Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بغیر عنوان کے

خلیل الرحمن اعظمی

بغیر عنوان کے

خلیل الرحمن اعظمی

MORE BYخلیل الرحمن اعظمی

    ۱۸/فروری کو دہلی کالج میں جو ’’نظریاتی مشاعرہ‘‘ منعقد کیا گیا وہ ہمارے ادب کی تاریخ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔ اگرچہ اس مشاعرے میں فیضؔ، احمد ندیم قاسمیؔ، مجازؔ، اخترالایمانؔ، کیفی اعظمیؔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یوسف ظفرؔ، قیوم نظر، عبدالحمید بھٹی۔ مختارؔ صدیقی وغیرہ شرکت نہ کرسکے ورنہ اس میں نہ صرف مختلف نقطہ ہائے نظر کا اجتماع ہوجاتا بلکہ یہ مشاعرہ مختلف طبائع اور مختلف اذہان کا تجزیہ کرنے میں بھی بہت مدد دے سکتا تھا۔ پھر بھی جوش کی صدارت احتشام حسین اور آل احمد سرورؔ دو عظیم المرتب نقادوں کا تعارف و تبصرہ اور موجودہ دور کے سب سے بڑے انقلابی شاعر اور سردار جعفری کی شرکت ہی اس مشاعرے کو بہت اہم بنادیتی ہے۔ میرے پاس اس مشاعرے کا دعوت نامہ آیا اور اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کہ میں اپنی نظم سنانے سے پہلے اپنا نظریہ شاعری بھی پیش کروں تو میں ایک عجیب سوچ میں پڑگیا۔ یہ بات نہیں کہ میرا کوئی نظریہ شاعری نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کی افادیت اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس مشاعرے میں شریک ہونے والے شاعروں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیاجائے۔ کیونکہ خود میں اپنے بارے میں سوچنے لگا تو سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا تھا کہ ’’میں ترقی پسند شاعر ہوں‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے میرا نظریہ شاعری بھی وہی ہوگا جو تمام ترقی پسند شاعروں کا ہے، میں بھی ادب کو ایک سماجی عمل سمجھتا ہوں۔ میں بھی انسان کی مادی تبدیلیوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے نزدیک بھی طبقاتی کشمکش کا تصور ہے۔ غرض کہ میں بھی ادب کی تخلیق کے وقت اپنے سامنے ایک مقصد رکھتا ہوں۔ یعنی میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، وہ کیوں لکھ رہا ہوں؟ کس کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میں زندگی کے مختلف مظاہر کو کس طرح دیکھوں اور سمجھوں اور کس طرح اس کا تجزیہ کروں۔ مستقبل کے بارے میں، آنے والے انسان کے بارے میں اور آئندہ نظامِ حیات کے بارے میں میرا کیا تصور ہے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں کا جواب علیحدہ علیحدہ نہیں ہے، جو شاعر ترقی پسند ہے اور ترقی پسندی کا دعویٰ کرتا ہے وہ اس کا وہی جواب دے گا جو میں دوں گا۔ تو پھر ’’نظریہ شاعری‘‘ کے لیے ہر شخص سے الگ الگ دریافت کرنے کا کیا مطلب ہے۔ کہیں اس کے معنی یہ تو نہیں کہ یہ مشاعرہ کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک ہزار شاعر بلائے جائیں اور ان سے یہ پوچھا جائے کہ ان کا نظریہ شاعری کیا ہے تو ہر ایک اپناانفرادی نظریہ بیان کرے گا اور اس طرح ایک ہزار نظریوں کا پتہ لگایا جاسکے گا؟

    میں اس مسئلے پر کئی دن تک غور کرتا رہا اور جب بھی سوچتا تھا ہمیشہ اسی نتیجہ پر پہنچتا تھا کہ میرا نظریہ شاعری وہی ہے جو کسی اور ترقی پسند شاعر کاہوسکتا ہے۔ پھر میں سوچنے لگتا کہ آخر اس مشاعرے میں جو شاعر آئیں گے وہ اپنا نظریہ شاعری وہی بتائیں گے جو مارکسزم کی کتابوں میں ملتا ہے تو پھر میں کیا خاص بات بتاؤں جس سے معلوم ہو کہ ترقی پسند ہوتے ہوئے بھی اور ایک نظریہ رکھتے ہوئے بھی مجھ میں اور دوسرے شاعروں میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور ہے۔

    خیر مشاعرہ بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ کچھ لوگوں نے بجائے نظریہ شاعری بیان کرنے کے اپنی الہامی کیفیتوں کا ذکر چھیڑ دیا یعنی یہ کہ ’’جب شاعری کی دیوی آنکھ ملتی ہوئی اٹھی تو موسم بہار تھا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک شاعر نے کہا کہ جس شاعری میں ماردھاڑ اور چیخ پکار ہو، جس میں شاعر کاذہن کسی قوت کی تخریب کے لیے آمادہ ہو، اس شاعری کو میں ناپسند کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ جس نظم میں قافیہ و ردیف اور نغمہ نہ ہو، اسے میں تضیعِ اوقات سمجھتا ہوں۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں اشتراکی حقیقت نگاری پر ایمان رکھتا ہوں۔ ایک اور نوجوان ترقی پسند شاعر جو ابھی ایک سال پہلے تک میراجی کے رنگ کی آزادنظمیں لکھتے تھے اور حال ہی میں ان کے اندر زبردست تبدیلی ہوئی ہے اور اب ظفر علی خان کے انداز کی پابند سیاسی نظمیں لکھنے لگے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں جب کوریا میں امریکیوں کو حملہ کرتے دیکھتا ہوں تو میرے اندر جنگ بازوں کے خلاف نفرت کاجذبہ اٹھتا ہے۔ میں جب تلنگانہ کے بہادروں کی پھانسی کی خبر سنتا ہوں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ میں جب چین کی فتح کی خبر سنتا ہوں تو میرا دل خوشی و مسرت سے معمور ہوجاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سردار جعفریؔ نے کہا کہ شاعری کے متعلق جس شخص نے یہ بات کہی تھی کہ ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ اس نے میرے خیال میں بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ بیشک شاعر بھی ایک پیغمبر ہوتا ہے جس طرح پیغمبر کا کام اپنی قوم کی اصلاح کرنا اور اسے ایک بہتر زندگی کی طرف لے جانا ہے اسی طرح ایک شاعر کا کام بھی ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اپنے مقصد کے لیے تبلیغ کرتا ہے اسی طرح شاعر بھی۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں اپنی شاعری میں تبلیغ کرتا ہوں۔ حضرت جوش نے بھی اپنے مخصوص انداز میں یہ بتایا کہ ان کی شاعری ہمیشہ ایک مقصد کی پابند رہی ہے اور وہ اسے قوم کو جگانے اور بیدار کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے غزل کے ساتھ اپنے پرانے بغض کا اظہار بھی کردیا۔ ان کا خیال ہے کہ ادب برائے ادب کی ساری ذمہ داری غزل پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ غزل گو شعراء صرف ردیف و قافیے کے لیے شعر کہتے ہیں۔ حضرت جوشؔ کی اس بات کا یہاں جواب دینے کا کوئی موقع نہیں لیکن اتنا ضرور کہاجاسکتا ہے کہ کسی ہیئت کو موردِ الزام قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ شاعری کے لیے جو ہیئت بنتی ہے۔ اس میں زمانہ، وقت، ضرورت اور ایک زبان کے مزاج کو بھی داخل ہے۔ اور مختلف ہیئتوں کے اختیار کرنے میں شاعر کا مزاج بھی کام کرتا ہے۔ صرف ایک ہیئت کو شاعری سمجھنا اور دوسری ہیئتوں کو نظرانداز کردینا اس کو غلط طریقے پر پیش کرنا ایک طرح کا تعصب اور تنگ نظری ہے جس کے لیے کوئی جواز نہیں۔ ورنہ یہ معمولی سی بات ہے کہ مغرب میں ڈراما شیکسپیئر اور گوئٹے کو بڑا شاعر بناتا ہے۔ تو مشرق میں غزل، حافظؔ، سعدیؔ اور میرؔ و غالب کو رباعی خیامؔ کو اور مثنوی رومیؔ او رنظامیؔ کو بڑا شاعر بنادیتی ہے۔ اس لیے کسی ہیئت کو موردِ الزام قرار دینا ایک غیرادبی فعل ہے۔

    اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے اپنا نظریہِ شاعری کیا بیان کیا؟ میری سمجھ میں اس وقت جو بات آئی وہ یہ تھی کہ نظریہ شاعری بیان کردینا کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ آج کل تو نظریے بازار میں بکتے ہیں۔ آپ جس دن چاہیں بازار سے ترقی پسند ادب اور مارکسزم پر کتاب خرید کر لائیں اور انہیں پڑھنے کے بعد اپنے نظریہ شاعری کا اعلان کردیں۔ دراصل دشواری جو پیش آتی ہے وہ نظریے میں نہیں بلکہ نظریے کو عملی جامہ پہنانے میں ہے۔ جب تک کسی نظریے یا مقصد سے شاعر اپنی شخصیت کو ہم آہنگ نہیں کرے گا۔ اس وقت تک اس نظریے کے مطابق اس کی شاعری پوری نہیں اترسکتی۔ اس کی مثال کے لیے خود ترقی پسند شاعروں کو لیجیے تو یہ معلوم ہوگا کہ کچھ شاعر ایسے ہیں جن کی شاعری میں بہت شدت، گہرائی، خلوص اور ان کے کلام میں بہت اثر ہے۔ اس کے برخلاف کچھ شاعر ایسے ہیں جن کی شاعری پھیکی اور بے جان ہے۔ جہاں تک نظریے کاسوال ہے دونوں قسم کے شاعر یہی کہتے ہیں کہ میں ترقی پسند نظریہ شاعری رکھتا ہوں اور میرے سامنے عوامی جدوجہد ہے۔

    کسی قسم کی شاعری ہو چاہے وہ ’’ادب برائے ادب‘‘ کا نظریہ سامنے رکھ کر کی جائے یا ادب برائے زندگی کا۔ ہر حال میں وہ شاعر کی شخصیت کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے شاعر جو اپنی شخصیت پر طرح طرح کے نقاب ڈال کر آتے ہیں وہ بھی کبھی کبھی بری طرح عریاں ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی شاعری ان کی شخصیت کی ترجمانی ہی نہیں کرتی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غمازی بھی کرتی ہے۔

    تو کہنا یہ ہے کہ نظریہ شاعری اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا شاعر کی شخصیت، اس کا شعور اس کے نظریے اور عمل کی ہم آہنگی۔ بہت سے شاعر تو کسی نظریے کو محض فیشن کے طور پر اپناتے ہیں یا کسی ادبی تحریک یا جماعت سے اس لیے منسلک ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنے نمود کے لیے اور کوئی آسان راستہ نظر نہیں آتا، ایسے شاعروں کی تعداد بہت ہے اور روزانہ آپ رسالوں میں پھیکی اور بے جان نظموں کی بھرمار دیکھتے ہیں جن کے موضوع تو بڑے اہم ہوتے ہیں۔ مثلاً قحطِ بنگال، آزادی، فسادات، تلنگانہ، انقلابِ چین، سویت یونین کی سالگرہ، وغیرہ وغیرہ لیکن ان نظموں کو پڑھیے تو سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ان میں سے اکثر شاعر تو وہ ہیں جو آئے دن چولا بدلتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں جب شعور اور لاشعور اور جنس پر لکھنا ہی بہت بڑے فلسفی ہونے کی دلیل تھی اس وقت میراجی کے مریدوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس کے بعد ایک ایسا دور آیا جب میراجی پر کڑی تنقید کی گئی اور ان کے کارناموں کو ہماری تنقید نے ’’غرقِ مئے ناب‘‘ ہونے کا فتویٰ دے دیا تو بہت سے شاعر ’’سویت یونین کی سالگرہ‘‘ پر نظمیں لکھنا ہی ترقی پسندی اور اپنی بقا کا سامان سمجھنے لگے اور بہت سے شاعروں نے یہ بھی سمجھا کہ شاید نظم آزاد لکھنے کی وجہ سے ان پر یہ سخت عذاب نازل ہواتھا۔ ہونہ ہو اسی کے اندر کوئی خرابی ہے۔ لہٰذا غزل نے ایک بار پھر کروٹ لی اور غزل بھی ایسی نہیں جس میں کوئی شعور ہو۔ بلکہ روایتی غزل جو محض چونکانے والی زمینیں ایجاد کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ یوسف نظر، قیوم نظر، عبدالمجیدبھٹی، مختار صدیقی، عبدالمتین عارف اور نہ جانے کتنے شاعروں نے جو غزل کو ایک زمانے میں شجرِ ممنوعہ سمجھتے تھے اور آزاد نظم، بلمپت اور ’’چھن چھن چھن‘‘ والی نظموں ہی کو صرف شاعری سمجھتے تھے انہوں نے پھر ایک بار اس صنف کو گلے لگایا۔ یہی نہیں بلکہ کئی سو برس پہلے کا ورق الٹا گیا اور میرؔ کے لب و لہجہ کو اپنایا گیا۔ حد یہ ہے کہ میراجی کاخاتمہ بھی غزل ہی کے ساتھ ہوا جو ایک بار دہلی ریڈیو اسٹیشن سے غزل پر اپنا معرکہ آرا مرثیہ پڑھ چکے تھے (یہ مرثیہ اور اس کے جواب میں شاہد احمد کا لکھا ہوا مضمون ’سدا سہاگن‘ دونوں ساقیؔ میں شائع ہوئے تھے) خیر ایسے شاعروں کو چھوڑیے ان کے ساتھ کسی نظریے کو وابستہ کرنا نظریے کی توہین ہے۔ ان کو ترقی پسندی سے زیادہ اپنی ترقی محبوب ہے اور ایسے شاعروں کو بھی پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں۔ کیونکہ یہ اپنی ترقی کے لیے عجیب عجیب قسم کے مضحکہ انگیز لباس پہنتے ہیں اور کبھی کبھی تو ٹانگیں اوپر کرکے سر کے بل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان شاعروں کا وجود بھی ادب کے تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔

    ہاں بحث ان شاعروں سے کی جاسکتی ہے جن کے پاس واقعی ایک نظریہ ہے لیکن ان کی شخصیت کا اثر ان کی شاعری پر پڑا ہے اس لیے اسی اعتبار سے دیکھنا چاہیے کہ ان کی شاعری خود ان کے اپنے نظریے کے مطابق کہاں تک پوری اترتی ہے۔ اگر کسی شاعر کی شخصیت میں مریضانہ کیفیت، فرار، گھٹن اور خلوص کی کمی ہے تو اس کی شاعری پر اس کا اثر لامحالہ پڑے گا۔ اسی طرح اگر ایک شاعر کی ذات میں توانائی، کس بل، صحت مند میلانات اور صداقت و خلوص ہے تو اس کی شاعری بھی اسی اعتبار سے جاندار ہوگی۔ بہت سے شاعر ایسے ہیں جو شروع ہی سے ترقی پسند نظریہ شاعری رکھتے ہیں اور انہیں میراجی والے گروپ میں نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن وہ اپنی شخصیت کاتضاد دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس لیے ان کی شاعری میں بھی وہ شدت اور تاثیر نہیں پیدا ہوسکی جو ایک سچے ترقی پسند شاعری میں ہونی چا ہیے۔

    لیکن اس چیز سے قطعِ نظر شخصیت کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھ سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ شخصیت کی تعمیر جن چیزوں سے ہوتی ہے اس میں شاعر کی زندگی، اس کی زندگی میں ہونے والے واقعات، اس کا ماحول، اس کے تجربات، اس کا علم و اکتسابِ فن اور اس کا ایک مخصوص مزاج اور افتادِ طبع۔ یہ تمام چیزیں مل کر شاعر کو ایک لب و لہجہ اور انفرادیت دیتی ہیں۔ یہی فرق ہے جو کامیاب اور بلند پایہ شاعروں کو بھی ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔ فیضؔ، سردار جعفریؔ، مخدوم محی الدینؔ، اخترالایمانؔ، کیفی اعظمیؔ، احمدندیم قاسمیؔ، مجازؔ ان تمام شاعروں سے اگر ان کے شعور کے بارے میں پوچھا جائے اور یہ بھی کہ ان کی زندگی کااثر ان کی شاعری پر کس کس طرح پڑا ہے تو دلچسپی سے خالی نہ ہوگا یا نظریے کامفہوم ان کے سامنے کیا ہے اور وہ کسی نظریے کو کس طرح اپنی شاعری میں منطبق کرتے ہیں۔

    فیضؔ، کی شاعری میں ایک تفکر، گہرائی اور شعور ملتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ میں ضبط کی کیفیت ہے۔ وہ دھیمے لہجے کے زیادہ قائل ہیں۔ لیکن ان کی شاعری کو پڑھ کر تجزیہ کیجیے توایک بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری میں قوت کی بڑی کمی ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے جن موضوعات کو اپنایا ہے وہ ان کی زندگی کے چند سال کے تجربات ہیں، وہ انہیں تجربات کو ایک مدت تک دہراتے رہتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے صرف ایک ہی واقعہ کو سینے سے لگائے رکھا ہے، اور جب کبھی نئی نظم لکھی ہے انہیں چیزوں کو الٹ پلٹ کرکے اور اپنی علمیت کے بل بوتے پر ایک نیا رنگ دے کر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ایک مقام پر جاکر رک گئی اور اب اس میں آگے بڑھنے کی سکت نہیں ملتی۔

    سردارجعفری کا تجزیہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ شروع شروع میں وہ اپنے طبقے کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں شعری وجدان کی بڑی کمی رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اپنے ذہن سے لڑ رہا ہے۔ لیکن آگے چل کر انہوں نے اپنی شخصیت کی ازسرنو تعمیر کی ہے اور اپنی زندگی کو اپنے شعور کے ساتھ ساتھ بدلا ہے اور اپنے نظریے سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری آگے چل کر بڑی اڑان پیدا کرلیتی ہے۔ سردار جعفریؔ ۱۹۳۸ء میں یہ تو لکھ سکتے تھے۔

    میں تجھ کو بھول گیا اس کااعتبار نہ کر

    مگر خدا کے لیے میرا انتظار نہ کر

    لیکن اس وقت ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ لکھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ ان کی شاعری میں جو ایک جلال اور رزمیہ کیفیت اور طاقت پیدا ہوئی ہے وہ ادھر دوچار سال سے ہوئی ہے جب انہوں نے ایک طرف تو اپنی شخصیت کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ کیا ہے اور دوسرے اپنے علم و اکتساب فن کے سلسلے میں بھی محنت کی ہے۔ لیکن ان کے اندر ابھی تک مجھے ایک چیز کی کمی نظر آتی ہے۔ وہ ہے جمالیاتی احساس کی کمی، ان کی شخصیت میں وہ گداز بھی نہیں جو مخدوم کی شاعری میں ہے۔ قوت اور توانائی کے ساتھ گداز اور احساسِ جمال کی پختگی کی اگر صحیح مثال کہیں مل سکتی ہے تو وہ مخدوم کی شاعری ہے۔

    پھر بھی سردار کی شاعری میں آگے بڑھنے کی بہت صلاحیت ہے۔ انہوں نے جیل میں جو نظمیں لکھی ہیں اور جن کا مجموعہ ’’پتھر کی دیوار‘‘ کے نام سے شائع ہونے والا ہے۔ اس نے سردارؔ کو بڑے شاعروں کی صف میں پہنچا دیا ہے۔

    خیر یہاں میں ہر شاعر پر الگ الگ تنقید نہیں کر رہا ہوں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ شاعر کو خود اپنے شعور اور اپنی شخصیت کا جائزہ لیتے رہناچاہیے اور اسی صورت میں اس کی شاعری اور اس کے نظریے کے تعلق کو پہچاناجاسکتا ہے اور یہ کہ کون سا شاعر دونوں چیزوں کو ہم آہنگ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ صرف نظریہ سازی کوئی چیز نہیں۔ میتھو آرنلڈ جیسا نقاد بھی زندگی کے تضاد کی وجہ سے اس کا شکار ہوگیا اور خود اس نے ادب کے لیے جو اصول بنائے تھے انہیں کی نفی کرنے لگا۔ ہمارے یہاں بھی اس تضاد کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ادب میکانکی نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے اس لیے زندگی میں جو جدلیاتی عمل ہوتا ہے وہی شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ نظریے اور عمل کے تضاد کی سب سے دردناک مثال جذبیؔ کی شاعری ہے۔ جہاں تک نظریے کا تعلق ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا نظریہ ترقی پسند ہے لیکن ان کی شاعری میں گھٹن، قنوطیت، مجہولیت، ہیئت پرستی اور وہ تمام منفی اور غیرصحت مند چیزیں پائی جاتی ہیں جو اس نظریے کی تکذیب کرتی ہیں۔ اسی طرح سلام مچھلی شہری کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جو اپنی شخصیت میں مرکبات (Complexes) کی پرورش کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۴۰ء کے سلام اور ۱۹۴۹ء کے سلام میں زمین و آسمان کافرق نظر آئے گا۔ وہی شاعر جو ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کی آزادی پر یہ محسوس کرسکتا ہے کہ،

    جانے کیوں چند مخصوص محلوں ہی تک

    یہ شعاعِ مسرت بھی محدود ہے

    میرے سورج، میری صبح کے دیوتا

    آج بھی تو امیروں کا معبود ہے

    وہی شاعر مہمل اور لایعنی نظمیں بھی لکھنے لگتا ہے۔ سردار پٹیل کا مرثیہ بھی کہتا ہے اور کنور مہندر سنگھ بیدی کی شان میں قصیدے بھی لکھتا ہے۔ علی جواد زیدی ایک زمانے میں بڑے اچھے شاعر تھے اور ان کی نظم ’’ہولی‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے یہ اندازہ ہوا تھا کہ ان کی شاعری میں آگے بڑھنے کے بڑے امکانات ہیں لیکن وہ بھی اپنے سارے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ترقی کی فکر میں لگ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی شاعری ختم ہوگئی۔ ایسے شاعروں کو خود اپنے سماجی رول کاجائزہ لینا چاہیے اور انہیں غور کرناچاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو کس پیمانے سے ناپتے ہیں اور اپنے لیے کون سا جواز تلاش کرتے ہیں۔ ان شاعروں کے علاوہ کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جونظریاتی اعتبار سے اور جہاں تک سماجی رول کا تعلق ہے، ہمیشہ ترقی پسند رہے لیکن پھر بھی ان کی شاعری میں کوئی انفرادیت، گہرائی، شدت اور بلندی نہ پیدا ہوسکی۔ ایسے شاعروں میں جانثار اخترؔ جیسے لوگ ہیں۔ یہ ہمیشہ ہر ایک راہرو کے ساتھ تھوڑی دور چلتے رہے۔ کبھی اقبالؔ، کبھی جوشؔ، کبھی اختر انصاری، جذبیؔ اور سردار جعفری کے رنگ میں نظمیں لکھتے رہے۔ لیکن یہ نظمیں انفرادیت سے قطع نظر پھیکی اوربے جان بھی ہوتی تھیں۔ اس لیے ان شاعروں کو بھی اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

    بات چلی تھی دہلی کالج کے مشاعرے سے اور کہاں پہنچ گئی۔ دراصل نظریے کا سوال اتنا مبہم ہے کہ اسے بیان کرتے وقت آدمی الجھاوے میں جاپڑے تو کوئی تعجب نہیں۔ لیکن دہلی کالج نے نظریاتی مشاعرے کی بنیاد رکھ کر دراصل ایک بڑا کام کیا ہے۔ ایک تو مشاعرہ جیسی بدنام چیز جس کی اب تک کوئی افادیت نہیں تھی۔ اس کا ایک افادی پہلو نکل آئے گا۔ یعنی ایک طرف تو اب ان شاعروں کی اہمیت کم ہوجائے گی جو گانے بجانے کے لیے شاعری کرتے ہیں، جن کے سامنے کوئی ادبی مقصد نہیں ہے۔ بلکہ یہ لوگ سطحی چٹپٹی اور معمولی شاعری کو اپنے ترنم کے بل بوتے پر مشاعروں میں سناکر مقبولیت حاصل کرتے ہیں اور اس طرح عوام کا مذاق خراب کرتے ہیں۔ دوسری طرف خود شاعروں کو اپنے بارے میں سوچنے اور اپنی تنقید کاموقعہ ملے گا۔ البتہ اس میں اتنی وسعت دی جاسکتی ہے کہ بجائے صرف نظریۂ شاعری بیان کرنے کے شاعر اپنی شخصیت، اپنی زندگی کااثر۔ شاعری پر، مختلف رجحانات و میلانات اور اپنے تجربات کو بیان کرکے خود اپنی شاعری کا تجزیہ کرے اور اپنے ارتقا کو سمجھنے کی کوشش کرے تو بڑی دلچسپ چیز ہوگی۔ اس طرح بہت سے شاعر اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور بھی کرسکتے ہیں۔ اچھے شاعر کے لیے ایک طرف تو بصیرت کی ضرورت ہے جو زندگی کے براہِ راست تجربات، مشاہدات اور سچائی اور خلوص سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسے اکتسابِ فن بھی کرنا چاہیے۔ یعنی علم و ادب کا مطالعہ، کلاسیکس سے واقفیت، تاریخی شعور اور کلچر کاعلم۔ ان تمام چیزوں کے امتزاج ہی سے دراصل ایک شخصیت جنم لیتی ہے جو اپنے نظریے کو شاعری پر منطبق کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے