الفاظ اور شاعری
الفاظ اور شاعری میں ایک ناگزیر ربط ہے۔ اردو شعرا اس ربط سے سراسر بیگانہ نظر آتے ہیں۔ شاعری کی منزلیں طے کرنے کے لئے الفاظ کی رہبری کی ضرورت ہے۔ اگر الفاظ رہنما نہ ہوں تو قدم آگے نہیں بڑھ سکتا ہے لیکن رہنما کو منزل مقصود سمجھ لینا کم عقلی کی دلیل ہے۔ اردو شعرا الفاظ کی الٹ پھیر کو شاعری سمجھتے ہیں۔ قبلہ نما کو کعبہ قرار دیتے ہیں، اس لئے گمراہی لازی نتیجہ ہے۔ حسین وفصیح الفاظ یکجا بہم ہوں، بندش چست، محاورہ درست ہو، بس یہی ان کی کاوش معراج ہے۔ معانی خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں لیکن عموماً نہایت فرسودہ اور پیش پا افتادہ ہوتے ہیں،
قیامت بپا ہوگی اٹھے گا فتنہ
وہ جوڑا نہیں اک بلا باندھتے ہیں
قیامت، جوڑا، بلا، فتنہ، مناسب الفاظ موجود ہیں۔ بندش چست وبا محاورہ ہے۔ اردو شاعری کا ایک متعد بہ حصہ اسی قسم کے اشعار پر مشتمل ہے لیکن اسے شاعری نہیں کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض لفظی بازی گری ہے۔ اردو شعرا حقیقت میں شعبدہ باز ہیں۔ فرسودہ خیالات اور فرسودہ الفاظ پر اس شعبدہ بازی کی بنا ہے لیکن اردو شعرا اپنی حیرت انگیز شعبدہ بازی سے ہر مرتبہ ایک نیا کرشمہ دکھاتے ہیں۔ تماشا بیں اس سبک دستی سے دام تحیر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نگاہ ظاہر بیں فریب میں آ جاتی ہے اور اسے ہر مرتبہ ایک نیا تماشہ نظر آتا ہے لیکن صاحب نظر سمجھتے ہیں کہ یہ فریب نظر ہے،
نہ ہو محسوس جو شے کس طرح نقشے میں ٹھیک اترے
شبیہ یار کھنچوائی کمر بگڑی دہن بگڑا
لکھوں کیا میں وصف دہان وکمر
مجھے غیب کی تو خبر کچھ نہیں
خیال پیش پاافتادہ ہے۔ اس میں کوئی جدت ہے، نہ کچھ اصلیت لیکن لفظی شعبدہ بازی نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے اور بظاہر ان شعروں میں دو مختلف رنگ جلوہ گر ہیں۔ شعرائے لکھنؤ اس شعبدہ بازی میں تمام شعرا سے بازی لے گئے ہیں۔ ان کی نظروں میں حسن الفاظ اس قدر جاگزیں ہے کہ وہ کسی دوسرے حسن کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے ہیں، اس لئے ان کے اشعار سراسر سطحی ہوتے ہیں تاثیر سے مبرا۔ یہ لفظی حسن دلچسپی کا باعث ضرور ہوتا ہے لیکن اس سے کسی ذی فہم کو کامل تشفی نہیں ہوتی ہے۔ یہ حسن بھی ایک دھوکا ہے اور بصیرت کی روشنی سے مس ہوتے ہی فنا ہو جاتا ہے۔ اس سراب زا حسن کی ایک شکل رعایت لفظی ہے۔ اکثر شعرائے دلی بھی رعایت لفظی کے طلسم میں جا پھنستے ہیں۔ میرؔ کا ایک شعر ہے،
خجلت سے ان لبوں کے پانی ہو بہہ چلے ہیں
قند ونبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا
یا دردؔ کہتے ہیں،
کہا جب میں ترا بوسہ تو جیسے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے پر قندِ مکرر ہو نہیں سکتا
لیکن اس قسم کی مثالیں کم ہیں۔ شعراء لکھنؤ اس صنعت کو اپنی شاعری کا جزوِ اعظم قرار دیتے ہیں،
اپنے ہونٹوں سے جو اک بار لگا لیتا وہ
ہے یقیں ساغر مے چشمۂ حیواں ہوتا
آتشؔ اسی پامال مضمون کو اس طرح بیان کرتے ہیں،
بوسہ اس لب کا ہے قوت بخش روح ناتواں
ایسی یاقوتی میسر ہو تو کھایا چاہئے
اسی رعایت لفظی کے سبب سے عجیب وغریب ناقابل یقین نتائج نظر آتے ہیں،
استرہ منھ پر جو پھرنے نہیں دیتا ہے بجا
محودیندار سے کیوں کر خط قرآں ہوتا
بعض شعراء ایک خاص قسم کے الفاظ سے کھیلتے ہیں۔ یہ الفاظ حسن معشوق کی حقیقی یا مصنوعی زیبائش سے وابستہ ہوتے ہیں وہ کاکل، مانگ، چولی، خال، مستی، پان، مہندی، محرم، زیورات کے تصور میں منہمک نظر آتے ہیں،
کاکل،
پنجہ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکل جاناں میں جب شانے کو ہم
پان اور مسی،
پان بھی کھاؤ جمائی ہے جو مسّی کی دھڑی
شام تو دیکھی شفق کو بھی دکھایا چاہئے
محرم،
کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
حنا،
دیکھے جو تیرے دست حنائی کے رنگ کو
نشرمندگی سے رنگ ہو نیلا شہاب کا
یہ چند مثالیں تھیں۔ زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے، نہ گنجائش۔ حسن الفاظ کی یہ عالمگیری ’’گلزار نسیم‘‘ میں بھی موجود ہے۔ اس مثنوی کے متعلق میں نے ایک دوسری جگہ لکھا ہے، ’’بعض شعراء ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قوت حاسہ محدود ہوتی ہے، جو مشاہدۂ عالم سے متاثر نہیں ہوتے۔ اگر وہ کبھی جذبات کو محسوس کرتے ہیں تو الفاظ کے ذریعہ سے۔ الفاظ کی الٹ پھیر، ان کی جستجو، بندش میں انھیں ایک خاص لطف حاصل ہوتا ہے۔ ایسا شاعر حسن گلاب سے بالکل متاثر نہیں ہوتا ہے لیکن کوئی حسین لفظ اس پر بلا کا اثر پیدا کرتا ہے۔ وہ واردات قلبی سے واقف نہیں ہوتا ہے لیکن کسی نفیس محاورہ کی خوبی محسوس کرتا ہے، وہ کسی جمیل تصور سے محظوظ نہیں ہوتا ہے لیکن رعایت لفظی کے خیال سے بے تاب ہو جاتا ہے۔ نسیمؔ اسی قسم کے شاعر تھے۔‘‘
نسیمؔ اس نظم کے تصور اور خصوصاً اس نظم کی تحریر سے متاثر ہوئے تھے، اس لیے وہ دلوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ان کا دل حسین وجمیل الفاظ یا تشابہ دیکھ کر بےتاب ہو جاتا ہے، اس لئے وہ پڑھنے والوں کو بھی بے تاب کرتے ہیں لیکن اگر ذہن وادراک اس لفظی حسن کے علاوہ کچھ اور تلاش کرتا ہے تو مایوسی ہی مایوسی ہے۔ یہ حسین مجسمہ سرد و بے جان ہے۔ بعض شعرائے متغزلین اس مخصوص اور اس محدود تاثر پر بھی دسترس نہیں رکھتے ہیں، اسی طرح وہ الفاظ کے انتخاب اور ان کی ترتیب میں احساسات سے کام نہیں لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے شعرائے لکھنؤ کی غزلوں میں وہ محدود ناپائیدار اثر بھی نہیں ملتا جو گلزار نسیم میں موجود ہے۔
یہی لفظی شعبدہ بازی ایک دوسرے روپ میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔ فصاحت، صفائی وروانی، محاورات کے بدلے شان وشوکت، رعب ودبدبہ، طمطراق کی کثرت ہوتی ہے۔ شاندار الفاظ اپنی چمک، اپنے شکوہ، اپنے طنطنہ سے قلوب کو مرعوب کرتے ہیں۔ ان کی یورش سے ذہن معطل ہو جاتا ہے اور معانی کا خیال بھی دماغ سے فنا ہو جاتا ہے۔ ایسے اشعار ہدہدؔ کے اس شعر کی طرح بے معنی تو نہیں ہوتے۔
مرکز محور گردوں بہ لب آب نہیں
ناخن قوس قزح شبۂ مضراب نہیں
لیکن ان میں الفاظ اسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ عموماً یہ الفاظ غیرمعمولی، نامانوس اور ثقیل ہوتے ہیں،
طرزِ خاموشی نواسنج اور میں خاموش ہوں
پردۂ مینا میں گویا بادۂ سر جوش ہوں
اہلِ محفل کو مبارک لذت مستی کہ میں
محوِ ذوق نیش ہوں، ناآشنائے نوش ہوں
سحر کاری ہائے رنگ آمیزی فطرت نہ پوچھ
خار زارِ عبرت ہستی ہوں اور گل پوش ہوں
تو اگر ہے بے نیاز شکوۂ بیداد ناز
میں بھی ضبط درد کا اک پیکر خاموش ہوں
ان اشعار میں الفاظ کی شان ہویدا ہے۔ شاعر کا مقصد یہ ہے کہ معمولی خیالات کو پرزور اور رعب دار الفاظ کے قالب میں نمایاں کرے۔ الفاظ معانی سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔ لب ولہجہ عام سطح سے بلند ہے۔ الفاظ، شاندار الفاظ ان اشعار کو عام طرز گفتگو سے ممیز کرتے ہیں۔ شاعر کی ساری توجہ اسی امتیاز کی جستجو سے وابستہ ہے۔ یہی نقص اردو قصیدوں میں عموماً نظر آتا ہے۔ فارسی کی تقلید میں لفظی شان وشوکت قصیدہ کا جزو اعظم ہو گئی تھی۔ اس لئے قصیدہ کی رفعت کے خیال سے شاندار، غیرمعمولی، پرزور الفاظ ہر جگہ مستعمل ہوتے تھے،
اٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستاں سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاصل
یہ لفظی گورکھ دھندا تھا لیکن اگر معانی نئے ہوں تو ناموس الفاظ کا استعمال ناگزیر ہے،
تنازع للبقاء جاری ہے تو میدان ہستی میں
نہ ہو جس کی سپر، ایسی کوئی تلوار پیدا کر
’’تنازع للبقا‘‘ اردو میں نامانوس اور بظاہر ثقیل بھی ہے لیکن اس خیال کواس صفائی، اختصار، زور کے ساتھ کسی دوسرے پیرایہ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن اگر کسی خیال کی صاف، سیدھے الفاظ میں ترجمانی ممکن ہو تو اس قسم کے الفاظ کے استعمال سے صناعی کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ بہرکیف معانی کی جستجو میں الفاظ سے بے اعتنائی کرنا منصب شاعری کے خلاف ہے،
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر وسلطاں پر نہیں ہے منحصر
اقبالؔ کے یہ دو شعر محض اس بےاعتنائی کی وجہ سے معیار شاعری سے گر گئے ہیں۔ شاعر کی حیثیت ایک صناع کی ہے۔ صناعی کی عدم موجودگی میں شاعری کا وجود بھی ممکن نہیں،
اشیاء میں پھیل کر بھی وہ حیرت فزا رہا
کیا پوچھنا ہے اس کے فروغ جمال کا
خیال بلند ہے لیکن شعر میں اثر بالکل نہیں۔ اسی خیال کو راسخؔ یوں بیان کرتے ہیں،
کس قدر بو قلموں جلوہ ہے اپنا محبوب
کوئی بھی اس کی تجلی نہیں تکرار کے ساتھ
’’بوقلموں جلوہ‘‘ اس شعر کی جان ہے۔ راسخؔ نے کمال غوروفکر کے بعد بہترین الفاظ کا انتخاب کیا۔ فروغ جمال ہر شخص کے ذہن میں آ سکتا ہے۔ ’’بوقلموں جلوہ‘‘ راسخؔ کی جدت ہے۔ بہرکیف بلند پایہ بیش بہا معانی اگر حسین الفاظ کی شکل نہ اختیار کریں تو وہ اپنی قدر وقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ الفاظ شاعری کا ایک جزو ہیں لیکن اگر ان کی اہمیت شاعری کی اہمیت پر محیط ہو جائے تو پھر شاعری شاعری باقی نہیں رہتی، جس طرح حسن الفاظ شعراء کو صراط مستقیم سے بھٹکاتا ہے، اسی طرح معانی کی اہمیت بھی اکثر ناکامیابی کا سبب ہوتی ہے۔
شاعری نفیس وبیش قیمت تجربات کا حسین، مکمل وموزوں بیان ہے۔ شاعر کسی زبردست جذبہ سے مجبور ہوکر آمادہ شاعری ہوتا ہے لیکن یہ جذبہ شروع میں کچھ غیرمبہم وغیرمتعین ہوتا ہے، اس کی ترجمانی کے لئے الفاظ، نقوش اور وزن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ چیزیں لباس یا زیور کی طرح محض آرائش کا ذریعہ نہیں ہیں۔ شاعر غیرشعوری طور پر اپنے ہر تجربہ کے لئے مخصوص الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ اگر شاعر میں صناعی کی کمی ہے، اگر وہ الفاظ کی طرف سے بےاعتنائی کا استعمال کرتا ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے تجربات مکمل اور حسین ترین الفاظ کی شکل میں ظاہر نہ ہوں گے۔ اگر کسی شعر میں الفاظ کا حسن ناقص ہو یا ان میں تغیر وتبدل کی گنجائش باقی رہے تو وہ شعر تمغہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ بھرتی کے الفاظ کی موجودگی بھی حسن شعر میں خلل انداز ہوتی ہے لیکن صرف حسین ترین الفاظ کا وجود کافی نہیں۔
جو میٹھی میٹھی نظروں سے وہ دیکھے
کہوں آنکھوں کو میں بادام شیریں
اس شعر میں ایک مخصوص خیال کے لئے حسین الفاظ مستعمل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی یہ شعر شعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے، جس خیال، جس جذبہ، جس تجربہ کا اظہار کیا جائے، اگر اس میں اصلیت موجود نہ ہو تو پھر شاعری بھی ممکن نہیں۔ ناسخؔ کا ایک شعر ہے،
دل اب محو ترسا ہوا چاہتا ہے
یہ کعبہ کلیسا ہوا چاہتاہے
یہاں حسین و موزوں الفاظ کا اجتماع ہے لیکن اثر موجود نہیں کیونکہ اصلیت مفقود ہے، بخلاف اس کے کہ اس شعر میں اصلیت موجود ہے اور یہی اس کی تاثیر کا سبب ہے،
دل اس بت پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
خدا جانے اب کیا ہوا چاہتا ہے
اسی طرح اگر تجربہ کا معیار پست ہو، اگر وہ پیش پا افتادہ یا مبتذل ہو تو اصلیت اور حسن الفاظ کے باوجود بھی کامیابی کی امید ایک خیال خام ہے،
دیکھی شب وصل ناف اس کی
روشن ہوئی چشم آرزو کی
اس شعر میں تجربہ عامیانہ ہے۔ اچھے شاعر کے تجربے نفیس وبیش قیمت ہوتے ہیں۔ یہی تجربے اسے عوام سے ممیز کرتے ہیں۔ اگر اس کے تجربے بھی مبتذل ہوں تو کامیابی معلوم! میرؔ کہتے ہیں،
فقیرا نہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
بظاہر اس شعر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ شاندار الفاظ، نہ عمیق خیالات لیکن یہ شعر نشتر سے کم نہیں۔ اس تاثیر کا سبب جذبات کی اصلیت ہے۔ میرؔ کی طبیعت نہایت سریع الحس واقع ہوئی تھی۔ وہ اپنے جذبات کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور یہ عوام کے بس کی بات نہیں۔ الفاظ سیدھے سادھے معمولی ہیں لیکن ان سے بہتر الفاظ ممکن نہیں۔ ذرا سے تغیر سے شعر کا حسن معدوم ہو جائےگا۔ یہی حال ان اشعار کا بھی ہے،
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ذوقؔ
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومنؔ
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہئے
غالبؔ
ان مثالوں سے یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ تجربات اور الفاظ میں ایک ناگزیر ربط ہے۔ شاعر اپنے تجربے کے لئے بہترین الفاظ کا غیرشعوری طور پر استعمال کرتا ہے اور انھیں بہترین ترتیب اور مناسبت سے آراستہ کرتا ہے۔ اگر کوئی تجربہ مبتذل یا خام ہو یا اس کی ترجمانی میں نقائص رہ گئے ہوں تو ہر دو قسم کے عیوب الفاظ میں نمایاں ہو جائیں گے۔ اسی لئے نقاد معانی وجذبات سے علیحدہ ہوکر پہلے الفاظ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، یہ اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور اسے منزل مقصود تک لے جاتے ہیں یعنی اسے شعر کے حسن یا اس کی خامی سے آگاہ کرتے ہیں۔
الفاظ جاندار ہوتے ہیں۔ ہر لفظ اپنے اندر ایک دنیا رکھتا ہے۔ یہ دنیا اس لفظ کے لغوی معنی تک محدود نہیں رہتی، شاعر صرف الفاظ کے معانی سے واقف نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر لفظ کی مخصوص فضا کو بھی حِس کرتا ہے اور اسے برروئےکار لاتا ہے، اس فضا کی تخلیق رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ عام استعمال، ادبی ومعاشرتی اثرات، شعرا کا اجتہاد اپنے اپنے طور پر رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ شاعر اس رنگ آمیزی سے واقف ہوتا ہے اور اس سے مصرف لے کر اپنے اشعار میں نئے نئے معانی پیدا کرتا ہے۔ ہر لفظ بجائے خود ایک محشر خیال وتاثرات ہے اور اس لفظ کے استعمال کے ساتھ یہ محشر خیال وتاثرات بھی آئینہ شعر میں جلوہ گر ہو جاتا ہے،
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس مضمون کو اصغرؔ نے بھی ایک شعر میں نظم کیا ہے،
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہا ں ہے
قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے
غالبؔ اپنے پہلے مصرع میں بس اسی قدر کہتے ہیں، ’’قطرہ میں سمندر ہے‘‘ لیکن ’’دل‘‘ اور ’’ساز‘‘ کے استعمال نے ان کے مصرع کی گویا دنیا ہی بدل دی ہے۔ دل انسانی مجسمہ کا ایک حصہ ہے۔ یہی اس کا لغوی مفہوم ہے لیکن ساری اردو شاعری گویا اس کی عقبی زمین ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے وہ تمام تاثرات بھی کھنچ آتے ہیں جو رفتہ رفتہ اس لفظ سے وابستہ ہوتے گئے۔ یہی فائدہ ’’ساز‘‘ کے ساز سے بھی تراوش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے غالبؔ کے مصرعہ کے سامنے ’’قطرہ میں سمندر ہے‘‘ محض ادنیٰ معلوم ہوتا ہے۔ اگر کسی شعر میں دل کے عوض ہندی لفظ ’ہردے ‘ کا استعمال ہو تو یہ اردو داں حضرات کے دماغ پر کچھ بھی تلاطم برپا نہیں کر سکتا ہے۔ بہرکیف الفاظ ومحاورات اپنی اپنی مخصوص فضا رکھتے ہیں۔ جو الفاظ اور بیگمات کے محاورات مرزا شوقؔ اپنی مثنویوں میں استعمال کرتے ہیں، وہ غزل میں نہیں سما سکتے کیونکہ ان کی فضا سراسر مختلف ہے،
کچھ سمجھتا ہے اور نہ بوجھتا ہے
پھوٹی آنکھوں سے کچھ بھی سوجھتا ہے
چربی آنکھوں پہ تری چھائی ہے
کچھ نگوڑے کی شامت آئی ہے
جان ہلکان ہو گئی بہ خدا
چھوڑ غارت گئے مرا پیچھا
اسی طرح جو الفاظ ومحاورات ریختی میں ملتے ہیں، انہیں قصائد میں داخل کرنے سے ایک عجیب مضحک اثر نمایاں ہوگا لیکن اکثر شعرا یہ بات ملحوظ نہیں رکھتے اور اس بیگانگی کی وجہ سے وہ اکثر غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کی شاعری کی دنیا محدود ہو جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.