Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اساطیری کہانیاں اور لیوی اسٹراس

قمر جمیل

اساطیری کہانیاں اور لیوی اسٹراس

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اساطیر کی سائنسی تشریح میں دلکشی ہے۔

    افلاطون (فیڈریس Phaedrus)

    آج کے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی مثلاً راجندر سنگھ بیدی کے’’ گرہن‘‘ میں اساطیری کہانیوں کی پر چھائیاں ملتی ہیں اسی طرح انتظار حسین کو بھی اساطیر سے دلچسپی ہے کامیو کی متھ آف سسی فس سے کون واقف نہیں ہے اساطیر سے دلچسپی کے کئی اسباب ہیں کچھ رموز مملکت ہیں اور کچھ اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے کی خواہش اور کچھ اپنے قدیم ترین ماضی سے دلچسپی۔ ان اساطیر کا مطلب کوئی نہیں جانتا یہ سچ ہے کہ لسانی طور پر انسان کا سب سے پہلا اظہار اساطیر ہی میں ہوا ہے۔ اس سے پہلے کوئی داستان، کوئی تحریر، کوئی کتاب نہیں تھی۔ یہ اْس زمانے کی کہانیاں ہیں جب انسان نے کوئی رسم الخط دریافت نہیں کیا تھا۔ ابتدائی انسان کی ساری زندگی ان میں بند ہے۔ ان کی اجتماعی زندگی معاشیات، سیاسیات اور مذہب کی مجموعی صورت حال ان کہانیوں میں ملتی ہے ان کہانیوں میں انفرادی زندگی نہیں ہے بلکہ اجتماعی زندگی کی تصویریں ہیںدیوی دیوتا ہیں، تخلیق کی کہانی ہے۔

    مثلاً تخلیق کی ایک یہ کہانی دیکھیے جس کا تعلق یونان سے ہے:

    ’’تمام کائنات کی دیوی یوری نوم انتشار کے عالم میںبرہنہ اْٹھی۔ اپنے قدموں تلے کوئی مستحکم چیز نہ پاکر سمندر کی امواج میں اکیلے ناچتے ناچتے اْس نے سمندر کو آسمان سے جدا کر دیا اور پھر ناچتے ہوئے جنوب کی طرف چلی گئی۔ جو ہوائیں اس کے پیچھے حرکت میں آئیں وہ نئی نئی سی تھیں اور ان سے تخلیق کے آغاز کا کام لیا جا سکتا تھا۔ گھومتے گھومتے اْس نے شمالی ہوا کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ہتھیلیوں کے بیچ رگڑ ڈالا اچانک ایک عظیم اژدہا اوفین اْس کے سامنے آیا۔

    دیوی اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے وحشیانہ انداز میں ناچتی رہی یہاں تک کہ اژدہا شہوت میں مبتلا ہو گیا اور اْس نے دیوی کے مقدس جسم کے اطراف کنڈلی مار دی اور وصال کی خواہش اس میں جاگ گئی۔ اب شمالی ہوا نے اسے بار آور کیا جس طرح گھوڑیاں اپنے پچھلے حصے ہوا کی طرف موڑ دیتی ہیں اور کسی سانڈ گھوڑے کی مدد کے بغیر گھوڑے کا بچہ جنتی ہیں اسی طرح یوری نوم دیوی بھی حاملہ ہو گئی۔

    پھر یوری نوم دیوی نے فاختہ کا روپ دھار لیا اور سمندروں کی موجوں پر بیٹھ گئی اور مناسب وقفہ کے بعد اسی فاختہ کے روپ میں اْس نے ایک کائناتی انڈا دیا۔ دیوی کے حکم پر اژد ہے نے انڈے کے اطراف سات بار کنڈلی ماری اور پھر اژدہا انڈے کو سینے لگا یہاں تک کہ اس انڈے کے دو ٹکڑے ہو گئے اور اس انڈے کے باہر وہ ساری چیزیں نکل پڑیں جو موجود تھیں یعنی یوری نوم کے بچے خورشید، چانداور ستارے اور دھرتی اپنے پہاڑوں، دریاؤں، درختوں، جھاڑیوں اور زندہ مخلوقات کے ساتھ۔ پھر اوفین اژدہا اور یہ دیوی یوری نوم دونوں اولمپس کی چوٹی پر رہنے لگے لیکن اژد ہے نے بار بار یہ کہہ کر کہ میں اس کائنات کا خالق ہوں یوری نوم دیوی کو پریشان کر دیا دیوی نے پریشان ہو کر اژد ہے کا سر اپنی ایڑی سے رگڑ ڈالا اور لات مار کر اس کے دانت باہر نکال دیے اور پھر اسے زمین کے نیچے غاروں

    میں پھینک دیا۔

    تب دیوی نے سات سیارے پیدا کیے اور ان میں سے ہر ایک اْس نے دو مافوق الفطرت طاقتوں کے حوالے کر دیا، ،سورج، چاند، مریخ، مشتری، زہرہ اور زحل سب کو۔۔۔۔۔۔ تب پہلا آدمی جو Pelasgus تھا اور (Pelasgusians) کا جد تھا آرکیڈیا کی خاک سے اْبھرا ،اْس کے پیچھے بہت سارے آدمی آئے، تب کچھ اور آدمی آئے جن کو اْس نے جھونپڑی بنانا اور شاہ بلوط کے پھلوں پر گزارا کرنا اور سور کے چمڑوں سے چوغے بنانا سکھایا ایسے چوغے جیسے ایوبیا اور فوکس کے غریب لوگ پہنتے ہیں۔

    اساطیر کا صرف کسی ایک کہانی سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا یہ کہانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو یونان اور روم ہی میں نہیں ہندوستان سے لے کر افریقہ، آسٹریلیا اور امیزان اور شمالی امریکہ کے انڈین باسیوں کے علاوہ نہ جانے دنیا کی کون کون سی زبانوں میں موجود ہے ان اساطیری کہانیوں کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ بعض محقق یہ کہتے ہیں کہ انسان کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے سلسلے میں پچھلے تین ہزار سال کی تاریخ اتنی اہم نہیں ہے جتنی اہمیت ابتدائی معاشرہ کو حاصل ہے کیوں کہ اگر اساطیری کہانیوں کے اشارے اور ان کی منطق ہماری سمجھ میں آگئی تو پھر یہ مسئلہ حل کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگا کہ زبانوں میں اتنے اختلافات کیوں ہوئے اور اتنی نسلیں اور اتنے تمدن کیسے پیدا ہو گئے اس طرح انسانی ذہن کی وحدت سامنے آجائے گی اور ہمیں وہ بصیرت مل جائے گی جس سے انسانی شعور کی مختلف تہیں کُھل جائیں گی۔ قدیم عبادت گاہوں اور اصنام کی طرح یہ اساطیر بھی ابتدائی انسان کی اجتماعی زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں پھر یہ کہانیاں ایسا لگتا ہے کہ شعوری ہی نہیں تحت شعوری زندگی سے پھوٹی ہیں۔

    یونانیوں کے لیے یہ کہانیاں پہلے مذہبی بعد میں تمثیلی حیثیت اختیار کر گئیں پھر ایک یونانی نے تو ان اساطیری کہانیوں کی عقلی تعبیر بھی شروع کر دی مثلاً یورپ کی اساطیری کہانی کی عقلی تعبیر یہ کی کہ یوروپا کو ایک خوبصورت بیل پر بٹھا کر کریٹ پہنچایا گیا تھا لیکن اس میں لغوی دقت یہ آن پڑی کہ کریٹ کے معنی بھی بیل تھے اور اغوا کرنے والے شہری کا نام Tauros تھا جو خود ایک بیل کو کہتے ہیں مزید مشکل یہ کہ بیل زیوس دیوتا کی علامت ہے۔ ہومر کی Odyssey میں ایک اور اساطیری کہانی ملتی ہے جس میں ایک مردم خور جانور Odyssey کی کشتی پر حملہ کرتا ہے اس اساطیری کہانی کی توجیہ بھی عقلی طور پر یہ کی گئی کہ Odyssey کی کشتی پر قزاقوں کی ایک کشتی نے حملہ کیا تھا۔

    حضرت عیسیٰعلیہ السلام سے تین سو سال پہلے یہ تعبیر پیش کی گئی کہ ان اساطیر میں جو دیوی دیوتا ہیں دراصل وہ ابتدائی عہد کے ہیرو ہیں جنہوں نے انسان کے لیے کارنامے انجام دیے تھے یعنی اْس زمانے میں اساطیری کہانیوں کو سمجھنے کے دو ہی طریقے ممکن تھے ایک تمثیلی اور دوسرا عقلی وائکو نے یہ کہا کہ انسانی تخیل نے ان اساطیری کہانیوں کو جنم دیا ہے اور بعد میں اس پر یونانی اور امریکہ کی انڈین اساطیر کا موازنہ کر کے یہ ثابت کر دیا گیا کہ انسان میں اساطیر تخلیق کرنے کارجحان آفاقی طور پر موجود ہے۔

    سوال یہ ہے کہ آخر ان اساطیر میں کوئی معنویت کیوں نہیں ہے اس کا ایک سبب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ انسانیت کے ابتدائی زمانے میں تخلیق کی گئی ہیں میکس ملّر کا خیال تھا کہ انڈین یورپین کلچر کی یہ اساطیر دراصل کائنات کے بارے میں تمثیلی کہانیاں ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زبانوں کی بیماریوں کے باعث ان کے معانی گم ہو گئے۔

    فرائڈ اور یونگ نے ان اساطیر کی نفسیاتی تعبیریں پیش کی ہیں لیکن فرائڈ اور یونگ کے نظریات قبول نہیں کیے گئے فرائڈ نے کہا تھا کہ قوموں کی چھپی ہوئی خواہشیں جو خوابوں میں نظر آتی ہیں ان ہی کی بدلی ہوئی شکلیں اساطیر میں بھی ملتی ہیں۔ یونگ کے مطابق یہ اساطیر قبل شعوری نفسی کیفیتوں کا اظہار ہیں۔ لاشعوری نفسی کیفیات کے غیر ارادی بیانات ہیں۔ کم سے کم یونانی اساطیر کے بارے میں رابرٹ گریوز نے ان دونوں نفسیاتی تعبیروں کو رد کرتے ہوئے یہ کہا کہ آج کل انتخابات کے زمانے میں یورپ میں جو کارٹون بنتے ہیں یونانی اساطیری کہانیاں اْن سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتیں اور یہ کہ یہ اساطیری کہانیاں زیادہ تر اْن علاقوں کی ہیں جن کا تعلق کریٹ سے تھا۔

    جس زمانے میں اساطیر میں لیوی اسٹراس نے دلچسپی لی ہے اْس زمانے میں دوہی نظریات کو قبولیت حاصل تھی ایک تو Malianowski کا نظریہ کہ ابتدائی عہد کا انسان اپنی بنیادی ضرورتوں میں گرفتار تھا مثلاً اس کا مسئلہ غذا، تحفظ اور جنس کا مسئلہ تھا چنانچہ اس کے عقائد اور اساطیر کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جاتا تھا دوسرا نظریہ Bruhl Levy-کا تھا جو یونگ کے نظریے سے بہت قریب تھا اس نظریے کی رو سے اساطیر کا تعلق قبل منطق ذہن سے تھا اسذہن پر پراسراریت اور ُسریّت کا غلبہ تھا یعنی وہ خارجی کائنات میں ایک قسم سری شراکت داری ( Mystical Participation) کی نمائندگی کرتی ہیں۔

    شیلنگ پہلا مفکر تھا جس نے یہ کہا کہ ارتقاء کی ایک خاص منزل میں انسان منطق کا جو بھی تصور رکھتا ہے اْس کا اظہار اساطیر میں ہوا ہے اور مارسل ماس نے یہ کہا کہ اساطیر مجموعی سماجی مظہر کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی اساطیری کہانی میں ابتدائی انسان کے مذہبی معاشی اخلاقی اور قانونی ادارے سب کے سب جھلکتے ہیں۔

    ساختیات نے اساطیری کہانیوں کے معنی سمجھنے کا ایک نیا دروازہ کھولا وہ یہ کہ ساختیات کے ماہرین نے بتایا کہ اساطیر اور زبان کی بنیادی نوعیت میں بڑی مماثلت ہے۔ جس طرح زبان صوتیوں Phonemes کے مختلف اور مخالف ہونے پر قائم ہے اسی طرح اساطیر بھی کچھ بنیادی تصورات Categories کے مختلف اور مخالف ہونے پر قائم ہیں۔

    اگر زبان ابلاغ کا ایک نظام ہے تو پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے قواعد و ضوابط کس طرح دوسروں تک پیغام پہنچاتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم سے کوئی بات کہتا ہے تو ہمارے سامنے آوازوں کا ایک سلسلہ آتا ہے اور ہم ان آوازوں کو صوتیہ نظام (Phonemes) کی روشنی میں دیکھنے لگتے ہیں کیوں کہ ہم نے اپنے اندر آوازوں کے صوتیاتی نظام اور ان کے معانی پہلے ہی جذب کر رکھے ہیں اس کے علاوہ زبان کی قواعد بھی ہمارے تحت شعور میں جذب ہوتی ہے اس طرح ہم جملہ کے اجزاء کا باہمی ربط فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ آوازیں، ان کی نحوی ساخت اور معانی یہ تین چیزیں ضروری ہیں اس شعوری اور تحت شعور عمل کے بغیر ابلاغ ممکن نہیں ہوتا جس طرح زبان کو سمجھنے کے لیے شعوری یا تحت شعوری سطح پر یہ علم ضروری ہے اسی طرح ادب کے قواعد و ضوابط کو سمجھنے کے لیے ادب کی روایت سے آگہی اور ادبی اہلیت بہت ضروری ہے مثلاً

    ہماری تو گزری اسی طور عمر

    یہی نالہ کرنا، یہی زاریاں

    میر کا یہ شعر اْس وقت تک ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک ہم خاص طور پر غزل کی روایت کو نہ سمجھیں اس کے لیے وعظ/رند/ میکش/محتسب /عاشق/ محبوب/ ولی/ بادہ خوار، کعبہ/کلیسا، کاکل/رخسار، قطرہ/دجلہ، گھر / صحرا، مسجد/ میکدہ جیسی Binary Oppositions کا جاننا ضروری ہے اور پھر جام سفال اور جامِ جم کی Binary Oppositions کو سمجھنا ضروری ہے مثلاً

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

    جام ِ جم سے یہ میرا جام سفال اچھا ہے

    ادبی روایت سے واقفیت کے بغیر کوزہ گر سیدھا سادا کمہار بن کر رہ جاتا ہے۔ اساطیر کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اساطیر کا کلچرل سیاق و سباق ہمارے سامنے موجود نہیں ہوتا اس کے علاوہ اساطیر کو سمجھنے کے لیے مستحکم معانی نہیں ہوتے چنانچہ ساختیاتی تجزیہ کاروں کے سامنے سب سے مشکل مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف اساطیر کی ساخت دریافت کریں اور دوسری طرف اس کے معانی بھی سمجھیں چنانچہ لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ اساطیر کا تجزیہ کرنے والے کو ایک مرغولہ (Spiral) کی طرح کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اس سفر میں ایک کہانی دوسری کہانی کو واضح کرتی ہے اور پھر اس کہانی سے ہم تیسری کہانی تک پہنچتے ہیں اور پھر یہ تیسری کہانی پہلی کہانی کی روشنی میں سمجھ میں آسکتی ہے یعنی ہر کہانی دوسری کہانیوں پر زیادہ منحصر ہوتی ہے اس طرح یہ ممکن ہے کہ ایک کلچر کی مختلف کہانیوں کا موازنہ کر کے ہم ان کے معانی تک پہنچ جائیں لیکن دو مختلف تمدنوں کی اساطیر کے معنی سمجھنا مشکل ہے اس کے علاوہ ایک دقت یہ بھی ہوتی ہے کہ ادب کے مقابلہ میں اساطیری کہانیوں میںBinary Oppositions یعنی دو رُخے تضادات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر ان کہانیوں کو سمجھنے کا طریقہ لیوی اسٹراس نے بتایا ہے کہ زبان کے تجزیے سے ہمیں وہ اشارے مل سکتے ہیں جن سے ہم کلچر کا تجزیہ کر سکیں۔ ویسے Codes اور Message کی اصطلاحیں سوسیسئر نے پہلی بار استعمال کی تھیں لیکن لیوی اسٹراس نے بھی یہی اصطلاحیں استعمال کی ہیں اور Codes کو اساطیر کے سمجھنے میں بہت اہمیت دی ہے۔ اْس کا خیال ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی قبیلہ کی شناخت کا ذریعہ ایک جانور اور دوسرے قبیلہ کی شناخت کا ذریعہ دوسرا جانور ہوتا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ یہ جانور معاشی یا مذہبی طور پر ان کے لیے اہم ہوتے ہیں بلکہ اگر کسی قبیلہ کا جد ریچھ اور کسی قبیلہ کی جد چیل ہے تو یہ ان دونوں قبیلوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کی ایک ٹھوس صورت ہے۔

    اسٹر اس نے اپنے زمانے کی مروج تعبیروں کے انداز کو رد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ابتدائی انسان مجموعی طور پر کائنات کی تفہیم چاہتا تھا اور اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی مجموعی تفہیم کے پس منظر ہی میں اشیاء کی تشریح ہو سکتی ہے۔ اْس کا یہ بھی خیال تھا کہ ان اساطیری علامتوں کی صرف ایک تشریح نہیں ہوتی بلکہ کئی تعبیریں ممکن ہیں جو ایک دوسرے کو مکمل کر سکتی ہیں وہ کہتا ہے کہ انسان کے ذہن کی نوعیت وہی رہتی ہے چاہے ہر عہد میں انسان اپنے ذہن کی مختلف صلاحیتوں کو مختلف انداز سے استعمال کرے۔ ہر کلچر خاص قسم کی چیزوں کو سامنے لاتا ہے باقی چیزیں بالقوہ رہ جاتی ہیں۔

    اساطیری کہانیوں کو خود اپنے مخصوص نظام کی کہانیوں کے مقابل رکھ کر سمجھنا چاہیے۔ ہر کہانی کی اپنی علیحدہ تعبیر نہیں کرنی چاہیے خود ان اساطیری کہانیوں کا ایک رحم مادر (Matrix) ہوتا ہے جو معانی کے دوسرے رحم مادر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اساطیری کہانیوں کے معانی Signifier اورSignified کے درمیان نہیں ہوتے بلکہ کہانی کے (Codes) اور (Events) کے درمیان تعلق ہوتا ہے کہانی کے معنی اسی تعلق سے پیدا ہوتے ہیں جب انسان اپنے آپ سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس کی عملی غرض نہیں ہوتی تب دراصل وہ اپنے آپ کو معروض بنا کر اپنی نقل کرتا ہے جیسے جمناسٹک میں انسانی جسم کا کوئی خارجی عملی مقصد نہیں ہوتا۔ انسانی جسم صرف اپنی نقل آپ کرتا ہے لیکن جمناسٹک صرف ایک مظاہرہ ہے (Code) نہیں ہے۔

    اسٹر اس کے خیال میں علامتوں کے معانی متعین نہیں ہوتے اساطیر کے مخصوص نظام ہی سے اساطیر کے معانی نکلتے ہیں اس لیے اساطیر کے نظام کو خود یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے معانی ہم پر منکشف کرے اس کے علاوہ اساطیری کہانیوں کا مطالعہ دوسری اساطیری کہانیوں کے پس منظر میں ہونا چاہیے اساطیری کہانیاں ایک ایسا جال ہیں جس کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا وٹیگنیسٹائن کی طرح لیوی اسٹراس بھی یہی کہنا چاہتا ہے کہ حقیقت در اصل اپنے سیاق و سباق ہی میں حقیقت ہوتی ہے۔

    اسٹر اس کا خیال ہے کہ لفظ آواز اور معانی کے ملنے سے بنتے ہیں آواز نے آگے بڑھ کر موسیقی کی شکل اختیار کرلی ہے اور لفظ کے معنی نے اساطیر کی شکل۔

    لیوی اسٹراس نے شاعری کے بارے میں بھی پتے کی بات کہی ہے شاعری سائنس اور اساطیر کے درمیان کہیں ہوتی ہے ہاں اساطیری فکر اور سائنسی فکر میں مماثلت ضرور ہے یہ ایک نہیں ہیں اور نہ ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ انھیں علم کے دو ذرائع کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے اسٹراس کی وہ خوبصورت تشبیہ دیکھیے جو اس نے اساطیری فکر اور سائنس کے سلسلے میں دی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح کسی چیز کے آگے آگے اس کا سایہ چلتا ہے اور جس طرح یہ چیز اپنی مادیت میں مکمل ہوتی ہے اسی طرح اس کا سایہ بھی اپنی غیر مادیت میں مکمل ہوتا ہے۔

    نوحجری عہد (Neolithic Age ) کے انسان نے بڑے بڑے فن دریافت کیسے مثلاً زراعت کا فن، کپڑا بننے کا فن، جانوروں کو پالتو بنانے کا فن اور کوزہ بنانے کا فن لیکن اس کو حادثاتی دریافتوں کا سلسلہ نہیں سمجھنا چاہیے یہ مسلسل مشاہدے اور تجربات کا نتیجہ تھے۔ یہی نہیں بلکہ نوحجری عہد کا انسان طویل سائنسی روایات کا وارث تھا۔ حالانکہ ان دریافتوں کا سلسلہ اپھر ہزاروںبرس تک کے لیے رک گیا۔

    جدید عہد سے پہلے جو سائنسی تکنیک مروج تھی اسے فرانسیسی زبان میں Bricolage کہتے تھے۔ اس کا استعمال قدیم عہد میں گیند کے ہر قسم کے کھیل اور Billiards کے کھیل، شکار، شوٹنگ اور گھوڑ سواری کے لیے ہوتا تھا۔ بہر حال یہ لفظ خارجی نوعیت کی حرکات کے لیے مخصوص تھا، مثلاً کسی گیند کے لوٹ آنے کے لیے، کسی کتے کے آوارہ پھر نے یا کسی گھوڑے کے کسی رکاوٹ سے بچ نکلنے کی غرض سے عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اسٹراس کہتا ہے کہ ہمارے زمانے میں (Bricoleur) ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے کام کرتا ہو اور دستکار کے مقابلے میں عام انداز سے ہٹی ہوئی ترکیبیں استعمال کرتا ہو۔ اساطیری فکر بھی اسی طرح معلومات کے خارجی خزانے سے فائدہ اٹھاتی ہے چاہے یہ خزانہ کتنا ہی وسیع ہو محدود ضرور ہوتا ہے (Bricoleur) دراصل ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بہت سارے کام کر سکتا ہو مختلف نوعتیوں کے کام اسے خام مواد اور اوزار انجینئر کی طرح منصوبے کے مطابق نہیں ملتے۔ (Bricoleur) کے اوزاروں کی دنیا بہت محدود ہوتی ہے اس کے لیے بس ایک ہی طریقہ ممکن ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ موجود ہے بس اسی سے کام لے اسے بس اسی طرح صحیح نتیجہ برآمد کرنا ہوتا ہے۔ اساطیری فکر بھی گویا ایک طرح کا (Bricolage) ہے یعنی (Bricoleur) کی طرح جو کام وہ تکنیکی سطح پر انجام دیتا ہے اساطیری فکر کو بھی اسی طرح کا کام انٹیکچول سطح پر انجام دینا ہوتا ہے اور اسی طرح وہ انٹلیکچول سطح پر انتہائی ذہین نتائج تک پہنچ سکتی ہے۔

    اساطیری فکر (Percept) یعنی ادر اک اور (Concept) یعنی تصور کے درمیان ہوتی ہے۔ ادراک کو ٹھوس سچویشن سے کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا اور اگر تصورات کی طرف رجوع کیا جائے تو اپنے منصوبے عارضی طورپر ہی سہی اٹھا رکھنے پڑتے ہیں۔

    تصورات اورامیجز کے درمیان نشانیاں یعنی(Signs) ہوتی ہیں۔ سوسیئر نے بھی (Signs) کو تصورات اورامیجز کے درمیان ہی کی ایک کڑی بتایاہے۔ تصورات واضح ہوتے ہیں اور (Signs) میں انسانی کلچر شامل ہو جاتا ہے انجینئر تصورات کی مدد سے کام کرتا ہے اور (Bricoleur) نشانیوں کی مدد سے۔ (Bricoleur) اساطیری فکر کی بنیاد اس طرح رکھتا ہے کہ واقعات یا ان کی باقیات کو آپس میں جوڑ کر ایک اسٹرکچر بنا دیتا ہے۔

    اساطیری فکر عمومیت بھی رکھتی ہے اور امیج میں ڈوبی ہوئی بھی ہوتی ہے اور اساطیری فکر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اساطیری فکر سب سے پہلے ساخت تیار کرتی ہے۔ یہ ساخت زبان کی ساخت ہوتی ہے جس پر وہ اپنی اساطیری ساخت تیار کرتی ہے اور پھر واقعات یا واقعات کے ملبہ سے اساطیر کی تکمیل کی جاتی ہے۔ جو بات کسی زمانے میں ایک سماجی معاملہ کی حیثیت رکھتی تھی اس کے ملبہ سے اسطور نظریاتی قلعے تعمیر کرتی ہے۔ لیوی اسٹراس کے لفظوں میں یہ ایک شخص یا معاشرے کی تاریخ کا Fossilized ( یعنی پتھر کی طرح سخت ہو چکا ہے) اظہار ہے۔ بہر حال لیوی اسٹراس یہ بات بہت پتہ کی کہتا ہے کہ آرٹ سائنس اور اساطیر کے درمیان بلکہ بیچوں بیچ ہوتا ہے۔ اساطیری کہانیوں سے دو باتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں ایک یہ کہ انسانی ذہن میں ایک وحدت موجود ہے دوسرے یہ کہ انسانی ذہن ہر اس چیز پر جو اس کے سامنے آتی ہے کوئی نہ کوئی ہئیت ضرور منطبق کر دیتا ہے۔

    آج ہم تجریدی انداز میں غور و فکر کے عادی ہیں لیکن ابتدائی عہد کا انسان ٹھوس انداز میں سوچتاتھا اور اس کی منطق بھی ٹھوس حقیقتوں کی منطق ہوتی تھی چنانچہ اگر اسے یہ کہنا ہوتا کہ دو قبیلے ایک دوسرے کے مماثل ہوتے ہوئے ایک دوسرے

    سے ممتاز ہیں اور یہ کہ ان میں کوئی مقابلہ بھی نہیں ہے تو وہ کہتا تھا کہ یہ قبیلے چیتے اور مگر مچھ کے قبیلے ہیں۔

    لیوی اسٹراس کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اْس نے اساطیر اور موسیقی کے درمیان گہرے تعلق کو ثابت کیا ہے اس طرح اساطیر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے چنانچہ اسٹراس یہ کہتا ہے کہ ہم اساطیر کو اس طرح نہیں پڑھ سکتے جس طرح اخبار پڑھتے ہیں اساطیر کو اس طرح پڑھنا چاہیے جس طرح ہم آرکسٹرا سنتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نہیں بلکہ مجموعی تاثر کے ساتھ۔ اساطیر کے معنی ان کی مجموعیت ہی کے پس منظر میں سمجھ میں آسکتے ہیں۔ ہر سمفنی کا ایک آغاز ، ایک وسط اور ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ ہم اس سمفنی سے لذت یاب نہیں ہو سکتے اگر ہر لمحہ ہم جو کچھ سن چکے ہیں اور جو کچھ اب سْن رہے ہیں اْسے اچھی طرح ذہن نشین نہ رکھیں یعنی موسیقی سے ہم اْس وقت تک لطف اندوز نہیں ہو سکتے جب تک ہم موسیقی کی مجموعیت کا شعور نہ رکھتے ہوں اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم میوزیکل فارمولے سے انحراف کو بھی محسوس کریں۔ ہر انحراف کے وقت ہم اْس تقسیم کو یاد رکھیں جو تھوڑی دیر پہلے سنا تھا۔ لیوی اسٹراس سے پہلے جو لوگ اساطیر کا تجزیہ کر رہے تھے وہ یہی منطق سمجھ نہیں سکے تھے چونکہ اساطیر اور ادب میں یہی منطق مشترک ہوتی ہے اس لیے لیوی اسٹراس کی اس تحقیق سے ادب کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article07 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے