اکبر اور قومی تہذیب و معاشرت
اکبر الہ آبادی کی شاعری کایہ ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اکبرؔ کو سلطنت کے چھن جانے کا اتنا غم نہ تھا جتنا افسوس قدیم طرزِ معاشرت کے اختلال اور تہذیبی روایات کے زوال کا تھا۔ کیونکہ اس کے سبب زندگی کی وہ ساری قدریں ہی ملیامیٹ ہورہی تھیں، جو مشرق کے لیے سرمایۂ ناز اور انسانی شرافتوں کے لیے باعث افتخار رہی ہیں۔ سیاسی محکومی سے بھی زیادہ اکبر کو ابنائے وطن کی ذہنی محکومی کا شدید قلق اور افسوس تھا جو ایوانہائے مغرب کی ظاہری چکاچوند سے اتنے زیادہ مرعوب ہوگئے تھے کہ اپنی تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار کو قدامت کا نمونہ اور جہالت کی پیداوار قرار دے کر اندھا دھند مغرب کی سطحی تقلید و پیروی کر رہے تھے،
ہرگز نہیں ہم کو سلطنت کا افسوس
ہے ابتریٔ معاشرت کا افسوس
انگریزوں پہ ہے بہت کم الزام اس کا
ہے اپنے ہی میلِ معصیت کا افسوس
سلطنت اور حکومت تو ایک آنی جانی شے ہے۔ آج اس کی باگ اس کے ہاتھ میں ہے، تو کل اس کی ڈور دوسرے کے ہاتھ میں لیکن جب قومی غیرت و حمیت بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہوجائے تو پھر قوم کے دوبارہ پنپنے اور برسراقتدار آنے کی صورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟
انتظامی بات ہے یہ ہوتی آئی ہے یو نہیں
اس کا کیا شکوہ کہ ان کو ہم پہ غالب کردیا
ہاں یہ ہے افسوس ہم سے چھن گیا صبر و قرار
طالبِ حق کو فلک نے ان کا طالب کردیا
اکبرؔ الہ آبادی کو اجنبی حکمرانوں کے تسلط و اقتدار کا اتنا شکوہ نہیں تھا جتنا زیادہ محکوموں کے احساسِ مرعوبیت کے وہ شاکی تھے۔ اور متاسف و متالم نظر آتے تھے۔ ان کے خیال میں حکمران (اور وہ بھی اجنبی حکمران) کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے محکوم کے دل سے خوئے آزادی اور ذہن سے بوئے غیرت کو مٹادے، اور قدرتی بنیادوں پر ان کے قومی نظام کی شیرازہ بندی نہ ہونے دے لیکن انہیں تعجب تو ان لوگوں کی ذہنی حالت پر آتا تھا جو اجنبی سامراج کی سنہری رو پہلی تاروں پر کٹ پتلیوں کی طرح رقص کرنے میں فخر و مباہات محسوس کرتے تھے۔ اور حکمرانوں کے منہ سے نکلے ہوئے ہر کلمے پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے تھے،
مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا کام کرتے ہیں
مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس مٹنے پہ مرتے ہیں
حاکم و محکوم کے درمیان اس ذہنی تفاوت کا بدیہی سبب ہندوستان پر اجنبی راج کا تسلط تھا۔ اکبر اس الم نشرح حقیقت سے بے خبر نہیں تھے۔ جدید دور میں جو سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، فکری اور عمرانی تبدیلیاں برصغیر میں رونما ہو رہی تھیں۔ اکبر ان کو ژرف بین نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں سیاسی قوت کی برتری و بالادستی کا بڑا احساس تھا۔ اور وہ یہ جانتے تھے کہ اس کے اثرات لازمی طور پر معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی پڑتے ہیں۔ سیاسی قوت و اقتدار کے جلو میں ترقی و روشنی کی جو نئی نئی کرنیں فضائے ہند میں پھوٹ رہی تھیں، ملی طبائع کاان سے اثرپذیر ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ اکبر ان کو روک کر فطرت کے خلاف جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ سیاسی و عمرانی مسائل کے بارے میں اکبر کا زاویہ نطر بڑا ٹھوس اور حکیمانہ تھا۔ وہ مغرب کے مادّی و علمی عروج اور مشرق کے ذہنی و روحانی زوال کو ایک حقیقت پسند مفکر کی ژرف بین نگاہوں سے دیکھ کر اس کا بے لاگ تجزیہ کر رہے تھے،
تخت کے قابض وہی وپیہم ان کے ہاتھ میں
ملک ان کا رزق کی تقسیم ان کے ہاتھ میں
برق کی صورت پہنچتا ہے طبائع پر اثر
آگیا تارِ امید و بیم ان کے ہاتھ میں
ہم کو سائے پر جنوں وہ دھوپ میں مصروفِ کار
مس پہ ہے اپنی نظر اور سیم ان کے ہاتھ میں
صبر باقی ہے نہ ہم میں باہمی اعزاز ہے
سب کی ہے تذلیل اور تعظیم ان کے ہاتھ میں
شیخ کی جانب کوئی جاتا نہیں کہتے ہیں سب
ہے فقط اب کوثر و تسنیم ان کے ہاتھ میں
مغربی رنگ وردش پر کیوں نہ آئیں اب قلوب
قوم ان کے ہاتھ میں تعلیم ان کے ہاتھ میں
مغرب ایسا ہی رہا اور ہے اگر مشرقی یہی
ایک دن دیکھیں گے ہفت اقلیم ان کے ہاتھ میں
اس صورتِ حال میں اکبر کی ہر ممکن کوشش یہ تھی کہ مشرقی تہذیب و معاشرت اپنے پاؤں پر مضبوطی سے قائم رہے۔ مشرق کے لوگ اپنی اصلیت و حقیقت کو پہچانیں، اور اس سے گریز اختیار نہ کریں۔ ان کی معاشرتی زندگی، جس کی جڑیں مذہب و اخلاق کی زمین میں پیوست ہیں، وقت کی تند و تیز آندھیوں اور طوفانوں سے متاثر ہوکر اپنی اساس و بنیاد سے بیگانہ ہوجائے۔ مغرب کی مادی ترقیوں اور علمی فتوحات کے نہ تو وہ منکر تھے اور نہ مخالف بلکہ دوسروں سے کچھ زیادہ ہی وہ ان کی طاقت و حکمت کے قائل تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ان سے مرعوب ہرگز نہیں تھے۔ اسے اکبر کی ضد اور ہٹ دھرمی کہیے یا ان کے ایمان و ایقان کی مضبوطی و پختگی، بہرحال یہ ایک حقیقت ہے۔
اکبر کے خیال میں مغرب مادی و علمی اکتشافات میں بے پناہ ترقی کر گیا تھا اور کرتا جارہا تھا۔ اس معاملے میں مشرق کی نارسائی بالکل واضح تھی۔ اور اکبر کو اس محرومی کاشدید احساس تھا۔ لیکن انہیں اس امر کا بھی پختہ یقین تھا کہ جو انمول شے مشرق کے پاس ہے، اس سے مغرب کا دامن تہی ہے۔ البتہ انہیں اس بات کا سخت قلق و افسوس تھا کہ مشرق روزبروز اپنے اس قیمتی ورثے اور انمول سرمائے سے بھی از خود محروم ہوتاچلاجارہا ہے۔ اور سیاسی محکومی کے بعد خوشی خوشی مغرب کی ذہنی محکومی کے دلفریب چنگل میں پھنستا جارہا ہے۔ اس بے حسی و بے گانگی اور مغرب کی سطحی تقلید و پیروی میں اسے دو طرح کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ یعنی نہ تو اس کی رسائی ان مادی و علمی اکتشافات تک ہوسکتی ہے، جو مغرب کی شبانہ روز جدوجہد کا قیمتی حاصل ہیں۔ اور اپنی متاعِ گراں مایہ سے تو وہ پہلے ہی دست کش ہوجاتا ہے۔ گویا نہ تو وہ گھر کا رہتا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا!
اکبر کا پیغام اس صورتِ حال میں یہی تھا کہ پہلے اپنے تہذیبی ورثے اور قومی معاشرتی سرمائے کی حفاظت کرو، اپنے گھر کو پہچانو، اپنے پاؤں کو اور اپنے شجر قومی کی جڑوں کو مضبوطی سے تھامو اور پھر جب اپنے مقام و منزلت پر مستحکم ہوجاؤ تو اس کے بعد دنیا بھر کے علوم و فنون سیکھو اور ان میں مہارتِ تامہ پیدا کرو۔ خودشناسی، خود نگری و خود گری کا یہ ایک ایسا ہمہ گیر پیغام ہے جو قومی غیرت و خودی کا حامل اور ملکی آزادی و معاشرتی ترقی کا سب سے بہتر ضامن ہے۔ اور اسی پیغام میں درحقیقت مشرق کی نجات اور مشرق کے باشندوں کی فلاح و بہبود کا راز مضمر ہے۔!
اب ہم تہذیب و معاشرت کے سلسلے میں مشرق و مغرب، مذہب و سائنس، قدیم و جدید کے تصادم اور اس کے بارے میں اکبر الہ آبادی کے ردعمل اور ان کے کلام و پیغام پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے تاکہ مرقومہ بالا خیالات کی کسی قدر وضاحت ہوجائے،
مشرق و مغرب کی آویزش
مشرق اور مغرب کے تصادم کی ابتدایوں تو صدیوں پہلے صلیبی جنگوں کے سلسلے میں ہوچکی تھی۔ لیکن وہ اسلامی عروج و اقتدارکا زمانہ تھا۔ اور مسلمان نہ ابھی دین سے اتنے بیگانہ ہوئے تھے اور نہ دنیا سے اتنے بیزار۔ اس لیے یورپ کے صلیبی جنگ آزماؤں کے تندہ تیز ریلے ایشیا کے درودیوار سے ٹکراکر ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتے رہے۔ لیکن سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں (احیائے علوم RENAISSANCE کے بعد) مغرب علم و عمل کے میدانوں میں شاہراہِ ترقی پر گامزن ہو رہا تھا۔ اور اس کے مقابلے میں مشرق پر جمود و غفلت کے سیاہ بادل منڈلانے شروع ہوگئے تھے۔ اور ان مخالف سمتوں پر چلتے چلتے اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی یعنی دور جدید (MODERNAGE) تک مشرق میدانِ حرب و ضرب میں مغرب کے ہاتھوں پوری طرح شکست کھابیٹھا۔ اور اس کی حالت بقول اکبرؔ اب یہ ہوگئی تھی کہ،
گو سانس چل رہی ہے خوں اب نہیں جہندہ
مشرق بہ دستِ مغرب مردہ بہ دست زندہ
مشرق او رمغرب کا یہ تصادم اگر صرف میدانِ حرب و ضرب کی حد تک ہی محدود رہتا تو شاید اتنی قابل افسوس بات نہ ہوتی۔ آخر یورش تاتار نے بھی تو اکثر مشرقی ممالک کو روند کر خاک و خون میں ملاڈالا تھا۔ اور پھر وہ دوبارہ سنبھل بھی گئے تھے لیکن اب اس تصادم کارخ میدانِ جنگ سے ہٹ کر اندرونِ خانہ یعنی تہذیب و معاشرت کی طرف ہوگیا تھا۔ اور مشرق محاربہ و پیکار میں شکست خوردگی کے بعد اب ذہنی اعتبار سے مغرب کے مقابلے میں زک پر زک اٹھانے لگا تھا۔
انیسویں صدی میں مشرق و مغرب کا تصادم اسی قسم کا تھا اور نتائج کے اعتبار سے یہ تصادم پہلے تصادمات سے زیادہ مہلک اور تباہ کن تھا۔ کیونکہ میدانِ حرب و ضرب میں شکست کھانے کے بعد قومیں سنبھل بھی جایا کرتی ہیں۔ لیکن ذہنی اعتبار سے شکست خوردگی کے بعد ان کے پنپنے کی کوئی صورت بھی باقی نہیں رہتی۔
قوموں کے دل و دماغ سے وہ احساسِ مقاومت ہی دم توڑدیتا ہے جو انہیں دوبارہ پر و بال تولنے اور کارزارِ حیات میں سنبھلنے پر آمادہ کرسکے۔ اکبر کو مشرق و مغرب کے جس تصادم سے سابقہ پڑا وہ اسی قسم کا تھا۔ اس کی نوعیت سیاسی سے زیادہ تہذیبی و معاشرتی تھی۔ اور اکبر کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ تہذیب و معاشرت میں مغرب سے شکست کھاجانے کے بعد مشرق کے دوبارہ ابھرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوئی صورت بھی باقی نہیں رہے گی!
اس شعور و احساس کے ساتھ اکبر جن افکار و خیالات کا اظہار کر رہے تھے وہ بڑے بروقت اور برمحل تھے۔ اور ان کی مناسبت اور قدروقیمت کا صحیح اندازہ اکبرؔ کی شاعری کے پس منطر کو نگاہ میں رکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ ذیل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے، جو مشرق و مغرب کے اسی تصادم کے نتائج کی پیداوار ہیں،
ہے ہوائے چمن دہر انہیں کے رخ پر
ان کے کھلنے کے دن ہیں مرے مرجھانے کے
اس کا پسیجنا ہے اور اس کے بھپارے ہیں
یورپ نے ایشیا کو انجن پہ رکھ لیا ہے
یورپ کے جاگنے پر صدیوں نظر نہیں کی
قسمت کو ایشیا کی سونا ہی چاہیے تھا
*
ہمارا مشرقی دل نزع میں ہے وقتِ آخر ہے
نہیں مغرب کو غم اس کی نظر میں مرگ کافر ہے
*
غرور اتنا نہ کر قوت پر اپنی اے بتِ ترسا
ہمارے ہوش غائب ہیں مگر اللہ حاضر ہے
*
کلیسا کے مقابل آج مشکل میرا جینا ہے
کہ غیروں پر اسے غصہ ہی ہے مجھ سے تو کیا ہے
*
نقلِ مغرب میں جو چھوڑی ایشیا نے اپنی اصل
گھٹ گئی شانِ عرب حسنِ عجم جاتا رہا
*
مشرقی تو سرِدشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی اس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں
*
رنگ اڑانا اہل یورپ کا تو ہے اکبر محال
مفت اپنے آپ کو تم نے تماشا کردیا
*
تہذیب مغربی کی بھی ہے وارنش غضب
ہم کیا جنابِ شیخ بھی چکنے گھڑے ہوئے
*
مرکزِ دل بزمِ مشرق میں کوئی ملتا نہیں
ہر طبیعت مغربی چکر میں ہے آئی ہوئی
*
مرید دہر ہوئے وضع مغربی کرلی
نئے جنم کی تمنا میں خودکشی کرلی
ذیل میں غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ حسن تغزل کے ساتھ ساتھ مشرق کی نارسائی وبے چارگی کا نوحہ کتنے سوز و درد میں ڈوب کر کہا گیا ہے،
جو میری ہستی تھی مٹ چکی ہے نہ عقل میری، نہ جان میری
ارادہ ان کا دماغ میرا، خیال ان کا زبان میری
*
علوم ان کے زبان ان کی پریس ان کے لغات ان کے
ہماری زندگی کے سارے اجزا پر ہیں ہات ان کے
*
اب انہیں کے کوچہ کی دھوم ہے نہیں کرتا ذکر ارم کوئی
انہیں ضد بھی تھی اسی بات کی کہ نہ ذکر باغ ارم رہے
مجھے کیا امید فروغ کی کہ بتوں کی تو ہے یہی خوشی
نہ یہ دل رہے نہ زبان رہے نہ خدا رہے نہ حرم رہے
حالیؔ و شبلی کی طرح اکبرؔ کے سامنے بھی قوم کے عروج و زوال کا عبرت انگیز نقشہ تھا۔ اور یہ منطقی حقیقت بھی ان کے پیش نظر تھی کہ جب کوئی قوم بلندی سے پستی کی طرف لڑھکتی ہے تو اس کے ہنر بھی عیب بن جایا کرتے ہیں۔ اور حکومت و اقبال مندی کے رخصت ہوجانے پر ہوش و خرد بھی ہوا ہوجاتے ہیں اور ترقی و کامرانی کی راہیں بھی مسدود ہوجاتی ہیں،
اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں
اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا
مسلم قوم کی حالت کبھی یہ بھی تھی کہ،
ندوح شرق و غرب و شمال و جنوب تھے
تعریف تھی ہنر کی بری از عیوب تھے
اب کچھ نہیں تو کیا کہیں تم سے کہ کیسے ہیں
ہاں اس میں شک نہیں ہے کہ جب تھے تو خوب تھے
ان حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اکبر کے لیے مشرق کے ضعف و ناتوانی اور مغرب کی قوت و توانائی کے چرچے کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھے۔ لیکن انہیں تعجب تو ان مصلحین قوم کی باتوں پر آرہا تھا، جو ان سیاسی حالات سے مرعوب ہوکر مشرق و مغرب کو ملانا چاہتے تھے۔ اور مشرق میں نئی مغرب زدہ تہذیب و معاشرت کی پیوندکاری کرنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تہذیب و معاشرت میں مشرقیت سراسر گھاٹے میں رہتی۔ اور قدم قدم پرمغرب کی فوقیت اور برتری کااحساس اس پر غالب رہتا گریا ملک و قوم ذہنی اعتبار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محکومئ مغرب کی طلائی زنجیر میں پابستہ ہوکر مفلوج ہوجاتے۔ ایسی حالت میں فکر تمدن کرنا، اور پھر اس میں اپنی فضیلت و برتری کا بھی کوئی پہلو نکالنا، اکبر کے نزدیک ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا،
دست و پابستہ ہوں میں ظاہر کوئی گن کیا کروں
دوسروں کے بس میں ہوں فکر تمدن کیا کروں
ان حالات میں اکبر مصلحین ملت کی اس قسم کی کوششوں کو ملک و قوم کے حق میں مہلک تصور کرتے تھے،
اِدھر خیال نہیں مصلحانِ ’’نشین‘‘ کا
کہ فرطِ ضعف نہیں وقت ’’آپریشن‘‘ کا
اور اس انتباہ و آگاہی کے باوجود مصلحین کی کوششیں جاری رہیں۔ اور ان کے نتیجے میں جس قسم کی سطحی تہذیب و معاشرت برصغیر ہندوستان میں جنم لے رہی تھی، اکبر اس کے نتائج و عواقب پر غور و فکر کرکے حیرت و تعجب کا اظہار کررہے تھے۔ اور اس بات پر متاسف و متالم تھے کہ آخر یہ ملک اور یہ قوم کون سی منزل کی جانب رواں دواں ہے،
نئی نئی لگ رہی ہیں آنچیں یہ قوم بے کس پگھل رہی ہے
نہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے عجیب سانچے میں ڈھل رہی ہے
اور شاعر کا وجدان و احساس یہاں بھی اپنے فن میں حقائق و معارف کے موتی پرو پروکر رہروانِ منزل بے نشان کی رہنمائی کا فرض انجام دے رہا تھا،
سب سعی میں مصروف ہیں حاصل کی نہ پوچھو
مغرب کے خضر ساتھ ہیں منزل کی نہ پوچھو
ہے بحرِ مباحث میں رواں کشتی امید
لہروں کی لچک دیکھ لو ساحل کی نہ پوچھو
آگاہ ہوں معنی خوش اقبال سے
واقف ہوں بنائے رتبہ عالی سے
شرطیں عزت کی اور ہیں اے اکبر
چلتا نہیں کام صرف نقالی سے
بانی طرزِ نو کے طریقوں کے متبع
خلقِ فکر نہ چھوڑیں گے اولاد کے لیے
البتہ ان بناؤں سے جن کے لیے ہے سعی
کچھ جال چھوڑ جائیں گے صیاد کے لیے
مذکورہ بالا امثال سے یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اکبر کو مصلحین کی ذات یا ان کی اصلاحی کاوشوں سے کدیا اختلاف اس لیے نہیں تھا کہ وہ خود قدامت پرست تھے۔ یا انہیں قومی ترقی اور ملکی خوش حالی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ بلکہ ان کو جس بات پر اعتراض تھا، وہ صرف یہ تھی کہ مغرب کی سطحی تقلید اور اندھا دھند نقالی کرنے سے مشرق اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ جہاں مغرب علوم و فنون اور قوت و توانائی کے بل پر پہنچ گیا ہے۔ وہ مثبت انداز میں مصلحینِ قوم کو غیروں کی تہذیبی و معاشرتی اقدار کے سطحی انجذاب کے مضر اثرات سے آگاہ کر رہے تھے۔ اکبرؔ چاہتے تھے کہ مغرب کی جدید علمی فتوحات تک رسائی سے پہلے مشرق کے دیدہ و دل میں وہ روشن خیالی پیدا ہو جس سے یہاں کے باشندے اپنے دل و دماغ میں احساسِ منفعل کو جگہ دیے بغیر اپنی قومی و ملی روایات اور قدیم علمی و اخلاقی وراثتوں کے ساتھ ساتھ نئے علوم و فنون کے حصول کی جدوجہد کریں۔ اور اس طرح نقال کہلانے کی بجائے خود موجد بنیں اور عظمتِ انسانی کے بلند تر مراتب حاصل کریں!
لیکن تجدد و اصلاح کے نقار خانے میں طوطی کی آواز کو بھلا کون سنتا۔ نئی ترقی و نئی روشنی کے بلند آہنگ نعروں میں اکبر اپنی صدائے پردرد کو صحرائے بے الفتاتی کے ریگ زار میں گم ہوتے دیکھ کر بالآخر حسرت و غم کے لہجے میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،
بوئے گل میں فسوں ہی وہ نہ رہا
موسم بدلا جنوں ہی وہ نہ رہا
سینے میں وہ دل کہاں سے آئے اکبر
جب اپنی رگوں میں خوں ہی وہ نہ رہا
اور انجام کار وہ مشرق و مغرب کی آویزش کو بھی تاریخ انقلاب کا ایک یادگار مرقع سمجھ کر رودادِ حوادث میں اس داستانِ دل گداز کو بھی رقم کرنے لگتے ہیں۔ (یہ کلام آخرعمر کا ہے۔۔۔!)
جھکا ہوا ہوں میں سوئے مشرق اُدھر وہ مغرب میں تَن رہا ہے
مرا فسانہ ہوا پرانا اب اُس کا افسانہ بن رہا ہے
نہیں ہے اب دور وقتِ آخر حضوریٔ حق میں رہ تو حاضر
ان انقلابوں سے ہو نہ بیدل یہی فلک کا چلن رہا ہے
اور پھر رودادِ حوادث کی اس روشنی میں مشرق و مغرب کے متعلق مستقبل کے امکانات بھی اکبرؔ کی شاعرانہ بصیرت کے سامنے جلوہ گر ہونے لگتے ہیں،
یاں ضعف روز افزوں اور اس کے ساتھ عبرت
واں زور روز افزوں اور اس کے ساتھ غفلت
ہم میں جو کچھ ہے باقی اس کو بھی کھوچکیں گے
لیکن حریف خود بین بھی جلد ہوچکیں گے
سچ ہے کہ ہونے والی ہرگز نہیں ٹلے گی
دنیا یوں ہی چلی ہے دنیا یوں ہی چلے گی
مشرق اور مغرب کے اس تصادم میں سب سے زیادہ قابل توجہ مسئلہ معرکہ مذہب و سائنس کا تھا۔ مغرب کی سائنسی فتوحات اور مادی ترقیات نے بعض لوگوں کے ذہنوں میں روحانیت کے بارے میں تشکیک کا احساس پیدا کردیا تھا۔ مذہب کو دنیا کی ترقی و خوش حالی میں سنگِ گراں سمجھا جانے لگا تھا۔ اس صورتِ حال سے متاثر ہوکر ہندوستان میں نئی تعلیم یافتہ پود کے مذہبی عقائد خاص طور سے متزلزل ہو رہے تھے۔ اور لادینی افکار کی اس یورش میں ملک کے معاشرتی نظام کامتاثر ہونا لازمی امر تھا۔
مذہب، اخلاق اور عقیدے
اکبر انسان اور اس کی معاشرتی زندگی کے نظام میں مذہبی و اخلاقی عقائد کی بنیادی اہمیت کے قائل تھے۔ اور وہ اپنی اس روش پر اتنی مضبوطی اور ثابت قدمی سے قائم تھے کہ مذہب و عقائد کو بحث و مناظرہ سے ماورا سمجھتے تھے،
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
’’فالتو عقل‘‘ کے اس مختصر سے جملے میں اتنی بلاغت ہے کہ اس میں اکبر کی فکر و نظر کے سارے نشان مل جاتے ہیں۔ ایک ایسی حقیقت کے بارے میں کہ جو آفتاب نصف النہار کی طرح نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہو، بحث و مناظرہ کرنا حقیقتاً عقل و دانش سے بعید ہے۔ اور اکبر جو عموماً اپنی شاعری میں ایک عقلیت پسند شاعر کی حیثیت سے جلوہ گر ہوتے ہیں، مذہب کے وجدانی حقائق کے بارے میں عقل کی رہنمائی قبول نہیں کرتے۔ یوں وہ عقل کو بالکل طاق نسیان پر بھی نہیں رکھ دیتے، البتہ ا س کے حدددِ اربعہ کی تعین ضرور کردیتے ہیں،
عقل مذہب سے دوستی رکھے
نہ تو دشمن ہو اس کی اور نہ غلام
اس سلسلے میں اکبر کے خیالات و نظریات میں اتنی پختگی اور قطعیت ہے کہ تہذیب و معاشرت کے بہت سے دوسرے فروعی امور میں تو وہ مفاہمت پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن مذہب و عقائد کے بارے میں وہ ذرہ برابر بھی لچک پیدا کرنے اور ڈھیل دینے کے روادارنہیں ہوتے۔ اور پھر اس امر میں ان کی رہنمائی صرف جذبات ہی نہیں کرتے، بلکہ جذبے کے علاوہ اس میں تفکر کا عنصر بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکبر کے یہ خیالات و نظریات ان کی شاعری میں بڑے ٹھوس اور مثبت رنگ میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اور اپنی اہمیت و افادیت کو بھی پوری طرح واضح کردیتے ہیں۔
مذہب وعقائد کے بارے میں اکبر کے تصورات میں بڑی ہمہ گیری اور آفاقیت ہے۔ وہ ایک کٹر مسلمان ہیں لیکن تنگ نظر نہیں۔ اس امر میں ان کے خیالات و نظریات میں متصوفانہ وسیع المشربی کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ ہر ملت اور ہر عقیدے کے لوگوں کا، جو کسی نہ کسی طرح خداوند تعالیٰ کی ہستی پر اعتقاد رکھتے ہیں، نہ صرف ان کا احترام کرتے ہیں، بلکہ انہیں اپنے اپنے مسلک و مشرب پر ثابت قدم رہنے کی تلقین و ہدایت بھی کرتے ہیں۔ اور حقیقت مطلق کے بارے میں ان کے تصورات میں ہم رنگی و ہم آہنگی پیدا کرکے ایک عالم گیر وحدت کا خواب بھی دیکھتے ہیں،
مذہبی داد، ہر اک کے ہیں جدا
مذہبی اللہ سب کا ایک ہے
متحد ہوجائیں بس اللہ پر
دل میں سوچیں یہ خیال نیک ہے
*
کسی کو بھی کسی سے کچھ نہیں اس باب میں جھگڑا
کرو تم دھیان پر میشر کا دل کو اس کا درشن ہو
مگر مشکل تو یہ ہے نام سب لیتے ہیں مذہب کا
غرض لیکن یہ ہوتی ہے جتھا ہو اور بھوجن ہو
*
کیا ہے مذہب ایک ملکی اور سوشل انتظام
یہ نہیں پہچان ہرگز کافر و دیندار کی
صورت و الفاظ کا اکثر نہیں ہے اعتبار
ہیں فقط یہ عادتیں رفتار کی، گفتار کی
ہیں ہر اک مذہب میں کچھ کافر بھی کچھ دیندار بھی
یاد رکھ تو بات یہ اک محرم اسرار کی
جدید زمانے کے حالات و مقتضیات کی روشنی میں مذہب و عقائد کے بارے میں اکبر کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے۔ مغربی تہذیب و معاشرت اور جدید علمی افکار کا سب سے بڑا ہدف یہی چیزیں تھیں۔ اور اس معاملے میں ہندو، مسلم یا کسی دوسرے مذہب کے پیرو کارکی کوئی تخصیص نہ تھی۔ شیخ و برہمن سب زمانے کے بہاؤ میں تیزی سے بہتے چلے جارہے تھے،
شیخ ہوں یا مجتہد یا برہمن
بار ہے سب پر زمانے کا چلمن
*
خالی حرم کو شیخ ہی تنہا نہ کر گئے
حیرت میں بت بھی ہیں کہ برہمن کدھر گئے
*
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
انیسویں صدی کے مصلحین کی روش مذہب و عقائد کے بارے میں معاندانہ تو نہیں تھی لیکن مغربی علوم و فنون اور تہذیب و معاشرت سے مفاہمت پیدا کرنے کے لیے وہ مذہب و عقائد میں جس قسم کی لچک پیدا کرنی چاہیے تھے، اکبر اس سے بالکل متفق نہیں تھے۔ یہی بات دراصل اکبر اور مصلحین کے درمیان اختلافات کا بنیادی سبب تھی۔ اس بارے میں اکبر کا زاویہ نظر بالکل واضح ہے۔ وہ مذہب کو معاشرے کی قدر اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ اسے ایک ذاتی یا نجی شے نہیں سمجھتے۔ مذہب میں وہ اس کے روحانی پہلو کو اساسی و بنیادی قرار دیتے تھے۔ اور اس امر میں کسی قسم کے سمجھوتے یا مفاہمت کو مذہب کی روح کے منافی خیال کرتے تھے۔ لیکن مصلحینِ ہند مغربی علوم و افکار سے متاثر بلکہ مرعوب ہوکر مذہب کے بارے میں جو تاویلات پیش کر رہے تھے، وہ کچھ اس قسم کی تھیں کہ جس سے بالآخر مذہب ہی کو سجدۂ سہو ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح مذہب پر مادی مسائل اور شکم پُری اور تن پروری کے رجحانات اس قدر غالب آجاتے تھے کہ مذہب کا حقیقی مفہوم یعنی حقیقتِ مطلق تک رسائی اور عرفانِ ہستی کی منزل انسان کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوجاتی تھی۔ ظاہر ہے کہ محض ایں جہانی زندگی کو بہتر اور خوب تر بنانے کے نظریات سے جو معاشرتی رجحانات پیدا ہوسکتے ہیں، ان میں خودغرضی اور نفس پرستی کے جذبات کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکبر اس قسم کے رجحانات کا دفاع کر رہے تھے۔ اور مصلحین کی مادی مذہبی تاویلات کی تکذیب کر رہے تھے،
شیخ برگڈ کہتے ہیں مذہب ضروری ہے مگر
فائدہ مذہب کا جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے
*
برگڈ کے مولوی کو کیا پوچھتے ہو کیا ہے
مغرب کی پالیسی کا عربی میں ترجمہ ہے
*
خوشی سے شیخ کالج سوئے مسجد اب نہیں چلتا
جہاں روٹی نہیں چلتی وہاں مذہب نہیں چلتا
*
یاروں کی دوڑ دھوپ ہے دنیا کی چیخ پر
اور دین ہے کبابِ ضرورت کی سیخ پر
*
لذت خدا کے نام میں کچھ کم نہ تھی مگر
پیش شکم زبان نے ہمت ہی ہار دی
اکبر مذہب کے مادی پہلو سے انکار نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مذہب کے دونوں پہلو یعنی دینی اور دنیوی یا روحانی اور مادی یکساں قابلِ توجہ ہیں اور ان دونوں پہلوؤں میں توازن اور اعتدال ہی درحقیقت معاشرے کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ضروری بھی ہے،
یہ تو سچ ہے جی لگا کر چاہیے پڑھنا نماز
یہ بھی سن لو جی لگاکر سانس لینا چاہیے
لیکن اس امر میں ان کا نقطہ نظر بالکل قطعی اور واضح تھا کہ مذہب اور دینی عقیدے کسی دنیوی غرض و فایت سے متاثر اور کسی وقتی مصلحت اور اندیشے سے مرعوب نہیں ہونے چاہئیں،
مذہب وبا ہوا نہ ہو فکرِ معاش سے
اندازۂ ترقی ملت اسی میں ہے
اکبر کے نزدیک مذہب محض خالی خولی عقیدے یا فلسفے اور مابعد الطبیعاتی تصور کانام نہیں بلکہ پورا نظام حیات اسی کے گرد گھومتا ہے۔ سیاسی و عمرانی مسائل کا سرچشمہ مذہب ہے۔ اور معاشرتی زندگی سے مذہب کو خارج کردینے سے سارا نظامِ معاشرہ جسدِ بے روح بن کر رہ جاتا ہے۔
مذہب کامعاشرت سے ہے ربط کمال
دونوں جو ہوں مختلف تو آرام محال
پہلے یہ مسئلہ سمجھ لیں احباب
بعد اس کے رفارم کا کریں دل میں خیال
*
ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی یہ گیا تو سب گیا
نیشنل فیلنگ تو ہم میں کبھی تھی ہی نہیں
اتحادِ دین فقط باقی رہا تھا اب گیا
ہے عقیدوں کا اثر اخلاقِ انسان پر ضرور
اس جگہ کیا چیز ہوگی وہ اثر جب دب گیا
پیٹ میں کھانا زباں پر کچھ مسائل ناتمام
قوم کے معنی گئے اور روح کا مطلب گیا
منقلب ہوتے ہیں پیہم طالب العلموں کے کورس
کورس بھی رخصت ہوا اس کا زمانہ جب گیا
اتحاِ دمعنوی ان میں برائے نام ہے
دیکھتے ہو اک گروہ اک راہ ہو کر کب گیا
بعد ازیں کیا حشر ہوگایہ تو سوچو دوستو!
جو اٹھا بہر ہلاکت ملت و مشرب گیا
لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ سیاسی محکومی نے جہاں معاشرے کی دوسری اقدار و روایات کو متاثر کیا تھا وہاں مذہب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکا۔ یوں تو غیرملکی حاکموں نے اپنے شاہی اعلانات کے ذریعے محکوموں کو ایک طرح کی مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ لیکن یہ آزادی کچھ ویسی ہی تھی جیسی مغرب میں بھی مذہب کو حاصل ہے۔ یعنی عبادت و ریاضت کی آزادی، اکبر کے نزدیک مشرقی محکوموں کے لیے اس قسم کی مذہبی آزادی بے معنی چیز تھی۔ کیونکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اس آزادی سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا تھا۔ ایسی صورت میں مذہب اور عقائد محض ایک ذاتی مسئلہ یا کتابی فلسفہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور حقیقی مذہب جبروا کراہ کے تلے دم توڑنے لگتا ہے،
نہ ہو مذہب میں جب زورِحکومت
تو وہ کیا ہے فقط اک فلسفہ ہے
*
مذہب سوسائٹی ہے اور دین آخرت ہے
پولیٹکل جو پوچھو، طاقت ہے اور سکت ہے
*
حق پرستی کا نشاں اب قبر ہے یا صبر ہے
اور جو کچھ ہے عقیدوں پر فقط ایک جبر ہے
غلاموں اور محکوموں کا بھی بھلا کوئی مذہب ہوتا ہے۔۔۔؟
جب قوت تھی سب دعوے تھے قوت ہوئی گم اب کچھ بھی نہیں
طاقت ہی کے سارے غمزے تھے کمزور کا مذہب کچھ بھی نہیں
*
معرکۂ مذہب و سائنس
یہ انیسویں صدی کا ایک اہم نزاعی مسئلہ تھا(۱) اس کی بحثیں مغرب میں بھی جاری تھیں اور مشرق میں بھی۔ مغرب میں تو سائنس کی ترقی اور مشینی آلات کی روشنی میں مذہب اور روحانیات کا تصور بالکل دب کر رہ گیا۔ اور عام طور پر یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ مذہب کا تصور مادی ترقی کے راستے میں حارج ہے۔ لہٰذا اسے عملی اور اجتماعی زندگی سے بالکل الگ کردینا ہی مناسب ہے لیکن مذہب وعقائد کی سرزمین مشرق کی حالت اس بارے میں مختلف تھی۔ برصغیر ہندوستان کے مصلحین جو معاشرتی اصلاح و ترقی کے سلسلے میں ہر بات کا جواز مغرب کی تقلید و پیروی میں تلاش کرنے کے عادی ہوچکے تھے، اس ضمن میں بڑی کش مکش کا شکار ہوئے۔’’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ والی بات تھی۔۔۔ بقول اکبر،
مذہب کے جو ہو رہیں تو سرکار کا خوف
مذہب سے اگر پھریں تو پھٹکار کا خوف
دونوں سے اگر بچیں تو احباب کو ہے
بے رونقی دوکان و دربار کا خوف
اس صورتِ حال سے عہدہ برآہونے کے لیے مصلحین نے جو روش اختیار کی، وہ یہ تھی کہ مذہب ہی کو کھینچ تان کر سائنس کی دنیا کے لیے قابلِ قبول بنادیا جائے۔ حالانکہ سائنس اور مذہب دونوں کے اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر ہیں۔ ذرا سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے، تو ان میں کہیں بھی تصادم نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے خیر و برکت کا باعث بن جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اکبر کا زاویہ نظر بڑا متوازن اور حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ نہ تو سائنس کی قوتِ ایجاد کے منکر ہوتے ہیں اور نہ ہی مذہب کو سائنس کی ترقی اور مشینی ایجادات کی روشنی میں؟ قرار دیتے ہیں۔ بلکہ وہ ان کے مادی و روحانی پہلوؤں کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی نقطۂ نطر سے جہاں ان دونوں میں باہمی ربط ضبط کی ضرورت پیش آتی ہے، اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ اس طرح سائنس کی قوتِ ایجاد کے ساتھ ساتھ اس کے تعمیری اور تخریبی پہلو بھی سامنے آجاتے ہیں۔ اور ان سب کا تجزیہ کرتے ہوئے انسان اور اس کی معاشرتی زندگی کی فلاح و بہبود کے نقطۂ نظر سے مادّیت کو روحانیت و اخلاق سے پابستہ کرنے کی ضرورت و اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ اس رَوش پر چل کر اکبرؔ نے جہاں سائنس کی قوت و توانائی کو تسلیم کیا ہے، وہاں مذہب کی فضیلت و عظمت بھی واضح کردی ہے۔ یہاں مذہب کو منفعل ہوکر سائنس کے سامنے سرجھکانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ بلکہ سائنس کی دنیا میں اس کی اہمیت و افادیت اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔ اور اس طرح سائنس او رمذہب کا مسئلہ ایک نزاعی مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور ایک اچھے معاشرے کو تعمیری نقطہ نظر سے ان دونوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ سائنس کی بھی اور مذہب کی بھی!
مندرجہ ذیل چند اشعار سے مذہب و سائنس کی بحث کے بارے میں اکبرؔ کے زاویۂ نظر کی وضاحت بخوبی ہوجاتی ہے،
منزلوں دور اُن کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خوردبین اور دور بین تک ان کی بس اوقات ہے
*
نہیں سائنس واقف کار دین سے
خدا باہر ہے حد دوربین سے
*
صداقت کے نشاں اس مصرعہ اکبرؔ میں ملتے ہیں
کلیں سائنس سے چلتی ہیں دل مذہب سے ہلتے ہیں
*
دوحرف میں ہیں دفتر تجھ کو اگر نظر ہے
مذہب مرید کن ہے۔ سائنس میں ’’اگر‘‘ ہے
*
ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ بھی خوب آپ بھی خوب
کھیت کو ابر اور انجن کے لیے بھاپ بھی خوب
*
وہ دو ذرّے بلا اِذن خدا مل ہی نہیں سکتے
کہ جن کے میل سے سائنس کی قوت ابھرتی ہے
انیسویں صدی کی فنی و اثبات کی اس بحث سے گزر کراکبرؔ نے بیسویں صدی میں سائنس کی تخریب پسندی اور ہلاکت آفرینی کے بھیانک مناظر بھی دیکھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر انہیں اپنے مسلک کی سچائی اور سائنس پر مذہب کی فضیلت ثابت کرنے کا ایک نادر موقعہ ہاتھ آگیا،
اگرچہ ہے آتشی مشینوں سے فتح یابی کا سہل ہونا
خدا پرستی ہی میں مسلم ہے حکمرانی کا اہل ہونا
کیوں کر کہوں کہ کچھ بھی نہیں فیر کے سوا
سب کچھ فنونِ غرب میں ہے خیر کے سوا
سائنس نے بگاڑ دیا ہے مزاجِ غرب
اب صرف زہر حرب سے ہوگا علاج غرب
جان لینا سہل ہو سائنس کا کرتب ہے یہ
جان دینا سہل ہو یا ضد ہے یا مذہب ہے
ظہور زورِ آتش ہے وہی ہے کبر شیطانی
بہت کچھ خاک اڑائی پر نہ آئی بوئے انسانی
گولے تو ایئر شپ سے وہ برسا سکے بہت
ٹپکا سکے نہ ابر سے پانی کی ایک بوند
سائنس کی ہلاکت و بربادی نے انسان اور اس کے معاشرتی نظام کے لیے جو عظیم خطرات پیدا کردیے ہیں، وہ اس کے فوائد سے کہیں زیادہ تباہ کن ہیں۔ مغربی تہذیب و معاشرت اپنے ہی بنائے ہوئے مشینی آلات سے مشکلات کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اور نئے دور کی روشنی میں بھٹکا ہوا انسان کسی ایسے گوشہ عافیت کی ضرورت محسوس کرنے لگا ہے جہاں روشنی و ترقی کے علاوہ امن اور چین اور سکون و اطمینان بھی میسر ہو۔ یہاں پہنچ کر اکبر کو نہ صرف اپنے مسلک کی سچائی بلکہ اس کی فتح یابی کے روشن امکانات بھی نظر آنے لگتے ہیں،
تجلی مشرقی اچھی تھی مغرب کی تعلی سے
وہ ذوقِ بے خودی اچھا تھا، اس مہلک ترقی سے
*
فریب و حرص و جبر و ظلم سے اکثر توسل ہے
ترقی مادی جو کچھ ہو اخلاقی تنزل ہے
*
آپ کی تزئین حیرت آفریں ہے۔ اے جناب!
بیشتر یہ ہے کہ جو تعمیر ہے تخریب ہے
*
عیسیٰ نے دل روشن کرلیا اور تم نے فقط انجن کولیا
کہتے ہو کہ ’’وہ تھے باپ سے خوش‘‘ اور تم ہو خالی بھاپ سے خوش
اک انتشار ہے دنیا کو ناصبوری سے
سبب یہ ہے کہ وہ محروم ہے حضوری سے
اور قلبِ انسانی کا یہی اضطراب و انتشار پایانِ کا رمذہب کی جیت پر منتج ہوتا ہے،
جو مضطرب ہے اس کو اِدھر التفات ہے
آخر خدا کے نام میں کوئی تو بات ہے
قدیم اور جدید کی کش مکش
نظریاتی آویزش اور فکری تصادم کے اس ہمہ گیر دور میں ہندوستانی معاشرہ یا معاشرے ایک عبوری دور میں سے گزر رہے تھے۔ اس حالت میں قدیم اور جدید اقدارِ حیات کی کش مکش بھی قدرتی بات تھی اور پھر اس کی کش مکش میں بعض طبائع کاجذباتی ہونا، اور اپنے اپنے مسلک و مشرب پر اَڑنا بھی فطری امر تھا۔ بقول اقبالؔ،
آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اس حالت میں معاشرے کے سنجیدہ اور باشعور افراد حکومت و دانش سے کام لے کر قدیم اور جدید کے درمیان توازن اور اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدیم اورجدید کی بحث میں معاشرے کے بنیادی اصول و مسلمات اور فروعی امدد معاملات میں حدِّ فاصل قائم کرنا، اور ان کو خلط مبحث کا شکار نہ ہونے دینا، معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ہر قدیم شے محض اس لیے قابل ترک و ملامت نہیں بن جاتی کہ وہ ایک گزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور نہ ہی ہر جدید شے محض اس لیے قابل ستائش و اختیار ہے کہ وہ نئی ہے۔ معاشرتی زندگی کے لیے دونوں کی قدر و اہمیت برابر ہے۔ بنیادی اصول و مسلمات معاشرے کا جزولاینفک ہوتے ہیں۔ البتہ بعض فروعی امور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اور اگر ان کو بدلنے نہ دیا جائے تو معاشرہ جامد و ساکن ہوکر عہدِ رفتہ کی ایک داستانِ پارینہ بن جاتا ہے۔ جس میں تجدید و اصلاح کی کوئی کوشش بھی جان نہیں ڈال سکتی۔۔۔ لہٰذا ان جدید اقتدارِ حیات کو جو معاشرے کے لیے ناگزیر ہوں اور اس کے بنیادی عقائد سے بھی نہ ٹکراتی ہوں، قبول کرلینا از بس ضروری ہوتا ہے!
قدیم اور جدید کی اس کش مکش میں اکبر کی روش حکمت و دانش پر مبنی ہے۔ ان کے سامنے معاشرے کے دونوں گروہ موجود تھے۔ قدیم کے دلدادہ وشیدا بھی، اور جدید کے مفتون و فریفتہ بھی۔ اور دونوں کے بُعد و اختلاف نے تلخی اور کشیدگی کی صورت اختیار کرلی تھی۔ جس کانتیجہ معاشرے کے لیے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اکبرؔ نے ان دونوں گروہوں کو اعتدال و توازن کی راہ پر لانے کی کوشش کی۔ قدیم معاشرتی اقدار میں مذہب و اخلاق تو ایسی چیزیں تھیں، جنہیں وہ بنیادی عقائد میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے نہ تو وہ ان میں قدامت وجدت کے قائل تھے اور نہ ہی ان پر بحث و مناظرے کے لیے تیار۔ لیکن ان عقائد کے علاوہ بہت سی رسومات و عادات ایسی بھی تھیں، جو فروعی تھیں اور جن کو لوگوں نے اپنی زندگی کاجزو بنالیا تھا۔ اکبرؔ رسوم و عادات کے اس بت خانے کو خلافِ فطرت سمجھتے تھے۔ اور قدامت پرستوں کی اس روش کو بھی اسی طرح تعصب، جہالت اور تنگ نظری کے مترادف اورمعاشرے کے لیے بے سود بلکہ مضر قرار دیتے تھے، جس طرح مغرب کی سطی تقلید کرنے والے جدت پرستوں کے طرزِ عمل کو وہ ملک و قوم کے حق میں مہلک تصور کرتے تھے۔
یہ ملک نہ فطرت کا ہے شیدا نہ خدا کا
دادا کا کہیں بت ہے کہیں رسم کا خداکا
قدیم اور جدید دونوں کے پرستاروں کو اکبرؔ اس امر کی تلقین کر رہے تھے کہ جہاں تک مذہب و عقائد کا تعلق ہے ان پر مضبوطی سے قائم رہو۔ اور باقی امور و معاملات میں ملکی وقومی ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرو، اور زمانے کی روش کا ساتھ دو۔ عقائد اس میں مزاحم نہیں ہوں گے۔ اکبرؔ کی یہ تلقین و ہدایت قدیم اور جدید کی کش مکش کو حل کرنے کی ایک متوازن اور دانش مندانہ کوشش تھی۔ جو معاشرتی نقطہ نظر سے بہت اہم اور قابل قدر ہے۔ اکبر نے اس سلسلے میں طنز و ظرافت سے بھی کام لیا ہے اور سنجیدہ طرزِ بیان بھی اختیار کیا ہے۔ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،
قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ
تو صاف کہتے ہیں سید یہ رنگ ہے میلا
جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں
خود اپنی قوم مچاتی ہے شور و واویلا
جو اعتدال کی کہیے تو وہ نہ ادھر نہ اُدھر
زیادہ حد سے دیے سب نے پاؤں ہیں پھیلا
اِھر یہ ضد ہے کہ لینڈ بھی چھو نہیں سکتے
اُدھر یہ دھن ہے ساقی صراحی لے لا
اِدھر ہے دفتر تدبیر و مصلحتِ ناپاک
اُدھر ہے وحی ولایت کی ڈاک کا تھیلا
غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را
بلائے صحبت لیلے و فرقت لیلےٰ
*
شیخ صاحب کا تعصب ہے جو فرماتے ہیں
اونٹ موجود ہے پھر ریل پہ کیوں چڑھتے ہیں
یہ سوال ان کا ہے البتہ بہت بامعنی
کہ سمجھ بوجھ کے قرآن بھی کبھی پڑھتے ہیں
*
شعر میں اکبر یہی مضمون تو ہربار باندھ
اے مسلماں سبحہ لے! اے برہمن زنّار باندھ
سر میں سودا آخرت کا ہو یہی مقصود ہے
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ
خلق تجھ سے بے خبر ہے دے خبر خالق کو تو
تارِ برقی گر نہیں ہے آنسوؤں کا تار باندھ
*
نہ نرے اونٹ ہو نہ ہو بل ڈاگ
نہ تو مٹی ہی ہو نہ تم ہو آگ
چال ہے اعتدال کی اچھی = سازِ حکمت کا جوڑ ہے یہ راگ
حکمت کے اس ساز اور اعتدال کی اس چال کو سکھانے کے لیے اکبر نے اپنی شاعری میں چند ایسے کردار بھی تخلیق کرکے پیش کیے ہیں، جو ان کی تلقین وہدایت کے پیکر ہیں۔ اس قسم کا ایک کردار ’’انور‘‘ ہے۔ جو بظاہر نئی وضع قطع اختیار کرلینے کے حق میں ہے۔ لیکن اسے اپنی باطنی پاکیزگی اور طہارتِ نفس کا بھی بڑا احساس ہے۔ ذیل کے قطعے میں اکبرؔ اور انورؔ کا ایک مکالمہ ہے۔ اور اس میں شاعر نے انورؔ کی زبانی معاشرتی نظام کے سلسلے میں بنیادی عقائد اور فروعی مسائل کی حدبندی کرکے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کردی ہے،
انگلش ڈرس انور کا جو کل بزم میں دیکھا
اکبرؔ نے کہا یہ تو خرابی کے ہیں آثار
معنی میں بھی ہوجائے گا آخر کو تغیر
تبدیلیٔ صورت کے رہے گر یہی اطوار
خالق کی عبادت سے حجاب آنے لگے گا
شرماؤگے کرتے ہوئے اسلام کا اظہار
بیگانہ وحشی ہوگی عزیزان وطن سے
بنگلے میں نہاں ہوں گے کہیں چھوڑ کے گھربار
فاتح سے مساوات کی اٹھیں گی امنگیں
وہ زیست جو آسان تھی ہوجائے گی دشوار
آپس میں بھی تم لوگ موافق نہ رہوگے
ایک ایک کو دیکھے گا بہ اکراہ بہ انکار
آخر کو رہوگے نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے
انگریز بھی کھنچتے رہیں گے، قوم بھی بیزار
انورؔ نے کہا صلِّ علی واہ بہت خوب!
شک اس میں نہیں مدح کے قابل ہے یہ گفتار
لیکن جو یہ تعمیم ہے حضرت کے سخن میں
اس کو تو نہ تسلیم کرے گا یہ گنہ گار
ہر مذہب و ملت میں ہیں اچھے بھی برے بھی
وہ کون سا فرقہ ہے کہ سب جس میں ہوں ابرار
ملبوس و مکاں کا جو کیا آپ نے مذکور
اس کے بھی بجا ہونے کا مجھ کو نہیں اقرار
باطن سے ہے اخلاقِ حمیدہ کا تعلق
فطرت میں ہے جو نیک وہ بد ہوگا نہ زنہار
اوضاعِ زمانہ تو بدلتے ہی رہیں گے
رکتی نظر آتی نہیں دنیا کی یہ رفتار
ہے جس کو ضرورت وہ ضرورت سے ہے مجبور
ہے شوق جسے کیوں نہ کیا جائے مختار
مقصود جو اصلی ہے وہ ہے دل کی درستی
یاہیٹ و اور کوٹ ہو یا جبہ و دستار
شبہ مرے اس قول کی صحت میں اگر ہو
سن لیجیے سعدیؔ کا یہ ارشادِ گہر بار
’’حاجب بہ کلاہ بر کی داشتنت نیست
درویش صفت باش و کلاہ تتری دار‘‘
مسلمان اور جدید دور
قدیم اور جدید کی بحث کا شکار بھی زیادہ تر مسلمان ہی تھے۔ اور اکبر کو زیادہ افسوس بھی مسلمانوں کی اس ذہنی حالت پر آرہا تھا، جو اس کش مکش کے نتیجے میں ظاہر ہو رہی تھی۔ ان کی طنز و ظرافت کا اہم موضوع جدید دور کے مسلمانوں کی یہی انمل بے جوڑ قسم کی ذہنی حالت تھی۔ یہاں ان کی طنز میں بڑی کاٹ ہے۔ ظرافت نے اس میں زیادہ تلخی کو ابھرنے کا موقعہ نہیں دیا۔ تاہم اس کے پس منظر میں جو تہذیبی و معاشرتی انتشار کارفرما ہے، اس کے پیش نظر اس طنز میں بڑی چبھن ہے (۲) چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ جن سے یہ صورتِ حال بخوبی واضح ہوجائے گی،
وزن اب ان کا معین نہیں ہوسکتا کچھ
برف کی طرح مسلمان گھلے جاتے ہیں
داغ اب ان کی نظر میں ہیں شرافت کے نشاں
نئی تہذیب کی موجوں میں دھلے جاتے ہیں
*
وہ دل کا رنگ نہیں گو حرم کے طوف میں ہوں
مقام شوق میں تھا اب محل خوف میں ہوں
*
افلاک ایئرشپ پہ زمین سرپہ گاؤ کی
افسوس شیخ جی کا ٹھکانا کہیں نہیں
*
دونوں کے سر ملیں یہ قریباً محال ہے
انجن رہے جہان میں یا شیخ جی رہیں
*
ہندو کے اتفاق کو گنگا ہی گائے ہے
مرزا کے اتفاق کو مجلس کی ہائے ہے
البتہ شیخ جی کا کوئی مرکز اب نہیں
ہر پیر ہر جواں کی جداگانہ رائے ہے
*
ہند میں شیخ رہ گیا افسوس
اونٹ گنگا میں بہہ گیا افسوس
دیکھ کر سہم کر ایسے دلدل میں
راہ چلتا بھی کہہ گیا افسوس
حکم انگلش کا ملک ہندو کا
اب خداہی ہے بھائی صَلّو کا
*
پنجۂ شیخ سے نکلے تو پریشان ہیں اب
ٹوٹی تسبیح کے دانے یہ مسلماں ہیں اب
قومی تہذیب و معاشرت اور اکبرؔ کا پیغام
گزشتہ صفحات پر مشرقی اور مغربی تہذیب و معاشرت کی کش مکش کے سلسلے میں اکبر کے تاثرات اور ان کے ردِّعمل کو پیش کیا گیا۔ قومی تہذیب و معاشرت کی بقا و احیاء کے لیے اکبرؔ نے اپنی شاعری میں ملک و قوم کو ایک پیغام بھی دیا ہے۔ اور یہ پیغام ہے، قومی خودی کے پاس اور غیرت و حمیت کے احساس کا۔ سیاسی حالات کی تبدیلی سے تقریباً ہر مصلح قوم کی زبان پر یہ نعرہ تھا کہ۔۔۔ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔‘‘ لیکن اکبر ہر قیمت پرزمانے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ سازگار حالات میں بھی اپنی قومی تہذیب کی جڑوں کو مضبوطی سے تھامنے کے حق میں تھے،
اِک برگِ مضمحل نے یہ ’’اسپیچ‘‘ میں کہا
موسم کی کچھ خبر نہیں اسے ڈالیو تمہیں؟
اچھا جوابِ خشک یہ اک شاخ نے دیا
موسم سے باخبر ہوں تو کیا جڑ کو چھوڑدیں؟ (۳)
اور یہ ایک ایسا حقیقت افروز اور عبرت آموز سبق ہے، جو ایک محکوم قوم کے لیے تازیانہ عبرت سے کم نہیں۔ اکبرؔ اس بارے میں مولانا حالیؔ کے ساتھ متفق نہیں تھے کہ زمانہ جس طرف کو بہا کر لے جائے، اس کے بہاؤ میں بہہ جانا چاہیے۔ اس بات کو وہ انسانی حمیت و شرافت سے بعید اور قومی غیرت و خودی کے منافی قرار دیتے ہیں،
ناز کیا اس پر جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
زمانے کے انقلابات اور قوموں کے عروج و زوال ایک امر طبعی ہیں۔ اکبرؔ زمانے کی تبدیلیٔ جدید کو بھی فطرتِ روزگار کے اسی لامتناہی سلسلے کی ایک کڑی شمار کرتے تھے۔ ان کے نزدیک زمانے کی موجودہ کروٹ بھی پادر ہوا تھی،
ہوس پرستوں کو کیوں یہ کدّ ہے ان انقلابوں کی کیا سند ہے
اگر زمانہ بدل رہا ہے، بدلنے ہی کو بدل رہا ہے
اور شرفِ انسانی اس بات میں نہیں کہ انسان فطرت یا نیچر کا محکوم بن جائے۔ بلکہ وہ تو فطرت کی تسخیر کرنے اور کائنات پر حکومت کرنے والا ہے۔ ان حالات میں اکبرؔ بے بسی اور بدحواسی دونوں کے مخالف تھے۔ نہ تو وہ بے بسی کے عالم میں ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنے کی حمایت کرتے تھے۔ اور نہ روشنی و ترقی کے دل خوش کن نام پر بدحواسی کے ساتھ دوسروں کی اندھی تقلید و پیروی کو پسند کرتے تھے۔ ان کے پیغام کی اساس و بنیاد قومی غیرت مندی اور انسانی خودداری کے جذبے پر تھی۔ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے دل سے خواہاں تھے۔ لیکن قومی تہذیب و معاشرت کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کے تحفظ و بقا اور اس کی بنیادوں پر۔! اور تعمیر و ترقی کا یہ تصور ایسا ہے، جسے بہرصورت برصغیر اور اس کے باشندوں کے وقار اور شان کے شایان قرار دیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ ذیل چند مثالیں اکبرؔ کے اسی پیغام کی شاہد ہیں،
نہایت قابلیت سے مجھے ثابت کیا مردہ
مناسب داد دینا ہے مجھے یا رب کہ رونا ہے
ندا آئی مناسب ہے کہ جینا اپنا ثابت کر
خوشامد یا شکایت دونوں ہی میں وقت کھونا ہے
*
کہا صیاد نے بلبل سے کیا تونے نہیں دیکھا
کہ تیرے آشیاں سے یہ قفس آراستہ تر ہے
کہا اس نے اسے تسلیم کرتی ہے نظر میری
نشاطِ طبع کی مہلک مگر بیکاری پر ہے
*
جس بات میں تم شکستِ ملت سمجھو
اس میں شرکت کو اپنی ذلت سمجھو
جو بندۂ نفس ہو مخالف اس کا
قومی غیرت کی اس میں قلت سمجھو
*
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
*
تو وضع پر اپنی قائم رہ، قدرت کی مگر تحقیر نہ کر
دے پائے نظر کو آزادی خود بینی کو زنجیر نہ کر
گو تیرا عمل محدود رہے اور اپنی ہی حد مقصود رہے
رکھ ذہن کو ساتھی فطرت کا بند اس پہ در تاثیر نہ کر
باطن میں ابھر کر ضبطِ فغاں، لے اپنی نظر سے کارِ زباں
دل جوش میں لا، فریاد نہ کر، تاثیر دکھا، تقریر نہ کر
تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کر
ان چند مثالوں سے قومی تہذیب و معاشرت کے بارے میں اکبرؔ کے زاویہ نظر اور ان کے پیغام عمل کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے۔ برصغیر کی اسلامی سیاست میں اس کا ردِّعمل کیا ہوا؟ اس بحث میں پڑنا ہمارے موجودہ موضوع کی حدود سے باہر ہے۔ لیکن اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان افکار و اشعار نے بادِ مخالف کا رخ پھیرنے میں بڑا اہم فریضہ انجام دیا۔ اور اس جذبہ و احساس کو جنم دیا جس کی نمایاں شکل اردو شاعری میں ہمیں اقبالؔ کی صورت میں ملتی ہے۔ اور سیاست میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، شوکت علی، ظفر علی خاں، حسرت موہانی اور دوسرے زعماء کی صورت میں۔ ہر چند کہ یہ سب حضرات اپنی اپنی جگہ عظمت و فضیلت کے بڑے بڑے ستون ہیں، لیکن اکبرؔ کے قومی وتہذیبی ’’مشن‘‘ کے علم بردار یہی رہنما بنے ہیں۔ اکبر کی عاجزانہ و دردمندانہ صدا انہی پُرجوش رہنماؤں کی آتشیں للکار و پیکار میں ڈھل کر حریت و آزادی کے بلند آہنگ زمزموں میں تبدیل ہوئی۔
حاشیے
(۱) مذہب اور سائنس کی نزاع اٹھارہویں صدی میں فرانس سے شروع ہوئی۔ انقلابِ فرانس کے موقعہ پر کلیسا جاگیردار طبقے کی پشت پناہی کر رہا تھا اور حکمرانوں کاآلہ کار بناہوا تھا۔ اس بنا پر متوسط (بورژوا) طبقہ کے اہل علم حضرات مذہب کو بھی ترقی کی راہ میں سنگِ گراں سمجھنے لگے۔ انیسویں صدی میں یہ نزاع فرانس کے علاوہ دوسرے مغربی ملکوں میں بھی پھیل گئی۔ یونیورسٹیوں میں اس مسئلہ پربحث و مباحثے ہونے لگے۔ اس مسئلے پر پیرس کی سوربون یونیورسٹی کا وہ مباحثہ قابل ذکر ہے، جس میں فیسوف رینان نے مذہب اسلام کو بھی سائنس کی ترقی میں رکاوٹ ثابت کرنا چاہا اور سید جمال الدین افغانی نے (جو ان دنوں پیرس میں تھے) اس مفروضے کی تردید میں زوردار مضامین لکھے، جو ریویو سائنٹفک اور ژوردی کل بامیں چھپے۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ سید صاحب سے ملاقات کے بعد دنیا کو اپنی رائے میں ترمیم کرنا پڑی اور اپنے مباحث کا عنوان ’’اسلام اور اس کا علم سے علاقہ‘‘ قرار دینا پڑا۔۔۔ ڈاکٹر ڈریپر کی کتاب تاریخ معرکہ ’’مذہب و سائنس‘‘ بھی اس دور کی ایک اہم تصنیف ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ظفر علی خاں نے کیا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سائنس اور عقلِ کل کے خلاف ردِّعمل بھی یورپ میں ہی ظاہر ہوا۔ کانٹؔ (جرمنی) اور برگسان (فرانس) عقل کے مقابلے میں واجدانیات کے نقیب تھے۔
(۲) اکبر کا مقصد نہایت سنجیدہ تھا۔ اور طنز کے حربے کو بھی اسی مقصد کی خاطر استعمال کیا گیا ہے۔ طسرۂ ظرافت اکبرؔ کی شاعری کا اہم ترین عنصر ضرور ہے۔ تاہم اس کی مقدار ان کے سنجیدہ کلام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو راقم کا مضمون ’’اکبر اور ان کی ظرافت‘‘ مطبوعہ ’’ادب لطیف‘‘ بابت ستمبر ۱۹۵۹ء۔
(۳) اکبرؔ کے بعد یہی پیغام اقبال نے بھی اپنی شاعری میں دیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.