بلراج مین را: خواب اور حقیقت کے درمیان
’’ادیب کے کمٹ منٹ کا بیان کرتے ہوئے راب گریے نے ایک مثال دی۔ ’’الجیرین لڑائی کے دوران میں نے بھی دوسرے فرانسیسی ادیبوں کے ساتھ مخالفانہ نوٹ پر اپنے دستخط کئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی میں نے ریسنے کے ساتھ مل کر ’’لاسٹ ایئراِن میرئین وار‘‘ فلم بنائی۔ سارتر کو ان دونوں باتوں میں ایک عجیب ساتضاد دکھائی د یا۔ اپنے ایک مضمون میں فلم کی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ راب گریے ایک طرف الجیرین جنگ کی مخالفت کرتے ہیں، دوسری طرف ایک ایسی فلم بناتے ہیں جس میں الجیریا کا ذکر تک نہیں۔ ایک فرانسیسی شہری کی حیثیت سے میر ے لئے الجیریا ایک جیتا جاگتا مسئلہ تھا، مگرایک ادیب کی حیثیت سے میرے لئے اس کی کوئی اہمیت۔۔۔ فنکارانہ اہمیت۔۔۔ نہیں تھی۔ ایک ادیب کی حیثیت سے میر ے لئے بہت سے مسئلے زندہ اور اہم ہیں۔ جو شاید ایک عام شہری کی نظر میں (ثانوی اور) دوراز کار معلوم ہوں۔ الجھن اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب ہم ان دوذمے داریوں کو الگ الگ طریقے سے قبول نہیں کر پاتے۔‘‘
(نرمل ورما، راب گریے کے ساتھ ایک شام)
کسی ادیب کے لئے ’’زندہ مسئلوں‘‘ کی حد قائم کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ اپنے تخلیقی وجود کی حد کا تعین۔ مین را کے بارے میں لکھتے وقت اس قضیے کی طرف میرا ذہن گیا تو اسی لئے کہ مین را کے کئی نقادوں نے اس ’’تضاد آمیز صور ت حال‘‘ کو لے کر مین را کی کہانیوں اور تخلیقی رویوں پر اکثر سوالیہ نشان قائم کئے ہیں۔ مین را کو قریب سے جاننے والے ہر شخص کو پتہ ہے کہ اس کی باتوں میں کبھی کسی طرح کا ابہام، کوئی پھیر یا چکر نہیں ہوتا۔ اس نے بہت دیانت دارانہ زندگی گزاری ہے۔ اس کے سوانح کی لغت میں ’’مصلحت، سمجھوتے بازی، زمانہ شناسی اور مجبوری‘‘ جیسے الفاظ کبھی شامل نہیں رہے۔
اس کے عام رویے ایک سہج سبھاؤ رکھنے والے انسان کے ہیں جو زندگی کے معمولات میں بالعموم زبردستی کی مداخلت کرنے سے بچتا ہے۔ دوسروں کو بھی بے جادخل اندازی کی اجازت وہ نہیں دیتا۔ مین را کے طور طریقوں میں ایک سوچی سمجھی شائستگی اور حیاداری کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ میں نے اسے بازار میں کبھی مول بھاؤ کرتے ہوئے، اجنبیوں سے الجھتے ہوئے، دوسروں کے معاملات میں بے جا تجسس کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گرد و پیش کی عام واردات اس کے لئے اکثر کوئی معنی نہیں رکھتی اور روز مرہ زندگی کے قصوں میں الجھنے، جھک جھک کرنے کے بجائے وہ اپنے ہونٹ بالعموم سختی کے ساتھ بھینچ لیتا ہے یا پھر خاموش گزر جاتا ہے۔
ہمارے ادبی معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو کسی لکھنے والے کی تخلیقی ذمہ داری اور سماجی ذمہ داری میں فرق نہیں کر پاتے، لیکن ادب اور آرٹ کی تخلیق کاعمل بہ ظاہر جتنا سیدھا سادا دکھائی دیتا ہے، حقیقتا ًاتنا آسان نہیں ہے۔ اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہوتا اور ان کے معنی تک رسائی کی شرطیں بالعموم پیچیدہ اور پراسرار نہیں ہوتیں لیکن ادب اور آرٹ کی تخلیق، اپنی بنیادی سطح پر، ایک گہری، رمز آمیز، شخصی سرگرمی ہے۔ مین را نے جس قبیل کی کہانیاں لکھیں اور ادب کی جن قدروں کو فروغ دینے کی جستجو کی، انہیں پہچاننا اور سمجھنا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب تخلیقی آزادی اور ادیب کے سماجی سروکار کی بحث کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے اور ایک کی قیمت پر دوسرے کو قبول یا مسترد کرنے سے ہم اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔
یوں بھی، اپنی کھری، بے لاگ اور بادی النظر میں ہر طرح کے پیچ سے عاری شخصیت کے باوجود، مین را ان لوگوں میں نہیں جو ہمیشہ آسان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جتنا سادہ، بے تصنع اور کھرا نظر آتا ہے، اس کی تخلیقی شخصیت میں اتنی ہی گہرائی اور پیچیدگی ہے۔ اجنبیوں کے سامنے وہ اکثر خاموش رہتاہے، مگر دوستوں میں اسے باتیں کرنے، الجھنے اور بحث کرنے کی عادت بھی بہت ہے۔ لیکن اسے چھوٹی چھوٹی بے تہہ قسم کی باتیں کرنے کا ذرابھی شوق نہیں۔
انتظار حسین نے کہیں لکھا تھا کہ ادیب جب کرسیوں، عہدوں اور اعزازات کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں تو اصولی، نظریاتی اور اخلاقی معاملات ان کے لئے غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ دنیا سے سمجھوتے بازی کرتے ہوئے اپنے آپ سے لڑنا بھول جاتے ہیں۔ مین را ان لوگوں میں بھی نہیں جو اپنے آپ سے ہمیشہ مطمئن رہتے ہیں اور کبھی کسی حال میں اپنی رائے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اپنے آپ سے الجھنے اور دوسروں کی بات مان لینے کی بھی اسے عادت رہی ہے، لیکن اپنے تخلیقی تجربے اور اپنی دنیا کو قبول کرنے کے معاملے میں اس کے یہاں ایک سی سچائی دکھائی دیتی ہے۔ اس ضمن میں مین را کے یہاں کبھی کسی طرح کی ثنویت یا تضاد کی صورت رونما نہیں ہوتی۔ پچھلے تقریباً تیس برسوں کے تعلق کی بنیاد پر میں پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ مین را نے اپنی دنیا اور اپنی کہانی سے اپنے رشتوں میں کبھی کھوٹ نہیں آنے دیا۔ بساط بھر، دونوں کے تقاضے اس نے یکساں دیانت داری کے ساتھ پورے کئے ہیں۔
اسی لئے اپنے ہم عصروں کی بھیڑ میں، مین را کئی اعتبارات سے منفرد اور اکیلا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے اپنے عام روز و شب اپنے اور اپنے تخلیقی وجود کی حدوں میں، ہمیشہ ایک سیدھا سچا تعلق بنائے رکھا۔ اس تعلق کو اساس کبھی خوابوں نے فراہم کی، کبھی حقیقتوں نے۔ بہر نوع، ہمارے زمانے کے اد ب کی روایت میں، مین را کا یہ رویہ، کچھ نئی جہتوں کے اضافے کا وسیلہ بھی بنا۔ ایک سوشل ایکٹی وسٹ، ایک ادبی صحافی، ایک مدیر اور مبصر، فلم، تھیٹر، ادب اور آرٹ کا ایک انوکھا رسیا، جس نے ہمارے عہد کی انسانی صورت حال اور سچائیوں کو ایک ساتھ کئی سمتوں سے دیکھنے سمجھنے میں ایک عمر گزاردی، کبھی زندگی کے تماشے میں گھل مل کر، کبھی اس تماشے سے دور رہتے ہوئے۔۔۔
ایسے گھنے، گہرے احساسات اور شدید جذبوں کے تجربے سے گزرنے والے ادیب اس کاروباری اور غدار معاشرے میں، بس خال خال ہی رونما ہوئے ہیں۔ ایک بے قرار رکھنے والی، اشتعال انگیز اداسی اور باطن میں حشر بپا کر دینے والے اجتماعی سروکار، مین را کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ وہی تن دہی، تیزی اور تناؤ مین را کی تحریر میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ کاغذ بھی جلتا جھلستا سا لگتا ہے جس پر مین را نے اپنے احساسات ثبت کئے ہوں۔ تپتے ہوئے لفظوں، نوکیلے اور دل میں اتر جانے والے لسانی پیکروں کی مدد سے مین را اپنی واردات کا صرف اظہار نہیں کرتا، سادے کورے کاغذ پر کچھ شکلیں اور شبیہیں بھی اتارتا ہے۔ اس کے شخصی اور اجتماعی تجربے ایک عجیب وغریب آمیزے، اک سمفنی کی تشکیل بھی کرتے ہیں۔۔۔ مختلف حسوں کو ایک ساتھ متوجہ کرتی ہوئی اور ایک ساتھ بصیرت کے بہت سے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی۔
اپنے عام رویوں کے لحاظ سے مین را ایک انسان دوست وجودی ہے، ایک Existential Humanist بیسویں صدی کے پرتشدد، پتھریلے دور کو اس نے سماجی ذمےداریوں کا ایک اَن مٹ احساس رکھنے والے ادیب کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ اسی لئے اپنی ریڈیکلزم کے باوجود اس نے نہ تو روایتی ترقی پسندی کے سامنے سپر ڈالی، نہ رسمی اور فیشن ایبل جدیدیت سے پسپا ہوا۔
آواں گارد میلانات کا سرخ و سیاہ اور شدت آثار ماحول، جس نے ہمارے عہد کے ادب کو بین الاقوامی پیمانے پر، ایک الگ پہچان دی، مین را نے اردو کے نئے ادب میں اسی ماحول کو سمیٹنے کے جتن کئے، اپنی کہانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے شعور کے واسطے سے بھی۔ جدیدیت کے یک سطحی اور عامیانہ تصور نے، اسی لئے اسے افسردہ بھی رکھا اور بے زار بھی۔ اپنے ہم عصروں میں مین را یوں بھی ممتاز ٹھہرتا ہے کہ اس نے خالص ادب کا دم بھرنے والوں کے برعکس، ادب، سیاست، آرٹ اور علوم کے ناگزیر رشتوں کو ایک پرشوق قاری کی طرح پڑھنے اور سمجھنے کا سامان بھی مہیا کیا۔
ادب کو اس نے صرف ادبی رسالوں، کتابوں، جلسوں، جماعتوں اور گروہوں تک محدود نہیں سمجھا۔ اردو کی ادبی صحافت کو معیار، مین راجرنل، دستاویز اور شعور کی مدد سے مین را نے جس سطح تک لے جانا چاہا اس کی کوئی مثال ہمیں اپنے چاروں طرف نظر نہیں آتی۔ یہ نقش ناتمام رہا۔ مین را نے گردوپیش کی فضا میں جب ابتذال کی گرم بازاری دیکھی تو چپ چاپ اس قصے سے الگ ہو گیا۔ مگر بہت کم لکھنے والے اپنے سکوت میں اتنے گرم گفتار اور اپنے غیاب کے ساتھ اتنے ظاہر اور موجود ہوتے ہیں۔ نئی حسیت کی تاریخ میں مین راکی حیثیت ایک مستقل حوالے کی ہے۔
مین را کو بہت جلد اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک طرح کی جعلی اور ادھوری جدیدیت کی وبا نے ہمارے یہاں ایسا زور پکڑا کہ نئی حسیت کے حقیقی عناصر پیچھے جاپڑے یا دب کر رہ گئے۔ ایسا نہیں کہ اس سچائی کو سمجھنے والے ہمارے ادبی معاشرے میں موجود نہیں تھے۔ نیا افسانہ اور نئی شاعری، دونوں کا پس منظر مرتب کرنے والوں میں حساس اور ہوش مند لکھنے والوں کی کمی نہیں تھی، لیکن نئی تنقید اور نئے میلانات کو صبح وشام کی دھوپ چھاؤں کے ساتھ اپنے مزاج کی ترنگ کے مطابق نت نئے روپ دینے والوں نے نئی حسیت کے بعض بنیادی عناصر سے اس طرح آنکھیں پھیریں کہ نیا شعر کہنے والوں اور نئی کہانی لکھنے والوں کو بھٹکنے میں دیر نہیں لگی۔ اپنے ایک یادگار مضمون تنبولا میں مین را نے اس صورت حال پر اپنے غم وغصے اور شدید کوفت کا اظہار بہت کھل کر کیا ہے۔ اس مضمون کے کچھ اقتباسات حسب ذیل ہیں،
’’وہ لوگ جو دوسری جنگ عظیم سے ذراسی بھی دلچسپی رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ دوران جنگ سویڈن (جس نے بعد میں فلسفی فلم ساز انگما برگمان پیدا کیا، جس نے ’سیونتھ سیل‘اور ایٹم بم کے خوف پر قیامت کی انقلابی فلم ’ونٹر لائٹ‘ بنائی) غیر جانب دار ملک تھا۔ سویڈن کی نئی نسل نے اپنے بزرگوں کواب تک نہیں بخشا ہے کہ ان کے نزدیک غیر جانب داری نازیوں کی حمایت تھی اور آج نئی نسل کے جھنڈے تلے پورا سویڈن ویت نام کی جنگ آزادی کی حمایت کرتا ہے اور ویت نام سے بھاگے ہوئے امریکی فوجیوں کو پناہ دیتا ہے۔‘‘
’’لیکن اپنے ہاں اب تک جدید ادیب دانستاً غیرجانب داری (مواد اکٹھا کرنے کی حد تک ہی سہی) کے فریب کا شکار ہے۔ غالباً وہ کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔‘‘
’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بیشتر ادیب نہ جی رہے ہیں، نہ ادب لکھ رہے ہیں، بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔‘‘
’’صاحب ایک بھونپو بجے چلے جا رہا ہے اور دھڑا دھڑ جدید افسانے نکلتے چلے آرہے ہیں، جن کا نہ تو سماجی مسائل کے اقتصادی پہلوؤں سے کوئی تعلق ہے اور نہ عصری تاریخ کے تیز و تند عوامی بہاؤ سے۔‘‘
’’ہم نے جس سماج میں آنکھ کھولی ہے، اس سماج نے پیشتر اس کے کہ ہمیں اپنی سوجھ بوجھ کا علم ہوتا، ہماری کھوپڑی میں ایک مخصوص مذہب اور دیومالا اور ان کے حوالے سے ایک ملک اور اس کی تاریخ کا سارا کوڑا بھر دیا۔ اپنے آپ کو ا س بلاخیز عہد میں جینے کے قابل بنانے کے لئے پہلے ہمیں اپنے کھوپڑی صاف کرنا پڑےگی۔‘‘
’’سماج اور فرد کی زندگی میں موجود تضادات کا احساس، ان کی واضح پہچان اور پھر ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش تخلیق کی جانب پہلا قدم ہے۔ ہم سمبلز کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ جو سمبلز ہماری زندگی پرسب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں وہ حکمرانوں کے پیدا کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب ان سمبلز کے بوسیدہ مفاہیم کو چیلنج کیا جاتا ہے تو ظلم ٹوٹتا ہے۔‘‘
’’اب ذرا اپنے جدید ادب کو لیجئے۔ وہ سیاسی شعور کی کمی کے کارن اور غیر شعوری طور پر مذہبی تعصبات کی اسیری کے کارن، بےکار کی تعلیم اور اِن ڈائرکٹ (Indirect) تجربات کے ملبے کا استعمال کئے چلا جا رہا ہے۔ نظر انتخاب تک پلے نہیں۔ نتیجہ! زندگی تضادات کا شکار ہے جس کا اسے علم نہیں۔ تحریر میں جو تضادات آتے ہیں، ان کا علم کیسے ہو! افسانے کے مرکزی خیال کی انگلی تھامے، افسانے کی جزئیات کو جھٹلاتا ہوا چلتا جائےگا اور آخر تھک ہار کر پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھ جائےگا اور ڈھیر ہو جائےگا۔‘‘
’’بہت کم ادیب جانتے ہیں کہ ژان ژینے۔۔۔ نے کینیڈی کے مقابلے میں آس والڈ کو ترجیح دی تھی اور یہ وہی ژان ژینے ہے جس کا طرز حیات ا س لئے سارتر کو عزیز تھا کہ وہ بورژوا سماج کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ اور یہ وہی ژان ژینے ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے دائرے میں آیا اور کندھا رگڑنے لگا تو ان حقیقتوں کو سامنے لاسکا جو انقلاب کے لئے فضا تیار کرتے ہیں۔‘‘
’’جدیدیت کا آغاز چند ایک حساس، دکھی اور برہم نوجوانوں کی تحریر تھی۔ ان چند لکھنے والوں کی برہمی جو غلط یا صحیح ہو سکتی ہے، سچی تھی، اس لئے نئی تحریر کا مشکل اور خطرناک کام ہوتا رہا۔‘‘
’’آخرکار وہی ہوا جو ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا تھا۔ مفاد پرست آئے، قریب آئے، گھل مل بیٹھے اور پھر جلد ہی وہ وقت آ گیا جب نئی نسل کی برہمی کا اظہار جو ایک مثبت قدر ہے، ایک بے ہنگم، بے رخ منشور میں گم ہو گیا۔‘‘
مین را نے یہ مضمون اب سے تقریبا چونتیس برس پہلے (اگست ۱۹۷۱ء) میں لکھا تھا اور علی گڑھ یونیورسٹی کے فکشن سمینار میں پڑھا تھا۔ وہ زمانہ نظریاتی سطح پرشدید تعصبات اور انتہا پسندی کا تھا۔ جدیدیت اور ترقی پسندی کی بحث نے ادب کی تفریق کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ ’شب خون‘ کے صفحات پر احتشام صاحب (سید احتشام حسین مرحوم) اور عمیق حنفی کا معرکہ سامنے آ چکا تھا۔ ادب میں دو خیمے الگ الگ قائم ہو چکے تھے اور دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لئے شہر ممنوع کی تھی۔ مین را کے تعلقات روایتی ترقی پسندوں سے خراب ہو چکے تھے، سب سے زیادہ سردار جعفری سے، لیکن اس مضمون کو سننے والوں میں احتشام صاحب بھی تھے اور جس گرم جوشی کے ساتھ انہوں نے مین را کے ایک ایک جملے کی داددی تھی، اس کا پورا نقشہ اس وقت بھی آنکھوں میں سمٹ آیا ہے۔ مین را نے اپنی بھاری، گونجیلی آوازمیں یہ مضمون اس طرح پڑھا تھا گویا شعر سنا رہا ہو اور سننے والوں پر اس کا تاثر بھی بڑی حد تک شاعری کے تاثر سے مماثل تھا۔
اصل میں مین را کے اظہار کا ایک بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ لفظوں کو موسیقی کے سروں کی طرح برتنا جانتا ہے۔ ایک زمانے میں اس نے شاید شعر بھی کہے تھے۔ کنگس وے کیمپ کے ایک مشہور اسپتال کی لیبارٹری میں ملازمت کے دوران، میں نے اس کے ساتھوں کو مین را صاحب کے بجائے راہی صاحب کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے خود بھی دیکھا ہے۔ لیکن اس واقعے سے قطع نظر اس کی کئی کہانیوں میں بالخصوص کمپوزیشن سیریز، پورٹریٹ ان بلیک اینڈبلڈ، ریپ، یہاں تک کہ شعور کے بعض اداریوں میں بھی کہیں کہیں نثر اور نظم کی حدیں آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مین را کے یہاں ایک عجیب وغریب ایجاز، نوکیلاپن precision اور کاٹ ملتی ہے اور الفاظ اپنے آہنگ اور صوتی سرمائے کی وساطت سے بھی اپنے قاری پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کی آواز کبھی اکہری نہیں ہوتی۔ اس کا سب سے بڑا سرمایہ ا س کی خلقی گونج ہوتی ہے۔ اسی لئے رسمی بیانیہ آداب سے انحراف کے باوجود مین را کی کہانیاں پڑھتے وقت سنائی بھی دیتی ہیں۔ ان کی گونج اور آہنگ میں ایک پورے عہد کی گونج سنائی دیتی ہے۔
مین را، اپنی گرفت میں آنے والے تجربے کے صوتی اورلسانی ملبوس کی تراش خراش پر غیرمعمولی توجہ صرف کرتا ہے۔ اپنے ہی نہیں ا پنے دوستوں اور ہم عصروں کے مسودوں پر میں نے اسے بے تحاشا محنت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس اختیار سے وہ منٹو کی دستاویزی جلدیں مرتب کرتے ہوئے بھی دست بردار نہیں ہوا اور جہاں تک دوستوں اور ہم عصروں کی تحریر کا تعلق ہے تو شعور میں شامل کرنے سے پہلے مین را ایک ایک لفظ، سطر، پیراگراف اور اعراب کو اس طرح پرکھتا تھا جیسے تخلیق کی تجربہ گاہ میں سلائڈس کا معائنہ کر رہا ہو۔ ایک بار تو اس نے ایک پورا ناول ہی دوبارہ لکھ ڈالا۔ اس ناول کی اشاعت سے پہلے، اتفاقاً لاہور سے انتظار حسین آئے ہوئے تھے۔ ایک شام ہم دونوں مین را کے گھر پہنچے اور اسے ایک معاصر ادیب کے مسودے کی جانچ (تصحیح، ترمیم، تنسیخ، اضافہ، تخلیق مکرر) کرتے ہوئے دیکھا تو انتظار صاحب اس تماشے سے محظوظ بھی ہوئے اور حیران بھی۔ کہا تو صرف اتنا کہ ’’یہ وقت تمہیں اپنی نئی کہانی لکھنے میں صرف کرنا چاہئے تھا، بھئی حد ہو گئی؟‘‘
لیکن مین را مزاجاً پرفیکشنسٹ (Perfectionist) ہے۔ تحریر اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی نظر بھی آنی چاہئے۔ سو وہ اس طرح لکھتا ہے جیسے ڈرائنگز بنا رہا ہو۔ اسی لئے شعور کو بھی اس نے مصوروں، موسیقاروں، فلم سازوں اور ادیبوں کے ایک مشترکہ محاذ کی حیثیت دینی چاہی تھی۔ رام چندرن کی The Puppet Theatre اور The Manto Themes کی تیاری کے دونوں میں مین را نے شعور فورم کومصوروں، موسیقاروں، ادیبوں، صحافیوں کی سرگرمی کا متحدہ محاذ بنا دیا تھا۔ ان کی نمائش میں بھی مین را پیش پیش رہا۔ دھومی مل آرٹ گیلری، کناٹ پلیس میں اوپننگ ہوئی۔ روبن منڈل، جتن داس، رام چندرن، غلام رسول سنتوش، گوگی سروج پال، ویدنیر، ارپتا سنگھ، پرم جیت سنگھ تک ہم عصر ہندوستانی مصوری کے نمائندے اس سرگرمی میں مین را کے ساتھ تھے۔
’شعور‘ کے پہلے شمارے کا اجرا یورپ میں مستقلاً قیام پذیر ایک معروف ہندوستانی ستار نواز (محمود مرزا) کے ہاتھوں ہوا۔ تقریباً انہی دنوں دیش پانڈے نے ادب، آرٹ، تھیٹر، فلم، صحافت کے مشترکہ انگریزی جریدے Art And Ideas کا ڈول ڈالا تھا۔ مین را نے آرٹ اینڈ آئیڈیاز کا پورا سیٹ اپنے کئی دوستوں کے لئے خریدا۔ دوستوں کو اچھے قلم اور کتابیں تحفۃً پیش کرنا ایک زمانے تک اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تھا۔ چنانچہ اس کا سارا وقت دریاگنج میں کپور صاحب کے چائے گھر، سنیما گھروں، ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں، تھیٹرز، کتابوں کی دکانوں، سنڈے مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر لگے ہوئے بک اسٹالز میں تقریباً یکساں طور پربٹا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کلچر اس کلچر سے بہت مختلف ہے جس میں اردو ادیبوں کی اکثریت اپنے شب و روز بسر کرتی ہے۔ یہ ایک ہزار شیوہ تخلیقی شخصیت کے آثار ہیں جو نہ زندگی کی وحدت کو تقسیم کرنا چاہتی ہے نہ ادب کی وحدت اور ہمہ گیر سرگرمی کو۔
اسی لئے، ابھی ذرا دیر پہلے میں نے مین را کی تحریر میں منور ہونے والی مختلف الجہات کیفیتوں کا جو ذکر کیا تھا، اس کی وضاحت کے لئے خالی خولی بیانات کے ساتھ ساتھ مین را کی کہانیوں کے چند ٹکڑوں پر نظر ڈال لینا شایدبہتر ہوگا۔ یہ اقتباس کسی منظم کاوش کے بغیریوں ہی رواروی میں ادھرادھر سے یکجا کر دیے گئے ہیں۔۔۔
اور پھر ایک دن کہ سورج محو سفر تھا، میں محو سفر تھا، میرے کان میں اجنبی ہوا نے چپکے سے کہا،
’’میرے نادان دوست! تم سورج اور سائے کا مرکز ہو۔ سورج اور سایہ تمہارے گرد گھومتا ہے۔‘‘ اور پھریوں ہونے لگا کہ ادھر میری آنکھ کھلتی، ادھر سورج طلوع ہوتا۔ ادھر میں سفر پر روانہ ہوتا، ادھر سورج سفر پر روانہ ہوتا۔ ہم منزلیں طے کرتے ہوئے بڑھتے رہتے اور پھر ادھر مجھے نیند آتی، ادھر سورج غروب ہو جاتا۔‘‘
(کمپوزیشن ایک)
’’بہت رات گئے تک وہ لکھتا رہتا ہے۔ سیاہ کمرے میں سیاہ میز پر جھکا ہوا ایک آدمی جو سیاہ قلم سے سیاہ کاغذوں پر سیاہ عبارت لکھتا ہے، میری مشکل بن گیا ہے۔ وہ آدمی جس کی کل کائنات ایک کمرہ ہے جہاں دنیا بھر کی سیاہی سمٹ گئی ہے۔‘‘
(کمپوزیشن دو)
’’اجنبی زمین، اجنبی آسمان، سب کچھ اجنبی، دل میں دھڑکن اجنبی، تاحد نظر بکھرے ہوئے رنگ اجنبی، پھول اجنبی اور بے نام، پیڑبے نام اور اجنبی، آسمان صاف شفاف، دھلا ہوا، نیلا گہرا اور اونچا، دور بہت دور راکھ کی رنگت سی پہاڑی پر جھکا ہوا۔‘‘
(میرا نام) میں (ہے)
’’حقیقتیں اور خواب، روشنی اور اندھیرے، ماضی اور حال۔۔ سب پگھل گئے۔ پھر پگھلا ہوا مواد ایک آہنی سانچے میں ڈال دیا گیا اورمیں کہ میرا ایک ماضی تھا، حال تھا، میری کچھ حقیقتیں تھیں، کچھ خواب تھے، میں روشنی بھی تھا، اندھیرا بھی، یوں مٹ گیا کہ نشان تک نہ رہا۔ اب میں ایک کھلونا تھا، جذبات سے عاری، احساسات سے عاری، صبح ہوئی، شام ہوئی اور پھر رات اور پھر نیند۔ پھر صبح، پھر شام اور پھر رات اور پھر نیند۔‘‘
(ظلمت)
’’میری انگلیاں دکھ رہی ہیں کہ ایک مدت سے میں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ دن دھول نکلا۔۔ خوف زدہ آنکھوں نے دیکھا، شہرکا غرور پاؤں میں پڑا ہے۔ دیو قامت آئفل ٹاور انجر انجر، پنجر پنجر غائب تھا اور وہ شہرکا عمارت دھواں دھواں تھی جہاں کا کروچ، کیکٹس اور صلیب پناہ گزیں تھے۔‘‘
(کمپوزیشن پانچ)
’’جگ بیتے، اس آج سے پہلے گزرے ہوئے کل، کھلے آسمان تلے، میں انجانے میں ان گنت لفظ کھو بیٹھا تھا۔۔ تاریخ، جغرافیہ، دیو مالا، کہاوتیں، خون کے رشتے ناطے اور دل کے معاملات، صبح وشام تھے۔ کبوتروں کا پھڑ پھڑانا بھوک تھی اور لغزش پا پیاس۔ ہنستے ہنستے رو دینا شاعری تھی اور روتے روتے ہنس دینا کہانی۔‘‘
(آخری کمپوزیشن)
اس طرح نئی کہانی کو مین را نے ایک نئی پہچان دی ہے۔ اس کہانی کے فکری حوالے یا پس منظر کے طور پر اس کے مضمون ’تنبولا‘ پر ایک بار پھر سے نظر ڈالی جائے تو آج کے بدلے ہوئے سیاق میں کچھ بنیادی سچائیوں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ مضمون صرف نئی کہانی کا یا مین را کا ذاتی منشور نہیں ہے۔ یوروپین آواں گارد کی مجموعی صورت حال اور پہلی عالمی جنگ کے بعد رونما ہونے والی اجتماعی فضا میں اس منشور کی دھمک موجود تھی۔ جدیدیت کی ناقص تعبیر نے سنی ان سنی کر دی اور آج جب بہت زور و شور کے ساتھ مابعد جدیدیت کا راگ الاپا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسی بھولے بسرے منشور کو ایک نئی زبان دی جا رہی ہے جس کی طرف مین را نے اپنے اس مضمون میں کچھ واضح اشارے کئے تھے۔
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس سے متعلق بحثوں میں اب ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جن کے لئے ادب صرف سماجی ترقی کا زینہ اور سرخ روئی کا وسیلہ ہے۔ سردست میں اس قضیے اور اس بحث سے دست بردار ہوتا ہوں اور اس شخصی قسم کے مضمون کو مین را ہی کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں۔ مین را صحیح ہے یا غلط، یہ فیصلہ اس کے پڑھنے والو ں پر، لیکن اس اقتباس میں جو سوال اٹھایا گیا ہے اس کی اہمیت (متعلقہ مضمون کے لکھے جانے کے چونتیس برس بعد) ایک بار پھر سے محسوس کی جانے لگی ہے۔ اقتباس حسب ذیل ہے،
’’وہ جو مثل موج ہوا شہر شہر گھومتے ہیں، اردو کے جدید ادیبوں میں ایسے کتنے ادیب ہیں، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جانتے ہیں کہ ا س ملک میں جینے کی۔۔۔ سانس کے آنے جانے کی نہیں، ’بہ ہوش و حواس گاڑی ہانکنے کی۔۔۔‘‘ جس میں مرنا بھی شامل ہے، دو علامتیں ہیں، کلکتہ اور بمبئی۔ جدید ادب کی تخلیق اور بقا کے لئے ہمیں ایک علامت کو لینا ہوگا اور ایک کو رد کرنا ہوگا۔‘‘
(بلراج مین را، تنبولا)
کیا قیامت ہے کہ این ڈی اے کا اقتدار ختم ہوا تو Senses میں بھاری گراوٹ آ گئی۔ کیا واقعی ہمیں اپنی اجتماعی زندگی کے سیاق میں اپنی ترقی پسندی اور اپنی جدیدیت کا تعین نہیں کرنا چاہئے تھا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.