اکبر کا ظریفانہ کلام
ولیؔ دکھنی سے لے کر میرؔ و داغؔ و جلالؔ کے زمانہ تک ہماری شاعری جس تنگ و محدود شاہراہ پر چل رہی تھی، اہل محفل کا دل اس سے اتنا اکتا گیا تھا کہ اگر نئے راستے پیدا نہ ہوتے تو اردوشاعری فنا ہو چکی ہوتی۔ مولانا شبلی کی تاریخی شاعری، مولانا حالیؔ کا پند و موعظت، مولوی اسماعیل میرٹھی کی اخلاقی کہانیاں، ڈاکٹر اقبالؔ کا فلسفہ، میر اکبرحسین کی پر معنی اور لطیف ظرافت اردوشاعری کی جدید تاریخ کے شاندار ابواب ہیں۔
ارباب تجارت دوطرح کے ہیں۔ ایک وہ جو بازار کا چلن دیکھ کر اپنی دوکان میں ہر ضرورت کی چیزیں ادھر ادھر چن دیتے ہیں۔ خریدار راستہ سے گزرتے ہیں اوراپنی پسند اور ضرورت کے مطابق دوکان سے مختلف چیزیں اٹھا لیتے ہیں، ان دکانداروں کی پھر جو سستی اور چلتی ہوئی چیزیں نظر آتی ہیں ان کو لے کر اپنی دوکان سجا لیتے ہیں۔ دوسرے وہ سوداگر ہیں جنہوں نے اپنے مذاق اور استعدا د کے مطابق کوئی چیز پسند کرلی ہے اور وہی ایک جنس ان کی دوکان میں ملتی ہے، اگر تم کوکسی اور چیز کی ضرورت ہو تو اسی قسم کی کوئی اور دوکان تلاش کرو جہاں صرف اسی جنس کی تجارت ہوتی ہو، عموماً بڑے بڑے تاجر اسی دوسری قسم کے ہیں۔
شاعری کا بھی یہی حال ہے۔ فردوسیؔ، سعدیؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ نیشاپوری، عرفیؔ شیرازی جن کا کلام قبول عام حاصل کرچکا ہے، تھوک فروش سوداگر تھے۔ ان کے یہاں شاعر کے مذاق کے مطابق کلام ملے گا۔ ان میں ناظرین کے مذاق و انتخاب سے بحث نہیں۔ ایک شاعر و خطیب میں سب سے بڑا نازک فرق یہی ہے کہ شاعر دنیا کو صرف اپنا دل دکھلاتا ہے، خطیب سامعین کے دل دیکھتا ہے اور ان کے خیالات و جذبات کو متاثر کرنا چاہتا ہے، یہی سبب ہے کہ تمام بڑے بڑے شعراء کا ایک خاص رنگ مذاق ہے جس کے مطابق وہ اپنے کلام کو فرو غ دیتے ہیں۔
قدیم شعرائے اردو میں میرؔ، غالبؔ، انشاؔ اور نظیرؔاکبرآبادی کے سوا کسی اور کا مخصوص موضوع سخن نہیں۔ جدیدشاعری کے ہماری زبان پر دوبڑے احسانات ہیں۔ ایک توغزل اور قصیدہ کے متفرق و پراگندہ خیالات کے بجائے عربی شاعری کی طرح مسلسل مضامین کی اس نے بنیاد ڈالی۔ دوم یہ کہ زلف و شانہ کے الجھاؤ و گرفتاری سے اس نے نجات پائی اور ہر قسم کے مسلسل خیالات شعر میں بندھنے لگے۔ ہماری تعلیم اور عام فضل وکمال کے مشاہیر جس طرح اب تک وہی قدیم تعلیم یافتہ تھے، جنہوں نے بوریانشین ہوکر تعلیم پائی اوراب تک قومی اسٹیج کے وہ مالک تھے، اسی طرح جدید شاعری کے میدان میں بھی وہی بزرگوار پیش روہیں، جنہوں نے قدیم شاعری سے اکتاکر اس نئے کوچہ میں قدم رکھا۔
مولانا حالیؔ اور میر اکبرحسین دونوں قدیم شاعری کے استاد مسلم الثبوت ہیں، ان کے دیوانوں کا ایک حصہ ان ہی قدیم غزلوں کا مجموعہ ہے جن کے شکست و ریخت میں عمر کا بڑا حصہ ضائع کیا گیا ہے۔ میر صاحب غالباً وحید الہ آبادی کے شاگرد ہیں جن کو آتشؔ یا ناسخؔ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ اسی بنا پر میر صاحب کی شاعری میں لکھنؤ کا مذاق نہایت نمایاں ہے اور وہی رنگ طبیعت نکھر کر ایک اور عالم بن گیا ہے۔ اب تک ان کے دو دیوان شائع ہوچکے ہیں۔ کلام کی تقسیم مختلف مضامین پر ہے، لیکن درحقیقت ہم ان کو صرف تین جلی تقسیمات میں درج کرتے ہیں۔ غزلیں، سنجیدہ و متین اورظریفانہ نظمیں۔ اول اور دوم صنف سخن سے یہاں کوئی بحث نہیں، صرف تیسری صنف کے متعلق کچھ کہنا ہے۔
لکھنؤ کے شعرا میں سیدانشا (لکھنؤ، آکر) اور امانت لکھنوی کا جو رنگ ہے، میر صاحب کی ظریفانہ نظموں کا درحقیقت وہ اساس سخن ہے۔ آج سے تیس برس پہلے لکھنؤ سے اودھ پنچ کے نام سے ایک اخبارنکلا تھا اور مدت تک زندہ رہا۔ میر صاحب کے فطری رنگ کی پختگی میں اس اخبار سے بڑی مدد ملی۔ اس کی ہفتہ وار اشاعتوں میں میر صاحب کا کلام خاص ذوق سے لوگ پڑھا کرتے تھے۔ اودھ پنچ کے گر جانے کے بعد اور ماہوار رسائل میں بھی میر صاحب کا کلام چھپ کر مطبوع ہونے لگا اوراب ہماری زبان کا ہر ممتاز رسالہ اور اخبار ان کے اشعار کے لئے ہر مہینہ بے قرار ہتا ہے۔
میر صاحب کا اعلیٰ مذاق اوران کی شاعری کا موضوع عام پُرمعنی اور سنجیدہ ظرافت ہے۔ ان کو مذہب، فلسفہ، سیاست، قومیات جس موضوع پر جو کچھ بھی کہنا ہوتاہے، اس کا مغز سخن جوکچھ ہو لیکن اس کا قشربالائی صرف سنجیدہ ظرافت ہوتی ہے۔ ظرافت کا رنگ جوسید انشاءؔ اور سعادت علی خاں کی بدولت لکھنؤ کی شاعری میں پیدا ہو گیا تھا، اس کا مقصد صرف تفریح طبع اور دل بہلانا تھا، ضلع جگت اور رعایت لفظی لکھنؤ کا خاص مذاق ہے۔ اس کا مقصد بھی محض تفنن طبع تھا اور لکھنؤ میں امانتؔ اس اقلیم کا باشاہ ہوا ہے۔ جان صاحب کا ظریفانہ رنگ گوزنانہ لہجہ میں آکر بدنما ہوگیا تھا تاہم اس کی بنیاد بھی محض تفریح طبع پر تھی۔
میر صاحب کا احسان یہ ہے کہ انہوں نے سعدی بن یمین اور خیام کے مغز سخن کو امانت کے الفاظ میں اور سید انشاءؔ کی بولی میں اس طرح ادا کیا کہ وہ نہ صرف تفریح طبع اور واہ واہ کا سامان رہا بلکہ اس کی تہہ میں پند و موعظت، اخلاقی تعلیم، سیاسی نکتے، فلسفیانہ اسرار، مذہبی مسائل، اجتماعی مباحث بھی نظر آنے لگے۔ سیدانشاؔ کے زمانے کی سرکاری زبان فارسی اور ترکی تھی۔ وہ اسی شیرہ اور قوام سے اپنا شربت تیار کرتے تھے۔ اب انگریزی سرکاری زبان ہے، میر صاحب اس بادہ فرنگی کی آمیزش سے ذوق کلام کو لطف دیتے ہیں۔
ہم اوپر کہہ آئے ہیں کہ میر صاحب کے اصناف کلام میں گوہر جنس کی چیزیں ملتی ہیں لیکن ان کے کلام میں لذت درحقیقت ظرافت کی ہوتی ہے، جس کے مزے سے دل و زبان دونوں لطف اٹھاتے ہیں۔ میر صاحب اسی شیر و شکر میں پند و موعظت اور نصیحت گری کی ان تلخ دواؤں کا گھونٹ گلے سے اتار دیتے ہیں، جن کو یوں پینا اس جدید دور لطافت و تنزہ پسندی میں ناممکن تھا۔ میر صاحب بھری محفل میں علمائے کرام، مشائخ عظام، امراء، وحکام، مدعیان رہبری عام اورنوجوان تعلیم یافتوں کا خاکہ اڑاتے ہیں اوران کی چتون پر میل تک نہیں آتا۔
میر صاحب کا اصل رنگ یہ ہے کہ جدیدطرز معاشرت، یورپین اخلاق و عادات، تعلم جدید کے نقائص، مغربی تقلید کے معائب کو ظرافت کے پردے میں اس طرح نمایاں اورواضح کریں کہ مخاطب جھینپ کر خاموش ہوجائے اور اپنے فعل پر تھوڑی دیر کے لئے اس کے چہرے پر ندامت سے پسینہ آجائے۔ کہتے ہیں،
ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے
بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی ہے صابون بھی ہے
لیکن میں تجھ سے پوچھتا ہوں ہندی
یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے
آگاہ ہوں معنی خوش اقبالی سے
واقف ہوں بنائے رتبہ عالی سے
شرطیں عزت کی اور ہیں اکبرؔ
چلتا نہیں کام صرف نقالی سے
تعلیم میں ان علوم کے ہو مصروف
نیچر کی جو طاقتوں کو کر دے مکشوف
لیکن تم سے امید کیا ہو کہ تمہیں
عہدہ مطلوب ہے وطن ہے مالوف
مذہب کی کہوں تو دل لگی میں اڑ جائے
مطلب کی کہوں تو پالسی میں اڑ جائے
باقی سر قوم میں ابھی ہے کچھ ہوش
غالب ہے کہ یہ بھی اس صدی میں اڑ جائے
میر صاحب کی ظریفانہ شاعری پر اگر تنقید کی نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی ظرافت کے مختلف سات عنصر ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل عنوانوں میں کی جا سکتی ہے،
رعایت لفظی یا ضلع جگت
دنیا میں کوئی چیز بری یا بھلی نہیں ہے۔ ہر چیز کا محل استعمال برا یا بھلا ہے۔ ضلع جگت درحقیقت ایک بازاری چیز ہے۔ اس لئے سنجیدہ کلام اس کو متحمل نہیں ہوسکتا۔ امیر خسرو نے اعجاز خسروی کے ذریعہ اس عالم میں اپنی پیغمبری کا لاکھ ثبوت دیا لیکن اہل ہوش و خرد کے نزدیک مقبول نہ ہوئی۔
رعایت لفظی اور ضلع جگت متاخرین بلکہ متوسطین شعرائے لکھنؤ تک کا مذاق خاص رہا ہے۔ اکثر صرف اسی اساس پر ان کی شاعری کی ساری بنیاد قائم ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے بڑی غلطی یہ کی کہ اس کا کوئی خاص محل استعمال متعین نہیں کیا بلکہ ہر قسم کے کلام کو اس زیور سے آراستہ کرنا چاہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اونچے طبقوں میں مقبول نہیں ہوا، لیکن میر صاحب نے رعایت لفظی کو صرف ظریفانہ کلام کے ساتھ مخصوص کردیا جو اس کے لئے خاص طور سے موزوں تھی۔ میر صاحب کے ظریفانہ کلام کے رنگ کو جابجا اسی عنصر کی آمیزش نے نہایت شوخ کردیا ہے۔ مثلاً گولیاں دوا کی بھی ہوتی ہیں اور بندوقوں کی بھی، اس تجنیس سے دیکھو میر صاحب کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔
گولیوں کے زور سے کرتے ہیں وہ دنیا کو ہضم
اس سے بہتر اس غذا کے واسطے چورن نہیں
رسالہ کی تجنیس سے دیکھئے کس طرح کام نکالتے ہیں،
ملکی ترقیوں میں دوا لے نکالیے
پلٹن نہیں تو خیر رسالے نکالیے
مس کی تجنیس دیکھئے کیا رنگ دکھاتی ہے،
سراسر نور تقوی سایہ پر قربان کر آئے
یہ کیا اچھا کیا تم نے اگر زر کھوکے مس لائے
تثلیث اور تین
شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ
گھر میں بیٹھے ہوئے والتین پڑھ اکرتے ہیں
اس رعایت لفظی اور تجنیس کے شوق میں بعض اوقات وہ اردو، انگریزی و فارسی الفاظ کو بھی ہم متجانس کر لیتے ہیں اور اس میں بھی ایک لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ ’ہمبل‘ انگریزی میں خاکسار کوکہتے ہیں۔ وہ اس کو امام حنبل بناتے ہیں۔
ہر طرح ہے اب عاجزی ہم میں
اب ہمارے امام حنبل ہیں
پاس کرنا اورپاس رہنا
لندن میں بگڑ جاؤگے وسواس یہی ہے
تم پاس رہو میرے بڑا پاس یہی ہے
گڈڈے اور گڈے
ضرورت کچھ نہ تھی اس کی کہ آپس میں بھی ہوجائے
سلام و رحمۃ اللہ کی جگہ گڈ نائٹ ا و رگڈ ڈے
حیات مذہبی سے بھاگنا تھا کھیل گڑیوں کا
کہاں کی قوم، ہاں کچھ بن گئے ہیں نازنیں گڈے
کم آل اور کمال
ساری دنیا ہے اس کو پیاری اکبرؔ
کہتا ہے ’کم آل‘جس کو حاصل ہے کمال
کم آل (تم سب آؤ) اورکمال کی تجنیس صوتی اس ظرافت کی بنیاد ہے۔
جدت قافیہ
میر صاحب کی ظرافت کا بڑا کھیل اکثر اوقات قافیہ کی جدت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر انگریزی الفاظ کو بطور قافیہ کے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً،
ہوائے طوبیٰ ہے اب سرمیں نہ موج کوثر ہے اب نظر میں
ہوس اگر ہے تو بس یہی ہے کہ ہم بھی چھپ جائیں پانیر میں
اک دن وہ تھا کہ دب گئے تھے لوگ دین سے
ایک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے
خواہش ہو تجھے اگر غنی بننے کی
دولت کی ہوس ہے اور دھنی بننے کی
شخصی حالت کو چھوڑ اے ہندی
کوشش لازم ہے کمپنی بننے کی
بلبل ہیں آج ہم چمنستان کیمپ کے
پروانہ کل بنیں گے کلیسا کے لمپ کے
فکر بہشت و کوثر و تسنیم ہوچکی
اب پارک کا خیال ہے چرچے ہیں پمپ کے
رکھتے تھے جو بزرگ قدم پھونک پھونک کر
خوگر ہوئے ہیں لیمپ کے اسکپ کے جمپ کے
عینک آنکھوں میں مصنوعی ہیں دانت
نیچر نے سکھا کے کر دیا جسم کو تانت
اب تک ہے وہی مگر ہوس حضرت کی
ہے طول امل ہنوز شیطان کی آنت
نہ نماز ہے، نہ روزہ، نہ زکوٰۃ، نہ حج ہے
تو خوشی پھر اس کی کیا ہے کوئی جنٹ کوئی جج ہے
بعض الفاظ ایسے ہیں جو قافیہ نہیں بنتے لیکن میر صاحب اس قسم کے الفاظ کی ترکیب سے بعض موقعوں پر قافیہ کا کام لیتے ہیں، اس لئے اس سے نہایت ندرت اور جدت پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً
پنڈت بیٹھا ہے اپنی پوتھی لےکر
بنیا بیٹھا ہے موٹھ موتھی لےکر
سودا اس کو ہے جو سدھارا لندن
وہ دولت وجنس گھر میں جو تھی لے کر
پوتھی موتھی کا قافیہ جو بھی تھی کتنا عجیب ہے۔
میرؔ صاحب کو قافیہ نکالنے میں کمال حاصل تھا۔ مولانا شبلی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ میرے نام کا قافیہ نکالئے تو جانیں۔ وہ اس وقت چپ رہے۔ تھوڑی دیر کے بعدمیرؔ صاحب نے دعوت کا رقعہ بھیجا۔
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
ہے بات یہ صاف بھائی شبلی
قبلہ قبلی اورشبلی کا قافیہ ان ہی کی تلاش سے مل سکتا تھا۔
مخاطب کے دعوی کی تشریح، میر صاحب کے کلام میں بعض وقت ظرافت اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ مخاطب کے دعویٰ کو صحیح تسلیم کرلیتے۔ ہیں لیکن اس کی تشریح اس طرح کردیتے ہیں کہ مدعا بالکل اس کے مخالف ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً موجودہ بیداری سید احمد خاں کی کوششوں کا نتیجہ خیال کی جاتی ہے۔ میر صاحب اس کو تسلیم کرتے ہیں مگرکہتے ہیں کہ اس میں للہیت اتنی ہوکہ لوگ اٹھتے وقت اللہ کا نام لیں۔
سید صاحب سکھا گئے جو شعور
کہتا نہیں تم سے کہ ہو اس سے نفور
سوتوں کو جگا دیا انہوں نے لیکن
اللہ کا نام لے کے اٹھنا ہے ضرور
جدید تعلیم یافتہ گروہ کالج کو تمام قومی کاموں کا تنہا واحد مرکز بتاتا ہے۔ میر صاحب اس کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسی طرح واحد اور ایک جس طرح ایک بے مایہ کی ایک واحد جھونپڑی یا اندھے کی ایک لکڑی۔
مسلمانوں نے کالج کی بری کیا راہ پکڑی ہے
وہی تو ایک ٹھکانا ہے وہی اندھے کی لکڑی ہے
جدید تہذیب کے دلدادہ بے پردگی کے حامی اور عورتوں کو پبلک مجمع میں دیکھنے کے مشتاق ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو انگریزی نہ جانے گویا وہ تعلیم سے عاری ہے۔ میر صاحب ان کے دعویٰ کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
حامدہ چمکی نہ تھی، انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب وہ شمع بزم ہے پہلے چراغ خانہ تھی
شمع بزم او چراغ خانہ کی تشریح سن کر عجب نہیں کہ عورتوں کی بے پردگی اورانگریزی تعلیم کے مدعی چراغ پا ہوجائیں۔
ابہام، یعنی کسی فقرے کو دومطلب ہوں، غریب تر غیرمقصود اور بعید تر مقصود ہو۔
یورپ والے جوچاہیں دل میں بھردیں
جس کے سر پر جو چاہیں تہمت دھر دیں
بچتے رہو ان کی تیزیوں سے اکبر
تم کیا ہو خدا کے تین ٹکڑے کردیں
تین ٹکڑے کر دینے سے قطع وبرید نہیں تثلیث مراد ہے لیکن ابہام قطع وبرید کا ہوتا ہے۔ اور یہی اس شعر کا لطف ہے۔
بے پردہ کل جوآئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
بظاہر اس سوال کا جواب ہے کہ پردہ اس لئے نہیں ہے کہ وہ مردوں نے چھین لیا لیکن اصل مقصود یہ ہے کہ مردوں کی عقل پر پردہ پڑ گیا اور اپنی عورتوں کا پردہ انہوں نے اٹھا دیا۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضمون لکھا
میرا مضموں رہ گیا ڈاسن کا جوتا چل گیا
جوتا چل گیا کے دومعنی ہیں ایک مقصود اور دوسرا غیرمقصود۔
قدیم شعراء کے خیالات کو دوسرے پیرایہ میں ادا کرنا، میر صاحب بعض اوقات قدیم شعرا کے خیالات اس طرح الٹ پلٹ کر دیتے ہیں کہ قدیم وجدید مضامین میں ایسی دلآویز مناسبت پیدا ہوجاتی ہے جس سے بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ سعدی کے ایک شعر کا مصرع ہے، پہ برتخت مردن چہ بر روئے خاک۔ وہ اس کو یوں پلٹتے ہیں،
چومسٹر نباشد ترا میہماں
چہ برمیز خوردن چہ بر روئے خواں
مولوی روم کا شعر ہے،
چیست دنیا از خدا غافل شدن
نے قماش و نقرہ و فرزند وزن
اس کو یوں کیا ہے،
نیچریت چیست از دیں گم شدن
نے قمیص و کوٹ و پتلون و بٹن
ابر و باد و مہ و خورشیدو فلک درکار اند
تا تونانے بکف آری و بغلفت نخوری
اس شعر کو یوں کیا ہے،
کالج و ٹیچر و حکام درکار اند
تانو ’پاسے‘ بکف آری وکنی عہدہ پری
جدید محاورات
میر صاحب کے کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جدید محاورے جو انگریزی زبان کے اختلاط سے پیدا ہو گئے ہیں، ہمارے مشرقی شاعرتو ان کا استعمال عام عار کلام سمجھیں گے لیکن میر صاحب انہیں محاورات کو پیرایہ اشعار میں اس طرح جلوہ دیتے ہیں کہ ہزاروں محتاط شاعروں کو ان پر قربان کر دینے کوجی چاہتا ہے۔
بیٹھا رہا میں صبح سے اس در پہ شام تک
افسوس ہے ہوا نہ میسر سلام تک
ہر اک ریمارک آپ کا عقرب کا نیش ہے
مجھ کو بھی رنج غیر کا سینہ بھی ریش ہے
حریفوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
تشبیہ و استعارات کی جدت، کلام میں نئی تشبیہیں پیدا کرنا، شاعری کی جنت کا شجر ممنوعہ ہے۔ عر ب میں تشبیہات بالکل مادی اور سادی ہوتی تھیں، ایران آکر عربی شاعری باغ وبہار بن گئی۔ فارسی شاعری جب ہندوستان آئی تو گوشیراز کا بلبل ہاتھ سے نہ چھوٹا، لیکن فاختہ اور قمری کی کوکو بھی اب سنائی دینے لگی۔ اس نئے دور مخترعات میں سیکڑوں چیزیں نئی پیدا ہوگئی ہیں لیکن ہماری قدیم شاعری کا ذخیرہ تشبیہات اب تک وہی سلف کا متروکہ اوراندوختہ چلا آتا ہے۔ میر صاحب کا احسان ہے کہ انہوں نے بیسیوں نئی تشبیہیں کلام میں پیدا کردیں اور ان سے عجیب و غریب تمثیلی استدلالات پیدا کئے۔
زندگی اور قیامت میں ریلیشن سمجھو
اس کو کالج اور اسے کانووکیشن سمجھو
آہ فریاد سے قابو میں نہ آئے گا دل
تپش قلب کو بنگالی ایجی ٹیشن سمجھو
بحر ہستی کا یہی دور چلاجاتا ہے
برف کی طرح جمے، بہہ گئے پانی کی طرح
میدان عمل لیگ کا محدود ہے بیشک
ہاں ر قبہ مجلس کی کوئی ناپ نہیں ہے
ہے کوماہی کو ما، جو پڑھے دہر کا نامہ
جز موت کہیں اس میں فل اسٹاپ نہیں ہے
بعد مردن کچھ نہیں کہ یہ فلسفہ مردود ہے
قوم ہی کو دیکھئے مردہ اور موجود ہے
کل مست عیش و ناز تھے ہوٹل کے ہال میں
اب ہائے ہائے کر رہے ہیں اسپتال میں
دنیا اسے قرار دو اور آخرت ہے یہ
سن لو کہ ساز معنی اکبرؔ کی گت ہے یہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.