ادیب، حب الوطنی اور وفاداری
ملک اور قوم سے وفاداری اور حب وطن کا مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن عصر جدید میں اس مطالبے کی نوعیت میں بھی فرق آ گیا ہے اور وفاداری اور حب الوطنی کے تصور میں بھی۔ اخلاقیات کی حدوں سے نکل کر اب یہ خالص سیاسی مسئلہ بن گیا ہے جسے حسب ضرورت مذہب اور اخلاق کی شکل بھی دے دی جاتی ہے لیکن حقیقتاً اس کی بنیاد سیاسی ہوتی ہے۔ اس مطالبے کا تذکرہ علم الاخلاق کے صحیفوں میں یا علمائے دین کے موعظوں میں نہیں بلکہ قومیت کے موضوع پر لکھی ہوئی سیاسی کتابوں اور قومی رہنماؤں کی تقریروں میں پایا جاتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اخلاقیات کا ایک دبیز غلاف چڑھا ہوا ہونے کے باوجود کبھی محض اخلاقی مسئلہ نہ تھا لیکن اس کی یہ نوعیت نہ تھی جو آج ہے۔ اس کی ابتدا کا سراغ لگانا تو مشکل ہے لیکن سیاسی اخلاقیات میں اس کی ابتداء یورپ میں شریک ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اور تحریک ’’اصلاح دین‘‘ کے بعد سے ہوتی ہے، جب قومی حکومتیں اپنے نئے جارحانہ قومی تصور کے ساتھ وجود میں آئیں۔ وفاداری، غداری، حب الوطنی اور قوم پرستی یہ محض الفاظ یا غیرمرئی تصورات نہیں ہیں۔ ان کی تہیں کھولی جائیں توان کے رشتے حکومتوں کے نصب العین اور حاکم طبقہ کے مفاد کے تحفظ سے مل جائیں گے۔
یہی چیز اسے ایک خطرناک حربہ بناکر حاکم طبقہ اور اس کے کاسہ لیسوں کے ہاتھ میں دے دیتی ہے اور وہ وفاداری اور حب الوطنی کا نام لے لے کر عوام کا خون چوستے اور مسرور ہوتے رہتے ہیں۔ طبقاتی نظام میں کوئی غیرجانبدار نہیں رہ سکتا، ہر شخص کو کسی نہ کسی طرف ہونا پڑتا ہے۔ حاکم طبقہ یا محکوم طبقہ اور ادیب اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے خود فریبی کا شکار ہو سکتا ہے اور اپنے فن کے ذریعے اپنی علاحدگی اور بے تعلقی کا ڈھنڈورا پیٹ سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی آزمائش کا کوئی موقع آتا ہے اس کی بے تعلقی کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے اور وہ یا تو کھلم کھلا حکومت کا ساتھی بن جاتا ہے یا بے تعلقی کے فریب سے باہر نکل کر ان قدروں کے عزیز رکھنے کا اعلان کرتا ہے جو تحکم اور اقتدارپرستی پر ضرب لگاتی ہیں۔ طبقاتی نظام زندگی میں اس بات کا تصور بھی محال ہے کہ حالات کی کسی منزل میں حاکم اور محکوم کے مفادات ایک ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک منطقی پہلو کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک ایسی شکل بھی رونما ہو سکتی ہے کہ ادیب اپنے طبقاتی رجحان یا کسی اور سبب سے پر خلوص طور پر حکومت کا اور نظریہ حکومت کا ہم خیال ہو، ایسی حالت میں کیا اس کی ادبی دیانت داری کا تقاضا نہیں ہوگا کہ وہ انہیں نظریات کی اشاعت کرے جنہیں وہ صحیح سمجھتا ہے؟ لیکن غور کیا جائے تویہ کوئی ایسا اہم سوال نہیں ہے۔ یقیناً ایسے ادیب کو اس بات کا حق ہوگا کہ وہ اپنے خیالات کا سچائی کے ساتھ اظہار کرے لیکن ایسی صورت میں اسے اس بات کا حق حاصل نہیں رہتا کہ عوام کی نمائندگی کا دم بھرے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر جو لوگ حاکم طبقہ کو عوام دشمن یا مخصوص طبقاتی نظام کا علمبردار کہتے ہیں، انہیں اس بات کا اختیار بھی ہے کہ وہ اسے عوام دشمن قرارد یں۔
اسے دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر حاکم اور محکوم طبقہ میں مفاد کا تصادم ہو (اور یہ لازمی ہے) تو عوام کو نظر انداز کرکے صرف حکومت کی ترجمانی کرنا، اس کے اعمال و افعال کو حق بہ جانب ثابت کرنا یا ایسی حکومت اور ریاست سے وفادار رہنے کا مطالبہ کرنا صرف اخلاقی جرم اور بددیانتی نہیں ہے بلکہ ان طاقتوں کے ساتھ مجرمانہ سازش ہے جواپنے مفاد کے لئے عوام کو دبائے رکھنا چاہتی ہیں۔
کیا آج حکومت اور ریاست سے وفاداری کا مسئلہ انہیں ادیبوں نے نہیں اٹھایا ہے جو کل تک ادب کے غایتی ہونے پر ہنستے تھے؟ جو ادیبوں کی انسان دوستی کا مضحکہ اڑاتے تھے؟ جو عوام سے ہمدردی کے اظہار کو غیر ادبی موضوع قرار دیتے تھے؟ آج وہ ان تنکوں کا سہارا تلاش کر رہے ہیں جنہیں کل تک کمزور اور ہیچ سمجھتے تھے۔ ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ جو لوگ انقلابی قدروں سے بچنے اور زندگی کے عام مسائل سے بے تعلق رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ درحقیقت ذہنی طور پر اس نظام حیات کو قبول کر لیتے ہیں جس سے وہ الگ رہنے کے فریب میں مبتلا ہیں یا جس کی مخالفت عوام کرتے ہیں۔ ان کا سارا ذہنی انتشار، ان کی آسودگی اور الم کوشی کسی عظیم الشان یا اہم آفاقی بے ترتیبی کو دور کرنے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کا مقصد محض خودغرض تسکین جوئی ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں وہ عوام پر بے اعتمادی ظاہر کرتے ہیں اورانسان دوستی کے جذبے کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ خواص یا غیر معمولی انسانوں سے اپنے ذہنی رابطہ کا ذکر کرکے اپنی عوام دشمنی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ایسے ادیبوں کی بتے تعلقی، بے تعلقی نہیں رہتی جانبداری بن جاتی ہے۔ ایک طرح کی نراجی شخصیت کے اظہار کے باوجود ان کی محبت اور نفرت کا راز ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکالنا مقصود ہے کہ کوئی باشعور ادیب دیر تک سماجی کشمکش سے الگ تھلگ رہنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ان حالات کا ساتھ دیتا ہے جنہیں بدلنے ہی سے ملک اور عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اسے مجبوری کہا جائے یا قانون قدرت، ہے یہی کہ ادیب بھی عام انسانوں کی طرح ایک سماج میں پیدا ہوتا ہے اور سماج کے مختلف زینوں یا خانوں میں اس کی جگہ ہوتی ہے۔ اس کا تعلق کسی خاندان سے ہونا چاہئے، وہ کسی قوم (اور مذہب) سے تعلق رکھتا ہوگا، کوئی نظام حکومت ہوگا جس کی پابندی خوش و ناخوش اس کے لئے ضروری ہوگی۔ خاندانی رشتہ کے متعلق، قوم اورمذہب کے متعلق، حکومت اور ریاست کے متعلق اس کے خیالات کچھ بھی ہوں لیکن کچھ نہ کچھ خیالات ہوں گے ضرور، یہ خیالات روایتی بھی ہو سکتے ہیں اور انقلاب پسند بھی، محض تخیلی بھی ہو سکتے ہیں اور عملی بھی۔ ان کے متعلق محض ذہنی کیفیت سے ایک دنیا بنائی جا سکتی ہے اور عمل کے ذریعہ سے ان میں تبدیلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ادیب اپنی ساری انفرادیت پسندی، بے تعلقی اور مجذوبیت کے باوجود سماج سے تعلق رکھنے پر مجبور ہے۔
خاندانی زندگی میں پیدا ہونے والے رابطوں پر آج کل توجہ کم ہو گئی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد سے قومیت (اور ملت) نظام حکومت اور ریاست سے وفاداری کا سوال اتنا ابھر آیا ہے کہ لوگ اپنی لاشعور کی تاریک کوٹھریوں سے آنکھیں ملتے ہوئے نکل آئے ہیں اور حب الوطنی اور وفاداری کے نعرے لگاتے ہوئے نیم مدہوشی کے عالم میں بازاروں سے گزر رہے ہیں۔ عوام سے مخالفت اور انقلاب دشمنی کا جوجذبہ بے تعلقی کا خول چڑھائے ہوئے عام نگاہوں سے پوشیدہ تھا، وہ ان کے اندر سے باہر نکل پڑا ہے۔ ان پر ایک بحران سا طاری ہے اور اس بحرانی حالت میں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ قومیت اور حکومت کا مفہوم کیا ہے؟ حب الوطنی اور وفاداری کے حدود کیا ہیں؟ حالات میں تبدیلی کے لحاظ سے اس جذبے میں کتنا تغیر ہو سکتا ہے؟ آج جو بعض ادیبوں کے سینے میں جذبہ وفاداری کا سوتا پھوٹ پڑا ہے، وہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست یا حکومت سے وفاداری کوئی مطلق جذبہ نہیں ہے، وجدانی اور فطری چیز نہیں ہے، جبلت اور سرشت کا جزو نہیں ہے بلکہ سماجی حالات اسے جنم دیتے ہیں۔ سماجی حالات ہی کی روشنی میں اس کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہ کر سکےگا ہندوستان اور پاکستان دونوں طبقاتی سماج رکھتے ہیں اور طبقاتی سماج میں عام طور سے ایک طبقے کے مفاد میں دوسرے طبقے کا نقصان پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس طرح سماج میں تضاد رونما ہوتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مختلف طبقوں میں بہت کم چیزیں مشترک رہ جاتی ہیں۔ اس واضح حقیقت کا شعور حاصل کرنے کے لئے کسی مخصوص علم اور بصیرت کی ضرورت نہیں۔ اس حقیقت سے انکار تو کرتے نہیں بنتا تو بعض ادیب اسے کمتر درجہ کی چیز سمجھ کر نظرانداز ضرور کرنا چاہتے ہیں، گویا ان کی چشم پوشی سے وہ حقیقت بھی مٹ جائےگی۔
ایسی صورت میں ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ ایسے ادیب جو طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی حقیقتوں کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ اس سماج اور اس کی کشمکش کو برقرار رکھنے کے حامی ہوتے ہیں، لیکن اپنی دیانتداری، وسیع القلبی اور بلند نگاہی کا جھوٹا اثر ڈالنے کے لئے وہ اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ اگر کبھی بھولے بھٹکے ان کے قدم زمین کو چھوتے بھی ہیں تو ان کا غصہ کبھی طنز کی شکل میں، کبھی ذہنی برتری کے بھیس میں محکوم طبقہ ہی پر اترتا ہے۔ حکومت سے ٹکر لینے اور اس سے آنکھیں ملاکر اسے انصاف پر مجبور کرنے کی جرأت ان میں نہیں ہوتی۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وہ اپنی خاموشی اور علیحدگی سے کس طرح حکومت برطانیہ کے قدم مضبوط کرتے تھے اور آج اپنی وفاداری کے اعلان سے اپنی اپنی حکومتوں کی حمایت یعنی حاکم طبقہ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر آج عوام برسر اقتدار آ جائیں تو ایسے ادیب خودکشی کر لیں گے یا پھر انہیں کے قصیدہ خواں بن جائیں گے۔
بہرحال ہمارے طبقاتی سماج میں طبقوں کے الگ الگ مفاد، ان کے الگ الگ مذہبی تصورات، الگ الگ ذہنی خاکے، الگ الگ نصب العین اور الگ الگ جذبات وفاداری ہیں۔ اس لئے اگر کسی ریاست یا حکومت سے وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی ریاست سے وفاداری اور کن لوگوں کی وفاداری؟ کیا یہ صحیح ہے کہ بادشاہ سے غلطی نہیں ہو سکتی؟ ریاست غلطی نہیں کر سکتی؟ دیکھنا چاہئے کہ یہ عقیدہ کن لوگوں میں جنم لیتا ہے، اس سے کن لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے کسے نقصان؟ کیا ان سوالات پر غور کیے بغیر وفاداری کی نوعیت کا تعین کیا جاسکتا ہے؟
ریاست کیا ہے؟ سقراط کے زمانے سے اس پر بحثیں ہورہی ہیں۔ اس خواب کی اتنی مختلف تعبیریں پیش کی گئی ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے۔ کوئی اسے منشائے خداوندی بتاتا ہے، کوئی محض سماجی معاہدہ خیال کرتا ہے، کسی کے نزدیک ریاست ایک ناگزیر بدی ہے، کسی کے خیال میں ایک مقدس ادارہ، کوئی کہتا ہے کہ دنیا ازل سے حاکم ومحکوم میں بٹی ہوئی ہے، اشراف حکومت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ارذال محکوم بننے کے لئے، کوئی ثابت کرتا ہے کہ حکومت تو صرف محنت کشوں کی ہو سکتی ہے۔ اس طرح ریاست اور حکومت کے تصورات گڈمڈ ہو گئے ہیں اور بادشاہت کے استحقاقِ خدائی ہونے کے نظریہ سے لے کر کمیونزم اور پھر نراج تک نہ جانے کتنی شکلیں پیش کی گئی ہیں جن کی مکمل تشریح نہ یہاں ممکن ہے اور نہ میرے امکان میں ہے۔
میں تو صرف یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ ہر نظام حکومت میں ریاست سے وفاداری کے مطالبے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، حاکم اور محکوم کے حقوق و فرائض مختلف ہوتے ہیں، طبقات کے تعلقات مختلف ہوتے ہیں اوران سے جو ادارے وجود میں آتے ہیں ان کے دائرہ عمل مختلف ہوتے ہیں۔ ان حالات سے مختلف قسم کے ذہنی اور نفسیاتی فلسفیانہ اور اخلاقی تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ کوئی انہیں نہ دیکھنا چاہے تو اور بات ہے ورنہ انسانی تاریخ کا مطالعہ ان حقیقتوں کو غیر مشکوک شکل میں پیش کرے گا۔ ہاں ان کی پیچیدگیوں کو حل کرنا اور یقینی طورپر تعلقات کی نوعیت اور اثرات کے وزن کا معلوم کر لینا البتہ مشکل ہے۔
طبقاتی سماج میں آج لبرل قسم کی جمہوریتوں کا نام لیا جاتا ہے یعنی کہا جاتا ہے کہ ایسی جمہوریت سب سے اچھی ہے جو نہ طبقات کو مٹائے اور نہ کسی ایک طبقے کو سر چڑھائے، نہ تو خرابیوں کے دور کرنے کے لئے انقلاب کی حمایت کرے اور نہ آمرانہ انداز میں خامیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرنے ہی سے انکار کردے بلکہ آئینی اور قانونی حدود کے اندر یکساں حقوق دے۔ یہ صحیح ہے کہ کسی ریاست کے لئے یہ نظام حکومت، جمہوریت کا یہ نظریہ دوسرے قسم کے نظام حکومت کے مقابلہ میں زیادہ ترقی پسند اور مفید ہے لیکن جب عملی زندگی میں ہم ان کے افعال کا تجزیہ کرتے ہیں تو قول اور عمل میں بڑا فرق نظر آنے لگتا ہے۔ اور زیادہ تر تو یہی ہوتا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور اس طبقے کے ہاتھ میں پہنچ جاتی ہے جو ذرائع پیداوار اور تقسیم پر قبضہ رکھتا ہے۔ طبقاتی نظام میں ملکیت کا افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جانا ضروری ہے۔ اس لئے جمہوریت تو صرف نام کو رہ جاتی ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دور جدید میں جمہوریت کے تصور نے انسانی عظمت کے نئے نظریے پیش کئے ہیں، عوام کی بہبودی کا بھی تھوڑا بہت خیال رکھا ہے، حکومت میں انہیں کسی قدر حصہ بھی دیا ہے لیکن ان باتوں سے وہ تضاد دور نہیں ہوتا جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے بنیادی طور پر پیدا کر دیا ہے۔ اسے مٹانے کی کوشش میں اگر پلہ ایک طرف جھکا تو فاشزم پیدا ہوگی اور اگر دوسری جانب جھکا تو اشتراکیت۔ آئینی حکومت کے بعض افعال اور احکام ترقی پسند معلوم ہوتے ہیں، بعض رجعت پسند۔ برطانوی سیاست کے متعلق تو یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انگلستان میں ان کی حکومت ترقی پسند جمہوریت تھی اور ہندوستان میں شہنشاہیت ہی نہیں بلکہ فاشیت۔ اس لئے ریاست کا تصور ایک مطلق اور جامد ادارے کی حیثیت سے نہیں کیا جا سکتا، جس کے لئے ہر دور اور ہر حالت میں ایک ہی قسم کے احکام صادر کئے جا سکیں اور وفاداری کو محکوموں کا نصب العین قرار دیا جا سکے۔
وہ بات پھر بھی اپنی جگہ پر رہ جاتی ہے کہ ہر طبقہ ہر قسم کی ریاست کا وفادار نہیں بن سکتا۔ انسانو ں کو مشین نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ فاشزم چاہتی ہے۔ کسی شخص یا نظام حکومت کی اندھی اطاعت ہمیشہ اور ہر حال میں ممکن نہیں ہے۔ بس اس ریاست اور نظام حکومت کی طرف عوام بہ رضا و رغبت مائل ہو سکتے ہیں جوان کے حقوق کی نگہبان ہے، جوان کی ہے، جو ان کے لئے قائم ہے، جو فرد کو نہیں جماعت کو حاکم بناتی ہے، جو طبقاتی فرق اور استحصال کو مٹاکر نیا انسانی سماج پیدا کرتی ہے، جو اخلاقی قوانین اوپر سے عائد نہیں کرتی بلکہ زندگی کو اس طرح ترتیب دیتی ہے جس سے بہترین اخلاقی اصولوں کے مطابق رہنا انسان کے لئے ناگزیر ہو جائے۔ جو نفع خوری پر نہیں ضرورت اور ضرورت کی تکمیل کے تصور پر سماج کی بنیاد رکھتی ہے۔
جس کی ثنا خوانی ادیب اور شاعر صلہ کی امید اور جیل کے ڈر سے نہیں کرتے بلکہ جو خود ان کے دل میں زندگی کا ولولہ اور یقین پیدا کرتی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ عوام اور ریاست دوچیزیں نہیں ہیں۔ ایک کی آواز دوسرے کی آواز ہے۔ یہ جمہوریت کی اعلیٰ ترین شکل ہے اور محض خیالی نہیں ہے، انسان کا اجتماعی ارادہ اسے عمل میں لاسکتا ہے۔ سائنس اور علوم کی مدد سے کائنات کو اس طرح ترتیب دے سکتے ہیں کہ ایک کا نفع دوسرے کا نقصان نہ بن جائے۔
میں یہاں بہت سی فروعی بحثوں میں نہیں الجھوں گا، بس اتنا کہوں گا کہ ایسی ریاست کو عوام سے وفاداری کا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں، عوام کی وفاداری ہی نے تو اسے جنم دیا ہے۔ جو ریاست خواص اور عوام کی تفریق باقی رکھتی ہے اور ان کی عزت، ان کے دل ودماغ دوسروں کے ہاتھ بیچ دیتی ہے یا بیچنا چاہتی ہے، اس کو وفاداری کے مطالبہ کا حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے اور اس جگہ ملکوں اور حکومتوں کے نام لے لے کر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، اس آئینہ میں ہر ریاست اور ہر حکومت اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کا مردہ ضمیر ان باتوں کا احساس نہ کرے لیکن عوام اس کے چیخنے کی پروا کئے بغیر ایک بہتر زندگی تلاش میں آگے بڑھتے ہی رہیں گے۔
حب الوطنی اور وفاداری کی غیرسیاسی شکل سے یہاں بحث نہیں کیوں کہ حکومت اور اس کے جاں نثاروں کا مطالبہ اس حب الوطنی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جو کسی نہ کسی حد تک ہر شخص کے یہاں پائی جاتی ہے۔ بحث اس وفاداری کے تصور سے ہے جو نہ ظاہر ہو تو انسان حکومت کے دشمن اور غدار قرار دیے جاتے ہیں۔ اگر تاریخ سیاست پر غور کیا جائے تو وفاداری کا مطالبہ عام طور سے دو وقتوں میں شدت اختیار کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس وقت جب حاکم طبقہ کا مفاد عوام کی بیداری سے مجروح ہونے لگتا ہے، دوسرے اس وقت جب بیرونی حملے کا خطرہ ہو۔ یہ خطرہ فوجی خطرے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور محض ذہنی انقلاب کے ذریعے سیاسی انقلاب لانے کے لئے آمادہ کرنے کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
طبقاتی نظام میں حکومت کے مفاد اور عوام کے مفاد میں جو تصام ہوتا ہے، اس کا تذکرہ تو اوپر کی سطروں میں کیا جا چکا اور اس سلسلہ میں اس کی بھی وضاحت ہو چکی کہ وفاداری سے کیا مراد ہے، اب اس پر بھی نظر ڈالنا چاہئے کہ بیرونی حملے کے خطرے کے زمانے میں وفاداری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
اگر کسی ریاست کا نظام مملکت عوام کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ملک کے عوام بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دے کر ملکی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ حالانکہ ایسا وہ انتہائی درجہ کی مایوسی کی حالت ہی میں کر سکتے ہیں۔ ورنہ ہوتا یہی ہے کہ بیرونی حملے کے خطرے کے زمانے میں چھوٹے چھوٹے اختلافات دب جاتے ہیں یا حاکم طبقہ عوام کی مدد حاصل کرنے کے لئے انہیں کچھ مراعات دے کر خوش کر دیتا ہے اور سب مل کر حملہ آور کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ عوام چاہے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں نہ رکھتے ہوں لیکن ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور اس امید پر اپنے اجداد کے ورثے کی حفاظت کرتے ہیں کہ آئندہ اس میں سے انہیں بھی کچھ ملے گا۔ وفاداری کی اس شکل میں بھی مطالبے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عوام خود جانتے ہیں کہ ان کے حق میں کیا مفید ہے اور کیا مضر۔
وفاداری کی رٹ لگانے والے ادیب ان تمام باتوں کو نظرانداز کرکے محض حاکم طبقے کے مفاد کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ وہ اپنے خیالوں کو بہت سے اخلاقی، مذہبی، قومی اور نسلی لباس پہناتے ہیں۔ لیکن ان کا بنیادی جذبہ یہی ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حد سے آگے بھی نکل جاتے ہیں اور تمام حقائق پر پردہ ڈال کر اپنے ملک کو ان لوگوں اور ملکوں کے خلاف جنگ کرنے پر اکسانے لگتے ہیں جوان کے ہم خیال نہیں یا جن کا وجود ہی ان کے حاکموں کے مفاد کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ جنگ کا ذکر کرنا اور اس کے لئے اکساتے رہنے کا حقیقی مقصد یہ ہوتا ہے کہ سماج کا اندرونی تضا د، جو عوام کو بیدار کر رہا ہے، خطرے کی گھنٹی سن لینے کے بعد لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ رہ جائے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اپنے جائز حق کا مطالبہ کرکے حکومت کو مشکل میں مبتلا کردیں۔ اس لئے ان کے ذہن کو کسی بیرونی مفروضہ خطرے یا جنگ کی طرف موڑتے رہنا حاکم طبقہ اور اس کے ڈھنڈھورچیوں کا خاص مشغلہ بن جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی ترکیب نہیں ہے۔ قدیم فاتح شہنشاہوں اور فاشسٹ آمروں نے ان کے لئے اچھا خاصا سبق مہیا کر رکھا ہے۔
کل جب ایسے ادیبوں کے فاشسٹی رجحان کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا تو لوگ حیرت کرتے تھے، انہیں ترقی پسندوں کی صف میں گنتے تھے کیونکہ وہ تغیر کے خواہاں تھے (یہ صحیح پتہ نہیں کہ کس قسم کا تغیر) لیکن آج وہ خود اپنے منہ سے اس بات کا علان کرنے لگے ہیں کہ ادیب تواسی وقت ادیب ہو سکتا ہے جب وہ فاشسٹ ہو۔ اب تو کوئی یہ نہ پوچھے گا کہ جب ایسے ادیب وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں توان کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ جب وہ ترقی پسندی کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کے دل میں کس قسم کے جذبے کارفرما ہوتے ہیں۔
یہ ان کے بتائے یا سکھائے جانے کی بات نہیں ہے کہ ادیب کو وفادار رہنا چاہئے۔ یقینا ادیب اپنی ریاست کے وفادار رہیں گے مگر اس ریاست کے نہیں جو ان کی دشمن ہو، جو ان کے خوابوں کو چکنا چور کردے، جس کی حدوں کے اندر نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلایا جائے، جس میں کھلم کھلا فاشزم کی اشاعت کی جائے، وہ اس حکومت اور اس ریاست کے وفادار ہوں گے جو ان قدروں کو عزیز رکھتی ہے جنہیں انسانی قدریں کہا جاتا ہے، جو عوام کے ہاتھو ں حکومت کی عمارت کھڑی کرتی ہے، جو سرمایہ دار درندں کو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ لوگوں کا خون چوستے پھریں، جو بھوک اور بےروزگاری کا علاج کرتی ہے، جو غلط روی پر ٹوکنے والے کو پھاڑ نہیں کھاتی، جو لوگوں کے نسلی، مذہبی اور قومی جذبات بھڑکاکر انہیں مسلسل حقیقی حالات سے آنکھیں چرانے پر مجبور نہیں کرتی رہتی۔
یقینا ًادیب اپنی ریاست کے وفادار ہوں گے اگر وہ ان کی اپنی ریاست ہوگی، اگر وہاں محنت کرنے والوں کومحنت کا پھل ملےگا، اگر وہاں کے سارے بسنے والوں کو سچی جمہوریت، سچی تعلیم، روحانی ترقی، مادی خوش حالی اور قلبی آسودگی کی دولت دی جائےگی۔ وفاداری کے مطالبہ میں اور خود اپنی ریاست کے لئے وفاداری کا جذبہ پیدا ہونے میں بڑا فرق ہے۔
ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ملک کے اندر آسودگی اور اطمینان کا مطالبہ کریں تاکہ باہر کے خطرے کے وقت فطری طور پر لوگ متحد ہوجائیں۔ ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے عالمگیر انسانی نظام کی تشکیل کی خواہش کریں جس میں کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا دشمن نہ رہ جائے۔ مکیاولی، نیٹشے، مسولینی، ہٹلر اور گوئبلز کی پیروی کرنے والے ادیبوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکتی کہ انسان درندے نہیں، انسان ہیں، جو اپنے شعور اور اپنی کوششوں سے زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں اور بہتر بننے کی یہ خواہش فطری ہے۔ جو حکومت اور ریاست اس میں رکاوٹ ڈالے گی، انسان اس سے ضرور غداری کریں گے۔ اخلاق اور مذہب کے واسطے نسلی برتری کے جادو، غداری کے الزام، بیرونی خطروں کے بھلاوے عوام کو وفادار نہیں بنا سکتے۔ ایک ترقی پسند جمہوری نظام، آزادی، ترقی، آسودگی اور امن کا احساس انہیں وفادار بنائےگا۔ یہی عوام کی ضرورتیں اور خواہشیں بھی ہیں اور یہی ادیبوں کی بھی۔ اچھے ادیب کا انسان دوست ہونا ضروری ہے حکومت دوست ہونا ضروری نہیں، وہ حکومت سے غداری کر سکتا ہے، عوام سے غداری نہیں کر سکتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.