انیس سے چکبست تک کی شاعری کا عمومی جائزہ
ڈاکٹر ممتاز احمد
میں اپنی اس مختصر سی گفتگو میں انیسؔ سے چکبستؔ تک کے شعراکے عام رجحانات اور میلان شعری کامجملاً ایک ہلکا ساخاکہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ جس کا زمانہ ۱۸۰۲ء تا ۱۹۲۶ء پر محیط ہے۔ اس سواسو برس کی شاعری کاجائزہ لیتے وقت میں اپنی گفتگو کا دائرہ صرف لکھنؤ کے مشہور شعرا تک محدود رکھوں گا۔
انیسؔ سے پہلے کا لکھنؤ ناسخ و آتشؔ کا لکھنؤ تھا جب کہ رعایت لفظی، قافیہ بندی، تذکیر و تانیث اور محاورات ہی کو زیادہ تر اصل شاعری اور عطر شاعری تصور کیا جاتاتھا۔ لیکن انیسؔ کے تنقیدی شعور نے انہیں اس تاریکی سے نکالا۔ ان کو حسنِ شعر کا یہ معیار اور محک بُری طرح کھٹکا، اسی لیے انہوں نے فکر و فن کی بنیادی قدروں کے متعلق شعری اقدار کے نظریے کو بدلا اور اصنافِ شعری کے صرف چھوٹے چھوٹے پیمانوں اور غیر مسلسل خیالات ہی کو رنگ و آہنگ دے کر اسے شعر کے سانچے میں نہیں ڈھالا بلکہ دعویٰ یہ کیا کہ؎
سُبک ہوچلی تھی ترازوئے شعر
مگر ہم نے پلہ گراں کردیا
اور حقیقت یہ ہے کہ انیسؔ نے صحیح اقدار شاعری کے پلہ کو نئی ترکیب و تنظیم کے ساتھ بھاری کیا ورنہ لکھنؤ اسکول زنان و زبان کے جن چٹخاروں کا عادی ہوچکا تھا، اس عادت کے بعد صحت مند اورصالح جذبات کو شاعری میں سمونا تقریباً ہر شخص کے لیے کچھ ناممکن ساتھا۔
بہرحال، انیسؔ سے پہلے مجموعی طورپر غزل غلوئے مضامین اور خارجیت کی خرافات سے بھری پڑی کراہ رہی تھی، بیش قیمت تجربات اور ابدی سچائیاں شعر وادب سے ناپید تھیں۔ بلند پایہ نظموں کے لیے بیش قیمت تجربات اورحسن کا رانہ صناعی کی جس طرح ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس سے تقریباً ناآشنا تھے۔ انیسؔ نے اپنی نظموں میں مکمل تصویر کشی کرنی شروع کی اور اس میں ربط، ارتقااور تکمیل کا پورا اور بھرپور احساس ملتا ہے اور ان کے مراثی اس بات کے کھلے ثبوت ہیں اور اسی وقت سے حسن و عشق کی بے سروپا کرشمہ سازیوں پرایک کاری ضرب لگی اور لوگوں نے یہ دیکھا کہ انیسؔ کی اس دکھائی ہوئی برقِ تجلی میں زیادہ حلاوت، زیادہ تازگی، زیادہ تابندگی اور زیادہ توانائی ہے۔
بہرصورت یہ انیسؔ ہی کااثر تھا کہ لکھنؤ میں معیار پارٹی قائم ہوئی، جس نے دروں بینی و معنویت پر کافی زور دیا ہے، اس کے علاوہ شعرا مثنویوں، قصائد اور مراثی کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر صراحی دارگردن زیر کا کل دمکنے کی بات، دھم سے کود پڑنے والی خرافات اور ماش سے شام کے معنی نکالنے کی عادت کم سے کم ہونے لگی اور اس کے بعد غزل تک میں آئینہ، دل اور تپشِ قلب و نظر کی بات اہمیت اور اوّلیت حاصل کرنے لگی۔پنڈت دیاشنکر نسیمؔ کے دواشعار ملاحظہ ہوں،
زنجیر جنوں کڑی نہ پڑیو
دیوانے کاپاؤں درمیاں ہے
کس سوچ میں ہو نسیمؔ بولو
آنکھیں تو ملاؤ دل کہاں ہے
دیکھا آپ نے، تخیل کی اڑان اور پگھلے ہوئے غم کی شعری بُ تگری، اس کیفیت اور کیف کا شعر اس وقت ہوتا ہے جب غم کے جذبے کی بھی مکمل تنقیح ہوجاتی ہے اور احساس بھی نکھر کر صاف ستھرے ہوجاتے ہیں، اور تب جذبہ و احساس جب شعر کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو ان کااثر بھی بڑامنزّہ، گہرااوروح کے اندرتحلیل ہوجانے والاہوتاہے۔
اسی طرح مرزاشوقؔ اور صباؔ نے بھی رکاکت، ابتذال اور عامیانہ خیالات سے پیچھاچھڑانے کی ایک شعوری کوشش کی۔ مرزا شوقؔ نے عشق کی بہار اورخزاں دونوں کوزبان و بیان کے مخصوص حسن کے ساتھ پیش کیا۔ مرزا شوقؔ کچھ اپنے ڈھب کے پہلے شاعرہیں، جنہوں نے معشوق کی ’’پرکاری‘‘ کو ’’سادگی‘‘ سے بدل دیا اور معشوق کو کاجل پھیلا، مسّی پھیکی، ٹیڑھاکان کابالا سے مزین نہ کرکے معشوق کو ناک میں نیم کافقط تنکاڈالے ہوئے دکھاتے ہیں۔ اور اس سادگی کااثر یہ ہوتاہے کہ،
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
اور صباؔ کی غزلوں میں بھی جوشِ جنوں کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے،
پھر چلے دامنِ صحرا کی طرف آئی بہار
پھر ہواجوشِ جنوں دست و گریباں ہم سے
اسیرؔ رنگِ لکھنؤ میں از سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں۔ دامن جھٹکنا بھی چاہتے ہیں تو لکھنؤ کی بانہیں پکارتی ہیں۔ پھر بھی اشعار کی اچھی خاصی تعداد ہے جس میں پاکیزگی ملتی ہے، انہیں زبان پر حیرت انگیز قدرت ہے۔ اپنے مراثی اور قصائد پر خصوصاً دل کو جلایا ہے، کیونکہ جانتے ہیں کہ ’’روشن اسی کانام رہے جو جلائے دل‘‘ اسی لیے اشعار میں تاثیر بھی ہے۔ ملاحظہ ہو،
ہر داغ سینہ لالہ و گلزار فیض سے
پاتے ہیں چاک جیب میں اندازۂ بہار
کہنے کو یوں جہاں میں ہزاروں ہیں یار دوست
مشکل کے وقت ایک ہے پروردگاردوست
ان کے بعد جب ہم سید مرزا تعشقؔ اور حسین مرزا عشقؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں سوز و گداز کی فراوانی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے مراثی اپنی خوبیوں کے لحاظ سے قریب قریب انیسؔ و دبیرؔ کے ہم پلہ ہیں لیکن کیا کیجیے کہ جوششؔ کا قول ان دونوں پر صادق آتا ہے،
بہ ایں فصاحت و خوبی جہاں میں اے جوشش
ہمارے شعر نے پایا نہ اشتہار افسوس
لیکن برقؔ کو اس کاافسوس نہیں رہا بلکہ شاعری کے ساتھ ساتھ انہیں بانک بنوٹ میں بھی شہرت حاصل ہوئی، غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں،
اتنا تو جذبِ عشق نے بارے کیا اثر
اس کو بھی اب ملال ہے میرے ملال کا
اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہا ں کہاں تراعاشق تجھے پکار آیا
جناب امیرؔ نے اوائل میں اپنے استاد کے ذریعہ کافی شہرت حاصل کی۔ فصاحت اور ترنم ان کے کلام کا خاص زیور ہیں۔ ان کے کلام میں تصوف کی چاشنی ہے اور اپنے شعر پر یہ میرؔ و میرزاؔ کا اثر بتاتے ہیں،
کہتا ہے شعر سن کے کوئی آہ کوئی واہ
کچھ میرزاؔ کے مجھ میں ہیں کچھ میرؔ کے خواص
جلالؔ نے بیان و بدیع، زبان و عروض اور تذکیر و تانیث کے برتنے میں ناسخؔ کی پیروی کی، پھر بھی ان کے قصائد میں شکوہِ الفاظ، تشبیب اور مضمون آفرینی میں کافی تنوع موجود ہے، بعد میں سادگی اور معنویت کی طرف اتنا جھکے کہ ان کے کلام پر میرؔ کاخاصہ اثر نظر آنے لگتاہے،
جلالؔ باغ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ تک نہ ملا
گئی تھی کہہ کے کہ لائیں گے زلفِ یار کی بُو
پھری تو بادِصبا کو دماغ تک نہ ملا
پیارے صاحب رشیدؔ پر حضرت تعشقؔ کا پورا رنگ موجود ہے۔ انہوں نے مرثیہ میں ساقی نامہ اور بہار یہ دو نئی چیزوں کا اضافہ کیا جس سے مرثیہ کی ادبیت میں کافی اضافہ ہوگیا۔
تسلیمؔ اپنی تثلیث یعنی مثنوی، غزل اور مومنؔ کے تتبع کے واسطے مشہور ہیں۔ یہ نسیمؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔ اور ان کا اپنا قول یہ تھا کہ ’’مجھ کو طرز شاعرانہ لکھنؤ سے کیا غرض۔‘‘
اللہ رے اضطراب تمنائے دید یار
اک فرصت نگاہ میں سوبار دیکھنا
دماغ دے جو خدا گلشن محبت میں
ہر ایک گل سے ترے پیرہن کی بوُ آئے
جناب صفیؔ نے بھی رنگِ لکھنؤ کی بیخ کنی کی۔ان کی غزلیں اور نظمیں کمیت میں تقریباً برابر ہیں۔ اردو میں رقیب سے محبت کرنے والے غالباً صفیؔ پہلے باہمت ہیں اور یہ ان کی صفائی قلب کی دلیل ہے۔
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
کل ہم آئینہ میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے
کاروانِ عمرِ رفتہ کا نشاں دیکھاکیے
عزیزؔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ان کے یہاں کبھی کبھی معنویت اتنی گہری اور پرواز تخیل اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ اس کی بلندی کے ڈانڈے مشکل پسندی سے مل جاتے ہیں لیکن زیادہ تر اشعار نکھرے ہوئے ملتے ہیں،
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
دل سے باتیں کرنے والے کچھ خبر بھی ہے تجھے
تیرے ہر انداز کو چھپ کر کوئی دیکھا کیا
اسی طرح ناطقؔ و محشرؔ کے یہاں بھی داخلی کیفیات اور پاکیزہ خیالات کے ستھرے نمونے ملتے ہیں۔
ناطقؔ کہتے ہیں،
دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تمہاری پہلی نظر کا جواب ہو نہ سکا
محشرؔ کہتے ہیں،
دے کے ساغر مجھے کس لطف سے ساقی نے کہا
دیکھتے جاؤ ابھی ہم تمہیں کیا دیتے ہیں
چکبستؔ شروع سے آخر تک وطن اور قوم کی محبت کا نغمہ گاتے رہے۔انہوں نے سیاسی اور قومی تحریکوں کو اپنی نظموں میں اتنے شاندار اور حسین طور پر پیش کیا ہے کہ ان کی سرمستی اور وارفتگی ان کے اشعار سے شاعرانہ محاسن کے ساتھ پھوٹی پڑتی ہیں۔ یوں چکبستؔ کے کلام پر آتشؔ، انیسؔ اور غالبؔ کااثر تمام عمر باقی رہا۔ اور انیسؔ کاتو اتنا اثر ہے کہ اگر کوئی نام چھپاکر ان دونوں کے بند پڑھے تو تمیز کرنا مشکل ہے، ’’مرقع عبرت‘‘ کے ابتدائی بند ملاحظہ ہوں جو انیسؔ کے بندوں کے مخصوص انداز کے حامل ہیں،
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کانام
راہِ وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام
منظور تھاجو ماں کی محبت کاانتظام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
دل کو سنبھالتا ہواآخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہوگیا ہے یہ شدّتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
اسی طرح چکبستؔ کی منظر نگاری میں بھی انیسؔ کارنگ موجود ہے۔ سیر ڈیرہ دون اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ غرض یہ کہ انیسؔ نے جس بدعت شاعری کو ختم کرکے جن اعلیٰ، ارفع، اور عالمگیر ادبی اصول شاعری کے تحت شعر کے پلہ کو بھاری کیا تھا، اس کااثر انیسؔ ہی کے وقت سے لکھنؤ میں جاری ہوگیا تھا، اس لیے صرف یہ کہنا کہ لکھنؤ اسکول میں از ابتدا تا انتہاصرف چوماچاٹی، ابتذال اور رکاکت کے سوا کچھ بھی نہیں، کم نظری کی باتیں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.