Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افسانے کی حمایت میں (۶)

شمس الرحمن فاروقی

افسانے کی حمایت میں (۶)

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    کردار


    قاری اس کی عمر بیس اور چالیس کے درمیان ہے۔ لمبا سفید کرتا اور علی گڈھ کاٹ کا نیچا پاجامہ پہنے ہوئے ہے۔ پاؤں میں ہوائی سلیپر، کاندھے پر ملگجے رنگ کا تھیلا۔ ایسے رنگ کو پرانے لوگ اگرئی یا ملاگیری کہتے تھے۔ اب شاید صرف ملگجا کہلائےگا۔ قاری کی آنکھوں سے ذہانت اور ذکاوت ٹپکتی ہے، چہرہ شگفتگی لئے ہوئے لیکن کچھ ستا ہوا سا ہے۔ آنکھوں میں کچھ سرخی ہے، گویا رات کو دیر تک جاگا ہو۔ کچھ خاص خوش حال نہیں معلوم ہوتا۔

    قاری بائیس چوبیس سال کا نوجوان، پتلون اور ٹی شرٹ میں ملبوس۔ اس کے گلے میں سونے کی زنجیر ہے لیکن بہت پتلی سی اور اس کی پیشانی پر کچھ صندل کے سے نشان ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ صبح پوجا کی تھی لیکن بعد میں بے خیالی سے منھ دھو لیا۔ نہایت تیز اور نہایت ذی علم معلوم ہوتا ہے۔

    قاری سفید ساری اور سیاہ بلاؤز میں ملبوس ایک قبول صورت خاتون۔ عمر کوئی ساٹھ سال۔ کسی یونیورسٹی کی پروفیسر معلوم ہوتی ہیں لیکن چہرے پر بہت نرمی ہے اور پورے تشخص پر علم کی کرنوں کا پرتو نظر آتا ہے۔ ان کے ایک ہاتھ میں کچھ کتابیں ہیں اور دوسرے ہاتھ میں طالب علموں کی دوچار کاپیاں۔ معلوم ہوتا ہے ابھی کلاس پڑھا کر چلی آ رہی ہیں۔

    ملحوظ رہے کہ یہ تینوں قاری دراصل ایک ہی شخص ہیں۔ اثنائے گفتگو میں کبھی کوئی شبیہ نظر آتی ہے، کبھی کوئی۔

    نقاد عمر ساٹھ سے ستر سال۔ ہلکے رنگ اور ہلکے کپڑے کا سوٹ پہنے ہوئے، آنکھوں پر چشمہ جس کے شیشوں کے پیچھے تیز ذہین آنکھیں روشن ہیں۔ سانولا رنگ، متوسط قد، چہرہ داڑھی مونچھوں سے تقریباً ڈھکا ہوا۔ بات کرنے کے دوران بار بار مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا ہے، گویا اسے اطمینان نہ ہو کہ سب بال بالکل برابر ہیں۔

    دونوں کی ملاقات یونیورسٹی لائبریری سے ملحق ایک سیمینار روم میں ہوتی ہے۔ کافی کا دور چل رہا ہے۔ تمباکو نوشی، پان خوری اور اس طرح کے تمام افعال سخت ممنوع ہیں۔ قاری چونکہ سگریٹ کا عادی ہے اس لئے اس کا ہاتھ بار بار اپنی جیب کی طرف جاتا ہے۔ کبھی کبھی وہ میز پر رکھے ہوئے تزئینی گلدان کو تمنا بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ کاش یہ ایش ٹرے ہوتا۔ گفتگو نہایت دوستانہ ماحول میں ہوتی ہے۔

    قاری جناب، آپ نے افسانے کی نوعیت کے بارے میں کئی باتیں ایسی کہی ہیں جن سے افسانے کے چاہنے والوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔۔۔

    نقاد معاف کیجئے گا، آپ کا قطع کلام ہوتا ہے، لیکن میں شروع ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری میرا مقصد ہرگز نہ تھا۔ میں نے تو اپنے خیال میں کچھ علمی نکات اٹھائے تھے، نظری تنقید کے میدان میں کچھ باتیں قائم کرنی چاہی تھیں۔ میرا خیال تھا اور ہے کہ علمی بحث سے کسی کی دل آزاری نہیں ہو سکتی، خاص کر جب نیت صاف ہو اور بحث واقعی علمی ہو۔

