عورتوں کی لڑائی
بواسلام!
سکینہ نے اپنے کوٹھے کی دیوار سے سرنکال کر رضیہ کو مخاطب کرکے کہا، جو مکان کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔ اس نے اپنی سفیدسفید بھویں سکیڑ کر بے رونق نگاہوں سے اوپر کو دیکھا، اور بے رخی سے کہا،
پڑے خاک ایسے سلام پے!
کیا ہوا بوا، آج کیوں منھ سجائے بیٹھی ہو؟
چل پرے۔ لمبی بن، آئی وہاں سے بوا کی لاڈلی۔
بوا کیاہوگیا تمہیں، کیوں تمہارے سر پر سنیچر سوار ہے آج؟
سنیچر سوار ہو تیرے سر پر، دیکھ سکینہ میرے منہ مت لگیہ!
بوا کیا باؤلے کتے نے کاٹ لیا تمہیں، جو کاٹ کھانے کو دوڑی پڑتی ہو۔
باؤلا کتا کاٹے تجھے، تیرے پیاروں کو، اللہ نہ کرے جو مجھے کاٹے باؤلا کتا!
بوا، دیکھ میرے پیاروں کا نام لیا تو چٹیا کی خیر نہیں، ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔
منھ وہ سنبھالے جو تیری دبی بسی رہتی ہو۔ تیرا دبا کھاتی ہو۔ مجھ پر تیرا کیا دباؤ ہے جو میں سنبھالوں منھ کو۔
دیکھ سکینہ منھ میں لوکا دیدوں گی، جو میرے بوڑھے چونڈے کا نام لیا!
بوا تمہارا تو دماغ چل گیا ہے، زبردستی جیب چلانے کو بیٹھ گئیں تم! میں نے بھلا کہا کیا تھا۔ تمہیں سیدھے سبھاؤ سلام کرنے کو چلی آئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی، یوں جلی پھنکی بیٹھی ہو۔
جلے تو، پھنکے بھی تو، میں کیوں جلتی۔ جیب چلانے کو مجھے تیرا کیا ڈر پڑا ہے؟
ہے کیسی لُگائی، باز ہی نہیں آتی، بالکل سرپے ہی چڑھی جارہی ہے، ہم تو بڑھاپے کا خیال کر رہے ہیں، آپ ہیں کہ آپے ہی سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔
آئی وہاں سے بیچاری بڑھاپے کا خیال کرنے والی۔ بڑھاپے کاخیال کرتی تو مردوں میں بیٹھ کر میری صورت میں کیڑے ہی تو ڈالتی، ارے میرے منھ میں دانت نہیں رہے۔ آنکھوں سے پانی بہتا ہے تو تیرے باوا کا کیا نقصان ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، جس کو چاہے جیسا بنادے، مگر بندے کو کسی بات پے گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔
بوا، ذرا دوسرے کی بھی سناکرو۔ تم تو اپنی ہی کہے جارہی ہو، کون کہتا ہے میں نے تمہاری صورت میں کیڑے ڈالے، بوا جھوٹ بولنے کی میری عادت نہیں۔ دیکھو ایسے طوفان مت اٹھاؤ تم مجھ پر، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ میرے ہی جنم میں تھوکے گا کہ ضرور اس نے بوا کو کچھ کہا ہوگا۔
اس گھر میں رہتے رہتے میرے بال سفید ہوگئے، آج تک کوئی کہہ تو دے میں نے کس پر طوفان اٹھائے ہیں، کس پر تہمت لگائی ہے۔ اکیلی تم ہی تو رہتی ہو، محلے میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں، ایک تم پر ہی طوفان توڑ رہی ہوں میں!
اوروں کی میں کیا جانوں بوا، میں تو اپنی کہتی ہوں بوا، خدا اپنا دیدار اور محمد کی شفاعت نصیب نہ کرے، جو میں نے کسی کے سامنے تمہیں کچھ کہا ہو۔
خدا کے خوف سے ڈر سکینہ!
اب اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں کہ اَن ہوئی بات کو تم میرے سرتھوپ دو، کوئی بیچ میں ہو تو اس کا نام لو، میں اولاد کی قسم دے کر پوچھوں کس کے آگے کہا میں نے بوا کو بُرا بھلا!
سکینہ یوں باتوں میں مت اڑاؤ مجھے، میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے۔
بوا تم نے دھوپ میں سفید کیے ہوں بال یا سایہ میں، مجھے اس سے واسطہ نہیں میں تو یہ کہتی ہوں تم اس بندی کا نام بتاؤ، جس کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ جب جھوٹ سچ کھلے گا، بوا اللہ کرے میں اتنی ہی بڑی مرجاؤں، جو میں نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو۔
کس کس کا نام بتاؤں سکینہ! کوئی ڈھکی چھپی بات ہو تو میں نام بھی بتاؤں کسی کا، بھرے مجمع میں بیٹھ کر تم نے اس دن نیم والے گھر میں مجھے اندھا بنایا، منحوس کہا، آنسو ڈھال کہا، تم نے کہا صبح صبح کوئی اس کی صورت بھی نہ دیکھے، جس دن میں اس کا منھ دیکھ لیتی ہوں شام تک چین نہیں ملتا۔
توبہ کرو بوا توبہ! دیکھو ایسا طوفان مٹ اٹھاؤ۔ اللہ، کیسے بہتان باندھ رہی ہو، خدا جانے آسمان کس کے بھاگوں کھڑا ہے۔
اچھا قسم کھاؤ، تم نے نہیں کہا۔
بوا تمہارے سر کی قسم، اپنے بچہ کی سوں، جو میں نے تمہارا نام بھی لیا ہو، پڑے خاک جھوٹ بولنے والے کی صورت پے، بچہ سے زیادہ دنیا میں مجھے اور کیا ہے؟ ہاں اتنی بات تو ہوئی تھی، بوا، دیکھو میں سچی سچی بتاؤں تمیں کہ بلو دھوبن کا ذکر آگیا تھا، تو میں یوں بولی کہ آپ تو اُسے سوجھتا بھی نہیں اور منھ پے تو چھبروں نور برستا ہے جس دن سویرے ہی سویرے صورت دکھائی جاتی ہے، روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور کچھ نہیں تو کتا ہی ہنڈیا میں منھ ڈال جاتا ہے۔ بوا لو یہ بات تو ضرور میں نے کہی تھی، تمہارا تو نام بھی نہیں لیا۔ نہ معلوم بڑھاپے میں تمہاری عقل چرنے چلی گئی ہے کیا، پہلے بات کا انجام سوچ لیا کرو پھر منھ سے کچھ نکالا کرو۔ وہ تو اچھا ہوا میں چلی آئی اس وقت، نہیں تو تہارے دل میں یہ غبار بھرا ہی رہتا۔
سکینہ اللہ تیرا کلیجہ ٹھنڈا رکھے، بچی! لے میری کیا خطا ہے، مجھ سے تو جیسا کسی نے کہہ دیا، میں نے یقین کرلیا، میں آپ تو کچھ سننے گئی نہیں تھی، مجھے کیا خبر کہ بلو دھوبن کا قصہ تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ تو مجھی کو کہہ رہی ہوگی، سکینہ میرا دل تو اندر سے گواہی دے رہاتھا کہ زمین آسمان ٹل جائے اپنی جگہ سے، مگر سکینہ میرے لیے ایسے بول منھ سے نہیں نکال سکتی، اور انہیں باتوں کی بدولت تو رات دن تیرے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میرے بدن کے روئیں روئیں سے!
مگر بوا اتنے کچے کان بھی کس کام کے۔ آج تو یہ ہوا کل کو اور کچھ کہہ دیا کسی نے تم سے، تو میں کیا بگاڑ لوں گی، اس کا یا تمہارا۔
یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے سکینہ! ایسی میں پاگل سڑی تھوڑا ہی ہوں جو ہر کسی کے کہنے سے یقین کرلوں گی، اب لے اتنی بات تو کہنے والے نے بھی جھوٹی نہیں کہی، کسی کا ذکر تو تھا، تم خود ہی کہتی ہو۔ بلو دھوبن کو کہہ رہی تھیں، ہاں اتنی بات اور بڑھ گئی کہ اس کی جگہ میرا نام لے دیا۔
یہی تو کرتوت ہیں بوا دشمنوں کے، میں تمہاری ہی جان کی قسم کھاکر کہتی ہوں بلو دھوبن کو کہہ رہی تھی، تمہیں کیا معلوم نہیں اس کی صورت دیکھ لو صبح صبح تو روٹی نہیں ملتی سارے دن، بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بھائی خدا کی قسم! میں نے تو جس روز اس مردار کی صورت دیکھی مجھے سورج ڈوبنے تک چین نصیب ہوا نہیں۔
کیا کہہ رہی ہو سیدانی، بلو دھوبن کا دم نہ ہوتا تو جھینک جھینک کر مرجاتیں تم۔ یہ میں ہی تھی کہ جب ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر پڑی تھیں تم اور کوئی پانی پلانے والا بھی پاس نہ تھا تو اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر تمہاری پٹی نیچے آبیٹھی تھی۔ پیر میں نے دبائے تمہارے، منھ ہاتھ میں نے دھلوایا۔ روٹی میں نے پکاکے کھلائی سارے کنبہ کو، اور آج تم کہتی ہو بلو منحوس ہے، اس کی صورت دیکھنے سے روٹی نہیں ملتی، وہ دن بھول گئیں کیا جب بلو کے سوا تمہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے نیکی کر اور کنویں میں ڈال۔
سکینہ بلو کو دیکھتے ہی چونک گئی۔ اس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی بوند نہیں۔ اسے سان و گمان بھی نہ تھا کہ بلو دیوار کے نیچے کھڑی سب کچھ سن رہی ہے۔ وہ بہت ہی گھبرائی، بلو نے سارا قصہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا۔ اب اس کی تردید ہی کیا ہوسکتی تھی۔ بوا کو تو اس نے سمجھا کر ٹھنڈا کردیا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نیک دل بیوی تھیں، مگر بلو باہر پھرنے والی بے باک عورت، اس کی زبان کسی کے سامنے رکنے والی ہی نہ تھی، مگر سکینہ نے ہمت کرکے کہا۔
بلو کیوں آپے سے باہر ہوئی جارہی ہے۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بوا کو نہ معلوم کیا ہوگیا تھا، ایک دم سے مجھ پر برس ہی تو پڑیں۔ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو میں نے تیرا نام لے دیا تھا۔ تیرے بچہ کی قسم کوئی اور بات تھوڑا ہی تھی، پوچھ لے بوا سے میں نے کوئی گالی دی ہو تجھے تو!
گالی تم کیا دیتیں سیدانی، میں تو اچھے اچھوں کی نہیں سنتی، تم تو بیچاری ہو کس شمار قطار میں۔ اور گالی دینے میں تم نے کیا کسر رکھی ہے، منحوس تم نے کہا، اندھا تم نے کہا، اور کیا رہ گیا بھلاکہنے کو، سیدانی مجھے تمہارے یہ گن معلوم نہ تھے، نہیں تو کبھی تھوکتی بھی نہیں تمہارے گھر آکے اور اب دیکھو آگے کو۔
بلو معلوم ہوتا ہے تو بھی بھنگ پی کے آئی ہے، میں نے تو گھر بسی منحوس اور اندھا نہیں کہا تجھے، پوچھ لے بوا سے!
آنکھوں میں انگلیاں مت کرو سیدانی، میں بہری تو ہوں نہیں، اللہ رکھے میرے کان ابھی سلامت ہیں۔ میں یہیں بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو اینٹ مار کے یہیں سے سرپھوڑ دیتی۔ اللہ کی سوں! وہ تو نہ معلوم کس بات کا خیال آگیا، اور بوا سے کیا پوچھوں، یہ تو تم سب کی کہی بدی ہے۔ تم سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ پھر بوا کاہے کو کہیں گی؟
بلو دیکھ میں اور قسم کی عورت ہوں، سکینہ ہی سے منھ ملائے جا، میرا نام لیا تو ٹھیک نہیں۔
کس قسم کی عورت ہو بوا۔ میرا بھلا کیا کرلوگی، جیسا کہوگی، ویسا سنوگی، میں کب تمہاری دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں جو دبوں گی۔
دبے گی کیسے نہیں۔۔۔ کمینوں کو منھ لگانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ سکینہ دیکھو ہماری برابر بیٹھتے بیٹھتے آج بلو کا یہ حوصلہ ہوگیا کہ وہ کہتی ہے جیسا کہوگی ویسا سنوگی، بلو اچھی طرح سن لے کان کھول کر میں تیری برابری کی نہیں ہوں۔
زمین پے پاؤں رکھ کے چلو بوا زمین پے!
اب کیا تیرے سر پے رکھ کے چل رہی ہوں۔
میرے سر پے تم کیا پیر رکھوگی بیچاری، چرخہ کاتتے کاتتے تمہاری عمر گزر گئی، ایک دن چرخہ پونی لے کے نہ بیٹھو تو اگلے دن کھانے کو روٹی نہ ملے۔ تم میرے سر پے کیا پاؤں رکھوگی؟
بلو دیکھ منھ میں لگام دے، چڑیل کہیں کی آئی وہاں سے باتیں بنانے ایران توران کی۔
بوا عمر کا خیال کرتی ہوں، سفید بالوں سے اللہ میاں کو بھی شرم آتی ہے، نہیں تو وہ بے نقطہ سناتی کہ سرپیٹ لیتیں تم اپنا۔
کھڑی تو رہ مردار۔۔۔ پیڑھی سر پے دے ماروں گی۔
میں چونڈا اکھاڑلوں گی، پیڑھی مارنے والی کا۔
بک بک کیے جارہی ہے۔ چپ نہیں ہوتی کمینی۔
تم ہزار دفعہ کمینی!
سکینہ سن رہی ہو، اس دھوبن کی باتیں تم۔
ہاں بوا سن تو رہی ہوں مگر کیا کروں کچھ بس نہیں چلتا۔
وہ کیا سنے گی، ابھی تو مجھے اس کے دانے دیکھنے ہیں تم تو ویسے ہی بیچ میں ٹانگ اڑابیٹھیں، جھگڑا تو سیدانی سے ہو رہا تھا۔
میرے کیا دانے دیکھے گی تو چڑیل؟
سیدانی زبان سنبھالو، نہیں تو منھ نوچ لوں گی، بالوں میں آگ لگادوں گی۔
میں تیری چٹیا مونڈ لوں گی!
میں تیرے لالوں کاخون پی لوں گی!
ارے تیرے منھ میں لگے آگ، خون پی اپنے پیاروں کا۔
سیدانی اللہ کرے تو مجھ سی ہی ہوجا!
خدا نہ کرے مجھے تجھ سا۔
تیرے مریں بچے سیدانی! مجھے منحوس کہنے والی۔
بلو دیکھ زبان قابو میں رکھ، کیسا منھ بھر بھر کے کوس رہی ہے، نمک حرام۔
تیرے مریں لال۔
بلو خدا کے لیے۔
تیرا لٹے سہاگ۔
تیرا مرے خصم۔
تیرا نکلے جنازہ۔
بلو، تیرے پھوٹیں دیدے۔
تیرے منھ میں نکلے کالا دانہ۔
بوا خدا کے لیے اس کی جیب کترلو!
سیدانی تو اتنی ہی بڑی مرجائے، اللہ کرے تجھے شام ہونی نصیب نہ ہو۔۔۔ اور بوا رذالی کون ہوتی ہے جیب کترنے والی۔
بلو میں پہلے کہہ چکی ہوں میرے منھ مت لگ تو۔
تو میرا کیا بگاڑلے گی؟
میں تیرا کلیجہ نکال لوں گی۔
میں تیرے منھ پے خاک ڈال دوں گی!
نکل چڑیل میرے گھر سے!
بوا دیکھو مجھے ہاتھ لگایا تو جان کی خیر نہیں، میں تو مرنے ہی کو پھر رہی ہوں، کل کی مرتی آج مرجاؤں۔ مجھے پروا نہیں۔ مگر تم کھینچی کھینچی پھروگی زمانے بھرمیں۔
بوا اور بلو کو الجھا کر، سکینہ دبے پاؤں کوٹھے سے اتر آئی اور جلدی سے کواڑوں کی زنجیر لگادی۔ تھوڑی دیر تو بلو بوا کو کوستی کاٹتی رہی، وہ بھی برابر جواب دیتی رہیں۔ اتنے میں دن چھپ گیااور بوا نماز کو کھڑی ہوگئیں، بلو نے فرصت پاکر اوپر دیکھا تو سکینہ غائب! اس نے غصہ میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنے ہاتھ کو کھڑا کرکے زور سے مارا اور دانت کچکچاکے بولی، تیرے کھاؤں قتلے! تو آگ لگاکر چل دی چترا کہیں کی۔ مجھے بوا سے لڑادیا اور آپ کھسک گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.