علی سردار جعفری کی میر شناسی کے چند پہلو
محمد حسن عسکری کا شمار ہمارے ان ناقدین میں ہوتا ہے جن کا اسلوبِ تنقید اپنے بعض تحفظات و تعصبات کے باوجود آج بھی بے حد بامعنی اور وقیع ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون ’’مزے دار شاعر‘‘ میں قاری اور شاعر کے مابین موافقت و ناموافقت، تسکین و عدم تسکین کے سیاق میں میر ؔ کے متعلق بڑی عمدہ بات لکھی ہے کہ ’’میرؔ کو پڑھنا تو ایک اچھی خاصی جنگ ہے جو عمر بھر جاری رہتی ہے۔‘‘ عسکری صاحب کے اس ریمارک کو اگروسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو تنقیداور میرؔ کے درمیان یہ جنگ گزشتہ سو ڈیڑھ سو برسوں سے جاری ہے اور اگر اس میں تذکرہ نگاری کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ عرصہ پھیل کر ڈھائی سو برس کو محیط ہو جاتا ہے لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ابھی تک میر کی شاعری مکمل طور پر گرفت میں نہ آسکی۔ حتیٰ کہ کلامِ میر کا سنجیدہ اورمرتکزآمیز مطالعہ کرنے والے نقادشمس الرحمن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز‘‘ کی جلددوم میں اعترافِ شکست ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’مجھے کلامِ میر کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہوئے بیس برس اور ’’شعر شور انگیز‘‘ پر کام کرتے ہوئے دس برس ہورہے ہیں مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب بھی میر کو پوری طرح سمجھ چکا ہوں۔۔۔ ’’شعر شور انگیز‘‘ میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن پر دل کھول کر بحث کرنے کے باوجود مجھے ایک طرح کا احساس شکست ہی ہوا۔‘‘
(ص۳۱۔ ۳۰)
فتح علی حسینی کے تذکرے ’’تذکرۂ ریختہ گویاں‘‘ (۱۷۵۳ء) سے حالی کے ’’مقدمہ شعر وشاعری‘‘ اور حالیؔ سے تاحال۔۔۔ میرؔ شناسوں اور میر فہموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس طویل فہرست میں ایک اہم نام علی سردار جعفری کا بھی ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مقامِ حیرت ہے کہ سردار جعفری کی شاعرانہ حیثیت پرتو بہت کچھ لکھا گیااور ادھر کئی رسالوں نے بھی ان پر گوشے اور خصوصی نمبر شایع کیے تاہم ان کی علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی بصیرت پر ایک طرح کی خاموشی چھائی رہی یا اگر لکھا بھی گیا تو انتہائی کم۔ ’’کبیر بانی‘‘ ’’دیوانِ میرؔ‘‘ اور ’’دیوانِ غالب‘‘ کے دیباچے سردار جعفری کی علمی، تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ یہ تینوں دیباچے کتابی صورت میں پہلی بار ۱۹۷۰ء میں ’’پیغمبرانِ سخن‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر بعد میں بھی اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔
سردار جعفری کے مرتب کردہ ’’دیوانِ میرؔ‘‘ اور اس کے دیباچے کی اہمیت کئی وجہوں سے مسلّم ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو یہی ہے کہ اس دیوان کامتن معتبر ہے ان معنوں میں کہ انھوں نے اشعار کی صحت کے تعین میں کافی چھان پھٹک اور احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس سے ان کی محققانہ بصیرت کے ایک پہلو یعنی ’’تدوینِ متن‘‘ کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ ایک مدوِّن میں جو خوبیاں ہونی چاہیے یعنی گہرا مطالعہ، زیرِ ترتیب متن کے عہد کی زبان، متروکات، تلفظات اور املے سے واقفیت، اصناف کی ہئیتی، رسومیاتی، معنوی روایات اور کلاسیکی شعریات سے آگاہی، دستیاب شدہ مطبوعہ نسخوں کا تقابلی مطالعہ کرکے صحیح متن تک رسائی حاصل کرنے جیسے اوصاف سے سردار جعفری صاحب متصف تھے۔ اس کے علاوہ میرؔ کے چھے ضخیم دواوین سے ایک جامع دیوان کے انتخاب کے لیے گہری تنقیدی بصیرت درکار ہے۔ یہ مرحلہ بھی انھوں نے بہ آسانی طے کیا۔ میر ؔ کے بیشتر انتخابات ناقص ہیں اس کا احساس جعفری صاحب کو شدت کے ساتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میرؔ کے ایک جامع انتخاب کی جانب پیش رفت کی۔ لکھتے ہیں۔ ’’اسے میرؔ کی بدنصیبی سمجھا جائے یا اردو والوں کی بدمذاقی کہ کلیاتِ میر کا کوئی صحیح اور خوب صورت ایڈیشن آج تک شایع نہیں ہوا ہے اور بیشتر انتخابات ناقص ہیں۔‘‘
’’دیوانِ میرؔ‘‘ کے دیباچے کی روشنی میں سردار جعفری کی میر شناسی کو سہولت کے ساتھ ترتیب وار یوں پیش کیا جاسکتا ہے۔
(۱) میر کا مقام شاعری ہی میں نہیں بلکہ زبان کے ارتقاکی تاریخ میں بھی بہت اہم ہے۔
(۲) میرؔ کی حیثیت ایک ایسے شاعرانہ سرچشمے کی ہے جہاں غالبؔ، مومن اور داغ کے رنگ کے ساتھ خارجیت کا وہ انداز بھی ملتا ہے جسے لکھنؤ اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
(۳) فکری اور جذباتی اعتبار سے میرؔ اور اقبال کے درمیان دوصدیوں کا فاصلہ حائل ہے لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں میں بعض مقامات پر علامتوں ہی کی نہیں بلکہ خیالات کی بھی حیرت انگیز یکسانیت ہے۔
(۴) میرؔ کی شاعری جتنی سادہ اور دل نشیں ہے اتنی ہی ٹیڑھی، بانکی، ترچھی، تیکھی بھی ہے۔ اس میں جتنی نرمی اور گداز ہے اتنی ہی تلخی اور صلابت بھی ہے۔
(۵) میرؔ کی شاعری میں دل اور دلّی باہم ایک ہوگئے یہی وجہ ہے کہ جب تقسیم کا المیہ ہوا اور نتیجے میں فسادات ہوئے تو جدید تر نوجوان شعرا نے غالب، اقبال اورجوش کا دامن چھوڑ کر میر کے دامن میں پناہ لی۔
(۶) میرؔ کی شاعری عشق کے پردوں میں حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے اور اسے انھوں نے اپنے عہد کی ایک بہت بڑی اور اہم دستاویز بنا دیا ہے۔
(۷) میرؔ کی غزلوں میں ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں انھوں نے براہِ راست سماجی، معاشی اور سیاسی مضامین کو ڈھال دیا ہے اور اپنے عہد کے مظالم اور انسانی شخصیت کی شکست وریخت کو محبوب کے پردے میں بیان کیا ہے۔
درج بالا نکات سے سردار جعفری کی میر شناسی اور تنقیدی بصیرت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں بیشتر نکات ایسے ہیں جن سے میر فہمی کا ایک نیا باب وا ہوا اور آگے چل کر ان پر کافی تفصیلی اور اصولی بحثیں کی گئیں مثلاً زبان کے ارتقا کی تاریخ میں میرؔ کی اہمیت۔۔۔ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے سردار جعفری نے لکھا ہے کہ ’’یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جدید ہندی اور اردو زبان کی تشکیل کی تاریخ میں اٹھارویں صدی جو میرؔ کی صدی ہے سب سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
(پیغمبرانِ سخن۔ ص ۵۷)
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں۔ ’’میرؔ اور ان کے ہم عصر شعرا ایک طرف عام بول چال کی زبان کو شعروں میں ڈھال کر خوب صورت اور ادبی بنارہے تھے اور الفاظ کے نئے نئے جوڑ بٹھا کر اظہار و بیان کے لیے وسعتیں پیدا کررہے تھے اور دوسری طرف فارسی کی ادبی روایتوں سے استفادہ کر رہے تھے اور محاوروں کا ترجمہ کرکے ہندی اور ریختہ میں کھپاتے جاتے تھے۔ آج زبان میں کتنے ہی ایسے محاورے استعمال ہو رہے ہیں اور کسی کو یہ شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کسی زمانے میں دوسری زبان سے ترجمہ کرکے بنائے گئے تھے۔‘‘
(ایضاً۔ ص ۵۹)
میرؔ اور ان کے معاصرین کا یہ لسانی رویہ زبان کی تشکیل میں کافی اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ بھی نشانِ خاطر ر ہے کہ عام بول چال کی زبان کو تخلیقی سطح پر برتنے میں میر کا کوئی ثانی نہیں ہے ایک طرف تو فارسی غزل کی عظیم الشان روایت تھی اور دوسری طرف اہلِ ہند کے محاورے۔۔۔ میرؔ نے فارسی روایت سے کہیں زیادہ اہلِ ہند بلکہ اہلِ دلی کے محاوروں کو اپنے اظہار کے لیے نہ صرف مناسب اور موزوں پایابلکہ اس تخلیقی شان سے برتا کہ ان کی غزلوں میں ایک طرح کافوری پن اورارضیت پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میر کے اشعار اور قاری کے مابین رشتہ مستحکم ہوارشتوں کے اس استحکام نے حالاں کہ بعض ایسے مغالطے بھی پیداکیے جن سے میریات کی تنقیدی روایت بھری پڑی ہے اور جن کا ذکر یہاں بے محل ہوگا۔ سردار جعفری نے میر کی زبان، فارسی الفاظ کے استعمال اور ہندوستانی لب ولہجے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ ’’لفظوں کے ہندوستانی تلفظ کی طرح میرؔ کی غزلوں کا ترنم بھی عوامی لب ولہجے سے بہت زیادہ قریب ہے ان کی غزل میں فارسی غزل کی نفاست سے زیادہ ہندی شاعری کی ارضی کیفیات ہیں۔‘‘ (ص۶۳) میرؔ کے کلام کا اسلوبیاتی اور لسانی مطالعہ سردار جعفری کے اس نکتے کو آگے بڑھانے میں کافی معاون ثابت ہوا۔
میرؔ کے اثرات مابعد نسل کے تمام شعرا پر مختلف انداز سے مرتسم ہوئے۔ پھر وہ غالب کی شعری کرافٹنگ ہو یا اقبال کی فکری گمبھیرتا۔ داغ اور مومن کے یہاں بھی میرؔ کے ہلکے گہرے رنگ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں اورشعرائے لکھنؤکی خارجیت پر بھی میرؔ کی میری ؔ گھیرا بندی کیے ہوئے ہے۔ البتہ اس ضمن میں یہ نکتہ قابلِ غور ہے بہ قول عمیق حنفی ’’میرؔ صاحب کے کلام میں غالب، مومن، شعرائے لکھنؤ اور اقبال کے رنگ و فکر وفن کی نشاندہی میر صاحب کی جامعیت، عظمت، اور آفاقیت کا ثبوت ہے اور اس بنا پر انھیں اردو شاعری کا سب سے بڑا اورسدا بہار اثر بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نکتے کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ میر صاحب کی تقلید ہر کسی کو راس نہیں آئی۔ تقلید کے راس آنے کے لیے زمانے اور شاعر کے مزاج کی تائید ناگزیر ہے۔‘‘
(میر اور نئی غزل۔ شعلے کی شناخت۔ ص ۱۵)
میر کے اسلوب کی سادگی اور دل نشینی ایک ایسا فریب ہے جس نے عرصۂ دراز تک صاحبِ نظر ناقدین کو اس سے آگے دیکھنے سے با زرکھا چنانچہ میر کی پرکاری پر گرد سی جمی رہی۔ ان کے لہجے کی تلخی اور صلابت یا شور انگیزی کا ذکر بہت بعد میں ہوا۔ سردار جعفری نے میر کی سادگی اور دل نشینی کے ذکر کے ساتھ ساتھ لہجے کی تلخی اور صلابت کو بھی نشان زد کیا۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اس کے ثبوت میں وافر دلایل فراہم نہیں کیے چند شعروں کے حوالے دے کر میر کی شخصیت کو ان کے عہد سے ہم آہنگ کرکے یہ کہا کہ ’’اس کی وجہ سے اس شاعری میں دل اور دلّی ہم معنی الفاظ بن گئے۔‘‘
تقسیم کے المیے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے بعد اردو شاعری کاجو منظر نامہ تشکیل پایا اس میں میرؔ کی حیثیت ایک واضح اور حاوی پیش منظر کی ہے۔ میرؔ کے سخن کی رمز کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں عام ہوئی اور سخن کی امامت میر کے حصے میں آئی۔ سردار جعفری لکھتے ہیں۔
’’پورے دوسو برس بعد جب ۱۹۴۷ء میں دہلی ایک بار پھر خون کی ہولی میں نہائی اور پنجاب اور دہلی کی سرزمین پر ہندو مسلم سکھ فسادات نے نادر شاہی قتلِ عام اور احمد شاہی لوٹ کھسوٹ کی یاد تازہ کردی تو اردو کے جدید تر نوجوان شاعروں نے غالب، اقبال اور جوشؔ کا دامن چھوڑ کر میرؔ کے دامن میں پناہ لی۔‘‘
(ص۔ ۴۹)
ایک طرف ناصر کاظمی نے یہ کہا کہ ہمارے عہد کی رات میر کی رات سے جاملی ہے تو دوسری طرف عمیق حنفی نے لکھا کہ ’’میں جدید دور میں میرؔ صاحب کی نشاۃِ ثانیہ کو محض اتفاق نہیں مانتا میرؔ صاحب کا یہ ورود نو تاریخ کے قانون اور فطرت کے آئین کے مطابق ہی ہوا ہے۔ یکساں حالات اور ماحول مماثل اقدار شخصیات اور نفسیات کو جنم دیتے ہیں۔ نتایج کی تفصیلات اور جزئیات کے فرق کے باوجود تاریخ کے مماثل ادوار کی روح ایک ہی ہوتی ہے۔‘‘ (میرصاحب اور نئی غزل۔ مشمولہ شعلے کی شناخت۔ ص ۱۸)
سردار جعفری نے میرؔ کے عشقیہ کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے اُس کے مختلف ابعاد کو اجاگر کیا ہے۔ جعفری صاحب کی بیان کردہ تعبیرات پر ترقی پسند افکار کو صاف طور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے میرؔ کے عشق کو انسان دوستی کے اس تصور سے منسلک کیا ہے جسے طبقاتی کش مکش اور استحصالی قوتوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ یاحاصل کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مارکسی جدلیات کے اصولوں کااطلاق بڑی خوب صورتی سے میرؔ کے عشقیہ کلام پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’قرونِ وسطیٰ میں انسان دوستی کی سب سے بڑی تحریک تصوف کی شکل میں ابھری۔ بھگتی اور مسٹی سزم (Mysticism) اس کی غیر اسلامی شکلیں ہیں۔ ان تحریکوں کا رشتہ دست کاروں اور کسانوں کی بغاوتوں سے بھی رہا ہے لیکن میرؔ کے عہد تک پہنچتے پہنچتے صرف ایک فکری نظام باقی رہ گیا تھا جو جاگیرداری نظام کی قدروں سے مختلف قدریں رکھتا تھا اور ان میں سب سے زیادہ اہم وحدتِ انسان کا تصور تھاجو مذہب، ذات پات اور پیشوں کی بنیاد پر تقسیم ہوجانے والے انسانوں کو ایک ہی رشتے میں پر و لیتا تھا۔ عشق اور دل دو لفظ ہیں جو اس تصور کا پوری طرح احاطہ کر لیتے ہیں۔ عشق سب سے بڑا جذبہ ہے اور دل سب سے بڑی چیز۔ کعبہ ہو یا مندر اور مسجد۔ یہ اگر ٹوٹ جائیں تو پھر بن سکتے ہیں لیکن ’’دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے‘‘ اس لیے دل ڈھا کر کعبہ بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ حج، نماز یا روزے سے کوئی آدمی نہیں بنتا اور دل پیر ومرشد ہے۔ عشق کا مرکز ہے اور عشق خدا ہے۔ عشق اس کائنات کا خالق ہے۔ اس کا رنگ روپ ہے۔ عشق ہی جِلاتا ہے۔ عشق ہی مارتا ہے۔ اس طرح خدا اور انسان کابراہِ راست رشتہ قایم ہوتا ہے۔ اس لیے ظاہری عبادت خانوں، ملاّؤں اور پنڈتوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ان کی وہی حیثیت ہے جو عام انسانوں اور بادشاہوں کے درمیان محتسب اور قاضی کی ہے۔ ایک ریاستی نوکر شاہی ہے اور دوسری مذہبی اور دونوں فضول ہیں۔ اس لیے شیخ، زاہد، محتسب، ملّا اور قاضی پر پھبتیاں کسی گئی ہیں۔ دونوں عام انسانوں کا استحصال کرنے والے گروہ ہیں۔ ایک بادشاہ کے نام پر لوٹتا ہے اور دوسرا خدا کے نام پر۔‘‘ (پیغمبرانِ سخن۔ ص۹۸۔ ۹۷) آگے چل کر وہ عشق کی مختلف جہات اور کیفیات کو ہم آمیز بھی کرتے ہیں اور محبوب کے جلووں کی کثرت کو عشق کے روپ کی رنگا رنگی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ’’اسی طرح جنسی محبت، بنی نوع انسان کی محبت اور خدا کی محبت تینوں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ جتنے محبوب کے جلوے ہیں اتنے ہی عشق کے روپ ہیں۔‘‘
(ص۔ ۹۸)
اور پھر ’’انھوں (میرؔ) نے اپنے دیوان کو درد و غم کا مجموعہ بتایا ہے اور یہ درد وغم صرف ذاتی نہیں ہے کیوں کہ جہاں سارا عالم خاک ہو چکا ہووہاں صرف اپنے آپ پر رونا بے سود ہے (غزل۳۶۶) اس لیے میر کے یہاں دل اور دلّی کی خرابی کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے اور عاشق اور آدم ہم معنی الفاظ ہیں۔‘‘
(ایضاً۔ ص۹۹۔ ۹۸)
میر کی غزلوں سے ابھرنے والے عاشق اور آدم کو ہم معنی قرار دینا، عاشق کو اُس ارضی سطح پر لاکر کھڑا کر دیتا ہے جہاں تصورِ حیات وکائنات اپنی وسعت و گیرائی، گہرائی اور ہمہ گیریت سے بالکل عاری اور محروم ہو جاتا ہے اور ہماری شعری روایت کے عاشق اور سردار جعفری کے وضع کردہ عاشق میں ایک فصل سی قایم ہو جاتی ہے۔ ہماری کلاسیکی روایت کا عاشق جسمانی سطح پر اپنے عہد اور اس کے علایق سے گہری بصیرت حاصل کرکے روحانی طور پر ماورائے زمان و مکان ہو جاتا ہے۔ زمان ومکان کا مادّی اور خارجی لزوم عاشق کے کردار کی تحدید بھی کرتا ہے اور تردید بھی۔ میرؔ کے عاشق اور ان کے تصورِ عشق کو ہند اسلامی تہذیب اور بالخصوص تصوف کے فکری ونظریاتی تناظر میں ہی دیکھ کرہی کوئی صائب رائے قایم کی جاسکتی ہے پھر یہ بھی ہے کہ میر کی رندی و سرمستی اور مظاہرِ فطرت سے گہری دل چسپی ذہنی، جسمانی، جنسی اور روحانی سطحوں پر رہ کر ایک منفرد شعری جمالیات کی تشکیل بھی کرتی ہیں اور اپنا اثبات بھی۔ یہ وہ جمالیاتی شعور ہے جو زمان ومکان کے اثرات تو قبول کرتاہے لیکن وہ اس کی حدوں سے آگے اور آگے نکل جاتا ہے اور پھر میرؔ کی شاعری کاعاشق میر کے عہد کے انسان کی طرح محض ایک دبی کچلی شخصیت نہیں رہ جاتا جو کسی مزدور یا کسی کسان کی طرح اپنا کھویا ہوا وقارواپس مانگ رہا ہو۔
اس میں کیا شک ہے کہ میرؔ نے اپنے تجربات ومشاہدات اور خیالات کو بیان کرنے کے لیے جو پیرایہ اختیار کیا وہ اتنامتنوع اور کثیر الابعاد ہے کہ من چاہی تعبیرات کے استخراج کی راہ بیک وقت آسان بھی ہوجاتی ہے اور مشکل بھی۔ کہیں وہ راست انداز اختیار کرتے ہیں تو کہیں ستم گر کی کنایت سے دہرکا گلہ بھی کرتے ہیں اور شکوۂ چرخ بھی۔ لیکن ہر حال میں میرؔ ہی رہتے ہیں ان کے خدائے سخن ہونے کا معاملہ نزاعی ہی سہی تاہم بیان کی سطح تو الہامی ہی ہے۔ سردار جعفری کی میر شناسی سے ہر چنداختلاف کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مارکسی نقطۂ نظر سے میرؔ کی تحسین وتفہیم میر ؔ کے متن کے داخلی نظام سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہے۔ مکمل ہم آہنگی کی صورت میں میرؔ کا امتیاز قایم ہونا ازبس مشکل ہے تو یہ میرؔ کے ساتھ بھی ظلم ہوگا اور سردار جعفری کے ساتھ بھی اس لیے کہ بہ قول شمس الرحمن فاروقی ’’ہر زمانہ شعرائے سلَف کو اپنے طریقے سے پڑھتا ہے۔ ہر زمانے کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور ہر زمانہ اپنے ذوق کے مطابق اشعار اور شعرا کی درجہ بندی کرتا ہے۔ بڑے شاعر کے اکثر اشعار ہر زمانے میں اتفاق رائے کے باوجود ان اشعار کی معنویت اور مختلف اشعار کے مابین قبولیت اور ترجیح بھی مختلف ہوتی ہے۔‘‘
(دیباچہ انتخابِ کلیاتِ غالب۔ ص۷)
ہمیں سردار جعفری کوان کے اس حق سے محروم کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.