عظیم بیگ چغتائی
میں چغتائی کو دفن کرنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تعریف کرنے۔ مجھے تو اس میں بڑا شک ہے کہ چغتائی کو کبھی دفن بھی کیا جاسکتا ہے۔ گو یہ قول ذرا دلیرانہ ہے مگر یہ ایک کم دلیرانہ اور زیادہ بنیادی قول کانتیجہ ہے۔ اور وہ زیادہ بنیادی قول یہ ہے، کیا کسی مزاح نگار کو (مہربانی فرماکر یاد رکھیے کہ میں یہاں اس جنس کی ان قسموں کا ذکر نہیں کر رہاہوں جن کے نحیف جسم پہلی سردی بھی برداشت نہیں کرسکتے) دفن کرنا ممکن بھی ہے؟ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں بھاری بھرکم اور گمبھیر روحوں کی عظمت و رفعت اور جاہ و جلال سے بے خبر ہوں یا جان بوجھ کر تغافل برت رہا ہوں۔ میں تو جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو بالکل دبے پاؤں چلتاہواآکر آپ سے بھی پیچھے کی قطار میں سرجھکاکر مؤدب بیٹھ جاتا ہوں اور میں آپ سے یہ بھی نہیں چھپانا چاہتا کہ میرا زیادہ وقت ان ہی دہلیزوں پر گزرتا ہے۔ لیکن میری شرارت مجھے آپ کو ایک گستاخانہ ترغیب دینے پر اکسارہی ہے۔ اگر کبھی نگاہ اٹھانے کا موقع ملے تو یہ اندازہ لگائیے کہ پیر و مرشد اورآپ کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ ان کا تقدس اور رعب آپ کو اپنی جگہ پر ایسا منجمد کردیتا ہے کہ آپ اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے قدموں پر سر رکھ دیں۔ اور ان کی وفات کے بعد؟ اگر وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوئے، تب تو ایک سالانہ عرس ہوجاتا ہے اور ویسے بھی زائر آتے رہتے ہیں۔ لیکن معمولی حالت میں تو بس ایک مجاور رہ جاتا ہے جو ہر جمعرات کو جھاڑو دیدے اور چراغ جلادے۔ اور ہاں، کبھی کبھی دو ایک فاتحہ پڑھنے والے۔ لیکن مزاح نگار کے ساتھ معاملہ دوسرا ہے۔ اس کے مرنے کے کتنے دن بعد تک آپ یہی ذکر کرتے رہتے ہیں کہ وہ یوں بولتا تھا، یوں ہنستا تھا، یوں مذاق کرتا تھا۔ اور کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ذاتِ شریف قبر میں نچلے بیٹھنے والے ہیں؟ جہاں ان کی ہڈیوں کو آرام ملا اور انہوں نے کُنبلانا شروع کیا۔ اور پھر آپ جانتے ہیں کہ مزاح نگار ہاتھ پیر کا کچھ ہیٹا نہیں ہوتا۔ وہ تھوڑے ہی سے ہاتھ پیر چلانے میں صاف قبر کے باہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے تو آپ اسے دیکھ کر گھبرائیں گے، آنکھیں ملیں گے، مگر جب وہ اپنے پرانے انداز میں قہقہے لگاتا ہوا آپ کے گلے میں باہیں ڈال دے گا تو آپ کیسے اس کے زندہ ہونے کا یقین نہ کریں گے۔ اور اگر آپ کا مزاحیہ نگار کچھ کاہل واقع ہوا ہے تو اتنا تو وہ بھی ضرور کرے گا کہ اپنی قبر میں ایک سوراخ کرلے اور اس میں سے سر نکال کر گزرتے ہوئے لوگوں کو پاس بلاکر اپنے پرانے لطیفے یاد دلاتا رہے۔ یہ ہیں، جناب، وہ گڑھے جہاں استعارہ بازی اور ڈرامائیت کا شوق آدمی کو گراتا ہے۔ کہاں تو میں یہ کوشش کر رہا تھا کہ آپ کو بہلاپھسلا کر مزاح نگار کی برتری منوالوں، اورکہاں میں نے آپ کے سامنے Dance Macabre پیش کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ مگر میں آپ کو بھڑکنے نہ دوں گا، میں ابھی اپنی چھڑی گھماتا ہوں اور یہ اندھیرا اور اس میں چمکتے ہوئے ڈھانچے دم کے دم میں غائب ہوئے جاتے ہیں۔
تو، صرف یہی نہیں کہ مزاح نگار کو اس کے مرنے کے بہت دن بعد تک پڑھاجاتا ہو، بلکہ اسے ہمیشہ پڑھا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات آپ کے سنجیدہ لکھنے والے کے متعلق نہیں کہی جاسکتی۔ ہمارے آنسوؤں کے چشمے ہمیشہ سوکھتے رہتے ہیں، اور ہر زمانے کے بعد ہمیں نئے کھودنے پڑتے ہیں، مگر قہقہوں کا دھارا تو اتنا گہرا اور پھیلا ہوا ہے کہ اگر نئے سوتے نہ بھی کھلیں تو بھی پرانے اسے سیراب رکھ سکتے ہیں۔ المیہ کی بنیاد بڑی حدتک ان خوفوں اور امیدوں، ان محبتوں اور نفرتوں، ان خیالوں اور عقیدوں پر ہوتی ہے جو کسی مخصوص زمانے میں رائج ہوتے ہیں۔
مزاح ان عناصر کو لیتا ہے جن میں ایک مخصوص زمانے کے رجحانات و میلانات کے ساتھ ہمیشگی اور استقلال بھی ہوتا ہے، نوے فی صدی آدمیوں کے لیے سوفو کلیز اور یوری پڈیز کے رونے گانے میں کوئی معنی پانا محال ہے، مگر ایرسٹو فینز ننانوے فی صدی لوگوں کے لیے، بشرطیکہ وہ اسے پڑھیں۔ اتنا ہی طرب انگیز ہوگا جتنا کہ برنارڈشا بلکہ شاید زیادہ۔ قہقہہ صرف حالات و واقعات پر ہی انسان کی فتح نہیں ہے، بلکہ زمان و مکان پر بھی۔ یہ ہے وہ روایت کا فرشتہ جو کوسوں اور صدیوں کی طنابیں کھینچ کر انسانوں کو ایک جگہ لابٹھاتا ہے اور یہ انسانوں کے ساتھ مل کر رہ سکنے کا ثبوت دینا نہیں ہے، بلکہ ہم سے ہماری قنوطیت کا امتحان لینا، یہاں ہم مردوں تک کا ساتھ دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ المیہ میں ہمیں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح ایک آدمی کو اکیلے اپنی تقدیر سے نپٹنا (جس کے معنی المیہ میں ہارنا، ہوتے ہیں) پڑتا ہے۔
مزاح ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کس طرح سب آدمی مل کر تقدیر تک کو معطل کرسکتے ہیں۔ مگر یہ ہم اس وقت تک نہیں سیکھ سکتے جب تک کہ ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ مزاح صرف کسی پر ہنسنا نہیں ہے، بلکہ کسی کے ساتھ ہنسنا بھی۔ وہ خیال جو مزاح کی بنیاد محض تذلیل (degradation) پررکھتا ہے خود ایک ذلیل خیال ہے۔
مانا کہ دنیا کے مزاحیہ شاہ پاروں میں بہت بڑاحصہ ایسا ہے جہاں یہ تذلیل ہے جو ہمیں ہنساتی ہے، مگر سب سے بڑے مزاح نویسوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں (بلکہ زیادہ تر ایسے ہیں) جن کی عظمت کااصول اِجلال (glorification) ہے۔ مجھے ہیزلٹ پر رحم آتا ہے کہ اس نے شیکسپیئر کے مزاح کا نقص اس کی نرم دلی میں پایا۔ یہی تو وہ زندگی کی سی وسیع نظر ی، لچک، اور برائیوں اور بیوقوفیوں تک کو اپنانے کی صلاحیت ہے جو مزاح نگاروں کو انسان کے روحانی کلچر اور جہد للبقا کے لیے لازمی بنادیتی ہے۔ ممکن ہے کہ آپ اسے نرگسیت (narcissism) یا بواریت (bovarysm) کا نام دیں، لیکن اگر انسان کو کرۂ ارض پر زندہ رہنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ اسے انسانیت اور زندگی کی لامحدود نیکی، اچھائی اور خوبصورتی کایقین دلایاجائے، اسے بتایا جائے کہ جینا صرف ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ بہت پرلطف چیز ہے۔ یہ ہے وہ جلیل القدر کام جو آپ کے مزاح نگار انجام دیتے ہیں، اور اس معاملے میں مزاح نگار المیہ نگار سے کہیں زیادہ جری ہوتا ہے۔ المیہ نگار کہتا ہے کہ وہ اپنی مایوسیوں، دکھوں، اور ناکامیوں کے باوجود انسان کتنا بڑا ہے، مزاح نگار کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ اپنی بے عقلیوں اور حماقتوں میں بھی انسان کتنا بڑا ہے، بوڑھے فلسفی Santayana کی آنکھوں نے یہی کچھ دیکھا تھا۔ جب ساٹھ سال کی عمر میں اس نے اپنی دانست میں ڈکنس کو پہلی مرتبہ دریافت کیا اور کہہ اٹھا۔ ’’مجھے تعجب ہے کہ دنیا اب تک ڈکنس سے غافل رہی، یہاں ہے سچائی اور حسن‘‘ ۔ جی ہاں، سچائی اور حسن، وہ دو لفظ جن کی کیٹس پرستش کرتا تھا، اور جنہیں ہم مزاح نگاروں سے کوسوں دور کی بات سمجھتے رہے ہیں۔
آپ کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے کہ اب اگلے سانس میں میں چغتائی کو ڈکنس کے برابر اور دنیا کے سب سے بڑے مزاح نگاروں میں سے ایک بتاؤں گا۔ مگر یقین رکھیے کہ میرے تھیلے میں سے ایسا کوئی سانپ نہیں نکلنے والا ہے جسے دیکھ کر آدمی بادشاہ بن جاتا ہو پھر بھی میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ چغتائی میں دوایک خصوصیتیں ایسی تھیں (خواہ انہیں تھوڑا تھوڑا سا حصہ ہی کیوں نہ ملا ہو) جو ایک ڈکنس، ایک چوسرؔ کی ترکیب کا لازمی جز ہیں اور جو بہت کم مزاح نگارو ں کو حاصل ہوں، ہنسا سکنے کے لیے اپنے کرداروں کو زدوکوب کرنے لگنا ایک ایسا آسان اور دلچسپ چٹکلہ ہے جس کی ترغیب سے اپنے آپ کو بچالے جانا بڑے دل والے آدمی کاکام ہے۔ ایسا مزاح نگار جو اپنے کرداروں کے ساتھ دوستوں کا سا برتاؤ کرسکے، ان پر بھی ہنس سکے اور ان کے ساتھ بھی، انسان کی بڑی سے بڑی غلطیوں اور حماقتوں کو نہ صرف معاف کرسکے بلکہ ان سے لطف لینے کی صلاحیت رکھتا ہو جو ہر قسم کی تنگ دلی اور ’’زاہدیت‘‘ (Puritanism) سے خالی ہو، جو زندگی کو جینے کے قابل سمجھے اور ان لوگوں پر جو زندگی کوایک مزیدار چیز سمجھتے ہیں معلم اخلاق کی نگاہِ کرم ڈالنے کے بجائے انہیں ساتھیوں کی طرح بڑھاوا دے سکے جس کے لیے زندگی ایک لڑائی کے میدان کے بجائے کھیل کا میدان ہو جہاں ہار کو بھی دلچسپ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا مزاح نگار آپ کو ہر صبح نہیں مل سکتا۔
اردو میں مزاح نگاروں کی ان دو بڑی قسموں کے بہترین نمائندے سجاد حسین اور رتن ناتھ سرشارؔ ہیں۔ سجاد حسین کو کہیں میں نے اپنے بچپن میں پڑھا تھا اور اب تک آتے آتے ان کی ’’حاجی بغول‘‘ صرف ایک ایسی کتاب کی حیثیت سے میری یاد میں باقی رہ گئی جس نے مجھے کافی ہنسایا تھا۔ اس دوران میں مجھے کئی ایسے مضمون دیکھنے کااتفاق ہوا جن میں سجاد حسین کو مزاح نگار کی حیثیت سے سرشار سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور ان سے متاثر ہوکر میرا دماغ بھی ایک مبہم اور دور درازطریقہ سے اس بات کا قائل ہوگیا۔ اسی خیال نے مجھے سجاد حسین کو زیادہ قریب سے جاننے پر کسایا۔ لیکن اس دوبارہ پڑھنے کا نتیجہ بڑا افسوس ناک نکلا۔
سجاد حسین کے شائقین سے معافی مانگتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کسی اردو مصنف نے مجھے اتنا بیزار نہیں کیا جتنا سجاد حسین نے۔ ان کے یہاں چست فقرے بھی ہیں، مضحکہ خیز واقعات بھی، کردارنگاری بھی اور کیا کچھ نہیں، مگر ایک ایسی چیز ہے جس کا ایک سانس بھی ان کی ’’حاجی بغول‘‘ میں نہیں مل سکتا، اور وہ ہے نیک دلی۔ انسان کی مختلف قسموں اور اس کی رنگارنگیوں کو قبول کرسکنے کی طاقت ان میں بالکل نہ تھی۔ مجھے تو ’حاجی بغول‘ پر ہنسی سے زیادہ رحم آتا ہے۔ حاجی جی کا کردار جس طرح سے کھینچا گیا ہے اس سے تو کچھ یہ معلوم ہوتا ہے جیسے ان سے سجاد حسین کی ذاتی عداوت ہواور انہیں زک دینے کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہو۔
سجادؔ حسین کا سلوک حاجی بغول سے بالکل ایسا ہے جیسا بچے ایک مجرم کتے سے کرتے ہیں۔ جب کوئی سڑکوں پر مارا مارا پھرنے والا کتا گھر میں دیگچی چاٹتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو بچے اس کی ٹانگ میں رسی باندھ کر چھوڑ دیتے ہیں، اور جب وہ کافی دور پہنچ جاتا ہے تو رسی کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ بچارا کتا گھسٹتا گھسٹاتا، راستہ کے کنکروں سے زخمی ہوتا ہوا واپس آجاتا ہے۔ چھڑی سے کونچ کونچ کر اسے پھر بھگایا جاتا ہے اور دوبارہ کھینچ لیا جاتا ہے، اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ بے دم نہ ہوجائے۔ بالکل یہی سجاد حسین حاجی بغول کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور پھر اس شخص کو امید تھی کہ ہم داد دیں گے! واقعی! بچوں کی اس حرکت میں تو خیر ایک بہت بڑا عنصر کھیل کا بھی ہوتا ہے مگر سجادؔ حسین میں تو ایک قسم کا کینہ غالب نظر آتا ہے۔ اگر آپ اتنا سخت فیصلہ مناسب نہ سمجھیں تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ سجاد حسین کی طبیعت میں ایک شدید اذیت پرستی (Sadism) تھی۔
سجاد حسین کے مقابل لائن کے بالکل دوسرے سرے پر سرشارؔ ہیں۔ اگر مجھے کسی مصنف کو دوبارہ زندہ دیکھنے کی تمنا ہے تو سرشارؔ کو۔ ان کے ذہن کی تیزی اور چستی کے باوجود میں سجاد حسین کو دو گھنٹے سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتا اور سرشارؔ کے کبھی کبھی کے بھاری پن کے باوجود ان کے ساتھ عمریں گزار سکتا ہوں۔ یہ ہے اردو میں وہ اکیلا آدمی جس کے دل کے دروازے دنیا کے ہر انسان کے لیے کھلے ہوئے ہیں، جو اتنا نیک دل ہے کہ اپنے بدمعاشوں کو بھی پوری طرح کالا نہ کرسکا، جو اتنا رجائی ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کو چین سے گھومنے پھرنے اور کھیلنے کودنے کے لیے چارموٹی موٹی جلدوں کی وسعتیں دے دیں اور باتیں تو الگ رہیں ۔ سجاد حسینؔ اور سرشارؔ کے دلوں کی چھوٹائی بڑائی کا اندازہ محض ان کی کتابوں کی ضخامت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔
کینہ، خواہ اسے کتناہی پھیلا جائے ڈیڑھ سو دو سوصفحے سے آگے نہیں جاسکتا۔ ہمدردانہ ہنسی کا کبھی خاتمہ نہیں ہوتا۔ آپ نے اچھا کیا کہ مجھے جلد ہی یاد دلادیا کہ مجھے دراصل چغتائیؔ کے متعلق باتیں کرنا ہیں ورنہ مجھے سرشارؔ کا موضوع اتنا عزیز ہے کہ میں ’’فسانۂ آزاد‘‘ کی یادیں تازہ کراتا کراتا آپ کو تھکادیتا۔ لیکن سرشارؔ کا ذکر بھی اس سلسلے میں تھوڑے سے معنی ضرور رکھتا ہے۔ اگر ہم اردو کے مزاح نگاروں کو دوسلسلوں میں بانٹنا چاہیں تو ہمیں چغتائی کے متعلق فیصلہ کرنے میں کچھ دیر نہ لگے گی۔ گو چغتائیؔ ان وسعتوں اور گہرائیوں سے محروم رہے ہوں جو سرشارؔ کے حصے میں آئی تھیں مگر ان میں بھی انسان کو بلاپس و پیش قبول کرلینے کی صلاحیت اور زندگی سے خود لطف اٹھانے اور دوسروں کو اس پر آمادہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ وہ بھی اپنے آپ کو زندگی اور اس کی دلچسپیوں میں ہمہ تن بھول سکتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مجھے چغتائیؔ کو قریب سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن میں نے ان کے بارے میں ایک آدھ بات ضرور سنی ہے۔ جب میں نے چغتائیؔ کے افسانے پہلی بار پڑھے ہیں تو میں چھٹی کلاس میں تھا۔ اور ان افسانوں نے میرے دل میں اس شخص کو دیکھنے کی خواہش پیدا کردی تھی جس نے ٹکٹ چیکر کی قینچی اڑادی تھی، بلی پر روشنائی سے کولتار، لکھ دیا تھا اور فیرنی کی طشتریوں پر بھی۔
اسی زمانے میں مجھے اپنے ایک بھائی سے ملنے کا اتفاق ہوا جو چغتائی کو جانتے تھے اور جن کے ہاں وہ ایک آدھ دفعہ آبھی چکے تھے۔ گو انہوں نے میری پیاس اچھی طرح تو نہ بجھائی مگر یہ جان لینا بھی کچھ کم تسلی کا باعث نہ تھا کہ چغتائی کے پتلون میں سلوٹیں ہوتی ہیں، وہ پان کھائے رہتے ہیں، اور ان کی ترکی ٹوپی پیچھے کو ڈھلکی رہتی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ خوشی مجھے یہ سن کر ہوئی کہ چغتائی ’’نرے چغد‘‘ ہیں۔ کیونکہ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر وہ ’’چغد‘‘ ہیں تب تو مجھ سے بھی بول لیں گے۔ ایک چھٹی کلاس کے لڑکے سے بھی۔ میرے بھائی نے یہ بھی بتایا کہ چغتائیؔ اپنے افسانوں کے بہت سے پروف ان کے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں نے ان سے پکا وعدہ لے لیا کہ وہ جاتے ہی وہ پروف مجھے بھیج دیں گے۔ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے زندہ ہے کہ میں چار بجے ہی سے بیتاب ہونا شروع کردیتا تھا۔ اور روز شام کو ڈاک دیکھنے جاتا تھا۔ اور جب میں ڈاک خانے سے خالی ہاتھ واپس لوٹتا تھا تو میرے مایوس اور جھنجھلائے ہوئے خوابوں میں چغتائی کے افسانوں کا پلندہ ان جاڑوں کی شاموں کے دھندلکے کی طرح روزبروز پھولتا چلا جاتا تھا۔
مجھے یقین ہے کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ اس زمانے کا ہر لڑکا چغتائی کے افسانے لینے کے لیے اسی بے تابی سے ڈاک خانے جاتے اور لڑکیاں تو اب بھی، اگر انہیں اجازت دے دی جائے، جانے کے لیے تیار ہوجائیں گی۔ لیکن آج کل کی لڑکیاں کسی مرد کو ان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے میں ان کی طرف سے کوئی بات کہنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مگر یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ سب سے پہلے لڑکیاں چغتائیؔ کی زبان سے بولیں۔ یوں ہونے کو تو راشد الخیری نے بھی ضمیر واحد متکلم میں عورتوں کے متعلق قصے لکھے ہیں، لیکن درحقیقت وہ تو عورتوں کے حق میں ایک غم خوار مرد کی اپیل ہیں۔ مگر چغتائی نے اپنے زمانے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی نیم شعوری اور دبی ہوئی آرزوئیں کو گویائی بخشی، اور انہیں ان خواہشات اور مطالبات کے جائز اور برحق ہونے کایقین دلایا۔ چغتائی صرف مقبول او رہردلعزیز ہوکر نہیں رہ گیا۔ اپنے زمانے کے جوان ہوتے ہوئے لڑکوں اور خصوصاً لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی ذہنی اور جذباتی تعمیر میں اس کا ایک خاموش او رچھپا ہوا حصہ ہے جو اتنا گہرا ہے کہ پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔ میں نئی نسل سے اس حدتک واقف نہیں ہوں کہ ان کے متعلق کوئی بات وثوق سے کہہ سکوں۔ مگر میرا خیال ہے کہ لڑکوں پر تو اب ان کا جادو کچھ کمزور پڑگیا ہے، تاہم لڑکیوں کے دل و دماغ پر ’’کولتار‘‘ اور ’’انگوٹھی کی مصیبت‘‘ اسی طرح حکمران ہیں۔
جہاں تک میرا تعلق ہے آپ مجھ سے قسم لے سکتے ہیں کہ میں نے کسی بھاگتی ہوئی لڑکی کو گلاب جامن کھلانے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کسی خوبصورت لڑکی سے میرا سیاہ سوٹ کیس بدل جائے۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد معلوم کرنا مشکل ہے جو سوراخ میں سے حلوہ کھلانے کے لیے کسی کو ڈھونڈتے پھرے ہوں یا بھتیجے بن بن کر ریل کی کھڑکی کے پاس پہنچتے رہے ہوں۔ لیکن مجھے ان سب سے ہمدردی ہے جن پر چغتائیؔ کے شاگردوں نے تتیوں کے چھتے والا تجربہ آزمایا ہو۔ اور توند والوں کو تو واقعی چغتائیؔ کاشکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی تاریکیوں میں انہوں نے امید کی ایسی چلبلی کرن دکھادی۔
چغتائیؔ ایک تاریخی ضرورت تھا، خواہ اس تاریخی ضرورت کی اہمیت اور زمانۂ حیات کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔ عالمگیر زندگی کی انگڑائیوں نے اس مخصوص ذہنیت کو زیادہ دن تک چلنے نہ دیا، اور نہ وہ اس قابل ہی تھی کہ اسے زیادہ دن تک جاری رکھا جائے، مگر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ کم سے کم ایک نوجوان نسل کی ذہنیت، ان کا کردار اور زندگی کے متعلق نقطۂ نظر چغتائیؔ سے کافی حدتک اور کافی دنوں کے لیے اثر پذیر ہوا۔ اور یہ ایسی کامیابی ہے جسے حاصل کرلینے کا دعویٰ ہرمصنف نہیں کرسکتا۔ اس نے نہ صرف اپنے زمانے کے نوجوانوں کی بہت سی خام خیالیوں کو جو انہیں ورثے میں ملی تھیں۔ دور کیا، بلکہ خود ان کے سامنے جذباتی زندگی کے آدرشی نقوش (patterns) پیش کیے۔ یہ نقوش محدود اور نامکمل سہی، ان میں زندگی سے وسیع تر تجربہ کے لیے ایک جھجک اور خوف بھی پوشیدہ سہی، مگر اس زمانے میں جذباتی اور جنسیاتی برتاؤ کے متعلق جو رویہ اور نقطۂ نظر رائج تھا اس کے پیش نظر چغتائی کے نقوش کہیں زیادہ صحت مندانہ اور عقلیت آمیز ہیں۔
چغتائی سے پہلے لڑکیوں کو نصیحت کے کرن پھول تو بہت پہنائے گئے تھے مگر یہ معلوم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی تھی کہ خود انہیں کون سے زیور پسند ہیں۔ اول تو عورتوں کے متعلق لکھنے والوں کامرکز بیاہی یا بیوہ عورتوں کے خانگی اور معاشرتی مسائل تھے۔ اگر لڑکیاں کبھی زیر بحث آتی بھی تھیں تو بس اس سلسلے میں کہ ان کی تربیت کن طریقوں پر کی جائے کہ ان کی اچھی جگہ شادی ہوسکے اور وہ سسرال میں آرام سے بسر کرسکیں۔ اس بات کا احساس بھی غیر ضروری سمجھا گیا تھا کہ لڑکیوں کے کچھ انفرادی، جذباتی اور جنسی آرزوئیں اور مسئلے بھی ہوسکتے ہیں بلکہ ان میں جنس اور جذبات کی موجودگی کا خیال تک ایک گھناؤنا اور ناپاک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ذی ہوش اور محتاط لکھنے ولوں کی طرف سے ان معاملات میں رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے لڑکیوں کی جذباتی زندگی کی تربیت پورے طور سے شرر کے ہاتھوں میں آگئی تھی یا ان چار آنے کے سنسنی پیدا کرنے والوں کے ہاتھ میں جن کی گل کاریوں سے وہ تخلیے میں محظوظ ہوتی تھیں اور جنہیں وہ کسی کے سامنے آتے ہی تکیہ کے غلاف میں چھپادیتی تھیں۔ یہ ناول ان میں ایک چھوٹا اور قبل از وقت اشتعال پیدا کردیتے تھے جس کا وہ بیچاریاں صحیح طور پر تجزیہ بھی نہ کرسکتی تھیں۔ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکتی تھیں کہ ان بے چینیوں کا ماخذ اور ان کی تسکین کا ذریعہ کیاہے۔ عشق اور محبت جیسے سستے الفاظ بس ان کے دماغ کو ایک مہلک مگر رنگین دھندلکے میں ڈبو دیتے تھے جس سے وہ باہر نکل سکتی تھیں۔ یہی نیم ہوشیاں تھیں جو ان میں سے بعض کو بے راہ روی پر مائل کردیتی تھیں۔ ورنہ یہ نتیجہ تو ہمیشہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے اندر سمٹ جائیں، اور افسردہ خاطر، تخیل پرست اور خلوت پسند بن جائیں۔
یہ چغتائیؔ تھا جس نے سب سے پہلے لڑکیوں کی نیم شعوری چلبلیوں کو محسوس کیا، اور ان کے اظہار کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن سمجھا۔ چغتائیؔ کے نسائی کردار حقیقت کے مطابق ہوتے ہوئے بھی آدرشی ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کی شکل میں اس ذہنیت اور طرزِعمل کے مثالی نمونے پیش کرتا ہے جس کی وہ زیادہ سے زیادہ تقلید ہوتی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ جیسا میں پہلے کہہ چکا ہوں چغتائی نے ایک طرف تو سماج کی ناجائز پابندیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور دوسری طرف لڑکیوں کے سامنے ان کی فطری اور انجانی خواہشات کے اظہار کا ایسا نقشۂ عمل پیش کیا جو بیک وقت سکون دینے والا بھی ہے اور بے ضرر اور صحت ور بھی۔ چغتائی کی لڑکیوں کی معصوم شرارتوں کی ابتدا کسی شعوری طور پر جنسی یا جذباتی کشش سے نہیں ہوتی۔ وہ خود بھی آخرتک نہیں جانتیں کہ ان کی اچھل کود کی تہ میں کون سے محرکات کارفرما ہیں۔ چغتائی کی کتابوں کو پڑھنے یا ان پر عمل کرنے کا نتیجہ خواہشات وغیرہ معتدل طور پر بڑھ جانا نہیں ہوتا بلکہ فطری طور پر بتدریج نشو و نما پانا، جہاں وہ اپنی پڑھنے والیوں کو دماغی طور پر ایک مناسب حدتک صحت ور جنسی کھیل (sex-play) میں حصہ لینے کا موقع بہم پہنچاتا ہے، وہاں ان کی خواہشات کے زائد حصے کو sublimation بھی دیتا ہے، وہ لڑکیوں کو بیمارانہ حد تک جذباتی اور غم پسند نہیں بناتا، اس کے بجائے وہ تو ان کے دماغ سے ان چکٹی ہوئی آلائشوں کو خارج کرتا ہے، ان کی تسکین فرحت سے کرتاہے، اورانہیں تخلیہ سے نکل کر سماج کا ایک مفید اور بہتر رکن بننا سکھاتا ہے۔ اگر کسی مصنف نے ہماری نئی نسلوں کی لڑائیوں کو نمناک جذباتیت سے بچایا اور انہیں صحیح اور تندرست تفریح کی طرف مائل کیا تو وہ چغتائی ہے۔
اپنی نسل کے نوجوان لڑکوں کی ذہنی تہذیب اور اپنے زمانے کے ادبی رجحانات کی اصلاح میں بھی چغتائی کا کام کچھ معمولی نہیں ہے۔ چغتائی ان چند مصنفوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اردو کو موہوم روحانیت کے گڑھوں سے نکال کر حقیقت پسندی کے راستے پر ڈالا۔ جس زمانہ میں چغتائی نے لکھنا شروع کیا اردو ادب کے نوے فی صدی حصے پرایک پلپلاپن چھایا ہوا تھا۔ میرے خیال میں اگر اس زمانے کے لکھنے والوں کو ایک نام دینا ہو تو ان کا بہترین لقب ’’صحرائی دوشیزہ اسکول‘‘ (مہربانی فرماکر یہ دونوں فارسی کے لفظ یوں ہی رہنے دیجیے) ہوگا۔
اس دودھ کے جھاگ والے کلچر کی بہترین آئینہ دار وہ تصویریں ہیں جو اس زمانہ میں رسالہ ’’نیرنگِ خیال‘‘ میں نکلا کرتی تھیں۔ ’’ورٹریت‘‘ (Wertherism) کے کم سے کم ایک لجبجی سی ہڈی تو ہوتی ہے، مگر یہاں تو نری گلگلی گنڈار تھی، خواہ وہ سبز رنگ ہی کی ہو۔ یہ ان ہی لوگوں کی کرم فرمائیوں کانتیجہ ہے کہ اردو میں ’’رومانیت ایک چھچھورا لفظ بن کر رہ گیا ہے۔ اس زمانے کے بیشتر تخلیقات (نظم اور نثر دونوں) میں ایک ہیجڑاپن اور جنسی ناقابلیت پائی جاتی ہے۔ نہ تو وہ گہری روحانی محبت کے لائق تھے، اور نہ شدید جنسی جذبہ ان کے بس کا تھا۔ ان کا سارا ’’تم پر مرنے‘‘ کا رونا گانا محض ایک خودفریبی تھی، اور زبردستی ’’پانچویں سواروں‘‘ میں گنے جانے کی خواہش۔ ان کی فارسی ترکیبوں کے باوجود ان کی ساری گوالنیں، مالنیں، اور پھول والیاں جھرجھرے کاغذ پر بنی ہوئی تصویریں تھیں جو تیلیو ں کے سہارے بھی کھڑی نہ ہو سکتی تھیں، اور جن کا رنگ کہیں سے بہہ کر پھیکا پڑ گیا تھا، اور کہیں ایسا تھا جیسے ٹرنک رنگنے کے برش سے چہرے پر سرخی لگائی ہو۔ گو اپنی دانست میں وہ محبت کے متعلق لکھتے تھے، مگر ان کا معیار محض ایک مجہول، مضمحل، سستی، سڑسڑاتی ہوئی، مجبوری کی افلاطونیت تھی۔ اپنے جذبات اور موضوعات کو ’’نفیس‘‘ بنانے کی کوششوں میں ان کا سارا زور، شدت اور زندگی کھودیتے تھے۔ ان کی ساری گرم جوشی دیگچی کے اندر بھاپ کی کھدبداہٹ تھی۔ ڈھکنا اٹھا دیجیے، سب غائب، ان کے نگارشات کی روح کے ساتھ ساتھ اس کے ملبوس کا بھی یہی حال تھا۔ انہیں ادب سے زیادہ ’ادبیت‘ مرغوب تھی، ادب میں خصوصاً نثر میں جملوں کی لمبائی چھوٹائی، بناوٹ اور ترکیب، فقروں کی نشست، اور الفاظ کی اشاراتی قابلیت (Suggestibility) فضا اور تاکید اوران کا لب و لہجہ ایسی چیزیں ہیں جو خاص اہمیت رکھتی ہیں، مگر یہی وہ چیزیں ہیں جنہیں اردو نثر اس زمانے میں کھوکے دے رہی تھی۔ ان لوگوں کے الفاظ کی تاکید، فضا، لب و لہجہ، ان کے جملوں کی ساخت، کوئی چیز فطری اور زندگی سے لی ہوئی نہ تھی، بلکہ خود ساختہ اور مصنوعی۔ ایک طرف تو نیاز فتحپوری کے نقال تھے جن کے اکڑے اور تنے ہوئے جملے زندگی کے پیچ و خم سے ہم آہنگ رہ سکنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اور اردو نثر کا گلا گھونٹے دے رہے تھے۔ دوسری طرف وہ تھے جن کی آواز میں ایک نمائشی زنانہ پن، پستی اور بند کو ٹھویوں کا سا اضمحلال تھا۔ کسی قوی اور جاندار موضوع کو سہارنے کی تاب عام اردو نثرمیں باقی نہ رہی تھی۔ اردو نثر کی تجدید اور اسے دوبارہ زندہ کرنے میں چغتائی کا ایک خاص حصہ ہے، جو اس وجہ سے اور بھی اہم ہے کہ ہم اسے عموماً محسوس نہیں کرتے۔
چغتائی ’ادبیت‘ سے طاعون کی طرح بھاگتا تھا۔ اسے زندگی کو سجانے اور اس کے چہرے کی آرائش و زیبائش کی ضرورت نہ تھی، وہ زندگی کو اپنی سادگی اورعریانی ہی میں کافی دلچسپ پاتا تھا۔ وہ ادب پیدا کرنے کے لیے زندگی سے ایک تنگ نظرانہ انتخاب نہ کرتاتھا، اس کے نزدیک روزمرہ کی زندگی کے واقعات اور بات چیت بجائے خود ادب تھے۔ اس نے زندگی کاایک واقعہ لے کر اسے ’ادبی‘ فقروں اور لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ روزانہ زندگی کے جملوں کی بناوٹ اور الفاظ کے لب و لہجے اور فضا کو بلند کرکے ادب کا درجہ دیا۔
انہوں نے خود بتایا کہ ’’بعض مواقع پر لکھنے سے قبل خود بول کر اور جواب لے کر دیکھ لیا ہے کہ ایسے موقع پر کیا لفظ میرے منہ سے نکلے، نکل سکنے کا سوال نہیں، واقعی کیا نکلے اور نکلا کرتے ہیں۔‘‘ چغتائی ان لکھنے والوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو نثر کو ایک معین اور زندہ لہجہ اور جملے کو ایک جاندار ساخت عطا کی ہے اور یہ کوئی چھوٹی چیز نہیں، جملوں اور لفظوں کی بناوٹ اورلہجہ ان آلات میں سے ہیں جن کی مدد سے ہم شعور اور حقیقت کے موہوم اور پھسل جانے والے ذرّوں کو مقید کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ موجودہ افسانہ نگاروں میں چغتائی کا مقرر کیا ہوا لب و لہجہ اور تاکید نہ پائی جاتی ہو مگر اپنا اپنا لہجہ ڈھونڈنے میں چغتائی نے ان کی تھوڑی بہت رہنمائی ضرور کی ہے۔ کم سے کم مجھے تو اعتراف ہے کہ اپنے افسانوں کی نثر کے آہنگ (rhythms) پالنے میں مجھے چغتائی سے کئی مفید اشارے ملے ہیں، اور چاہے میرے آہنگ ان سے کتنے ہی مختلف ہوں، مگر ان کے طرز کی لاشعوری یادیں برابر مجھے راستہ دکھاتی رہی ہیں۔ اور عصمت چغتائی کی نثر تو خیر ان کے بھائی کے اسلوب کا نشوونما ہے ہی۔
اپنے افسانوں کی روح کے لحاظ سے بھی چغتائی اپنے دور کی ادبی شاہ راہ سے ہٹ کر الگ راستہ بناتا ہے۔ ایسی بیمارانہ جذباتیت کے زمانے میں چغتائی یقیناً ایک صحت کانشان ہے۔ اس کی سب سے روشن جھلک تو اس رائے میں ملتی ہے جو چغتائی کی اپنے اور اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں تھی۔ اس زمانے کے ادیبوں کی طرح چغتائی کو اپنی ادبی تخلیق کے گرد تقدس اورالوہیت کا ہالہ دیکھنے کی خواہش نہ تھی، او رنہ وہ اسے کوئی پراسرار اور عام لوگوں کی سمجھ سے بلند چیز سمجھتا تھا۔ ان کے نزدیک کامیاب افسانے لکھنا کوئی نادر، ممتاز اور ان سے مخصوص فعل نہ تھا۔ میں نے تو سنا ہے کہ وہ ہر شخص کو یہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ افسانے لکھا کرو۔
جب کہ ہر شخص غیرمعمولی بننا چاہتا تھا، چغتائی کا مطمح نظر عامیت تھی۔ وہ اپنے تخلیقی کام کے متعلق قطعی شور و غل نہیں مچاتا تھا، بلکہ اسے نہایت ٹھنڈی اور سلجھی ہوئی نظر سے دیکھتا تھا۔ جن لفظوں میں اس نے افسانہ نگاری کا ذکر کی ہے ان سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ کوئی میکانیکی چیز ہے جسے ہر شخص، اگر وہ چاہے، اتنی ہی اچھی طرح کرسکتا ہے۔ چغتائی نے اپنے تخیل کو اتنی کم اہمیت دی ہے جیسے وہ خودداد کے مستحق ہیں ہی نہیں۔ اس زمانے میں نہیں بلکہ آج بھی کسی لکھنے والے کے منہ سے یہ سننا حیرت خیز چیز ہوگی کہ ’’نہ تو میرے اوپر الہامی حالت طاری ہوتی اور نہ دلکش منظر اثر رکھتا ہے۔ اڈیٹر کی رائے کی میں ضرورت سے زیادہ وقعت کرتا ہوں اور ان کے فیصلے کو عموماً اٹل سمجھتا ہوں۔ پڑھے لکھے سورمانقادوں سے زیادہ قابلِ اعتبار اور بھروسے کا نقاد ان کاروباری دوست احباب کو سمجھتا ہوں جن کو میں زبانی قصہ سناؤں اور اس پر وہ تنقید کریں۔‘‘
ہمارے زمانے میں کہ جب ہر شخص سماجی زندگی سے الگ ہوجانے اور اپنی ذاتی دیومالا بنانے پر مجبور ہے، ایسا ذہنی توازن، انکسار اور عام آدمیوں کی عقل پر اعتماد اور اس کی عزت، اپنے انفرادی ذوق پر دوسروں کے فیصلوں کو ترجیح دینا ایسی چیزیں ہیں جن کا دستیاب ہونا محال ہے۔ اپنے آپ کو برا سمجھنے لگنا اور خود سے نفرت کرنا تو آج کل کی اکثر بیمار ذہنیتوں کی خود اذیتی (masochism) کاایک لازمی جزو ہے۔ لیکن چغتائی کی خاکساری ایک نسبتاً زیادہ مطمئن زمانے اور تندرست مزاج کی پیداوار ہے۔ اس کے ساتھ ہی چغتائی ۳۰ء کے قریب کی جذباتی رومانیت اور ہمارے زمانے کی حقیقت نگاری کے بیچ کی ایک اہم سیڑھی ہے۔ اس کی طبیعت کو ان جذباتی بلبلوں سے ذرا بھی لگاؤ نہ تھا۔ اس نے اوروں کی طرح یہ نہیں کیا کہ ایک نظریاتی خاکہ پہلے تیار کرلے اور پھر Procroustese کی طرح انسان کو کھینچ تان کر اس پلنگ پر فٹ کرنے کی کوشش کرے۔ اسے تو انسانی تعلقات اور برتاؤ کے طریقوں کی تلاش تھی، جو روزمرہ کی زندگی میں دیکھے جاتے ہیں۔ نہ اسے حسن و عشق کی ان گرما گرمیوں سے کچھ سروکار تھا جو کمزور طبیعتوں کو ایک مبہم نشاط تو ضرور بہم پہنچا دیتی ہیں مگر جن کا سرور عملی اور سماجی زندگی کے لیے نہایت مہلک ہوتا ہے، بلکہ جنہوں نے ہماری کئی نسلوں کو جذباتی حیثیت سے تھتلا اور ذہنی اور دماغی حیثیت سے بالکل ناکارہ بنارکھا ہے اور جن کااثر ابھی تک پوری طرح زائل نہیں ہوا ہے۔ زندگی جیسے کہ عام آدمی اسے بسر کرتے ہیں، یہ تھا چغتائی کا مطمح نظر، بہتر ہوگا کہ ان کے ادبی اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے الفاظ ہی نقل کردوں، خواہ وہ طویل ہی ہوں۔
وہ لکھتے ہیں، ’’مَیں ممکن الوقوع اور غیرممکن الوقوع واقعات کے چکر ہی میں نہیں پڑتا۔ میرے افسانہ کے واقعات کے لیے شرط ہے کہ ممکن الوقوع ہو یا نہ ہو۔ وقوع پذیر ہوچکا ہو۔ اور اگر نہیں تو میرے لیے چھوڑدینے کے لائق ہے۔ لازمی ہے کہ جو واقعہ میں لکھوں وہ وقوع پذیر ہوچکاہو، یعنی کم از کم مجھے یقین آجائے کہ ایسا ہوا۔ چنانچہ اسی بناپر میرا اصول ہے کہ جو دیکھو وہ لکھو اور جو دکھائی دے وہ لکھو، ورنہ مت لکھو، ہر ایک افسانہ کے بارے میں مجھ سے پوچھ لیجیے ہیرو اور خاص کیریکٹر کون ہیں اور کہاں کا واقعہ ہے۔ لکھتے وقت لیلیٰ و مجنوں اور شیریں و فرہاد کے واقعات پیش نظر رکھتا ہوں تاکہ افسانہ ان سے بچارہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ افسانہ نگاری نہیں میں تو وقائع نگاری کرتاہوں۔ یہ زمانہ گپ شپ اور قصے کہانیوں کا نہیں۔ شاعری کرنا ہے تو افسانوں کو چھوڑیے، نقاشی مت کیجیے بلکہ فوٹو گرافی کیجیے۔ ورنہ آپ کی نقاشی کے ایک سے بڑھ کر نمونے اور بیل بوٹے فوٹو کی ایک کھنڈر کی تصویر پر سے قربان کردیے جائیں گے۔ یورپ کی افسانہ نگاری کا عروح اسی میں ملتا ہے۔ اور اگر آج نئی پود اپنی افسانہ نویسی میں سے گل و بلبل نکال پھینکے اور سیدھے وقائع نگاری پر آجائے تو ناممکن ہے کہ ہم یوروپین افسانہ نگاروں سے نہ بڑھ جائیں۔ میرے افسانوں میں کوئی باغ، مکان یا دکان یا چھت یاجنگل جو بھی ہے وہ خود میری آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔ کوئی شخص خیالی نہیں، افسانوں میں عشق و محبت کی گرمی اور جذبات خود میرے اپنے مشاہدے اور تجربے میں آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ حسن وہ ہے جو میں نے خود دیکھا ہے، اور محبت وہ ہے جو میں خود دیکھی اورسمجھی ہے۔ اور عورت وہ ہے جسے میں نے خود دیکھا اور سمجھاہے۔ ممکن الوقوع باتوں ہی نے افسانہ نویسی کو بگاڑا ہے۔ یہاں تو شرط یہ ہے کہ وقوع پذیر ہوچکا ہو اورمیرے علم میں ہو۔ حتی الوسع قصے کو اپنی مرضی پر نہیں لے جاتا۔ امکانات اور ممکن الوقوع باتوں سے دور اور خائف سا رہتا ہوں۔‘‘
اس زمانے کے حالات کو پس منظر میں رکھ کر غور کرتے وقت یہ ہمیشہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دماغوں پر سے دھوئیں کے بادل ہٹانے میں، ادب کو زندگی کے قریب لانے میں، اسے قوی اور جاندار بنانے میں چغتائی نے اپنا فرض بخوبی انجام دیا لیکن حقیقی ادب کی تنقید میں ایک مقام ایساآتا ہے جب تمام پس منظروں اور ماحولوں کو بھول کر اسے صرف اور محض ادب کی حیثیت سے جانچنا پڑتا ہے۔ جب بانس، بلیوں اور پاڑوں کو ہٹاکر عمارت کی پائداری اور خوبصورتی کااندازہ لگانا پڑتا ہے، چغتائی کو اس نظر سے دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ اس کی حقیقت نگاری کی تعبیر بہت ہلکی اور اس کا ادبی آدرش بہت چھوٹا تھا، اور اسی پر اپنے آپ کو محدود کرلینے سے اس کی نشو و نما رک گئی اور اس کی فطری صلاحیتوں سے آگے کام نہ لیاگیا۔ اس آدرش سے تو، بقول چیسٹرٹن، صرف دودھ پیتے بچے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ اگر چغتائی کے نزدیک یورپ کی افسانہ نگاری کا عروج اسی ’’وقائع نگاری‘‘ اور ’’فوٹو گرافی‘‘ پر مبنی تھا تو، مجھے کہنے کی اجازت دیجیے، ان کا تجزیہ نہایت سستا تھا۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ کوئی بڑا ادیب ’’ممکن الوقوع اور غیرممکن الوقوع‘‘ کے چکر میں نہیں پڑتا، لیکن اس کی معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ جن واقعات اور منفی و روحانی کیفیتوں کے بارے میں لکھے وہ وقوع پذیر ہوچکی ہوں، اس کے سارے باغ، مکان، دکانیں اور جنگل اس کے دیکھے ہوئے ہوں، محبت اور حسن وہ ہو جو اس نے خود دیکھا اور سمجھا ہو۔ چغتائی کا واقعی یہی عقیدہ تھا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
’’شیکسپیئر کے نسوانی جذبات کو افسانے میں پیدا کرنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ اس کے کرداروں میں وقائع نگاری کو دیکھتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہیرو کو خود اس نے دیکھا اور سامنے رکھا ہے۔ میرے دوست، شیکسپیئر کے نسوانی جذبات تمہاری پہنچ سے باہر تھے، یہ منزلیں گڈولنے کے سہارے طے نہیں کی جاتیں۔ شیکسپیئر کے نسوانی جذبات کو، اس کے باغوں، مکانوں اور جنگلوں کو ’’دیکھا‘‘ اور ’’سمجھا‘‘ نہیں جاتا ہے، بلکہ اپنے solar plexus میں، vertebral cortex میں، ٹانگوں میں، بازوؤں میں، انگلیوں میں چڑھتے ہوئے محسوس کیاجاتاہے۔‘‘
بڑا ادیب ’’ممکن الوقوع اور غیرممکن الوقوع‘‘ کے چکر میں اس لیے نہیں پڑتا کہ وہ ہمیشہ ایسے واقعات اور کیفیات و جذبات بیان کرتا ہے جو ہماری زندگی میں بالکل غیرممکن الوقوع ہیں، خواہ ان میں ہماری زندگی کے متعلق حقائق ابلے ہی کیوں نہ پڑ رہے ہوں۔ یہ سمجھنا واقعی مشکل چیز ہے کہ ادب زندگی ہے، مگر یہ سمجھنا اس سے بھی مشکل ہے کہ ادب زندگی نہیں ہے۔ ادب وقوع پذیر ہوچکنے والے واقعات (اس لفظ کو میں وسیع ترین معنوں میں استعمال کر رہا ہوں) کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ممکنات کا سیال (as fluidity of possibilities) زندگی ادب سے کروڑ درجے وسیع چیز ہے، اگر ادیب ’’وقوع پذیری‘‘ کے پھیر میں رہے تو اس کے چھوٹے سے چھوٹے مظہر کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ جو امکانات سے خائف رہتا ہے، وہ اپنی قد کے بڑھنے سے خائف رہتا ہے۔ اور جو حتی الوسع قصے کو اپنی مرضی پر نہیں لے جاتااسے قصہ باندھ کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔
چغتائی کے اس خوف کی تہ میں دراصل متوسط طبقے کا، جس کے وہ بہترین ترجمان تھے۔ نئے تجربات سے ڈر اور جھجک ہے۔ اس کے علاوہ اس میں خود اطمینانی اور اپنے آپ کا اپنے لیے کافی ہونے کا جذبہ بھی شامل ہے۔ چغتائی اور متوسط طبقہ دونوں اپنے تجربات کے باہر جانا نہیں چاہتے اور کائنات سے اس کے سوا کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے، دونوں کے نزدیک جو چیزیں انجانی ہیں ان کا وجود نہیں ہے۔ دونوں ٹھوس چیزوں کے دلدادہ ہیں، اور غیرمرئی تفکر سے گھبراتے ہیں کیونکہ اس میں ممکنات کا سمندر موجود ہے۔ یہ آدرش تو فرانسیسی فطرت نگاروں کے آدرش سے بھی چھوٹا ہے، کیونکہ وہ لوگ کم سے کم یہ تو کہتے تھے کہ ’’جو دیکھیں گے وہ لکھیں گے‘‘ اور چغتائی کا دعویٰ ہے کہ ’’جو دیکھ چکا ہوں وہ لکھتا ہوں‘‘ ۔ اگر چغتائی واقعی اپنے معیار پر پورے ہوتے تو نہ تو مجھے یہ صفحے لکھنے کی زحمت اٹھانی پڑتی اور نہ آپ کے ذہن کو ایک نام کا بوجھ برداشت کرنا پڑتالیکن اگر چغتائی کے بیان کیے ہوئے واقعات اردو ادب میں زندہ رہیں گے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ چغتائی نے خود انہیں دیکھ کر لکھا تھا، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ایک منجمد ذہنیت ہیں۔ وہ واقعات ان کے دیکھے ہوئے سہی، مگر ان کے تخیل نے ان میں ایسے تصرفات کیے ہیں اور ایسی روح بھری ہے ہے کہ ان کی افسانہ نگاری فوٹو گرافی باقی نہیں رہی بلکہ نقاشی بن گئی ہے۔ اور چغتائی کی قدروقیمت کا سارا دارومدار اسی روح پر ہے۔ کتنی ایسی ناخوشگوار چیزیں ہیں جنہیں وہ چھوڑگئے ہیں، اور جنہیں وہ نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اگر ان کے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا، وہ فوٹو گرافر بھی سہی، مگر انہیں اسی قدر ترتیب و تدوین کرنی پڑتی تھی جتنی کہ نقاش کو۔ جو چیز ایک جگہ دیکھی ہو اسے دس ہزار جگہ دکھانا کسی فوٹو گرافر کا کام نہیں ہے۔ بلکہ ایک بڑے خودبین و خود پرست نقاش کا۔ وکیل ہونے کے باوجود وہ اپنے بیان میں ایک منطقی غلطی کر گئے۔ میرا مطلب ہے اس فقرے سے کہ ’’کم از کم مجھے یقین آجائے کہ ایسا ہوا‘‘ میرا خیال ہے کہ انہیں خود پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ گئے۔ تخلیقی عمل اور اس سے لطف اندوز ہونے دونوں کا انحصار بس اسی ’’مجھے یقین آجائے‘‘ پر ہے۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد اس خیال سے کہ کہیں غلط فہمی نہ پیدا ہوجائے میں پھر اعتراف کرتا ہوں کہ اس زمانے میں چغتائی کا معیار یقیناً ترقی پسندانہ اور صحت آور تھا۔ ان کے سامنے تو اَوجی آن اصطبلوں کو صاف کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ ظاہر ہے کہ اپنے زمانے کی حدوں میں مصلحوں سے زیادہ کوئی مقید نہیں ہوتا۔
جیسا میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، نوجوان نسل کی جذباتی رہنمائی میں چغتائی نے ایک صالح قدم اٹھایا۔ اس زمانے کے ادیب اگر عورت اور محبت کے متعلق ایک نفیس سی فارسی ترکیب یا جملہ لکھنے میں کامیاب ہوجاتے تھے تو خیال کرتے تھے کہ انہوں نے عورت کی فطرت اور محبت کی غایت کو پوری طور سے سمجھ لیا ہے۔ ان کے نزدیک محبت کرنے سے زیادہ دلچسپ کام اس کے متعلق ایک خوشگوار فقرہ کہہ دینا تھا۔ چغتائی نے دور سے نظریے اور کلیے قائم کرنے کے بجائے لڑکے اور لڑکیوں کے آپس کے رویے اور تعلقات کو براہِ راست دیکھنے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ عورت، حسن اور محبت صرف وہ نہ ہوں جنہیں چغتائی نے دیکھا اور سمجھا، مگر عورت، حسن اور محبت و قطعاً نہیں ہیں جو اس زمانے کا ادب پیش کرتا تھا۔
چغتائیؔ کو، اپے قول کے مطابق عشاق سے للہی بغض تھا۔ اگر عاشق واقعی اس زمانے جیسے ہوتے ہیں تو ان سے بغض رکھنا اور دوسروں کو ان کے زہر سے بچانا ہر آدمی کا فرض ہے۔ یہی چغتائی نے کیا۔ وہ اس مخصوص جذباتیت سے ہمیشہ کوسوں دور رہا، بلکہ اتنی احتیاط برتی کہ محض عشق کو اپنے افسانوں کی بنیاد نہیں بنایا۔ ایک طرف تو اس نے اپنے زاہدانہ اور ناعاقبت اندیش ماحول کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کومعصوم تفریح حاصل کرنے کی پوری آزادی دی، اور دوسری طرف جنسی بے ضابطگیوں کو ہمیشہ کراہیت آمیز رنگ میں پیش کیا۔ اس نے طبیعتوں میں اس قسم کا اشتعال ہی پیدا نہیں کیا کہ وہ بے اعتدالیوں کی طرف راغب ہوں۔ دراصل ان کے یہاں عشق و محبت بڑی حدتک مفقود ہیں۔ ان کے کرداروں کی چھیڑ چھاڑ روح حیات یا ایک حیاتیاتی اصول کا عمل ہے جو افزائش نسل کے لیے دو مناسب، تندرست اور صالح نامیاتی جسم ڈھونڈتا ہے، اور ان کا باہمی مذاق یہ امتحان لینے کی لاشعوری کوششیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جنسی مناسبت رکھتے بھی ہیں یا نہیں، چونکہ ان کی کوشش نامیاتی اور غیرشعوری ہوتی ہے، اس لیے انہیں شادی کے وقت تک یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس سب کی غرض و غایت کیا ہے یا ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اور شادی کے بعد تو ان کا ملاپ ایک حیاتیاتی ضرورت بن جاتا ہے، اور وہ ایک دوسرے کا ایسا تکملہ ہوجاتے ہیں کہ جدائی گوارا نہیں کرسکتے۔ اب وہ قربت کی لذت اور فرقت کے درد سے واقف ہوجاتے ہیں، اس لیے ان کی خود آگاہی بڑھ جاتی ہے، اور وہ اس تعلق کو استوار اور پائیدار بنانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ اسی کوشش کا نتیجہ وہ محبت آمیز سمجھوتے ہیں جو چغتائی کے افسانوں میں میاں بیوی کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ چغتائی شعوری طور پر اس حیاتیاتی اصول کا عمل نہیں دکھا رہے تھے، اسی وجہ سے انہیں خود بھی شادی سے پہلے والے تعلقات کی صحیح نوعیت کا علم نہیں۔ اپنے کرداروں کی طرح وہ صرف شادی کے بعد والی محبت کا اعتراف کرسکتے ہیں۔ اس حیاتیاتی انتخاب میں کھنڈت ڈالنے والی چیزوں میں سے ایک مہلک خطرہ وہ وقتی ابال ہے جو محض ظاہری شکل و صورت سے پیدا ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات نامیاتی طور سے غیرمتناسب لوگوں کو آپس میں ملادیتا ہے۔ چغتائی نے بھی یہ خطرہ محسوس کیا تھا مگر وہ اس کاصحیح سبب نہ سمجھ سکے تھے۔ تاہم انہوں نے غیرشعوری طور پر ہی اس کا تدارک کردیا تھا۔ ان کے افسانوں میں کشش کا آغاز ہونے کے لیے کسی ’’نور کے پارے‘‘ یا ’’زہرہ جبیں‘‘ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ’’کوئی یوں ہی سا‘‘ ہی کافی ہوتا ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے،
’’لکھنے میں اس کا خیال رکھتا ہوں کہ پڑھنے والا ہیرو یا ہیروئن کی جھلک سے زیادہ نہ دیکھنے پائے۔ لہٰذا صورت اور شکل کی تفصیل نہیں دیتا۔ اپنے افسانوں میں حسن دیکھتا ہوں، دکھاتا نہیں۔‘‘
وہ حسن جو چغتائی اپنے افسانوں میں دیکھتے تھے درحقیقت دو انسانوں کے حیاتیاتی طور پر صحیح میل کے تناسب اور ہم آہنگی کا حسن تھا۔ چغتائی کی افسانوی دنیا کے عفریت وہ لوگ ہیں کہ جو کسی لڑکی کے صحیح مقابل کو ہٹاکر اس کی جگہ لینا چاہتے ہیں، اور اس طرح عمدہ نسل کشی کے کام میں ہارج ہوتے ہیں، یا پھر وہ لوگ کہ جو ایک جوڑے کی خاندانی زندگی میں دخل دے کر اس کی آہنگی میں فرق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ خاندانی زندگی اور شادی کے بعد کی محبت چغتائی کاآدرش ہیں، اور ان چیزوں میں کسی کی مداخلت اسے بہت ناگوار گزرتی ہے۔ یہی دو قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف وہ اپنا طنز سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ اور یہ دکھاتا ہے کہ حیاتیاتی اصول کس طرح ان کی ریشہ دوانیوں پر فتح پاتا ہے۔ اور ان لوگوں کی کوششیں ہمیشہ ناکام ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ میاں بیوی کے تعلقات کا ایک نیا نقش اور عورت کی ایک نئی نفسیات پیش کرتا ہے جو کوکیا پنڈت کی نفسیات سے بالکل مختلف ہے۔ چغتائی ’’وفادار احمد‘‘ کے خان صاحب اور ’’شہزوری‘‘ کے موٹے ڈرائیور جیسے ’’ماہرنسائیات‘‘ خاص طور سے مضحکہ خیز رنگو ں یں پیش کرتا ہے۔ ان ماہران کا خیال ہے کہ منٹوں میں درجنوں بیویاں فراہم ہوتی ہیں، کیونکہ وہ صرف پرانے طرز عمل سے واقف ہیں جہاں خاندانی زندگی کی بنیاد مرد کے تفوق، عورت کی بے بسی، ان دونوں کے آپس کے شکوک و شبہات پر ہوتی تھی۔ مگر چغتائی جن نئے تعلقات کا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے وہاں خانگی زندگی کی بنیاد عورت کی فطرت کے متعلق ایک نئے نظریے، عورت اور مرد کی برابری اور باہمی رفاقت و محبت پر ہے۔ ۳۰ء کے قریب زن مریدی اور خانگی بدگمانی کے متعلق قصوں کا بہت رواج تھا۔ جن میں وہی زنانہ پن اور قوت کی کمی سر سے پیر تک بھری ہوتی تھی۔ چغتائی کے یہاں شاید ہی کوئی زن مرید نکلے۔ لیکن اگر ان کے افسانے میں کسی بیوی کو بدگمانی ہوتی بھی ہے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر اعتماد نہیں رکھتی، بلکہ خاص محبت کی وجہ سے اور درحقیقت شوہر بھی پہلے کے شوہروں کی طرح اپنی بیوی سے بچتا نہیں پھرتا بلکہ اس سے الگ ہوکر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان جو بندھن ہے وہ طبعی اور حیاتیاتی ہے۔ جس کی مقناطیسی قوت ان دونوں نظاموں کو الگ نہیں ہونے دیتی۔ اس عظیم قوت کے سامنے یہ ماہر نسائیات اورغیرمناسب دعوے دار کتنے جھوٹے، بے بس اور مضحکہ خیز نظر آتے ہیں۔ حیاتیاتی انتخاب کی راہ میں بعض اوقات پرانے نظام کی بندشیں، پردہ، ذات پات کی قیدیں، روپیہ یا انفرادی ضدیں حائل ہوتی ہیں۔ مگر چغتائی ان سب کے خلاف جنگ کرتاہے۔ اسے جنسی میل کے پرانے طریقوں سے سخت اختلاف ہے کیونکہ وہ غیرطبعی اور آئندہ نسلوں کے لیے ضرر رساں ہے۔ وہ نوجوان کے طرزِ عمل کو اس پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا شدید حامی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برنارڈؔ شا کی طرح چغتائی کے نزدیک بھی عورت ہی اصل شکاری ہے جو نسل کی حفاظت اور افزائش کی ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں مرد سے خدمت لینے کے لیے اس کا پیچھا کرتی ہے۔ ’’شہزوری‘‘ میں تو یہ شکار اپنے منتہائے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس زمانے کے کسی اور شخص نے یہ قصہ لکھا ہوتاتو وہ ضرور اس عورت سے زہر کھلوادیتا۔ مگر چغتائیؔ عورت اور اس کے حقوق کا حامی ہے اور اسے اتنی قوت کا مالک بھی مانتاہے کہ وہ لڑکر اپنے حقوق لے سکے۔ چغتائی اتنا رجائی ہے کہ صرف یہاں ہی نہیں بلکہ اس کے ہر افسانے میں لڑکے اور لڑکیاں اپنی مشکلات پر قابو پالیتے ہیں او رکامیابی حاصل کرتے ہیں۔ یہ رومانی ناولوں کے خاتموں کا سا سستا پن نہیں ہے، بلکہ یہاں ایک مخصوص اور معین، گو ظاہر میں پراسرار، قوت کی کارفرمائی محسوس ہوتی ہے۔ چغتائی جنس کی فتح دکھاتا ہے، اور اس پر اور اس کے اچھے سماجی حیثیت سے سود مند نتیجوں پر خوش ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ پرانے نظام کا مذاق اراتا ہے، اور اس کے اندر مہمل اور مضحکہ خیز الجھنیں پیدا کرکے اس کی فرسودگی اور ازکار رفتہ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔
لیکن ان ترقی پسندانہ عناصر کی موجودگی کے باوجود چغتائی کااخلاقی معیار قطعاً متوسط درجے والا ہے۔ اس کے نزدیک شادی شدہ زندگی ایک مثالی چیز ہے۔ اسے بعض موقعوں کے اختلافات کے باوجود ایک میاں اور بیوی کی خاندانی زندگی پر پورا اعتقاد ہے۔ وہ ٹالسٹائی اور سموئیل بٹلر کی طرح ازدواجی تعلقات کا تجزیہ نہیں کرتا، بلکہ ان کے گیت گانے شروع کردیتا ہے۔ گو وہ عورت کا حامی تو ہے، مگر پھر بھی ایک شائبہ ساگزرتاہے کہ وہ عورت کو مرد کا ایک ایسا ٹکڑا سمجھتا ہے جس کی زندگی بغیر اس کل (یعنی مرد) کے ناممکن ہے۔ کم سے کم ’’شہزوری‘‘ کی ایک تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے، اور اسی طرح ’’آلو کا بھرتہ‘‘ کی بھی۔ جنس سے تعلق رکھنے والے اکثر معاملات میں چغتائی کی اقدار بالکل بورژوا ہیں۔ وہ کہتا ہے۔
’’معاشرتی افسانہ لکھنے کے لیے اور تحریر میں پاکیزگی کے لیے میری دانست میں افسانہ نویس کا کوئی صحیح مرکزِ عشق و محبت بھی ہونا چاہیے تاکہ اس کی عشقیہ تحریروں میں اور محبت کی داستانوں میں عشق بازاری نظر نہ آئے اور شریف مکانوں میں چکلے کی معاشرت نہ پیدا ہوجائے۔ ایک بدچلن افسانہ نویس جس کے حسن و عشق کا کوئی صحیح مرکز بھی نہیں میری دانست میں جہاں تک افسانہ نگاری اور معاشرتی افسانوں کاتعلق ہے، وہ سوائے بیہودگی کے کچھ نہ لکھ سکے گا۔‘‘
شدید اور گہرے جذبے کو چغتائیؔ بالکل نہیں سمجھ سکتا۔ یہ ذرا آلودہ کردینے والی چیزیں ہیں۔ اس کے افسانوں کے واقعات، احساسات اور جذبات تو ایسے دھوبی کے یہاں ’’دھلے ہوئے اور اجلے ہوتے ہیں جیسے ان کے کرداروں کی شیروانیاں۔ چغتائی کی اخلاقی قدریں اسی قدر روایتی ہیں جتنی رچرڈسن کی۔ دونوں کو شرافت اور سماجی نظام کی حفاظت کاایسا جنون ہے کہ ہر چیز برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ ظاہر بنارہے۔ دونوں کے لیے جنسی بے راہ روی ایک ہوا ہے، اور ان کے نزدیک جنسی تعلقات کا مثالی نمونہ شادی شدہ بستر کی قانونی طور پر جائز ہم آغوشیاں ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسی ویسی بات آن ہی پڑے تو وہ مجبوراً سمجھوتا بھی کرلیتے ہیں۔ اگر خاتمہ اچھا اور شریفانہ ہو تو وہ سب باتوں کو معاف کردیتے ہیں، اور ’’سب بہتری کے لیے ہوتا ہے‘‘ کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں۔ سماجی نظام میں گڑبڑی پیدا نہ ہو، بس یہ ہے ان کا سب سے پہلا خیال۔ یہی ہے وہ مقصد جس کی ضرورتوں سے مجبور ہوکر نفسانیت تک ایک روایتی اور قانونی رسم کی مدد سے پاک اور حلال بن جاتی ہے۔ شادی سارے مسئلوں کاواحد حل ہے۔ چونکہ ’’کمزوری‘‘ کی ہیروئن کو اس اسم اعظم کی مشکل کشائی حاصل نہ ہوسکی، اس لیے اسے پاگل بنادینے کے سوا چغتائی کے لیے اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ لیکن ’’ویمپائر‘‘ میں جو لڑکی ایک خونخوار شہوت پرستی کا شکار بن گئی تھی، شادی کے بعد اس کی عصمت و عفت اسے واپس مل گئی۔ یہ ناول لکھ کر چغتائی نے ایسی مظلوم لڑکیوں کی حمایت نہیں کی، بلکہ ایک طرح سے ان پر ستم ڈھایا۔ اگر اس لڑکی کا شکاری تائب ہوکر اس سے شادی نہ کرتا تو پھر چغتائی کے پاس اس کی مصیبت کا کیا علاج تھا؟ چغتائی نے اپنے ناول کو ایک جھوٹا اور کھوکھلا خاتمہ فراہم کرکے اصلی مسئلے سے پہلو بچانے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ رچرڈسن کے ناول کانام ’’پے میلا یا نیکی کی فتح‘‘ (Pamela of The Triumph of Virtue) کے بجائے ’’مسٹر بی یا بدی کی فتح‘‘ (Mr. B. of the Triumph of Vice) ہونا چاہیے۔ بالکل یہی ’’ویمپائر‘‘ کے متعلق بھی کہاجاسکتا ہے۔
نہ صرف یہ کہ چغتائی کے تخیل میں شادی کے علاوہ جنسی اور جذباتی تعلقات کا اور کوئی حلال طریقہ نہیں تھا۔ بلکہ خود میاں بیوی کے رشتوں میں بھی وہ کوئی گہرائی نہیں پیدا کرسکے، اورخانگی تعلقات کی ایک مخصوص سطحیت سے مطمئن رہے۔ ان کی ذہنی اور جذباتی دلچسپیاں بہت محدود تھیں۔ نہ تو ان میں جمالیاتی ذوق اور احساس کی شدت تھی، اور نہ حسن کی طلب۔ لیکن اس میں تصور ان سے زیادہ اس ماحول اور اس طبقے کا تھا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بلکہ وہ تو مصنوعی اور جھوٹی حسن پرستی اور جذباتیت سے اپنا دامن پاک رکھنے کی وجہ سے داد کے مستحق ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کے جمالیاتی ذوق کو سنوارا نہیں تو کم سے کم بگاڑا بھی نہیں۔ بس یہ کافی ہے کہ وہ اس گدلے دریا میں اپنا سر پانی سے اونچا رکھ سکے اور اس کی رو میں نہیں بہہ گئے۔
اس بات نے اردو تنقید میں ایک ضرب المثل کی سی حیثیت اختیار کرلی ہے کہ چغتائی واقعات سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعات سے صرف واقعات کے لیے دلچسپی رکھنا بھی زندگی کے اشتیاق کا شاہد ہے، مگر صرف اور محض واقعات کے بل پر کوئی لکھنے والا ادب میں زندہ نہیں رہ سکتا، خواہ وہ کہانی کہنے کے فن کاایسا ہی ماہر کیوں نہ ہو جیسے چغتائی۔ واقعات کا افسانے کی اندرونی اور بیرونی دنیا سے ایک مخصوص علاقہ ہوتا ہے، وہ ایک ذہنیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، ان کی ایک علیحدہ فضا اور مطلب و مقصد ہوتا ہے، وہ کسی وسیع تر چیز کی علامت اور نشانی ہوتے ہیں۔ اور ان ہی چیزوں کی مناسبت پر ان کی قدر و قیمت کا انحصار ہوتا ہے۔ چغتائی کے واقعات ہمیں صرف اس وجہ سے نہیں ہنساتے کہ وہ مزے دار ہیں اور مزے دار طریقے سے بیان کیے گئے ہیں، بلکہ ان کی مزاحیت کااصلی راز وہ ماحول ہے جس سے وہ پیدا ہوئے ہیں اور وہ روح اور ذہنیت جو ان میں جھلکتی ہے۔ چغتائی کا مزاح دراصل نوجوان نسل کی کمر تھپکنا اور اسے شاباشی دینا ہے۔ ہمیں ان کے کرداروں سے ایک ایسی ہمدردی ہوجاتی ہے جس کا مطالبہ مزاحیہ کردار عموماً نہیں کرتے۔ ہم ان کی کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں، کیونکہ وہ ایک خشک، تنگ نظر اور زاہدانہ ماحول سے لاابالیانہ جہاد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ چغتائی ہنسی کو ایک سماجی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اور ان فرسودہ قیدوں اور رسموں کو مضحکہ خیز بناتا ہے جن سے سماج کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن چغتائیؔ کے یہاں طنز کا عنصر بہت کم ہے۔ اس کے یہاں ہنسی کا سب سے بڑا سرچشمہ سماج کی قیدوں سے رہائی پانے کی خواہش ہے۔ ایک مخصوص سماج کی مخصوص قیدوں سے۔ اور اس نوجوان نسل کی ساری توجہات اسی پرمرکوز تھیں۔ ۳۰ء کے قریب کا زمانہ مسلمان متوسط طبقے کے لیے نسبتاً خوشحالی اور سکون کا تھا۔ یوں ہونے کو تو ملک میں سول نافرمانیاں، ستیاگرہیں اور ہڑتالیں زور شور سے جاری تھیں۔ مگر مسلمان سیاسی جدوجہد سے بالکل الگ تھلگ تھے، اور ان کی حیثیت صرف ایک بے پروا تماشائی کی رہ گئی تھی۔ حالانکہ اقتصادی کساد بازاری کا طوفان ۳۶ء میں پھٹنے والا تھا، مگر مسلمان نوجوان اس سے قطعی غافل تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اگر ڈپٹی کلکٹری نہ ملی تو ڈیڑھ سو روپے کی کلرکی تو کہیں نہیں گئی۔ چنانچہ وہ اپنے مستقبل کی طرف سے اطمینان اور ’’نے غم دُزدنے غم کالا‘‘ کے احساس میں مگن تھا۔ اس خوداطمینانی اور خودپسندی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا تھا کہ مسلمان متوسط طبقے کی اخلاقی، جذباتی اور ذہنی دلچسپیاں نہایت محدود اور ہلکی پھلکی رہ گئی تھیں۔ اس زمانے کا مسلمان نوجوان یا تو مجہول اور بے گودام ہیت میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ یا پردہ توڑ نا، نکاح بیوگاں، فضول خرچی کی رسموں کا ترک کرنا، اپنی مرضی سے شادی، وغیرہ قسم کی معمولی، گو مفید، اصلاحوں کی حمایت کو اپنی ذہنی رفعتوں کی معراج سمجھتا تھا۔ اور یہ نوجوانوں اپنے آپ کو دکھانے کے لیے بھی بہت بے چین رہتے تھے کہ ’’دیکھو ہم کیسے نفیس لوگ ہیں! ‘’ مگر افسوس ہے کہ ان کے پاس دکھانے کے لیے صرف اجلی اور بے شکن شیروانیاں ہی تھیں۔ چغتائی اسی نسل کا مترجم ہے۔ اس کی اچھائیوں کا بھی اور برائیوں کا بھی۔ وہ ان کی خودبینی اور خودستائشی میں ان کا ممد و معاون ہے، ان کی نئی حاصل کی ہوئی آزادی کا نغمہ خواں ہے، اور پرانی نسل کو مقابلے کے لیے میدان میں لاتا ہی نہیں۔ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چغتائی کی دنیا سے ماں باپ اور دوسرے بزرگ سرے سے غائب ہوگئے ہیں، اور نوجوانوں کو پورا سوراج حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کھیلیں کودیں۔ (کیا میں یہاں چغتائی سے یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ یہ فوٹو گرافی ہے یا مثالیہ نقاشی؟) اور اگر کبھی پرانی نسل والے رخنہ انداز ہوتے بھی ہیں تو ان کی کچھ پیش نہیں جاتی، اور انہیں ہمیشہ نئی نسل کی خواہشوں کے آگے دبنا پڑتا ہے۔
چغتائی کے مزاح کی روح دونسلوں اور دوقسموں کا یہی موازنہ اور تصادم ہے جو سطح کے نیچے ہمیشہ موجود رہتاہے۔ اس نوجوان نسل میں کمزوریاں سہی، مگر اس میں ایک ’’اُچھل‘‘ ضرور تھی، اور چغتائی اس ’’اُچھل‘‘ کابہترین عکاس ہے، بلکہ چغتائی کی ساری فن کاری میں یہی ’’اُچھل‘‘ پوشیدہ ہے۔ اس نسل کا خیال تھا کہ ہم بہت دلچسپ لوگ ہیں۔ اسی چیز نے چغتائی میں اپنے آپ پر اور اپنے افسانوں کی دلچسپی کا یقین بھردیا تھا، اور اسی نے ان سے کہلوایا تھا کہ ’’بھلا ہم کوئی قصہ سنائیں اور لوگ اسے پسند نہ کریں، یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘ یہی یقین کامیاب ادبی تخلیق کی پہلی شرط ہے۔
میریڈتھ کی رائے میں حقیقی کومیڈی کے لیے ایک ایسے سماجی نظام کی ضرورت ہے جہاں مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے برابری کے ساتھ ملتے ہوں، اور ان دونوں کے مزاجوں کے تصادم سے ہنسی پیدا ہو۔ چغتائیؔ یہ شرط بدرجۂ اتم پوری کرتا ہے۔ وہ کبھی عورت کو مرد سے ہیٹا نہیں دکھاتا، بلکہ ہمیشہ اس کے حقوق اور خواہشات کو مرد سے منواتا ہے۔ زیادہ تر تو اس کے افسانے کی فضا پر کوئی عورت ہی غالب رہتی ہے۔ اگر چغتائیؔ کے کوئی کردار یاد رہ جانے کے قابل ہیں تو وہ عورتوں کے، مردوں کے نہیں۔ ان کی شاہدہؔ تو اب ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ اور درحقیقت اس کی عورتیں ہیں بھی مردوں سے بہتر نمونے۔ اس زمانے کے نوجوانوں کی طرح اس زمانے کی لڑکیوں میں انحطاط پذیری کا عنصر شامل نہ تھا۔ انہوں نے تو ابھی ابھرنا ہی شروع کیا تھا، اور ان میں پھیلنے اور بڑھنے کے آثار پائے جاتے تھے۔ چغتائی کی مزاج نگاری لڑکیوں کے حق میں واقعی بڑی کارگر ثابت ہوئی ہے، اور اس کی ہنسی نے ان کی آزادی کے کئی مرحلے طے کرادیے ہیں۔
اکثر لوگوں کو چغتائی کے افسانوں میں بار بار کی مارپٹائی سے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اگر مجھے خواہ مخواہ چغتائی کی طرف داری منظور ہوتی تو میں بڑی آسانی سے سڑک کی لڑائیوں کے بارے میں کیٹس کاقول نقل کرکے یہ کہہ سکتا تھا کہ اس سے چغتائی کی زندگی سے بے صبرانہ دلچسپی کااظہار ہوتاہے۔ لیکن اس کادوسرا حل بھی موجود ہے۔ چغتائی عموماً کالج کے لڑکوں کے متعلق لکھتا ہے، اور کالج کے لڑکوں، اور خصوصاً چغتائی کے ماحول کے لڑکوں کا عموماً مذاق کامفہوم یہی کچھ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چغتائیؔ عمر بھر کالج کالڑکا رہا، اس بات میں اس کی جس قدر کمزوری ہے، اسی قدر قوت بھی چغتائی کی دنیا میں ہمیں مارپیٹ پر اس وجہ سے ہنسی نہیں آتی کہ اس سے عزت چلی گئی، بلکہ اس وجہ سے کہ اس کے بعد بھی عزت نہیں گئی۔ اور چغتائی جیسے مزاج کے آدمی کے لیے کسی کی عزت جانا ایک دل خوش کن فعل ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے افسانوں سے اس کی طبیعت کا جو اندازہ ہوتا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتاہے کہ وہ کوشش کے بعد بھی کسی کی دل آزاری نہ کرسکا ہوگا۔ اس کے طنزیا مزاح میں کہیں بھی سختی، کھردراپن، بے رحمی، غصہ یا ترش روئی نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس کا مزاح بہت نرم، ملائم اور نفیس ہے۔ بعض وقت وہ اپنی ناپسندیدہ چیزوں کے خلاف چیخنے لگتا ہے۔ مگر وہاں بھی اس کی آواز غیظ و غضب سے بھراتی نہیں۔ یہ عجب بات ہے کہ اس قسم کے مزاح نگاروں کو مصلح بننے کا خبط ہوتا ہے۔ اور وہ واقعی ان برائیوں پر ہنس ہنس کر انہیں بھگادیتے ہیں۔ یہ محض اسی وجہ سے کہ وہ پیغمبرانہ جوش میں آکر ان گناہوں کی پاداش میں دنیا کے خاتمے کا اعلان کرنا شروع نہیں کردیتے بلکہ یہ امید رکھتے ہیں کہ جب لوگوں کو یہ خرابیاں اتنی مہمل معلوم ہونے لگیں گی کہ وہ ان پر ہنس دیں تو وہ انہیں خود ہی چھوڑدیں گے۔ بروں سے بھی ناانصافی نہ کرنے کی عادت ہی تھی جس نے چغتائی کو ایک سمت میں نہ بڑھنے دیا۔ یعنی وہ کوئی Caricature پیش نہ کرسکا۔ اس کی طبیعت اذیت پرستی سے اتنی خالی تھی کہ اس نے کبھی کسی کو تکلیف دے کر اپنے افسانوں میں ہنسی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جب ہنسا تو اپنے کرداروں کے ساتھ۔
چغتائی میں یہ چند صفتیں ایسی تھیں جو اسے ایک بڑا مزاح نگار بنا سکتی تھیں۔ مگر اس کے ہاتھ کچھ ایسے بندھے ہوئے تھے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی نگہداشت نہ کرسکا، اور اب ہم کھینچ تان کر بھی اس کا شمار اول درجے کے مزاح نگاروں میں نہیں کرسکتے۔ اس میں بہت کچھ دخل تو اس کی مسلسل اور مستقل علالت کو بھی تھا۔ مگر خود اس کے اندر اور اس کے ماحول میں ایسی کمزوریاں تھیں جن کے ہوتے ہوئے ایک جاندار اور بڑے مزاح نگار کی نشوونما ہو ہی نہیں سکتی۔ چغتائی کی ہلکی منطقیت، عقلیت پرستی، اور ’’وقائع نگاری‘‘ کے شوق نے اس مزاح نگار کاستیاناس کردیا جس نے ’’الشذری‘‘ اور ’’یکہ‘‘ لکھا ہے۔ اس کے ’’وقوع پذیری‘‘ کے معیار میں اس کے اندر خارج العادت (Eccentric) چیزوں کا ڈر سمودیا تھا، حالانکہ بڑا مزاح نگار خود ایک خارج العادت شخص ہوتا ہے جو سب سے پہلے اپنے خارج العادتی پر ہنسنا شروع کرتاہے۔ ایک مزاح نگار میں زندگی کی تہیں کی تہیں بھردینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ فالؔسٹاف جیسے خارج العادت دیو نہ پیش کیے جائیں۔ مگر متوسط طبقے کے دماغ کے لیے ہر غیرمعمولی چیز ناقابل برداشت ہے، اور اسی طرح غیرمنطقیت، بے عقلی اور بے وقوفی بھی۔ ان ہی چیزوں سے دور دور رہنے کی وجہ ہے کہ چغتائی ایک بھی بڑے کردار کی تخلیق نہیں کرسکا۔ سارے بڑے مزاحیہ کرداروں کا راز یہ ہوتا ہے کہ وہ سب بہت بڑے بیوقوف ہوتے ہیں۔ اور بڑے بیوقوف کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جو عقل سے نیچے نہیں بلکہ اس سے بلند ہو، بڑے فن کاروں کی بصیرت یہی دیکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سارے فقرے چیسٹرٹن کے ہیں جس کے چار صفحے روزانہ ہر اس شخص کو پڑھنے چاہئیں جو آج کل بھی اپنی ذہنی تندرستی برقرار رکھنا چاہتاہے۔) انسانیت کو مجسم شکل میں پیش کرنے کے لیے ذی عقل لوگوں کو نہیں بلکہ بیوقوفوں کو چنتے ہیں۔ بیوقوفوں میں ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ شعوری مزاح کہاں ہے اور غیرشعوری کہاں۔ مگر چغتائی کے کردار یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ وہ مزاحیہ اور پرلطف آدمی ہیں۔ اور وہ بھول بھی کیسے سکتے تھے، کیوں کہ چغتائی کی ممدوح نسل کلی، اور اسی لحاظ سے اس کے مزاح کی، خصوصی صنعت خود بینی اور نرگسیت ہے۔ اور نرگسی لوگ اپنے آپ کو کبھی بے وقوف نہیں خیال کرسکتے۔
چغتائیؔ کی صرف یہی ایک کمی نہیں ہے، بلکہ وہ کئی اور سمتوں میں بھی محدود تھا۔ مزاح چیزوں کا ایک پرسکون مطالعہ ہے، جس میں کھیل بھی شامل ہے اور تفکر بھی۔ مگر چغتائی کا مزاح کھیل ہی کھیل ہے، تفکر سرے سے لاپتہ ہے۔ اس کے اندر آرام اور سکون کا وہ احساس بالکل نہیں ملتا جو بڑے مزاح کے لیے لازمی ہے۔ وہ اپنے کرداروں کو آرام سے بیکار بیٹھا ہوا نہیں دکھاسکتا، اور مزاحیہ کردار کااصلی امتحان یہی ہے۔ بیکار بیٹھنے کے لیے جتنی جان اور زندگی کی ضرورت ہے اتنی اچھلنے کودنے ے لیے نہیں۔
چغتائی کی اس نااہلیت کا سبب شاید یہ ہے کہ اس کے کردار نوجوان لوگ ہیں، اور نوجوان اتنے کم عمر ہوتے ہیں کہ انہوں نے ابھی بے کار بیٹھنا نہیں سیکھا ہوتا۔ مشکل تو یہ ہے کہ چغتائی کے نوجوانوں کو اپنی شیروانی میلی ہوجانے کاایسا ڈر ہے کہ وہ زندگی سے تجربہ بھی نہیں کرسکتے۔ ان میں تو چھوٹے بچوں کا سا نئی چیزوں کو چھونے اور دیکھنے کاجذبہ تک نہیں ہے۔ محض نفاست سے مزاح میں کام نہیں چلتا۔ یہاں تو شیکسپیئر، رابلے، چوسر، ڈکنس اور سرشار کا ساکھردرا پن چاہیے، تب آتی ہے زندگی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ نوجوان لوگ کائنات کی بے حد دلچسپ چیز ہوسکتے ہیں، مگر مزاحیہ کردار نہیں بن سکتے۔ برنارڈ شا کہتا ہے کہ ریمرانٹ کی جانداری اور قوت کا روشن ترین ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی تصویروں کے لیے جوان عورتوں پر بوڑھی عورتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر بڑے فن کار نے محسوس کیا ہے۔ جو چوسر، بوکاؔچیو سے ’’ٹروئلس اور کریسیڈا‘‘ کاقصہ لیتا ہے تو پینڈے رس کو نوجوان بھائی کے بجائے بوڑھا چچا بنادیتا ہے۔ دنیا کے تقریباً سب بڑے بڑے مزاحیہ کردار چالیس سال سے اوپر کے ہیں : ڈونؔ کوئکزٹ، فالسٹافؔ، باتھ کی خاتون، مسٹر مکوبرؔ، خوجیؔ، سب۔ میں کہہ چکا ہوں کہ مزاحیہ کردار کے لیے لازمی ہے کہ وہ خود بھی ہنس سکے۔ مگر ہنسنے والے کا امتحان یہ ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میں بھی ہنس سکے۔ اور چغتائی کا کوئی حقیقی کردار چالیس سال کا نہیں ہے۔ زندگی کے گرم و سرد کو ہضم کرسکنے کے لیے ایک عرصہ چاہیے۔ باتھ کی خاتون کے یہ الفاظ۔
“Lord Christ! When that it remembereth me
Upon my youth, and on my jolitee,
It tickleth me aboute myn herte rote,
To think it doth myn herti bote
That I have had my world as in my tyme.”
چغتائیؔ کے کسی کردار کے منہ سے نہیں نکل سکتے تھے، اور نہ اس میں یہ مطمئن تسلیم و رضا کی زندگی کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوسکتی تھی۔ بڑے مزاحیہ کرداروں میں انفرادیت تو ہوتی ہی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی وہ انسانیت اور سماج کے طبقوں کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ ان کی پشت پر ایک پرانی سماجی زندگی ہوتی ہے، اور وہ ایک روایت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک روایت سالہا سال میں جاکر قائم ہوتی ہے، اور اس تمام عرصے کے زندگی کے تجربات، ان کی روح اور قوت اس روایت میں منجمد ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کو اتنا کچھ محض ورثے میں مل جائے وہ اس پر جتنا چاہے ایزاد کرسکتے ہیں۔ مگر چغتائی کے کرداروں جیسے نوخیز لوگوں کی جڑیں زندگی میں مضبوط اور گہری نہیں ہوتیں کیونکہ وہ اپنے عمل کی ابتدا روایت سے رشتہ توڑ کر کرتے ہیں۔ وہ ہر چیز خود شروع کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ساری عمر صرف کرنے کے بعد بھی زندگی کا اتنا حصہ نہیں حاصل کرسکتے جتنا روایت کے اندر رہنے والوں کو یونہی مل جاتا ہے۔ اپنی اور اپنے انداز و خیالات کی نمائش میں ان کا اتنا وقت خرچ ہوتا ہے کہ انہیں ’’جینے‘‘ کی مہلت کم ہی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف روایت ہی ہے جو حقیقی انفرادیت، خارج العادتی اور idiosyncrasy کی گنجائش اپنے اندر رکھتی ہے۔ اتنی وسعت، لچک، قوت، اپنے اوپر اعتماد اور دریادلی روایت ہی میں ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں کو بلا ڈرے جھجکے قبول کرسکے۔ اس کے برخلاف جدت تو بڑی حاسد، شکی، تنگ نظر اور جابر ہوتی ہے، اور کسی کو ڈھیل دینا گوارا نہیں کرسکتی۔ جدت کی تنگ نظری کی بہترین مثال تو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے اردو ایک دوسرے بڑے مزاح نگار سے محروم رہ گئی۔ ان سب کے علاوہ بڑے مزاح نگاروں اور مزاحیہ کرداروں میں ایک ہلکی سی افسردگی بھی ہوتی ہے جو انسانی زندگی پر مسلسل غور و فکر کانتیجہ ہوتی ہے۔ مگر چغتائی میں اس افسردگی کا نشان تک نہیں ملتا، کیونکہ ان کی دنیا میں غور و فکر کی ضرورت ہی سمجھی گئی تھی۔ اسی طرح اس میں دنیا کے متعلق ایک وسیع نظریے کا فقدان ہے جس کے بغیر کسی بڑے مزاح نگار کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ ان ہی سب چیزوں نے چغتائیؔ کی مزاح نگاری کو ہمیشہ کے لیے پست قد بنادیا۔ لیکن انسان سے ہمیں بہت زیادہ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ چغتائی اپنے زمانے کی پابندیوں میں بری طرح محصور تھا، جیسا ہر زمانے کا ہر لکھنے والا اور ایسے ماحول میں رہتے ہوئے کہ جہاں یہ سب لوازمات ناپید اور نایاب تھے، کوئی اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا تھا جو چغتائی نے کیا۔
چلتے چلتے دو ایک لفظ چغتائی کی کردارنگاری کے متعلق بھی کہتا چلوں۔ چونکہ چغتائی کوایک مخصوص ذہنیت کی تبلیغ اور اس کے مثالی نمونے پیش کرنا منظور تھا، خواہ غیرشعوری طور پر ہی سہی۔ اس لیے ان کا حقیقی کردار صرف ایک ہی ہے، چاہے وہ مرد کی شکل میں ہمارے سامنے آئے چاہے عورت کی۔ انہوں نے چندمثالی صنعتیں چھانٹ لی تھیں، اور انہیں ہی وہ اپنے کرداروں میں اجاگر کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے کردارچلتے پھرتے نقطۂ نظر ہیں، جی نہیں، ان میں اسی قدر زندگی ہے جتنی مجھ میں یا آپ میں۔ چغتائی اپنے پسندیدہ خصائص لے کرآدمی گھڑنے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ چلتے پھرتے آدمیوں میں صرف اپنے پسندیدہ خصائص دیکھتا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے کردار ’’گول‘‘ نہیں، بلکہ ’’مسطح‘‘ ہیں۔ وہ صرف زندگی کی ایک سطح پر جیتے ہیں، اور ہم انہیں بڑا محدود اور رکا رکا سا محسوس کرتے ہیں، چونکہ ان کے یہاں صرف ایک ہی کردار ہے، اس لیے دوکرداروں کے تصادم سے ان میں کوئی تبدیلیاں یا تصرفات پیدا نہیں ہوتے۔ اسی طرح چونکہ یہ کردارچغتائی کامثالی نمونہ اور اس میں کوئی تغیر گوارا نہیں ہوسکتا، اس لیے ان کے افسانے میں واقعات کردار سے پیدا ہوتے ہیں، مگر کردار پر اثرانداز نہیں ہوتے، ہاں، ایک بیوی یا شوہر ضرور دے دیتے ہیں۔ یہ میں چغتائی کی کردار نگاری کے نقائص نہیں گنوارہا ہوں، بلکہ صرف ا س کی خصوصیتوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب تک کہ وہ ہمارے اندر اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا پر یقین پیدا کرسکتا ہے (اور یہ وہ خوب کرتا ہے) اس وقت تک اس سے کیا کہ اس کے کردار گول ہیں یا مسطح، مسطح کردار تو یوں بھی مزاح کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ چغتائی کو دلچسپی سے پڑھا جاسکتا ہے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ۴۲ء میں چغتائی کو پڑھنا ناممکن ہے، لیکن جب میں نے دوبارہ پڑھ کر دیکھا تو میرا خیال قطعاً غلط ثابت ہوا۔ چغتائی کو بیانیہ (narrative) اسلوب پر قدرت حاصل تھی۔ اور کہانی کہنے کے فن میں تو وہ اردو کے بہترین ماہروں میں سے تھا۔ یہاں یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ یہ وہ فن ہے جس کے استعمال میں ہمارے ’’شعور میں کنوئیں کھودنے والے‘‘ کمزور پڑتے جارہے ہیں۔ چغتائی کو سب سے پہلا خیال اپنے افسانے کو دلچسپ بنانے کا ہوتاتھا۔ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے اور منوانے کا نہیں۔ اسی وجہ سے جب اس کے افسانے میں غیرضروری باتیں آجاتی ہیں تو وہ ہماری لطف اندوزی میں مخل نہیں ہوتیں۔
کبھی کبھی چغتائی اپنے افسانوں کا مواد حاصل کرنے کے لیے نیچے کے طبقوں اور گاؤں میں بھی گیا ہے، لیکن دراصل اس کی افسانوی دنیا شہری ہے۔ اور اس کی نیچے کے طبقوں اور گاؤں کی عورتیں وہی متوسط طبقے کی عورتیں ہیں جن کے کپڑے بدل دیے گئے ہیں۔ ان عورتوں کی طبیعتوں اور مزاج میں بھی اس کے مخصوص کردار سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ چغتائی گاؤں سے واقف ضرور تھے۔ یوں تو ان کے افسانوں کو فطری مناظر سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ مگر گاؤں کے متعلق لکھتے ہوئے وہ کبھی کبھی ہمیں کھیتوں کی خوشبو سنگھادینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی گاؤں کی عورتوں میں تھوڑا سا ٹھوس پن اور قوت ایسی آگئی ہے جو ان کی متوسط طبقے کی عورتوں میں نہیں، جیسا صحت مند فرق ان کے اور اس زمانے کے دوسرے لکھنے والوں کے متوسط طبقے کے متعلق افسانوں میں پایا جاتا ہے ویسا ہی یہاں بھی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کسانوں کی زندگی کے حقیقی مسائل سے بالکل غفلت برتی ہے، اور اسے مسلمان متوسط طبقے کی خود اطمینانی کے رنگوں میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ ابھی ان مسائل کے تجزیے کا وقت نہیں آیا تھا، کیونکہ پریم چند کے افسانے بھی اسی زمانے میں لکھے جارہے تھے۔ ہاں، مسلمان طبقے ابھی ان مسائل کی اہمیت سے خبردار نہیں ہوا تھا، اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کھیل رہا تھا۔ خود چغتائی کہتے ہیں کہ ’’معاشرت کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار مولویوں کو خیال کرتاہوں۔ افسانے کی ہر برائی کی جڑ آخر میں ان ہی سے ملاتا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس کے بعد آپ ان سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔ ان کی نظر کے سامنے بڑے بڑے مسائل نہیں تھے، بلکہ صرف مسلمان متوسط طبقے کی چند معاشرتی خرابیاں، مثلاً پردہ، طلاق کی دقت، جبریہ شادی وغیرہ۔ چغتائی صرف ایک ہلکا سا احتجاج ہے، بغاوت نہیں۔
چغتائی نے کچھ المیہ افسانے بھی لکھے ہیں اور وہ زیادہ تر راجپوتوں کے متعلق ہیں۔ یہاں وہ اپنی متوسط طبقے کی ذہنیت کو الگ کردینے اور راجپوتوں کی زندگی اور جذبات کا صحیح عکس پیش کرنے میں جیسے کامیاب ہوئے ہیں وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ چغتائی نے راجپور روح کو خوب دیکھا اور دکھایا ہے۔ مگر یہ افسانے صرف غم ناک اور درد انگیز واقعات بن کر ہی رہ گئے ہیں، ان میں ٹریجیڈی کی وسعت اور عالمگیری نہیں آنے پائی۔ نہ تو ان کا درد و الم اٹھ کر کائنات کے سروں سے جاملتا ہے، نہ ان میں آفاق گیر ہیبت پیدا ہوتی ہے، اور نہ تقدیر کااحساس۔ شاید اس سب کے لیے چغتائی اور اس کے طبقے کی روح میں جگہ ہی نہ تھی۔
مگر بہرحال چغتائیؔ نے اپنے زمانے کے مسلمان متوسط طبقے کے نوجوانوں کی Epic لکھی ہے۔ اس نے ان کی روح کو قلم بند کیا ہے، اور وہ اس لحاظ سے قابل قدر ہے۔ کیونکہ ہر روح، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، قابل قدر ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ آج کل کے طوفانی زمانے میں ہمیں چغتائی کی ہنسی گراں گزرتی ہو۔ لیکن جب بادل چھٹ کر نیلا آسمان نکل آئے گا اور ابابیلیں پھر اڑنا شروع کردیں گی تو ہم چغتائی کی صحبت کو زیادہ خوشگوار پائیں گے۔ جب نیا نظام قائم ہوگا اور ہم تعمیر کے کام میں مصروف ہوں گے تو ہمیں بڑھاوا دینے، ہمیں اپنے اوپر یقین دلانے اور ہماری Epic لکھنے کے لیے ایک چغتائی ہی کی ضرورت ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.