Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امن اور اہل قلم

محمد عبدالغفور

امن اور اہل قلم

محمد عبدالغفور

MORE BYمحمد عبدالغفور

    امن کے متعلق اگر اہل قلم کے فرائض کا کوئی ذکر کرنا چاہے تو میں اپنی بحث کواس مفروضہ سے شروع کروں گا کہ امن سے بھی اہل قلم کو وہی نسبت ہے جو جنگ سے ہے۔ ہر قوم کا ادب اس کے فکر اور احساس انسانی کا آئینہ ہوتا ہے۔ اور اگر وہ یہ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔

    دوسری عالم گیر اور عالم سوز جنگ کے بعد اب ہم ایک ایسے دور ’’تشکیک‘‘ سے گزر رہے ہیں جس میں زندگی کی نہ تو قدریں ابھی تک معین ہوئی ہیں۔ اور نہ انسانی افکار میں ٹھہراؤ اور استقلال کی حالت پیدا ہوسکی ہے۔ انسانیت کے وجود پرجنگ کے زخم ابھی ہرے ہیں۔ یہ ایک عبوری دور ہے۔ جس میں آج چند نظریات قائم ہوتے ہیں۔ اور کل وہ مسمار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جمہوریت حقوق انسانیت۔ چار آزادیاں حق خود ارادیت اور آزادی کی بہت سی اصطلاحیں رقیق حالت میں ہیں اور پانی کی طرح ایک سانچے سے دوسرے میں انڈیلی جارہی ہیں! جس رنگ کا شیشہ ہوتا ہے وہی رنگ اس پانی کا نظرآتا ہے۔

    شک۔ خوف۔ فریب اور عقائد کے ضعف کی اس حالت میں اہل قلم کو بھی ابھی کوئی سیدھا راستہ نہیں ملا ہے۔ عام طو ر پر ان کی حالت یہ ہے کہ،

    چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

    پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

    انسانوں کی زندگی کا شیرازہ اس قدر بکھر گیا ہے کہ اب پھر اس شیرازہ بندی میں کچھ زمانہ صرف ہوگا۔

    اگر میرے لیے اس موضوع کے انتخاب کا یہ مقصد ہے کہ اس کے تحت اس مسئلہ سے بحث کی جائے کہ اہل قلم امن کے قائم کرنے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ تو میں سوائے اس کے کیا کہوں کہ اس کارخیر میں قلم کی توانائی وہی کام کرسکتی ہے جو جنگ کے جیتنے میں تلوار کی توانائی سے لیا جاتا ہے۔ قلم خود ایک تلوار ہے مگر وہ دودھاری تلوار ہے۔ وہ دونوں طرف کاٹتی ہے اور اب بیسویں صدی عیسوی کے افکار انسانی نے قلم میں اتنی طاقت پیدا کردی ہے کہ اس کی نوک کبھی تو احساس انسانی کی رگوں میں گھس کر ہر قسم کا زہر داخل کرتی ہے۔ اور کبھی پکے ہوئے پھوڑوں میں سوراخ کرکے ان کا مادۂ فاسد خارج کردیتی ہے۔

    دوران جنگ میں ہم نے قلم کی قوت کے اتنے حقیقت نواز اور حقیقت سوز مظاہرے دیکھ لیے ہیں کہ اب اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کبھی بھی اہل قلم امن و امان کی خاطر اتناہی زور قلم صرف کرسکیں گے جتنا انہوں نے جنگ کے متعلق صرف کیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا قوموں کا ادب ان کی زندگی کا آئینہ اور ان کے احساسات و افکار کا ترجمان ہوا کرتا ہے اس لیے انسانوں کی وحشیانہ فطرت کی ان تصویروں کے بعد جو اس آئینہ میں ہم نے دیکھی ہیں اگر زندگی کا کوئی گوشہ ایسا بھی موجود ہے جہاں خالص اور بے عیب انسانیت کارفرما ہے یا ہوسکتی ہے تو یہ کام بلاشبہ اہل قلم ہی کا ہے کہ وہ اس انسانیت کے عکس کو اجاگر کریں۔ اس کے دھندلے نقوش میں رنگ بھریں اس کے نقوش اور دائروں میں انسانیت کی روح کو (جو ابھی تک بے قرار ہے) بھردیں اور زندگی کے نگار خانہ میں تمدن اور اخلاق کے مسخ چہروں کو ازسرنو سنواریں۔

    اس حقیقت سے روشناس ہونے کے لیے کہ آیا متمدن ممالک کے اہل قلم اس حق اور حقائق کشی کی اس مصروفیت کے بعد جس نے فسطائیت دشمنی کے رنگ میں خود اپنی فسطائیت کے تماشے بھی اہل نظر کو دکھائے اب اپنا نقشہ بدلیں گے اور تخریب کے اس ہنگامہ کے بعد تعمیر کی شرطیں پوری کرسکیں گے۔ ہمیں بہت دور جانے سے پہلے خود اپنے گردوپیش کے ادب کے جدید رجحانات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

    ہندوستان کی زبانوں کے ادب میں جو جدید ادبی رجحانات نمایاں ہو رہے ہیں۔ ان میں ابھی تک تنقیض ’’تخریب‘‘ نفرت و بغاوت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ اور اگر آپ یہ چاہیں کہ میں آپ سے بے محابا یہ کہہ دوں کہ ادب میں نفرت و بغاوت اور تخریب کا یہ عنصر بہت برا ہے تو میں ایسا تو نہ کہوں گا! تخریب یا نفرت محض تخریب کی خاطر یقیناً بری چیز ہے لیکن تعمیر بغیر تخریب کے بھی اگر ممکن ہے تو ’’پرامن ارتقا‘‘ کی اس اصطلاحی افیون کا نشہ اور اس نشہ سے پیدا ہونے والی غنودگی کا تجربہ گزشتہ ڈیڑھ سوبرس میں حاصل ہوا ہے وہ تو تعمیر کے ان تھکے ہوئے نطریات کو مجھ پر ذرا بھی مؤثر نہیں بناتا۔

    تعمیر کے لیے تخریب اتنی ہی ضروری ہے جس طرح ترقی کے لیے قدیم نظریات سے بغاوت! تغیر کے بغیر بغاوت موثر نہیں ہوتی۔ جس طرح بوڑھے جسم میں محض خضاب لگانے سے توانائی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جدید ادب (میں صرف اپنے ہی ملک کا ذکر کر رہا ہوں) اگر زندگی کے قدیم بندھنوں کو توڑکر میدان میں نہیں آتا وہ ان نئے افکار کی ترجمانی بھی نہیں کرسکتا جو جنگ کے بعد پیدا ہوئے ہیں تو زندگی کے قدیم نقشوں میں ان افکار کا کوئی مقام نہیں۔ ہمارے قدیم ادب میں امن کا تخیل یا تو قدیم دیوان خانوں کی محفلوں اور مشاعروں میں حسن و عشق، زلف سیاہ، ابروئے خم دار۔ عارض تاباں اور وصل و فراق کی داستانوں تک محدود ہوچکا تھا یا زیادہ سے زیادہ شاہنامہ اور طلسم ہوشربا کی قصہ خوانی کے کمالات تک پہنچ کر جب سرسید۔ حالی و شبلی کسی قدرجاگے ادب کی سوئی ہوئی توانائی نے بھی ایک کروٹ لی۔ ۵۷ء کے بعد سے شکست خوف اور کمتری کا ایک احساس اور (Escapism) کا عنصر ہمارے ادب پر حاوی تھا (Escapism) کا صحیح ترجمہ کرنے کے لیے مجھے ابھی تک کوئی اچھا لفظ نہیں ملا ہے مگر میں ا سے ایک ایسی کیفیت سمجھتا ہوں جب عمل اور احتجاج کی طاقت سلب ہوچکی ہوتی ہے۔ اور انسان اپنی بدحالی اور مجبوری کے احساس کو بھول جاتا ہے اور حقائق سے دور بھاگنے کی خواہش سے مغلوب ہوکر آرٹ اور لٹریچر کی نفیات میں پناہ لیتا ہے۔

    ۱۴ء کی جنگ عظیم کے بعد سے ادب میں اہل قلم کی اس کمزوری کا احساس ایک حرکت پیدا کرنے لگا اور ایک نامعلوم ذہنی انقلاب نے دھیرے دھیرے اپنے لیے باہر آنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا شروع کیا۔ ابھی یہ جدید ادب اپنے ارتقاء کی پہلی ہی منزل میں تھا۔ جب دوسری جنگ عظیم نے اس کو دبوچ لیا اور اس بری طرح سے دبوچ لیا کہ جو ممالک جنگ سے قریب تھے انہوں نے جنگ کے اغراض کے لیے اپنے تمام اہل قلم کی توانائیوں کو وقف کردیا۔ ہندوستان ان لشکروں میں محض ایک پیش خدمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے اسے کسی قدر فاصلے سے دنیا کے اس ابتلائے عظیم کا تماشا دیکھ کر کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور اس کی نظروں کے سامنے سے پردے اٹھنے شروع ہوئے۔ شکست و فتح کے میدان میں بالادست ممالک کی ذہنی بدامنی کی علامتیں سامنے آئیں۔ اور پھر اس آئینہ میں اسے خود اپنی صورت بھی زیادہ واضح نظرآنے لگی۔ اب اس نے اس پس منظر میں خود اپنی زندگی کو ایسے ادب کے آئینہ میں پیش کرنا شروع کیا اور تعمیر کے ارادے سے تخریب شروع کی، جس نے قدیم افکار کی عمارتیں مسمار کرنی شروع کیں۔ قدیم ادب اور لٹریچر کے دیوان خانوں کے پردے اٹھادیے اور اپنی دنیا کو یہ بتانا چاہا کہ زندگی ہے کیا اور ہونی کیا چاہیے اس مقصد کے تحت اسے ان چادروں کو کھینچ لینا پڑا جن کے نیچے اس کی سماجی، اجتماعی اور سیاسی زندگی کے بہت پرانے ناسور چھپا دیے گئے تھے۔ جو لوگ شکست خوردہ ذہنیت اور احساس کمتری کی افیون کھاکر اونگھ رہے تھے اور گزرے ہوئے زمانہ کے خوابوں میں اب بھی آرٹ اور لٹریچر کے پری زادوں کو رقص کرتے دیکھ رہے تھے۔ انہیں جدید ادب نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کوئی گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آیا کرتا۔ اپنے لیے اپنا زمانہ انسان خود بناتا ہے۔ پرانی تصویریں چوکھٹوں میں سے نکال دی جاتی ہیں۔ انہیں روغن لگا لگا کر چمکانا فضول ہے۔ نئی تصویریں اور ایسی صحیح تصویریں ان چوکھٹوں میں لگائی جاتی ہیں۔ جو ایکس رے کی طرح اندر کی حالت کو عیاں کردیں تب ہی تو ان خرابیوں سے واقف ہوکر ان کا کچھ علاج ممکن ہے۔

    نئے ادب نے اپنے اس ایقان کو پیش کیا کہ امن صرف ایک ذہنی کیفیت ہے وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو بزور شمشیر پیدا کی جاسکے۔ اور ایٹم بم کی دھمکی سے قائم رکھی جاسکے! امن کے ان تصورات کو سب سے پہلے ان اقوام نے پیش کیا جو سب سے زیادہ زبردستی، نراج اور خانہ جنگی کے مصائب برداشت کرچکی تھیں۔ چین اور سویت روس کے ادب نے زندگی کے ان حقائق کو اپنی حقائق نگاری کا موضوع بنایا اور اس برقی رو کے دھکوں اور دھماکوں سے اپنے مفلوج اعضا میں حرکت پیدا کرنی چاہی۔ اس کوشش کے کیا نتائج حاصل ہوسکے اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ اب ان ممالک کا لٹریچر ہندوستان تک پہنچ رہا ہے۔ دوسرے ممالک کے ادب نے بھی ایک نئی کروٹ لی۔ لیکن ان کے تصور کو (جس کے ساتھ ایک خوشحال سماج کا تصور وابستہ ہے) نئے ادب کے اس جدید تخیل کو سب سے زیادہ امداد ان ہی ممالک نے دی جو قدیم زندگی کی مصیبتوں سے نجات پاکر اپنے لیے ایک نئی دنیا بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی دنیا کے لیے نیا لٹریچر پیدا کیا اور اس نئے لٹریچر نے نئے سانچوں میں نئی زندگی کو ڈھالا۔ اگر دنیا میں امن کا کوئی دور آنے والا ہے تو ہرجگہ ذہنی ارتقاء کا یہ استقلال عمل بہت ضروری ہے۔ ۶۴ء میں ابھی ابھی ایک ابتلائے عظیم سے نجات پانے کے بعد ہم نہ تو میر اور سودا اور انشاء کے شاعرانہ افکار کی تقلید میں اپنا وقت ضائع کرسکتے ہیں اور نہ شرر اور رتن ناتھ سرشار کی اصطلاحوں میں زندگی کی صحیح ترجمانی کرسکتے ہیں، یہ سچ ہے کہ آرٹ بجائے خود بھی ہماری جذباتی زندگی میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ لیکن ایسے تعیش کی ہمیں فرصت کہاں! بیشک میر و سودا اور شرر و سرشار بھی اپنے زمانہ کے کچھ مسائل رکھتے تھے جن کی اصلاح میں انہوں نے اپنے آرٹ کو استعمال کیا ہوگا۔ لیکن ہماری طرح اپنی نسل کے صرف (۲۵) سال میں عالمگیر جنگ کی دو ایسی انسانیت سوز اور دوزخی آتشزدگیوں سے کب گزرے تھے؟ کب انہوں نے اعلیٰ ترین انسانیت کو اس طرح ہلاک ہوتے دیکھاتھا؟ کب انہوں نے علم و فضل کے اتنے اونچے اونچے میناروں اور گنبدوں کو مسمار ہوتے دیکھاتھا! جو طوفانی ہوائیں آج چل رہی ہیں اس کے سامنے ان اساتذہ کی محفلوں کے چراغ کیا ایک لمحہ بھی روشن رہ سکتے!

    معاف کیجیے۔ شاید آپ میری باتوں سے خفا ہوجائیں لیکن ادب کی قدیم محفلوں میں آرٹ کاتصور ایک قسم کی مارفیا کا اثر تھا۔ مارفیا درد کو تو دباسکتی ہے اس کے احساس کی دھار کو کند توکر سکتی ہے لیکن درد کو ختم نہیں کرسکتی۔ وہی حال ہمارے قدیم آرٹ اور ادب کا تھا اسے ہم امن کا زمانہ کہتے ہیں۔ لیکن وہ دراصل بیمار کی غنودگی کا زمانہ تھا۔

    اب جب کہ دنیا ایک خوفناک زلزلہ کے بعد کچھ اور ہی ہوگئی ہے امن کا وہ تصور بھی باقی نہیں جو پچاس سال پہلے تھا۔ اب اگر ہم امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ زندہ رہنے کے کچھ حقوق بھی مانگتے ہیں جن کے بغیر امن کی تمام اصطلاحیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ اس امن کی صحیح کیفیت پیدا کرنے کے لیے اہل قلم کو بھی حقائق نگاری سے آپ کے منہ کا مزا تلخ کردینا پڑے گا۔ بہت سے سماجی تالابوں کے ساکن پانی پر بڑے بڑے پتھر پھینک کر ان میں کچھ تلاطم پیدا کرنا پڑے گا۔ سماج کی جو مینڈکیں ان تالابوں میں امن اور سکون کی زندگی بسر کر رہی ہیں انہیں بار بار یاددلانا پڑے گا کہ ان کے تالابوں کے باہر بھی ایک دنیا ہے جہاں سورج چمکتا ہے! اس عمل کو اگر آپ بغاوت اور تخریب کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو کرلیجیے لیکن ہوگا تو یہی کہ ایک نئی دنیا نیا آدم بنادیا جائے گا۔

    سماج کے چور ضرور پکڑے جائیں گے ان کی تمام چوریاں پکڑی جائیں گی۔ تب ہی ہمارا ادب اور ہماراآرٹ حقیقی امن کا کوئی مؤثر پیام آپ کے دلوں تک پہنچاسکے گا۔۔۔ اسے آپ بغاوت کہیے یا تخریب!

    اس شخص کی نسبت آپ کیا کہیں گے جس کی صورت نہایت بری ہو لیکن وہ اپنے کو یا تو حسین سمجھنے اصرار کرتا ہو یا اپنی بدصورتی کی یاد کو بھلادینے کے لیے کبھی آئینہ دیکھتا ہی نہ ہو۔ اب اگر ایسے شخص کے سامنے آپ زبردستی آئینہ رکھ دیں گے تو وہ یقیناً خفا ہوگا۔ حقیقی ادب ایک آئینہ ہے کسی کی مرضی کا پابند نہیں سب کے سامنے آتا ہے اور سب کو ان کی اصلی صورت دکھاتا ہے۔ آپ خفا ہوکر اس آئینہ کو توڑدیں لیکن اس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں میں بھی صورت وہی نظرآئے گی! لہٰذا جب آپ اس آئینہ سے خفا ہوئے بغیر اس میں اپنی زندگی کے حقائق کا صحیح عکس دیکھنا گوارا کرنے لگیں اس وقت آپ جدید ادب کی اس بغاوت میں اپنے لیے حقیقی خوشحالی اور امن کا ایک راستہ پائیں گے۔ ادب اور ادیب امن اور خوشحالی کے جن تصورات کو پیش کرتاہے۔ وہ جب تک بدحالی اور بدامنی کے پس منظر میں پیش نہ کیے جائیں۔ موثر اور کارگر نہیں ہوسکتے۔ جس دن آپ اس بات کو تسلیم کرلیں تواسی دن آپ یہ بھی تسلیم کرلیں گے کہ ادب اور ادیب زندگی کا ایک ماہر فن معمار ہے۔ تلوار جس بستی کو ویران کرتی ہے قلم اس کو آباد کرسکتا ہے!! اہل قلم کی جدوجہد جسے ہم جدید ادب کے نام سے موسوم کرتے ہیں ایک ایسا معیارہے کہ اس کی کامیابی کو ہم امن کی کوششوں کی کامیابی کا پیمانہ بناسکتے ہیں۔ جس قدر ’’جدید ادب‘‘ ترقی کرے گا۔ اسی قدر ’’نئی زندگی‘‘ پیدا کرے گا۔ اور جس قدر نئی زندگی پیدا ہوگی اسی قدر امن کی بنیادیں استوار ہوتی جائیں گی۔ نوجوان نسلوں کی طرح نوجوان ادب سے بھی ہماری تمام تر آرزوئیں وابستہ ہیں۔ ستر برس کی بوڑھی عورت کو کتنی ہی اچھی طرح دلہن بنا کر بٹھادیا جائے۔ مگر ’’نوجوان ادب‘‘ کی محفل میں کوئی نظر اس ’’آب و رنگ و خال و خد‘‘ سے دھوکا نہیں کھا سکتی۔ ادب کے ذریعہ سے حقیقی امن کے تخیل میں توانائی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئے ادب سے ملک کو زیادہ مانوس کیا جائے۔ قدیم اصطلاحوں کے نگار خانوں سے ہم باہرآئیں اور بازار کی سجی سجائی دوکانوں کی آرائش سے دھوکا کھانے کے بجائے زندگی کی تنگ و تاریک گلیوں کے اندر گھسیں اور وہاں کی گندگی اور مصیبت سے اپنے زندہ رہنے کے ارادے کو تقویت پہنچائیں۔ یادرکھیے کہ امن کوئی بازار کا سودا نہیں جسے ہم دوکان سے خرید لائیں وہ خود اپنی اخلاقی اور سماجی زندگی کی ایک مستحکم تنظیم ہے جو کسی قانون کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنے ارادے اور اپنے قومی ادب کی تعمیر سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جس طرح جسم کی عریانی کے لیے لباس کی ضرورت ہے اسی طرح سماجی زندگی کے تحفظ کے لیے ایک صحت بخش قومی ادب بھی ضروری ہے۔ قومی زندگی میں قومی ادب کے بغیر جسدِقومی کا دوران خون قائم نہیں رہ سکتا اس لیے ملک کے نوجوان ادیبوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی سے اپنے ادب کو قریب لائیں۔ تب ہی وہ اپنی قوم میں ایک خوشحال اور باعزت امن کے احساس کی مضبوط بنیاد قائم کرسکیں۔‘‘

    (نشر گاہ حیدرآباد سے نشر ہوا)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے