ادیب خیال کی زمین پر تخم ریزی کرکے ادب تخلیق کرتا ہے اور عوام کے لیے تخلیق کرتاہے۔ تصور کا یہ بچہ جسے ادیب فن کے پالنے میں جھولا جھلاتا ہے عوامی رجحانات اور ذہن کی پرورش کرکے قوموں کا اخلاق بناتا ہے۔ ذہنی رگوں سے نچوڑے ہوئے اس لہو کو عوام تک پہنچانا رسائل کاکام ہے۔ گویا ادیب ادب تخلیق کرتا ہے اور رسالہ اس تخلیق کو عوام تک پہنچاتاہے۔ اس طرح دونوں ہی ادب کے لیے لازم و ملزوم ہوئے۔ ادب کی ترویج کے لیے دونوں میں باہمی رابطہ ہونا ضروری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رسالے اور ادیب ادب کی گاڑی کے دو ایسے پہیے ہیں جن میں مطابقت کے بغیر گاڑی کاسبک خرامی سے چلنا انتہائی مشکل ہے۔
تخلیق کا عوام تک پہنچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود تخلیق کا وجود میں آنا اور یہ کام رسائل کا ہے۔ اس لحاظ سے رسائل بھی ادب میں اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی خود ادب۔ پرانے زمانہ میں ادیب اور عوام میں رابطہ کا ذریعہ ادبی محفلیں اور مشاعرے تھے۔ اس دور میں زندگی کی باتیں اتنی پھیلی ہوئی نہیں تھیں۔ ضرورتیں محدود تھیں۔ اور لوگوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ کئی کئی گھنٹے چوپال پر بیٹھ کر قصے کہانیاں سنیں۔ لیکن ہمارے دور میں زندگی مشینوں میں ڈھل گئی ہے۔ ضرورتوں کے ہاتھ پھیل گئے ہیں۔ ہماہمی، رواداری، جینے کے لیے جدوجہد اور اقدار کی زنجیریں اس طرح ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم محفلوں کے لیے چند گھنٹے تو کیا بعض اوقات چند منٹ بھی نہیں نکال سکتے۔ رات اور دن کا فرق مٹ گیا ہے۔ کوئی رات کو کام کرکے دِن والا رات کو کچھ پڑھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے کسی ایسے ذریعہ کی ضرورت ہے۔ جس کے توسط سے سبھی، جب فرصت ملے، ادب کی رفتار سے آگاہ ہوتے رہیں۔ اور یہ ذریعہ ادبی رسائل ہیں۔
جہاں تک رسائل کی اہمیت کاتعلق ہے اس سے انکارکی گنجائش نہیں لیکن جب بات عمل اور اثر کی آتی ہے تو جتنے منہ اتنی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ رسائل کی بڑھتی ہوئی تعداد ادب کے فروغ کا باعث بنے لیکن اسے کیاکہیے کہ آج ان گنت رسائل کے باوجود عوام روز بروز ادب اور ادیب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ خالص ادب پڑھنے والے گنتی کے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ادب معاشرہ کی صحیح عکاسی نہیں کر رہا۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ادیب جو ادب تخلیق کر رہا ہے وہ صرف خواص کے لیے ہے۔ اس میں ثقالت اور مشکل پسندی آگئی ہے، میرا خیال ہے یہ دونوں الزام غلط ہیں۔ ادیب معاشرہ کی عکاسی بھی کر رہا ہے اور اس کا ادب خالص عوامی ادب بھی ہے۔ ادیب اسی معاشرہ کا فرد ہے اور وہ اپنے قصے آسمان سے نہیں لاتا۔ اس کے خیالات اردگرد کے ماحول کی دھیمی دھیمی آنچ میں پکتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ادیب اور عوام کارابطہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
یہ رابطہ کیوں ختم ہو رہا ہے؟
یہ اہم سوال ہر ادب نواز کے ذہن میں بار بار ابھرتا ہے۔ الزام ادیب کے سر ہے یا رابطہ میں کچھ خامی ہے۔ اس کا فیصلہ دوٹوک نہیں ہوسکتا، میں سمجھتا ہوں کہ ادیب پر اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے ہمیں اس ذریعہ کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے جو ادیب کو عوام سے ملاتا ہے۔ رسالوں کاتجزیہ کریں تو چار قسم کے رسائل ہمارے سامنے آتے ہیں۔
(۱) ڈائجسٹ (۲) اخبار کے ادبی ایڈیشن (۳) فلمی رسائل (۴) ادبی رسائل
میرے نزدیک ادب سے عوامی بیزاری میں ان ڈائجسٹوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان رسائل نے دھیرے دھیرے ان لوگوں کو ادب سے متنفر کرکے ہلکے پھلکے ادب کا عادی بنادیا ہے۔ ان رسالوں میں عوام شکاریات، خوب پر اسرار واقعات اور آپ بیتیاں پڑھتے ہیں اور اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ انہیں زندگی سے فرار کاراستہ مل جاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ خوابوں کی دنیا میں پناہ لینے لگتے ہیں۔ ایسے دل آویزقصے پڑھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس دنیا میں وہ رہ رہے ہیں وہ بڑی ظالم ہے اور ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ خارجی تلخیوں سے گھبراکر ان میں زندگی کی حقیقی اقدار سے مقابلہ کی اہمیت نہیں رہتی۔ میں نے اکثر ڈائجسٹ پڑھنے والوں کانفیساتی تجزیہ کیا ہے۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو حقیقی زندگی سے فرار چاہتے ہیں۔ ان موضوعات پر جن سے ہمارا معاشرہ دوچار ہے گفتگو کرنے سے گریزکرتے ہوئے ’’پدرم سلطان بود۔‘‘ کا نعرہ لگاکر الگ تھلگ دنیا بساناچاہتے ہیں۔ وہ ایسا ادب کسی قیمت پر نہیں پڑھنا چاہتے جو انہیں زندگی کی تلخ اور سچی باتوں سے آگاہ کرے۔ منٹو کو وہ اس لیے نہیں پڑھناچاہتے کہ اسے پڑھ کر انہیں برہنگی کا احساس ہوتا ہے۔ کرشن چندر کو وہ اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ ان کی بنائی ہوئی تضع کی قبر میں جھانکنے لگتا ہے۔ وہ ہر اس ادیب سے نفرت کرتے ہیں جو انہیں یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کیا ہیں؟ اور کس طرح جی رہے ہیں؟
ان ڈائجسٹوں کے طفیل جو ادب سامنے آیا ہے اس کا دوسرا بڑا نقصان، نئی کونسل کو، یہ ہوا ہے کہ وہ ذہنی طور پر سہل پسندہوگئی ہے۔ آسان، عام فہم، دو اور دو چار قسم کی کہانیاں پڑھ کر سوچنا نہیں پڑتا۔ لوگ ایسا مواد پڑھ کر سہل پسند ہوتے جارہے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ بے حسی اور ذہنی سستی ساری قوم کے مزاج اور اخلاق پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
ڈائجسٹ قسم کے رسالو ں کاآخری حصہ سب سے زیادہ قابل گرفت ہے۔ اس حصہ میں کُتب خانہ کے عنوان سے کسی مشہور ادب پارہ کی تلخیص کی جاتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اس شاہکار کی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں میری نظر سے چارلس ڈکنز کے مشہور ناول (GREAT EXPECTATION) کاملخص گزرا۔ اصل ناول کی ضخامت تقریباً چار سو صفحات ہے لیکن ایسے صرف تیس صفحوں میں پیش کیا گیا تھا۔ اس اختصار نے ناول کے سارے خوبصورت استعارے، علامتیں، فنی رچاؤ اور بعض جگہ کہانی کی ندرت بھی ختم کردی تھی۔ یہی حال منشی پریم چند، ٹیگور، ارنسٹ، ہنگوئے، چیخوف، ٹالسٹائی، موپساں اور دوسرے عظیم فنکاروں کی تخلیقات کا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان رسائل کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی شہ پارے کو یوں غت ربود کرکے اس کی خوبصورتی اور حسن کو ختم کردیں۔ کیاچارلس ڈکنز بیوقوف تھا کہ اس نے تیس صفحات کی بات چارسو صفحوں میں بیان کی؟
میرے نزدیک اس ’’تلخیص‘‘ کاسب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ قاری ہر چیز کی تلخیص مانگنے لگا ہے۔ وہ ’’ماں‘‘، ’’ڈاکٹرز واگو‘‘، ’’میدان عمل‘‘، ’’تلاشِ بہاراں‘‘، ’’خدا کی بستی‘‘ اور ’’علی پور کاایلی‘‘ اس لیے نہیں پڑھنا چاہتاکہ ان کی ضخامت دیکھ کر اسے ڈر لگتا ہے۔ وہ ہر چیز کاخلاصہ مانگتا ہے حتی کہ وہ کورس کی کتابوں کا بھی صرف خلاصہ پڑھ کرامتحان دیتا ہے۔ اسی لیے اعلیٰ سے اعلیٰ امتحان پاس کرچکنے کے بعد بھی اسے اپنے ہی کورس کی کتابوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ ڈائجسٹ قسم کے رسالے عوام سے سیاسی معاشرتی اور ادبی شعور چھین کر انہیں سہل پسند، تخیل پسند اور فردیت پسند بنا رہے ہیں۔
دوسری قسم میں اخبارات کے سنڈے ایڈیشن آتے ہیں۔
میں نے انہیں، اس المیہ میں اس لیے شریک کیا ہے کہ میرے نزدیک عوام کی ادبی بیزاری میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اخبار کاتعلق سیاست سے ہے۔ اور ہونا یہ چاہیے کہ اس میں طبع شدہ تمام مواد سیاست ہی سے متعلق ہو مگر اخبار والے سیاسی مضامین اکٹھے کرنے کی بجائے، سنڈے ایڈیشنوں میں، افسانے غزلیں اور ادبی مضامین شامل کرلیتے ہیں۔ (*) سولہ پیسے میں اخبار خریدنے والوں کو ہر ہفتہ خبروں کے علاوہ ادب بھی مل جائے تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ علیحدہ رقم خرچ کرکے رسالے خریدیں۔
(*) چونکہ خالص سیاسی مضامین کی فراہمی میں اخبار والوں کو محنت کرنا پڑتی ہے اس لیے وہ وقت اور پیسہ بچانے کی غرض سے اخبار کا پیٹ نام نہاد ادبی مضامین ہی سے بھردیتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ادب کی ترویج ہے، المیہ کیسے ہوا۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اخباروں میں ادب کے نام پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، وہ ڈائجسٹوں سے مختلف نہیں۔ ادب کے نام پر ایسی چیزیں شائع کی جاتی ہیں جو ادبی ذوق پیداکرنے کی بجائے الٹا رہا سہا ذوق بھی ختم کردیتی ہیں۔
تیسری قسم فلمی رسائل کی ہے۔ یہ رسالے ڈائجسٹوں اور اخباروں سے زیادہ خطرناک چیز ہیں۔ ان رسائل نے نئی پود کو تباہ کردیاہے۔ ان میں کیا ہوتاہے، اس کی مختصر سی، ادھوری تصویر ملاحظہ کیجیے۔
(ا) سب سے پہلے کچھ نیم برہنہ عورتوں کی تصویریں۔
(ب) زیر تکمیل فلموں کی کہانیاں۔
(غ) داغ کے زمانے کی غزلیں جن میں محض عریانی، فحش جذبات کااظہار ہوتاہے۔
(د) افسانے (جنہیں میں تو کسی قیمت پر افسانے کہنے کے لیے تیار نہیں) ان افسانوں کاپلاٹ تقریباً ایک ہی ہوتا ہے۔۔۔ کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو دیکھا، بس محبت ہوگئی اور اب رویا جارہا ہے۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس ادب پر باقاعدہ انعام بھی دیے جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فلمی رسائل کاوجود سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ میرا مطالبہ تو صرف اتنا ہے کہ فلمی رسالوں میں صرف فلم اور اس سے متعلق باتیں ہونا چاہیے۔
سولہ پیسے میں اخبار اور پچھتر پیسے میں فلمی رسالہ اور ڈیڑھ روپے میں ڈائجسٹ لے کر جب لوگوں کو نور جہاں کے حالات، شمیم آرا کی مصروفیات اور خوبصورت بننے کے راز سے لے کر منشی پریم چند کے ناولوں کی تلخیص تک سب کچھ مل جاتا ہے تو انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ تین روپے خرچ کرکے سیپؔ، نیادورؔ یا نقوشؔ خریدیں۔
اب رہ گئے ادبی رسائل تو ان کی بات کرتے دل دکھتا ہے۔
چھ سات سال ادھر کی بات ہے لاہور سے نکلنے والے ادبی پرچوں کے نام گننے مشکل تھے۔ کراچی، حیدرآباد، پشاور اور دوسرے علاقوں سے بھی بے شمار خالص ادبی صحیفے نکلا کرتے تھے لیکن یکایک ایسی آندھی چلی کہ اس محفل کے سارے چراغ بجھ گئے اور جو بچ گئے ہیں وہ بھی ٹمٹما رہے ہیں۔ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ ہمارے ملک سے کتنے خالص ادبی جریدے نکل رہے ہیں تو آپ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ سہ ماہی پرچوں کو چھوڑ کر خالص ادبی ماہناموں کی تفصیل یہ ہے،
(۱) لاہور ادبِ لطیف،
ادبی دنیا (کہنے کو تو ماہنامہ ہے لیکن عموماً دو دو مہینے بعد شائع ہوتا ہے)
(۲) حیدرآباد زاویے (کہنے کو تو ماہنامہ ہے لیکن عموماً دو دو مہینے بعد شائع ہوتا ہے)
نئی قدریں (اشاعت میں ترتیب نہیں)
(۳) کراچی افکار(**)
(**) فاضل مضمون نگار نے ’’زاویے‘‘ کا ذکر تو کیا ہے مگر ’’ساقی‘‘ کراچی کو فراموش کردیاہے حالانکہ یہ رسالہ بھی ایک طویل مدت سے اردو ادب کی خدمت کر رہاہے۔ (مدیر)
اب ذرا سہ ماہی پرچوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔
(۱) لاہور نقوش
فنون
سویرا
اوراق
(۲) کراچی نیا دور
سیپ
اور اِن کی اشاعت کی رفتار یہ ہے کہ،
نقوش سال میں بمشکل، تین بار
فنون سال میں بمشکل، دو یا تین بار
سویرا سال میں بمشکل، ایک بار (اور کبھی کبھی تو ڈیڑھ سال بعد)
اوراق ابھی صرف دو شمارے آئے ہیں
نیا دور سال میں ایک بار (اور کبھی کبھی ڈیڑھ سال بعد)
سیپ پہلے سال چار شمارے، دوسرے سال تین، لیکن اس کے باوجود دوسرے تمام سہ ماہی رسائل کے مقابلہ میں زیادہ باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔
لاہور سے نکلنے والے پرچوں کی قیمت عموماً چھ روپے سے کم نہیں ہوتی (اوراق کو چھوڑ کر) اس مالی بحران کے دور میں عام خریدار کے لیے چھ روپے خرچ کرنا خاصا مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان پرچوں کو ششماہی کی بجائے تین مہینے بعد نکال کر ان کی قیمت کم نہیں ہوسکتی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ادبی پرچہ چھ مہینے کے بعد نکلے، ضخامت چھ سو صفحے اور قیمت چھ روپے ہو۔ پھر رسالہ پڑھ چکنے کے بعد چھ مہینے انتظار۔۔۔ ادبی پرچوں کے مقابلہ میں ڈائجسٹوں اور فلمی رسالوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کا سستا پن اور باقاعدگی ہے۔ ہمارے خالص ادبی ماہناموں کا بھی یہ حال ہے کہ دو دو مہینے بعد نکلتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پڑھنے والا مجبوراً کچھ نہ کچھ خریدتا ہے اور یہ ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہی اس کے مذاق کوبگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔(***)
(***) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ادبی رسائل کے المیہ کے باعث نظریوں کی موت بھی ہے۔ میں نے دانستہ اسے حاشیہ میں جگہ دی ہے کیونکہ یہ اپنی جگہ الگ بحث ہے۔ تاہم میں ان کے دلائل کو مختصر جائزے کے ساتھ بیان کر رہا ہوں۔ ہمارے دور میں ادبی رسائل کے المیہ کاایک سبب تحریک کی موت بھی ہے۔ کسی رسالے کو خاص ادبی دائرہ تک محدود رکھنا ایڈیٹر کاکام ہے۔ اور یہ اس کی شخصیت اور نظریات پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے پرچے کو ادب تک محدود کرتا ہے۔ کسی نظریے کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ادب کو خاص زاویے سے پرکھاجاسکے۔ کچھ سال پہلے سویراؔ، ادبِ لطیفؔ، سنگ میلؔ، ماحولؔ اور شاہراہؔ مخصوص مکتبہ فکر کے پرچے تھے اور اس طبقہ کا قاری فوراً انہیں خرید لیتا تھا۔ لیکن آج کے دور میں قاری پرچے کی فہرست کو دیکھ کر، سوچ کر، پرچہ خریدتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جس ادب کو وہ چاہتا ہے ہو کس پرچے میں ملے گا۔ اور طرہ یہ کہ اس کے لیے بھی اسے چھ چھ مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ نظریہ کو شکست ہوئی تو پرچے بھی متاثر ہوئے۔
ہمارے بڑے بڑے ادیب اگر چاہتے تو نیازفتحپوریؔ کی طرح پرچے نکال کر لوگوں کو ادب کی طرف راغب کرسکتے تھے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جس ادب سے انہوں نے نام پیدا کیا اس کے لیے وہ کوئی قربانی دینا نہیں چاہتے۔
ڈائجسٹوں اور فلمی رسالوں کی بہتات نے ادیبوں پر بھی نفسیاتی اثر ڈالا ہے۔ اور وہ بھی لاشعوری طور پروہی کچھ لکھنے لگے ہیں جو عوام چاہتے ہیں۔ ادیب مسائل پر قلم اٹھانے کی بجائے ’’شکاریات‘‘ اور ’’شاعری کی بیوی کا شکوہ‘‘ کیوں لکھ رہے ہیں؟ اس کے ذمہ دار بھی عوام اور رسائل ہیں۔ عوام اس لیے کہ ان میں حقیقت کا منہ دیکھنے کی تاب نہیں۔ وہ تصنع پرست ہیں اور اس لبادے کو ہمیشہ اوڑھے رکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی انہیں آئینہ دکھائے۔ اور رسائل اس لیے کہ انہوں نے عوام کی دکھتی رگ سے فائدہ اٹھاکر انہیں بے خوف بنانے کا گر جان لیا ہے۔ اب رہ گئے ادیب تو وہ ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ وہ پوری طرح رسائل کے پابند ہیں۔ ان کی اپنی کوئی آواز نہیں اپنا کوئی ریڈیوسٹیشن نہیں، ٹیلی ویژن نہیں جس کے ذریعہ وہ خالص ادب لوگوں تک پہنچاسکیں۔ وہ گھر گھر جاکر لوگوں کو ادب نہیں پڑھا سکتے وہ بہرحال رسالوں کے محتاج ہیں، اس لیے وہی کچھ لکھنے پر مجبور ہیں جو رسالے چاہتے ہیں۔ اچھا ادب اگر تخلیق ہو بھی جائے تو تنقیدی محفلوں میں پڑھ کر تکیوں کے نیچے دفن ہوجاتا ہے۔ اب رہ گئے بچے کھچے ادبی ماہنامے تو وہ بھی دھیرے دھیرے ڈائجسٹ بنتے جارہے ہیں۔
ادبی رسائل کایہ المیہ، ادب کا المیہ نہیں پوری قوم کا المیہ ہے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.