اودھ کی ادبی فضا (غدر سے پہلے)
مشرق کی شاہی اورجاگیردارانہ تہذیب کی آخری بہار نے اپنی ایک جھلک اس اودھ میں دکھلائی جس پر غدرسے پہلے ایک ایرانی خاندان نے سو سال سے کچھ زیادہ دنوں تک حکومت کی۔ تاریخی حیثیت سے عروج وزوال کی یہ ایک ایسی مخلوط داستان ہے جس میں ’’شمشیر وکتاب‘‘ اور ’’طاؤس ورباب‘‘ کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنا مشکل ہے۔
مغل حکومت کے عہد زوال میں ہندوستان کے مختلف حصوں میں کئی نیم آزاد مملکتیں وجود میں آئیں اور کچھ دنوں تک مرکز سے برائے نام وابستہ رہنے کے بعد خودمختار ہوگئیں۔ انہیں میں سے ایک اودھ بھی ہے۔ اس کا وجود اس زمانہ میں ہوا جب ہندوستان اپنی صنعت و حرفت کی بربادی اورطاقت و قوت کے خاتمے کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے پسپا ہورہا تھا۔ اودھ نے بھی انہیں مجبوروں، کمزوریوں اور پسپائیوں کی گود میں جنم لیا۔ اس لئے جو تہذب وہاں رونما ہوئی اس میں وہ قوت اور زندگی کی وہ تڑپ کم ہے جو ایک ابھرتے ہوئے نئے معاشی نظام کا خاصہ ہے۔ اس میں رنگینی، بناوٹ، ظاہرداری زیادہ ہے۔ دیرپائی اور استقلال کم۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اودھ نے ہندوستان کی عام تہذیبی زندگی میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ برج کی ویشنوی تہذیب کی طرح ایودھیا کی رام بھگتی اور پریم مارگی تہذیب کی بھی ایک لمبی کہانی ہے اور اودھی زبان اور بیان کی وہ شیرینی اور گھلاوٹ جو تلسی داس اور جائسی کے کلام میں ظاہر ہوئی تھی، کسی طرح نظر انداز کئے جانے کی چیز نہیں ہے۔ ظاہری حیثیت سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا لیکن اودھ میں نوابی قائم ہوتے ہی پھر زندہ ہو گیا۔ جیسے سوئی ہوئی ہوائیں جاگ اٹھیں۔ چمن پھر کھل اٹھا، نشہ پھر چھا گیا اور علم و فن کے چراغ پھر جگمگانے لگے۔
ہوا یہ کہ جب دہلی دربار کی رونق پھیکی پڑی اور اودھ میں نئی حکومت قائم ہوئی تو ہر طرح کے فنکار، ادیب، شاعر اور صناع ادھر متوجہ ہوئے۔ اودھ کے نواب ایرانی مزاج رکھتے تھے جو علم و ہنر اور رنگینی و عیش پسندی کا شیدائی ہوتا ہے۔ ابھی ان کے قدم اچھی طرح جمے بھی نہ تھے کہ انہوں نے اپنے گرد و پیش رنگ و نکہت کے سامان فراہم کرنے شروع کئے۔ ابھی دارالسلطنت فیض آباد ہ میں تھا کہ شجاع الدولہ کے شاعروں کو بلانا شروع کر دیا تاکہ فیض آباد کا دربار بھی شیراز و اصفہان کا ہم پلہ بن جائے اور دہلی کی رونق اودھ کے حصے میں آ جائے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ شجاع الدولہ نے مرزا محمد رفیع سوداؔ کو ’’برادر من، مشفق مہربان من‘‘ لکھ کر دہلی سے بلا بھیجا لیکن اس وقت سوداؔ کی دہلی میں اچھی گزر رہی تھی اور وہ آنے پر رضامند نہیں ہوئے بلکہ جواب میں یہ رباعی بھیج کر خوبصورتی کے ساتھ معذرت کر لی،
سود اؔ پئے دنیا تو بہر سو کب تک
آوارہ ازیں کوچہ بہ آں کو کب تک
حاصل یہی اس سے نہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک
دہلی کے پہلے اہم اور مشہور شاعر جو شجاع الدولہ کے دربار میں حاضر ہوئے، وہ اشرف علی خاں فغاںؔ ہیں جو احمدشاہ بادشاہ کے کوکہ تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ دربارداری کی بڑی خوبیاں، بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور ظرافت بھی ان کے حصے میں آئی تھیں۔ چانچہ شجاع الدولہ کے مصاحبوں میں شامل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ دل لگی ہی دل لگی میں نواب نے فغاںؔ کا ہاتھ جلا دیا اور یہ ناخوش ہوکر عظیم آباد چلے گئے۔ جہاں راجہ شتاب رائے شعرا کی قدر انی کر رہے تھے۔
ان کے علاوہ دہلی کے مشہور شاعر میر ضاحکؔ مع اپنے فرزند میر حسنؔ کے وہیں آ گئے لیکن اس وقت تک کسی تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ فیض آباد میں مشاعروں اور ادبی مجلسوں کا کیا رنگ تھا۔ حکومت کی بساط ابھی اچھی طرح جمی نہیں تھی۔ شجاع الدولہ بکسر کی لڑائی میں ہار کر انگریزوں سے ایک دوستانہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ روہیلوں اور مرہٹوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ بڑے پیمانے پر شعروسخن کا بازار گرم نہ ہوا ہو لیکن اس کا اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ ایک نیا مرکز قائم ہو رہا تھا جو شاعروں اور فنکاروں کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا اور ان کی سرپرستی اور قدردانی کرنے والے بھی موجود تھے۔
شجاع الدولہ کا انتقال ہوا تو آصف الدولہ نے اپنا دارالحکومت فیض آباد سے لکھنؤ منتقل کر دیا اور اسے آراستہ کرنا شروع کر دیا۔ لکھنؤ کا نام آتے ہی بغداد اور قاہرہ کا خیال آتا ہے جو الف لیلیٰ کی کہانیوں میں رنگ و بو کے پر اسرار جزیرے بن کر سامنے آتے ہیں۔ شیراز و صفاہان کی جانب ذہن منتقل ہوتا ہے جن کے گلی کوچوں میں شعروسخن اور علم و فن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ کے نام کے ساتھ نہ جانے کتنی رنگینیاں، کتنے نشاط آور خواب، کتنے نازک خیالات وابستہ ہیں۔ ان رنگینیوں اور رونقوں میں ایک نئی حکومت کا جاہ و جلال، شان وشکوہ، امارت وثروت سرپرستی اور داد وہش بھی شامل ہے، میلے ٹھیلے کی رونقیں بھی ہیں۔ رہس اور لیلا کے جمگھٹے بھی، شعر وسخن کی مجلسیں بھی ہیں۔ علوم کے مرکزوں کی سنجیدگی بھی ہے اور اداروں کی دھوم دھام بھی۔
اگر عید اور محرم میں سارا شہر خوشی اور غم کا مرقع بن جاتا ہے تو ہولی اور بسنت میں رنگ و بو کا دیار نظر آنے لگتا ہے۔ ایک ترشے ہوئے ہیرے کی طرح اس کے بہت سے پہلو ہیں اور ہر پہلو دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ آصف الدولہ کا لکھنؤ تقریباً یکایک ایک جزیرے کی طرح اس طوفانی دور حیات میں ابھرتا ہے اور اپنے دامن میں وہ رونق سمیٹ لیتا ہے جو کسی تہذیب کے نمایاں پہلوؤں کا آئینہ بن جاتی ہے۔ سیاسی حیثیت سے اسے نہ تو ترقی کا زمانہ کہہ سکتے ہیں نہ سکوں کا لیکن بڑی زبردست مادی قیمت ادا کرکے آصف الدولہ نے ایک طرح کا فریب سکون خرید لیا تھا اور مستقبل سے بے نیاز ہوکر دولت کے غیر معمولی صرف سے لکھنؤ کو جنت بنانے میں لگ گئے تھے۔ اس جنت میں بہت کچھ تھا جس کی جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کی سب سے سچی تصویر لکھنؤ کی زندگی کے کئی گوشوں میں، وضع قطع میں، آداب و رسوم میں، طرز معاشرت میں اور سب سے بڑھ کر یہاں کے ادب میں نظر آتی ہے۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ جب دہلی کے شعراء اور علماء کا رواں در کارواں یہاں آرہے تھے، اس وقت یہاں شعروسخن کے جلسوں اور ادبی محلفوں کی کیا شکل تھی لیکن جیسے ہی لکھنؤ کا ذکر شروع ہوتا ہے، ادبی معرکوں کے فلم نظروں کے سامنے دوڑنے لگتے ہیں۔ تقریباً ۱۷۸۰ء میں فیض آباد کا بڑا حصہ لکھنؤ میں منتقل ہو گیا۔ امراء کے ساتھ علماء، فضلاء اور شعراء بھی آئے اور محفلیں آراستہ ہونے لگیں۔ پانچ سال بعد وہی سوداؔ جنہوں نے شجاع الدولہ کے بلانے پر دہلی چھوڑنے سے انکار کیا تھا، لکھنؤ پہنچ گئے۔
پھر سوداؔ آئے اور آصف الدولہ کے استاد بن گئے۔ آصف الدولہ خود اردو کے بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کا مکمل دیوان موجود ہے اور مطالعہ کرنے والوں کو ایک اچھے شاعر سے روشناس کراتا ہے۔ وہ خود مشاعرے کرتے تھے اور دوسروں کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ خاص خاص مشاعروں کا ذکر میرؔ کے نکات الشعرا اور مصحفیؔ کے تذکرۂ ہ ہندی میں، تذکرۂ خوش معرکہ زیبا میں اور تذکرۂ میر حسن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب نواب کو خود شعروسخن سے اتنی دلچسپی تھی، امراء باذوق تھے، شعراء کی قدردانی ہوتی تھی تو پھر ادبی محفلوں کی رونق کیا حال رہا ہوگا۔
شعراء کی قدردانی کے سلسلے میں مرزا فاخرؔ اور مرزا سوداؔ کا وہ معرکہ بھی یاد آتا ہے جب مرزا فاخرؔ نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق ادبی بحث میں سوداؔ سے شکست کھاکر اپنے شاگردوں کو ابھار دیا اور سوداؔ کو بڑی بے عزتی کے ساتھ لئے ہوئے چوک میں سے گزرے۔ آصف الدولہ کے بھائی سعادت علی خاں جو بعد میں نواب ہوئے، اتفاقاً ادھر سے گزرے اور سوداؔ کو اس مصیبت میں دیکھ کر ٹھہر گئے۔ فتنہ کرنے والے بھاگے اور سعادت علی خاں نے سوداؔ کو اپنے ہاتھی پر بٹھا لیا۔ بڑے احترام سے آصف الدولہ کے پاس لائے اور سارا ماجرا سنا دیا۔ آصف الدولہ نے غیر معمولی عزت و احترام سے انہیں دربار میں جگہ دی۔ یہ واقعہ آب حیات میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور پتہ دیتا ہے کہ اس عہد میں شاعروں کی قدر کس طرح ہوتی تھی۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس زمانے میں ادبی محفلوں کی سب سے اہم شکل یہی مشاعرے تھے۔ کبھی کبھی یہی مشاعرے بحث و مباحثہ کا میدان بھی بن جاتے تھے۔ حریفوں میں وہیں نوک جھونک بھی ہو جاتی تھی، ایک دوسرے کی غلطیاں بھی نکالی جاتی تھیں اور بات مشاعرے سے نکل کر کتابوں اور رسالوں کا موضوع بنتی تھی یا باقاعدہ جھگڑوں کی جڑ بن جاتی تھی۔ ادبی محفلیں امراء کے درباروں اور مشاعروں کے گھروں پر جمتی تھیں، جہاں ادبی قصے چکائے جاتے تھے اور شاگردوں کے کلام پر اصلاح کے سلسلہ میں فن کی گتھیاں سلجھائی جاتی تھیں۔ گویا ادبی جلسوں میں نوعیت مختلف تھی۔ یہاں تک کہ مشاعروں کی شکل بھی آج کل کے مشاعروں سے جدا تھی۔
آصف الدولہ کا آخری زمانہ تھا کہ میر تقی میرؔ بھی زمانے کے ستائے ہوئے دہلی سے لکھنؤ آئے۔ دہلی کی بساط الٹ رہی تھی۔ لکھنؤ میں کھیل کی نئی بازیاں جم رہی تھیں۔ شعر و شاعری، مشاعرے، تفریحیں، جینے کا ولولہ اور لطف زندگی کی امنگ کا اظہار تھا۔ میرؔ اپنی قدیم وضع قطع میں لکھنؤ پہنچے اور بقول شمس العلماء مولانا آزاد پہلی ہی رات مشاعرے میں گئے تو انہیں دیکھ کر لوگ ہنس پڑے۔ وطن پوچھنے پر انہوں نے مشاعرے ہی میں اپنا وہ مشہور قطعہ پڑھا جوان کے کلیات میں تو نہیں ملتا لیکن دلوں کی لوح پر نقش ہے۔
کیا بود و باش پوچھو ہو، پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
آصف الدولہ کو معلوم ہوا تو عزت سے بلاکر اپنے پہلو میں جگہ دی اور وظیفہ مقرر کر دیا۔ معمولی سی بات پر آصف الدولہ سے ناراض ہو گئے اور دربار جانا چھوڑ دیا۔ ایسے باوضع، نازک مزاج اور غیور شاعروں کا مشاعروں میں شریک ہونا لوگوں کو اپنے اشعار سنانا اور شعر و شاعری کے متعلق رائے دینا، کس طرح ہوتا ہوگا، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن یہ ذوق لوگوں کے مذاق میں ایسا رچ بس گیا تھا کہ وہ شعراء کی نازبرداریاں کرتے تھے اور ان کے ایک ایک لفظ کو سرمہ کی طرح آنکھوں سے لگاتے تھے۔ اس عہد کے مشاعروں کی مکمل رودادیں نہیں ملتیں۔ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشاعروں میں فلاں فلاں شاعر شریک ہوئے اور فلاں فلاں اشعار پر تنقیدیں ہوئیں لیکن انہیں ادھورے واقعات سے شعراء کی آپس کی گفتگو اور ردوکد سے اس فضا کی تصویر نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے۔
ایک شخص میرؔ سے پوچھتا ہے، اس وقت ہندوستان میں شاعر کون کون ہیں۔۔۔؟ فرمایا ایک تو سوداؔ، دوسرے یہ خاکسار، کچھ تامل کرکے کہا، آدھے خواجہ میر دردؔ، پوچھنے والے نے کہا اور میر سوزؔ؟ چیں بجبیں ہوکر جواب دیا، کیا میر سوزؔ بھی شاعر ہیں؟ خیر ایسا ہے تو پونے تین سہی۔ بادی النظر میں یہ محض یک لطیفہ ہے۔ ممکن ہے صحیح ہو، ممکن ہے نہ ہو لیکن شعر وسخن کی اس گرم بازاری میں یہ باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور درپردہ بہت کچھ کہہ جاتی ہیں۔
سعادت علی خاں کا زمانہ آیا تو مصحفیؔ، جرأتؔ اور انشاءؔ کے معرکے گرم ہوئے۔ سوداؔ اور میرؔ کی بھاری بھرکم شخصیت بردباری اور بڑاپن دیکھنے والوں نے وہ ہنگامے بھی دیکھے جن میں شعراء نیچی سطح پرا تر آئے تھے اور مشاعرے ہجوؤں، تعریفوں اور متانت سے گری ہوئی شوخ نگاریوں کے اکھاڑے بن گئے تھے۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زبان کی ترقی، رنگین نگاری اور ادبی تنوع کے لحاظ سے اس دور میں بھی بڑا کام ہوا۔
دہلی سے آئے ہوئے شہزادہ مرزا سلیمان شکوہ کا دربار ایک طرف اور خود نواب اودھ اور ان کے امراء کے دربار دوسری طرف، بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی عبارت ہے بے فکری، دربارداری اور شعر وسخن کی گرم بازاری سے۔ اس دور کے شعراء اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ آب حیات کے صفحات پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی دلچسپیوں کے باوجود اوپری طبقے کے باہر شعر وادب کی جگہ نہیں تھی لیکن یہ درست نہیں۔ ایک بات اور قابل ذکر ہے۔ اس وقت جو مذہبی مجلسیں خاص کر محرم کے دنوں میں برپا ہوتی تھیں ان کی حیثیت بھی ایک رخ سے ادبی ہوتی تھی۔ میاں دلگیرؔ، فصیحؔ، ضمیرؔ، خلیقؔ اور پھر ان کے فوراً بعد مرزا دبیرؔ اور میر انیسؔ جہاں ایک طرف مذہبی جذبات کو آسودگی بخشتے تھے وہاں دوسری طرف ادبی ذوق کو بھی سیر و سیراب کرتے تھے۔ گویا شعروشاعری کے مذاق نے اپنا شوق پورا کرنے کے لئے بہت سی راہیں نکال لی تھیں۔
جہاں تک شعر و ادب کا تعلق ہے، ہر ملک اور ہر زمانہ میں آپس کے معرکوں اور باہم چشمکوں کی وجہ سے رونق بازار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مصفحیؔ، انشاءؔ اور جرأتؔ کی ہنگامہ خیزیوں کو اچھی طرح زوال بھی نصیب نہیں ہوا تھا کہ ناسخؔ اور آتشؔ نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس وقت جتنے سربرآوردہ لوگ تھے، بافراغت زندگی بسرکرنے کی حیثیت رکھتے تھے، مشاعرے کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ انیسویں صدی کے بیچ میں پہنچتے پہنچتے لکھنؤ کے درودیوار سے شعر و سخن کی آوازیں بلند ہونے لگی تھیں، دوکانوں پر بیٹھنے والے، راہ چلنے والے مختلف پیشوں میں لگے ہوئے لوگ شعر فہمی اور سخن سنجی کے راز سے آشنا ہو گئے تھے۔ وہ ادب بولتے تھے اور شاعری میں باتیں کرتے تھے، محاوروں کو باموقع استعمال کرتے اور روزمرہ کو نکھارتے تھے، الفاظ اور محاوروں کی سندیں لینے کے لئے اشعار سننے اور شاگردی اختیار کرنے کے لئے شعراء کے دروں پر جمع ہوتے تھے۔
مشاعروں میں اب بھی چوٹیں چلتی تھیں۔ اشعار کے صحیح غلط ہونے پر بحثیں ہوتی تھیں، لیکن اب شائستگی نے دلوں میں گھر کر لیا تھا اور یہ بحثیں جلوسوں اور باراتوں کی شکلیں نہیں اختیار کرتی تھیں، امراء کی رقابتیں اور برتری کی خواہشیں بھی ان ہنگاموں کو ہوا دیتی تھیں۔ آتشؔ اور ناسخؔ کے شاگرد ایک دوسرے کو بڑھانے کوشش کرتے اور امراء ان کے پشت پناہ ہوتے تھے۔ شاعروں کی رودادیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے ورنہ آپ دیکھتے کہ کس طرح باتوں ہی باتوں میں ادب کے نکتے مل جاتے تھے اور نقدونظر کے اصول بنتے تھے۔
غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدر کا زمانہ غیر معمولی چہل پہل کا زمانہ تھا اور رنگ رلیوں کی کوئی حد نہ تھی لیکن ادبی زندگی کا کارواں آگے ہی بڑھتا جا رہا تھا۔ اس لکھنؤ کی ایک جھلک سرورؔ کے فسانۂ عجائب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اودھ کے آخری بادشاہ اور نواب سلطان عالم واجد علی شاہ کا زمانہ آتے آتے تو بہت سی ان قدروں کی تکمیل ہو گئی تھی جن کی ابتدا اس سلطنت کی بنیاد پڑتے ہی ہوئی تھی۔ اگر آصف الدولہ نے ہولی کے جلسوں میں شریک ہوکر اور بسنت کے موقع پر بسنتی لباس پہن کر، امیروں اور نوابوں نے مقامی میلوں میں شریک ہوکر، شعر و نغمہ کی سرپرستی کرکے، اپنی وسیع النظر کا ثبوت دیا تھا تو حکومت کا آخری زمانہ آتے آتے ہندو مسلم تصورات کے میل سے اندرسبھا کا وجود ہوا جس کا راجہ اندر مغل یا ایرانی شاہزادہ معلوم ہوتا ہے۔
رہس اور لیلا کی نئے سرے سے ترتیب ہو رہی ہے اور ہندوستانی رقص و موسیقی کو اس بلندی پر پہنچایا جا رہا ہے، جس کا تصور بھی اس عہد زوال میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مذہبی اتحاد کی بنیاد پر اس تہذیب کا ارتقاء بڑامعنی خیز ہے۔ اس کی تکمیل میں جو عناصر بھی کام کر رہے ہوں، سب سے زیادہ جس چیز نے حصہ لیا وہ زبان و ادب کی محبت تھی جس میں سب برابر کے شریک تھے۔ اب مشاعرے محض ادبی جلسے نہ تھے بلکہ تہذیبی مرقعے بن گئے تھے جہاں آنے جانے، اٹھنے بیٹھنے، باتیں کرنے داد دینے کے آداب تھے۔ حسن بیان، صحت الفاظ، لب و لہجہ کی قدروقیمت تھی اور ان کو کمال تک پہنچانے میں نواب واجد علی شاہ سے لے کر اس ادنیٰ فقیر تک کا ہاتھ تھا جو سڑکوں پر اؔزادانہ صدائیں لگاتا پھرتا تھا لیکن یہ سب نتیجہ تھا یہاں کے مشاعروں اور ادبی صحبتوں کا جن کی کثرت ہر شخص کو اس کا موقع دیتی تھی کہ وہ اپنے حوصلے کے مطابق اپنی ادبی اور ذوقی پیاس بجھائے۔
ادب کی تاریخ میں کوئی دوسرا شہر اس فیاضی کے ساتھ شعر وسخن کی دولت لٹاتا نظر نہیں آتا، گویا یہ دولت ایک زوال پذیر تمدن کی پیدا کردہ تھی، بہت سے سکے کھوٹے تھے اور بہت سے رنگ اڑ جانے والے تھے لیکن اس کا تعلق ان حالات سے ہے جنہیں تاریخ نے جنم دیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.