Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عزم محکم کا پیکر:شاہدہ اسید رضوی

وصیہ عرفانہ

عزم محکم کا پیکر:شاہدہ اسید رضوی

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    دلچسپ معلومات

    ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ کے حوالے سے

    میں اکثر ایسی نسائی آوازوں کی تلاش میں کو بہ کو بھٹکتی ہوں جو وقت کی گرفت سے آزاد رہ کر اپنے فکروفن ، قوت عمل اور ارادے کے استحکام سے وقت کو قید کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔یہی تلاش و جستجو مجھے عصمت چغتائی، نگار عظیم، صوفیہ انجم تاج، عذرا پروین، راشدہ خلیل سے ہوتے ہوئے اب شاہدہ اسید رضوی تک لے کر آئی ہے۔وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے شاہدہ رضوی کو جاننے اور ان پر لکھنے کے لئے مجبور کیا۔ شاہدہ رضوی کی پیدائش ۱۵؍ اگست ۱۹۳۹ء میں ہندوستان میں ہوئی اور پھروہ پاکستان سے گزرتے ہوئے اب لندن میں مقیم ہیں۔ان کی تالیف و تدوین کی ہوئی پہلی معرکۃ الآرا کتاب ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ ۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آئی جو دو نابغہ روزگار شخصیت قرۃ العین حیدر اور گوپی چند نارنگ کی گفتگو اور گفتگو کے ذیل میں قیمتی لعل و گوہر پر مشتمل ہے۔اکثروبیشتر خواتین اپنی عمر سے جلدی ہار مان جاتی ہیں۔اس تناظر میں اکیاسی سالہ خاتون کے اس وقیع کارنامے نے مجھے حیرت آمیز مسرت سے دوچار کردیا۔میں نے یہ کتاب پڑھی اور میری رائے میں اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب نہایت اہم ثابت ہوگی۔

    بی بی سی اردو سے تعلق رکھنے والے سید حسن نے ۱۹۸۶ء میں بزم اردو لندن کی بنیاد رکھی تھی۔سید حسن اس بزم کے جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ اس بزم کے زیر اہتمام ہر سال کم از کم تین پروگرام پیش کئے جاتے تھے۔ ان پروگراموں میں اردو ادب کی نامور شخصیات مثلاً قرۃ العین حیدر،گوپی چند نارنگ، افتخار عارف، سردار جعفری،رضا علی عابدی، یاور عباس کے علاوہ متعدد قومی اور بین الاقوامی شخصیات نے حصہ لیا۔لندن میںاردو کے فروغ کے سلسلے میں سید حسن کی خدمات سنہرے لفظوں میں لکھنے کے لائق ہیں۔

    ۲۳؍ اگست ۱۹۹۸ء کو ومبلڈن میں سید حسن صاحب نے ادب دوست محبوب نقوی اور مہر نقوی کی رہائش گاہ پر ایک مجلس کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی قرۃ العین حیدر اور گوپی چند نارنگ تھے۔سید حسن نے معروف صحافی اور براڈکاسٹر یاور عباس صاحب سے درخواست کی کہ وہ قرۃ العین حیدر اور گوپی چند نارنگ سے ان کی تصنیفات کے حوالے سے گفتگو کریں۔یہ گفتگو تصنیفات تک محدود نہیں رہی بلکہ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ماضی اور حال کی تہذیبی تاریخ اور معاشرتی احوال بھی موضوع بنے اور غالب کی شاعری کی آفاقیت بھی زیر بحث آئی۔ قرۃ العین حیدر کی نگاہ تاریخ کے تسلسل پر رہتی ہے اور ہر دور کی تہذیب پر ان کا مطالعہ ومشاہدہ عمیق ہے۔ غالب کی شاعری گوپی چند نارنگ کا دل پسند اور دل پذیر موضوع ہے۔ افسانے،ڈرامے،رپورتاژ،فلمی مصروفیات اور کتابوں کے عنوانات نیز ان کے پس منظر پر بھی باتیں ہوتی رہیں۔سچ تو یہ ہے کہ یہ محض ایک مجلسی گفتگو نہیں بلکہ قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کے علاوہ متعدد نامور شعراء و ادبا کی تصنیفات کا ایک بلیغ اشاریہ ہے۔مزید بر آں گوپی چند نارنگ کا ان تصنیفات و تخلیقات پر جامع تبصرہ اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم اضافہ ہے۔علاوہ ازیں، اس گفتگو میں ہم قرۃ العین حیدر کے حوالے سے معاشرتی اور تہذیبی تاریخ کا منظر اور پس منظر بھی دیکھتے ہیں۔ شاہدہ اسید رضوی کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ اردو ادب اور تنقید سے دلچسپی رکھنے والے اس گفتگو سے اس وقت تک مستفید ہوتے رہیں گے جب تک اردو زبان زندہ ہے۔

    شاہدہ اسید رضوی بزم اردو،لندن کی جوائنٹ سیکریٹری تھیں اور بزم کے سارے پروگراموں کی تفصیلات اخبارات کے لئے تحریر کیا کرتی تھیں۔ مذکورہ پروگرام کے وقت بھی وہ وہیں موجود تھیں بلکہ سوالات کرنے والوں میں بھی وہ شامل رہیں۔ پروگرام کے اختتام پر گوپی چند نارنگ نے سرسری طور پر کہا کہ اس اہم پروگرام کو محفوظ رہنا چاہئے۔گوپی چند نارنگ کی یہ بات شاہدہ رضوی کے ذہن پر نقش ہوگئی۔اس یادگار پروگرام کی ویڈیو ان کے پاس تھی۔انہوں نے اس ویڈیو کو سن سن کر کاغذ پر اتارنے کا کام شروع کیا۔یہ ایک مشکل اور دقت طلب کام تھا۔انہیں ایک عرصہ لگا ویڈیو دیکھ اور سن کر روداد تحریر کرنے میں۔ اب مرحلہ تھا اس روداد کو کمپیوٹرائزڈ کرانے کا۔ اس وقت شاہدہ رضوی کمپیوٹر ٹائپنگ سے نابلد تھیں۔وہ اس فراق میں رہیں کہ اس گفتگو کو کسی طرح منصہ شہود پر لایا جائے لیکن زندگی کی ہماہمی اور بے پناہ مصروفیات نے ان کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیا۔ زندگی رواں دواں رہی اور بائیس سال گزر گئے۔

    سال ۲۰۲۰ء جہاں کرونا کے قہرانگیز وبا کے طور پر یاد کیا جائے گا،وہیں اس وبا نے کئی مثبت پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے۔جب انسان ساری دنیا سے کٹ کر گوشہ نشیں ہوجاتا ہے تو دل اور دماغ مختلف مصروفیات کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں تاکہ زندگی منجمد اور اعضاء معطل نہ ہوجائیں۔شاہدہ رضوی کی دیرینہ خواہش نے پھر سے سر اُٹھایا۔وہ خود لکھتی ہیں:

    ’’اب بائیس سال بعد کووڈ کے عالمی وبائی دور میں خاموشیوں، سناٹوں اور فرصت کے دنوں میں اپنے ہاتھ سے قلمبند کی گئی دو نابغہ روزگار ہستیوں کی بے حد دلچسپ اور ادبی گفتگو کو پڑھتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی آواز کانوں میں گونجنے لگی کہ اس گفتگو کو ضرور شائع ہونا چاہئے۔‘‘

    کسی بھی چیز کا مثبت پہلو دیکھنا اور پریشانیوں میں سے آسانیاں تلاش کرلینا شاہدہ رضوی کا وصف ہے۔وہ کہتی ہیں :

    ’’اس کووڈ کی وبا نے دوسری تمام مصروفیات کو مسترد کردیا اور اب وقت ہی وقت ہے بغیر کسی کی بھی دخل اندازی کے،اپنوں یا غیروں کی،کتابوں میں کھوکر خود کو پانے کی جستجو کی پوری پوری آزادی ہے۔اور کیا چاہئے۔‘‘

    کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے ارادے کی استقامت لازمی ہوتی ہے۔پھر راہیں خود راستہ طے کراتی ہیں۔ شاہدہ رضوی نے اپنے ایک رفیق اور SOFI کے سربراہ جناب مصطفی شہاب سے اس موضوع پر گفتگو کی کہ کس طرح اس ادبی شہ پارے کو اردو ادب کے شائقین تک پہنچایا جائے۔انہوں نے شاہدہ رضوی کو اس سلسلے میں سب سے پہلے گوپی چند نارنگ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ نارنگ صاحب نے ان کی باتوں کو توجہ سے سنا اور اس روداد کی کاپی طلب کی۔آگے کے مدارج کے ضمن میں شاہدہ رضوی لکھتی ہیں :

    ’’پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے قیمتی وقت سے کئی گھنٹے فون پر مجھ سے بات کی، اس کتاب کی تزئین و تشکیل کے سلسلے میں میری رہنمائی کی اور میری حوصلہ افزائی کی۔یہ کتاب میرے خواب کی تعبیر ہے،جس کو پورا کرنے میں بلاشبہ بڑا ہاتھ پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب کا ہے ۔۔۔۔۔۔میں پروفیسر صاحب کی احسان مند ہوں کہ انہوں نے باوجود اپنی بے پناہ مصروفیات کے ،اس کتاب کے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک اپنی دلچسپی اور رہنمائی برقرار رکھی۔‘‘

    گوپی چند نارنگ نے مسلسل کئی ہفتوں تک شاہدہ رضوی سے بذریعہ فون رابطہ رکھا۔ مسودے میں بعض جگہوں پر اچانک موضوع گفتگو تبدیل ہوجانے کی وجہ سے بعض باتیں ادھوری اور تشنہ محسوس ہوتی تھیں،انہیں مکمل اور بامعنی گوپی چند نارنگ ہی کر سکتے تھے ۔ بعض چیزوں مثلاً قرۃ العین حیدر اور گوپی چند نارنگ کے سلسلے میں مشاہیر کی آرا اورسوانحی کوائف کو شامل کیا جنہوں نے اس کتاب کی معنویت میں اضافہ کیا ہے۔یوں ایک اووالعزم ،محنت کش اور مستقل مزاج شخصیت کے ذریعے یہ اہم دستاویز ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی ۔

    محبوب نقوی اور مہر نقوی کی رہائش گاہ پر ۲۳؍ اگست ۱۹۹۸ء کو یہ تاریخی واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا اوربعد ازاں یہ اہم کتاب وجود میں آئی۔۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو اسی مقام پر ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ کی تقریب رونمائی انجام پذیر ہوئی جس میں میزبان مہر نقوی کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ جناب رضا علی عابدی، SOFI کے سربراہ جناب مصطفی شہاب،سرسید ایسو سی ایشن کے بانی جناب ہلال فرید ، لندن کیSOAS یونیورسٹی میں اردو کے لکچرر اورمعروف شاعر جناب عقیل دانش،لندن میں شعرا و ادبا کے مستقل میزبان ڈاکٹر جاوید شیخ اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر حسینہ شیخ،فرخ نور خان،صبیحہ امیر مینائی،روحی اور تقریباًبیس بائیس مزید اردو نواز شخصیات شامل ہوئیں۔ جناب رضا علی عابدی،جناب مصطفی شہاب اور جناب عقیل دانش نے کتاب کے حوالے سے تبصراتی تقریریں کیں اور شاہدہ رضوی کی لگن اور محنت کی داد دی۔رضا علی عابدی صاحب نے کہا کہ شاہدہ کو خود اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے اردو کے لئے کیا کام کیا ہے۔روزنامہ جنگ کے ہفتہ وار کالم میں ۱۳؍ اگست ۲۰۲۱ء کو جناب رضا علی عابدی نے اسی کتاب کو موضوع بناکر ’’باتیں ان کی یاد رہیں‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا۔

    اکثر لوگ خدا کا شکر ادا کرلیتے ہیں لیکن اس کے بندوں کا شکر ادا کرناضروری نہیں سمجھتے ۔شاہدہ رضوی میںشکرگزاری کی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ضمن میں وہ گوپی چند نارنگ کے احسانات کویاد رکھتی ہیں اور بار بار ان کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کا انتساب بھی نارنگ صاحب کے نام کیا ہے۔شاہدہ رضوی ایک باوقار،مہذب اور مخلص شخصیت کی حامل خاتون ہیں۔ شخصیت اور کردار کی تشکیل ماحول ،تہذیبی وراثت اور حالات کی دَین ہوتی ہے۔شاہدہ رضوی کی شخصیت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے ماحول ،تہذیبی وراثت اور حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں۔

    شاہدہ رضوی کا تعلق حیدرآباد دکن کے ایک علمی اورادب دوست گھرانے سے ہے۔حالانکہ شاہدہ رضوی کے والد کا وطن چھپرہ، بہارتھا لیکن روزگار کے سلسلے میں حیدرآباد آئے اور پھر یہیں سکونت اختیار کرلی۔ ان کے دادا علی اصغرجعفری ایک جید عالم تھے۔انہیں ابو ریحان البیرونی کی مشہور زمانہ تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ کاپہلا اردو ترجمہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ ترجمہ ۱۹۱۴ء میں منظر عام پر آیا اور اردو کے سرمائے میں گرانقدر اضافے کا سبب بنا۔شاہدہ رضوی کے والد علی اُسید جعفری نے بھی اردو ادب کی خدمت میں خود کو مشغول رکھا۔خود بھی شاعر تھے اوربڑے بڑے ادبا و شعرا کی گھر پر آمد ہوتی رہتی تھی۔ فانی بدایونی نہ صرف ان کے پڑوسی تھے بلکہ دونوں میں بہت زیادہ قربت تھی۔بزم فانی کے زیر اہتمام انہوں نے اعلیٰ پائے کے مشاعرے کروائے جن میں جگر،جوش،مخدوم اور ان کے ہمعصروں نے شرکت کی۔جیلانی بانوکی رہائش بھی ان کے گھر کے قریب تھی۔ چچی میمونہ جعفری علی گڑھ یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر تھیں۔ شاہد ہ رضوی کا تعلق ایک بڑے کنبے سے تھا۔ دس بہنیں اور تین بھائی پر مشتمل یہ کنبہ محبت و اتفاق کی مٹی سے گندھا ہوا ہے۔ایک بھائی عامرراہی ملک عدم ہوئے۔ شاہدہ رضوی سمیت کئی بہنیں تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ساری بہنیں درس و تدریس میں اب تک مصروف ہیں۔بڑی بہن سیدہ صالحہ تواتر کے ساتھ مشاہیر کی تصانیف پر تبصرے اخبار ’’ڈان‘‘میںلکھتی رہی ہیں۔ چھوٹی بہن سلیم عالم کے سفرنامے پانچ جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔چار بہنیں پاکستان میں آکسفورڈ پریس کے لئے ہائی اسکول کی درسی کتابوں کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ ایک بہن نے علم ریاضی کے طریقہ تدریس پر کتاب لکھی جو آکسفورڈ پریس کے ذریعے شائع ہوئی اورطلبا و اساتذہ میں یکساں مقبول ہے۔یہ واقعہ ہے کہ شاہدہ رضوی سمیت تمام بہنوں نے زندگی کا بڑی جوانمردی اور حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ،جس کے نتیجے میں غیر معمولی صلاحیتوں کی مستحق ٹھہری ہیں۔یہ وہ علمی و ادبی ماحول تھا جس میں شاہدہ رضوی کی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔حالات کی کشاکش اور آزمائش نے بھی ان کی شخصیت کو توانا،مضبوط ، اور اووالعزم بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

    شاہدہ رضوی کے والد ایک نیک،ایماندار،پرہیزگار اور سادہ طبیعت انسان تھے۔حیدرآباد میں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میںان کی ملازمت تھی۔ان کی ایمانداری اور رشوت خوری سے پرہیزاور دفتری سازشوں نے انہیں مجبور کردیا تھا کہ وہ ملازمت کو خیرباد کہہ کر باعزت طریقے سے اپنی زندگی بسر کریں۔اس طرح انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔شاہدہ کی بڑی بہن ایجوکیشنل آفس،ورنگل میں ملازم تھیں۔ ان کی پوری فیملی ۱۹۶۲ء میں ورنگل منتقل ہوگئی۔ورنگل آکر شاہدہ سمیت تین اور بہنوں نے ملازمت شروع کردی۔حالانکہ ابھی وہ گریجوئٹ بھی نہیں تھیں۔شاہدہ کو ایک مشنری اسکول میں اور دو بہنوں کو گورنمنٹ اسکولوں میں ملازمت مل گئی۔ورنگل آکر شاہدہ کے والد نے تجارت شروع کی لیکن ان کی سادہ لوحی نے یہاں بھی انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔اپنی سادگی اور سادہ لوحی کے باوجود ان میں پیہم عمل کا غیر معمولی جذبہ تھا جو انہوں نے اپنے بچوں میں منتقل کردیا۔ان کی مثبت اور صحت مند حوصلہ افزائی نے ان کے بچوں کو اندر سے باہر تک قوی بنادیا۔شاہدہ اور ان کی بہنوں نے ملازمت کرکے نہ صرف اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو تعلیم دلائی بلکہ اپنی نامکمل تعلیم بھی مکمل کی۔شاہدہ رضوی نے۱۹۶۸ء میں جامعہ عثمانیہ سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کی سند حاصل کی۔

    شاہدہ رضوی کے چچا اور پھوپھا پاکستان میں خوشحال زندگی بسر کررہے تھے۔ان کی شدید خواہش تھی کہ علی اسیدجعفری مع اہل خانہ پاکستان میں سیٹیل ہوجائیں۔ ان کی کوششیں بارآور ہوئیں اور ان بھائی بہنوں کی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انہیں بہت جلد پاکستان کی شہریت حاصل ہوگئی۔پاکستان میں ان کے ایک کزن شادی کے بعد لندن مقیم ہوگئے۔وہیں ان کی ملاقات غنی احمد رضوی سے ہوئی جو اپنی شادی کے لئے دلہن کے متلاشی تھے۔شاہدہ کے کزن اور ان کی اہلیہ نے شاہدہ کا رشتہ غنی صاحب سے طے کرادیا۔غنی احمد رضوی کے بہنوئی ولایت علی اصلاحی لاہور سے نکلنے والے میگزین ’’اخبار خواتین‘‘ اور اخبار جنگ کے مدیر تھے۔انہوں نے نہایت دلچسپ انداز میں ان کی شادی کی رپورٹنگ کی تھی۔کیونکہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد شادی تھی جس میں بارات بغیر دلہے کے آئی ۔ دلہا لندن میں مقیم تھا اور دلہن کو رخصت ہوکر لندن جانا تھا۔

    قصہ مختصر کہ شاہدہ کی شادی جولائی ۱۹۷۱ء میں غنی احمد رضوی سے انجام پائی اور وہ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں لندن چلی گئیں۔ خوش نصیبی سے رفیق حیات ہم مزاج ملے۔ کتب بینی اور سیاحت کا شوق مشترک تھا۔جب دو ہم مزاج اور ہم ذوق مل گئے تو دونوں کے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ملازمت اورگھر گرہستی سے بچے ہوئے تمام اوقات کتب بینی اور سیاحت میں صرف ہوتے۔حالانکہ بہت محدود آمدنی تھی۔ ایک کمرے میں زندگی بسر ہورہی تھی۔لیکن شوق کی تکمیل جاری رہی۔ان کے شوہر نے سب سے پہلے انہیں پیرس کی سیر کرائی۔پھر لندن میں اندرون ملک انہوں نے چپے چپے کی سیر کی۔شاہدہ کا خیال ہے کہ پہلے اپنے ملک کی سیاحت کرو ،پھر دوسرے ملکوں کو دیکھو تاکہ فرق نمایاں ہوسکے۔ادبی مجلسوں میں شمولیت بھی لازمی ہوا کرتی تھی۔

    لندن کی ابتدائی زندگی میں شاہدہ نے بھی ملازمت کرکے اپنے حالات بہتر کرنے چاہے۔پینٹنگ سے لگاؤ ورنگل میں مشنری اسکول میں پڑھانے کے دوران ہی پیدا ہوگیا تھا اور کئی بہترین آرٹ کے نمونے ان کے تخلیق کردہ تھے۔لندن کے اسکولوں میں آرٹ کے ذریعے انہوں نے قدم جمانے کی کوشش کی۔ان کے کاموں کی ستائش ہوتی لیکن تجربے کے فقدان کی وجہ سے ملازمت نہیں مل پاتی۔ آخرکار پیٹٹس نام کی ناٹنگ ہل گیٹ پر میل آرڈر کمپنی میںانہیں ایک معمولی سی ملازمت ملی جسے اس وقت انہوں نے غنیمت جانا لیکن یہ ملازمت بھی تین ہفتے بعد ختم ہوگئی۔پھر جان لوئس کی برانچ پیٹر جونز میں کلرک کی ملازمت ملی جو پہلی ملازمت سے بہتر تھی۔بعد ازاں انہیں سول سروس میں کلرک کی جاب مل گئی۔یہاں انہوں نے بہت قریب سے ہر طبقے کے لوگوں کے رویے اور انداز گفتگو کا مشاہدہ کیااور اپنی شخصیت کو نکھارا۔دوسال کے بعد ان کی لیاقت کی وجہ سے ان کا پرموشن ہوگیا اور وہ اگزیکیوٹو افسر بن گئیں۔لیکن ان کی منزل ابھی اور آگے تھی۔انہوں نے سول سروس کمیشن کی تیاری کی اور آخرکار ہیلتھ ڈپاٹمنٹ میں انہیں نہایت اہم پوسٹ ملی جس کے تحت وہ پرائم منسٹر کے لئے پارلیمانی سوالات تیار کرتی تھیں۔بائیس سال ملازمت کرنے کے بعد ان کے شوہر کی خواہش ہوئی کہ پاکستان سیٹیل ہوا جائے۔لہٰذا انہوں نے اختیاری ریٹائرمنٹ لے لی۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں واپس پاکستان سیٹیل ہونے کے لئے چلے گئے لیکن تین ماہ بعد ہی ان کے شوہر غنی احمد مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بہترعلاج معالجہ کی غرض سے دونوں پھر واپس لندن آ گئے۔دونوں کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی ۔ ۱۹۸۴ء میں شاہدہ کی ایک قریبی رشتہ دار خاتون بچے کی ولادت کے موقع پر جاں بحق ہوگئیں تو ان دونوں نے ان کی بچی ثناء کو گود لے لیا اور اس کی پرورش و پرداخت کا فرض اس طرح ادا کیا جیسا کہ پرورش کا حق ہوتا ہے۔ بچی بھی ابھی چھوٹی تھی اورلندن اسکول میںہی زیر تعلیم تھی۔تین سال تک بیکاری اور معاشی دقتوں کو جھیلنے کے بعد شاہدہ رضوی نے دوبارہ ترجمے اور ترجمانی کی ملازمت ڈیفنس میںحاصل کی۔ ملازمت کے حصول کے بعد انہوں نے یہ ضروری سمجھا کہ باقاعدہ ترجمہ نگاری کی سند حاصل کی جائے۔شاہدہ رضوی کی اووالعزمی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے ۶۸ سال کی عمر میں ترجمانی کا ڈپلومہ اور گورمکھی پنجابی میں اے لیول کی ڈگری لی۔شاہدہ رضوی مانتی ہیں کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور کوئی بھی منزل اپنے صحیح وقت پر حاصل ہوتی ہے۔وہ کہتی ہیں:

    ’’ میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اردو میڈیم سے پڑھائی کرنے کے بعد مجھے انگلینڈ کی Main Stream Govt. Dept میں ملازمت ملے گی اور میں لندن کی پارلیمانی بلز اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی پالیسیز بنانے میں حصہ لوں گی۔‘‘

    شاہدہ رضوی نے ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۷ء تک چار مختلف گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ میں کام کیا۔وہ اعتراف کرتی ہیں کہ انہیں اچھے اور تعاون کرنے والے افسران سے سابقہ پڑا۔ستر سال کی عمر میں انہوں نے دوسری بار باقاعدہ ریٹائرمنٹ لے لی۔

    دس سال پہلے ۲۰۱۱ء میں شاہدہ رضوی کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ابتدا میں انہیں یوں لگا کہ زندگی میں اب کوئی رنگ باقی نہیں۔لیکن پھر اس فیز نکلنے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ اگر خدا نے ان کی زندگی باقی رکھی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا۔ان کا ماننا ہے کہ اگر آپ کسی کے لئے کچھ نہیںکرسکتے تو کم از کم اپنے تجربات ضرور شیئر کریں تاکہ لوگ مستفید ہوسکیں۔شاہدہ رضوی کا خیال ہے کہ نئے نئے لوگوں سے بالخصوص نئی نسل سے ملتے رہنا چاہئے۔اس طرح نئے زمانے اور اس کی رفتار کو سمجھنا آسان ہوتا ہے۔اس دنیا میں ہر آن نیا کچھ سیکھنے کو ہے کیونکہ علم لامحدود ہے۔علم سے انسان کو اسی طرح قوت ملتی ہے جس طرح زمین کو سورج سے روشنی۔علم کے لئے وہ دو چیزوں کو اہم وسیلہ مانتی ہیں۔ایک کتابیں دوسرا سفر۔ان کی مانئے تو سفر واقعتاً وسیلہ ظفر ہے۔بہت کم عمری میں ونوبا بھاوے کی پیدل یاترا نے ان کے اندر سفر اور سیاحت کے جذبے کو مہمیز کیا۔انہیں وقت کی تیز رفتار ترقی سے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ کو شکرام سے کالج جاتے ہوئے دیکھا تھااور اب فضائی سفر ان کے لئے روٹین کا حصہ ہے۔شاہدہ رضوی نے اب تک سینتیس ممالک کا سفر کیاہے۔انہوں نے اپنی طویل عمری میں زمانے کی ہر ترقی دیکھی۔لکڑی کے چولہے سے مائکروویو کا سفر انہوں نے براہ راست دیکھا ہے۔وہ جانتی ہیں کہ ان کی طبعی عمر تقریباً مکمل ہونے کو ہے لیکن اگر زندگی باقی ہے تو زندہ دلی کے ساتھ جینا چاہئے۔شاہدہ رضوی کہتی ہیں:

    جیتے رہو کہ زندگی میں رنگ بہت ہیں

    تم اس کی ہر ادا کو سہو خوش دلی کے ساتھ

    نزیحہ محمود نام کی یو ٹیوبرنے دسمبر ۲۰۱۹ء میںشاہدہ رضوی پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جس میں ان کی خوبصورت باتیں،ان کی جدوجہد اور سفر کی روداد ہے۔ Vimeoپر یہ ڈاکومنٹری ’’اٹس اے بیوٹی فل ورلڈ‘‘ کے نام سے اپ لوڈڈ ہے۔نزیحہ محمود نے شاہدہ رضوی کو ڈائنامک لیڈی کا خطاب دیا ہے اور بتایا ہے کہ ۸۰ سالہ آنکھوں سے زندگی کا چہرہ کس قدر خوشنما نظر آتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ ،ان کے ۶۰ قیمتی اور روشن اقوال زریں سے ہمیں روبرو کرایا ہے۔شاہدہ رضوی کے پاس اب بھی کرنے کو بہت کچھ ہے۔سفر،پینٹنگ،باغبانی،اردو ادب،احباب سے ملاقاتیں،مشاعرے کی محفلیں،آرٹس گیلری وغیرہ وغیرہ ۔ان کی رائے میں مصروفیات میں ہر درد کی دوا موجود ہے۔یہ ڈاکومنٹری ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ہر پریشانی اور مسائل اپنے وقت پر ختم ہوجاتے ہیں،بس ہمت نہیں ہارنا ہے اور زندگی سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ جس طرح اپنی ہمت اور حوصلے کے بل بوتے پر شاہدہ رضوی نے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھاہے اورامید ہے کہ آگے بھی وہ کئی منزلیں سر کریں گی۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے