میں آج کل دلی کے جس حصے میں رہتا ہوں وہ حوض خاص کہلاتا ہے، جو قطب مینار سے تقریباً دو ڈھائی میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے تقریباً اتنے ہی فاصلے پر حضرت نظام الدین اولیا کا بھی مقبرہ ہے۔ امیر خسرو دہلوی کا مزار بھی خواجہ صاحب کے مزار کے پاینتی، انھیں کے مقبرہ میں ہے۔
خیال کی دنیا میں کبھی کبھی میں سات آٹھ سو سال پہلے کی دلی میں چلا جاتا ہوں، جب یہاں پر ترکی نسل کے سلطان التمش، بلبن، خلجی اور تغلق راج کرتے تھے اور جن کے زمانے کی بنائی ہوئی شاندار عمارتوں، محلوں، مسجدوں، مدرسوں، خانقاہوں اور مزاروں کے آثار، کھنڈر دہلی کے پرانے قلعے سے لے کر تغلق آباد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ امیر خسرو اسی شہر، اسی ماحول اور اسی زمانے میں دہلی میں رہتے تھے اور اپنی اس دہلی سے انھیں بہت زیادہ محبت تھی۔
خسرو بہت بڑے شاعر تھے اور اپنی ساری عمر ان کا تعلق دلی کے سلطانوں اور شاہزادوں اور بڑے بڑے امیروں سے رہا، جوان کی قدردانی کرتے تھے، جنھوں نے ان کو دولت اور جائداد سے مالا مال اور درباری منصب اور عہدے سے سرفراز کر دیا تھا۔ ان کے نام خسرو کے آگے ’’امیر‘‘ لگا ہوا ہے، وہ بھی اسی درباری منصب کی نشانی ہے، یعنی وہ سلطانی دربار کے امیروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ خسرو کی بڑائی کو اگر آج ہم مانتے ہیں تو وہ اس کمال کی وجہ سے جو انھوں نے شاعری میں حاصل کیا۔ میرے نزدیک خسرو نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان کے چند انگلیوں پر گنے جانے والے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں بلکہ وہ دنیا کے چند عظیم ترین شاعروں کی صف میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
ہندوستان کے کسی دوسرے شاعر کو یہ فخر نصیب نہیں ہے کہ اس کا کلام سات سوبر س گزر جانے کے بعد بھی ہندوستان کے علاوہ آج بھی چار پانچ بیرونی ملکوں میں جہاں فارسی رواج ہے، شائع کیا جاتا ہے، شوق سے پڑھا جاتا ہے اور محفلوں میں گایا جاتا ہے۔ یہ ملک پاکستان، افغانستان، ایران اور سوویت ایشیا کے ممالک تا جکستان ازبیکستان، آذر بائی جان وغیرہ ہیں۔ یوں تو ہمارے ملک میں فارسی کے اور بھی بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں، جن میں نظیری، عرفی، بیدل، غالب اور اقبال کا مرتبہ بہت بلند ہے لیکن امیر خسرو دہلوی جیسی بین الاقوامی مقبولیت ان میں سے کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔
امیر خسرو کے ضخیم کلیات جن میں ان کی مثنویاں، غزلیں، رباعیاں، قطعات اور مفرد ابیات وغیرہ سب شامل ہیں، دنیا کی تمام مشہور لائبریر یوں یعنی لندن کے برٹش میوزیم اور انڈیا آفس کی لائبریریاں آکسفورڈ کی باڈلین، لینن گراڈ اور تا شقند کے شرقی مخطوطات کی لائبریری، پیرس اور برلن اور تہران اور کابل کی لائبریریاں سب میں کافی بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ اور میر اخیال ہے کہ ہمارے ملک میں بھی فطری طور پر، چونکہ یہ امیر خسرو کا وطن ہے، خسرو کے کلیات نیز مثنویات اور غزلیات کے مجموعے کے نسخے مخطوطات کے تمام اہم کتب خانوں میں موجود ہیں۔ خسرو کا کلام کئی مرتبہ چھپ کر شائع ہوا ہے، گوکہ بدقسمتی سے اب یہ بازار میں نہیں ملتا۔
چند برس پہلے ایران میں خسرو کا دیوان چھپ کر شائع ہوا ہے اور حال میں سوویت یونین میں خسرو کی دو مثنویاں فارسی رسم خط میں بڑی خوب صورتی سے شائع ہوئی ہیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ سوویت یونین میں کئی جلدوں میں خسرو کا کلام شائع کیے جانے کی تیار یاں مکمل ہو چکی ہیں۔ یہ کام ماسکو میں سوویت یونین کی اکاڈمی آف سائینسنر کے انسٹی ٹیوٹ میں ہو رہا ہے اور یہ بڑی خوشی کی خبر ہے کہ ہمارے ملک میں بھی خسرو کے مکمل شعری اور نثری تخلیقات کی طباعت اور اشاعت کا بندوبست جشن خسرو کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ یہ جشن غالباً ۱۹۷۴ء میں بہت بڑے پیمانے پر منایا جائےگا۔
میں نے ابھی آپ سے کہا تھا کہ خسرو کو دہلی سے بڑی محبت تھی۔ غالباً مجھے کہنا یہ چاہیے کہ خسرو کو زندگی اور اس کے مختلف رنگوں اور پہلوؤں یعنی انسان، اس کی خوشی، اس کے غم، اس کی معاشرت اور رہن سہن کے طریقوں، اس کی لڑائیوں اور جنگوں، اس کی نفرتوں اور دشمنیوں، اس کے پیار اور محبت، اس کی چھوٹی بڑی خصلتوں، اس کی سیاست، اس کی سازشوں، اس کی شرافت اور اس کی کمینگی، غرض عملی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی رفتار اور مظاہر، سب سے گہری دل چسپی تھی اور وہ ان سب سے متعلق ایک رائے رکھتے تھے۔
اس رائے اور نقطۂ نظر کی ایک اخلاقی اور فلسفیانہ بنیاد تھی اور چونکہ وہ ایک بڑے فنکار تھے اور اپنی بات کو خوب صورتی، انوکھے پن، نئی اور نادر تشبیہوں اور استعاروں کے ساتھ ادا کرنے پر فطری مہارت رکھتے تھے اور ان کے دل میں انسانی عشق اور جذب اور کیف کی غیر معمولی گرمی تھی، اس لیے وہ اپنی بہترین تخلیقات میں غیر معمولی اثر اور سرور و نشاط کی کیفیت پیدا کر سکتے تھے۔
اگر خسرو کو دلی اچھی لگتی تھی، جس کے بارے میں انھوں نے بار بار لکھا ہے تو اس وجہ سے کہ وہاں کے خوب صورت نوجوان، خوب صورت اور آڑی ترچھی پگڑیاں باندھتے تھے۔ وہ فرشتہ سیرت اور جنت والوں کی طرح خوش دل اور خوش سیرت تھے۔ خسرو لکھتے ہیں کہ دلی کے ہندو نوجوان اتنے اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور ایسے شوخ اور دل کش ہیں کہ دلی کے مسلمانوں نے ان پر فریفتہ ہوکر اپنا دین چھوڑ کر سورج کی پرستش شروع کر دی ہے اور دلی کے شراب خانوں کے مغبچوں نے ساری خلقت کو خراب و سرمست کرو یا ہے۔ مثنوی قران السعدین میں دہلی کے متعلق یہ ذکر اس طرح سے شروع ہوتا ہے،
اے دہلی والے بتان سادہ
پک بستہ در یشہ کج نہادہ
خورشید پرست شد مسلماں
زیں ہندوگان شوخ و سادہ
کردند مرا خراب دی شب
ایں منعم بچگان تاک زادہ
ہندوستان، اس کے لوگوں، ہندستان کے موسم، اس کے پھولوں اور پھلوں، پان اور آم، اس کے مہین کپڑوں سے خسرو کو والہانہ عشق ہے۔ ایک جگہ ہندوستان کے متعلق لکھا ہے،
سیہ گو یندوہند ہمہ چنیں است
سواد اعظم عالم ہمیں است
بہشتے فرض کن ہندوستاں را
کن آنجا نسبت ایں بوستاں را
وگرنہ آدم و طاؤ س ز آنجائے
کجا ایں جا شدندے منزل آرائے
ایک دوسری جگہ امیر خسرو نے دنیا کی کئی قوموں کی عورتوں کے حسن کا ذکر کیا ہے، جن میں مصر، قندھار، چین، خراسان، بلخ اور روس کی عورتوں کے حسن کی خصوصیت بیان کی ہے لیکن ان سے میں کوئی نہ کوئی کمی نکال کر آخر میں ہندستانی عورت کے حسن کو سب پر ترجیح دی ہے۔ دلی اور اس کے آس پاس گوجر عورتیں آج بھی دودھ، دہی بیچتی ہوئی نظر آ جاتی ہیں۔ امیر خسرو نے ان میں سے ایک کے متعلق اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے،
’’گوجری کہ تو در حسن و لطافت چوں مہی
ان دیگ وہی برسر تو چتر شہی
از ہر دوربست شیروشکر می ریزد
ہرگاہ کہ می گوئی ’’دہی پی ہو، دہی‘‘
امیر خسرو نے ہندی میں بھی شاعری کی ہے جسے وہ ہندوی کہتے تھے لیکن افسوس ہے کہ اس کلام کے بہت کم نمونے ہم تک پہنچے ہیں۔ خسرو کا یہ دوہا جو انھوں نے خواجہ نظام الدین اولیا کی وفات کے موقعے پر کہا تھا، بہت مشہور ہے،
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈالے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی سب دیس
خسرو خواجہ نظام الدین اولیا کے خاص اور بڑے چہیتے مریدوں میں تھے اور خواجہ صاحب سے ان کو بےحد عقیدت تھی۔ خسرو کی شاعری میں تصوف کا گہرا رنگ ہے جس کا اظہار ان کی انسان دوستی اور وسیع المشربی میں ہوتا ہے۔ خسرو کا یہ رنگ ان کی فارسی غزلوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اور گو کہ وہ مثنوی کے بھی بڑے استاد ہیں اور انھوں نے تاریخی، بیانیہ اور عشقیہ مثنویاں بھی بڑے پائے کی لکھی ہیں لیکن خسرو کی عظیم مقبولیت میرے خیال میں ان کی لاجواب غزلوں کی وجہ سے ہے جن میں سادگی، سلاست، درد انگیزی، ندرت اور لطافت کا ایسا میل ہے جو خسرو کے بعد ہم کو صرف خواجہ حافظ شیرازی کے کلام میں نظر آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سات سو برس گزر جانے کے بعد آج بھی جب ہمارے یہاں قوالی گائی جاتی ہے اور ہمار ے ہی یہاں کیوں، کابل، تہران، لاہور، تاشقند، فرغانہ اور دوشنبے میں بھی تب۔
جاں زتن بردی و درجانی ہنوز
دردلم دردی درد مانی ہنوز
اور
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازآں کہ من نہ مانم بہ چہ کار خواہی آمد
اور
زبانِ شوخ من ترکی ومن ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش دردہان من
اور
دلم درعاشقی آوارہ شد آوارہ تربادا
تنم از بے دلی بے چارہ شد بےچارہ تربادا
گراے زاہد! دعاے خیرمی خواہی مراایں گو
کہ ایں آوارہ کو ے بتاں آوارہ تربادا
میرا خیال ہے کہ امیر خسرو کا جگایا ہوا جادو، وہ وجدوکیف و حال جوان کی شاعری پیدا کرتی ہے، ہماری بہت بڑی روحانی دولت ہے۔ ہماری یہ دولت، جو خسرو نے عطا کی ہے لازوال ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.