ہرمصنف اور خاص طور پر تخلیقی مصنف کی تصانیف پر اس کی روزمرہ کی زندگی اور بدلتے ہوئے حالات کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ حالات نہ صرف کار معاش کی دشواریوں، کھانے پینے کی ضروریات وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ دماغی جدوجہد اور جذباتی زندگی سے بھی وابستہ ہوتے ہیں، دراصل یہ سب مختلف چیزیں تخیل میں خلط ملط ہوکر ایک خاص صورت اختیار کرلیتی ہیں اور آرٹ کی حیثیت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن زمانہ جدید کے تنقید نگاروں کی طرح اس اثر کے بیان میں نہ تو مبالغہ سے کام لینا چاہیے اور نہ اس کو موڑتوڑ کر بیان کرنا چاہیے حالانکہ اس کو حذف کرنا بھی حقیقت سے گریز کرنا ہوگا۔
تخیلی حقیقت ہماری زندگی کی خارجی حقیقتوں سے اس قدر گہرا تعلق رکھتی ہے کہ اس کو دراصل دوسرے کاجز ولاینفک سمجھنا چاہیے۔ تخیل زندگی کی حقیقتوں کو بھلاکر محض ہوا میں پرواز نہیں کرتا درحقیقت وہ خارجی اصلیت ہی سے طاقت پرواز حاصل کرتا ہے۔ جس طرح کہ خوابوں میں زندگی کی حقیقتیں اپنی شکل بدل کے ہمارے دماغ پر اپنے رنگین عکس ڈالتی ہیں اسی طرح وہ تخیل میں سے ہوتی ہوئی نئے رنگ اور روپ اختیار کرتی، کٹتی چھٹتی، گہری اور واضح ہوتی ہوئی دوسروں تک پہنچتی اور ان کے دل اور دماغوں کو تقویت بخشتی ہیں۔ تخیل بیکار چیزوں کو علیحدہ اور حقیقی جذبات کو صاف کرکے اصلیت کے جوہر میں پیش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مختلف چیزوں کی مشہابہتوں کو لے کر ایک دلکش طریقہ سے معہ آب و تاب اور ان کی شدت کے پیش کرتاہے۔ ایک تخلیقی تصنیف اور اخبار نویسی میں یہی فرق ہے کہ تخلیق میں تخیل کا ہاتھ ہوتا ہے جو اس کو آرٹ کا درجہ بخش دیتا ہے اور اخبار نویسی یارپورٹنگ تخیل سے پاک ہوتی ہے اور زندگی کو بعینیہ پیش کرتی ہے اور جمالیاتی خوشی بخشنے سے قاصر رہتی ہے۔
ابھی تک تصنیف اور تخلیقی تصنیف کے فرق پر غور نہیں کیا گیا ہے۔ نہ اسی بات پر ٹھنڈے دل سے توجہ کی گئی ہے کہ تصنیف پر زندگی کے جدوجہد کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلے دس برس میں زندگی کی خارجی حقیقتوں پر بہت زور دیا گیا ہے لیکن کسی نے آرٹ اور تخلیق کے مسئلوں کا غور و فکر سے مطالعہ نہیں کیا۔ دراصل ہر عمدہ آرٹ زندگی کی حقیقتوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی تخلیق میں بہت سے ایسے جز شامل ہوتے ہیں جن کو ہر شحص آسانی سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کے لیے خاص دماغی نشتروں اور پھیلادینے اور سمیٹنے والے آلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی چیز کو بجنسہٖ بیان کردینا رپورٹنگ ہے۔ اس کے پوشیدہ جذبہ اور اثر کو دوسروں تک پہنچانا تخلیقی عمل ہے۔ کوئی چیز کسی ایک جز سے نہیں بنتی، اس کے اندر اور بہت سے عنصر شامل ہوتے ہیں۔ وہ بذات خود وجود میں نہیں آتی بلکہ وجہ وسبب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور نہ وہ معلق اور ایک ہی لمحہ میں قائم رہ سکتی ہے اس کے اندر ماضی اور مستقبل، ازل اور ابد، زیست و موت بھی شامل ہوتے ہیں۔ پھر وہ چیز نہ صرف اپنی بلکہ اپنے تمام جنس کی نمائندگی بھی کرتی ہے، آرٹ ایک چیز کے سب پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہے۔ گو اس میں شک نہیں کہ وہ ان سب کو واضح نہیں کرتا لیکن ان سب پہلوؤں کااحساس آرٹ میں بیک وقت موجود ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اس کے کارنامے ایک اور شخصیت کے اندر ہوتے اور تخیل کی رنگین وادیوں سے گزرتے ہوئے ہم تک پہنچتے ہیں اس لیے ان میں کچھ تبدیلیاں۔ کچھ اضافہ اور کچھ کمی واقع ہوجاتی ہیں۔ اگر ان سب کا توازن درست ہوتا ہے تو اس نئی صورت میں وہ چیز ہم پر گہرا اثر کرتی ہے۔ اور نہ صرف خود متحرک ہوتی ہے بلکہ ہمارے اندر بھی حرکت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ آرٹ ایک استعجاب کی کیفیت اور ہمارے اندر ایسا لطیف جذبہ پیدا کرتا ہے۔ جس کا اثر تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ جس طرح ہم محبت کے پیدا کیے ہوئے لطیف جذبات کو محسوس کرتے ہیں۔
ایک چیز کے ایک ہی وقت میں مختلف پہلو بھی ہوتے ہیں یعنی سطحی، بنیادی، فانی اور غیرفانی، حقیقی اور غیرحقیقی، جب کوئی مصنف صرف سطحی اور فانی پہلوؤں سے واسطہ رکھتا ہے تو تصنیف میں پائندگی نہیں آتی، یہ ضرور ممکن ہے کہ چونکہ عام پڑھنے والے بھی اس کے صرف سطحی پہلوؤں کو دیکھتے ہیں وہ پڑھتے وقت اس تصنیف کو پسند کریں اور قابل تحسین قرار دیں لیکن وقت فانی چیزوں کا حامل نہیں ہوتا اور موجودہ صورت کے بدل جانے پر تصنیف کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ اور اس میں حرکت پیدا کرنے کی قوت باقی نہیں رہتی اور وہ بے جان ہوجاتی ہے، گو فوری طور پر تھوڑے عرصے کے لیے اس میں جذبات پراثر کرنے کا مادہ تھا اسی طرح جیسے ’’گلابی اردو‘‘ یا ’’ٹیگور کی وضع‘‘ کی نثری نظمیں پیدا کرتی تھیں۔
’’ترقی پسند‘‘ ادب کے بیشتر نمونہ زندگی کے محض فوری اور سطحی پہلو پیش کرتے رہے ہیں جو اس ہی کم عرصے میں بے حرکت ہوگئے۔ ’’ترقی پسند مصنفین‘‘ نے ایک قابل ستائش سیاسی نصب العین اپنی تحریک کے ذریعے پیش کیا لیکن وہ تصنیف کو تخلیق کا درجہ نہ دے سکے۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہو کہ اس کے بہت سے کارکن اور بانی مبانی ہماری زندگی کے اہم اور سیاسی مسئلوں میں گھر گئے اور ان کا لگاؤ ادب سے نہ رہا۔ اسی وجہ سے وہ غالباً ہمارے ادب کے تخلیقی پہلوؤں پر ویسی گہری نظر نہ ڈال سکے جو انہوں نے اس کی خارجی حقیقتوں پر ڈالی تھی۔
سیاست کا مقصد ہمارے اندرقومی جذبات کو ابھارنا اور سماجی ترقی کی ترغیب دلانا ہے، وہ اپنا اثر تجزیہ، حقیقت نگاری اور مقرری کے ذریعے پیدا کرتی ہے۔ آرٹ کا تعلق زندگی کے گہرے اور پوشیدہ احساسات سے ہے، وہ ہمارے جذبات کو جگاکر حسن کی ترغیب دلاتا ہے اور اس کا تعلق تخیل سے زبان اور تالو کی طرح ہے۔ تخلیقی تصنیف بھی زندگی کی کثیف، تکلیف دہ اور ڈراونی حقیقتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اس کا مقصد محض فوری نہیں ہوتا اس کے پیش نظر نہ صرف زمانہ حال ہوتا ہے بلکہ مستقبل بھی۔ نہ صرف اس کے ہم عصر بلکہ آنے والی نسلیں بھی۔ اسی واسطے آرٹ کے لیے ایک مقرر کی طرح چیخ چیخ کے کہنا کہ ’’اے بھائیو! زندگی بہت گندی اور تلخ ہے، آؤ اس کو بدل ڈالیں‘‘ اپنے مقصد کو رد کرکے اخبارنویسوں کی نقل کرنا ہوگا، کیونک پھر آرٹ اور سیاست میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ آرٹ اور سیاست دونوں زندگی ہی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایک زندگی کے مستقل اور ہمہ گیر اثرات اور جذبات کو پیش کرتا ہے اور سیاست اس کے بدلنے والے اور وقتی پہلوؤں کو اپنے فکر کا مقصد بناتی ہے۔ مثلاً اگر سیاست کھیتی باڑی کرنے کے مختلف اور بہتر طریقے کو ترغیب دلاتی ہے یا زندگی کی اصلاح و درستی یا حکومت کرنے کے بہترین طریقے سوچتی اور عمل میں لاتی ہے تو آرٹ فصل بونے اور کاٹنے یا زندگی کے اور مختلف جذبات سے تعلق رکھتا ہے۔
کسان فصل بوتا اور کاٹتا ہے اور پھر کھلیان میں اناج بھر دینے کے بعد گاتا ناچتا اور اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ دونوں حرکتیں ایک ہی چیز سے تعلق رکھتی ہیں یعنی فصل سے اور ایک ہی چیز سے پیداہوتی ہیں یعنی پیٹ بھرنے کی خواہش سے۔ لیکن ایک کا تعلق اس کے عمل اور دوسری کا اس کے جذباتی پہلوؤں سے ہے۔ لیکن جس طرح ہم ہل چلانے کے بجائے ٹریکٹر استعمال کرنے یا انفرادی طریقہ سے کھیتی باڑی کرنے کی جگہ مجموعی یا مساواتی طریقے کی ترغیب دلانے کو اور کھیتی باڑی کرنے کے کام یا اُس ناچ گانے کو جو کھیت جوتنے اور بونے کے جذبات سے پیدا ہوتے ہیں ایک ہی چیز تصور نہیں کرسکتے، اسی طرح ہم سیاسیات یا کھیتی باڑی کو آرٹ نہیں کہہ سکتے۔ آرٹ کا ضروری یا غیرضروری ہونا یا آرٹ کا کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے کے مقابلہ میں کمتر یا برتر ہونا بالکل دوسری بات ہے۔ لیکن ان دونوں کو سمجھنا کج فہمی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آرٹ فرصت کی چیز ہے اور محنت و مزدوری کرنے والوں کو فرصت نہیں ہوتی۔ تو پھر اگر سیاست مزدوری کرنے والوں کو فرصت نہیں دلاسکتی تو اس کا فرض کیا ہوا؟ اور اگر سیاست میں مزدور پیشہ لوگوں کے دماغی اور ادبی معیار کو بلند کرنا نہیں چاہتی تو اس میں اور سامراج میں فرق کیا رہا؟ ہر سوسائٹی اور ہر قوم کا ہمیشہ یہ نصب العین رہا ہے کہ وہ سوسائٹی کے افراد کے معیار کو بلند کرے۔ اسی لیے ہر مہذب قوم اور دور میں آرٹ کا پایہ بلند رہا ہے۔ مصر و چین، یونان و روما سے لے کر فرانس و ایران و ہندوستان کے خوش حال زمانوں پر نظر ڈال جائیے۔ ہر جگہ آپ کو اس بات کا ثبوت ملے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ان ممالک میں ایک جماعت دوسری کی بدولت ترقی کرتی اور پروان چڑھتی تھی۔ اب سب جماعتوں کے ایک ہوکر ترقی کرنے کا زمانہ آرہا ہے۔ لیکن ترقی کا ثبوت اور انحصار ان کی مجموعی یعنی اقتصادی، معاشی، دماغی، ادبی اور تخلیقی ترقی پر ہوگا۔ یہ کہنا بے معنی ہے کہ آرٹ چونکہ محض فرصت کی چیز ہے اس لیے بیکار اور صرف ایک افیونی کاخواب ہے۔ اور مزدور کو بس خوابوں اور حسن کی لذتوں کی طرف لے جاتا ہے، یا یہ کہ مزدور کو اس پر وقت صرف کرنے کی فرصت نہیں۔
ہر شخص آرٹسٹ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جس طرح ایک شخص ہل بناتا ہے، دوسرا کھیت جوتتا ہے، تیسرا آٹا پیستا ہے، چوتھا ہوائی جہاز بناتا اور چلاتا ہے، یا ایک انجینئر ہوتاہے، ایک پروفیسر، ایک ڈاکٹر اور ایک عطار، اسی طرح ایک مصنف، ایک موسیقی داں، ایک مصور، ایک تنقید نگار اور ایک آرٹسٹ بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب کو بھی کام کرنے کی فرصت درکار ہے۔ جس طرح مشین چلانے کے لیے فرصت ضروری ہے۔ جب ایک کسان دن بھر کھیت بوسکتا ہے تو ایک آرٹسٹ بھی اپنے آرٹ میں غرق رہ سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہی ساتھ اوروں کے لیے بھی تخلیق کرتا ہے۔ جس طرح مزدور اور کسان اس کے لیے اور کام کرتے ہیں۔ جب مزدور، کسان، انجینئر، پروفیسر، اور ہواباز کو فرصت کا وقت ہوتا ہے تو وہ آرٹسٹ کے کارناموں سے لطف حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح آرٹسٹ ان سب کی بنائی ہوئی چیزوں سے مستفید ہوتا ہے۔
عمارت اور آرائشِ عمارت کا سوال گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ آرائش عمارت اور عمارت دونوں ہی ایک ہی چیز کی پیداوار ہیں۔ کسان کھیت جوتتا اور بوتا ہے اور پھر گاتا ناچتا ہے۔ تو کیا گانا ناچنا پیٹ بھرنے کی خواہش اور خوشی کا اظہار نہیں؟ جس طرح جوتنے بونے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اسی طرح ناچ گانے سے بھی نہیں بھرتا۔ انسان کے جسم میں صرف پیٹ ہی نہیں ہے۔ دل دماغ، اور اس میں جذبات اور حسیات بھی ہیں۔ اور ان ہی کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے اور یہی ایک پست اور مہذب سوسائٹی میں تفریق کا باعث ہیں۔
فی زمانہ آرٹ کو گرانے اور فضول چیز تصور کرنے کا الزام سیاست، اور ایک خاص قسم کی سیاست، کے سر ہے۔ میرا مقصد سیاست کے خلاف جہاد کرنا یا اس کے فوائد اور اس کی ضروریات سے درگزر کرنا نہیں۔ دراصل ہم کو صحیح سیاسی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے جو موجودہ زمانہ اور حالات میں صرف ایک روشن خیال اور غیرجانبدار جماعت ہی کرسکتی ہے لیکن سیاست کا کام سماج کی درستی کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ جس طرح ایک طبیب کا کام انجمن چلانا نہیں ہے اسی طرح ایک سیاست داں کا کام ٓرٹ کے گر سکھانا نہیں۔ چنانچہ تخلیقی تصنیف اورآرٹ بھی صرف سیاست کا دامن پکڑ کر فلاح و بہبود کو نہیں پہنچ سکتے۔ پائندگی کے لیے اور چیزیں بھی درکار ہیں۔ سب سے اہم چیز حقیقت کے بنیادی اور غیرفانی پہلوؤں کو پیش کرنا ہے۔
رپورٹنگ کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ اخبار نویسی بھی لوگوں کو بیدار کرنے اور ان میں اعلیٰ قومی جذبات پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ان کو تخلیقی آرٹ سمجھ لینا تہذیب اور کلچر کے معیار کو پست کرنا ہوگا۔ تخلیقی آرٹ ہمارے اندر ایک جمالیاتی جذبہ پیدا کرکے سکون بخشتا ہے اور زندگی کے جس پہلو پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ چاہے وہ حیات کا روشن پہلو ہو یا تاریک ایک شعاع پیدا ہوتی ہے جو ہر شے کواجاگر کردیتی ہے۔
سیاست کا تعلق سماجی تحریک اور اقتصادی اور حکومت کے پہلوؤں سے ہے۔ تخلیقی آرٹ کا تعلق انسان کے جذبات اور حسیات سے ہے۔ آرٹ کا تعلق شحصیت اور کیرکٹر سے ہے۔ شخصیت وہ چیز ہے جو انسان میں اس کی روح اور دماغ کے گہرے احساسات سے پیدا ہوتی ہے۔ کیرکٹر روایات ار اخلاقی تعلیم سے بنتا ہے۔ سیاسی تصنیف کردار کو محض ایک ڈھانچے کی طرح کسی خاص جماعت یا خیالات کے نمونوں یعنی TYPES کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ جو گوشت پوست کی جیتی جاگتی شکلیں اختیار نہیں کرپاتے۔ ان کا دارومدار ایک دُھرے پر ہے جس میں کوئی اصولی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ ہر تصنیف ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی اور ایک سانچہ میں ڈھلی ہوئی نکلتی ہے۔ جو کچھ فوری اثر تو پیدا کردیتی ہے لیکن پھر ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد صرف اتنا ہی ہوتا ہے اور وہ ہم کو کوئی گہرا جمالیاتی سکون نہیں بخش سکتی۔ مثلاً ایک سیاسی مصنف بنگال کے قحط کے سطحی پہلوؤں پر غور کرے گا۔ اس واسطے کہ اسے ایک فوری نتیجہ نکالنا اور سیاسی جوش پیدا کرنا ہے۔ وہ کم و بیش ان مسائل کو پیش نظر رکھے گا۔
اسباب قحط، حکومت یا حاکم کا رویہ، امراء اور حکام کی بے حسی و سرد مہری، ساہوکاروں کا مصیبت زدوں کی حالت سے فائدہ اٹھانا، بعض نیم حساس کھاتے پیتے لوگوں کا ان کی حالت پر افسوس کرنا لیکن اوپری طریقہ سے، قحط کے مارے ہوؤں کی جاں کنی اور کرب کا نقشہ۔ اس کے برعکس ایک تخلیقی مصنف قحط کے ساتھ ہی ساتھ موت، زندگی اور موت کی جنگ، اور کرداروں کو بحیثیت انسانوں کے پیش کرے گا۔ نہ کہ ایک سیاسی تحریک کی صورت میں۔ یہ اغلب ہے کہ وہ واقعات کے پیش آتے ہی ان کو آرٹ کی صورت میں نہ ڈھال سکے گا کیونکہ جب تک واقعات تجربہ بن کے ہمارے اندر نہ سماجائیں اور ہمارے حسیات کا جزولاینفک نہ بن جائیں وہ کبھی آرٹ کی صورت اختیار نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم کو رپورٹنگ اور اخبار نویسی کی ضرورت ہمیشہ رہے گے۔ ہماری زندگی میں ان کی بھی مستقل جگہ ہے تاکہ وہ حکومت یا سماج کی بدعنوانیوں کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔
آرٹ کے لیے Nostalgia یعنی اس گہری خواہش اور چاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے تن من میں سماجائے۔ جس طرح وطن سے دور گھر کی تڑپادینے والی یاد۔ یا وہ جذبہ جو ہمارے اندر ایام گزشتہ کے لوٹ آنے کی خواہش پیدا کرتا ہے ایک اخبار نویس واقعات کو اُسی طرح پیش کردیتا ہے جس طرح وہ ظہور میں آتے ہیں۔ ایک سیاسی مصنف بھی ان کو صرف لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ بناتا ہے اور اپنی تحریر کو پراثر بنانے کے لیے اخبار نویس مقرر کی طرزوں کو استعمال میں لاتا ہے۔ واقعات اس کی زندگی کے گہرے احساس کا جز بن کر نہیں آتے، وہ اس کی زندگی کا ایسا تجربہ نہیں بنتے جو اس کو بدل دے اور بھلائے نہ بھولے۔ جو اس کی شخصیت کا ایک جز ہوجائے اور اس کے کیرکٹر کی ایک کڑی۔ وہ تو محض ایک فوٹو گرافر کی تصویریں ہوتی ہیں جن میں ایمائیت Universality نہیں ہوتی او رحقیقت کو بجنسہ ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ چونکہ وہ فضول اور بے کار چیزیں بھی ہمارے سامے پیش کردیتی ہیں اس لیے اکثر اثر کرنے والی اصلیتیں کھوجاتی ہیں۔ یا ان پر نگاہ کم پڑتی ہے اور ان کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔
جب تک کہ تصنیف زندگی کے غیرفانی جذبات اور پہلوؤں کو زندہ نہ کردے وہ آرٹ نہیں بن سکتی۔ آرٹ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک تجربہ یا خیال ہم کو اپنے پنجوں میں اس طرح جکڑ لے کہ بغیر اس کا اظہار کیے ہوئے ہم کو چین نہ آئے، جس کے سوچنے کے دوران تخیل اپنا کام کرکے اس کو ہر فضول چیز سے پاک اور دھودھلا کر صاف ستھرا اور لاجواب کردے۔ بعض سیاسی قسم کی تصنیفیں بھی آرٹ کا مرتبہ حاصل کرسکتی ہیں۔ لیکن اسی وقت جب وہ فرقہ بندی کی حد سے گزر کر زندگی کے اہم اور ہمہ گیر مسائل سے تعلق رکھیں، ان مسائل سے جو فوری نہیں، بلکہ جو غیرفانی ہیں۔ اور ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے یکساں اثر رکھیں، پر اس وقت میرا تعلق افسانوی آرٹ سے ہے۔
محبت اور نفرت، انسانیت اور حیوانیت، زندگی اور موت کے مسئلوں کو کس طرح تصنیف میں پیش کیا جاسکتا ہے؟ یہ چیزیں آنکھوں سے نظر نہیں آتیں، ہاتھوں سے چھوئی نہیں جاسکتیں۔ ہم تو صرف ان کے اثر سے واقف ہیں، اور اس سے بھی پوری طرح نہیں۔ جو کچھ بھی اثر جذبات پر ہوتا ہے۔ ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں۔ چنانچہ تصنیف میں بھی ہم صرف ان کے اثر کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ان جذبات اور ان شکلوں کو استعمال کرتے ہیں جن کو سب سمجھ سکیں۔ ہم دنیا میں رہتے ہیں اور ہمارے گردوپیش اور زمین و آسمان پر وہ صورتیں اور چیزیں ہیں جنہیں گو ہماری عقل تسلیم کرلیتی ہے لیکن پھر بھی ہم ان کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے ہیں۔ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہم کو کچھ صحیح علم نہیں۔ انسانی تجربہ میں وسعت بھی ہے اور تنگی بھی۔ تو کیا ہم ان چیزوں کے بارے میں لکھنے سے گریز کریں؟ اگر زندگی ایک حقیقت ہے تو کیا موت حقیقت نہیں؟ قحط اور غلامی، بھوک اور افلاس کیاموت سے کم نہیں؟ کیا یہ ہم کو موت کی آغوش میں نہیں لے جاتے؟ جب تک ہم زندہ ہیں زندگی کے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ جب مرجائیں گے تو کون سی چیزیں ہم کوپریشان کریں گی؟ اس میں شک نہیں کہ موت بعد کی چیز ہے، لیکن زندگی پر نظر رکھتے ہوئے ماننا پڑتا ہے کہ موت اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تصنیفی تخلیق انسانی تخلیق کی طرح جذبے، خوشی اور رنج سے بھری ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بچہ اپنے وجود سے پہلے اپنے والدین کے ذہنوں میں محض ایک دھندلا سا خیال ہوتا ہے۔ لیکن پھر دو اشیا کے ملنے پر ایک نئی صورت اور ہیت اختیار کرکے احساسات و جذبات لیے ہوئے گوشت کے پتلے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح سے آرٹ بھی خارجی حقیقت اور تخیل سے مل کر ہمارے لیے زندگی کے رموز اور حیرت کا آئینہ بنتا ہے اور اس میں زندگی کے وہ سب جذبات جھلکتے ہیں جو ہم کو متحیر و متعجب کرتے اور جمالیاتی سرور سے بھردیتے ہیں۔
آرٹ بقول بیکن کے قدرت اور انسان کا میل ہے۔ قدرت میں سب اجزاء موجود ہوتے ہیں اور ایک آرٹسٹ ان میں سے ضروری چیزوں کو چھانٹ کر اور یکجا کرکے ایک ایسی چیز تیار کرتا ہے (چاہے وہ تصویر یا تصنیف یا موسیقی ہو) جو انسان کے دماغ اور حسن کے جذبہ کو مطمئن کرکے خوشی بخشتی ہے۔ یہ کام رپورٹنگ، اخبار نویسی یا سیاست انجام نہیں دے سکتے۔ چنانچہ سیاست میں ڈوب جانے کی وجہ سے ترقی پسندی نے ہمارے سامنے تخلیق و ادبی ترقی کا کوئی گہرا معیار پیش نہیں کیا۔ اس کی آورد Contribution غیر اضافی تھی۔ اس نے ہم کو صرف ماضی، اور ماضی قریب کے ادب کی تاریکی سے نکلنے اور زندگی کے قریب آنے کی ترغیب دلائی، لیکن ہم کو آگے نہ بڑھاسکی کیونکہ اس کے نظریے ادبی نقطۂ نظر سے محدود تھے۔ اس لیے ترقی پسندی کی تحریک صرف ایک خاص سیاسی جماعت سے منسوب ہوکر رہ گئی اور تخلیقی مصنفوں اور آرٹسٹس پر کوئی دیرپا اثر نہ کرسکی۔
زندگی اور موت و زیست کے مسئلے بہت وسیع ہیں۔ اور ایک محدود حلقے میں بند نہیں کیے جاسکتے۔ زندگی کو محض ایک جماعت کے نقطۂ نظر سے کامل اور وسیع طور پر نہیں دیکھا جاسکتا اسی طرح سے جس طرح ہم سارے عالم وار ارض و سماں کو صرف ایک ستارہ پر نگاہ جماکر نہیں سمجھ سکتے۔ ترقی کا مطلب آگے بڑھنا ہے۔ صرف ایک جگہ پر کھڑے ہوکر زندگی کو دیکھنا نہیں ہے۔ آرٹ اور رپورٹنگ یا پروپیگنڈہ میں بڑا فرق ہے۔ اب تک ہمارے ہاں اس حقیقت پر غور نہیں کیا گیا ہے۔
یہ مسائل اتنے سہل نہیں کہ کسی خاص خیالات کے پیمانے سے ناپے جاسکیں۔ ان کو سمجھنے کے لے درداور گہرے تجربے کی ضرورت ہے۔ محض مشاہدہ سے کام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ مشاہدہ صرف ظاہر سے تعلق رکھتا ہے اور تجربے کے لیے باطن کے احساس کی ضرورت ہے۔
سیاست بدلتی رہتی ہے ایک دور آتا ہے اور ایک دور جاتا ہے۔ لیکن زندگی اور آرٹ جو زندگی کے باطنی اور ہمہ گیر جذبات کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح قائم رہتے ہیں۔
انسانیت کا ابتدائی دور ختم ہوگیا۔ لیکن نغمہ سلیمانی، گیتا اور قول اللہ اسی طرح اب بھی ہمارے دلوں کو سرور بخشتے ہیں۔ جاگیرداری نظام مٹ چکا لیکن قصہ الف لیلیٰ ابھی تک ہماری زندگی کے پوشیدہ جذبات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح ہر دور اور زمانے کے ادبی کارنامے ابھی تک زندہ ہیں اور حیات جاودانی رکھتے ہیں۔ دور سرمایہ داری دم توڑ رہا ہے لیکن اس کے تخلیقی نمونے زندہ رہیں گے۔ اشتراکیت کی آمد آمد ہے لیکن یہ بھی ایک دن ختم ہوجائے گی۔ مگر آرٹ اور زندگی کا دور دورہ اسی طرح قائم رہے گا۔ اس واسطے ہم آرٹ کو سیاسی کوزوں میں بند نہیں کرسکتے اور نہ ہم زندگی کی عظمت اور بڑائی کو کم کرسکتے ہیں۔
(یہ مضمون افسانہ ’’موت سے پہلے‘‘ کے بعد شامل ہے۔)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.