عارفانہ رنگ و آہنگ کاشاعر عزیزالحسن مجذوب
ْمحبت لے کے آیا ہوںٗ صوفی شاعر خواجہ عزیز الحسن مجذوب (پیدائش 13جون 1884 ء -وفات 17 اگست ء1944) کی شاعری کا انتخاب ہے جس کی ترتیب و تدوین ڈاکٹر عبدالواسع نے فرمائی ہے۔ یہ شعری انتخاب 2023ء میں ریختہ فاونڈیشن کے زیر اہتمام زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے ۔ اس انتخاب میں مجذوب کی حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی شاعری کے علاوہ اُن کی غزلوں اور مناجاتوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں اُن کے چند قطعات بھی اخیر میں موجود ہیں۔ مرتب نے شاعر اور اس کی شاعری سے متعلق ایک مبسوط مضمون بطور مقدمہ تحریر فرمایا ہے، جس سے حضرت مجذوب کی شخصیت اور شاعری کے مختلف گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالواسع اُن کے خاندانی پس منظر سے متعلق لکھتے ہیں ۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوب انیسویں صدی کی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ اُن کی پیدائش 13جون 1884ء کو بدھ کے دن ہوئی تھی ۔ تاریخی نام مرغوب احمد ہے۔ کچھ لوگوں نے اُن کے شجرۂ نسب کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے جوڑا ہے ، لیکن اصل میں یہ لوگ شیخ قریشی ہیں ۔ ان کے بزرگوں میں ایک بزرگ اله دادین خواجہ غوری تھے، اس لئے اُن کے خاندان کو غوری کہا جاتا ہے ۔ ان کےمحلے کا نام غوری پارا شاید اسی وجہ سے ہے۔ اُن کے والد کا نام خواجہ عزیز اللہ تھا، جو ایک کامیاب وکیل تھے۔ ان کےوالد حاجی امداد اللہ سے بیعت تھے ص 7
جس ماحول میں حضرت عزیز الحسن کی پرورش و پرداخت ہوئی ، انھوں نے جہاں اور جس قسم کی تعلیم حاصل کی اور معاش کے لیے جو جو ملازمتیں کیں، ان تمام امور سے متعلق اس کتاب کے مرتب نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔ اس ضمن میں ان کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
''حضرت عزیز الحسن مجذوب نے انگریزی کی پڑھائی کی ۔ چونکہ ان کا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا، اس لیے ان کی شخصیت پر اس کا اثر تھا۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی انھوں نے کبھی انگریزی کپڑے نہیں پہنے ۔ ڈپٹی کلکٹر اور انسپکٹر کے عہدوں پر فائز ہونے کے بعد بھی انھوں کبھی اپنی پوشاک نہیں بدلی ۔ اپنی ابتدائی تعلیم پوری کرنےکے بعد انھوں نے اعلیٰ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ انھوں نے بی ۔ اے کا امتحان پاس کیا اور ایل ایل بی کی تیاری کے لیے الہ آباد چلے گئے ۔ گریجویشن کے امتحان میں کا میاب ہونے کے بعد انہیں ڈپٹی کلکٹر کی نوکری مل گئی ۔ مقدموں کی شنوائی سے اُن کا دل پریشان ہو گیا ۔ انھوں نے کوشش کر کے اپنا تبادلہ محکمہ تعلیم میں کرا لیا۔ پہلے وہ اسلامی اسکولوں کے سب انسپکٹر کے عہدے پر رہے۔ پھر انہیں اسکول انسپکٹر مقرر کیا گیا ۔ وہ اسی عہدے سے پنشن لے کر سبکدوش ہوئے۔ص ۸
عزیز الحسن مذںوب ایک فطری اور وہبی شاعر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے اسکول کے زمانے ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں وہ حسن تخلص فرماتے تھے لیکن جب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سےبیعت ہوئے تو مجذوب ہو گئے ۔ یہ تخلص مولانا تھانوی نے ہی ان کے لئےتجویز فرمایا تھا ۔ حضرت عزیزالحسن مجذوب کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اُن کی تصنیفات سے متعلق اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر عبدالواسع رقم طراز ہیں ۔
حضرت عزیز الحسن مجذوب کا کچھ کلام اُن کی زندگی میں شائع ہو چکا تھا ۔ ان میں 'رسالہ نمکدان ظرافت'،'نیرل غیب'، 'مراقبہ موت '، 'دوازده اذکار عبرت '، 'جذبات مجذوب اول اور دوم '، 'فریاد مجذوب' اور' فغان بیوہ' سب سے اہم ہیں۔ اُن کی وفات کے بعد حضرت مولانا سید ظہور الحسن نے ایک مجموعہ شائع کیا ۔ اس مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ جہاں جہاں حضرت مجذوب کے کلام دستیاب تھے ، انھیں یکجا کر کے شائع کر دیا ۔ اس مجموعہ کلام کو' کشکول مجذوب 'کے نام سے جاناجاتا ہے۔ ص ۱۳
حضرت عزیز الحسن مجذوب نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جس کے شواہد زیر نظر انتخاب میں بھی موجود ہیں ۔ اُن کے کلام سے اس نکتے کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھے ۔ اُن کی طبیعت میں بلا کی موزونیت تھی، جس کی وجہ سے ان کے کلام میں سلاست، روانی، برجستگی کے ساتھ ساتھ اثر انگیزی اور جاذبیت بھی پائی جاتی ہے۔
حضرت مجذوب کا میلان طبع تصوف کی طرف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں عارفانہ رنگ و آہنگ ہے ۔ اُن کی شاعری 'از دل خیز دو بر دل ریزد' کی زندہ جاوید نظیر ہے ۔ کیف ومستی اور سرور وبے خودی کے کوائف اُن کے کلام سے آشکار ہوتے ہیں، بالخصوص اُن کی غزلیہ شاعری مذکورہ اوصاف و محاسن کی تصویر نظر آتی ہے ۔ اُن کی غزلیں سادگی میں پر کاری کے حسن سے مزین ہیں بقول مرتب'' حضرت مجذوب کی غزلیں اپنی سادگی اور صفائی، سلاست اور روانی،لطافت اور ملاحت میں اردو کی صف اول کے شعرا کی شاعری سے کسی طرح کم تر نہیں ہیں۔''ص 21
' محبت لے کے آیا ہوں' کا مقدمہ پڑھنے کے بعد جہاں حضرت عزیز الحسن مجذوب کی شخصیت اور شاعری سے واقفیت ہوتی ہے وہیں اس کے مرتب ڈاکٹر عبدالواسع کی محققانہ و ناقدانہ صلاحیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقدمے میں حضرت عزیز الحسن مجذوب کی زندگی کے اہم گوشوں کو تحقیقی شان کے ساتھ پیش کیا ہے وہیں اُن کے کلام میں پائی جانے والی خوبیوں کو بھی منصہ شہود پر لانے کی سعی مشکور کی ہے جس کے لیے وہ داد تحسین کے مستحق ہیں۔ مجھے اُمید قوی ہے کہ اس انتخاب کے توسل سے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی شہرت اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا اور مرتب کی بھی ادبی شناخت قائم ہو گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.