دہشت گردی اور امن پسندی بایں معنی زیست و جہد کا سلسلہ ابد سے قائم ہے اور یہ سلسلہ تا ازل جاری رہنے والا ہے۔ جہاں زیست ہے وہاں جہد ہے اور جہد کبھی تضاد سے باہم دست وگریباں ہو تو دہشت گردی کا باب کھلنے لگتا ہے۔ امن ایک عارضی مصالحت ہے جو وجود و بقا کی راہ کو استوار کرتا ہے۔ انسان کی فطرت میں جلدبازی ہے اور اس لئے وہ اپنے ہی بنائے اصولوں کا بہت لمبی مدت تک پابندنہیں رہتا۔ اس میں نہ کوئی گہرا فلسفہ ہے اور نہ کوئی سربستہ راز کہ جس کی وضاحت کرکے صفحہ جات کالے کیے جائیں۔ وجود وفنا کی اہمیت کسے معلوم نہیں کہ جس سے امن وجدال کا خاکہ عالم انسانیت میں ظہور پذیر ہوا۔ صدیاں گزر گئیں اور زمین کے باسی دو متضاد گروہوں کے پیروکار ہوگئے۔ وجود کا انسلاک محبت سے اور فنا کو جدل سے تعبیر کرنے کی حکمت دونوں گروہوں کا شیوا بن گئی اور اس طرح زیست و جہد کے فلسفے کو عام کرکے معاصر فلسفیوں نے گویا اظہار اطمینان کیا کہ اس نے حجت تمام کردی۔مگر حرف آخر کو دوام نہیں اور اس لئے ہر نئے عہد میں وجود وفنا کے فلسفے تغیرات سے دوچار ہوتے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی بدستور جاری ہے۔شاید اس لئے کہ انسانی افکار کیفیاتی تغیر پذیری کے تابع ہے اور حتمی فیصلہ اس کے مقدور سے شاید بہت دور ہے۔
روئے زمین پر مخلوق کی کتنی قسمیں ہیں اور ان کا وجود کتنی صدیوں کو محیط ہے۔ انسانی وجود کی تاریخ مذاہب، فلسفے اور سائنسی تضادات کا اجمالی نتیجہ ہے؟ گویا تمام مفروضات اور اس کے متوازی اعداد وشمار انسانی نفس کی ایک عارضی تسکین ہے۔ انسان کتنا بے بس ہے کہ وہ عقل وفہم کے ڈانڈے جوڑ کر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر قیاسات ومحسوسات کی بنا پر مادیت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا پیمانہ تو محض اس امر پر قائم ہے کہ وہ اپنی زندگی سے کتنا آسودہ اور کس قدر آزردہ ہے۔ اپنے خدائوں سے شکوہ کرنا یا پھر شکر ادا کرنے والوں کا تناسب نظروں کے سامنے ہے۔ ہر نئے عہد میں ظہور پذیر انکشافات دوسرے عہد میں فاسق اور باطل قرار پاتا ہے، شاید اس لئے کہ خدا انسانوں کے مرصع احساس کا مادی تصور ہے اور اسے روحانیت کے چشمے سے دیکھنے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ اگر خدا، یعنی ایک غیر مرئی طاقت سے انسان کا رشتہ منقطع ہوجائے تو پھر زندگی کا نظام ہی متزلزل ہوجائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک غیر مرئی رشتے کے دوام کیلئے ایسا تصور پیش کیا جاتاہے جو ستاروں کو جوڑ کر اسے کسی ہیئت میں تبدیل کردیتا ہے اور اس کے مطابق مستقبل کیلئے خوف وخوشی کا پیمانہ مقرر کرلیا جاتا ہے۔ مگر زندگی کی کشمکش اور کربناکی کسی صورت کم نہیں ہوتی اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ سلسلہ اور بھی دراز اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیا معلوم کب سے گم گشتہ خدا کی دریافت میں انسان کبھی امیدوں کی سرخوشی اور کبھی مایوسیوں کے اضمحلال کا شکار ہوتا رہاہے۔ گویا عقیدوں کا وجود ایک شعوری وفور ہے جس کی نوعیت وقت کی تبدیلی کے ساتھ بدلتا ہے۔
