Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبیات اور اصول نقد

نیاز فتح پوری

ادبیات اور اصول نقد

نیاز فتح پوری

MORE BYنیاز فتح پوری

    لٹریچر کا ترجمہ اردو میں عام طور پر ادب یا ادبیات کیا جاتا ہے جو اپنے اصلی مفہوم کے لحاظ سے بظاہر بے جوڑ سا معلوم ہوتا ہے لیکن غالباً اس سے بہتر ترجمہ ممکن نہیں، ہر چند اول اول عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو ظاہر کرتا ہے اور جس کے لئے ایک دوسرا لفظ ’’تہذیب‘‘ بھی موجود ہے لیکن بعد کو استعارۃً اس سے وہ تمام علوم مراد لئے جانے لگے جو ذہنی شائستگی اور تمدنی تعلقات کی پاکیزگی سے متعلق ہیں اور چونکہ لٹریچر کا مقصود اصل بھی یہی ہے، اس لئے غالباً ادبیات سے بہتر اس کا ترجمہ ممکن نہیں۔


    اس خالص مفہوم کے لئے ادب کا استعمال عربوں میں اس وقت ہوا جب دوسری اور تیسری صدی ہجری میں وہ عجمی تہذیب اور لٹریچر سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے اس موضوع پر مستقل تصانیف بھی کیں جن میں ابن قتیبہ کی ادب الکاتب اور ادب الوزرا خاص شہرت رکھتی ہیں۔ انہوں نے بعض مشاغل تفریح اور لہوولعب کو بھی ادبیات میں شامل کر لیا تھا جو نتیجہ تھا عجمی تہذب سے متاثر ہونے کا۔

    مغرب میں بھی لٹریچر کی تعریف مختلف الفاظ میں کی گئی ہے اور بعض نے اس کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ تمام وہ تحریریں جو مختلف اقوام نے مختلف اوقات میں اپنے بعد چھوڑیں، ان کے نزدیک ادبیات میں داخل ہیں، لیکن ادبیات کی یہ تعریف صحیح نہیں کیونکہ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جنہیں ہم کسی حیثیت سے ادبی نہیں کہہ سکتے اور ادبی اور غیر ادبی کتابوں کے درمیان ہمیں خط امتیاز کھینچنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایک کھانا پکانے کی ترکیبیں بتانے والی کتاب اور دیوان غالب کو ایک ہی درجہ نہیں دے سکتے اور ان کے درمیان کوئی فرق کرنا پڑےگا۔ چارلس ؔ لیمب نے ادبیات کو اس قدرمحدود کر دیا ہے کہ اس میں ہیومؔ اور گبن کی تصانیف بھی داخل نہیں ہو سکتیں۔ مذہبیات بھی داخل نہیں ہو سکتیں۔ برخلاف اس کے ہیلم نے ادبیات میں قانون، مذہبیات اور طب سبھی کو شامل کر لیا ہے۔

    اگر یہ دونوں رائیں واقعی افراط و تفریط ہیں تو پھر معتدل صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب اس وقت تک نہیں دیا گیا۔ ہڈسن لکھتا ہے کہ ادب سے مراد صرف وہ کتابیں ہیں جو اپنے موضوع اور طرز بیان کے لحاظ سے عام انسانی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں اور جن میں خاص طور پر ایک مخصوص طرز بیان اور پڑھنے والوں کے لطف کا لحاظ رکھا جائے۔ اس اصول سے ایک ادبی کتاب یقیناً نجوم، ہیئت، سیاست، فلسفہ بلکہ تاریخ سے بھی مختلف سمجھی جائےگی۔ کیونکہ وہ کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ عام طور پر ہر شخص کی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے اور اپنے انداز بیان سے ہمارے جمالیاتی ذوق کو پورا کرتی ہے، بر خلاف اس کے دوسرے فنون کی کتابوں کا مقصد صرف معلومات میں اضافہ کرنا ہے اور دلچسپی پیش نظر نہیں ہے۔

    میتھو آرنلڈ نے اس مسئلہ کو بہت زیادہ وسعت نگاہ سے دیکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’کتابوں سے جوعلم بھی حاصل ہو وہ لٹریچر میں داخل ہے۔‘‘ گویا لٹریچر زندگی کا نقد ہے۔ اگر انتقاد سے مراد تشریح ہے تو اس میں شک نہیں کہ لٹریچر کی یہ تعریف بہت پاکیزہ ہے۔ اس سلسلہ میں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اچھی کتابوں سے فائدہ حاصل کرنے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں۔ بظاہر ہم کو اس کی تین صورتیں نظر آتی ہیں۔ ذہنی، اخلاقی اور جذباتی، یعنی کسی کتاب سے یا تو ہمارے ذہن و عقل پر اثر ہوتا ہے یا اخلاق پریا صرف ہمارے جذبات میں تحریک پیدا ہوتی ہے، اس لئے ایک کتاب کی قیمت یا وقعت کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں ان تینوں باتوں پرغور کرنا چاہئے، ہرچند یہ ضروری نہیں کہ ایک کتاب ان تینوں خصوصیات کے لحاظ سے یکساں طور پر مفید وکار آمد نظر آئے، لیکن اگر کوئی ادبی تصنیف اس معیار پر پوری اترے اور اس میں ا فادہ کی یہ تینوں صورتیں نظر آئیں تو یقیناً ہم اس کو بہتر کتاب کہیں گے۔

    کسی کتاب کی عقلی قیمت سے ہمارا منشایہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مقصد کے تعین پر ہمیں آمادہ کرتی ہے اور اس طرح ہماری دماغی یا ذہنی زندگی کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے پڑھنے کے بعد اگر ہمارا دماغ اس کی تائید کرے تو وہ کسی عقلی قیمت ہی کا نتیجہ ہو۔ مثلاً کسی صابن کے اشتہار کو دیکھ کر ہم خیال کرتے ہیں کہ یہ صابن اچھا ہوگا اور ہم اسے منگا لیتے ہیں، پھر اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے جسم کو کوئی فائدہ پہنچے لیکن اگر کسی کتاب کی کوئی عقلی قیمت ہے تو اس سے ہمیں مالی یا جسمانی فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن عقلی فائدہ ضرور پہنچےگا اور یہ ضروری نہیں کہ اس میں ادبیت بھی پائی جائے۔ مثلا سائنس کی ایک کتاب ہے کہ وہ عقلی قیمت تو ضرور رکھتی ہے اور اس سے یقیناً ہماری زندگی مستفید بھی ہوتی ہے لیکن ہم اسے ادبیات میں داخل نہیں کر سکتے۔

    ادبیات کی اخلاقی قیمت پر بھی لوگوں نے متضاد رائیں قائم کی ہیں۔ بعض کااصرار ہے کہ اصل چیز ایک کتاب کی اخلاقی قیمت ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ فن کو محض فن کی حیثیت سے دیکھو۔ یونان و روما نے لٹریچر میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ادبیات کا اکثر حصہ پند و نصیحت پر مشتمل رہا ہے اور نظموں، افسانوں اور ناولوں کے ذریعہ سے ہمیشہ اخلاقیات کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے لیکن اصول معاشرت کے ساتھ کتابوں کے اخلاقی معیار میں بھی ہمیشہ تغیر ہوتا رہتا ہے اور اسی لئے ادب کی اخلاقی قیمت کو بعض لوگوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔ چنانچہ مسٹر اسپنگرن لکھتاہے کہ نظم نہ اخلاقی ہوتی ہے نہ غیراخلاقی بلکہ وہ صرف آرٹ کا یک نمونہ ہوتی ہے اور جس طرح ہم پھول سے درس اخلاق کی امید نہیں رکھتے، اسی طرح نظم سے بھی اس کی توقع نہ کرنا چاہئے۔

     لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادبیات سے انسانی زندگی کو جو تعلق حاصل ہے، وہ اس کی اخلاقی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا، اور اس لئے کہنا کہ حسن و آرٹ کو محض حسن و آرٹ کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے اور اس کے اخلاقی اور غیراخلاقی ہونے کو نظر انداز کر دینا چاہئے، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہر چند بعض کتابیں مثلاً مذہب اور فلسفہ کی کتابیں ایسی ہوتی ہے جو صرف اخلاقی یا عقلی قیمت رکھتی ہیں اور ان میں مطلق کوئی ادبیت نہیں پائی جاتی لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ادبیات و اخلاقیات میں باہم دگر تضاد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کتاب ادبیت بھی رکھتی ہو اور اخلاقیت و عقلیت بھی، لیکن اس میں شک نہیں کہ لٹریچر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جذبات انسانی کو حرکت میں لائے اور اسی لئے ادبیات میں اہم ترین اس کی جذباتی قیمت ہے۔ جو تصنیف ہمارے جذبات کو ابھار سکتی ہے وہ یقیناً ادبیات میں داخل ہے خواہ اس کی کوئی اخلاقی قیمت ہو یا نہ ہو۔

    اس سلسلہ میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ا دبیات سے انسانی زندگی کا کیا تعلق ہے؟ اگر یہ صحیح ہے (اور اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں) کہ ایک قابل قدر کتاب براہ راست زندگی سے پیدا ہوئی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے مطالعے سے زندگی کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی بہت گہرے ہو جائیں گے اور اسی کا نام زندہ دلی ہے جو زندگی کی صحیح ترین تعبیر ہے۔ ادب حقیقتاً ایک ریکارڈ ہے ان تمام تجربات و احساسات کا، جن سے ایک انسان اپنی زندگی میں دو چار ہوتا ہے۔ گویا بہ الفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب زندگی کا اظہار ہے الفاظ کے ذریعہ سے اور اس لئے جس طرح ادب کی تخلیق زندگی سے ہوتی ہے، اسی طرح زندگی کی تخلیق بہت کچھ ادب پر منحصر ہے۔

    ہر چند اقوام کے مختلف خصائص، افراد کے مختلف مزاج اور ملکوں کے مختلف سیاسی و معاشرتی حالات ادب کی مختلف شکلیں پیدا کرتے رہتے ہیں لیکن ان میں ادب کی کوئی شکل ایسی نہیں ہے جس میں روح انسانی کا اظہار نہ کیا گیا ہو، جس میں میلانات حیات کی تشریح نہ کی گئی ہو اور تجربات زندگی کے تجربے سے جس میں کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز بات نہ پیدا کی گئی ہو۔

    ادبیا ت کے دو پہلو اور بھی قابل غور ہیں۔ ایک عملی یعنی Functional اور دوسرا جمالیاتی یعنی (Aesthetic) افلاطونؔ کی رائے میں ادب کا کام یا (Function) اس چیز کی نمائندگی کرنا ہے جو اس کی آئیڈیل جمہوریت کو لوگوں کے لئے قابل تقلید و عمل بنا دے، چنانچہ اس نے شاعری اور ڈرامے کی اسی لئے مذمت کی ہے کہ وہ غیر مستحق چیزوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ ادب کا کام صرف اخلاقیات کا درس دینا ہے، درست نہیں۔

    ادب روح کی ایک زبر دست آواز ہے جو پیش نظر زندگی کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے ادب کا کام صرف یہی نہیں ہے کہ وہ جدید اشیا کی بابت ہمارے احساس میں تحریک پیدا کرے بلکہ ہماری موجودہ معلومات و اطلاعات کوترقی دینابھی اس کا کام ہے، یعنی جن اشیا سے ہم آشنا نہیں ہیں، ادب ان سے بھی ہم کو آشنا کرتا ہے اور جن سے ہم فی الحال آگاہ ہیں، ان سے ہمارے احساس کو اور زیادہ متعلق کر دیتا ہے۔

    اب ادب کے جمالیاتی پہلو کو لیجئے۔ انسان کی زندگی کاایک خاص پہلو اور بھی ہے جسے وہ ’’خوبصورت‘‘ کہتا ہے اور اس صفت کو وہ ’’حسن جمال‘‘ کے نام سے تعبیر کرتا ہے، رسمی زبان میں حسن کے اثرات سے ہر شخص کم و بیش واقف ہوتا ہے لیکن ان کی نفسیاتی توجیہ کا علم جسے فلسفہ کی زبان میں جمالیات کہتے ہیں، بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ جس طرح اور تمام احساسات مختلف کیفیت و مدارج رکھتے ہیں اسی طرح احساس حسن بھی مختلف کیفیتیں رکھتا ہے۔ مثلاً ہم ایک دلکش منظر یا خوبصورت عمارت کو دیکھتے ہیں اور اس سے لطف اٹھاتے ہیں لیکن اس لطف کی نوعیت اس لطف سے بالکل علیحدہ ہوتی ہے جوایک عمدہ افسانہ یا نظم کو پڑھ کر حاصل ہوتا ہے۔ ہم اس فرق کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ اول الذکر میں مادیات کا لگاؤ پایا جاتا ہے اور وہ مؤخر الذکر میں بالکل نہیں ہے۔

    ان کیفیات کے فرق کی دوسری مثال ملاحظہ کیجئے۔ ایک رئیس ہے جو عالیشان محل میں رہتا ہے اور اپنے قصر کی آرائش و زیبائش سے پورا لطف اٹھاتا ہے۔ اس محل کو ایک سیاح بھی دیکھتا ہے اور وہ بھی خوش ہوتا ہے لیکن ان دونوں کی لذت اندوزی میں بہت فرق ہے، رئیس کی لذت اس علم سے وابستہ ہے کہ وہ اس کی ملکیت ہے اور سیاح محض اس لئے مسرور ہوتا ہے کہ حسین و جمیل چیز اس کی نگاہ سے گزری۔ اسی لئے رئیس کا جذبہ مسرت یقیناً غیرجمالیاتی اور سیاح کا یکسر جمالیاتی ہے، حالانکہ دونوں کے جذبات ایک ہی چیز سے متعلق ہیں۔

    فنون لطیفہ میں نقاشی و موسیقی سے بھی جمالیاتی لطف اٹھایا جاتا ہے لیکن اس کا تعلق حوا س ظاہری سے ہے یعنی حواس کی بیرونی تحریک ختم ہو جاتی ہے تو لطف بھی زائل ہو جاتا ہے، بر خلاف اس کے ادبیات کا جمالیاتی لطف کسی بیرونی تحریک سے وابستہ نہیں ہے اور وہ اپنے اثرات بغیر کسی مادی وساطت کے بھی انسان کے ذہن و دماغ پر چھوڑ جاتا ہے۔

    الغرض تمام فنون میں لٹریچر کی وہی حیثیت ہے جو گلدستہ میں چوٹی کے درمیان پھول کو حاصل ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ صحیح و لطیف انداز بیان میں یوں سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ہم کسی پھول کو دیکھے بغیر محض اس کی خوشبو سے اس کی نوعیت کا اندازہ کر لیتے ہیں، اسی طرح ہم ایک قوم کے لٹریچر کو دیکھ کر اس کے حیات اجتماعی کے تمام پہلوؤں کو سمجھ سکتے ہیں۔ لٹریچر سے میری مراد یہاں صرف شاعری یا افسانہ نویسی نہیں ہے بلکہ ایک قوم کا تمام وہ تحریری کارنامہ مراد ہے جو اس نے اپنے بعد چھوڑا، اور جس سے ہم اس کی داستان عروج و زوال کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    اس ریکارڈ میں یقیناً تاریخ درجہ اول کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا مقصود ہی براہ راست ہماری معلومات میں اضافہ کرنا ہے۔ میتھو آرنلڈ کی تشریح کے موافق ادب ’’حیات انسانی کا نقد‘‘ بھی ہے اور ٹین (Tain) کے بیان کے موافق ’’سماجی حرکت و عمل کا اظہار‘‘ بھی۔ وہ ایسا جامع ریکارڈ ہے جس سے ایک قوم کی تمام جسمانی و ذہنی قوتوں کے ارتقا و انحطاط کا حال معلوم ہو سکتا ہے اور اس لئے جس حد تک افادی پہلو کا تعلق ہے، تاریخ سے زیادہ مفید و دلچسپ کوئی چیز نہیں۔ اس کے بعد فلسفہ کا درجہ ہے جس سے ہرچند ہمیں ایک قوم کے صرف قوائے ذہنیہ کا حال معلوم ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہم اپنی رفتار کا اندازہ دوسروں کی ذہنی رفتار کو سامنے رکھ کرآسانی سے کر سکتے ہیں، اس لئے فلسفہ کا مطالعہ بھی سود مندی کے لحاظ سے کم درجہ کی چیز نہیں۔

    یہ تو ہوا لٹریچر کا وہ حصہ جسے ہم ٹھوس یا وزنی کہتے ہیں، رہ گیا اس کا دوسرا حصہ جسے لائٹ لٹریچر یا ادب کہتے ہیں، وہ نہ صرف اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ وہ ہمارے جمالیاتی ذوق کو پورا کرنے والا ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ ایک قوم کے تخلیقی ادب (Creative Literature) کا صحیح اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے، وہ فنون ہوں یا ادبیات، لطافت سے ان کو اسی وقت نسبت دی جا سکتی ہے، جب کوئی قوم انتہائی عروج کو پہنچ کر محض جذبات کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ ادب کا ذوق جس میں شاعری، افسانہ نویسی اور تمثیل نگاری داخل ہیں، ایک قوم کی تاریخ میں اس وقت پختہ ہوتا ہے جب وہ تنازع للبقا کی منازل سے گزر کر اپنی جسمانی اور ذہنی خستگی دور کرنے کے لئے سکون کی طلبگار ہوتی ہے اور چونکہ حیات قومی کا یہ دور صرف نزاکت خیال سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے ہم ایک قوم کے ادب لطیف کو دیکھ کر بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کارزار عالم میں کتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد اس نے کتنی جلاء ذہنی حاصل کی اور اس کے احساس و جذبات کی نزاکت و لطافت اس کی زندگی کے کن کن نشیب و فراز کی ممنون ہے۔

    یوں تو ایک قوم کی مخصوص نفسیات کا حال ہمیں اس کے لٹریچر کے مختلف شعبوں سے معلوم ہوتا ہے لیکن عمومی طور پر اس کا علم صرف ادب لطیف ہی کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور اس لئے لائٹ لٹریچر کے مطالعہ کے لئے از بس ضروری ہے کہ ہمیں کسی قوم کی ذہنی و اجتماعی زندگی کا بھی علم حاصل ہو۔ اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ادب لطیف کے سمجھنے کے لئے تنہا جمالیاتی ذوق ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ نہایت وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے اور اسی کے ساتھ کھوٹے کھرے کو پرکھنے کی بھی، جسے اصطلاح میں نقد و انتقاد کہتے ہیں۔

    اصول نقد 
    ادبیات کے مطالعہ کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہم چیز جو نہ صرف اپنے ذوق کی تسکین بلکہ دوسروں کے نتائج فکر کی قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے بھی از بس ضروری ہے، اصولاً اس فن کو جاننا ہے جسے انگریزی میں (Criticism) کہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ ہے جس کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں، اردو میں عام طور پر اس کا ترجمہ تنقید کیا جاتا ہے لیکن زیادہ صحیح لطف نقد یا انتقاد ہے، جس کا مفہوم پرکھنا یا جانچنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے نقاد کہتے ہیں۔

    ادبیات میں سب سے زیادہ بلند چیز تخلیقی ادب (Creative Literature) ہے جس سے مراد زندگی کی تشریح ہے، اس لئے ایک بلند انتقاد کاصحیح مدعا یہ ہونا چاہئے کہ ادبیات کی تمام ان صورتوں پر غور کرے جن کے ذریعہ سے زندگی کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس غور سے جو نتیجہ ہو وہی ایک نقاد کا فیصلہ کہلائے گا۔ میتھو آرنلڈ کہتا ہے کہ انتقاد ایک بے لاگ کوشش ہے اس چیز کے بہترین حصے کو سیکھنے اور نمایاں کرنے کی جو دنیا کے دائرہ علم و خیال سے باہر نہ ہو۔ اس سے مراد اس کی صرف زندگی کا مطالعہ ہے اور اس مطالعہ کے مختلف طریقوں اور اصولوں پر گفتگو کرنا۔

    ادبیات میں تین مختلف قوتیں سر گرم کار پائی جاتی ہیں، ایک قوت تصنیف، دوسری قوت لذت اندوزی اور تیسری قوت انتقاد، ان تینوں قوتوں میں سے اول الذکر دو قوتوں کا وجود پہلے پایا جاتا ہے اور اس کے بعد قوت انتقاد اپنا کام کرتی ہے۔ جو نہی ایک شخص کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ ایک سے زائد چیزوں میں سے کسی خاص چیز کو ترجیح دینا چاہئے، انتقاد شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ذوق نقد بالکل فطری چیز ہے اور اس کا وجود ابتداء ا ٓفرینش سے پایا جاتا ہے لیکن صدیوں کے متواتر انقلاب کے بعد باقاعدہ علم کی صورت اس نے گزشتہ صدی میں اختیار کی ہے۔

    عربوں میں یہ فن صرف ابتدائی مدارج تک محدود رہا اور اسماء الرجال واصول حدیث کو مذہبی لٹریچر سمجھ کر علیحدہ کر دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے نقد کا موضوع صرف لغت تھا۔ مغربی مصنفین نے اس فن میں بکثر ت کتابیں لکھی ہیں لیکن اولیت کا فخر اہل یونان کو حاصل ہے اور اس کے بعد اہل روما کو۔ جب فتح قسطنطنیہ کے بعد یونان و رومہ کے اہل علم نے اطالیہ میں سکونت اختیار کی تو وہاں کے امرا نے علوم و فنون کی اشاعت میں بہت مدد کی۔ اور انہیں فنون میں سے ایک فن نقد بھی تھا۔ جب زمانہ ما بعد میں علوم و فنون کی کثرت ہوئی اور ایک ہی موضوع پر لوگوں نے مختلف رائیں پیش کرنا شروع کیں تو ضرورت ہوئی کہ ان مختلف خیالات اور دبستانوں کے سمجھنے کے لئے کوئی صحیح معیار قائم کیا جائے۔ چنانچہ یورپ کی عام قوموں نے اس طرف توجہ کی، خصوصیت کے ساتھ فرانس، جہاں کے لوگوں کو غور و فکراور ذہن رسا کے ساتھ ساتھ ظرافت کا بھی حصہ ملا ہے، جو فن نقد کے لئے بہت ضروری ہے۔

    اس فن نے ادبیات کو کس حد تک متاثر کیا، اس کی تفصیل کا موقع نہیں لیکن مختصراً یہ کہنا ضروری ہے کہ عہد حاضر میں فن کے شرائط کیا ہیں اور ایک نقاد بننے کے لئے کن اصولوں کی پابندی لازم ہے۔ اگلے زمانہ میں نقد کامدار صرف وہ اصول و قواعد تھے جو متقدمین کے علوم و فنون سے اخذ کئے گئے تھے۔ مثلاً اگر کوئی شخص علم لغت پر کوئی کتاب لکھتا تو وہ اسی وقت صحیح مانی جاتی جب ائمہ لغت کے کلام سے ماخوذ ہوتی یا ان کے مقررہ اصول پر مرتب کی جاتی، کیونکہ قدما کے اصول لا زاوال حقیقت تسلیم کئے جاتے تھے۔

     لیکن اٹھارہویں صدی سے علوم و فنون کا نیا دور شروع ہوتا ہے، کیونکہ اس زمانہ میں فنون کی ترقی کا مدار صرف بحث و تجربہ قرار پایا، وہ عہد جب ارسطو کے اقوال ایک ناقابل انکار حقیقت تسلیم کئے جاتے تھے، گزر گیا، اور دنیا جدید تمدن کے ساتھ ساتھ کورا نہ تقلید اور قدما کے تسلط سے آزاد ہو کر بجائے اصول ماثورہ کے صرف تجربات، مشاہدات اور بحث و نقد کو معیار صداقت سمجھنے لگی۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ تمام علوم و فنون میں ترقی ہونے لگی، اور ایک ایک مسئلہ پر بڑی اہم کتابیں تالیف ہونے لگیں۔ انہیں میں سے ایک فن نقد بھی ہے، جس نے ایک مستقل صورت اختیار کر لی ہے۔

    اس فن کی غرض صرف یہ ہے کہ تصانیف اور ان کے موضوع سے بحث کی جائے اور مصنف و زمانہ تصنیف کی با ہمی مناسبت ظاہر کر کے ان کتابوں سے مقابلہ کیا جائے جو کسی مخصوص موضوع پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں لکھی گئی ہیں۔ علمی رایوں پر اظہار کرنا نقاد کا کام نہیں ہے کیونکہ نقاد کے لئے ہر موضوع میں مہارت تامہ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ ہر عہد اور ملک کی علمی تاریخ سے اس کا آگاہ ہونا یقیناً لازم ہے کیونکہ فن نقد اور تاریخ علم و ادب میں با ہم بہت ربط پایا جاتا ہے۔

    فن نقد کے تین اغراض ہیں، تشریح، حکم اور تعین مراتب۔ جو شخص کسی کتاب پر نقد کرے، اسے چاہئے کہ پہلے اسے غور سے سمجھ لے اور اسی کے ساتھ اس موضوع کی اور کتابوں کا بھی مطالعہ کرے کیونکہ بغیر اس کے وہ کتاب زیر نقد کا کوئی درجہ متعین نہیں کر سکتا۔ متقدمین کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی کتاب پر نقد کرتے تھے تو صرف اس کے موضوع اور مضامین پر نگاہ ڈال یتے تھے اور معانی و لغت، صرف و نحو کی حیثیت سے اس پر نظر نہ کرتے تھے لیکن موجودہ فن نقد بہت بلند ہے۔ آج جب کوئی شخص نقد کرتا ہے تو اسے یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ علم و ادب کی تاریخ میں یہ کتاب کس درجے میں رکھے جانے کی مستحق ہے اور اس کے مضامین کو موضوع سے کہاں تک مناسبت ہے، عصر حاضر سے اس کا کیا تعلق ہے اور تصنیف کو مصنف اور اس کے ماحول سے کیا نسبت حاصل ہے۔

     سب سے پہلے وہ مصنف کے سوانح حیات پر نگاہ ڈالتا ہے کہ اس کے وطن کا جغرافی وقوع اور ماحول کی کیا حالت ہے، وہ کس خاندان یا قوم سے تعلق رکھتا ہے، کن لوگوں میں اس نے تربیت پائی، اس کا خاندان غریب تھا یا دولتمند، اس کا لڑکپن اور شباب کن افکار و مشاغل میں بسر ہوا، زمانہ اس کے موافق تھا یا مخالف، اس نے تحصیل علم کہاں کی، کن لوگوں سے استفادہ کیا، اس کی زندگی کس طرح بسر ہوئی، کسی سے اس کو محبت ہوئی یا نہیں، زندگی اسے عزیز تھی یا نہیں، وطن سے باہر اس نے سیاحت کی یا نہیں، زندگی میں اسے کیا کیا تجربات حاصل ہوئے، لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک کیا رہا، اس کی دماغی حالت و جسمانی صحت کیسی تھی۔ الغرض نقاد ان تمام باتوں سے با خبر ہو کر کتاب کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتا ہے اور اسی کا نام تشریح ہے۔

    اس کے بعد حکم کادرجہ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ نقاد اپنے ذاتی میلان اور انفرادی ذوق سے علیحدہ ہوکر کتاب کے موضوع کے لحاظ سے منصفانہ رائے قائم کرے۔ یعنی اگراس کی طبیعت ڈراما کو پسند کرتی ہے تو خواہ مخواہ ناول کی برائی نہ کرے۔ اگر اسے ابو نواس کی خمریات سے دلچسپی ہے تو عنترہ کی رزمیات پر اعتراض نہ کرے، اگر اسے میر انیس کے مراثی اچھے معلوم ہوتے ہیں تو وہ غالب کے تغزل پر معترض نہ ہو، بلکہ ہر تصنیف کو منصفانہ نگاہ سے دیکھے اور اس کے محاسن و معائب پر انصاف سے قلم اٹھائے۔ سوائے اظہار حقیقت کے کوئی اور غرض اس کے پیش نظر نہ ہو۔ اسی لئے بہترین نقاد وہی ہو سکتا ہے جو کسی خاص فن یا موضوع سے دلچسپی نہ رکھتا ہو بلکہ عام علمی مذاق رکھتا ہو۔

    حکم کے بعد تعین مراتب کی منزل آتی ہے۔ اگر ہم آتش، مومن و غالب کے حالات زندگی، شخصی ضروریات اورمخصوص اسالیب بیان کر کے ذوق سلیم سے کام لیں تو ان میں سے ہر ایک کا درجہ متعین کرنا پڑےگا۔ یہی وہ چیز ہے جو فرائض نقاد میں سب سے زیادہ نزاکت و اہمیت رکھتی ہے اور اسی لئے اصول نقد مرتب کرنے کی کوشش عرصہ سے جاری ہے، مگر کسی مخصوص قسم کے ادب کو سامنے رکھ کر اصول کے مکمل ہونے کی ذمہ داری نہیں لی جا سکتی۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ اصول خوبیوں کا مقابلہ کرکے مرتب کئے جاتے ہیں۔ اگر نظریہ ادب پہلے عقلی اصول کے مطابق مقرر کر لیا جائے تو نقدمیں بھی آسانی ہو سکتی ہے اور اس کا بھی کوئی اصول مستنبط ہو سکتا ہے لیکن یہ شاید اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ادبیات کا وجدانی پہلو محو ہو کر اس کی بنیاد یکسر افادیت پر قائم نہ ہو اور یہ نہ صرف دشوار ہے بلکہ ادبیات کی لذت اندوزی کو محو کر دینے والا بھی ہے۔

    اس فن کے تاریخی پہلو پر جس وقت غور کیا جاتا ہے تو ہمیں اس کے دو شعبے نظر آتے ہیں۔ ایک نظری اور دوسرا عملی۔ سترہویں صدی تک انفرادی طور پر کتابوں اور مصنفوں کے انتقادی تبصرے ہم کو نہیں ملتے، البتہ نظریوں پر منتشر خیالات ضرور نظر آتے ہیں مگر ارسطوؔ، ہوریسؔ اور بوئیلو وغیرہ نے شاعری پر جو اصول نقد مرتب کئے تھے اور جن کو (Poetics) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، بیشک زمانہ قدیم کی اہم چیزیں ہیں۔ ان مصنفین نے دو کوششیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے ادب یا شاعری کی تعریف متعین کی اور دوسرے یہ کہ نظموں کی قسمیں کر کے رزمیہ، حزنیہ اور انبساطیہ منظومات کے قواعد و اصول علیحدہ علیحدہ مرتب کئے۔ یہ قواعد بظاہر اصولی (Pragamtic) معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ فی الحقیقت نتیجہ ہیں صرف استقرار (Induction) کا۔

    سب سے پہلے ارسطو نے یونان کے بڑے انشا پرداز وں کی طرز تحریر کو دیکھ کراصول انتقاد مرتب کئے۔ مثلاً یہ یہ دیکھ کر کہ ہومر کی نظموں میں پہلے تمہید ہوتی ہے، اس کے بعد اصل بیان اور پھر نتیجہ۔ ارسطو نے طے کر دیا کہ ہر رزمیہ نظم کو انہیں تین حصوں میں منقسم ہونا چاہئے۔ ارسطو کے بعد ہوریس وغیرہ نے کچھ اور اصول مرتب کئے اور سولہویں صدی تک ان کی پابندی بھی کی گئی لیکن آخر کار یہ بھی بدلے اور نئے اصول بنائے گئے۔ چنانچہ سولہویں صدی کے ایک نقاد ارٹینو (Artino) کا خیال ہے کہ ’’شخصی و انفرادی ذوق کے علاوہ نقد و انتقاد کا کوئی معیار نہیں ہے۔‘‘ اناطول فرانس ایک اچھے نقاد کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے کہ، ’’بہترین نقاد وہ ہے جو ادبیات کے شاہکاروں کے سلسلہ ذکر میں خود اپنی روح کے کارنامے بیان کرتا ہے، بعض ایسے نقاد بھی ہیں جو اپنی تصانیف کو سائنس کا درجہ دیتے ہیں۔‘‘ 

    ایک اسکول انتقاد کا اور ہے جو اسے بالکل وجدان یا جمالیات سے متعلق سمجھتا ہے۔ چنانچہ مسز پفر ہو (Mrs. Pufferhoe) کا خیال ہے کہ انتقادکا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ ایک تصنیف میں کیوں دلکشی پائی جاتی ہے ا ور وہ کیونکر پیدا ہوئی۔ گویا اس کے نزدیک انتقاد کا دائرہ صرف جمالیاتی دائرہ ہے اور اسی کے اندر رہ کر جذباتی تشریح و تجزیہ کرنا چاہئے۔

    مولٹن نے عہد حاضر کے فن انتقاد پرلکھتے ہوئے اس کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے ایک استقرائی یعنی (Inductive) جس کے ذریعہ سے ہم کسی کتاب کے موضوع کی تشریح کر کے اس کا تصنیفی درجہ متعین کرتے ہیں۔ دوسری قسم تفکری یعنی (Speculative) ہے اس سے مراد ادب کے فلسفیانہ پہلو پر غور کرنا ہے اور اسی لحاظ سے مخصوص نظریوں کو قائم کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنا، تیسری قسم تشریعی یا (Judicial) ہے جو کسی ادبی تصنیف کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کو صرف مفروضہ اصول انتقاد پر منطبق کرتی ہے۔

    ہر چند یہ بالکل درست ہے کہ ہم کو کسی تصنیف پر نقد کرنے کے لئے پورا مواد جمع کر کے اس کا تجزیہ اور اس کی دلکشی و لذت اندوزی کی صراحت کرنا چاہئے لیکن ساتھ ساتھ ہم کو یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ وہ تصنیف واقعی کوئی ایسی چیز ہے جس سے انسانی روح لذت حاصل کر سکتی ہے اور اس اکتساب لذت کے اسباب کیا ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود اپنے لئے چند اصول مرتب کر لیں کیونکہ آج کل جبکہ فن انتقاد کے متعدد اسکول پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے علیحدہ قواعد مقررکرلئے ہیں، ایک آزاد نقاد کے لئے بہترین طریقہ یہی ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو کسی اسکول کا پیرو نہ سمجھے اور خود اپنی قوت تمیز سے کام لے کرحسن و قبح کا فیصلہ کرے۔

    یہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ نقاد کے لئے ضروی نہیں کہ وہ کسی خاص فن یا موضوع سے گہری دلچسپی رکھتا ہو بلکہ اس کو ایک عام علمی و ادبی ذوق رکھنے والا انسان ہونا چاہئے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس علمی و ادبی ذوق کو اتنی وسعت دے دیں کہ ہر وہ شخص جو ایک عمومی آگاہی مختلف علوم و فنون کی رکھتا ہے، وہ ہر علم و فن کی کتاب پر نقد کر نے کا اہل قرار پائے، یایہ کہ جوکسی ایک ہی مخصوص فن سے گہری دلچسپی رکھتا ہے وہ اس فن کی کتابوں پر نقد کرنے کا مستحق قرار نہ پائے۔ ایسے لوگ جو تمام علوم سے دلچسپی رکھتے ہوئے ان کی ضروری آگاہی رکھتے ہوں، بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لئے قابل عمل صورت صرف یہی ہے کہ ہر شخص کے ذوق و اکتساب کے لحاظ سے انتقادی خدمت کی توقع اس سے کرنا چاہئے۔

    ہو سکتا ہے کہ ایک شخص فلسفہ کا ذوق رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ادبیات کے حسن و قبح کے سمجھنے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ پس ایسی صورت میں وہ یقیناً فلسفہ کی کتابوں پر نقد کرنے کا زیادہ مستحق سمجھا جائےگا۔ لیکن ادبیات پر گفتگو کرنے سے بھی اسے باز نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہ یقیناً ظلم ہوگا کہ ایسا شخص جو شاعری سے بالکل لگاؤ نہیں رکھتا، اس کو مومنؔ و غالب کے موازنہ کا اہل سمجھا جائے، محض اس لئے کہ فلسفیات میں اس کی نکتہ آفرینیاں بہت مشہور ہیں۔

     ادبیات یا شاعری میں دو لفظ اکثر سننے میں آتے ہیں ایک سخن گو اور دوسرا سخن فہم۔ میری رائے میں دونوں لفظ اصطلاحات انتقادات میں شامل کر لینے کے قابل ہیں کیونکہ نظری و عملی انتقاد کے سلسلہ بحث میں ان سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اگر ایک شخص اچھا شاعر ہے تو ہم اسے سخن گو کہتے ہیں مگر دوسرا جو شاعر نہیں ہے مگر ذوق شاعری پاکیزہ رکھتا ہے، اسے سخن فہم کہتے ہیں۔ پھر جس طرح ہر سخن گو کو سخن فہم ہونا بھی لازم نہیں اور اس کی نمایاں ترین مثال ہم میر کو پیش کر سکتے ہیں کہ یوں تو وہ سخن گوئی کے لحاظ سے یقیناً خدائے تغزل ہے لیکن جس وقت وہ خود اپنے اشعار کا انتخاب پیش کرتا ہے تو ہم کو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا جن اشعار کو میر کے نشتر سمجھتی ہے، وہ خود میر کے نزدیک دل میں پھانس چبھونے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔

     میں نے قوت انتخاب کا یہ نقص اکثر اچھے شعرا میں پایا ہے اور نفسیاتی حیثیت سے غور کرنے کے بعد اس کو بالکل قرین عقلی پاتا ہوں کیونکہ شاعر کی حیثیت ایک ایسے آرٹسٹ کی ہے جو اپنی ہر کوشش میں اپنی ساری روح صرف کر دیتا ہے اور اپنے تمام ادب پاروں کو وہ اسی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسے باپ اپنی متعدد اولاد کو دیکھتا ہے۔ اس لئے جب اس کو خود اپنے کلام کے انتخاب پر مجبور کیا جائےگا تو یقیناً وہ کوئی صحیح رائے نہ دے سکےگا۔ اسی لئے انتقاد کا حق ادا کرنے کے لئے یہ ضروی ہے کہ گریبان میرا ہو اور ہاتھ آپ کا، میں خود اپنے ہاتھ سے اپنے گریبان کی وسعت و تنگی کی داد نہیں دے سکتا۔

    ادبیات اور خصوصیت کے ساتھ شاعری پر تبصرہ کرنے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جھگڑے کی چیز ذوق کا سوال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی چیز آپ کے لئے پسندیدہ ہو اورمیرے لئے ناگوار، ایک ہی انداز بیان مجھے بھاتا ہو اور آپ کو پسند نہ ہو اور اس لئے انتقادیات میں یہ مسلمہ اصول مان لیا گیا ہے کہ جس وقت سوال صرف ذوق کا پیدا ہوگا تو ہمیں طبقہ خواص کو سامنے رکھنا پڑےگا، اور یہ اصول نقد تقریباً وہی ہیں جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اورجن کی بنیاد وجدان و نفسیات دونوں پر قائم ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے