ادبی سماجیات، ادب کو سماج کے رشتوں سے اور سماج کو ادب کے وسیلے سے پہچاننے کی کوشش ہے۔ ادبی سماجیات، ادب کا مطالعہ سماج کے وسیلۂ اظہار کے طور پر ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے آئینے میں عصری مسائل، اقدارِ حیات، بدلتے ہوئے ذوقِ سلیم اور ان کے محرکات کو پرکھنا اور پہچاننا بھی چاہتی ہے۔ انداز بیان اور تکنیک کے بدلتے ہوئے تصورات بھی اسی دائرے میں آتے ہیں۔
لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کو بھی زیر مطالعہ لاتی ہے، وہ شاعروں اور ادیبوں کے پیشے، ان کے طبقے، ان کے دیہی اور شہری رشتے اور ان کی زندگی کے رنگ ڈھنگ ہی کو نہیں عوام کے ذہنوں میں ان کی تصویر کو بھی زیر بحث لاتی ہے اور ان سے دور رس نتیجے نکالتی ہے جو ادب اور سماج دونوں کے مطالعے کے سلسلے میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
ادبی سماجیات کا تیسرااہم پہلو ادبی سرپرستی کا مسئلہ ہے۔ ہر دور میں ادب کی سرپرستی مختلف طریقوں پر مختلف طبقوں کی سپرد رہی ہے اور ظاہر ہے کہ اس سرپرستی کے نتیجے تخلیقی ادب کے طرز روش، تکنیک اور انداز بیان پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں دیہی سماج میں چوپال لوک گیتوں اور عوامی فن پاروں کی سرپرستی کا مرکز تھا، پھر دیوان خانے اور درباروں کی سرپرستی کا دور آیا۔ پھر صنعتی دور میں عوامی ذرائع ترسیل کا دور دورہ ہوا۔ اخبار و رسائل، ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سرپرستی کی جانے لگی اور طباعت و اشاعت کتب کے کاروبار میں اجارہ داروں کا سکّہ چلنے لگا اور ان سبھی ذرائع اور وسائل نے ادب کے رنگ و آہنگ، نفس مضمون، ہیئت اور تکنیک سبھی کو متاثر کیا۔
ادبی سماجیات کا چوتھا اہم پہلو ادب کے سماجی اثر پذیری کے عمل کو پہچاننا ہے۔ ادبی سماجیات صرف اسی سے غرض نہیں رکھتی کہ کسی قسم کی کتابیں اور رسالے زیادہ یا کم بکتے ہیں اور کس حد تک مقبول ہیں اور کیوں؟ اس کا موضوع یہ بھی ہے کہ کسی دور کا ادب اس دور کو کس حد تک اور کس طرح متاثر کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ادبی سماجیات کے طریق کار سے تنقید کے مختلف دبستانوں کو اختلاف ہے اور یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ ادبی سماجیات دراصل ادبی تنقید کا نہیں سماجیات ہی کا ایک جزو ہے اور ادبی تفہیم اور فن کے رموز و نکات سمجھنے میں اس سے کوئی مدد نہیں ملتی بلکہ اکثر اس قسم کی دیدہ ریزی سے غیر متعلق مسائل سامنے آجاتے ہیں جو ادبی تفہیم کو دھند لادیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادبی تنقید کا کوئی رویہ بھی مکمل اور جامع نہیں کہا جاسکتا اور کسی فن پارے کی قدر و قیمت کی مختلف جہات کو سمیٹنے کے سلسلے میں ادبی سماجیات کا بھی ایک اہم منصب ہے اور اسے نظر انداز کرنا ادب کی تفہیم اور اس کی سماجی معنویت کے ایک دلچسپ اور بصیرت آموز پہلو سے محرومی کے مترادف ہے۔ رچرڈ ہوگرٹ نے لکھا تھا کہ ’’مکمل ادبی گواہ کے بغیر سماج کا طالب علم سماج کی تکمیل سے بے بصر رہ جائے گا۔‘‘
“Without the full literacy witness, the student of society will be blind to the full ness of society”
یہی حال ادب کے طالب علم کا بھی ہے۔ ادبی سماجیات کے علم کے بغیر ادب کی تکمیل کا احساس و ادراک ممکن نہیں یا کم سے کم اس کے ایک اہم پہلو سے محرومی لازم ہوگی۔
ماہرین سماجیات نے ۱۹ویں صدی میں کومٹےؔ اور سیسزؔ کی رہنمائی میں سماج کے
Literature and Society in‘ A guide to the Social Sciences’ ed۔ by N۔ Makenzie, London: wiedenfield and nicholson - 1966
مطالعے میں ادب سے کام لینے کی روایت کی بنیاد ڈالی تھی۔ ۲۰ویں صدی میں ڈرکؔ ہیم اور ویبرؔ نے سماج کے مطالعے میں جہاں نئی جہتوں کا اضافہ کیا وہاں ادب کے مطالعے کو بھی نئی اہمیت دی۔ عام طور پر ادب کے سماجیاتی مطالعے کے سلسلے میں دو رویے اپنائے گئے۔
پہلا رویہ ادب کو سماج کے کسی مخصوص دور کا آئینہ قرار دے کر اس سے اس دور کے بارے میں تہذیبی اور اقداری شہادتیں حاصل کرنے کا تھا جس کی ابتدا لوئی ڈی بونالڈ (۱۷۵۴ء تا ۱۸۴۰) سے ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کسی دور کا ادب اس دور کی تہذیبی دستاویز بھی ہوتا ہے اور عوام کے اور خاص طور پر پڑھے لکھے طبقو ں کے جذبات و احساسات کی عکاسی بھی کرتا ہے، لیکن اس سے سماجی نتیجے نکالنا خاصا پیچیدہ عمل ہے اور اکثر گمراہ کن بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے دو باتیں خاص طور پر ضروری ہیں، اول تو کسی دور کے ادب کے ادبی پیرایۂ بیان ادبی روایت فیشن اور فارمولے سے الگ کر کے اس کے اس حصے تک رسائی جو واقعتاً حقیقی ہو اور صحیح معنوں میں اپنے دور کی عکاسی کرتا ہو اور اس حصے اور اس کی اصل معنویت تک اس کے ادبی پیرایۂ اظہار اور مخصوص طرز ادا کے باوجود پہنچا جائے۔ دوسرے اس دور کے جذبات و احساسات تہذیبی اقدار اور تصورات کا علم ہمیں کسی اور ذریعے سے بھی حاصل ہوچکا ہو۔ گویا ادب کے ذریعے حاصل ہونے والے شواہد تہذیبِ عصر کے بارے میں توثیق تو کرسکتے ہیں، مگر صرف تنہا شہادت فراہم کرنے کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔
اس کے علاوہ ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ ادبی فن پارہ فنّی حیثیت سے جتنا گھٹیا اور پست ہوگا اتنا ہی سماجی عکاسی کے اعتبار سے غالباً زیادہ بیانیہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کارآمد ہوگا۔ غالب کے دیوان کے مقابلے میں ۱۸۵۷ء کی دہلی کا حال اس دور کے اخبارات سے کہیں بہتر طور پر معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے فن پارے کی جمالیاتی کیفیت ادبی سماجیات کے اعتبار سے اس کے استناد کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے اس کے علاوہ ادب میں چونکہ تشریح کی گنجائش بہت زیادہ ہے اس لئے اس سے نکالے ہوئے نتائج گمراہ کن حد تک اضافی اور داخلی ہوسکتے ہیں۔
اِن خطرات کے پیش نظر ادبی سماجیات کے ایک دوسرے دبستان نے ادب کو کسی دور کے سماج کی ہوبہو تصویر سمجھنے کے بجائے اس پر زور دیا کہ ادب کسی دور کے جذبات و احساسات کے سانچے کی نشان دہی کرتا ہے اور اسے بیانِ واقعات سمجھنے کے بجائے کسی دور کی امیدوں، ارمانوں، اندیشوں، خوابوں اور خواہشوں سے عبارت ایک ایسا تانا بانا سمجھنا چاہئے جو بعض رویوں اور اقدار میں مجسم ہوگیا ہے، اس لحاظ سے وہ ایک ایسا پیچیدہ مرکب ہے جسے ابھی ادبی سماجیات کو اپنے طور پر اپنی زبان میں منتقل کرنا ہے اور اپنے طور پر تجزیے کے بعد سمجھتا ہے بقول لوون تھال (Lowenthal) ’’ناولوں کے کرداروں کے اندرونی زندگی کی سماجی معنویت سماجی تبدیلی کے مسائل سے جڑی ہوتی ہے‘‘ اور اس رشتے کو ادبی سماجیات ہی کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے، جیسے جیسے ادبی سماجیات کا علم ماہرین کے دائروں میں تقسیم ہوگی گیا اور Specialization عام ہوا، ادب کے مختلف اسالیب اور ان کے مضامین، مباحث اور اقدار کی چھان پھٹک اسی نقطۂ نظر سے کی جانے لگی۔
ادبی سماجیات کا دوسرا دبستان وہ تھا جس نے ادب کا جمالیاتی فن پارے کے بجائے مالِ تجارت کی حیثیت سے مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک اہم مسئلہ یہ تھا کہ کسی دور میں ادب کی سرپرستی کن طبقوں کے ہاتھ میں رہی ہے اور کیوں؟ ادب کی اشاعت کا صرفہ کتنا ہے اور اس پر کس طبقے کا قبضہ ہے یا اس کی نوعیت کیا ہے؟ ذرائع ترسیل عامہ کا اس میں کتنا حصہ ہے؟ اس سلسلے میں مشہور فرانسیسی ادبی سماجیات کے ماہر رابرٹ اسکارپٹ (Robert Escorpit) نے نمایا کارنامے انجام دیے۔
اس ضمن میں ادیب اور اس کی تخلیق اور اس تخلیق کے ذریعے اس کے قاری تک اس کے نتیجے تک پہنچنے کے مسائل بھی سامنے آئے اوربیگانگی کا سوال بھی اٹھا۔ ادیب، صنعتی دور میں اپنے فن پارے سے بڑی حد تک کٹ کر رہ گیا ہے اور غیر متعلق اور بیگانہ ہوگیا ہے اس کی تخلیق صنعتی دور کے ذرائع ترسیل عامہ میں یکسر اس کی ذات کا اظہار نہیں رہ جاتی بلکہ اس کی ذات سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال فلم کے لئے گانا لکھنے والے شاعر کی تخلیق ہے۔ یہ گانا شاعر اکثر اپنی ذات کے اظہار یا اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ دی ہوئی صورتحال پر پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کی فرمائش کے مطابق لکھتا ہے جس کی دھن اکثر میوزک ڈائریکٹر پہلے ہی فراہم کردیتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر جب اپنا گیت مکمل کر کے لائے تو میوزک ڈائریکٹر یا صلاح کارو ں کے مشورے سے گیت کے بولوں میں تبدیلی کردی جائے یا ایک دو مصرعوں یا لفظوں کا اضافہ کردیا جائے۔ جب یہ گیت پردۂ سیمیں پر پیش ہوگا تو شاعر کا گیت کوئی اداکار یا اداکارہ کسی دوسری گلوکار مغنیہ کی آواز میں میوزک ڈائریکٹر کی دھن پر گارہا ہوگا یا گارہی ہوگی اور اس کا گیت اب صرف اس کا اپنا نہیں ہوگا اس میں بہت سے دوسرے فن کار بھی شامل اور شریک ہوں گے اور شاعری کی شخصیت اس منزل تک پہنچتے پہنچتے گیت سے تقریباً بیگانہ (Alienate) ہوچکی ہوگی۔ گویا گیت اب اس کے لئے ذریعۂ اظہار نہیں مالِ تجارت بن چکا ہوگا۔
ظاہر ہے یہ سوال محض ادب کی سرپرستی کا نہیں ہے بلکہ پورے تخلیقی عمل کو متاثر کرنے کا ہے اور اس کی جڑیں ادبی تنقید کے بنیادی مباحث تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نظریے کی بِنا پر ماں ہیم (Manhiem) نے ادیبوں کو ایک ’’گھومنے پھرنے والی ایسی دانش ورانہ مخلوق‘‘ قرار دیا تھا جو اپنی جڑوں سے کٹ چکی ہے اور جس کی ادبی تخلیق اب مالِ تجارت بن چکی ہے۔ ا سکے برخلاف لیوسی ان گولڈ مان (Lucien Goldman) نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ صورت حال صرف ادنی درجے کے ادیبوں کو پیش آتی ہے جب کہ اعلیٰ ادیب کبھی بازار کے لئے نہیں لکھتا اور اس طرح وہ ناشر، مصنف، قاری کے جبر سے نکل جاتا ہے اور اپنی تخلیقات کو مالِ تجارت نہیں بننے دیتا۔
اس کے ساتھ ساتھ ادبی سماجیات اس کا بھی مطالعہ کرتی ہے کہ ایک مخصوص معاشرے پر کسی ادبی فن پارے کا کس طرح ردّ عمل ہوتا ہے۔ دستاوسکی کے ناولوں کو کس طرح نازیوں نے جرمنی میں اپنے عقل دشمن اور دانش دشمن تصورات کی حمایت میں استعمال کیا اس کا تجزیہ لوون تھال (Lowenthal) نے بڑی خوبی سے کیا ہے۔
اس کے پہلو بہ پہلو خود مصنفین کا مطالعہ ادبی سماجیات کے لئے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ بڑے فنکار کے فن پارے بقول لوونؔ تھال ’’حقیقت سے زیادہ حقیقت ہوتے ہیں‘‘ اوربقول رچرڈ ہوگرٹ ’’عظیم ادب انسانی تجربات کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے کیونکہ اس میں محض انفرادی صورتوں کے آگے بڑھ کر سطحی تفصیلات کے نیچے کارفرما دیر پا تحریکوں کو دیکھ لینے کی بصیرت ہوتی ہے‘‘ ۔ اور عظیم ادب اسی لیے اس گہری بصیرت کی بنا پر اپنے دور کے بعدبھی زندہ رہتا ہے، کیونکہ وہ ان بنیادی اقدار او ملائم کو گرفت میں لے لیتا ہے جو کسی دور کے مختلف گروہوں اور طبقوں کے درمیان مشترک رشتے فراہم کرتے ہیں۔ عہد جدید کے انسان کو سمجھنے کے لئے عوامی کلچر کے انہی شواہد سے کام لیا جاسکتا ہے۔
(۱)
یوں تو ادب کے سماجی مطالعہ کی روایت افلاطون سے شروع ہوتی ہے جس نے حقیقت اور فنونِ لطیفہ کے رشتے پر غور کر کے فن کو نقل کی نقل قرار دیا تھا اور دوسری طرف سماج پر فن کے مضر اثرات کے پیش نظر فنکاروں کو اپنے مثالی معاشرے سے نکال باہر کرایا تھا لیکن سائنس کے عروج کے بعد ادب کا رشتہ سماج سے اور گہرا ہوگیا اور یہ کوشش کی جانے لگی کہ جس طرح سائنسی طریق کار مادی حقیقت کے مختلف اجزا کو معروضی طور پر جانچنے اور پرکھنے میں کامیابی حاصل کرچکا ہے اسی طرح ادب کی پرکھ میں بھی دو ٹوک اور قطعی فیصلوں تک پہنچے۔ اثباتیت (Positivism) اسی کوشش کا نتیجہ تھا اور ادب کو سائنسی اور معروضی معیاروں پر پرکھنے کی کوشش مختلف نوعیتوں سے جاری رہی۔ ویچو نے ۱۷۲۵ء میں ’’نئی سائنس‘‘ میں اس کی کوشش کی۔
ہر ڈر نے (۱۷۴۴ء تا ۱۸۰۳ء) اپنی تصانیف میں تخیل اور کھیل کے نظریے کے ذریعے ادب کے تفریحی عنصر کو سماجی تربیت اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے عمل سے ہم آہنگ کرنا چاہا، مادام دی اسٹیل (۱۷۵۵ء تا ۱۸۱۷ء) نے ادب کو قومی مزاج کا عکس قرار دیا اور اس پر آب و ہوا اور رہن سہن کے جغرافیائی اور تہذیبی اثرات تلاش کرنے کی کوشش کی اس نے اس خیال کبھی اظہار کیا کہ ناول صرف ان معاشروں میں فروغ پاتا ہے جہاں عورت کا مرتبہ بلند ہے۔ متوسط طبقے کا عروج، آزادی اور نیکی کی ان اقدار کا ضامن ہے جو فن کی لازمی شرائط ہیں۔ اس نے لکھا، ’’مبارک ہے وہ ملک جہاں ادیب اُداس ہوں، تاجر مطمئن ہوں دولت مند افسردہ ہوں اور عوام آسودہ حال۔‘‘
اس قسم کی کوششوں سے قطع نظر تین (۱۸۲۸ء تا ۱۸۹۳ء) نے پہلی بار تہذیب اور تاریخ کے پس منظر میں تنقید کی ابتدا کی اور ادبی تنقید کے تاریخی دبستان کی بناد ڈالی اور اس اعتبار سے تینؔ کو ادبی سماجیات کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تینؔ کی کوشش یہ تھی کہ ادب کا کسی ایک معروضی سائنٹفک عناصر کی مدد سے مطالعہ کیا جائے جن میں اختلاف رائے کی گنجائش نہ ہو اور جس کو جانچا اور پرکھا جاسکے اس کے لئے اس نے نسل، لمحہ اور ماحول کا فارمولا وضع کیا، اس کے نزدیک ہردور کا ادب اپنے نسلی مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اپنے دور کی عام فضا اور معاصر واقعات افکار و اقدار سے عبارت ہوتا ہے اور اپنے تخلیق کار کی واردات ذہنی اور قلبی کا عکس پیش کرتا ہے، گویا اگر کوئی ادبی نقاد کسی ادب کے نسلی مزاج کے عناصر کا پتا لگالے، اس کے دور کی عام فضا کے عناصر کو پہچان لے اور فن کار کی شخصیت اور اس کے ذاتی کوائف و واردات کی نشان دہی کرے تو وہ ادب پارے کے تجزیے پر قادر ہوسکتا ہے، لیکن اس قسم کے تنقیدی رویے میں ماحول اور خارجی عوامل کو تخلیقی عمل میں بنیادی اہمیت دے دی گئی ہے اور تخلیقی عمل کی اُپج اور اس کے نجی پہلو اور اس کی فنکارانہ داخلی شخصیت کو تقریباً نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں ادب کو گویا ایک سماجی دستاویز کی حیثیت دے دی گئی ہے جو درست نہیں۔ ادیب محض رپورٹر نہیں ہے وہ محض کیمرہ کی آنکھ یا کیسِٹ کا ریکارڈ نہیں ہے کہ جو دیکھے یا سنے اسے محفوظ کرتا جائے بلکہ اس کی اپنی داخلی اور تخلیقی حیثیت ہے اور اس میں تخیل کا ایک بڑا حصہ ہے اس لحاظ سے ادب میں پیش کردہ تفصیلات کو تاریخی حقائق کا درجہ دینا اتنا ہی غلط اور گمراہ کن ہوگا جتنا ادب کے فنّی پہلو اور اس کی جمالیاتی بصیرتوں کو نظر انداز کرنا۔
تین کی سائنٹفک تنقید کی اس کوشش کے پہلو بہ پہلو کارل مارکس (۱۸۱۸ء تا ۱۸۸۳ء) اور فریڈرک اینگلز (۱۸۲۰ء تا ۱۸۹۵ء) کے سماجی نقطۂ نظر سے پیدا ہونے والی ادبی تنقید تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بان یونیورسٹی میں مارکس کی دلچسپی قانون سے زیادہ ادب سے تھی۔ اور شاعری کے علاوہ ایک مزاحیہ قصہ ’’A Humorous Tale‘‘ کے نام اس نے ایک ناتمام ناول بھی تصنیف کیا تھا۔ کلاسیکی طرز کا المیہ ڈرامہ لکھنے کی بھی کوشش کی تھی اور ۱۸۴۰ء میں ہیگلؔ کے زیر اثر ادب کا یہ ذوق بالآخر فلسفہ کی نذر ہوگیا۔
تینؔ نے ادب کو فرد کی تخلیق قرار دیا او ر اسی لیے فرد کی شخصیت کی نفسیاتی مطالعے کو ادبی تنقید کی بنیاد بنا ڈالا۔ مارکس اور اینگلز نے اس کے برخلاف ادب کو کسی دور کی غالب حقیقت کا عکاس قرار دیا وہ ادب میں محض کسی دور کی تصویر یا بیان تلاش نہیں کرتے بلکہ ان اقدار کی جستجو کرتے ہیں جس سے وہ دور پہچانا جاتا ہے۔
مارکس اور اینگلز نے ادب کو سماجی ارتقا کے عمل کا حصہ قرار دیا۔ ان کے نزیک سماجی ارتقا مادی جدلیات سے عبارت ہے۔ اور ہردور کا سماج اپنی اقتصادی ضرورتوں اور معاشی نظام کے اعتبار سے مختلف طبقوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے اور ہر طبقہ اپنی اقتصادی ضرورتو ں کی وجہ سے اپنے تہذیبی اور اقداری نظام کاپابند ہوتا ہے۔ مختلف طبقوں کے یہ اقداری نظام ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور اسی آویزش سے سماجی ارتقا ممکن ہوتا ہے۔ ہر طبقے کی اپنی تہذیب، اپنی اقدار، اور اپنا ادب ہے اور اسی طرح ہر دور کے ادب کا کوئی نہ کوئی نظریاتی میلان ضرور ہوتا ہے یا تو وہ ان استحصالی طبقوں کا حامی ہوتا ہے جو تبدیلی اور ارتقا کے مخالف ہیں یا پھر ان مظلوم طبقوں کا حمایتی اور ان کی ترقی پذیر اور تبدیلی اور انقلاب کی خواہاں اقدار کاعلمبردار ہوتا ہے جو کمزور ہونے کے باوجود اقتدار سے ٹکراتے ہیں۔ یہی جھکاو ادب کو نہ صرف اپنے دور کے انقلابی رویے سے ہم آہنگ کرتا ہے بلکہ اسے انسانیت کے ہر دور کے ترقی پذیر عناصر کا ہم نوا اور ہم آواز بنا دیتا ہے۔
مارکسیت نے ادب کو معاشی نظام کے بنانے اور تبدیل کرنے والے طبقاتی ٹکراؤ سے وابستہ کردیا البتہ مارکس اور اینگلز دونوں نے اس نقطۂ نظر کو میکانکی ہونے سے بچانے کی کوشش کی اور بار بار اس پر زور دیا کہ ادب کو عظمت بخشنے والا عنصر روح عصر سے اس کی وابستگی اور اس کے حقائق پر اس کی نظر ہے محض نظریاتی میلان نہیں۔ چنانچہ مارکس نے بالزک کو جاگیردارانہ نظام سے اس کی نظریاتی وفاداریوں کے باوجود اور لینن نے لیوٹالسٹا ئے کو اس کی فکر کے رجعت پسند عناصر کے باوجود فنکار تسلیم کیا۔ کیونکہ دونوں روحِ عصر سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ گو ان کانقطہ نظر اس راہ میں حائل تھا۔ اسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بعد کے دور کے مشہور مارکسی نقاد لوکاچ نے ان الفاظ میں بیان کیا، ’’بالزک کی طرح جب کوئی عظیم حقیقت نگار جب کبھی یہ دیکھتا ہے کہ اس کے وضع کردہ حالات و کردار کا داخلی فنّی ارتقا اس کی اپنی عزیز اقدار و تعصبات یا اس کے اپنے مقدس عقائد سے ٹکراتا ہے تو وہ ایک لمحے تامل کیے بغیر اپنے تعصبات و عقائد کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے اور وہ سب کچھ بیان کرنے لگتا ہے جو وہ خود دیکھ رہا ہے اور وہ بیان نہیں کرتا جو وہ دیکھنا چاہتا ہے (اور خلاف حقیقت ہے۔‘‘ )
بعد کے کسی نقادوں میں کاڈویل نے ادب کو عمل کے لئے ذہنی تیاری کا وسیلہ قرار دے کر زائد توانائی کی کارفرمائی بتایا۔ لوکاچ نے جامعیت، عالمی نظریے اور نمائندہ کردار کے تصورات کا اضافہ کیا۔ جامعیت سے مراد یہ تھی کہ ہر فرد کے نجی احساسات و جذبات دراصل اس دور کے طبقاتی نظام کے کسی نہ کسی حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اور لازمی طور پر اجتماعی آہنگ کی کسی ایک وحدت کی آواز ہیں۔ وحدت کا یہ تصور کسی نہ کسی عالمی نظریہ حیات پر مبنی ہونا لازم ہے۔ اس عالمی نظریۂ حیات میں کسی بھی تخلیقی فن پارے کی خارجی اور عالمگیر معنویت کو متعین کرنا ہے اور ٹائپ یا نمایندہ صورت حال یا نمائندہ کردار کسی مخصوص دور کے تبدیل ہونے والے نقشے کی وہ اکائیاں ہیں جو سماجی تبدیلی کا وسیلہ بنی ہوئی ہیں اور جو تاریخ کے اس موڑ پر فیصلہ کُن حیثیت رکھتی ہیں۔
گولڈمان نے لوکاچ ک ے نظریوں کو ایک نئی جہت بخشی۔ اپنے طریق کار کو گولڈمان نے “Generalized Genetic Structuralism” عمومی، خلقی، تشکیلیت کا نام دیا۔ اس کا لب لباب صرف یہ تھا کہ ہر ادبی فن پارے کو مکمل بالذات و حدت قرار دیا جائے اور اسے پہلے اس کے مختلف عناصر اور اجزا کی شناخت اور ان کے باہمی رشتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر ان عناصر اور اجزا کی ٹھوس تاریخی اور سماجی جڑیں اور عوامل و محرکات تلاش کیے جائیں اور ان سماجی طبقوں سے جوڑ کر انھیں دیکھا جائے جو مصنف کے عالمی وژن یا تصور حیات میں ظاہر ہوئے ہیں۔
اس اعتبار سے گولڈمان کی تشکیلیت روسی ہیئت پرستوں (مثلاً تلاوسکی اور رومن جیکب سن وغیرہ) سے بالکل مختلف ہے بلکہ ہیئت پرستوں کی متن پرستی اور مارکسی تنقید کے سماجی تجزیے کے درمیان ایک موثر مفاہمہ ہے۔
(۲)
مگر ادب کی سماجی توجیہہ اور سماجی ارتقا کے ذریعے اس کی تفہیم ادبی سماجیات کا محض ایک پہلو ہے۔ ادب کا تعلق لازم طور پر کسی نہ کسی حد تک فن کار کی شخصیت سے بھی ہوتا ہے اور ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے ہر فن کار ایک ایسا سانس لیتا ہوا انسان ہے جو اپنے سماج کا حصہ ہے اس کے کسی نہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے خاندان کا ایک فرد بھی ہے وہ کسی کا بیٹا بھی ہے کسی کا بھائی بھی اور کسی کا محلے دار بھی۔ اس اعتبار سے اس کی سماجی پہچان ہے اور اس کا اثر محض نفسیاتی سطح ہی پر نہیں سماجی سطح پر اس کے احساسات ہی پر نہیں اس کی پوری حسیت اور پوری آگاہیوں پر پڑتا ہے۔
سماجی تبدیلی کا عمل یہاں بھی متواتر جاری رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب شاعر چوپال میں اجتماعی استناد اور قبول عام والے قصے نظم، نظم کرتا تھا اور کوچہ کوچہ گاتا تھا پھر وہ دیہاتوں سے شہر آیا اور چوپال سے دیوان و دربار تک پہنچا اس کی مالی حیثیت بدلی اس کی طبقاتی نوعیت بدلی، اور یہ تجزیہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کسی دور کے ادیب کتنے شہروں میں آباد ہیں اور کتنے دیہاتوں میں بسے ہوئے ہیں۔ ان کے پیشے کیا ہیں اور ان کی طبقاتی وابستگی کی نوعیت کیا ہے۔ ارِک فرام (Aric Fromm) نے اپنے ایک مقالے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اچھے ادیب کے لئے عصر حاضر میں ادب کو پیشہ بنانے کے بجائے غیر ادبی پیشوں میں رہ کر ادب کو محض جزوقتی دلچسپی بنائے رکھنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ ادب پر شاعر کے روزگار کے اثرات نہ پڑیں۔
ادیبوں کے ان شخصی مطالعوں کا تعلق ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے نہیں ہے، کیونکہ ادبی سماجیات نفسیاتی تنقید کے دبستاں سے مختلف ہے البتہ ادبی سماجیات کو اصرار ہے کہ انفرادی نفسیات بھی دراصل وسیع تر اجتماعی سماجیات ہی کا ایک حصہ ہے اور اس لحاظ سے ادبی سماجیات ادیبوں کے انفرادی صورتحال کا مطالعہ کر کے ادیبوں کی اجتماعی حیثیت اور ان کے ادب پر اثرات کے متعلق نتیجے نکالتی ہے۔
مختلف ادوار میں ادیبوں کی شخصیت، ان کے پیشے، مشاغل اور طبقاتی کردار کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اس سے نہ صرف دلچسپ نتیجے نکل سکتے ہیں بلکہ ان کے موضوعات اور طرز بیان، ان کی علامتوں اور تمثالوں کے بارے میں بھی نئی معلومات فراہم ہوسکتی ہیں اور ہر دور میں شاعر اور ادیب کی بدلتی ہوئی تصویر اور اس کی شہرت اور مقبولیت کے مدوجزر کے مطالعے سے بھی بعض اہم حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ ان مطالعوں سے ادب کی تفہیم اور اس کی پرکھ کا ایک نیا پہلو تو سامنے آئے گا ہی، اس کے ساتھ ساتھ کسی دور کے سماج کی ذہنی اورجذباتی صحت یا عدم صحت کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔
اس نقطۂ نظر سے ہر فرد معاشرے کا وسیلہ اظہار ہے اور ہر شاعر اور ادیب کی نجی حسیت وسیع تر اجتماعی حسیت کا حصہ بھی ہے اور اس کی نمائندہ بھی اور انفرادی حسیت ہی نہیں انفرادی زندگی اور انفرادی رویوں کا مطالعہ بھی پورے سماج کے مطالعے پر محیط ہوجانا ہے اور یہی رویے کبھی ادب کی دنیا کی دھوپ چھانو میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کبھی دوسرے علوم و فنون کے رنگ و آہنگ میں اور کبھی سماج کی ساخت اور اس کی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔
(۳)
ادبی سماجیات کا تیسرا اہم پہلو ادب کی سرپرستی کرنے والے اداروں کا مطالعہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ادب کے موضوعات اور طرزِ بیان دونوں پر اپنے طور پر اثر اندازہوتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ جو پیسہ دے گاوہی راگ چُنے گا۔ پہلے زمانے میں ادب کی سرپرستی کا معاملہ سیدھا سادھا تھا اور اس کے سرپرست اداروں کی پہچان زیادہ آسان تھی۔ شاعر کی سرپرستی قبیلہ یا اس کا معاشرہ کرتا تھا۔ پھر یہ کام امیر اُمرا کے حوالے ہوا۔ دیوان خانے شاعر اور داستان گو آباد ہونے لگے۔ پھر شاعر کی سرکاری دربار تک رسائی ہوئی۔ شاعر قصیدہ خواں اور ادیب پرچہ نویس اورمیر منشی بن گیا اور ان سبھی مناصب اورپیشوں میں مقابلہ ہونے لگا۔ شاعر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے لگے۔ ادبی معرکوں کے میدان گرم ہوئے۔
ادبی اسلوب پربھی اس کا اثر پڑا۔ صنعت گری کا رواج ہوا۔ نثرمیں مرصع کاری اورمقفی اور مسجع اسلوب کے ذریعے ادیب اپنا کمال ظاہر کرنے لگے۔ شاعری میں کہیں ایہام کاچلن ہوا، کہیں لفظی بازی گری کا، کہیں خیال بندی اور مضمون آفرینی کے ایسے حربے استعمال کیے جانے لگے جو حریفوں کے مقابلے میں شاعر کی افضلیت ظاہر کرسکیں۔ شوکتِ الفاظ کا خیال رکھا جانے لگا۔ قصیدہ ذریعہ کمال اور وسیلہ معاش بن گیا اور شاعر عام کاروبار میں لگنے یا عام پیشوں کے اختیارکرنے کے بجائے خود کو اشرافیہ کا حصہ سمجھنے لگا اوراپنے مرتبے کو بلندجاننے لگا۔
صنعتی انقلاب کے بعد جب ادب کی سرپرستی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں آئی تو اس کی نوعیت میں اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ اکادمیاں بننے لگیں، یونیورسٹیوں کو عروج ہوا اور ادب کی سرپرستی کی دوسری بالواسطہ شکلیں اختیار کی جانے لگیں۔ قصیدہ نگار معدوم ہوگئے مگر ارباب اقتدار کی مدح سراؤں اور ثنا گستریوں میں کمی نہیں ہوئی۔ عوامی ذرائع ترسیل نے قصیدہ نگاروں کی جانشینی کا حق ادا کردیا۔ عوامی ذرائع ترسیل کا چلن ہوا تو پریس اور اخبارات وجود میں آئے۔ فلم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا رواج ہوا اور ان میں سے ہر وسیلے نے ادب کے موضوعات، طرز بیان اور تکنیک پر نہایت دور رس اثرات ڈالے۔ ادب کے دائرۂ اثر کو وسیع بھی کیا اور گہرا بھی اور ان میں سے ہر اثر کی نوعیت ایسی پیچیدہ اورمتنوع ہے کہ ادبی تحقیق کے لئے نئے امکانات کا دروازہ کھلتا ہے۔ ادبی سماجیات ان سبھی اثرات کے مطالعے کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔
مختلف عوامی ذرائع ترسیل کے ادبی اثرات کے سلسلے میں ریڈیو اور فلم کی مثالیں کافی ہوں گی۔ ریڈیو نے محض آواز کی اکائیوں کے ذریعے فن پاروں کی تخلیق کی آواز کی تاثر پاروں کو نئی تکنیک کے وسیلے سے پیش کیا۔ فلیش بیک مقبول ہوا اور پس منظر کی موسیقی نے محض فضا آفرینی ہی نہیں کی بلکہ علامتی ڈھنگ سے گویا پوری صورتحال کو بیان کردیا۔ یہ سب تکنیک شعری اور افسانوی ادب میں بھی اپنے طور پر رچ بس گئیں۔ فلم نے بکھرے ہوئے محاکاتی ٹکڑوں کی اکائیوں کو استعمال کیا۔ مونتاژ کی تکنیک برتی اور فضا آفرینی اور پس منظر (Perspective) کو موثر طور پر اپنایا ان سبھی حربوں کو ادب کی دیگر اصناف میں برتا جانے لگا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادب میں بعض اصناف کی ابتدا اور فروغ، سرپرستی کرنے والے طبقوں اور اداروں اور سرپرستی کے طریقوں کی مرہون منت ہے۔
قصیدہ ایوان و دربار کی سرپرستی کے بغیر شاید اس طرح فروغ پذیر نہ ہوتا، ناول کو صنعتی دور کا رزمیہ کہا جاتا ہے متوسط طبقے کے عروج، پریس کے چلن اور چھاپے خانے اور اخبارات و رسائل کے رواج کے بغیر ناول کافروغ ممکن نہ تھا۔ جن، پریوں، بادشاہوں اور شہزادوں کے رومانی قصے اور رومانوی مہمات سے دل بہلانے والے سماج کی جگہ متوسط طبقے کے قارئین نے لے لی تھی اور اب وہ اپنے طبقے کے لوگوں کے قصے، ان کی کامرانیوں اور ناکامیوں کی داستانیں سننا چاہتے تھے، اسی لیے ناول نے میرِ داستان کا تاج شہزادوں کے سر سے اتار کر متوسط طبقے کے نوجوان اور اس کے معاشرے کے سر پر رکھ دیا۔ غرض ادب کی سرپرستی کرنے والے اداروں کے اثرات براہ راست موضوع اورہیئت، طرز فکر اور طرز ادا پر مرتب ہوتے ہیں۔
اسی مرحلے پر عوامی ذرائع ترسیل کی اجارہ داری کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ جاگیر داری دور کے برعکس صنعتی دور میں شاعر اور ادیب کی تخلیقات براہ راست عوام یا ان کے مخاطبین تک نہیں پہنچتیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان عوامی ذرائع ترسیل کا پورا کاروبار ہے جس پر حکومت یا با ثروت طبقوں کی اجارہ داری کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ مثلاً کوئی شاعر شعر کہے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا انتظام وہ خود اپنے طور پر نہیں کرسکتا۔ اخبارات، رسائل، ناشر، کتب فروش، ریڈیو، فلم، ٹیلی ویژن یا اسی قسم کا کوئی ذریعہ اسے ضرور استعمال کرنا ہوگا اور یہ سب ذریعے براہ راست اس کے قابو سے باہرہیں اور ان ذرائع ترسیل پر جو طبقے یا اربابِ اقتدار قابض ہیں اور اپنی اسی اجارہ داری کے ذریعے وہ ادیبوں کو ان کے تخلیق کردہ ادب اور ان کے نظریات اور رویوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی تخلیقات کو جنس بازار بنانے کے خلاف احتجاج کے طور پر بعض ادیب ذرائع ترسیل سے اپنا رشتہ توڑنا چاہتے ہیں اور ترسیل ہی کے عمل کو فضول اور غیر ضروری قرار دے کر اپنی ذات کا نجی اظہار ایسی علامتوں اور ایسی عبارتوں میں کرتے ہیں جو ان کے نجی پن کو برقرار رکھ سکیں اور ان کے ذاتی تاثرات اور نجی واردات کو جنس بازار نہ بننے دیں۔ بیگانگی کا یہ عمل اور مخاطبین سے فن کار کے رشتے کا کٹ جانے کا یہ سلسلہ بھی ادب اور ادیب پر اثر انداز ہوتا ہے اور سماج کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ادبی سماجیات اس عمل رد عمل کامطالعہ ہے۔
(۴)
ادبی سماجیات کا سب سے زیادہ وسیع اور غالباً زیادہ معروضی شعبہ ادبی ذوق کا تجزیہ اس کے عوامل و محرکات کا مطالعہ اور سماج پر اس کے اثرات کی نوعیت اور اس کے دائرہ اثر کا تعین ہے۔ کوئی تخلیقی فن پارہ اپنی آوازِ بازگشت سے خالی نہیں ہوتا۔ مختلف صورتوں سے وہ عوام تک پہنچتا ہے۔ قبولِ عام حاصل کرتا ہے اور اس کی مقبولیت کبھی کبھی اس حد تک بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے دور کی آواز ہی نہیں بنتا بلکہ اس آواز کو تبدیل کرنے میں معاون ہوجاتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کا ذاتی اثر یوں بھی ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے ان کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ نشست و برخاست، رہن سہن، طرزِ گفتگو، لباس اور پوشاک ہی میں نہیں، چلنے پھرنے کے طریقے اور تفریحات و مشاغل میں بھی ان کی تقلید ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض ناولوں کے کردار ضرب المثل بن جاتے ہیں اور بعض ناول اپنے دور کے طرزِ احساس کو بدلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تخلیقی کرداروں پر حقیقت کا گماں ہونے لگتا ہے۔ لوگ رچرڈسن کی پامیلا اور مرزا ہادی حسن رسوا کی ’’امراؤ جان ادا‘‘ کے مکان تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔ بعض ناولوں کے ذریعے شعور اور طرزِ احساس میں ایسی تبدیلی ہوجاتی ہے کہ ناولوں کے مرکزی تصورات عہد آفریں ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً والٹیر کا ناول ’’کاندید‘‘ یا بنکم چٹرجی کا ناول ’’آنند مٹھ‘‘ ۔
اِن ادب پاروں (اور ادیبوں) کے اثر و نفوذ کا تعین کس طرح کیا جائے اور ان اثرات کا مطالعہ کیوں کر ہو؟ ادبی سماجیات نے اس کے لئے معروضی پیمانے وضع کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے مطبوعہ کتابوں کی اشاعت کے گوشوارے کی طرف توجہ کی گئی۔ کس ادبی صنف کی کتابیں زیادہ بکتی ہیں اور اس صنف میں بھی کس قسم کی کتابیں مقبول ہیں اور اس راہ سے ادبی سماجیات کتابوں کی بِکری کے چارٹ اور مارکیٹ سروے (بازار کے جائزے) تک پہنچی۔ ظاہر ہے اعداد و شمار گمراہ کن بھی ہوسکتے ہیں اور مقبولیت او ربکری کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں جس میں ناشر کا سلیقہ کتب فروش کی اشتہار بازی، تبصرہ نگاری کی اہمیت اور دیگر عناصر شامل ہوسکتے ہیں، پھر بھی مذاقِ عام کا پتا لگانے کے لئے دوسرے طریقوں کے ساتھ ساتھ یہ طریق کار بھی برتا جاتا رہا ہے اور اس سے حاصل کردہ نتائج کو دوسرے طریقوں سے اخذ کردہ نتائج کی توثیق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ فلم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پیش ہونے والے پروگراموں کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے جو مذاقِ عام کی نشاندہی کرتا ہے اور اس دور کے سماج کے عام موڈ کو ظاہر کرتا ہے۔
فلم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع اظہار کے ذریعے عوام تک پہنچنے والے ادب کو سامنے رکھ کر کسی معاشرے کی حسیت کی عام روش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کس قسم کے موضوعات کسی مخصوص معاشرے کو زیادہ پسند ہیں (اور اس مقصد کے لئے “Content Analysis” یانفس مضمون کے تجزیے کا طریق کار برتا جاتا ہے) کس قسم کے اندازِ بیان، علامتیں، تلمیحیں اسے زیادہ عزیز ہیں اور ان سب کی مدد سے کسی دور کے ذوق ہی کا نہیں اس معاشرے کے جذبات و احساسات، اقدار و افکار کا ایکسرے کیا جاسکتا ہے۔
گویا ادبی سماجیات پورے سماج کو ایک اکائی یا ایک فرد سمجھ کر اس کا مطالعہ کرتی ہے اور کسی دور کے اندیشوں اور ارمانوں، خواہشات اور خطرات کا اسی نقطہ نظر سے جائزہ لیتی ہے کہ اس دور کے بدلتے ہوئے پیٹرن، فکری اور حسی سانچے محض اتفاقی نہیں رہتے بلکہ سماجی ارتقا کے عمل کا ایک جزبن جاتے ہیں اور ادب اور سماجی ارتقا دونوں کی تفہیم میں معاون ہوتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.