا کرتی ہے؟ شاید جسم اور روح کا فرق مٹ جاتا ہے۔
عریانی کی وجہ سے ایسٹپائن جیسا مطعون و مردود رہا ہے وہ تو بجائے خود ایک داستان ہے۔ اس نے اسٹرینڈ کی ایک عمارت کے لئے عورت اور مردکی زندگیوں کے مختلف مدارج کے مجسمے بنائے تھے اور اپنی ساری معصومیت اور طہارت قلب صرف کر دی تھی۔ وہ در اصل مرد اورعورت کے تعلقات کے مثالی نمونہ تھے اور نیائشانہ جذبے سے پر۔ مگر شریف عورتوں نے وہاں صرف عیاشانہ جذبہ دیکھا اور پھر اپنی شکایتوں کے باوجود انہیں دیکھنے بھی جوق درجوق آئیں۔ اسی طرح اس کے مجسمے ’’پیدائش‘‘ کو بھی فحش اور گندا کہا گیا۔ لیکن پھر وینس دی میدیچی کو فحش کیوں نہیں کہا جاتا؟ غالباً اس وجہ سے کہ اس کے پستان بہت شہوت انگیز ہوتے ہیں اور ایسٹپائن کا مجسمہ لوگوں کے لئے محض وحشت انگیز تھا۔
رائل اکیڈمی تو چونکہ نارنگیوں اور سنگتروں کی روایت تازہ کرتی رہتی ہے اس لئے اس کے کارناموں سے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن محض ایک پھولا ہوا پیٹ اور بدنما پستان دکھا کر ایسٹپائن اخلاق کا دشمن بن گیا تھا۔ حالانکہ یہاں وہ جنسیت کی بنیادوں تک پہنچ گیا ہے۔ بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ حاملہ نہیں بلکہ دھرتی ماتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ جنس کی اہمیت اور عظمت کیا ہے۔
ایسٹپائن ہی کا مجسمہ ہے’’آدم۔‘‘ جسے دیکھ کر خاتونوں کے ہاتھوں سے عینکیں گر گر پڑی ہیں اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مجسمہ ایک آدمی نے نہیں بنایا بلکہ پوری نسل انسانی نے۔ لیکن نسل انسانی نے بھی حیا سوزی کی انتہا کردی ہے کہ آدمی کے ابوا الابا کے جسم میں خیزش دکھائی ہے۔ اول تو آدم کے بارے میں یہ بدگمانی اور پھر اس کیفیت میں۔ چھی چھی!
لیکن اس مجسمے کے لئے مبالغہ آمیز اسم صفت گنوانے کی بجائے میں اس جسارت کی فنی اہمیت دریافت کرنے کی کوشش کروں گا۔ یونانی اور دوسرے قدیم مجسمہ ساز حرکت دکھاتے ہوں یا نہ دکھاتے ہوں مگر جس دن سے لیسنگ نے فتوی دیا ہے کہ مجسمہ حرکت کا اظہار نہیں کر سکتا۔ صرف سکون ک ویا حرکت کو ایک جگہ ٹھہرا کر اس کا مجسمہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس دن سے مجسمہ ساز اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس روایت کو توڑنے کے لئے روویں نے چلتے پھرتے آدمیوں کے مجسمے بنائے ہیں لیکن نئے مجسمہ ساز مثلاً ایسٹپائن یا ہنری مور اس مادے کا بہت احترام کرتے ہیں جس سے وہ مجسمہ بنا رہے ہوں۔ چنانچہ یہ لوگ پتھر کو وہ شکلیں اختیارکرنے پر مجبور نہیں کرتے جو گوشت و پوست سے مخصوص ہیں۔
حرکت کے اظہار کے لئے وہ پتھر کے اندر سے حرکت پیدا کرتے ہیں۔ اسے اوپر سے توڑتے مروڑتے نہیں۔ اس مجسمہ میں ایسٹپائن کو انسان کی ہمیشہ ترقی کرتے رہنے کی لگن اور مشکلوں سے مقابلہ کی جرأ ت دکھانی تھی۔ لیکن اس نے آدم کو بھاگتا ہوا نہیں دکھایا بلکہ ہاتھ تک بدن سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجسمے کے اندر ایک ایسی اینٹھن، ایک ایسا ابھار اور قوت پیدا کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم زمین سے اٹھ کر اوپر کھنچا چلا جا رہا ہے اور اس میں اپنی انتہائی طاقت صرف کر رہا ہے۔ خود سوچ لیجئے کہ وہ تھوڑی سی بدتمیزی کیا نشوونما پاتی ہے۔ یہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جنس انسان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ مددگار ہے اور اس کی پرورش بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کی ہے۔
ہاں، ایک سب سے زیادہ مذہبی زمانہ کو تو میں بھولا ہی جا رہا تھا یعنی یورپ کا عہد وسطی۔ اس زمانہ کی جنسی حقیقت پسندی اور ظرافت کی عریانی تو مشہور ہی ہے لیکن یہ چیزیں مذہبی ڈراموں تک میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہ ڈرامے محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ ایک قسم کی عبادت۔ لیکن ان میں بھی کھلے کھلے جنسی اشارے معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے۔ نوح اور ان کی بیوی اسی ٹھاٹھ سے لڑتے تھے جیسے کوئی اور میاں بیوی۔ اور نوح کی بیوی کی زبان کسی عام عورت سے پاک تر نہیں خیال کی جاتی تھی۔
عریانی سے کیا کیا کام لئے جا سکتے ہیں۔ دیکھنا ہو تو زولا کے یہاں چلئے۔ کسی عورت کا ذکر آ جائے تو اس کے پستانوں کا حال بیان کئے بغیر وہ مشکل ہی سے بڑھتا ہے۔ شاید کسی سائنس دان نے بھی اتنی قسمیں نہ بیان کی ہوں گی جتنی زولا نے ایک کتاب میں۔ لیکن یہ لذت پرستی نہیں ہے بلکہ نفسیات اور کردار نگاری۔ عورت کے سلسلہ میں تیس فیصدی کردار تو وہ پستانوں کے ساتھ ہی بیان کر دیتا ہے اور اس کی داستان حیات بھی۔ زولا کا شاہکار’’جرمینل‘‘ ہے۔ یہ سرمایہ اور محنت کی جنگ کی رزمیہ ہے اور اس کا درجہ اتنا بلند ہے کہ آندرے ژید کے خیال میں اسے فرانسیسی میں نہیں بلکہ کسی بین الاقوامی زبان میں لکھا جانا چاہئے تھا۔ مزدوروں نے بغاوت کی ہے اور وہ ہر چیز برباد کرتے پھر رہے ہیں۔ اسی جوش میں وہ ایک سوداگر کو جوان کی لڑکیوں کو خراب کیا کرتا تھا، مار ڈالتے ہیں اور اس کے عضومخصوص کو کاٹ کر ایک سلاخ میں پرو لیتے ہیں۔ زولا کی ذہنی گندگی۔۔۔ لیکن یہ موقع نہایت سنجیدہ ہے اور یہاں اس کی گنجائش ہوہی نہیں سکتی اور خصوصاً! اس کتاب میں جہاں زولا کھلم کھلا پرولتاری انقلاب کی حمایت کر رہا ہے؟
زولا گروہوں اور ہجوموں کی نفسیات کا ماہر ہے۔ اس میں ٹالسٹائے کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی اس کی برابری کر سکتا ہے۔ مزدوروں کی یہ حرکت ایک مشتعل گروہ کے جنون کا آخری درجہ ہے اور نفسیات کے مالک کی طرح زولا اسے دکھانے میں نہیں جھجکا ہے اور اسی سلسلہ میں وہ متوسط درجے کے اخلاق پر اورنئی اقدار کے بڑھتے ہوئے حملے کے سامنے اس کی بیچارگی اور ریاکاری پر ایک بڑی سخت چوٹ بھی کر گیا ہے۔ جب مزدور اس حالت میں کارخانہ کے منیجر کے مکان کے سامنے سے گزرتے ہیں تو اس کی بیٹی اپنے باپ (یا ماں) سے پوچھتی ہے کہ یہ کیا ہے۔ اسے کوئی جواب نہیں ملتا اور آخر دونوں جھینپ کر کھڑکی سے ہٹ آتے ہیں۔
نفسیات کے سلسلے میں شیکسپئر کی مثال لیجئے۔ اس کے مزاحیہ کرداروں اور بہت سے مردوں کی زبانوں سے تو خیر بڑے تر و تازہ پھول جھڑتے ہیں لیکن اپنی عورتوں خصوصاً ہیروئن کو شیکسپئر انتہائی نزاکت، حسن اور معصومیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی کسی ہیروئن کو مبتذل بنا سکتا ہے اور پھر المیہ کی ہیروئن کو۔ شیکسپئر نے اپنی کلوپٹیرا کو محض شہوت پرست نہیں بنایا بلکہ بلند نظر اور پر جلال’’بری سے بری چیزیں بھی اس کے اندر بھلی معلوم ہونے لگتی ہیں‘‘ لیکن اس کی گفتگو جیسی علامتوں سے بھری پڑ ی ہے اور اینٹنی کے روم چلے جانے کے بعد تویہ عنصر اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ہر ہر بات میں اس کی جنسی بے قراری مچلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ روم سے ایک پیغامبر آتا ہے تو فوراً اس کی زبان سے نکلتا ہے،
O! from Italy
Ram thou thy fruitful tidings in mine ears,
That long time have been barren-
کلیو پٹیرا سے یہ باتیں کہلوا کر شیکسپئر اسے شورڈچ کی رنڈی نہیں بنا رہا تھا بلکہ اس کی نفسیاتی بصیرت وہ نفسیاتی چیزیں پیش کر رہی تھیں، جس کا تجزیہ اب آکر فرائڈ نے کیا ہے اور نہ اس سے کردار کی بلندی میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ بلکہ کلیوپٹیرا کی انسانیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جنسی جذبے کی شدت اس کی قربانی کو اور بھی پر وقعت بنا دیتی ہے۔
شیکسپئر مقابلہ سے بڑے کام لیتا ہے۔ اوتھیلو میں ایک طرف تو ڈسڈیمونا کی انتہائی معصومیت اور بھولاپن ہے۔ اس کی زبان سے لفظ رنڈی بھی نہیں نکلتا۔ دوسری طرف ایاگو کی دریدہ دہنی ہے جو کسی وقت فحش سے باز نہیں آتا اور آخر اس کا اثر اوتھیلو پر بھی پڑتا ہے اور اس کے دماغ پر بھی جنسی ہولناکیاں مسلط ہو جاتی ہیں۔ یقیناً یہ فحش برائے فحش نہیں۔ نہ چونی والوں کی تسکین کا سامان۔ یہ شدید اور بعض وقت اعصاب زدہ فحش گوئی کی فضا جو اس ڈرامے پر چھائی ہوئی ہے، ڈسڈیمونا کی شرافت نفس اور سادگی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ اور وہ شیطانوں کے درمیان گھری ہوئی فرشتہ نظر آنے لگتی ہے۔
اس قسم کے مقابلہ کو اگر پرکاری سے استعمال کیا جائے توہ وہ کیا اثر پیدا کرتا ہے، اس کی مثال میں میں ڈے لوئیس کی ایک نظم پیش کروں گا جو انہوں نے موجودہ جنگ کے متعلق لکھی ہے۔ یہ ایک بہت چھوٹی نظم ہے جس میں توپوں کوعضو تناسل سے تشبیہ دی ہے۔۔۔ وہ دنیا کے رحم میں بربادی کا بیج بونے کے لئے تنی کھڑی ہیں۔ غالباً شاعر کی ذہنی گندگی۔۔۔؟ کیا دنیا میں کوئی دوسری تشبیہ رہ ہی نہیں گئی تھی؟ لیکن غور کیجئے کہ جو زور اس تشبیہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ مجھے تناؤ کا زور نہیں بلکہ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیزیں انسان کے لئے رحمت ہو سکتی تھیں وہ آج لعنت بنی ہوئی ہیں۔۔۔ عضو تناسل افزائش اور برکت کا نشان ہے۔ لیکن یہاں اسے بربادی کی علامت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ توپ سائنس اورعلمی ترقیوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ ان چیزوں کا مقصد تھا کہ فطرت سے انسان کی لڑائی میں اس کی مدد کریں۔ لیکن آج وہ خود انسان کی ہلاکت کے درپے ہیں۔ اس خیال کو کسی اورعلامت کی مدد سے اتنی ہی چھوٹی نظم میں ادا کرنے کی کوشش کیجئے، لیکن یہ خیال رہے کہ وعظ کا عنصر نہ آنے پائے۔ جس طرح یہ نظم اس سے پاک ہے۔
تو یہ قطعاً انفرادی طور سے فنکار پر منحصر ہے کہ وہ عریانی سے کیا کام لیتا ہے۔ اور اس سے پاکیزہ ترین جذبات کے اظہار کی خدمت لی جا سکتی ہے اور لی گئی ہے۔ رلکے نے کہہ رکھا ہے کہ آرٹ کا مقصد تعریف کرنا ہے۔ لیکن ہمارے زمانہ میں تعریف کرنا کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے۔ اگر رلکے خود تعریف کر سکا ہے تو زندگی سے بھاگ کر، اپنے آپ کو مداخلت سے محفوظ کرنے کے بعد۔ خاص قسم کے عارفانہ اور مابعد الطبعیاتی جذبے اپنے اوپر طاری کر کے۔۔۔ لارنس نے تعریف کی ہے مگر زندگی کے ایک خاص مظہر کی، ایک مخصوص شعلے کی جو آدمی ایسے لپیٹ لیتا ہے کہ بے اختیار منہ سے تعریف نکل ہی آتی ہے۔ لیکن عامیانہ زندگی کی سطح پر اتر کر، اس کی ظاہری کیفیت کو قبول کر کے۔ ناک بھوں چڑھائے بغیر اس میں ربانیت یا خدا کے جلوے یا کسی آفاقی اصول کی تلاش کئے بغیر تعریف کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے اور پھرہمارے زمانہ میں کہ جب فرد اور سماج میں اتنی مغائرت اور مخالفت ہو۔
لیکن جوئس نے اسی طرح تعریف کی ہے اور’’یولی سیز‘‘ کے اس حصہ میں جس کی وجہ سے کتاب کو ضبط کر لیا گیا تھا، میرین بلوم ایک معمولی عورت ہے اور ایسی ہی شہوت پرست۔ اس میں کوئی بات بھی بلند یا پاک نہیں۔ اور ایسی ہی ایمانداری اس کی خود کلامی میں برتی گئی ہے۔ لیکن اس کی عریاں خیالی اسے ٹھوس بنا دیتی ہے۔ اس کا رشتہ ہماری دنیا، ہماری زمین سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اس کی جنسیت زمین اور زندگی کی حمد کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور یہ جذبہ اتناہی اعلیٰ و ارفع ہے جتنا کوئی اور۔
بالکل ایسا ہی ٹھوس کردار چوسر نے اپنے باتھ کی خاتون کی شکل پیدا کیا ہے۔ دونوں عورتیں زندگی سے بے انداز لطف لیتی ہیں۔ دونوں زندہ رہنے کی بے پایاں خواہش رکھتی ہیں۔ مگر باتھ کی خاتون میں ایک بات زیادہ ہے، وہ مرنے سے بھی نہیں ڈرتی۔ زندگی نے اس کو جو کچھ دیا ہے وہ اس سے پوری طرح مطمئن ہے۔ حالانکہ ہمارے زمانے کے کردار زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے بھی موت اور وقت سے لرزتے ہیں۔ اپنی جوانی کے گزر جانے کے خیال سے وہ افسردہ تو ضرور ہوتی ہے مگر باقی عمر سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جنسیت کی مدد سے وقت پر فتح حاصل کرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خدا نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نسل کوبڑھاتا رہے۔ اسی وجہ سے وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے پانچ شوہر ملے ہیں اوروہ چھٹے کا استقبال کرنے لئے بھی تیار ہے۔ وہ اپنے کو عفیفہ بنا کر نہیں رکھنا چاہتی بلکہ شادی کے بارے میں اپنی ساری زندگی کے پھول کو پیش کرے گی۔ وہ اصلاح ادب کانفرنس سے پوچھتی ہے،
مجھے یہ بھی تو بتائیے کہ اعضائے تناسل بنانے کا مقصد کیا تھا۔۔۔ یہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیوں لکھ رکھا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کا قرض ادا کرنا چاہئے۔ اب وہ اپنی ادائیگی کیسے کرے گا۔ اگر اپنا نفیس آلہ استعمال نہ کرے؟ بیوی کی حیثیت سے میں تو اپنے آلے کو ایسی ہی آزادی سے استعمال کروں گی جیسے میرے خالق نے مجھے عنایت کیا ہے۔ اگر میں روک ٹوک کروں تو مجھ پر خدا کی مار ہو۔ میرا شوہر اسے صبح و شام دونوں وقت لے سکتا ہے۔ جب اس کا دل چاہے آئے اور اپنا قرض چکائے۔۔۔ لیکن افسوس! عمر نے جو سب چیزوں میں زہرملادے گی، میری خوبصورتی اور میرا زور چھین لیا ہے۔ خیر، جانے دو، چلو رخصت۔ شیطان بھی اسی کے ساتھ جائے۔ آٹا تو ہو ہی چکا۔ اس کا کیا ذکر، اب تو جیسے بھی ممکن ہوگا مجھے بھوسی ہی بیچنی پڑے گی۔ لیکن اب میں بھی پوری زندہ دلی سے رہوں گی۔
اور اس اقتباس کی افسردگی، لیکن سکون اور تسلیم و رضا دیکھئے۔
But lord crist! whan that is rember th me
Upon my yowthe and on my joilitee
It tickleth me aboute myn here roote!
Unto this Day it dooth my herte boote
That I have had my world , as in my time.
اس ٹکڑے کو وقت کی شکایتوں اور اس تمام رونے جھینکنے کے سامنے رکھئے جو ہمارے زمانہ کے شاعروں کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے اورغورکیجئے کہ دنیا نے کیسی روحانی وسعت کھو دی۔ ورجینیا بڑی حسرت اور رنج کے ساتھ کہتی ہیں۔
’’اب یہ قہقہہ کرہ زمین پر دوبارہ نہیں سنا جائے گا۔ جو پیٹ کی تہوں سے اٹھتا تھا۔‘‘
چوسر کے ایک عالم نے ان تمام حصوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا ہے۔ اسی طرح مڈلٹن مری (جن کی رائے کا میں ہر جگہ بہت احترام کرتا ہوں) فرماتے ہیں کہ،
’’لارنس نے ’’لیڈی چیٹرلی کا عاشق‘‘ میں جو ناقابل تحریر الفاظ استعمال کئے ہیں وہ نفس مضمون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، صرف گالی برائے گالی ہیں۔‘‘
شاید۔۔۔ لیکن میرا ذاتی رد عمل تو یہ ہے کہ ان گالیوں اور بعض عامیانہ حرکتوں کی وجہ سے میسلرز اور لیڈی چیٹرلی عام انسانوں سے بہت قریب آگئے ہیں اور یہ بات لارنس کی کتاب میں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ اس سے صرف کتاب کے ٹھوس پن اور انسانیت ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لارنس کے پیغام کی اشاعت میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کی حقیقت ہم سے قریب ہو جاتی ہے اور وہ ایسی چیز نہیں رہتی جس تک پہنچنے کی ہم خواہش بھی نہیں کر سکتے۔
اسی طرح بکرے اور بکری پر لارنس کی نظموں کی حقیقت نگاری، جنسی جذبے کی تندی، وحشت اور ایک حد تک مضحکہ خیزی کا اظہار ہے بلکہ اس حقیقت نگاری میں ’’جنس کے پیغمبر‘‘ کی جنس سے جھجک، ڈر اور نفرت جھلکتی ہے۔
لارنس کے ذکر سے مجھے ایک اور سوال یاد آتا ہے۔ عریانی کے معذرت خواہوں کی طرف سے بعض دفعہ فحش اورغیر فحش کا فرق بتانے کی کوشش کی گئ ہے۔ سفید رومال سے چہرہ صاف کرکے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکرمیں لذت کا اظہار نہ ہونا چاہئے اورنہ ترغیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے۔ آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں؟ جب ہم کسی پیڑکو، کسی کردارکے چہرے کو، اس کے کپڑوں کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے۔ در اصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انہیں بنفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے اور ان کے وجود کو ابدی لعنت کا داغ۔ یہی ذہنیت ہے جو ایک طرف تو ادب اور آرٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف لاتعداد فحش کتابوں کو جنم دیتی ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دار و مدار ہے لذت کی قسم۔ اس کی سطح پر، فنکار کے مزاج اور نقطہ نظر پر۔ کیا شیکسپئر کی ’’وینس اور ایڈونس‘‘ TITAN کی برہنہ عورتیں، روویں کے دو مجسمے ’’دائمی بہار‘‘، ’’بوسہ‘‘ اور’’ہم آغوشی‘‘ لذت اور ترغیب سے بالکل خالی ہیں؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کیا ہم انہیں فحش کہہ کر چھوڑ سکتے ہیں؟
فحش کی یہ ترغیب والی تعریف غالباً ترقی پسندوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بہت پھیل جاتا ہے۔ فحش کے سوال سے کہیں آگے یا تو یہ فیصلہ ہو جائے کہ جنس قطعاً گندی اور غیرشریفانہ چیز ہے، اس لئے اس سے لذت کا اظہار اور اس کی ترغیب بھی نامناسب ہے۔ میں ماننے کو تیار ہوں لیکن اگر تاکید جنس پر نہیں بلکہ ترغیب پر ہے تو ادب کے ذریعہ سے انقلاب یا سماجی تبدیلی کی ترغیب دلانا ہی اتنی ہی نامناسب چیز ہے۔ ترغیب کا مسئلہ چھیڑ کر ترقی پسند ایک ایسے پڑوس میں جا پہنچتے ہیں جس کے سایہ سے بھی وہ بھاگتے ہیں۔ یعنی جیمزجوئس۔۔۔ جوئس کا نظریہ یہ ہے کہ جمالیاتی جذبہ میں ’’حرکت‘‘ نہیں ہوتی بلکہ ’’قرار۔‘‘ آرٹ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے نفرت۔ جو آرٹ اس اصول کا پابند ہے وہ مناسب آرٹ ہے اور جو خواہش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے غیر مناسب آرٹ ہے۔ خواہ وہ فحش ہویا اخلاقیات۔ اس سلسلہ میں جوئس نے وینس کے مجسمے کی مثال دی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وینس کی رانیں اس وجہ سے پسند آتی ہیں کہ وہ بڑا تندرست بچہ پیدا کر سکتی ہیں اور پستان اس لئے کہ ان میں بچے کو دودھ پلا کر توانا رکھنے کی بڑی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وینس عورت اور ماں کے فرائض کا مثالی نمونہ بن جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک بڑا فن پارہ ہے لیکن جوئس کے نزدیک یہ احساسات جمالیات کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ علم اصلاح نسل کی طرف۔ وینس ہمیں صرف اس وجہ سے پسند آتی ہے کہ اس میں حسن اور آہنگ ہے۔
جوئس کا یہ بیان بنیادی طور پر بہت صحیح اور کم سے کم مفید ضرور ہے مگر اس میں اتنہا پرستی کی بھی حد کر دی ہے۔ شاید کوئی فوق الانسان ہوا ہو جس نے ایسا فن پارہ پیش کیا ہو یا جس کا ردعمل اتنا جچا تلا ہو۔ کم سے کم میرے اندر تو فن پارہ ضرور حرکت پیدا کرتا ہے، حالانکہ یہ حرکت وہ نہیں ہوتی جو فحش یا اخلاقیات سے پیدا ہوتی۔ خود جوئس کے یہاں کافی نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے اورمیرین بلوم کا کردار کسی طرح ترغیب سے خالی نہیں اورلارنس کے یہاں ترغیب کے کیا معنی۔ وہ تو جنسی تعلقات کے ایک نئے عنصر کا پرچارکرتا ہی ہے۔ اگر کسی جگہ صحت مند مباشرت کی ترغیب پائی جائے تو میں اسے فحاشی کہنے کے لئے تیارنہیں ہوں۔ آپ فوراً اعتراض کریں گے کہ پھر تو شاید کوک شاستر بھی ادب بن گیا۔ لیکن یہاں میں فحش کو آرٹ ثابت کرنے پر اپنا زور قلم صرف نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف آرٹ کو فحش سمجھے جانے سے بچانا چاہتا ہوں۔
سوال در اصل ترغیب اور غیرترغیب کا نہیں ہے بلکہ آرٹ اورغیرآرٹ کا۔ غیرآرٹ کے لئے میں ایک نام تجویز کرتا ہوں، جذباتیت۔ یہ جذباتیت کسی طرح کی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ نفس پرستی، انقلاب پرستی، اخلاق پرستی۔۔۔ ساری گڑبڑ یہاں سے چلتی ہے کہ عموماً فن پارے کو بڑی سادہ چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیچیدگی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم اس کے صرف ایک رخ، ایک احساس کو لے لیتے ہیں، اور اسی کو سارا فن پارہ سمجھتے ہیں۔ اور اسی غلط فہمی پر اپنے فیصلے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہیں سے جذباتیت شروع ہوتی ہے۔ اسے اخلاقی وعظ بنادے گا یا فحش اور جب یہ جذباتیت پڑھنے والے یا دیکھنے والے میں ہو تو وہ اچھے خاصے فن پارے کو توڑ مروڑ کر غیرآرٹ بنا دیتی ہے مثال کے طورپر اصلاح ادب کانفرنس۔
اس الجھن کا ایک مخرج اور بھی ہے۔ ہماری تنقید کے نزدیک آرٹ نام ہے اپنے جذبات کے اظہار اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا۔ یہ سن کر ہربرٹ ریڈ سے تو اپنا قہقہہ نہیں رک سکا۔ لیکن مجھ میں ابھی اس سے انکار کی جرآت نہیں پیدا ہوئی۔ بہرحال آرٹ کوئی انجکشن کی پچکاری نہیں ہے جس کے ذریعے سے نئے نئے جذبے ہمارے اندر داخل کئے جاتے ہیں۔ زیادہ بک بک کیوں کروں۔ آپ ارسطو کا KATHARSIS والا نظریہ جانتے ہیں۔ آرٹ میں ایک جلابی کیفیت ہوتی ہے جو ہمارے جذبات سے زوائد کو خارج کر کے ہمارے اندر پھر سے توازن اور سکون قائم کرتی ہے۔ جذباتیت میں روک نہیں ہوتی۔ وہ جذبات پر کوئی حد نہیں قائم کر سکتی۔ آرٹ جذبات کی حدبندی کرتا ہے، ان کی تنظیم کرتا ہے اور انہیں ایک خاص نقش کی شکل میں ترتیب دیتا ہے۔
TITAN کی برہنہ تصویر کے بعد ہم بازار میں کود کر راستہ چلتی عورتوں کے کپڑے پھاڑنا نہیں شروع کر دیتے بلکہ اپنے جنسی جذبات میں ایک بہتر توازن اور ارتفاع پاتے ہیں۔ شاید فحش سے پہلے والا اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آرٹ ہمارے اندر کوئی جذبہ پیدا کرتا ہے تو وہ بقول ہربرٹ ریڈ، تحیر کا جذبہ ہے۔ اگر آرٹ صحیح قسم کا ہے اور پڑھنے والا اس سے کوئی غلط نتیجہ مرتب کرتا ہے یا اس کے اندر فاسد مادہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے لئے اس فن پارہ کو ملزم نہیں گردانا جا سکتا۔ آرٹ شہوت پرستی یا دنیا کے گناہوں پر زار و قطار رونا یا لال جھنڈا لے کر دو دو گز اونچے اچھلنے لگنا نہیں سکھاتا بلکہ حسن، ترتیب اور آہنگ کو تحیر کی نظروں سے دیکھنا۔
اگرموجودہ ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ سمجھنے کا موقع دیجئے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے، اور آرٹ کیوں فحش، اخلاقیات، سیاسیات اور اقتصادیات سے بہتر اور بلندتر ہے۔ جو شخض آرٹ کے مزے سے واقف ہو جائے گا اس کے لئے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہو کر رہ جائے گا۔ کم سے کم اپنی ذہنی تندرستی کے دوران میں تو وہ فحش کوچھونا بھی نہیں چاہے گا۔ سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دوبارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔ اس توازن اور ارتفاع کی مثال کے طور پر مجھے فراق صاحب کا شعر یاد آتا ہے۔
ملے دیرتک ساتھ سو بھی چکے
بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں
اردو کی جنسی شاعری میں بہت کم ایسے شعر ہوں گے جن میں یہ معصومیت، یہ ذہنی لطافت، یہ آرٹ کا تحیر پایا جاتا ہو۔ میں اس شعر کو دوہرانے سے کبھی نہیں تھک سکتا۔
فن کا تناسب بذات خود ایسی چیز ہے جو گندی سے گندی بات کو بے ضرر بنا دیتی ہے اور فنون میں یہ تناسب لکیروں، رنگوں وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ادب میں بیانیہ اندازکے لوازمات بھی اس کی ایک قسم ہیں۔ مثلاً شیخ سعدی کا مشہور مصرعہ ’’ہمیں بہ جملہ اول عصائے شیخ بخفت۔‘‘ اور پھر قہقہہ تو بڑی سے بڑی غلاظت کو دھو دیتا ہے۔ اور عقل۔۔۔ ایسے لوگوں کے نام یاد کیجئے جن کی عقل واقعی خوفناک قسم کی تھی اور پھر یہ غور کیجئے کہ انہوں نے کتنی عریانی برتی ہے۔ دوچار نام تو مجھ سے سنئے۔ رابیلے، چوسر، شیکسپئر، سوئفٹ، والٹیر، جوئس۔
اچھا ایک جلابی گولی میں نے آخر کے لئے محفوظ رکھی تھی۔ وہ لیجئے انگریزی محاورہ ہے،
THAT’S THE LONG AND SHORT OF IT
میں نے اسے یوں بدلا ہے،
THAT’S THE HE AND SHE OF IT
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.