خرد مندوں کے آگے ماقبل تاریخ کے سنگ ریزوں میں محسوسات کے متعدد مراحل شامل ہیں جو گارے کی صورت میں نئی تاریخ کی عمارت کھڑی کرتے ہیں، ورنہ حساسیت، گمان اور مغلوبیت کا قطعی کوئی پیمانہ نہیں اور نا ہی اس کا کوئی معیار ہے۔ حضرت آدم کس مذہب کے نمائندہ تھے، ہر کوئی اس کی صراحت اپنے ہی عقیدے کی روشنی میں کرتا ہے مگر قابل غور ہے کہ انہیں آخر کسی مذہب کی تشہیر وتبلیغ کی ضرورت ہی کب تھی کہ وہ بلا شبہ انسانی نفوس کا نقطہ آغاز تھے۔ ظاہر ہے، پہلے سماج کا کوئی مبہم خاکہ تیار ہوا لیکن عقل وخرد کے سلسلے وار مراحل اور حالات وحوادث کے سبب ضابطے اور اصول تشکیل پائے۔ قدرت کے قہر اور بیابانوں کی خوفناک تنہائی سے تحفظ کے احساس نے شعور کو جھنجھوڑا، پھر خوف وتحفظ کی کشمکش نے انسانوں کے سامنے جس اجتماعی نظریات کو فروغ دیا غالباً اس دور میں اسی نظریے کو راہ نجات تصور کیا گیا۔پھر اسی راہ نجات نے انسانوں کو ایک ایسے اصول سے متعارف کرایا جس نے تہذیب کی بنیاد ڈالی اور اس کے حاملین مہذب کہلائے۔ گویا ابد سے آج تک خدا کا وجود ایک مفروضے سے آگے نہیں بڑھااور شاید اس لئے ایسے مفروضے کو معروضیت سے ہم آہنگ کرنے کی سعیٔ پیہم ہنوز جاری ہے۔
ماقبل تاریخ سے ہی اس عمل میں لاتعداد مذہبی نظریا ت معرض وجود میں آئے اور نفاذ بقائے انسانی کے اصول وضع ہوتے گئے۔ وقت کی گردش اور بدلتے تناظر میں لاتعداد مروجہ رہنما اصول گردشوں کی گرد میں گم بھی ہوئے اور اس طرح جب ایک کے بعد ایک نئے عقیدے ظہور پذیر ہوئے تو انسانیت کی راہیں تضادات واختلافات سے دشوار گزار ہوتی چلی گئیں۔ آخرش سیاست کی اجارہ داری نے مذہب کو جنون سے آشنا کردیا اور اس کے پیروکار رواداری کا راستہ چھوڑ کر عدم رواداری اور عدم برداشت کو فرض منصبی سمجھ بیٹھے۔
زہر کی ذرا سی مقدار ہلاکت کا موجب ہے لیکن جب انسانی نسل اس کا خوگر ہوتو وہ اس کی خوراک بن جاتا ہے۔ مذہب جو کبھی جنون تھا زہر میں تبدیل ہوگیا اور نسلیں اس زہر کا عادی بنتی گئیں۔ حال یہ ہوا کہ ایک پانچ وقت کا نمازی بہت مطمئن ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز اس کی پارسائی میں مضمر ہے۔ دوسری جانب کسی اوباش اور زانی کی نظر اس کے گھر کی کھڑکیوں میں جھانکتی ہے اور وہ بھی مطمئن ہے۔ گویا زانی بھی خوش اور نمازی بھی خوش کہ ہر دونوں اپنے منشا اور مقاصد کے حصول کی خاطر خود ساختہ اصولوں پر گامزن ہیں۔ مذہب کبھی ان کے آگے حائل نہیں ہوتا۔ روحانیت میں آئے ضعف نے مذہب کو معمول یا پھر ان کی خوراک بنانے طرف مائل کردیا۔ ایک شیو بھگت کو پتھر کی مورتوں میں اس کا خدا نظر آتا ہے، اس لئے اپنی سعیٔ پیہم یامحض اتفاق سے اس نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ سمجھتا ہے کہ اسے شیو بھگتی کے عوض عطیہ میں ملا ہے۔ ایک آدمی مورتیوں سے اس کی بھگتی کا مذاق اڑاتا ہے اور مگر وہی آدمی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر کسی اذان پکارنے والے کو پاگل سمجھتا ہے، لیکن پاگل کون ہے اس کا تعین کیا کبھی کیا جاسکتا ہے؟
اعتراف کرنے میں شاید عافیت ہے کہ دنیا کی تین چوتھائی آبادی مسلمانوں کو دیوانہ سمجھتی ہے، کیوںکہ اس کے سامنے خدا کی کوئی مادی شکل موجود نہیں۔ شاید اس لئے اب مسلمان بھی تیزی سے مادیت کی طرف مائل ہونے لگے اور گذشتہ تین چار دہائیوں سے مزار پرستی کے رجحان میں اس قدر شدت آنے لگی کہ مظاہر کے شیدائی مقبروں کی شکلیں اپنے گھروں کی دہلیز تک کھینچ لائے اور ان پر چراغاں کرکے اپنی روحوں کو سیراب کرنے لگے۔ عقائد اور مظاہر کی کشمکش ایک طرف تو دوسری جانب معراج و مریم اور مسیح کے قصے الف لیلوی داستانوں کی مانند۔ رامائن اور مہابھارت جیسی دیو مالائی کہانیوں نے صدیوں سے انسانوں کو مسحور کرکے رکھا مگر اب جنونیوں کیلئے وہی چیزیں منافرت کا موجب ہوگئیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ایسی داستانیں تخلیق کیں یا وہ جو ایسی داستانوں کے کردار ہوئے، ان کی تعظیم وتکریم کی کثیر جہاتی قدروں نے انسانوں میں کہرام برپا کردیا۔حضرت موسیٰ کی قوم میں بچھڑے کو روحانیت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اسی طرح ہندوستانی قوم میں بچھڑے کی ماں یعنی گائے کو قدر ومنزلت مل گئی۔ بہتے ہوئے دریا، جنگل، پہاڑ اور تیز چلنے والی ہوا اورہوا سے بھڑک اٹھنے والی آگ اور آگ سے پیدا ہونے والی مٹی اور مٹی سے شیر اور شیر سے چوہے تک کو بھی تکریم وتعظیم کے دبیز چشمے سے دیکھا جانے لگا۔ انتہائے تکریم کہ حشرات الارض کی خاطر کئی قوموں نے انسانوں کی تدفین کو غیر آفاقی فعل تصور کیا اور اس لئے بے روح جسموں کو پہاڑوں اور پیڑوں پر یگانہ وتنہا چھوڑنے کے اصول وضع کئے کہ مردہ جسموں سے زمین پر رینگنے والے جاندار شکم سیر ہوسکیں۔ گویا وجودیت اور ماورائیت کے درمیان شعور اور لاشعورکی کش مکش کبھی مذہب کو سیاست سے قریب لاتی ہے تو کبھی روحانیت کی جانب مراجعت کی تلقین کرتی ہے ۔ اس کیفیت نے جانداروں پر اکرام اور انسانوں پر کہرام کی روایت کوعام کیا اور یہی مذہب کا نیا زہر ہے، نئی خوارک ہے۔
میانمار سے دارالسلام تک اور قدیم ترین تہذیبی گہواروں سے جدید ترین جائے تمدن تک، بتوں کا مسکن ہوکہ بتوں سے خالی خطۂ ارض، ہر چہار جانب کہرام اور کہرام برپاہے۔ بنی نوع انسان ماقبل تاریخ سے اس سچائی کی جستجو میں ہے اور آج بھی اس کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہے۔ گویا روحانی پیشوائوں اور روایت پسندوں کیلئے مذہب کی تفہیم اب بھی نامکمل ہے۔ نتیجہ ہے کہ مذہب اور جنون کے نام پر انسانوں کا قتل قرنوں سے بدستورقائم ہے اور شاید قیامت آجانے تک قائم رہنے والا ہے۔ ’ول ٹو لیو‘ (will-to-live) کا فلسفہ کس نے دیا تھا، کیا اس نے روئے زمین کے مکینوں کا مکمل مطالعہ کیا تھا یا پھر یونہی کچھ مشاہدے اور مکاشفے کی بناپر اس نے زندگی کا میزان مرتب کرنے کی کوشش کی۔ کون تھا جس نے ’خلیائی تقسیم‘(Cell devision) کی بناپر زندگی کے ارتقائی مدارج کو سرکرنے کا سہرا باندھا۔ کیا اس نے ایک ہی قبیل کے جانداروں کو آپس میں متصادم دیکھا تھا؟ کیا اس نے غالب اور مغلوبیت کے انجام سے استفادے کی کوشش کی تھی کہ مٹی میں تحلیل ہوتی نعش اور تعفن سے ایک دوسری مخلوق وجود میں آتی ہے۔ پھر شعور کی منزل پر روحانیت کی تخم کاری تلاش امن کا وسیلہ بنتی ہے۔
انجام کار مذہب کی شکل میں ایک تناور درخت متصادم انسانوں کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے بعد روحانیت کی مترشح شکل بچھڑے اور گائے کو انسانوں سے افضل قرار دے کر آمادۂ پیکار کرتی ہے۔ باالفاظ دیگر، حشرات الارض کی بقا کیلئے انسان ایسے مفروضے قائم کرتا ہے جو کاشتکاری جیسے بقائے انسانی کے نظام سے اسے مبرہ کردیتا ہے اور وہ تاحیات بھکشوئی کو مقدم سمجھ لیتا ہے۔ مگر جہاں جینے کا شعور اس کے حواس پر غالب آیا وہ انسانوں کے قتال پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ میانمار کا بحران ہو کہ فلسطین کا حال، عراق کا ماضی ہوکہ شام کا مستقبل، گویا ہر چہار جانب زندگی کی حکمرانی ہے جس نے زیست اور جنگ کو باہم متوازی کردیا اورموجودہ انسانی نسل کو فاتح ومفتوح دو متضاد قوموں میں منقسم کردیا۔
دنیا کی رفتار کبھی مدھم نہیں ہوتی، ایک نوزائیدہ بھی آخر بالغ العمری کو پہنچتا ہے اور تب شاید وہ کسی کی سرپرستی کا مکلف نہیں رہتا کہ اس نے زندگی کے تمام اسرار کو سر کرلیا۔ اب اگر ایسے میں ذرا زبان بھی ہلتی ہے تو ایک دنیا آمادۂ پیکار نظرا ٓتی ہے کیوں کہ فاتح قوم کے آگے مذہب محض سیاست ہے اور مفتوح کا مذہب روایت سے نکل کر جنون اور جنون سے زہر میں تبدیل ہوچکا ہے جو ہر آن تازہ کار نسل کی رگوں میں خون کی مانند اچھل رہا ہے۔ فاتح قوم تباہ حال تہذیبوں کو کمتر سمجھ کر خود وضع کردہ اپنے رہنما اصولوں پر نازاں ہے اور اس نے اقوام عالم کو تاریکیوں کا خوگر بنادیا۔ دوسری جانب دم توڑتی نسلیں اپنے اندرون میں مرصع احساس کی بجھی قندیل کھوجتی پھررہی ہیں اور دور تک انہیں اپنے تراشیدہ خدا کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ شاید اس لئے کہ مادیت پرستی نے زمین کے باسیوں کو سیاست زدہ مذاہب کا چسکا لگا دیا جس سے وہ نجات پانا بھی چاہیں تو وہ خود کو پیچیدہ در پیچیدہ جنجال میں گھرا محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از راست نہیں کہ مفروضے جب معروضوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور تہذیبیں جب انہیں قبول کرنے لگتی ہیںتو فکری اجتہاد تہذیبوں کا پیمانہ بننے لگتا ہے۔ اخلاق واطوار، معیشت ومعاشرت، مشاہدے ومیلانات،فنون وفلسفے، منصوبے ومناظرے یقینا سب کچھ انسانی تہذیب کا سرمایہ ہیں جنہیں روایات کا جزولاینفک کہا جاسکتا ہے۔ایسے سرمائے کو نہ قومیں بلکہ ان کی نسلیں بھی ڈھوتی ہیں اور اسلاف کی تعمیر وتشکیلات پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ اب اس سے فرار ہو بھی تو کیسے کہ امکان کے آگے بہت گاڑھی دھند ہے۔ اتنی گاڑھی کہ اس دھند میں ذہنوں کی روشنی گم ہونے لگتی ہے، جبکہ مادی دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، اتنا آگے کہ سیاست زدہ مذہبی دنیا حقیر اور زمین پر محض اپنی نسلیں بڑھانے اور آلودگی پیدا کرنے والی بن چکی ہے۔
تاریخ کے سنگ ریزوں میں اب بھی وہ شواہد موجود ہیں کہ جب کہرامی کیفیات نے انسانوں کو زندگی سے فرار کی جانب مراجعت کرنے پر آمادہ کیا تو کوئی نہ کوئی ہوشربا یا دیومالائی داستان ان کے دلوں میں زندگی سے محبت کا جذبہ بھرنے آن موجود ہوئی۔ گویا امن کے فلسفے کی تجدید کا عمل شروع ہوا لیکن ہر بار سیاست کی مترشح تاویلوںنے جدل و جبر کی روایات کو حسب معمول قائم رکھا۔ اس طرح انسانوں کے مرصع احساس کوایک تہذیب اور پھرتہذیب کو جنون میں تبدیل کرکے فاتح اور مفتوح کے درجات وضع کیے گئے اور اس طرح ایک نئی حکمرانی کا پرچم بلند کیا گیا اور ظاہر ہے، پرچم بلند کرنے والے یقینا عام لوگوں سے بالاتر تھے۔ گویا وجود وفنا کا سلسلہ ابد سے بدستور جاری ہے اور دو متضاد گروہوں کے شیدائی حسب سابق باہم متصادم و متحارب ہیں۔ موحد اور غیر موحدوں کے رہنما اصول مفادات کی حصولیابی کے لئے خلقت کی آبیاری اور مسماری کی داستان رقم کرنے میں کسی لمحہ غافل نہیں ، پھر بھی یقین سے کہنا مشکل ہے کہ قیامت کب آئے گی مگر روئے زمین پر جو کچھ ہے یا جو کچھ ہورہا ہے اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ تاریخ جانتی ہے کہ غالب قوموں نے زندگی کو سب سے مقدم اور موت کو مضحکہ سمجھا لیکن مغلوب قومیں ہر لمحہ موت کی منتظر رہیں۔ قیامت جو صدیوں سے ایک مفروضے کی شکل میں انسانی ذہنوں کو مضطرب کرتی رہی، زندگی اور موت کے معروضے میں متشکل ہے جس کے باقیات و شواہد تمام کرۂ ارض میں موجود ہیں۔ اب صرف انتظار ہے اس دن کا جب زمین شق ہوجائے گی، سمندر ابل پڑے گا اور پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اڑے گا اور تب شاید سیاست وحکمت اور فہم و فراست سے مبرہ ایک تازہ کار دنیا وجود میں آئے گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.