Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عہد جدید اور انسانی احساس کی صورت گری

مبین مرزا

عہد جدید اور انسانی احساس کی صورت گری

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    عناصر اور مظاہر کی اس کائنات میں انسان اور وقت کا گہرا اور لابدی رشتہ ہے۔ وہ رشتہ جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ فلسفیوں، ادیبوں اور شاعروں کے لیے انسان اور وقت کی حقیقت و ماہیت کا سوال بار بار توجہ کا مرکز بنتا آیا ہے۔ دونوں کے باہمی رشتے پر ہر دور اور ہر تہذیب کے بڑے ادیبوں، شاعروں اور اہلِ دانش نے غور کیا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف نظریات کے لوگ مختلف جوابات اور آرا پیش کرتے آئے ہیں۔ کہیں وقت کی بڑائی تسلیم کی گئی ہے اور کہیں آدمی کو بڑا مانا گیا ہے۔ اس طرف والوں کے اپنے جواز ہیں اور اُس طرف والوں کی اپنی دلیلیں۔ تاہم ایک دلیل کا وزن آدمی کے پلڑے کو فیصلہ کن طور پر جھکاتا ہوا نظر آتا ہے۔ بے شک وقت بڑا ہے، ایک ایسے سمندر کی طرح ہے کہ جس کا دوسرا کنارہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ یہ زمانوں اور جہانوں کو محیط ہے، لیکن اس کا اثبات انسان کے ہونے سے ممکن ہے۔ گویا انسان نہیں ہے تو وقت بھی نہیں ہے۔

    انسان کی حیثیت بے شک اس سمندر میں ایک کشتی سے بڑھ کر نہیں، لیکن یہ کشتی اس بحرِ کراں کی امڈتی، بپھرتی اور تند موجوں پر سفر کرتی ہے۔ یہ موجیں اس کشتی کو اچھالتی ہیں، تھپیڑے لگاتی ہیں، ہچکولے دیتی ہیں، سنبھالتی ہیں اور کبھی ڈبو بھی دیتی ہیں۔ یہ سب تو یقیناًہوتا ہے، لیکن اگر یہ کشتی نہ ہو تو یہ سمندر اور اس کی بلاخیز موجیں سب ہی کچھ تو بے کار ہے، بے معنی ہے۔ گویا وہی بات ہے کہ دیکھنے والی آنکھ نہ ہو تو کسی وجود، کسی رنگ، کسی روپ، کسی روشنی اور کسی حسن کے کوئی معنی نہیں۔ دیکھنے والی آنکھ ہی دراصل کسی وجود کو حقیقت بناتی ہے ورنہ وہ محض ایک خیال ہے۔ گفتگو کے بس اس مرحلے سے آگے مذہب کی اقلیم اور فلسفے کے دائرۂ کار کا آغاز ہوتا ہے، یہاں سے Being اور Nothingness یا وجود و عدم کی دقیق بحث شروع ہوتی ہے، جس میں آگے چل کر جبر و قدر کے مسائل در آتے ہیں، لیکن ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا۔ ہمارے لیے اتنا جان لینا فی الحال بہت ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان بے شک ایک معمولی ذرّے سے زیادہ کی اوقات نہیں رکھتا، وہ خواہ کچھ بھی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس جہانِ رنگ و بو کی ساری رونق اُسی کے دم سے ہے۔ اگر وہ خود نہ ہو تو اس کائنات کا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہوکر رہ جاتے ہیں۔

    اب انسان کو دیکھیے تو اس کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ایک طرف وہ ادیانِ عالم ہیں جو انسان کو اس کائنات کی جملہ مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ حیثیت کا حامل بتاتے ہیں اور دوسری طرف وہ فلسفے اور نظریات ہیں جو اُس کی بے مایگی، پژمردگی اور لایعنیت سے بحث کرتے ہیں۔ اُن کی رُو سے تو انسان کو عناصر کی اس عمیق و بسیط کائنات میں محض ایک ذرّۂ بے نشاں کہنا بھی گویا کوئی دعویٰ کرنے کے مترادف ہے، لیکن ان سب آرا اور خیالات کے مابین وہ مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے جس کی طرف غالب نے یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا،

    ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

    بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

    سو بس یوں ہے کہ ہم انسان کے بغیر یہ دنیا، اس کے مظاہر، اس کی حقیقتیں اور اس کا احوال کچھ بھی تو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے ہمیں ایک میڈیم کی ضرورت ہے اور وہ ہے انسان۔ چنانچہ ہمارے لیے اُس کے بغیر کسی شے کا وجود ہے اور نہ ہی کسی وجود کے کوئی معنی ہیں۔ اس امر کی تصدیق الہامی ادیان خود بھی کرتے ہیں، جن میں ارشادِ باری اس کائنات کی اور انسان کی غایت بتاتا ہے کہ اُس نے انسان کو اور اس دنیا کو اس لیے خلق کیا تاکہ وہ پہچانا جائے۔ انسان کی محکم حیثیت کا یہ سب سے بڑا اعتراف ہے۔ خالق نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے تو یہ کائنات اور اس کی مخلوقات وجود میں آئیں۔ کائنات کی جملہ مخلوقات میں یہ درجۂ شعور انسان کو عطا کیا گیا کہ وہ خالق کو پہچانے اور اس کا اقرار کرے، اور ہاں یہ اختیار اسے دیا گیا کہ چاہے تو انکار کردے۔ شعور و اختیار کا یہی وہ اختصاص ہے جو انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتا ہے۔

    اب شعور و اختیار کی اسی صلاحیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معلومہ انسانی تاریخ پر نگاہ کیجیے تو لازم آتا ہے کہ مانا جائے، انسان واقعی بہت غیر معمولی اور نہایت عجیب مخلوق ہے۔ اس کی صلاحیتوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ معجزے بے شک اس کے اختیار میں نہیں ہوتے، لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ جو کچھ یہ کر گزرتا ہے، وہ اپنی جگہ پر کسی طرح معجزے سے کم بھی نہیں ہوتا۔ اپنی ساری حدود اور قید و بند کے باوجود انسان وہ کچھ کر دکھاتا ہے جو اس حد تک حیرت افزا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی جادو یا جیسے کوئی کرشمہ۔ نگاہ اٹھا کر دیکھیے اور سوچیے کہ آج علم و فکر سے لے کر سیر و سیاحت تک اور سیاست و معیشت سے لے کر سائنس اور ٹیکنولوجی تک کون سا میدان ہے جہاں انسان نے کرشمہ کاری کی حیرت زا استعداد کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ کہکشاؤں کی تسخیر، ایٹم کی ایجاد کے بعد روبوٹ سازی تک آتے آتے وہ بتا رہا ہے کہ اب وہ ’’یزداں بکمند آور‘‘ کے مرحلے تک آپہنچا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ آدمی کی بہترین صلاحیتوں کا اظہار اُس کے بدترین حالات میں ہوتا ہے۔ یہ بات محاورتاً ہی نہیں، بلکہ عملاً بھی صد فی صد درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات کی خرابی کے شدید دباؤ میں انسان کی وہ صلاحیتیں بھی جاگ اٹھتی ہیں جو عام حالات میں خوابیدہ رہتی ہیں۔ توانائی اور قوت کا ایک خاموش ذخیرہ آدمی کے اندر ہوتا ہے، حالات کا دباؤ اسے متحرک کردیتا ہے اور وہ اسی طرح پھوٹ کر بہہ نکلتا ہے جیسے لاوا۔ یہ بھی ہے کہ تحفظِ ذات کی جبلی خواہش ان حالات میں فطری طور پر کام کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں انسان اُن صورتوں اور چیزوں پر بھی غور کرتا ہے جنھیں عام حالات میں وہ قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتا۔ یوں وہ اپنے لیے وہاں بھی راستہ پیدا کرلیتا ہے جہاں اس سے پہلے اُسے بظاہر کوئی راستہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ دیکھا جائے تو ایک طرح سے یہ وہی تنگ آمد بجنگ آمد کا معاملہ ہے، یعنی جب کوئی اور صورت نہیں بچتی تو پھر آدمی کے لیے اپنے بچاؤ کی صورت نکالنا ناگزیر ہوجاتا ہے، اور وہ یہ راستہ نکال کر ہی رہتا ہے۔

    انسانی تاریخ کے اس سے پہلے جتنے بھی تاب ناک ادوار گزرے ہیں، اگر اُن کا آج کی اس نئی زندگی سے موازنہ کیا جائے تو باآسانی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ حاضر کے انسان کی زندگی میں پہلے دور کے انسان کے مقابلے میں سہولتیں اور آسائشیں بہت زیادہ ہیں۔ ایسا کسی ایک خاص شعبے میں نہیں ہے، بلکہ زندگی کے جس شعبے میں چاہے دیکھ لیجیے، ذرائعِ نقل و حمل، صحت اور تعلیم سے لے کر غذا، علاج اور تفریح تک ہر شعبے میں جو کچھ آج کے انسان کو میسر ہے، ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں چند دہائی پہلے کا انسان صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا اور شاید بعض کا تو خواب بھی نہیں۔ خواب و خیال کا درجہ رکھنے والی کتنی ہی اشیا آج افراط کے ساتھ سماج کی کثیر تعداد کو نہایت آسانی سے میسر ہیں۔

    آج آپ اور ہم جس طرح ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہزاروں میل کا فاصلہ صرف چند گھنٹے میں کسی دشواری کے بغیر جس طرح مزے سے طے کرلیتے ہیں، پچھلی دنیا میں اڑن کھٹولے کے خواب بھی ایسے نہ تھے۔ اسی طرح پچاس باون ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں جس طرح ہم ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں سہولت سے بیٹھتے ہیں، پہلے خس کی ٹٹیاں لگوانے اور مورچھل جھلانے والے غلاموں کے آقا اور وسیع و عریض دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ بھی اس آسائش کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ علاج معالجے کا پہلے یہ عالم تھا کہ خون میں شامل ہوجانے والا فاسد مادّہ جسم سے نکلوانے کے لیے جونکیں لگائیں جاتی تھیں جو گھنٹوں پہروں انسان کا خون چوستی رہتی تھیں۔ آج یہ کام دوائیں اتنی سرعت اور سہولت سے کرتی ہیں کہ پہلے جس کا تصور بھی محال تھا۔ تیمور جیسے فاتح سالار اور بادشاہ کی ٹانگ میں لنگ اس لیے آگیا تھا کہ اسے علاج کی یہ سہولت فراہم نہ تھی جو آج آپ کو اور ہم سب کو بڑی آسانی سے میسر ہے۔ رسل و رسائل کی سہولت کو دیکھ لیجیے۔ ہزاروں میل دُور کی دنیا میں ایک واقعہ ہوتا ہے اور چند ہی منٹ بعد آپ اسے تفصیلات کے ساتھ جان لیتے ہیں۔ پہلے لوگ سفر پر روانہ ہوتے تھے تو ہفتوں میں خیر خبر خط کے ذریعے ملتی تھی۔ آج ہم اور آپ ہمہ وقت ساری دنیا سے رابطے میں اور یہ رابطہ آپ کی متحرک تصویر کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیسا انقلاب آیا ہے، جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما دی ہو۔ سو سوا سو برس پہلے کی دنیا کا کوئی شخص اگر اس دنیا میں کسی طور آجائے تو آج کے انسان کی زندگی کے مظاہر پر اس کے لیے یقین کرنا محال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ یہ سارا تماشا محض خواب ہے۔

    آپ اور ہم ایسا نہیں کہتے، بلکہ مانتے ہیں کہ یہ سب سچ ہے۔ اگر واقعی سچ ہے جو کہ ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ ان سب نعمتوں، سہولتوں اور آسائشوں کے ساتھ زندگی گزارنے والا انسان بہت خوش قسمت تصور کیا جانا چاہیے۔ یقیناًاُسے خود بھی اپنی خوش قسمتی کا احساس ہوگا اور وہ اس پر نازاں بھی ہوگا۔ کیوں نہ ہو کہ جب اُس کے پرکھوں کے دیکھے ہوئے کیا کیا خواب اس کی روز مرہ زندگی کی حقیقت بن گئے ہیں۔ بس یہی پہلو غور طلب ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی آج کا انسان اپنی زندگی اور اس کی صورتِ حال سے خوش ہے۔ یہ کیا؟ ہماری آنکھوں کے آگے تو کوئی اور ہی منظر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان زیادہ پریشان ہے۔ وہ مسلسل اداس رہتا ہے۔ تنہائی کا احساس اس کے اندر دیمک کی طرح اتر گیا ہے۔ خوف کے سائے ہر وقت اس کے سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ایک وحشت ہے کہ تواتر کے ساتھ اُس کی جان کو لگی رہتی ہے۔ ایک اضمحلال ہے کہ مسلسل اُس کی ہمت اور حوصلے کو اندر ہی اندر پیے چلا جارہا ہے۔ رنج کی ایک آکاس بیل ہے کہ اُس کے وجود سے لپٹی ہوئی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اس کی روح بے یقینی کے پہاڑ تلے دبی جارہی ہے۔ اجنبی آوازوں، دل شکن واہموں اور جان لیوا وسوسوں نے اسے پژمردہ کردیا ہے، اُسے کھانے کو کیا کیا میسر ہے، لیکن طبیعت جیسے کسی طرح کھانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے، یہ کہ کھاتا ہے، کھائے چلا جاتا ہے، لیکن بھوک مٹتی ہی نہیں۔ جسم میں توانائی کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تادیر اور پرسکون ماحول کی نیند کے باوجود یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سویا ہی نہیں یا گھڑی بھر کے بعد ہی کچی نیند سے جاگ اٹھا ہے۔ طبیعت میں بشاشت ہے نہ ہی دل میں امنگ۔ ایک مسلسل تھکن اور بیزاری کا نام ہے گویا زندگی۔ آخر کیوں؟

    خیال رہے کہ ایسا آپ اور ہم یا کسی ایک مخصوص سماج کے لوگ ہی محسوس نہیں کررہے، اب یہ ایک عالمی سطح کی مسلمہ سچائی ہے۔ اس کا اعتراف واشگاف الفاظ میں کیا جارہا ہے۔ اس عہدِ جدید کے انسان کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے ادارے کہتے ہیں کہ انسانی رویوں میں آج بیزاری اور تھکن سب سے نمایاں ہیں اور یہ کیفیت اُسے لایعنیت کے گہرے احساس سے دوچار کرتی ہے۔ اس کا سبب وہ ڈپریشن کو بتاتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ڈپریشن کا تناسب پریشان کن حد تک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہ افراد اور ادارے جو اس مسئلے پر تحقیق کرتے ہیں، وہ اس کے روز افزوں تناسب کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ گہرے ڈپریشن میں انسان میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا اور تیزی سے بڑھتا ہے۔

    ظاہر ہے، یہ پریشانی اور خوف کی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ہول ناک بات یہ ہے کہ ڈپریشن کی اس کیفیت میں انسان اپنے لیے ہی نہیں، دوسروں کے لیے بھی ضرر رساں ہوجاتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہونے والے بعض افراد خودکشی کے بجائے یا خودکشی سے پہلے اپنے آس پاس کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ذہنی رَو کا شکار ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یورپ اور امریکا میں ایسے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں نہتے انسانوں پر گولیاں برسانی شروع کردیں، یا کسی اسکول، کالج یا یونی ورسٹی یا ایسے ہی کسی اور ادارے میں گھس کر معصوم اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد ازاں خود کو بھی ختم کرلیا، یا پھر سیکیورٹی کے اداروں کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مارا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹس نے بعد میں اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ یہ عمل ایکیوٹ ڈپریشن میں کیا گیا تھا۔

    خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کے واقعات تو اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اس تناسب کو دیکھتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین اور معالجین کا خیال ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا جاسکا تو محض ڈیڑھ دہائی کے عرصے میں یورپ کی لگ بھگ ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہو رہے گی۔ اس قبیل کے جائزے اور اعداد و شمار عام افراد یا ذیلی اداروں کے مرتب کردہ نہیں ہیں، بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے ان حالات کی نشان دہی کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو پر بالخصوص تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ ڈپریشن کا فروغ سماج کے پس ماندہ، اوسط اور اعلیٰ، یعنی تینوں طبقات میں ہو رہا ہے۔ تعلیم یافتہ اور خوش حال زندگی گزارنے والے افراد بھی اس مرض کا شکار ہورہے ہیں، بلکہ ان میں یہ تناسب پس ماندہ طبقے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اعلیٰ طبقے کے افراد جنھیں زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ علاج کی بھی ہر ممکن آسانی فراہم ہے، وہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے ڈپریشن کی اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں جہاں انھیں خودکشی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

    حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی مثالوں کو دیکھا جائے تو ان افراد کا تعلق اداکاری کے شعبے، کاروباری طبقے اور مسلح افواج سے نسبتاً زیادہ ہے۔ ابھی چند روز پہلے خبر آئی ہے کہ معروف اداکار جیکی چن کی جواں سال بیٹی نے بھی خودکشی کی کوشش کی ہے۔ وہ زندگی جو بظاہر نعمتوں، آسائشوں اور سہولتوں سے معمور نظر آتی ہے، ڈپریشن کے جراثیم اس میں بھی سرایت کرجاتے ہیں اور ویسے ہی نتائج پیدا کرتے ہیں جو اس کے مقابلے میں ناآسودہ زندگی میں دکھائی دیتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ تباہ کن۔ اس مسئلے نے ماہرین اور معالجین کو فکر مند کیا ہوا ہے۔

    سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر زندگی کی اتنی سہولتوں اور آسائشوں کے ہوتے ہوئے وہ کیا شے ہے جو آدمی کے اندر ایسی توڑ پھوڑ کرتی ہے کہ پھر اُس کا جی اس جینے سے ہی اٹھ جاتا ہے۔ نازو نعمت کے ہوتے ہوئے آخر کیا ہوتا ہے کہ آدمی خود اپنی جان کا دشمن ہوجاتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ آج کے آدمی کی زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے، اتنی کہ اُس کے پاس خود اپنے لیے، یعنی اپنی خلوت کی دنیا کے لیے کوئی وقت باقی نہیں رہا۔ یہ خیال غلط بھی نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر کس وجہ سے آدمی اتنا وقت نکال لیتا ہے کہ وہ صرف خود کو دیکھے اور وہ بھی محض مغائرت کی نگاہ سے؟ آخر کس بنیاد پر وہ اپنے آپ سے اتنا رنجیدہ ہوجاتا ہے اور خود کو اتنا قابلِ نفرت سمجھنے لگتا ہے کہ موت کے سوا اُسے کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا؟ خودکشی کا لمحہ اچانک تو نہیں آتا ہوگا، احساس کی کوئی ایک رَو انسان کو کشاں کشاں اس مرحلے تک لاتی ہوگی۔ ایسا آخر کیا ہوتا ہے کہ اکثر لوگ جو اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ خود بیزاری کے اس مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنا خاتمہ کیے بغیر نہیں رہتے؟ اس ساری ترقی کے باوجود عہدِ جدید کا سماجی اور سائنسی نظام دونوں مل کر بھی آدمی کو اس مرحلے سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ اور ایسے ہی اور بھی کتنے سوالات ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

    یہ ساری باتیں، سوال، تجزیے اور اعداد و شمار تو بہرحال آج ہمارے سامنے آئے ہیں، یعنی حالیہ برسوں میں توجہ کا مرکز بنے ہیں، لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے اس سے پہلے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ عہدِ جدید کی یہ دنیا کس راستے پر آگے بڑھ رہی ہے اور انسان آگے چل کر کس صورتِ حال سے دوچار ہوگا۔ اہلِ مشرق میں یا چلیے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ روایتی تہذیبی معاشروں میں تو ایسے اہلِ نظر موجود رہے ہیں جو دنیا کی بدلتی ہوئی روش کو دیکھ کر پہلے سے تشویش اور تردّد کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں کے تہذیبی، سماجی، فکری اور ادبی مزاج میں انسان کی داخلی دنیا کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ لہٰذا یہاں انسان کا داخلی منظرنامہ یا احساس کی رو مسلسل توجہ کا مرکز رہی ہے۔ البتہ مغرب کا مزاج رینے ساں کے بعد بہت حد تک بدل گیا تھا اور خارجی دنیا پر اس کی توجہ نسبتاً زیادہ مرکوز ہوگئی۔ اشیا، افراد، واقعات، بلکہ پورا سماج ایک فیس ویلیو پر چلنے لگا۔ داخلی حوالے یا اندر کی گواہی سے کسی کو سروکار ہی نہ رہا۔ اس کا فائدہ کیا ہوا اور نقصان کیا، یہ ایک الگ اور قدرے تفصیلی بحث ہے، سو اس کو پھر کسی اور موقعے پر دیکھیں گے۔ خیر، ایسا تو نہیں ہوا کہ مغرب میں اس عرصے میں اہلِ نظر ہی نہ آئے ہوں۔ اگر اس زیرِ بحث مسئلے کے تناظر میں آج کے مغرب کی ترقی یافتہ دنیا کو سامنے رکھا جائے تو وہاں بھی ہمیں ایسے بعض اہلِ دانش دکھائی دیتے ہیں جنھوں نے حالات کے تغیر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علی الاعلان اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ان کے دور کا انسان اور اس کی دنیا خرابی کے اس راستے پر جاپڑے ہیں جو مکمل تباہی کی طرف جاتا ہے۔

    اس ضمن میں سب سے اہم نام تو یقیناًفرانس کے عالم رینے گینوں کا ہے جنھوں نے مشرقی تہذیبوں کا گہری نگاہ سے مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعے کی روشنی میں انھوں نے اس راز کو سمجھ لیا تھا کہ آدمی کی مکمل شخصیت، اصل میں اکائی کی طرح قائم ہوتی ہے اور وقت کے تغیرات کے زیرِ اثر ٹوٹنے سے کیوں کر محفوظ رہتی ہے۔ مشرقی تہذیبوں کے تناظر میں انھوں نے یہ بھی جان لیا تھا کہ کوئی تہذیب اپنے افراد کی روح کی پاس داری کس طرح کرتی ہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے بعد جب انھوں نے اپنے سماج اور اُس میں آنے والی تبدیلی کو دیکھا اور وقت کے بدلتے ہوئے قدموں کی چاپ سنی تو انھوں نے مغرب کے لیے کہا تھا کہ وہاں عہدِ جدید ایک طوفان کی صورت آرہا ہے، ایک ایسے طوفان کی طرح جس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس طوفان کو روکا تو نہیں جاسکتا، البتہ انھوں نے دیکھا کہ بچاؤ کی ایک صورت نکل سکتی ہے، یعنی اس زمانے میں ایک کام کیا جاسکتا ہے اور وہی سب سے ضروری کام ہے، یہ کہ تہذیب کے بیج کو یعنی اس کی بنیاد کو بچایا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت ہر تہذیب پر اُس کے مخصوص حالات اور اس کی داخلی کیفیت کے مطابق اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اُس کے اثرات سبھی سمتوں تک پہنچتے ہیں۔ چناں چہ مغرب کی ہوائیں صرف مغرب تک نہیں رہ سکتی تھیں، انھیں شمال، جنوب اور مشرق تک بھی جلد یا بدیر پہنچنا ہی تھا۔ جدید دنیا کے اس منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب مغربی طرزِ فکر کی یہ ہوائیں دنیا کے دوسرے خطوں اور معاشروں میں کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہیں اور کیا کیا گل کھلا رہی ہیں۔

    رینے گینوں کی متعدد کتابیں ہیں جن میں انھوں نے بالخصوص مغرب کے تناظر میں اس عہد کے مسائل اور اس کی صورتِ حال کا نہایت گہرائی میں تجزیہ کیا ہے، اور اُن کے بارے میں نہایت بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ اُن کی دو کتابیں خصوصیت کے ساتھ ان مباحث سے تعلق رکھتی ہیں، ایک ہے Reign of Quantity اور دوسری ہے Crisis of the Modern World۔ رینے گینوں کا کہنا ہے کہ عہدِ جدید کی ایک اہم علامت صنعت کا غیر معمولی، بلکہ غیر عقلی فروغ بھی ہے، جس نے مقدار سے بنیادی طور پر سروکار رکھا ہے۔ انسانی سماج میں اس سے پہلے ہر معاملے میں معیار کو فوقیت حاصل تھی، لیکن اب یہ دور مقدار کی جیت کا زمانہ ہے۔ آج معیار آدمی کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ یہ بات اب صرف صنعت کے شعبے تک بھی محدود نہیں رہی، بلکہ سماج کے ہر شعبے میں اب یہی رویہ کارفرما ہے۔ پہلے اشیا اور اُن کو بنانے والے ادارے پائیداری کے حوالے سے اپنی ایک شناخت رکھتے تھے۔ یہ کنزیوم ایبل پروڈکٹس کا دور ہے۔ اس کی نمائندگی اشیا میں دراصل ٹیشو پیپر کرتا ہے جو محض وقتی اور فوری استعمال کی چیز ہے۔ پائیداری کے تصور سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ آج یہی تصور کتنی ہی دوسری اشیا میں بھی رائج ہوچکا ہے۔

    پہلے کسی بھی شعبے اور اس کی مصنوعات کے معاملے میں معیار کا وہی درجہ تھا جو انسانی وجود کے لیے روح کا ہوتا ہے۔ معیار سے توجہ ہٹنے کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں کہ آج انسان ہر قیمت پر منفعت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ معیار کا تعلق عینیت سے ہے۔ اس طرح وہ ایک غیر مادّی شے ہے۔ جب کہ اس دور میں انسان کے لیے غیر مادّی یا غیر منفعت بخش شے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس حقیقت کا اثر انسانی زندگی اور اس کے رویوں پر یہ ہوا کہ اب مادّیت اور وجودیت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ روح اور اُس کی فلاح کے تقاضوں پر اب آدمی کا دھیان ہی نہیں ہے۔ انسان کی کامیابی اور سماج میں اس کی حیثیت کا انحصار اب صرف اُس کے مادّی پہلو پر ہے۔ چناں چہ آج انسان کی مادّی حیثیت ہی اس کے سماجی اثر و رسوخ کا دائرہ متعین کرتی ہے۔ علم، فکر، اخلاق اور کردار جیسے غیر مادّی پہلو اب درخورِ اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں انسانی قدر و منزلت کے تعین کے لیے ان میں سے کسی کا بھی کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جس اکائی کا نام ہے، وہ وجود اور روح کے ملنے سے تشکیل پاتی ہے۔ لہٰذا متوازن طرزِ احساس کے لیے دونوں ہی کا لحاظ ضروری ہے۔ انسانی زندگی میں وجودی ضرورتوں کی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی روحانی تقاضوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے جس جہت میں بھی کمی یا کم زوری واقع ہوگی، وہ انسانی شخصیت میں خلا پیدا کرے گی۔ رینے گینوں کہتے ہیں کہ مقدار کی اہمیت اور معیار کا غیر اہم ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کی زندگی میں سے وجود اور روح کا توازن ختم ہوگیا ہے، جس نے اسے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔

    اس عہد کی صورتِ احوال کو دیکھتے ہوئے مارٹن لنگز نے اپنی کتاب Ancient Beliefs and Modern Superstitions میں اس دور کے انسان کی زندگی کے ان پہلوؤں سے بحث کی ہے جن کے ذریعے اُس کے اندیشوں اور توہمات کا اظہار ہوتا ہے۔ مارٹن لنگز نے پرانے روایتی معاشرے کے انسان کی زندگی کے تقابل میں آج کی انسانی صورتِ حال کو رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں، پہلے انسان کے پاس یقین کی طاقت تھی۔ یہ طاقت اُسے اعتقاد اور ایمان نے دی تھی۔ مارٹن لنگز کا اس نکتے پر اصرار ہے اور انھوں نے اسے بیان بھی بہت صراحت سے کیا ہے کہ ایمان محض ایک مجرد اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹھوس عملی زندگی کا نام ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں اشیا کی اپنی جگہ ہے، لیکن ان کے ساتھ اور ان سے کہیں زیادہ اہم جگہ انسان اور اس کے خالق کی ہے۔ یہ اس دور کے انسان کا بہت بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے کہ وہ یقین کی قوت سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس محرومی کے نتیجے میں وہ اندیشوں، واہموں اور الجھنوں میں گھر کر رہ گیا ہے۔ ان سے بچنے کے لیے وہ وقتی ضرورتوں، مادّی اشیا اور آسائشوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ کچھ وقت کے لیے اسے امان مل بھی جاتی ہے، بہلاوا قائم بھی ہوجاتا ہے، لیکن جلد ہی اشیا کی بے قیمتی اور انسانی زندگی سے اُن کا سرسری اور وقتی تعلق واضح ہوجاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر اشیا کو حاصلِ حیات سمجھنے والا انسان انکشاف کے اس عمل کے نتیجے میں شدید اور گہرے دباؤ کی کیفیت سے گزرتا ہے اور خود کو بے آسرا محسوس کرتا ہے۔ روایتی معاشرے کے انسان کے پاس جو ایمان کی قوت تھی وہ اسے کسی بھی طرح اس سطح پر نہیں آنے دیتی تھی، اسے بے امان نہیں ہونے دیتی تھی۔ اس عہد کے انسان نے اپنی یہ تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھی ہے، اور اب وہ اسی کی وجہ سے دکھ اٹھا رہا ہے۔

    جدید دنیا کے انسان کے روحانی بحران پر مارٹن لنگز نے ایک اور زاویے سے سے گفتگو اپنی کتاب The Eleventh Hour میں کی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اس عہد کی صورتِ حال کو نبوت اور روایت کی روشنی میں دیکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس دور کا ذہنی، اخلاقی اور روحانی منظرنامہ جس انحطاط کا شکار اور الجھنوں میں گھرا ہوا نظر آتا ہے، یہ دراصل تکوینی صورتِ حال ہے۔ انھوں نے ایک طرف الہامی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے تناظر میں اور دوسری طرف ہندوازم اور بدھ ازم وغیرہ کے حوالے سے اس امر کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے ادیانِ عالم کے تناظر میں دنیا اور اس میں انسانی صورتِ حال کے بارے میں مستقبل کے حوالے سے جو نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق انسانیت پہلے شر کی انتہا پر جائے گی اور پھر واپس خیر کی طرف آئے گی۔ مارٹن لنگز کے بقول اس عہد کی گنجلک اور ابتر صورتِ حال جس میں خیر تیزی سے بے اثر اور شر اسی رفتار سے مؤثر ہورہا ہے، اسی امر کی غماز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عہدِ جدید میں شر کا بڑھتا ہوا غلبہ اور خیر کی پسپائی دراصل تکوینی عمل کا منظرنامہ ہے۔ انسان کے خمیر میں چوں کہ خیر کا عنصر رکھا گیا ہے، اس لیے وہ خیر کی طرف ضرور لوٹ کر آئے گا، لیکن اس سے پہلے یہ زمانہ شر کے دائرے کی تکمیل کا عرصہ ہے۔ اس لیے آج ہر طرف شر غلبہ پاتا ہوا اور مختلف شکلوں میں بڑھتا اور پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے۔

    عہدِ جدید کے مسائل اور اس کی صورتِ حال کے حوالے سے لارڈ ناتھ بورن نے بھی قابلِ غور نکات پیش کیے ہیں۔ اپنی کتاب Looking Back on Progress کے پہلے ہی باب میں انھوں نے بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ اس نکتے پر محکم دلائل کے ساتھ اصرار کرتے ہوئے گفتگو آگے بڑھائی ہے کہ عہدِ جدید میں دنیا کی گنجلک اور ناخوش گوار صورتِ حال یہ ثابت کرتی ہے کہ اشیا کی فراہمی کے ذریعے انسانی زندگی کے خارجی حالات کی تبدیلی سے جن نتائج کی امیدیں لگائی گئی تھیں، وہ اب تک پوری نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی آگے چل کر ان کے برآنے کی کوئی واضح اور یقینی صورت نظر آتی ہے، الّا یہ کہ ان نتائج کے حصول کے لیے فکری، سماجی اور معاشی دائروں میں کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اور اُن کے تناسب کو بڑھایا جائے۔

    یہ ایک ہم نکتہ ہے۔ اس لیے کہ مقصد کے حصول کے لیے اقدامات اگر اس سطح پر نہیں ہورہے جس پر اُن کی ضرورت ہے تو ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم آگے چل کر بورن ایک اور اہم، بلکہ زیادہ اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مزید تگ و دو سے پہلے ضروری ہے کہ دیکھا جائے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو ذرائع اختیار کیے گئے ہیں، وہ واقعتا مؤثر بھی ہیں کہ نہیں؟ علاوہ ازیں ان کے نزدیک اس امر کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ انسانی ترقی اور فلاح کے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں، کیا ان کی سمت درست بھی ہے کہ نہیں؟ بس یہی سوال عہدِ جدید کی انسانی صورتِ حال کی حقیقت کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس عہد میں انسانی مسائل کا معاملہ روحانی نوعیت کا ہے، جب کہ انسانی فلاح کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ دراصل صرف جسمانی یا وجودی حد تک محدود ہے۔ گویا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کو دل کا عارضہ لاحق ہو اور اسے نئے کپڑے پہنا کر اور عطر لگا کر یہ سمجھا جائے کہ اُس کی بہتری کا سامان کرلیا گیا ہے اور وہ اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا۔ ممکن ہے، نئے کپڑے پہن کر اور خوش بو لگا کر وہ ذرا سی دیر کے لیے بشاشت محسوس کرے، لیکن اس کی صحت کی بحالی کا جو ہدف ہے، وہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس کام کے لیے درست سمت میں پیش رفت نہیں کی جارہی۔ یہی اس عہد کے انسان کی صورتِ حال ہے۔ خارجی آسائشیں اُس کے روحانی مسائل کو نہ صرف حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں، بلکہ وہ بحران میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس لیے آج کی انسانی صورتِ حال روز بہ روز مزید سے مزید تر ابتری کی طرف جارہی ہے۔

    سویڈش ادیب اور دانش ور Tage Linddbom جو پہلے سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ افراد میں شمار کیے جاتے تھے اور فرد و سماج کی تمام صورتوں کو مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے پر اصرار کرتے تھے، بعد ازاں اپنے عہد کے انسان کی سائیکی میں پڑنے والی دراڑوں کو دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔ چناں چہ اس دور کے انسان کی روح کا احوال سمجھنے اور سمجھانے کے لیے انھوں نے The Tares and the Good Grains جیسی کتاب لکھی جس میں اپنے وقت کے اس بحران کی اصل نوعیت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو انسانی روح کی ابتلا کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کتاب میں عہدِ حاضر کے نظریات میں پائے جانے والے داخلی تضادات، باطل تصورات اور کم زوریوں کا جائزہ خاصی گہرائی میں جاکر لیا گیا ہے، جنھوں نے انسان کی زندگی میں مادّیت کے فروغ کا راستہ کھول کر دراصل اُس بحران کی راہ ہموار کی ہے جو اس سے پہلے کے انسانی معاشروں میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بوم کا کہنا ہے کہ آج انسان اور اُس کا معاشرہ جس راستے پر گامزن ہیں، وہ انھیں طمانیت اور آسودگی کی اس منزل تک لے کر جا ہی نہیں سکتا جس کی آرزو میں وہ سفر کررہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ راستہ انھیں مخالف سمت میں لے جارہا ہے۔ یہ کچھ وہی صورتِ حال ہے جس کے لیے غالب نے کہا تھا،

    ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے

    منزل کی یہ دوری سمتِ سفر کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ اس دور کا انسان اضطراب تو اپنی روح میں محسوس کررہا ہے، جب کہ تسکین کا سارا سامان صرف اور صرف اس کے جسم کے لیے کیا جارہا ہے۔ ایسے میں کیا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟

    اس حوالے سے ہمارے یہاں اقبال نے بھی Reconstruction of Religious Thought in Islam کے ایک خطبے میں بہت اہم گفتگو کی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کو کائنات کے اس سناٹے میں جب اپنی پکار (دعا) کا جواب ملتا ہے تو وہ خود کو ایک بڑی اور ہمیشہ رہنے والی قوت سے مربوط پاتا ہے۔ گویا اُس کے لیے یہ احساس طاقت اور اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے، اور یہ کہ کوئی اُس کی طرف متوجہ ہے، اس کا نگہبان ہے۔ یہ احساس اس کے اندر اس کیفیت کو برقرار رکھتا ہے کہ اُس کی ایک اہمیت ہے۔ ہم آہنگی اور وابستگی کا دراصل یہی وہ احساس ہے جو بیک وقت وجود اور روح دونوں سطحوں پر اُسے ایک اعتبار سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہی وہ شے جو اُسے لایعنیت کے اُس تجربے سے بچالے جاتی ہے جس نے وجودیت کے زیرِ اثر مغرب کو بری طرح گھایل کیا ہے۔ وہاں انسانی نفسیات میں اس طرح دراڑیں ڈالی ہیں کہ انسان پارہ پارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی روح میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ جو اس کے وجود کو ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نگلنے کی کوشش میں ہے۔

    ان سب اہلِ دانش کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس عہد کی انسانی زندگی میں اور سماج میں جو مسائل ناقابلِ برداشت المیہ حالات پیدا کررہے ہیں، اگر اُن کے اندر جھانک کر دیکھا اور داخلی کیفیت کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ابتری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں وجود اور روح کا رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ دونوں کے باہم آمیز ہونے سے جو اکائی بنتی تھی، وہ ٹوٹ گئی ہے۔ اسی سبب سے یہ سارا بحران پیدا ہورہا ہے۔ اس امکان کو رد تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس نوع کا کوئی مسئلہ اس سے پہلے بھی انسان پر اور اس کے سماج پر گزرا ہو، لیکن یہ بات قدرے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج یہ مسئلہ جس سطح پر اور جس شدت کے ساتھ اُسے درپیش ہے، اس سے پہلے وہ کبھی اس صورت میں اسے پیش نہیں آیا ہوگا۔ سوچنا چاہیے کہ یہ صورتِ حال آخر اس حد تک کیسے پہنچی ہے کہ بحران اس درجے تک آگیا ہے؟

    اس نکتے کو ہمیں واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسان جو وجود و روح کی اکائی کی حیثیت سے زندگی گزارتا تھا، اس کے یہاں مادّی اور غیر مادّی رجحانات میں ایک توازن قائم رہتا تھا۔ دنیا کی آسائشیں اسے اپنی روح کے مطالبات سے غافل نہیں ہونے دیتی تھیں۔ وہ اپنے خارجی معاملات کے ساتھ ساتھ داخلی حقائق کا بھی شعور رکھتا تھا۔ اس کی زندگی کی ایک ماورائی جہت بھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ مادّی اشیا اپنی ضرورتوں کے لیے اُسے ایک حد تک درکار ہیں اور وہ بے شک اس کی ضرورت تو پوری کرتی ہیں، لیکن اس کی قلبی راحت، ذہنی سکون اور روحانی خوشی کا سامان اسے ان سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ وہ ماخذ اور ہے جس سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے نابلد نہیں تھا کہ اطمینان بخش اور آسودہ زندگی کے لیے اسے اپنی دونوں ہی جہتوں پر توجہ رکھنی ہے۔ یہ شعور ایک بہتر اور متوازن زندگی گزارنے میں اس کے کام آتا تھا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عہدِ جدید کے بیشتر معاشروں میں آج یہ شعور بڑی حد تک کم اور بعض میں تو بالکل ہی ناپید ہوچکا ہے۔ یہ وہ سماج ہیں کہ جہاں روح اور اُس کے تقاضوں کی طرف اب انسان کا دھیان بالکل نہیں ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی اُن اشیا کے ساتھ اور کچھ ایسے کاموں میں بسر ہورہی ہے جو اُس کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہونے ہی نہیں دیتے۔ ذرا غور کیا جائے تو اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے تو یہ دیکھیے کہ ہم آج کس قماش کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں آئے دن عجیب و غریب تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں کبھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا چرچا کیا جاتا ہے۔ ان کے لیے ہم دردی کے جذبات کا بکھان کیا جاتا ہے اور کبھی یہاں دنیا کے اُن چند افراد کی فہرست شائع کی جاتی ہے، جن کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے۔ ذرا دیکھیے کہ یہ دولت کتنی ہے؟ اتنی کہ اس سے ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کی قسمت اور زندگی دونوں بدل سکتے ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں کہ جن کی سالانہ آمدنی ایک پورے ملک کے بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    اب سوال یہ ہے، کیا یہ سب مال و دولت بے مصرف ہوسکتی ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے، اس کا کچھ اور استعمال ہے۔ کیا استعمال ہے؟ یہ دنیا میں تبدیلی لانے کے لیے بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ کون سی تبدیلی؟ وہی جو افراد کے طرزِ احساس کو بدل رہی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانوں کی یہ پوری دنیا بدل رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دولت اور اس کے زیرِ اثر دنیا کی یہ بدلتی ہوئی صورتِ حال بے سبب نہیں ہے۔ اس سارے کھیل کے پس منظر میں کچھ مقاصد ہیں، مثلاً ایک مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کے ذخائر، معدنیات، ذرائعِ پیداوار اور اعلیٰ افرادی قوت سب کچھ چند بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ کون سے ادارے ہیں؟ وہی ہیں جو اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے ملکوں کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ حکومتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ دنیا کے پس ماندہ افراد کے لیے فلاحی ادارے قائم کرتے ہیں اور کبھی براہِ راست اور کبھی حکومتی ذرائع سے مالی امداد بھیجتے ہیں۔ ان سب کاموں سے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔

    امریکا سے لے کر ایتھوپیا تک ان اداروں کا اپنا ایک نیٹ ورک ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک نظام وضع کیا ہے۔ آج ہم جسے گلوبل دنیا کہتے ہیں، یہ دراصل اسی نظام کا ایک مظہر ہے۔ اس دنیا میں جغرافیائی سرحدیں قوت کے ساتھ اور جارحانہ انداز سے منہدم نہیں ہورہیں اور نہ تبدیل کی جارہی ہیں۔ البتہ نظریاتی، فکری، اخلاقی اور تہذیبی سرحدیں تیزی سے مٹائی جارہی ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر آبادی کو ایک ایسی صارفیت کے شکنجے میں جکڑ لیا جائے جو انھیں مذہب، اقدار اور نظریات کے شعور سے بے نیاز کرکے محض وجودی خواہشات سے منسلک کردے۔ اس کے لیے گہری بنیادوں پر منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس صارفیت کا بلند تر ہدف اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیا کی ساری یا کم سے کم بیشتر آبادی ایک ہی طرح کی طرزِ زندگی اور یکساں اشیا کے استعمال کی عادی ہوجائے۔ خیال رہے کہ اشیا کی فروخت کا یہ معاملہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام والا ہے۔ اس لیے کہ پورا مقصد صارفیت نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ، یعنی اس کے ذریعے دنیا کی آبادی کو ایسے مجہول ہجوم میں تبدیل کرنا ہے جو مشینی زندگی گزارتا ہو۔ اس کام کے لیے کوک اور برگر سے سرحدوں میں راستے پیدا کیے گئے۔ چناں چہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چین اور جاپان جیسے روایتی مزاج رکھنے اور اپنی روایات و اقدار پر فخر کرنے والے ملک بھی کوک اور برگر کی صارفیت میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔

    اس مہم کے فروغ میں الیکٹرونک میڈیا اہم کردار ادا کررہا تھا۔ چنانچہ آج آپ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تشہیری ادارے قوموں، ملکوں اور معاشروں میں نفوذ اور اثر پذیری کے لیے ان مراحل کو بھی سر کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے جن کے لیے اس سے پہلے کے زمانے میں حکومتیں ایک دوسرے سے مذاکرات کیا کرتی تھیں۔ اب سوشل میڈیا کے اس دور میں تو صورتِ حال حیرت ناک حد تک بدل چکی ہے۔ دنیا کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے کوشاں افراد اور اداروں کو آج سوشل میڈیا وہ اہداف بھی بہت آسانی سے اور غیر محسوس انداز میں حاصل کرکے دے رہا ہے جن کے لیے پہلے جنگی حکمتِ عملی جیسے اقدامات کیے جاتے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی سماج میں مدافعت نظر آتی ہے اور ان سب ذرائع سے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل نہیں ہوپاتی تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پھر وہاں سپرپاور اور مقتدر اقوام کی طرف سے عراق اور افغانستان جیسی جنگیں بھی مسلط کردی جاتی ہیں۔ اس کی حالیہ مثالیں مصر اور شام کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

    کم و بیش دو دہائی پہلے سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilization میں جس غیر اخلاقی، بلکہ غیر انسانی تصادم کا مقدمہ پیش کیا تھا اور اُس پر جس سفاکانہ سادگی والے اندازِ نظر کے ساتھ اصرار کیا تھا، آج اس کی حقیقت ہم باآسانی عملی مثالوں کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سارا نقشہ تصادم کا نہیں، بلکہ تہذیبوں کے انہدام کا ہے، اور ہدف بالخصوص وہ تہذیبیں ہیں جن کا اپنا کوئی اخلاقی اور فکری نظام ہے، جو اپنی روایات اور اقدار پر اصرار کرتی ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر پوچھا جائے، کیا آئندہ زمانے میں کوئی قوم اپنی تہذیبی شناخت قائم رکھ پائے گی؟ اگر ایران اور ترکی جیسی مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو اس سوال کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس سماج میں تہذیبی شعور قومی یک جہتی کے احساس کے ساتھ زندہ رہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب قوم کے افراد اپنی قدروں پر یقین رکھتے ہوں اور خود کو اپنی انفرادیت میں نہیں، بلکہ کلیت میں مستحکم محسوس کرتے ہوں۔ وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہوں کہ اُن کی اجتماعی شناخت کا حوالہ ہی دراصل ان کی بقا کا ضامن ہے۔

    صارفیت کے اس عہد میں انسان کی حیثیت بھی محض ایک شے کی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ خاندان کا نظام پاکستان جیسے ملک میں بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے پورے پورے کنبے ایک گھر، ایک خانوادے کے طورے پر رہا کرتے تھے۔ افراد ایک دوسرے کی ذمے داریوں میں بغیر کہے حصے دار ہوجاتے تھے۔ آس پاس رشتوں کی موجودگی کا احساس ہر شخص کو تقویت دیتا اور اس کے حوصلوں کو بڑھاتا تھا۔ یوں اجتماعیت کا شعور نہ صرف آسانی سے برقرار رہ سکتا تھا، بلکہ اس کی اہمیت اور ضرورت کو بتانے کے جتن بھی نہیں کرنے پڑتے تھے۔ رشتے ایک دوسرے کے لیے روشنی اور حرارت کا انتظام خاموشی سے مگر پوری ذمے داری کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کنبے میں ہر شخص کی ایک جگہ اور ایک حیثیت ہوا کرتی تھی۔ اس حیثیت کو وہ خود کبھی شک کی نظر سے دیکھتا تھا اور نہ ہی کوئی اور۔

    آج منظر اس حد تک بدل چکا ہے کہ فرد اور شے میں فرق تک مٹتا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ بعض اوقات اشیا کی اہمیت افراد سے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسے مناظر آپ اور ہم سب اپنے دائیں بائیں بھی اس وقت آسانی سے دیکھ سکتے ہیں جب ایک گھر کے افراد الگ الگ کمروں میں بیٹھے الگ الگ ٹی وی چینل یا کمپیوٹر پر مصروف ہوتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ منظر بھی پرانا ہوچکا ہے۔ اب immidiate family یعنی سگے خون کے رشتے رکھنے والے افراد ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے اپنے آئی فون، اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور آئی پیڈ پر مصروف ہوتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ اپنا خون جوش مارتا ہے، یعنی قریب کے رشتے ایک دوسرے کی حرارت محسوس کرتے ہیں، لیکن اب یہ حرارت اس حد تک ماند پڑتی جارہی ہے کہ اس کے ہونے کا احساس بھی ختم ہورہا ہے۔

    ہماری عمر کے لوگوں کو وہ دن اور گھروں کا وہ ماحول آج بھی نہ صرف اچھی طرح یاد ہے، بلکہ اس کی کشش یا کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے کہ جب شام کو کام سے لوٹ کر آنے والے افراد کا گھر میں اشتیاق سے انتظار کیا جاتا تھا۔ جب وہ لوٹ آتے تھے تو گھر کا ماحول، اس کی فضا ہی کچھ اور ہوجاتی تھی۔ گویا گھر کی روشنی میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ ہوا میں آکسیجن کا تناسب بڑھ جاتا تھا۔ ایک دوسرے کے ہونے کا احساس آدمی کے لیے تقویت کا سامان کرتا تھا۔ کچھ لوگ تو اب یہ بات لفظوں میں کہنے لگے ہیں، لیکن جو نہیں کہتے، ان میں سے بھی بہت سے لوگ محسوس تو بہرحال کرتے ہیں کہ وہ بھی اب شام کو گھر میں اسی طرح آتے ہیں جیسے کوئی شے آتی ہے اور یہ کہ گھر میں اُن کی جگہ بھی اسی طرح مخصوص ہے، جیسے فریج، ٹی وی، ایئر کنڈیشنز یا ڈسپینسر کی ہوتی ہے۔

    فرد اور شے کے مابین یہی مٹتا ہوا فرق اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ دنیا کس طرف جارہی ہے۔ روبوٹ بنانے والے سائنس دان اب پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ محض تیس بتیس برس بعد آدمی روبوٹ سے شادی کرنے لگے گا۔ روبوٹ انسان کی جبلی اور جسمانی ضرورتیں ہی نہیں، بلکہ ذہنی اور جذباتی ضرورتیں بھی خوبی سے پوری کرکے اسے جیتے جاگتے انسان کی خواہش سے آزاد کردے گا۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کیا کہا جارہا ہے؟ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ آپ اس تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال کو قبول نہیں کررہے۔ عہدِ جدید جس طرح آپ کے احساس کی صورت گری کرنا چاہتا ہے، آپ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آپ کے خارجی ماحول اور داخلی احوال میں تصادم ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں ڈپریشن تو پیدا ہوگا۔ یقین کیجیے، یہ ڈپریشن برا نہیں ہے، بشرطے کہ آپ اس کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں اور یہ آپ کو زندگی کے خاتمے کی طرف نہ لے جائے۔ اگر آپ اس مرحلے پر اپنے احساسات کی اس منہ زور موج کو تھام کر اور اپنے اعصاب شل کرنے سے روک کر اسے اپنی قوتِ مدافعت کا ذریعہ بنالیں تو پھر آپ کے اندر اضمحلال پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے آپ کا اعصابی، ذہنی، جذباتی اور فکری نظام ان عوامل پر فوکس ہو پائے گا جو آپ کو حالات کے دھارے میں بہنے سے بچاسکتے ہیں اور ان کناروں کی طرف لے جاسکتے ہیں جہاں زندگی کی بقا کا سامان ممکن ہے۔ اشرف المخلوقات کی زندگی کا سامان۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے