Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندازِ بیاں اور…

خلیق الزماں نصرت

اندازِ بیاں اور…

خلیق الزماں نصرت

MORE BYخلیق الزماں نصرت

    غیر معمولی صلاحیت رکھنے والا ایک شاعر و ادیب جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے اور جیتا ہے اس کے اطراف میں پھیلی ہوئی روایتیں انہیں متاثر کرتی ہیں اور وہ ان روایتوں کی انگلی تھام کر چلنے لگتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ علوم متداولہ اور نئے علمی اکتشافات کابھی جائزہ لیتا ہے اور پھر وہ انہیں اپنی صلاحیت سے ایک خاص سمت عطا کرتا ہے۔

    شکیلؔ ابن شرفؔ جب پیدا ہوئے تو انہوں نے اپنے چاروں جانب کتابیں اور اس کے لکھنے والے ادیبوں کو دیکھا۔ کچھ بڑے ہوئے تو مہاراشٹر اور بیرون مہاراشٹر کے شعراء اور ادباء کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان کے والد یحییٰ شرفؔ نے ’’حسرت موہانی کی ڈائری‘‘ لکھ کر ہندوستان گیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ یہ کتاب عنوان کی وجہ سے ہی نہیں ایک نئے طرز کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ بڑی مشکل سے میں نے یہ کتاب حاصل کی تھی مگر لوگوں کو استفادہ کرنے کے لئے دیتے دیتے پتہ نہیں چلا کہ یہ کس صاحب کے

    پاس رہ گئی ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بہت اہم کتابیں ہی چھپا کرتی تھیں۔

    آج کی طرح کتابیں نہیںشائع نہیں ہو اکرتی تھیں۔فنکار اپنے فن میں پختہ ہو جاتا تھا تو ان کے چاہنے والوں کے اصرار پر کتابیں چھپا کرتی تھیں اور لوگ کہتے تھے کہ ہاں بھائی فلاں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی کتابیں چھپوائیں۔ چند لوگ اپنی کوششوں سے ایسی کتابیں شائع کرتے تھے لیکن ان کے ذہن میں ضروریہ ڈر رہتا تھا کہ لوگ کہیں ان کی مخالفت نہ کریں لیکن آج شاعروں اور ادیبوں کا معیار گر گیا ہے۔ آدھے سے زیادہ شعری مجموعے حشوزوائد سے پاک نہیں ہیں۔ کچھ شعرتو اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ انہیں شعر کہا ہی نہیں جاسکتا۔ اتنا عام مفہوم جیسے نثر میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتاہے۔ ندیم صدیقیؔ نے ایسی کتابوں کے لئے کہا تھا ’’کتابوں پر کتابیں چھپ رہی ہیں ،ہمارا علم گھٹتا جا رہا ہے۔‘‘ ایسے ماحول میں بھی شکیلؔ ابن شرفؔ جیسے شعراء وقتاًفوقتاً علم و فن اور زبان و ادب کے میدان میں منصہ شہود پر نمودار ہوتے رہے جن کا ثانی پانا مشکل ضرور ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں سے شعر و ادب کی دنیا کو ایک پہچان دی ہے۔ ایسے شاعروں سے وہ علاقے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔دھولیہ کی مٹی میں وہ علمی و ادبی زرخیزی رچی ہوئی ہے جو مسلسل قدآور فنکاروں کو جنم دیتی چلی آئی ہے۔

    شکیلؔ ابن شرفؔ کا زمانۂ شعری وہی ہے۔ جب جدید یو کا زوال شروع ہوا اور شاعری میں ’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘ والی بات ختم ہونے لگی۔ اسے ہم نے ارتجائی دور کہا تھا۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ شاعری میں بھی ایسا ہی ہوا۔شکیلؔ ابن شرفؔ شاعری کی فضا میں اپنے مثبت رویہ کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    فارغ ؔبخاری نے لکھا تھا ’آج بہتر شاعری وہ ہے جو سوچ کی قوت بیدار کرے، شعور کی راہیں سمجھائے، نئی روشنی کا احساس دِلائے، انسانی اقدار کی حامل ہو اور عوامی مسائل کی ترجمان ہو۔

    میںنے اس کا عکس ان کی شاعری میں تو دیکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا پن یہ دیکھا ہے کہ ان کا اندازِ بیان سب سے مختلف ہے۔ غزل میں کوئی ایک شعر ایسا کہہ دے تو شاعر کامیاب ہے۔ ان کی غزلوں میں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے۔

    دھولیہ ،مالیگاؤں سے قریب،دِلی اور لکھنؤ دونوں اردو مراکز سے کافی دور ہونے کے باوجود آج علم و ادب کا بڑا مرکز ہے۔ یہاں کے علاقائی اور سرکاری زبان مراٹھی ہونے کے باوجودشکیلؔ ابن شرفؔ نے اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ انہیں اردو کی دلکشی اور دل آویزی کا احساس ابتدا سے ہے۔ انہوں نے دانوں (روزی) کی ہوس میں جال کا شکار ہونا پسند نہیں کیا اور اپنے بزرگوں سے بھی نہیں سیکھا۔ ورنہ وہ مراٹھی میں عبور حاصل کرکے کسی اچھے عہدے پر براجمان ہو کر دنیاوی شہرت و دولت پاتے۔ آج اردو کا کام آخرت میں ملنے والے ثواب جیسا ہو گیا ہے۔ کام کرتے جائیے شہرت ملی تو ٹھیک ہے نہیں ملی تو مرنے کے بعد ملے گی۔ شکیلؔ صاحب نے اس میدان کو چن کر کوئی خطا نہیں کی ہے۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ چمکدار چاند بھی اگر ان کے رُخ کے سامنے آجائے تو قیامت تک کبھی سر نہ اٹھا پائے گا۔ اس کی وجہ وہ ایک جہد فارسی داں ہی نہیں اردو کے ایک البیلے شاعر کے علاوہ بڑے علم دوست، ادب نواز اور اہل فضل و کمال ہیں۔ شعر و ادب کی جب تاریخ رقم کی جائے گی شکیلؔ ابن شرفؔ کا نام پہلی صف میں آئے گا۔

    شکیلؔ ابن شرفؔ کا نام مہاراشٹر اور مہاراشٹر کے باہری شعری حلقوں میں بہت جانا پہچانا ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے مہاراشٹر کے جن شعرا نے ساری ریاست میں اپنی پہچان برقراررکھی ہے ان میں شکیلؔ ابن شرفؔ جیسے نامور شاعروں کا نام انگلیوں پرگنا جاسکتا ہے۔ ’’سرسبز‘‘ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو ابھی کچھ دن قبل شائع ہوا ہے۔اس سے قبل دومجموعوں نے بھی کافی شہرت پائی ہے۔ان کی شاعری صنعتی شہر کی بے راہ روی اور رشتوں کی بے چہرگی، تعلقات کے دوغلا پن اور روحانی و اعمالی قدروں کے زوال کا نوحہ ہے۔ یہاں روایت کی پاسداری کے ساتھ جدت کالہجہ بھی ہے۔ شہر کی زندگی میں اہل کرم کا دِکھاوا، باپ پر بیٹے کا احسان اور رشتوں کے ٹوٹ پھوٹ کی باتیں ہم ان کے شعروں میں جا بجاد یکھتے ہیں مگر اس کے اظہار میں کہیں بھی میں نے بے ڈھنگا پن نہیں دیکھا۔ ان کا ایک اسلوب ہے جو قارئین فوراً پہچان جاتے ہیں،ان کی شاعری فطری خدوخال کے قریب ہے۔ کافی موضوعات ایسے ہیں جوان کے عہد ماضی کے شعرا نے بھی اپنی گرفت میں لے کر شعرمیں ڈھالے ہیں گران تمام شاعروں سے ان کی پہچان کچھ الگ ہے۔ ان کے اشعار میں سمندر کی گہرائی ہے۔ وہ ایسے قافلے میں رہ کر بھی ان سے الگ ہیں ؎

    پھر بتانا یہ فلاںہے یہ فلاں ہے یہ فلاں

    پہلے اپنے آپ سے اے دوست شناسائی کر

    اب قافلے ٹھہرتے نہیں اس کنوئیں کے پاس

    بابامجھے نہ بھیجومیرے بھائیوں کے ساتھ

    اس نے جاتے ہوئے بھیجا ہے یہ پیغام شکیلؔ

    چھت پہ اب آکے پتنگیں نہ اُڑاناسائیں

    شکیلؔ ابن شرفؔ کی شاعری صبر کی تلقین کرتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پالینے کے بعدان کو اطمینان ہوجاتا ہے۔ وہ بڑی خوشیوں کے پیچھے بھاگتے رہنے کے خلاف ہیں یعنی جو ہے وہ ہی کافی ہے جو نہیں ہے اس پر ماتم کرنافضول ہے۔ یہ مضمون ان کے شعر میں دیکھئے ؎

    جاؤ ہم کوایسی سرداری نہیں کرنی شکیلؔ

    تعزیہ بھی ہم بنائیں اور ماتم بھی کریں

    اِس شعرکا انداز دیکھتے چلیں۔ کیا اس مضمون کو ایسے کسی نے ادا کیا ہے؟ نہیں، میں نے تو نہیں

    پڑھا ہے۔ ایسی خوبی شکیلؔ ابن شرفؔ کے اشعار میں در آئی ہے ؎

    تجھے خبر بھی ہے کتنوں کوکھا چکی ہے یہ

    تو کس امید پہ دُنیا تلاش کرتا ہے

    بے نیازانہ جینے میں ہی عافیت ہے۔ یہ شکیلؔ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس میں وہ خوش ہیں ؎

    بے نیازانہ جی رہاں ہوں شکیلؔ

    آج مجھ سا امیر کوئی نہیں

    شکیلؔ ابن شرفؔ کے اشعار کا لہجہ عمومی ہوتا ہے لیکن انہیں ایک مخصوص انداز سے سوچتے ہیں تو

    مزہ دے جاتا ہے۔یہ ان کے شاعرانہ لہجے کا ایک کمال ہے۔ وہ خود ایک شعر میں کہتے ہیں ؎

    ہم اپنے سرکبھی تقلید کی تہمت نہیں لیتے

    جو رستہ عام ہوتا ہے، وہ راستہ چھوڑ دیتے ہیں

    یہ بات بالکل درست ہے کہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ رستہ اوبڑ کھابڑ ہے۔ جس پر چلنے سے

    لوگوں کومحنت کرنی پڑے گی۔ دوسری جگہ کہتے ہیں ؎

    شکیلؔ اس پربھی اتراتے ہوئے دیکھا ہے لوگوں کو

    جومضمون ہم سمجھ کر عامیانہ چھوڑ دیتے ہیں

    ایک شعراور پڑھ لیں ؎

    اس بار بھی یاروں نے کیا پشت پہ حملہ

    اِ س بارمگر میں کسی الجھن میں نہیں تھا

    دوستوں کی دغا کی شکایت تو عام ہے مگر یہاں شاعر نے اس کا ذکر نہیں کیا، اس سے آگے بڑھ کر کہا کہ اس بار جو یاروں نے پشت پر حملہ کیا تو مجھے وہ تکلیف نہیں ہوئی جو اس سے پہلے ہوئی تھی۔ وہ یاروں کی بے وفائی کا شناساجو تھے۔ اکثر ہم نے مفلسی کے اذکارسن رکھے ہیں۔ منشی جواہر سنگھ جو ہرؔ کہتے ہیں کہ وہ جس سے لپٹتے ہیں وہ اپنادان چھڑا لیتا ہے۔ غالبؔ کی طرح بہتوں نے کہا ہے رسمی پریشانیوںسے وہ کیوں نہ گھبرائیں۔ وہ ایک انسان ہیں پیالہ وساغرنہیں۔ غریبوں کی طرح طرح کی پریشانیوں کا ذکر شعرا

    نے اپنے اپنے طور سے کیا ہے مگر دیکھیے ؎

    ڈیراجماچکی ہے ہراِک گھر میں مفلسی

    دروازے کے نصیب میں تالے نہیں رہے

    میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں مفلسی اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگوں کے گھروں میں تالا تک نہیں۔ ایسے خیال کی ترجمانی ابھی تک کسی نے نہیں کی۔ یہی انداز اور نیاین شاعر کو اپنے ہم عصروں میں منفرد کرتا ہے۔ اردو کے خاص مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے شکیلؔ جیسے کہنہ مشق اور استاد شاعروں کو فہرست میں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔ ہندوستان کے تذکروں میں اکثر بڑے شہروں کے شعرا کا ہی ذکر آتا ہے۔ ابھی دوسال قبل ہندوستان و پاکستان کے شعرا کی غزلوں کا انتخاب شائع کیا گیا۔ اس میں مہاراشٹر کے صرف سات شاعروں کی غزلیں ہیں۔ خاندیش اور مراٹھواڑہ کے کئی ادبا اور شعرادوسرے شہروں میں جا کر بس گئے ہیں لیکن جولوگ رہ رہے ہیں انہوں نے یہاں کے شعری اور ادبی ماحول کو متحرک رکھا ہے۔ ان میںشکیلؔ ابن شرفؔ کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

    لوگ جب اپنے آپ کو بڑا کہتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں ؎

    کوئی دیکھے تو سہی دیدہ دلیری اس کی

    میرا پروردہ ہے اور آنکھ دِکھاتا ہے مجھے

    اسی تعلق سے جب شعر کہتے ہیں تو لازوال کردیتے ہیں ؎

    تم کوآنا ہی پڑے گا میرے پاس اِک دِن شکیلؔ

    کیا کرو گے اس کا خط جب فارسی میں آئے گا

    ’فارسی خط‘ کا استعمال کر کے شاعر نے یہاں بھی نیا رنگ بھر دیا ہے۔ فارسی جاننے والے اب کہاں رہ گئے ہیں، اس طرح کے اشعار کہہ کر شکیلؔ نے شاعری کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی ہے کیونکہ ان کی شخصیت میں بھی ایسا کمال موجود ہے۔ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے پڑھنے والے کے ذہن کو

    خوشگوار بنادیتے ہیں۔ چند اشعار اور بھی لکھ رہا ہوں جن سے آپ بھی محظوظ ہوں گے ؎

    ہے یہ دینِ حق کا معاملہ نہیں کوئی منطق و فلسفہ

    جو حرام ہے وہ حرام ہے، جو حلال ہے وہ حلال ہے

    تعلق کے لیے کچھ وصف کا ہونا ضروری ہے

    پرندے بے ثمر پیڑوں پہ آنا چھوڑ دیتے ہیں

    دیکھ میلہ نے سمجھ، جنگ کا میدان ہے یہ

    اس میں دستاریں نہیں جاتی، سرجاتے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے