احمد علی اور کافکا
احمد علی صاحب کا ذکر اس وجہ سے ضروری ہے کہ انہوں نے جو تجربہ کیا ہے۔ ایک معنی میں کوئی اردو افسانہ نگار اس سے آگے پہنچا ہی نہیں ہے۔ کافکا کا تتبع ایک طرح جوائس کی پیروی سے بھی دشوار ہے۔ یہاں خالی علم یا مہارت یا جدت پسندی سے کام نہیں چلتا۔ اس کے لیے ایک خاص قسم کے مزاج کی ضرورت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کافکا کی کتابیں اردو لکھنے والوں نے اول تو پڑھی نہیں، اور جو پڑھی ہیں تو مطلب عام طور سے بالکل غلط سمجھا ہے۔ کافکا کی کتابوں سے خود مصنف کی نفسیاتی الجھنوں کے بارے میں جوچاہے رائے قائم کرلیجیے، مگر یہ سمجھنا کہ وہ اپنے کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کا مطالعہ کر رہا ہے، کافکا کی توہین ہے، اس کی کرب انگیز تفتیش کا مرکز یہ مسئلہ ہے کہ پوری کائنات اور زندگی کی طاقتوں کے مقابلے میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ اسی تشویش کا نتیجہ ہے کہ اس کے ناولوں میں ہر معمولی سے معمولی چیز اور چھوٹے سے چھوٹا فعل پر اسرار اور ہیبت ناک بن گیا ہے۔
احمد علی صاحب نے اسی بات سے اثر لیا ہے اور افسانے ’’موت سے پہلے‘‘ میں یہی اثر پیدا کرنا چاہا ہے۔ یہ افسانہ میں نے بہت دن ہوئے پڑھا تھا، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ افسانہ کامیاب ہے یا نہیں۔ مگر مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ اس میں کافکا کا لب و لہجہ پایا جاتا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ کافکاکی قسم کا کامیاب ناول صرف وہی آدمی لکھ سکتا ہے جو ذہنی اعتبار سے اتناہی مریض ہو۔ اگر احمد علی اس افسانے میں ناکام رہے ہوں تو وجہ سمجھ میں آتی ہے، بہرصورت اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے کافکا کے مرکزی احساس کو اپنانا چاہا ہے او رایک آفاق گیر لگن کو تجسیم دینے کی کوشش کی ہے۔ احمد علی صاحب کافکا کے برابر حساس نہ سہی مگر وہ اس قسم کے احساس سے بالکل بیگانہ بھی نہیں ہیں اس کا اندازہ ان کے انگریزی ناول ’’شام دہلی‘‘ سے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ ناول اچھا نہ لگتا ہو، لیکن میرے دماغ پر تو یہ ناول بری طرح مسلط ہے، اور جب کبھی مجھے یاد آتا ہے تو اس طرح جیسے کسی کو اپنی ذاتی زندگی کا کوئی المناک تجربہ یاد آتا ہے۔ ویسے تو اس ناول میں نہ کوئی خاص قصہ ہے نہ کچھ، مصنف نے غیرملک والوں کو دہلی کی تہذیب کے آخری زمانے سے روشناس کرانا چاہا ہے لیکن احمد علی صاحب کے فنی احساس نے ان کے مقصد پر فتح پالی ہے۔ آخر تک پہنچتے پہنچتے تاثر بکھرا بکھرا نہیں رہتا۔ بلکہ مرتکز اور شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ اورجب ناول ختم ہوتا ہے تو ہم کسی ایک آدمی یا ایک شہر کے افسوسناک انجام سے دوچار ہونے کے بجائے بدات خود زندگی کے روبرو کھڑے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے، کدھر سے آئی ہے، کہاں جارہی ہے، اور اس کے معنی کیا ہیں۔ اس ناول میں احمد علی صاحب نے چھوٹی چھوٹی چیزوں اور واقعات کو ایک علامتی وجود عطا کردیا ہے جن کا اثر مجموعی تاثر پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ انہوں نے کافکا کی پیروی کرنی چاہی۔ مگر یہ بات میں پھر کہوں گا کہ کافکا کے رنگ میں صرف وہی آدمی کامیاب ہوسکتا ہے جو خود ذہنی مریض ہو۔
(’’ادبی تجربے‘‘ محمد حسن عسکری) جنوری 1950ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.