    قاری ٹھیک ہے۔ آپ یہی سمجھتے ہوں گے، لیکن افسانے کے چاہنے والوں کو یہ بات بہت بری لگی کہ آپ نے افسانے کو دوسرے درجے کی صنف سخن کہا، اور اس پر طرہ یہ کہ بعد میں خود آپ بھی افسانہ نگاری پر اتر آئے، یعنی آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے ایک ایسی صنف اختیار کی جس کے تئیں آپ کی دل میں تحقیر کا جذبہ ہے۔ پھر ایسی صنف کے ساتھ آپ کیا انصاف کر سکیں گے۔۔۔ ؟ خیر، اس بحث کو ابھی یہیں چھوڑتے ہیں۔ دل آزاری تو آپ نے کی اور ضرور کی لیکن یہ درست ہے کہ آپ کی نیت صاف تھی۔۔۔ ہاں، ممکن ہے اس میں کچھ شرارت کا شائبہ رہا ہو، یا آپ رام لعل مرحوم کے ساتھ کچھ چھیڑ کرنا چاہتے ہوں۔

    نقاد چھیڑ ہی سہی، لیکن رام لعل مرحوم نے اور دوسرے دوستوں نے بھی، میری چھیڑکا اچھا اثر لیا اور افسانے کی نوعیت پر نئے انداز سے بحثیں شروع ہوئیں اور تیس پینتیس سال گذر جانے کے بعد بھی وہ بحثیں جاری ہیں۔

    قاری جی ہاں۔ اور ممکن ہے ان بحثوں سے کچھ فائدہ بھی ہوا ہو، لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اصناف کی درجہ بندی ہوہی کیوں؟ عام انسان تو یہ خیال کرتا ہے کہ ہر صنف کی اپنی اہمیت ہے، اپنی وقعت ہے۔ کسی صنف کو برتر اور کسی صنف کو کمتر قرار دینا، بلکہ درجہ بندی کی بحث ہی چھیڑنا، کوئی کارآمد بات نہیں معلوم ہوتی۔ بھلا اس سے فائدہ ہی کیا ہے؟ ہرصنف کے اپنے تقاضے ہیں، اپنی صفات ہیں اور وہ اپنی جگہ مکمل اور اطمینان بخش ہیں، لہٰذا کسی صنف کو کسی صنف پر فوقیت دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

    نقاد اس کا ایک آسان جواب تو یہ ہے کہ اصناف ہوں گے تو ان کے درجے اور رتبے بھی ہوں گے، خواہ ان درجہ بندیوں سے کوئی فائدہ حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہ جواب اپنی جگہ مکمل تو ہے لیکن مطمئن نہیں کرتا، لہٰذا پہلے اس بات پر غور کر لیں کہ اصناف ہیں کیا اور ان سے فائدہ کیا ہے؟ اگر پورے ادب کو ایک نظام فرض کیجئے تو اصناف وہ تحتی نظام ہیں جن کا مجموعہ ’’ادب‘‘ نام کا نظام ہے یا اگر پورے ادب کو ایک مجلس یا بزم فرض کیجئے تو اصناف کی حیثیت اس مجلس یا بزم کے ارکان کی ہے یا اگر پورے ادب کو ایک ملک فرض کیجئے تو اصناف کی نوعیت ان علاقوں، یا صوبوں یا ریاستوں کی ہے جن کا مجموعہ ’’ادب‘‘ نام کا ملک ہے۔

    اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ جس طرح کسی نظام یا بزم یا ملک کے اراکین میں بعض باتیں مشترک ہوتی ہیں، اسی طرح کسی ادب کی تمام اصناف میں بعض باتیں مشترک ہوں گی اور اسی اعتبار سے ہر رکن کی کچھ انفرادی خصوصیات، کچھ انفرادی خوبیاں اور کچھ انفرادی خرابیاں بھی ہوں گی۔ دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اصولی طور پر تمام اراکین کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور ان کے فرائض بھی یکساں ہے اور کسی کو کسی پر فوقیت دینے کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔

    قاری (ہنس کر) اب آپ آئے راہ پر!

    نقاد لیکن اصولی طور پر فرائض اور حقوق کے یکساں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی نظام یا کسی وجود کے تمام اعضا و ارکان کا تفاعل بھی یکساں ہوگا۔ ملک کی تمثیل کو آگے بڑھائیں تو بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر ملک کے کسی علاقے میں کوئلہ پیدا ہوتا ہے تو ہم یہ توقع تو کر سکتے ہیں کہ اس کوئلے کا فائدہ پورے ملک کو پہنچے اور اپنے کوئلے کے ذریعے پورے ملک کو فائدہ پہنچانے کا مناسب صلہ اس علاقہ کو ملے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ملک کا ایک علاقہ کوئلہ پیدا کر رہا ہے تو اس ملک کے تمام علاقوں کا فرض ہے کہ وہ بھی کوئلہ پیدا کریں۔

    قاری (کچھ بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے) لیکن۔۔۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس علاقے سے ملک کو فائدہ کم پہنچتا ہے اسے دوسرے علاقوں سے کمتر ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ نہیں صاحب، میں یہ ملک والی تمثیل کیسے مان لوں؟ نہیں، ایسا نہ ہوگا!

    نقاد چلئے، ملک نہ سہی۔ ادب کو ایک نظام تو آپ کہیں گے؟

    قاری (کچھ سوچ کر) نہیں، نظام بھی صحیح تمثیل نہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی نظام کے تحتی نظام سب برابر درجہ رکھتے ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ ادب کے تمام اصناف یکساں اہمیت کے حامل ہیں، کسی کو کسی پر افضلیت نہیں۔

    نقاد (مسکراتا ہے) تو بات اب عقیدے پر آ گئی۔ اچھا فی الحال یہی مان کر چلتے ہیں کہ ادب کوئی نظام نہیں ہے، اور نہ اسے کسی ملک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ لیکن پھر ادب کو کیا قرار دیا جائے؟

    قاری کیا مطلب؟ کیا قرار دیا جائے، اس کا مطلب کیا ہے؟ کچھ قرار دینے کی ضرورت ہی کیا اور کیوں ہو؟

    نقاد لیکن ادب کو کچھ نام تو دینا ہی ہوگا۔ جیسے آپ آم کو کہتے ہیں کہ ایک پھل ہے، شیر کو کہتے ہیں کہ ایک جانور ہے، ہیرے کو کہتے ہیں کہ ایک پتھر ہے، اسی طرح، ادب کو آپ کیا کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟

    قاری (کچھ جھنجھلاکر) آپ فضول بحثیں اٹھانے میں بڑے ماہر ہیں۔ ادب کیا ہے؟ ادب۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ ایک۔۔۔ چیز ہے۔ نظام اور بزم اور ملک، یہ سب الجھاوے کس لئے؟ کیا ان کے بغیر ادب کی نوعیت سمجھ میں نہیں آ سکتی؟

    نقاد تھوڑا صبر سے کام لیجئے صاحب۔ یہاں الجھاوا کچھ نہیں ہے۔ ایک معمولی سی بات ہے۔ آخر جب آپ ادب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اسے کیا فرض کرتے ہیں؟ یعنی آپ اسے وجود کے کس خانے میں رکھتے ہیں؟ آپ ہر چیز کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں، یہ جانور ہے، کون سا جانور؟ شیر، یا بکری یا کچھ اور۔ یہ پرندہ ہے، کون سا پرندہ؟ بلبل یا کوا یا کچھ اور تو پھر اسی طرح ادب کے بارے میں بھی کوئی رائے رکھنا ضروری ہے کہ یہ کیا ہے؟ کیسے بنتا ہے، اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ وغیرہ۔

    قاری (پریشان ہوکر) جناب آپ بات میں بات پیدا کرتے ہیں، بال کی کھال نکالتے ہیں، پھر ہر کھال سے ایک نیا بال برآمد کرتے ہیں۔ آخر اس سب سے کیا فائدہ؟ ادب، ادب ہے۔ ہم سب دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ ادب ہے، یہ ادب نہیں ہے۔ ریل کا ٹکٹ ادب نہیں ہے۔ اخبار کی خبر ادب نہیں ہے۔ اقبال کی نظم ادب ہے۔ پریم چند کا افسانہ ادب ہے۔

    نقاد کسی تحریر پر مصنف کا نام نہ ہو تب بھی آپ پہچان لیں گے کہ یہ ادب ہے اور ادب ہی نہیں، افسانہ بھی ہے، بہت خوب۔ یہ پہچان آپ کو ملی کہاں سے؟ میں فی الحال مان لیتا ہوں کہ ریل کا ٹکٹ ادب نہیں ہے اور نہ اخبار کی خبر ادب ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اخبار کی کوئی رپورٹ یا خبر لے کر اس میں سے ایسی باتیں نکال دے جو خبر کے طور پر پہچانی جا سکتی ہوں یا جن سے پتہ چل سکتا ہو کہ یہ کسی اخبار کا تراشہ ہے، پھر وہ اسے ٹائپ کرکے اس پر ایک عنوان بھی ڈال دے اور آپ سے کہے کہ پہچانئے، یہ کیا ہے، تو آپ کیا کہیں گے؟ یہی نہ کہ یہ تو افسانے جیسا کچھ معلوم ہوتا ہے؟ لیکن آپ کہہ سکیں گے کہ یہ کس درجے کا افسانہ ہے؟ اور کیا کچھ نشانیاں مٹا دینے کے نتیجے میں اخبار کی رپورٹ ادب بن جائےگی؟

    قاری نہیں، ہرگز نہیں۔ ہم فوراً پہچان لیں گے کہ یہ اخباری رپورٹ قسم کی چیز ہے۔

    نقاد لیکن کس طرح پہچانیں گی آپ؟ آپ کے ذہن میں افسانہ نامی صنف کی کچھ پہچان تو ہوگی تبھی تو پہچانیں گی۔

    قاری ابھی میں نے کہا نا کہ میں خود بخود پہچان لوں گا۔

    نقاد (تھوڑا مسکراکر) اور فلمی گیت؟ اور میرا کا بھجن؟ وہ بھی آپ خود بخود پہچان لیں گے؟ آپ کو کیونکر معلوم ہوگا کہ فلاں بھجن محض فلمی گیت ہے اور فلاں بھجن کوئی ایسا بھجن ہے جس کی ادبی حیثیت بھی ہے؟

    قاری (کچھ گڑبڑاکر) فلمی گیت۔۔۔ فلمی گیت تو ادب نہیں ہے۔۔۔ نہیں نہیں، فلمی گیت بھی ادب ہو سکتا ہے۔۔۔ کیونکہ بعض فلمی گیتوں میں ادبی حسن بھی موجود ہے۔۔۔ (سوچتا ہے) کیونکہ۔۔۔ کیونکہ ہم خود بخود پہچان لیتے ہیں کہ یہاں ادبی حسن ہے۔ فلمی گیت فلمی گیت ہے اور۔۔۔

    نقاد میرا کا بھجن میرا کا بھجن ہے! لیکن اگر کسی گیت کے بارے میں آپ کو پہلے سے نہ معلوم ہو کہ وہ میرا کا گیت ہے یا کسی فلم کا گانا، تو کیا آپ خود بخود فیصلہ کر سکیں گے کہ یہ فلمی گیت ہے یا میرا کا بھجن؟

    قاری کیوں نہیں، جس طرح ہم خود بخود یہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ جانور شیر ہے اور وہ جانور بکری ہے، اسی طرح۔۔۔ اسی طرح۔۔۔ (سوچنے لگتا ہے) نہیں۔ یوں نہیں، اس کو یوں سمجھئے کہ شیر کی صفات ہمیں معلوم ہیں اور بکری کی صفات ہمیں معلوم ہیں۔۔۔ (ٹھہرجاتا ہے)۔۔۔۔ بکری کی صفات اور شیر کی صفات۔۔۔ (تھوڑا خشمگیں ہوکر) مگر ان باتوں میں وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟

    نقاد ایک فائدہ تو یہی ہے کہ ہمیں اشیا کے بارے میں جاننے اور انھیں انواع Categories میں تقسیم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انواع جتنی باریکی سے قائم کی جائیں گی، ہماری معلومات اتنی ہی زیادہ معتبر اور درست ہوں گی۔ ہم مختلف طرح کے جانور دیکھتے ہیں تو انھیں الگ الگ پہچاننے کے لئے ان کی صفات کی بنا پر ہم ان کی تجنیس کرتے ہیں، درندہ، گھاس کھانے والا، اڑنے والا اور گوشت کھانے والا، اڑنے والا اور گوشت نہ کھانے والا، رینگنے والا وغیرہ۔

     پھر چونکہ یہ تجنیسیں بھی ناکافی ٹھہرتی ہیں، کیونکہ ہر جنس یعنی ہر Class میں ہزاروں جانور آ جاتے ہیں، لہٰذا ہم ان میں مزید تفریقیں کرتے ہیں۔ مثلاً درندہ جس کے ناخون پنجوں کے اندر چھپے رہتے ہیں، جیسے بلی۔ پھر ہم مزید پہچان کے لئے مزید تفریق کرتے ہیں، مثلاً ناخونوں کو پنجوں کے اندر چھپائے رہنے والا وہ درندہ جو تنہا رہتا ہے، جیسے شیر۔ اس طرح ہم ہرنوع میں مزید باریکیاں دریافت کرتے ہیں اور انھیں کے اعتبار سے جانوروں کو مختلف انواع یعنی Categories میں رکھتے اور ان کے بارے میں کرتے ہیں۔

    قاری چلئے مان لیا، جانوروں کے بارے میں تو یہ نوع بندی کارآمد ہو سکتی ہے، لیکن اصناف ادب کے بارے میں ان منطق تراشیوں کی کیا ضرورت ہے؟

    نقاد ذرا بتائیے تو سہی کہ انواع کو پہچانے بغیر آپ کیونکر طے کر سکیں گے کہ جو تحریر آپ پڑھ رہے ہیں وہ نظم ہے، نثر نہیں؟ اور اگر نثر ہے تو افسانہ ہے کہ ناول ہے کہ داستان ہے؟

    قاری (جھلاکر) میں نے کہا نا کہ ہم اپنے آپ پہچان لیتے ہیں کہ کوئی تحریر نظم ہے کہ نثر ہے اور اگر نظم ہے تو کس قسم کی نظم ہے۔

    نقاد جی بہت خوب۔ کوئی تحریر غزل ہے کہ نہیں ہے، یہ پہچاننے میں کوئی شے آپ کی معاون ہوتی ہے؟

    قاری کیوں نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ غزل کا ہر شعر عموماً الگ الگ مضمون کا حامل ہوتا ہے۔ غزل کے مضامین عموماً عشق کی مشکلات اور معشوق کی دوری یا بےرحمی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ غزل میں عموماً ایک مطلع ہوتا ہے اور۔۔۔ اور۔۔۔ (دوسرا جملہ کہتے کہتے اس کی آواز ڈھیلی اور پست پڑنے لگی تھی۔ اب وہ بالکل چپ ہو جاتا ہے اور اپنے جوتوں کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔) 

    نقاد کہئے، رک کیوں گئے؟ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ غزل کے بارے میں یہ سب معلومات آپ کے ذہن میں وہبی طور پر موجود تھیں؟

    قاری ن۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسا تو نہیں۔۔۔

    نقاد یعنی ادب کے بارے میں یہ باتیں آپ نے دھیرے دھیرے کرکے سیکھیں۔ دھیرے دھیرے آپ کو معلوم ہوا کہ نثر کسے کہتے ہیں، نظم کسے کہتے ہیں، غزل کو نظم کا حصہ قرار دیں یا نثر کا وغیرہ۔ یہ باتیں آپ نے لوگوں سے سن یا سمجھ کر معلوم کیں، یا کسی کتاب میں پڑھ کرمعلوم کیں، یا کسی استاد سے سیکھیں، لہٰذا ادب کی اصناف کے بارے میں جاننا کم وبیش اسی طرح کی کارگذاری ہے جس طرح کی کارگذاری کے نتیجے میں ہم دنیا کی کسی شے کے بارے میں جانتے ہیں۔

    قاری (کچھ بھناکر) دھیرے دھیرے سہی، معلوم تو کر لیا۔ آپ نے کس طرح معلوم کیا کہ افسانہ دوسرے درجے کی صنف ہے؟ آپ ہمیں اس بات کی آزادی کیوں نہیں دیتے کہ ہم ادب کو اپنے طور پر پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔ یہ سب سوالات کیوں ضروری ہیں کہ غزل کیا ہے اور افسانہ کیا ہے اور ان میں سے کون برتر ہے؟

    نقاد ادب کو اپنے طور پر پڑھنا شاید ممکن نہیں ہے۔ سبھی پڑھنے والے کچھ مفروضات کے تابع ہوکر ادب پڑھتے ہیں۔ مثلاً یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ ادب کو کوئی شخص ’’اپنے طور پر‘‘ پڑھ سکتا ہے۔ لیکن ایسا ممکن ہو بھی، تو پہلے تو ہم ادب کو پڑھنے کے وہ طور سیکھیں جو ہمارے ادبی معاشرے میں رائج ہیں۔ اس کے بعد یہ نتیجہ نکالیں کہ ادبی معاشرے میں جو طور ادب پڑھنے کے رائج ہیں ہم ان سے مطمئن نہیں ہیں اور ہمیں اپنے طور تلاش کرنا چاہئے۔۔۔ فیصلے کی آزادی آپ کو بےشک ہے، لیکن فیصلہ کرنے کے لئے علم یا معلومات بہرحال ضروری ہے۔

    قاری آپ کی منطق تراشیاں کم نہ ہوں گی۔ لیکن آپ اتنا تو سمجھ لیتے یا ہمیں سمجھا دیتے کہ لوک گیتوں کے گانے والے اور سننے والے ادب کی تخلیق کرنے اور ادب سے لطف اٹھانے کے طور سیکھنے کے لئے کس یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے یا داخل کئے گئے تھے؟

    نقاد کسی بھی یونیورسٹی میں نہیں، یونیورسٹی کیا، ممکن ہے وہ مکتب بھی نہ گئے ہوں۔

    قاری تو پھر؟

    نقاد تو پھر کچھ نہیں۔ ادب پڑھنا سیکھنے کے لئے مکتب یا مدرسہ یا کالج یا یونیورسٹی شاید بہت اچھی جگہیں نہیں ہیں۔ ضروری تو ہرگز نہیں۔ آپ کا اتنا معاشرہ، خاص کر ادبی معاشرہ، سب سے سچا معلم ادب ہے۔

    قاری (زچ ہوکر) یہ بات ماننے کی نہیں ہے۔ لیکن چلئے مان لیا۔ بات تو آگے بڑھے۔ آپ کہہ رہے تھے کہ جس طرح تمام اشیا کو ہم پہلے جنس (Class)، پھر انواع (Categories) اور نسلوں (Species) میں تقسیم کرتے ہیں، اسی طرح ہم ادب کو بھی پہلے نثر ونظم میں اور پھر نثر ونظم کی مختلف اصناف (Genres) میں تقسیم کرتے ہیں اور ادبی معاشرہ یہ تقسیمیں طے کرتا ہے، یعنی ادبی معاشرہ طے کرتا ہے کہ کون سی اصناف ہمارے یہاں ہوں گی اور ان اصناف کی صفات کیا ہوں گی۔

    نقاد خوب۔ اب جب ہم نے معلوم کیا کہ ادب کئی اصناف کا مجموعہ ہوتا ہے تو ہمیں دو باتیں اور معلوم ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ تمام اصناف ادب میں وہ شے مشترک ہوگی جسے ہم عمومی طور پر ’’ادبیت‘‘ یا ’’اب پن‘‘ کہہ سکتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہر صنف ادب آپس میں مشابہت رکھتے ہوئے بھی ایک دوسری سے مختلف بھی ہوگی، کم از کم اتنی مختلف کہ ہمیں ایک صنف پر دوسری صنف کا دھوکا عموماً نہ ہو۔

    ظاہر ہے فن پاروں کو اصناف میں تقسیم کرنے اور مختلف متون کی اصناف متعین کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس بات میں ہے کہ کسی فن پارے یا متن کی صنف کا تعین ہمیں اس فن پارے یا اس متن کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کی تعبیر کرنے میں معاون ہوتا ہے یعنی کسی فن پارے یا متن کے ساتھ ہمارا معاملہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اسے کس صنف میں رکھتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہم کسی متن کو مثلاً غزل کی صنف میں سمجھ کر پڑھتے ہیں تو ہم اس متن سے ان صفات اور محاسن کا تقاضا نہیں کرتے جن کا تقاضا ہم مثلاً قصیدے سے کرتے ہیں۔ غزل کی خوبیاں قصیدے کا عیب ہو سکتی ہیں اور قصیدے کی خوبیاں غزل کا عیب ہو سکتی ہیں۔

    دوسری بات یہ کہ اصناف ہوں گی تو ان کی نوعیت کے بارے میں کلام تو لازمی ہی ہوگا لیکن اس سے بڑھ کر یہ کلام بھی درمیان آئےگا کہ کس صنف میں کیا ممکن ہے یعنی کسی صنف کے حدود کیا ہیں؟ اور ظاہر ہے جب حدود وممکنات کی بات آئےگی تو ہر صنف کو کسی درجے یا مقام پر رکھنے کا بھی سوال اٹھےگا، یعنی کوئی نہ کوئی یہ پوچھ دےگا کہ کون سی صنف یا اصناف دوسرے اصناف سے برتر ہیں اور کیوں؟

    قاری چلئے، مان لیا کہ اصناف کا تصور اور اصناف کی تقسیم اور پہچان ضروری ہے لیکن معاف کیجئےگا، یہ بحث تو بالکل فضول معلوم ہوتی ہے کون سی صنف برتر ہے اور وہ کس سے برتر ہے۔

    نقاد بے شک، عام قاری کے لئے یہ بحث بالکل بے معنی ہے کہ کون سی صنف برتر ہے اور کون سی کمتر۔ لیکن اصناف کی درجہ بندی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سب سے پہلے ارسطو نے کہا کہ المیہ شریف ترین صنف ہے۔ اس کے بعد رزمیہ، پھر اس کے بعد طربیہ۔ اس کی تو اصطلاحیں Tragedy اور Epic اور Comedy تھیں، لیکن ہم انہیں المیہ، رزمیہ اور طربیہ کہتے ہیں۔

    قاری چلئے ارسطو نے کہا ہوگا۔ ہم بھلا کیا ہر بات ارسطو کی مانتے ہیں؟

    نقاد نہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ارسطو اپنے متعدد پیرو چھوڑ گیا۔ پیرو اس معنی میں کہ اس کے بعد بھی بہت سے نقادوں نے اصناف کی درجہ بندی پر گفتگو کی ہے۔ عرب والے تو قصیدے کو اتنا اہم قرار دیتے تھے کہ کم وبیش ہربحث میں صرف قصیدہ گو کو خطاب کرتے تھے۔ عام شاعری کی بھی گفتگو ہو تو کہتے تھے، قصیدہ گو کو یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہئے۔۔۔ گویا باقی سب گھاس کھودتے ہوں۔ فارسی میں دسویں صدی کے امیر عنصر المعالی نے لکھا ہے کہ شاعری حاکم ہے اور نثر محکوم۔ اس کے کچھ بعد شمس قیس رازی بھی بار بار قصیدہ گو کو مخاطب کرتا ہے۔۔۔ یعنی عرب اورایرانی نقاد اور مفکر شاعری اور شاعری میں قصیدے کو اولین رتبہ دیتے تھے۔

    قاری یہ سب لوگ پرانے اورازکار رفتہ ہو چکے ہیں۔ ان کی بات سننا فضول ہے۔

    نقاد مغرب کو واپس آئیں تو شیلی ہمیں بتاتا ہے کہ شعر کی اہمیت اس درجہ ہے کہ شعرا دنیائے انسانی کے قانون ساز ہیں، اگرچہ لوگ اسے کھلے بندوں تسلیم نہیں کرتے۔ اس کا مشہور قول ہے، Poets are unacknowledged legislators of the world.

    اس نے یہ بات اپنے اس مضمون میں کہی تھی جسے رومانی شاعری کا ایک منشور کہا جاتا ہے۔ رومانیوں سے آگے ہیگل ہے، نطشہ ہے۔ یہ دونوں حضرات المیہ کو اعلیٰ ترین صنف سخن سمجھتے ہیں۔ نطشہ نے پوری تہذیب انسانی کو ذہنی افتاد کے دو منطقے قرار دیے تھے۔ ایک کو وہ اپولو سے منسوب کرکے Apolline کہتا ہے۔ اپولو کے مزاج میں تعقل، تفکر، روشن فکری اور اقتدار ہے۔ دوسرے کو وہ Dionysian کہتا ہے، یعنی شراب کے دیوتا ڈائیونیسس جیسا مزاج۔

     ڈائیونیسس کے مزاج میں عیش وعشرت، جذبات پرستی، کھیل کود کا جوش وخروش ہے۔ نطشہ کہتا ہے کہ المیہ کا مزاج اپولو صفت ہے اور طربیہ کا مزاج ڈائیونیسس صفت۔ ہندوستان کو دیکھئے تو یہاں پہلی تنقیدی کتاب بھرت منی کی ’’ناٹیہ شاستر‘‘ ہے۔ یعنی ہمارے یہاں شاعری یا کسی اور صنف کے بجائے ڈرامے کو اولین مقام کا حامل قرار دیا گیا اور ہندوستان میں تنقیدی کارگذاری وہاں سے شروع ہوئی۔

    قاری (ایسا لگتا ہے کہ قاری ان بڑے بڑے ناموں سے ذرا بھی متاثر نہیں ہے، اسں کے بشرے سے اکتاہٹ عیاں ہے۔) جناب، یہ کیوں ضرور ہے کہ ہم ان لوگوں کی تقلید کریں؟

    نقاد نہیں میں تقلید کی بات نہیں کہتا۔ میں تو آپ کو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اصناف سخن کی درجہ بندی کی کوششیں بہت پہلے سے ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی میری ایجاد نہیں ہے، بلکہ اب تو مجھے لگتا ہے کہ اس سلسلے میں جو باتیں میں نے کہی تھیں وہ کسی مغربی نقاد کی زبانی پہنچتیں تو لوگ چوں بھی نہ کرتے۔

    قاری صاحب وہ زمانہ لد گیا جب لوگ مغربی نقادوں کی دھونس کھا جاتے تھے۔ اب ہم آزاد ہیں۔ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔

    نقاد بہت عمدہ بات کہی آپ نے۔ اگر ہم لوگ ایسے استدلال قائم کرسکیں جن کی رو سے اصناف سخن کی درجہ بندی غیرضروری ٹھہرے تو میں بڑے شوق سے انھیں قبول کروں گا اور اگر ایسے استدلال قائم ہو سکیں جن کی روسے افسانے کا درجہ بہت بلند ٹھہرے تو میں انھیں بھی قبول کر لوں گا۔ ادب کا معاملہ تو صحیح معنی میں جمہوری معاملہ ہے۔ یہاں وہی صحیح مانا جاتا ہے، جسے لوگ صحیح مان لیں۔

    قاری تو پھر فیصلہ یہی رہا کہ ہمارا ادبی معاشرہ افسانے کو اعلیٰ درجے کی صنف مانتاہے، لہٰذا افسانہ اعلیٰ درجے کی صنف ہے لیکن آپ شاید استدلال کے بغیر یہ بات قبول نہ کریں، کیونکہ آپ نقاد ہیں (ہنستی ہے) اور نقاد کی حیثیت میں آپ ادبی معاشرے کے فرد نہیں ہیں۔

    نقاد نہیں ایسا نہ کہئے۔ میں قاری بھی ہوں۔ آپ سب میرے بھائی بہن ہیں۔

    قاری لیجئے اور سنئے۔ اب تک تو نقاد لوگ خود کو ادب کا چودھری سمجھتے تھے۔ ایک ہی بحث میں سیدھے ہو گئے۔

    نقاد اس میں کیا شک۔ قاری نے خود اپنے اختیارات نقاد کو سونپ دیے ورنہ۔۔۔

    قاری ورنہ میر وغالب کے زمانے میں نقاد کہاں تھے؟ سارا کام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔

    نقاد اصل میں کئی طرح کی گڑبڑ ہوئی۔ ایک تو یہی کہ 1857 کے بعد ادیب اور معاشرے کے درمیان انقطاع پیدا ہوا اور تب سے یہ انقطاع قائم ہے، بلکہ بعض لوگ تو کہیں گے کہ بڑھتا رہا ہے۔ اس خلا کو بھرنے کے لئے نقاد سامنے آئے۔ آپ حالی، آزاد، امداد امام اثر کی تحریریں پڑھئے، صاف ظاہر ہے کہ وہ آپ کو تعلیم دے رہے ہیں کہ ادب کو اس طرح پڑھئے، اس طرح کا ادب لکھئے۔ اپنے خیال میں وہ معاشرے اور ادیب کے درمیان رشتے اور روابط بنا رہے تھے۔ پھر نقادوں کی رعونت بڑھی اور بڑھتی ہی چلی گئی اور جب ہمیں آزادی ملی اور جمہوریت آئی تو قاری نے خود کو حاوی کرنا چاہا۔

    قاری اے توبہ کیجئے صاحب، ہم میں یہ مجال کہاں!

    نقاد اس کی ایک مثال تو یہی ہے کہ افسانے کے بارے میں کسی نقاد نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو قاری کو جذباتی طور پر ناپسند تھی، تو اس نے نقاد کے دلائل کو منطقی طورپر رد کرنے کے بجائے احتجاج شروع کر دیا۔

    قاری لیکن اب تو تصفیہ ہو گیا۔ ادبی معاشرہ جو کہے وہی درست ہے!

    نقاد خوب، مجھے سر تسلیم خم کرتے ہی بنےگی۔

    قاری (مسکراکر) آپ تسلیم نہ کریں گے تو جائیں کہاں۔ استجاب قاری (Reader Response) کا نظریہ تو متن ہی کا وجود نہیں تسلیم کرتا، نقاد تو نقاد ہے۔ وہ صرف قاری کو جانتا ہے۔

    نقاد جناب قاری تو میں بھی ہوں۔ آئیے اسی بات پر توڑ کر لیں، قاری بھی نقاد بھی قاری ہے۔

    قاری (تینوں یک آواز ہوکر) بڑے موذی کو مارا ناقد بےچارہ کو مارا!

    نقاد بہت درست۔ نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا!

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے