بارہ قبائوں کی سہیلی۔۔۔۔عذرا پروین
وہ میرے رستے میں آگ رکھ کر مجھے سفر سے ڈرا رہاتھا
اب آگ پر ننگے پائوںچل کر میں اس کو ڈرنا سکھا رہی ہوں
یہ شعر عذرا پروین کی شعری کائنات کے فکری عناصر کاتعارف اور عذرا کی حوصلہ مند ذات کا شناخت نامہ ہے ۔عذرا کی پوری شاعری آگ پر ننگے پائوں چلنے سے عبارت ہے ۔آدھی ادھوری عورت کا کرب معاشرے کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں بلکہ روز ازل سے عورت کو مصلوب کیا جاتا رہا ہے اور مطعون بھی اسی کی ذات رہی ۔ہردور میں حساس عورتوں نے اس سسٹم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔لیکن جو آگ اور آگ کی جیسی حدت عذرا کے لہجے میں ملتی ہے، وہ نئی ہے ۔الفاظ واحتجاج کا ایک رقص جنوں ہے جو کاغذ کے سینے پر جاری ہے ۔ ایک دیوانہ وار اضطراب ہے عورت کے حال پر، اس کے نصیب پر ، اس کی بے بسی پر،اس کی مصلوبیت پر اور شدید نفی ہے معاشرے کے دہرے پیمانے کے لئے، مرد کے ناروا رویے،اس کی محدود سوچ،اس کے خودغرضانہ برتائو،اس کی مفاد پرستی،اس کے ظلم، اس کی اجارہ داری کے لئے۔ معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری اور عورت کی مصلوبیت کی داستان خونچکاںہے ۔۔۔۔ ’’ بارہ قبائوں کی سہیلی ‘‘۔بقول عذرا پروین :
’’یہ بارہ قبائیں،بارہ موسم اور ان کے سارے رنگ ،سب ان کہے روپ اپنے قاری کی نذر!میری آوازکی گوریا کا نوچا گیا ایک ایک پنکھ بے لفظ آسمانوںمیں اڑادینے والوں کی فتح سے لڑتے لڑتے یقین کی ایک ایک کرچ بٹور کر ہم پھر سے جسارت کر رہے۔گرچہ اس سفر میں بار بارمیرا یقین ٹوٹاہے ۔میری عمر میری آنکھیں سب تھک گئیں ہیںیہ خواب دیکھتے دیکھتے کہ میری چتا کے گواہ آپ بھی ہو سکیں۔وہ چتا جس پر میںبرسوںزندہ لٹائی گئی ہوںاور آج بھی لیٹی ہوں۔یہ کتاب روپ کنور کی اسی چتا کے نام۔۔۔۔۔۔ بہت بار لگا کہ جیسے بمعہ کتاب میں جلائی جا چکی ہوں۔بہت بار لگا بمعہ اپنے لفظوں کے دفنا دی گئی ہوں۔‘‘
احساس کی یہ شدت اور لفظ لفظ جھلکتا یہ کرب یونہی نہیں وردان ہو تا ہے۔زندگی کی پتھریلی اور سلگتی راہوںپر ننگے پائوںچلنے کے طفیل یہ نعمت حاصل ہو تی ہے۔’’ بارہ قبائوں کی سہیلی ‘‘ عذرا پروین کی انفرادی حکایت محض نہیں ہے بلکہ من حیث القوم ’’ عورت‘‘ اس داستان کا کردار ہے۔۔۔۔۔بالخصوص حساس اور ذہین عورت۔
اردو شاعری کے منظرنامے پر شاعرات کے کلام کو دیکھا جائے تو ابتدا سے تا حال بیشتر شاعرات کی فکری اڑان چند مخصوص موضوعات تک محدود رہتی ہے۔مردوں کی کج ادائی یا جفاکاری،ذات کا کرب ،خواہشات وجذبات کی ناآسودگی، محبت کی تشنگی، اپنی کم مائیگی کا احساس وغیرہ گویا ان کی شاعری محض اپنی ذات کے گرد ہی گھو متی رہ جاتی ہے، اظہار کائنات کا وسیلہ نہیں بن پاتی۔ہاں البتہ جن شاعرات کے یہاں فکری ضبط اور فنی رچائوملتا ہے ،ان کی شاعری آفاقیت کی حامل بن جاتی ہے ۔عذرا کا کمال یہ ہے کہ وہ حصار ذات سے باہر آکر کائنات اور اس کے عوامل کا مشاہدہ کرتی ہیں۔غم جاناںیا ستم مرداں کے روایتی دائرے سے باہر بھی ان کی فکری چرا گاہ ہے۔عذرا کی شاعری نسائی شاعری کی اس روایت کی توسیع ہے جس نے معاشرے کی ناہموار یوںاور دہرے رویوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا۔وہ معاشرے کے اس منافقانہ روییّ سے متنفر ہیں جو مذہبی احکامات میں بھی مردوزن کے لئے الگ الگ میزان مقرر کرتا ہے۔مذہبی روایات اور اسلامی اسباق سے آگاہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی ٹھیکیداروں کے ان حربوں سے بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح وہ قرآنی آیات کے حوالے دے کرعورتوں کی ذہنی آزادی اور ان کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ مقدس آیات مردوزن دونوں کے لئے یکساں طور پر قابل احترام اور قابل تقلید ہیں۔علم و آگہی نے عذرا کے لہجے کو جو اعتماد بخشا ہے،وہ ان کی باغیانہ لیَ کو بلند آہنگی عطا کرتا ہے ؎
بنے ہوئے تو
وہ سب مومن تھے
اتنے اتنے’’بڑے مومن‘‘کہ مجھ پر ظلم کرنے کے جواز بھی
قرآن سے فراہم کر لیتے تھے(نہیں جانا میں نے کبھی کہ قرآن میرے لئے بھی اتنا ہی رحمت
ہے جتنا ان کے لئے)
’’پڑھو سورہ نساء کا پانچواں رکوع!‘‘
’’پڑھو سورہ نساء کا چھٹا یا ساتواں رکوع!‘‘
’’میں ان پانچویں چھٹے اور ساتویں رکوع میں جا رہی ہوں مگر۔۔۔
تم۔۔۔؟ تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟
’’میں قرآن سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔؟
پڑھ ڈالو میرے لوٹنے تک سورہ النساء کے سب رکوع۔۔۔
ورنہ سورہ طلاق ۔۔۔پڑھتے بسر ہوگی (سپلائر ۲)
یا رسول اللہؐ جو اپنی ہر فرعونی منشا پر
آپؐکے نام کی مہر اور ظلم سے میرے انکارپرآپ کے نام کاپیپرویٹ رکھتے رہے ہوں
جو ساری زندگی پورا قرآن چھوڑ کر بدنیتی سے صرف سورہ نسا پڑھتے رہے ہوں
جنھوںنے سورہ نساء کو بار بار عورت کی ہتک کے لئے استعمال کیا ہو
چودہ سالوں میں جنہوں نے آپ کی سمیٹی ہوئی نسائیت کو
سورہ نساء کی ضرب سے بکھیر دیا ہو
مجھے کیا جنہوں نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا!
ان کی سزا رسول اللہ ؟ ان کے نام رسول اللہ؟
( مردہ عورت کی زندہ ڈائری ۔۔۔۱ )
عورت مر گئی
ماں جاگی
اور نکل پڑی ڈھو نڈنے اپنا اور بچوں کا چھپا ہو آج اور کل!
راستے میں دیکھا بھاگتی ہو ئی عورت نے
عورت کے سدھا رنے کے لئے مسجدوں میں اجتماع
قدم قدم پر تبلیغ عورت کے لئے
راستے عورت کے لئے
گلیاں،کوچے،چوبارے عورت کے لئے
بولتے ہیں ،بولتے ہیں،بولتے ہی رہتے ہیں۔
پتھر چیختے رہتے ہیں،چا بکیں پکارتی ہیں
عورت سہم گئی ہے
چلتے چلتے رک گئی ہے!
یہ آوازیں تو کہیں اور لے جا رہی ہیں
مگر میرے بچوں کے لئے کھانا،گھر اور سایہ کہیں اور ہے !
کہیں اور! (مردہ عورت کی زندہ ڈائری ۳)
مرد اس معاشرے کا کلیدی کردار ہے اور عورت ازل سے اس کی دل بستگی کا ’’سامان‘‘۔سامان جب تک محض دل بستگی تک محدود رہے تبھی تک اس کی قدر وقیمت بر قرار رہتی ہے ۔اگر وہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے کے لائق بن جائے تو ہدف ملامت بن جاتی ہے۔اس معاشرے نے رام کی پیروی میں سیتا کو بن باس جاتے دیکھا ہے۔۔۔۔سیتا کے ساتھ کسی رام نے اگنی پر یکشا نہیں دی ہے۔عذرا ’’رام‘‘سے اگنی پریکشا کا مطالبہ نہیں کرتیںبلکہ انہیں سیتا کی یکطرفہ وفا پرستی پر اعتراض ہے ؎
مگر میں سیتا نہیں رام کی پڑی رہ جائوں اس جنگل میں وفا کے نام پر
’’انورادھا‘‘نہیںرجنیش کی بنائی ہوئی کہ بنا لوں جسم کو
سارو جنک مو ترا لیہ بغاوت اور آزادی کے
نام پر
مگر تم
آریہ سماجی مسلمانو!
رجنیشی مومنو!
آئو۔۔۔۔۔دیکھو اور سنو کہ ہم
سورہ نساء کے سارے رکوع ختم کرکے اٹھے ہیں
اور تمھیں ہم خود سناتے ہیں
سورہ طلاق کے کچھ رکوع
(سپلائر ۲)
ہم ہی مرتے ہیں کیوں بس وفا کے لئے
تم نہیں کیا کسی بھی چتا کے لئے
گر تمھاری طرح
میرا دل بھی
تمہا رے بنا بھی دھڑکتا رہے
بے وفائی ہے کیوں؟
بے وفائی کی ایجاددستور میزان تم ہو پتہ ہے
مگر اب مرا دل بھی کچھ بے وفا ہو چلا ہے
کہ تمہارے بنا بھی دھڑکنے چلا ہے
یہ اٹھ کر ستی کی چتاسے
ادھر جا رہا ہے
جہاںتم نہیں ہو،جہاں تم نہیںہو!
کہ میںروپ ہوں اب
نہ اب میںکنور ہوں
محض اپنے دل کی ہی
اب ہم سفر ہوں
(یہ وفا کیا ہے آخر؟ )
سپلائر سیریز اور مردہ عورت کی زندہ ڈائری سیریزنظمیں عذرا کی فکراور احساسات کا اصل اور مکمل نثری نظمیہ اظہار ہیں۔یہ نظمیںان کے ذاتی تجربات اور تاثرات کا نچوڑ ہیں۔ان نظموں میں ان کا ذاتی کرب نمایاں ہے۔لیکن جب حقائق کا جائزہ لیا جائے کہ ۔۔۔۔۔۔۔دور جاہلیت میںبیٹیوں کے ساتھ ہو نے والا سلوک اب بھی اپنی صورت بدل کر معاشرے میں مروّج ہے۔عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور کمال مہربانی کی آیتیں اور فرمان معاشرتی سطح پر حوالہ نہیں بنتیں۔نام نہاد تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے میںآج بھی عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔راستوں پر یا سفر کے دوران اسے ایک وجود نہیں بلکہ لمسیاتی لذت کا ایک پیکر سمجھا جاتا ہے۔دفتروںمیں اس کی شناخت اس کی کارکردگی کی بجائے اس کے لب و رخسار اور نین ونقش سے ہو تی ہے۔اپنے مسائل حل کرنے کے واسطے جدوجہدکرتی ہوئی عورت آج بھی محترم نہیں ہے۔شوہر کے گھر سے نکالی ہوئی یا نکلنے پر مجبورعورت خاندان اور معاشرے کی لعنت وملامت سے آج بھی محفوظ نہیں۔۔۔۔۔تو یہ اظہار ذات،اظہار کائنات کی تفسیر بن جاتی ہے۔ بلاشبہ،اس قبیل کی نظموں میںتخلیقی ضبط کا دامن چھوٹنے کا اندیشہ رہتا ہے۔عذرا نے ایسے موضوعات کو کامیابی سے برتنے کی کوشش کی ہے لیکن کہیں کہیںشدت جذبات ان کے تخلیقی ضبط پر حاوی ہو جاتا ہے۔
عذرا پروین نے اپنی زیادہ تر نظموں کا تانا بانا’مرد‘کے گرد بنا ہے۔جہاں ایک طرف انہو ں نے شدیداحتجاجی لیَ میں مرد اساس معاشرے کے دہرے رو یے کو نشانہ بنایا ہے وہیں بحیثیت فرد بھی اس کی فطرت کی بو قلمونی اورنیرنگی کا تجزیہ کیا ہے۔’’مری سنگ آنکھیں‘‘میں رنگین تتلی کے ٹوٹے پروں کی تڑپ دیکھنے کی للک اور نئی تتلی کی کھوج ،’’سندباد جہازی‘‘ میں نئے نئے جزیروں کی تلاش،’’ڈئیر منافق‘‘ میںنسوانی صنف کا ذائقہ کشید کرنے کی صفت،’’فیشن چینل‘‘ میں عورت کی برہنگی کے شیدائی،’’گبرو‘‘میں پیاس نہ ہو نے کے باوجودسمندر گھیرنے کی فطرت کااستعارہ پیش کیا گیا ہے۔عذراؔ مرد کی ازلی صفات اور عورت کی نسائی جبلت سے بخوبی واقف ہیں ۔انہیں احساس ہے کہ عورت کی نسوانی کمزوریاں ہی مردانہ حربوں کو توانائی عطا کرتی ہیں۔صلائے عام ہے مردان ِ نکتہ داں کے لئے کہ جھلسے ہوئے چہرے کو گل رعنا،سسکتی آنکھوں کو میخانہ، دھوپ زدہ عارض کو گلِ ترلکھو کیو نکہ ؎
میں کہ خوداپنی ہی مخبر ہوںبتاتی ہوں تمہیں
کہ مجھے رب نے فقط دھو کے اٹھانے کے لئے
اور تمہیں راس رچانے کے لئے بھیجا ہے
میری گھٹی میں حماقت ہی نہیں
دھو کہ کھانے کی لیاقت بھی بہت شامل ہے
دیکھو،موقع ہے سنہرا،اب کی
دو فریب اتنے کہ احساس ِ حقیقت نہ رہے!
تم کو اک حوا سے افسوسِ ہزیمت نہ رہے
(فیضانِ حماقت)
نسائی جبلت عورت کوتسلیم ورضاکی منزل کی جانب لے جاتی ہے لیکن اس کی ذہانت متضاد رویوںاورمنافقانہ اصولوں کی نفی کرتی ہے۔یہیں آکراس کی شخصیت کشمکش میں مبتلا ہو کر شکست وریخت کا شکار ہو جاتی ہے لیکن جو شخصیتیں صالح قدروں کی امین ہو تی ہیں،وہ فرسٹر یشن سے محفوظ رہتی ہیں۔لیکن شاکی وہ بھی رہتی ہیںکہ وفا کی راہ پر تنہا قدموں کے نشاںنہیں بنتے ۔ایک مخلص رفاقت آج بھی عورت کی اولین خواہش اور پہلی ترجیح ہے۔عذرا کے یہاںبھی ایک مشفق اور دوست نماشوہر کی رفاقت کی ازلی خواہش موجود ہے ۔ان کے یہاںمرد کے تسلط سے آزادی کی طلب نہیں ہے اور نہ ہی وہ بے سائبان زندگی کی سراب آسالذت سے ہم کنار ہو نا چاہتی ہیں ۔بلکہ وہ اپنے حقیقی منصب کی متلاشی ہیں ؎
کاش تم قلم ہو تے
سادہ ورق ہو تی میں
کاش ہو تے تم آندھی
خشک پتہ ہوتی میں
بے سبب بھی ہوتا کچھ
بے سبب بنا موسم کچھ ہوا نہیں لیکن
کاش بادلوں کے در
بے سبب بھی وا ہوتے
بے فصل کا گل ہم تم بے وجہ صبا ہو تے!
کاش میرے سجدوں کے تم ہی بس خدا ہو تے
کاش تم خدا ہو تے
میرا آئینہ ہوتے
پر نہ تم سمندر ہو
نہ میں لہر ہو پائی
نہ خدا ہوئے تم بھی
کب میں سجدہ ہو پائی
(کاش)
جو اندر کی عورت ہے معصوم سادہ
وہ کم مانگتی ہے
مگر شاعرہ
اپنے پتھر سے پورا صنم مانگتی ہے
(مگر شاعرہ)
اس برس۔۔۔!
میں ہوں پھر ہجر کا کچا سا نیا سبزشجر
پھر تری یاد کے وحشی صفت ناخن ہیں۔۔۔
کہ جو ہر یالی کو میری پیہم
روز کھرچے ہی چلے جاتے ہیں
پھر درختوں کی قطاروں میں مجھے
کتنا البیلا،عجب اور انوکھا کر کے
بھیڑ میں مجھ کو نمایاں کرکے
میرے پتوں پہ مری شاخوں پہ
ایک مبہم سی جو تحریر لکھا کرتے ہیں
اس کو پڑھنا ہی تو ٹھہرا ہے میرا کام صنم!!
ہاں ترا نام،ترانام،ترا نام صنم!!
اس برس۔۔۔
میں ہوںپھر ہجر کا کچاسانیا سبز شجر
(اس برس پھر)
ان نظموں کے علاوہ’’آج میں تم میں جاگونگی‘‘ ’’سنو اگر‘‘اور ’’موسم میرے موسم‘‘میںنسائی حسیت اور نسوانی کیفیات کا بڑا ہی روح پرور فنکارانہ اظہار ملتا ہے۔عذرا کی شاعری میںعبدومعبود کے رشتے کی مختلف کیفیتوںکا اظہار بھی خالص نسائی حسیت کے ساتھ ملتا ہے ؎
تو کہاں کہاں ہے بتا ئوںگی،ترا ہونا گا کے سنائوں گی
میری عبدیت مجھے پھیر دے مرا ساز دے مرا ساز دے
(حمدیہ غزل)
لیکن شاعرہ کو اپنی کم مائیگی اپنی محدود اڑان اضطراب میں مبتلا کرتی ہے ؎
جہاں جہاں سے
جن جن دشائوں سے تم طلوع ہو رہے ہو
تمھیں پتہ ہے
وہ میری دسترس سے کتنی دور ہیں ؟
کیا تم نہیں جانتے کہ ان دشائوں پر
کن کن ہاتھوں کی گرفت ہے
اور وہ معبود با خبر سے التجا کر بیٹھتی ہے ؎
کبھی تو کسی ایسی دشاسے بھی طلوع ہو جا ئو
جو میری دسترس میں ہو!
کبھی اس آسمان پر بھی آئو
جو میری اڑانوں کے لئے اجنبی نہ ہو !
(اے میرے خدا)
لیکن شاعرہ اس رمز سے واقف ہے کہ معبود کی شان ہے بے نیازی اور عبدیت کا تقاضہ ہے بے چارگی۔جب تک اس تقاضے کی تکمیل نہیں ہو تی ،عبدومعبود میں ربط نہیں ہو پاتا ؎
یعنی ایک وجود ایک مکمل ذات
اپنی ٹوٹل بے چارگی کو پہچان پاتی ہے
تب یہ پورا نمبر سہی کوڈ کے ساتھ
ڈائل کر پاتی ہے
پھر یہ نمبر no reply نہیں ہو تا ہے
بالآخراس دن ہم سن پاتے ہیں
’’یس،خدااسپیکنگ۔۔۔۔!!
(یس،خدا اسپیکنگ)
اور خدا سے رابطہ ہو تے ہی یہ آگہی حاصل ہو تی ہے کہ بندگی کی معراج ہے وقت اور حالات کی ہر تاریکی، گھٹن اور اذیت سے بہ حالت تسلیم ورضاگذرجانا ۔تبھی بندگی کا اخلاص ثابت ہو تا ہے ۔لیکن مدت سے حالات کے شارپنر کی گردش میں گھومتا وجود اب نابود ہو نے کی منزل پر ہے اور وہ خدا سے فریاد کر بیٹھتی ہے ؎
کل جب تم آسمانوں پر
پکار پکار کر
آدم کو آگاہ کر رہے تھے
کہ’’خانم تمہارا لباس ہے اور تم خانم کا لباس ہو ‘‘!
تب اگر واقعی خانم تمہارابُنا ہو ا لباس تھی
تو یہ لباس ’’چیخ‘‘ کیوں بن گیا؟
یہ ’’تم ‘‘آخر ہے کون؟اور کہاں ہے ؟؟
اگر تمہاری بُنی قبا کو بھی
تار تارکر دینے کی سہو لت جبر کو حاصل ہے تو ـــ۔۔۔۔۔؟
سچ سچ چپکے سے بتا دو کہ خدا کون ہوا ؟
بولو میرے خالق ؟
میں تمہاری ہی بُنی ہوئی قبا بول رہی ہوں !
(کون خدا ہے)
لیکن شاعرہ کے حوصلے حالات کی ستم ظریفیوں سے زیادہ تواناہیں ۔وہ زندگی کو مثبت نقطئہ نظرسے دیکھتی ہیں۔ مروّجہاور فرسودہ معاشرتی قدریںان کے حوصلوں کی رفتار کا ساتھ دینے میںقاصر نظر آتے ہیں ،تو وہ اپنے لئے نئی قدریں اور نیا معیار وضع کر نے میں یقین رکھتی ہیں ؎
اب میرا نام زندگی ہے
اب میں اٹھ پائی ہوں
اور ننگے پیر ہی چلنا چاہتی ہوں
ہاں اگر کبھی یہ صحرا مجھے میرے پیروں سے بڑالگا بھی
اور گرم ریت میرے سفر سے بھی زیادہ کرکری ہو گئی
اس کڑی دھوپ میں مجھے ’’شوق‘‘ سے زیادہ گمبھیر درجہ حرارت نظر آنے لگا!
میں خود موچی بن جائونگی
اپنی ناپ کے جوتے خود بنائونگی
(ڈئیر موچی )
عذرا پروین کی فکری کائنات کا دائرہ یہیں تک محدود نہیںہے۔ان کے تخیل کا آسمان نہایت بسیط ہے ۔عرفانـ ذات کی اذیت’’عرفان گزیدگی‘‘میںنمایاں ہے۔روح کی بیکرانی کا سحر آگیں بیان ’’سنو اگر ‘‘ میں سمیٹا گیا ہے ۔عورت اور شاعرہ کی منصبی اور فطری کشمکش کی جھلک ’’یہ نشہ ‘‘ ، ’’مگر شاعرہ۔۔۱‘‘اور ’’ تنہا کردو‘‘ میں ملتی ہے ۔حالات کے جبر تلے پگھلتے وجود کا المیہ ’’مجھے مت شارپ کرو‘‘ ، ’’کچا گلابی دھاگہ میں ‘‘، ’’آدھی آدھی‘‘ اور ’’میں جا رہی ہوں‘‘ میں پیش ہوا ہے۔ماں کی ممتا اگر’’بیٹی مری میںاندھی ماں تو میرا چشمہ!‘‘ ، ’’میرے بعد‘‘، ’’نورین میری آواز ۲‘‘ میں چھلک رہی ہے تو ایک بیٹی کے جذبات’’ماں‘‘اور ’’اے مقبوضہ ماں‘‘ میں جھلک رہے ہیں ۔ملازمت پیشہ عورت کی بے چارگی ’’کہاں‘‘ میں نظر آتی ہے اور محبت کی صارفیت ’’پے اسکیل ‘‘ میں نمایاں ہوئی ہے ۔بکھرتی ہوئی مشترکہ تہذیب، وطن کی سا لمیت کی شکستگی کے خطرات، لسانی منافرت، فرقہ پرستی اور مذہبی سیاست کی دلدوز داستان ’’یہ بچہ بھارت ہے نیا بھارت‘‘ ، ’’۶ دسمبر کے بعد‘‘، ’’کیچوئے‘‘ اور’’میں ہندوستان
ہوں،بھارت ہوں!‘‘ میں نہایت دلگیری کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
عذرا پروین کی لفظیات اور ان کا اسلوب بیان ان کے موضوعات میں تہہ داری پیدا کرتا ہے۔ ان کے یہاں ندرتِ اظہار ہے ، جو بقول ساقی فاروقی خالص ان کا اپنا ہے۔عذرا کو نئے نئے الفاظ تراشنے اور تراکیب وضع کرنے میں مہارت حاصل ہے۔طفلِ گرفتارِ تغیر،شاخِ تغیر،عرفان گزیدہ،فیضانِ حماقت،غمِ مفتوح،کثیر مردنی،آگِ کہن،مہلک سوال،کثرتِ کبر جیسے نادر الفاظ وتراکیب جا بجا ملتے ہیں۔ عذرا نے ہندی اور انگریزی الفاظ مثلاً دشائیں ،نراکار ، ولاپ ، سنسکار،سگندھ،ایفی شینسی، پروسس، پرفارمینس، پاور گیم وغیرہ کے استعمال سے بھی اردو لفظیات کے سرمایے کو وسیع کیا ہے ۔انہوں نے ہند اسلامی تلمیحات کے ذریعے اپنی نظموں کی معنویت میں اضافہ کیا ہے ۔عذراؔ نے مختلف جانوروں اور پرندوں کو بھی ان کی خصلت کے اعتبار سے بطور استعارہ پیش کیا ہے ۔استعارے کی بات آتی ہے، تو عذراؔ کے مخصوص ومحبوب استعارہ ’’موسم‘‘ کا ذکر ضروری ہے ۔عذراؔ نے اپنی شاعری میں’موسم‘ کو مختلف رنگوں اور کیفیتوں میں برتا ہے ۔’موسم‘ان کے یہاں کبھی وقت کا استعارہ ہے تو کبھی حالات کا،کبھی رہبر کا تو کبھی دمساز کا،کبھی حواسوں کا دفینہ ہے، تو کبھی سانسوں کا سفینہ،کبھی تغیر فطرت کااشارہ ہے تو کبھی ہمت و حوصلہ کا سبب،کبھی وقت کا جبر ہے تو کبھی محبوب کا پیکر۔’موسم‘ کا حوالہ عذراؔ کے شعری کائنات کو تہہ داری بھی عطا کرتا ہے اور معنی آفرینی بھی۔اور ’موسم‘پر ہی عذراؔ نے اپنے مجموعے کے عنوان کی اساس بھی رکھی ؎
موسم میں تری بارہ قبائوں کی سہیلی
موسم میں ترا بھید ہوں تو میری پہیلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.