بیدی کا فن: ’ایک چادر میلی سی‘ کے حوالے سے
اس ناولٹ کے متعلق بیدی کا بیان یہ ہے کہ اس میں میں نے وہ زندگی پیش کی ہے جسے میں نے بہت زیادہ قریب دے دیکھا ہے۔ یہ کہانی میرے اپنے گاؤں کی ہے اور اس کے بہت سے کردار حقیقی ہیں، پھر ملک راج آنند کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ،
’’فن اُسی وقت سے بلند پا یہ ہوسکتا ہے جب فنکار اپنی ذات اور اپنے ماحول کے اندرون میں جھانکتا ہے اور اس کے رشتوں کی گرہ کھولتا ہے۔‘‘ (علی گڑھ میں خطاب، مشمولہ ’باقیات بیدی‘، ص ۱۱۱۔ ۱۱۰)
فنی نقطہء نظر سے یہ بات تو زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ کہانی کا پلاٹ اور اس کے اکثر واقعات بیدی کا شخصی تجربہ ہیں۔ اس بات سے ناول کی منزلت میں نہ تو اضافہ ہوتا ہے نہ کوئی تخفیف۔ البتہ ان مانوس واقعات اور حقیقی کرداروں کی جو بات فن میں تبدیل کردیتی ہے وہ فرد اور معاشرہ کے درمیانمخفی رشتوں کی شناخت اور ان کی گرہ کشائی ہے۔ اِسی صفت نے ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کو بہت بامعنی اور فکر انگیز بنا دیا ہے۔ کہانی کے فنی مرتبہ کا انحصار اس بصیرت پر ہے کہ فنکار کتنی دور تک معاشرے کی اندرون اور کردار کے باطن میں اتر سکتا ہے۔ اس کی تخلیقی بصیرت کتنے نازک اور پیچیدہ رشتوں کو گرہ کشائی کے لئے منتخب کرتی ہے۔ پھر وسائلِ اظہار پر قدرت، فنکارکی آزمائش کا ایک مشکل مرحلہ ہے کہ وہ ان پیچیدہ گرہوں کے کھولنے پر کتنی دست رس رکھتا ہے اور اُسے بیان پر کتنی قدرت ہے۔
اس ناولٹ میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بیدی نے کن نا قابلِ گرفت رشتوں کو اہمیت دی ہے اور ان کے غیر مرئی ابعاد کو کس ہنر مندی سے روشن کیا ہے۔ بیدی کا امتیاز یہ ہے کہ تلوکا، رانو اور منگل کے واقعات اور ان کے رشتوں کو انہوں نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ پوری کائنات اس المیہ میں شریک ہو جاتی ہے اور مقامی واقعات کا دائرہ، رفتہ رفتہ مرد اور عورت کے درمیان ازلی رشتے کی تفسیر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اس ناول میں زمین اور آسمان کی طنابیں کھنچ گئی ہیں اور ایک بھری پُری کائنات پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹلہ میں سمٹ آئی ہے۔
خدا کی بنائی ہوئی اس زمین پر بیدی کو پنجاپ سے بڑھ کر کوئی خطہء ازض اور یہاں کی زندگی اور زندہ دلی سے زیادہ کوئی دوسرا معاشرہ عزیز نہیں۔ وہ پنجاب کو خلاصۂ کائنات سمجھتے ہیں۔ پنجاب ان کے باطن میں سانس لیتا ہے۔ ان کے خون میں شامل ہے۔ وہ یہاں کے لوگوں کو خواہ مرد ہوں یا عورت خوب سمجھتے ہیں۔ اس لئے پنجاب کے پس منظر میں ترتیب دیا گیا ناولٹ کا پلاٹ خود ان کی روح سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ناولٹ کی ابتدا میں مقدمہ کے طور پر ’’قصہ کبوتر اور کبوتری‘‘ شامل ہے۔ اس میں عورت اور مرد کے پیچیدہ اور ازلی رشتوں پر بیدی نے جس فنکاری سے تمثیل کے پیرایہ میں اظہارِ خیال ہے وہ خود ناولٹ کے مرکزی خیال کو ایک آفاقی جہت عطا کردیتا ہے اور کہانی واقعات کی حقیقی اور زمینی سطح سے بہت بلند ہوجاتی ہے۔ پر بودھ (کبوتر) اورمیتری (کبوتری) کا یہ معنی خیز مکالمہ سنئے،
پربودھ کہتا ہے،
’’رانی ہم نے کتنی دنیا دیکھی ہے کتنے جُگ کتنے دیس۔ پر اس دھرتی پر ایک ایسا دیس ہے جسکی کوئی مثال نہیں۔’’ پنجاب، میتری نیچے میدانوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ اٹھی اور پھر اس نے ایک سرد آہ بھری جسے پربودھ نے نہ دیکھا، تم نے کیسے بوجھ لیا پربودھ نے ششدرہو کر پوچھا۔ اور اس کی لمبی چونچ نے ایک سرخی پکڑ لی۔ میتری کہنے لگی وہی تو ایک دیس ہے جسکی دھرتی میں سے آٹھوں پہر لوبان کی خوشبو اٹھتی رہتی ہے جس کا لمس بدن میں صحت کی خارش پیداکرتاہے اس کے پر بت آسمانوں کے ہم سایے ہیں اور دھرتی کی ہری اوڑھنی پر ویرانی کے رنگ کا ایک بھی چھینٹا تو نہیں۔ اس کے دریا تو ایک طرف، پوکھر بھی انوراگ سے واقف ہیں۔‘‘
جہاں مرد اکھڑّ ہیں اور عورتیں جھگّڑ۔ وہ خود ہی اپنے قانون بناتے ہیں اور اگلے پل بے بس ہو کر انہیں توڑ بھی دیتے ہیں اور پھر نئے قانون وضع کرنے کے لئے چل نکلتے ہیں۔۔۔ نہ معلوم وہ کس مٹی کے بنے ہیں۔ جمتی ہوئی برفوں اور تپتی ہوئی ریتوں میں وہ بس سکتے ہیں جہاں دنیا کے لوگ دوسروں ہی کی نکتہ چینی میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ جہاں بھی لوگ تمھیں ایک بلند آواز سے ہنستے، قہقہہ لگاتے ہوئے سنائی دیں۔ وہاں ضرور کوئی پنجابی ہوگا کیونکہ وہ دنیا کا ماتم نہیں کرنے آیا اور نہ فلسفہ دانی اس کانصب العین ہے۔ وہ جو اندر سے ہے وہی باہر سے ہے۔ اس کے جیون کا رہسّیہ یہ ہے کہ کوئی رہسّیہ نہیں۔ (ص ۸۔ ۷؍ ایک چادر میلی سی)
یہ ہے بیدی کا پنجاب جس کے ایک گاؤں کوٹلہ کا، بلکہ کوٹلے کے ایک گھر کا قصہ انھوں نے اس ناولٹ میں بیان کیا ہے۔
ابتدائی پانچ صفحات میں ہی ناولٹ کا مکانی عرصہ متعین ہوجاتا۔ تلوکا، رانو، تلو کا کا بھائی منگل، چودھری مہربان داس، بابا ہری داس جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے لوہے کا لنگوٹ پہن رکھا ہے اور اب تک نہیں جانتا کہ عورت کیا چیز ہے؟ اب آئندہ پیش آنے والے واقعات کے لئے اسٹیج تیار ہوچکا ہے۔ تلو کا کی سماجی حیثیت، اس کا پیشہ اور طبقہ، اس کی بیوی رانو کی جانوروں سے بدتر زندگی اور مہربان داس کے دھرم شا لے میں ہونے والے دھندے کا اجمالی خاکہ انہیں پانچ صفحات میں تیار ہوجاتا ہے۔ کوٹلہ گاؤں میں دیوی کا مندر ایک مذہبی زیارت گاہ ہے۔ عقیدت مند دور دور سے اس مندر کی دیوی کی زیارت کے لئے سفر کر کے آتے اور مہربان داس کے دھرم شالے میں ٹھہرتے ہیں۔ تلو کا دن بھر اکّا چلاتا ہے لیکن شام کے وقت نصیبوں والے اڈے پرجا کھڑا ہوتا ہے۔ زیارت کے لئے آنے والی سواریوں کو وہ مہربان داس کے دھرم شالے میں پہونچا دیتا ہے۔ وہاں مسافروں خصوصاً عورتوں کیساتھ کیا واقعات پیش آتے ہیں ؟ اس کی تفصیل ہمیں ابتدائی صفحات ہی میں معلوم ہوجاتی ہے۔ ناول کا پہلا جملہ ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کا ایک مبہم احساس قاری کو ہونے لگتا ہے۔ اس ابتدائی جملے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ناول نگار کے ذہن میں کہانی کا پورا خاکہ ضروری تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔ افسانے کے فن سے متعلق بیدی نے جو بات کہی تھی وہ ان کے اس ناولٹ پر بھی صادق آتی ہے کہ افسانہ میں ہر جزو اور کل کو ایک ساتھ رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا ہر اول، متداول اور آخری دستہ مل کر نہ بڑھیں تو یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ (افسانوی تجربہ اوراظہارکے تخلیقی مسائل، مشمولہ’کلیات بیدی‘جلددوم، ص۵۴۶، مرتب وارث علوی)
کہانی اس جملے سے شروع ہوتی ہے،
’’آج شام سورج کیٹکیہ بہت لال تھی۔ آج آسمان کے کوٹلے میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا اور اس کے خون کی چھینٹیں نیچے بکائن پر پڑتے ہوئے، تلوکے کے صحن میں ٹپک رہی تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی کچی دیوار کے پاس جہاں گھر کے لوگ کوڑا پھینکتے تھے، ڈبّومنہ اٹھاکررورہا تھا۔‘‘
پنجاب کا کوٹلہ گاؤں جو کہانی کا محل وقوع ہے آسمان کی وسعتوں سے رشتہ استوار کرلیتا ہے۔ زمین اور آسمان ایک وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ پوری کہانی اس مرکزی واقعے کے محور پر گردش کرتی ہے۔ بے گناہ ہونے کے باوجود تلوکا کا قتل ہوجاتا ہے اس کے بعد اس کی بیوی رانو پر گیا گزرتی ہے وہ کن حالات سے نبرد آزما ہے ؟ زندگی کی جنگ لڑتی یا حالات سے مصالحت کرتی ہے۔ تلوکا کے قتل کے بعد رانو کی شادی تلوکا کے چھوٹے بھائی منگل سے ہوجاتی ہے۔ منگل کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے میں وہ کن نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہے اور رانو کی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں تفصیلات سے ناولٹ کا پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطری رشتوں کی بے شمار نفسیاتی گرہیں جہاں مختلف مرحلوں پر کھلتی ہیں وہیں فرد اور ماحول کے درمیان کشمکش سے متعلق بہت سے سوالات بھی قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ مناظر کی تفصیلات سے قاری کو اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کہانی کے climaxاور انجام پر بیدی کی گرفت مضبوط ہے۔ پہلے جملے سے ہی ایک تخلیقی تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ ناول کے پہلے ہی باب میں سورج کے ٹکیہ کی لالی پرمزید روشنی پڑتی ہے۔ دو تین صفحات کے بعدہی کوٹلہ گاؤں میں پیش آنے والے المناک واقعے سے نہ صرف سورج اور چاند متاثر ہوتے ہیں بلکہ مذہبی اساطیر اور دیوی دیوتاؤں کے واقعات بھی اس المیہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ تلوکا ایک ۱۲۔ ۱۳ برس کی کمسن جاترن کو اپنے اکّے سے مہربان داس کے دھرم شالے میں پہونچاتا ہے۔ اس کے عوض میں اسے پینے کے لئے شراب کی بوتل اور کھانے کے لئے گوشت کے کچھ ٹکڑے مل جاتے ہیں۔ لیکن اس معصوم جاترن کے ساتھ دھرم شالے میں جو کچھ پیش آتا ہے اس کا ذمہ دار تلوکا کو قرار دیا جاتا ہے جسکی پاداش میں اس کا قتل ہوجاتا ہے۔ اب بیدی کا موثر اور فنکارانہ بیان ملاحظہ ہو،
’’تلوکے نے آج جس جاتر ن کو مہربان داس چودھری کے دھرم شالے میں چھوڑا وہ مشکل سے بارہ تیرہ برس کی ہوگی۔ دیوی کے پاس اپنے آپ کو بچانے کے لئے ترشول تھا جس سے اس نے بھیروں کا سر کاٹ کر الگ کردیا تھا۔ لیکن اس معصوم جاترن کے پاس صرف پیارے پیارے دو گلابی ہاتھ تھے جنہیں وہ بھیروں کے سامنے جوڑ سکتی تھی۔ پھر بدن جیسے تربوز کے گودے کا بنا ہو۔ جو مہربان کی چھری سے بچ نہ سکتا تھا شاید اسی لئے اس دن کا سورج، غصے میں لال اپنے رتھ کے گھوڑوں کو ایدھر چھانٹا۔ اُدھر چابک۔ اُدھر چھانٹا ایدھر چابک لگاتا ہوا سامنے خانقاہ والے کوئیں کے پاس فارم کے کپاس کے پیچھے کہیں گم ہوگیا تھا اور اوپر آسمان پر دوج کے نازک سے چاندکونچڑنے، پیلا ہونے کے لئے چھوڑ گیا تھا۔‘‘ (ایک چادر میلی سے، پہلا باب ص، ۱۲)
اس اقتباس میں سورج کی لالی کے ساتھ دوج کے نازک چاند کا پیلا پڑتا ہوا رنگ کمسن جاتر ن کی پوری روداد بیان کردیتا ہے۔ یہ بیدی کامخصوص اسلوب ہے کہ زمین پر پیش آنے والے واقعات میں وہ مظاہر کا ئنات اور مذہبی اساطیر کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اب تک سورج کے دو منظر آپ نے ملاحظہ فرمائے پہلے منظر میں سورج کی ٹکیہ بہت لال تھی جبکہ دوسرے منظر میں سورج غصے میں لال اپنے رتھ کے گھوڑوں کو چابک لگاتا ہوا خانقاہ والے کوئیں کے پاس کپاس کے پیچھے گم ہو جاتا ہے۔ لیکنکمسن جاترن کے بھائی نے جب تلوکا کا قتل کردیا تو اس پر ایک جنونی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ خون میں بسے ہوئے اپنے کپڑوں کو نچوڑ نچوڑ کر لہو اپنے سر پر ملنے لگا۔ معلوم ہوتا تھا جیسے دیوی کی روح اسمیں چلی آئی ہے۔ دو قتل ہوچکے ہیں ایک تلوکا کا اور دوسرا کم سن جاترن کااب قتل ہوجانے کے بعد اسی سورج کی کیفیت ملاحظہ ہو،
’’بے موسم بادلوں نے سورج کی آب و تاب کم کردی اور وقت سے پہلے اندھیرا چھا گیا۔ ویشنو دیوی مندر کے کلس تلوکے کے گھر میں جھانکنے لگے۔ بکائن نے پتیاں سمیٹ لیں اور ڈبو نے رونے بھونکنے کے بجائے اپنی دُم ٹانگوں میں سکوڑلی۔‘‘ (ایک چادر میلی سی۔ ص ۲۶)
یہاں تمام منظر سہما ہوا اور خاموش ہے کہ دیکھے پردۂ غیب سے اب کیا رونما ہوتا ہے۔ ناولٹ کے پہلے حصے کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے بیدی نے خود بھی یہ بات کہی ہے کہ،
’’ان ابتدائی جملوں نے ایک خوں آشام منظر سے قاری کے ذہن کو اس بات کے لئے چوکنا کردیا ہے کہ وہ ایک کریہہ (Grim) کہانی پڑھنے والا ہے جس میں خون اور قتل کی باتیں ہونگی۔ اس منظر کو کوٹلے سے متعلق کرتے ہوئے میں کوٹلے کو آسمان پر لے گیا ہوں جیسے یہ بجلی آسمان سے گرنے والی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قضاوقدرکے ہاتھوں انسان کتنا مجبور ہے (Abstract Painting) میں جیسے مصور ایک بھوکے آدمی کے پیٹ پر آنکھ بنادیتا ہے اسی طرح کی نقاشی ایک چادر میلی سی کے آغاز میں ہے۔‘‘
(راجندرسنگھ بیدی سے انٹرویو، ملاقاتی، نریش کمار شاد، ص۳۷۸، مشمولہ’باقیات بیدی‘ مرتب شمس الحق عثمانی)
واقعہ یہ ہے کہ کہانی کی جزئیات بنانے اور ترتیب دینے میں بیدی نہایت غور و فکر سے کام لیتے ہیں اورمنٹوکے الفاظ میں ’’سوچتے بہت ہیں‘‘ کہانی کے ہر واقعہ اور ہر بیان کا جواز خود کہانی میں موجود ہوتا ہے، بیدی کا مشاہدہ کتنا گہرا ہے اور عورت کی نفسیات پر اس کی گرفت کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ اس ناولٹ میں جابجا ہوتا ہے۔ کبھی ڈسکرپشن (Description) کی مدد سے کبھی (Narration) بیان کے ذریعہ اور کبھی مکالموں سے بیدی کسی کیفیت اور نفسیاتی کشمکش کو بڑے سلیقہ سے نمایاں کردیتے ہیں۔ بسااوقات، ہندوستانی اساطیر سے ماخوذکسی قصے کو کہانی میں شامل کرکے واقعے کی مابعد الطبعیاتی جہت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں جزئی واقعہ قضاوقدر کے ازلی اصول کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ نسوانی جذبات اور پیچیدہ نفسیات کو سمجھنے کے لئے ایک تیسری آنکھ بھی درکار ہوتی ہے۔ کیونکہ عورت اپنا بھید نہ تو آسانی سے کھولتی ہے نہ ہی بے محاباسب کچھ ظاہر کرتی ہے۔ ان باتوں کا تعلق عورت کی ظاہری شکل یا حسن و جمال سے نہیں ہوتا بلکہ نسوانیت کی انتہا سے ہوتا ہے۔ بیدی کے الفاظ میں،
’’جیسے اشٹمکا چاند، اپنا آدھا چھپائے رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ، روز بروز ایک ایک پردے، ڈوپٹے، چولی، انگیہ، سب کو الگ ڈالتا جاتا ہے اور آخر ایک دن، ایک رات پورنیما کے روپ میں آکر، کیسی بے خودی و مجبوری، کیسی ناداری اور لا چاری کے ساتھ، اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔‘‘ (ایک چادر میلی سی، ص ۸۴)
ناول کا راوی اس صورتِ حال کو تجریدی اور فلسفیانہ سطح تک بلند کرتے ہوئے مزید کہتا ہے،
’’کیا علم النساء، علم نجوم سے دور کی بات ہے ؟ کوئی بھی علم دوسرے علم سے فاصلہ رکھتا ہے ؟ جن لوگوں نے برسوں اور عادتاً آسمان میں جھانکا، ستاروں کو دیکھا ہو، ان کی جھل مل کے ساتھ مرے اورہل مل کے ساتھ جئے ہوں، اماوس کے ساتھ مرجھائے، پونم کے ساتھ کھلے ہوں، رجنی کی آنکھوں میں پلکوں کے نیچے، زمینوں سے بڑی آسمانوں سے بڑی، برق ومقناطیس کی وسعتوں جو راس رچائی جاتی ہے جو بھنگڑے اورجھمّراورلُڈّی ناچے جاتے ہیں، ان کے راز سمجھتے ہیں، وہی اشٹم کے چاند کا بھید بھی جانتے ہیں۔‘‘
(ایک چادر میلی سی، ص ۸۵)
اگر عورت کی روح کو سمجھنے کی یہی شرائط ہیں تو کم لوگ ہونگے جنہوں نے عورت کے بدن سے پرے جا کر اس کی روح اور باطن کو سمجھا ہو۔ بیدی نے نہ صرف عورت کو خوب سمجھا ہے بلکہ اس کی دست رس میں بیان کا وہ پیرایہ ہے جو قاری کو بھی اس روح کی جھلک دکھا سکتا ہے۔ بیدی نے ر انوکی جو تصویر بنائی ہے وہ دیوار پر آویزاں کسی تصویر کی طرح بے جان اور خاموش نہیں ہے۔ بلکہ زندگی سے بھرپور اور ہنگامہ خیز ہے۔ رانو اکثر تو قاری سے بھی ہم کلام ہوتی ہے۔ را نو کی ایک تصویر تو وہ ہے جو تلوکا کے ساتھ اس کی ازدواجی زندگی کے متعلق ہے۔ دوسری تصویر تلوکا کے قتل کے بعد اس کے چھوٹے بھائی منگل سے شادی کرنے کے بعد کی ہے۔ اس دوسری تصویر کے دو پہلو ہیں ایک تو وہ زندگی جس میں منگل کی کم عمری اور رشتوں کی نوعیت کے سبب دونوں ایک دوسرے سے ماں، بیٹے کی طرح پیش آتے ہیں۔ چادر ڈال لینے کے بعد بھی منگل اور رانو کے درمیان کوئی جسمانی رشتہ قائم نہیں ہوتااور بہت دنوں تک دونوں کے درمیان ایک ناقبل عبور فاصلہ برقرار رہتا ہے۔ ایک ایسا حجاب جو دونوں کو ایک نہیں ہونے دیتا۔ اس تصویر کا دوسرا پہلو منگل کے ساتھ رانو کی ازدواجی زندگی کا وہ حصہ ہے جب دونوں کے درمیان حجا بات اٹھ جاتے ہیں اور جنسی تعلق ان دونوں کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیتا ہے۔
رانو کی تصویر کا تیسرا رنگ اس کی بڑی بیٹی کی شادی سے متعلق ہے۔ یہ حصہ اگرچہ مختصر ہے لیکن رانو کی شخصیت کا ایک نہایت اہم پہلو پیش کرتا ہے۔ تلوکا کا قاتل جیل سے رہا ہونے کے بعد رانو اور تلوکا کی بیٹی سے شادی پراصرارکرتا ہے اور حالات کے جبر اور مستقبل کے اندیشوں سے مجبور ہو کر رانو بادل ناخواستہ خود کو اس فیصلے پر کسی طور راضی کرلیتی ہے۔ ان سبھی تصویروں میں ایک عالم آباد ہے کہ قاری اس میں گم ہو جاتا ہے۔ خصوصاً منگل سے شادی کی تجویز اور پھر شادی ہونے کے بعد رانو کی زندگی کا نشیب و فراز اس کہانی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ اسی حصے میں رانو ایک پوری عورت کے روپ میں نظر آتی ہے۔
رانو اور منگل عمروں کے تفاوت اور رشتے کی نوعیت کے سبب ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ تھے۔ اپنا ئیت اور غیریت کی یہ ملی جُلی تصویربیدی نے بہت فنکاری سے بنائی ہے۔ رانو اپنے دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیتی ہے، چلو اچھا ہے، مار تو نہیں پڑتی ہڈیوں کی سینک تو نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن اندر ہی اندر وہ ایک مسلسل خلا محسوس کرتی ہے۔ بہت دنوں تک سوچتے رہنے کے بعد بالآخر اسکی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ وہ منگل سے کیوں کچھ کہہ نہیں پاتی، کوئی فرمائش کیوں نہیں کرسکتی؟ دوسری عورتیں اناپ شناپ جومنہ میں آتا ہے۔ اپنے شوہروں کوبک دیتی ہیں۔ دن چھلّا، رات زیور، کچھ نہ کچھ مانگتی رہتی ہیں۔ اور اُسے لا کر دینا پڑتا ہے۔ بیدی نے رانو اور دوسری عورتوں کے درمیان فرق کی وجہ کی کوئی صراحت تو نہیں کی لیکن واقعات کے سیاق و سباق اور اپنے تجربات سے قاری خاموشی کے اس وقفے کو بھر لیتا ہے۔ اور اشاروں اور کنایوں میں کہی گئی بات ایک جزئی واقعے سے بلند ہو کر عالم گیر اصول میں بدل جاتی ہے۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب رانو اور منگل ایک دوسرے کو مخالف جنس کی حیثیت سے قبو ل کرلیتے ہیں اور دونوں ایک دو سرے پر اپناپورا حق سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن تبدیلی کی اس صورتِ حال میں قابل توجہ اورلطیف نکتہ یہ ہے کہ درمیان میں حائل اس پردے کو ہٹانے کا فیصلہ بھی رانو ہی کرتی ہے اور پیش قدمی بھی رانو ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اب راوی کا بیان سنئے۔
’’آج بے خبر سے منگل کو رانو کچھ خبریں دینا چاہتی تھی وہ اس گھونگھٹ کو اٹھا دینا چاہتی تھی جو منگل اور اس کے بیچ حائل ہو رہاتھا۔ آج رانو نے اس پردے اور حجاب کو دور کرنے کی ٹھان رکھی تھی جسے بیچ سے ہٹائے بغیر خدا بھی نہیں ملتا۔‘‘ (ایک چادر میلی سی۔ ص ۸۵)
حقیقت اور مجاز کو ایک سطح پر دیکھنے اور جسم اور روح کی دوئی کو اپنی جنبشقلم سے مٹا دینے کا ہنر بیدی کو خوب آتا ہے۔ رانو جو ایثار کی دیوی اور وفا کا پیکر ہے اور بیشتر جگہوں پر قابلِ رحم نظر آتی ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور اس کی بدلی ہوئی یہی تصویر زیادہ سچی اور بولتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
منگل سے شادی کے بعد ابھی رانو سے اس کا جنسی رشتہ قائم نہیں ہوا ہے، منگل ایک مسلمان لڑکی سلامتی سے محبت کرتا ہے اور کسی بہانے سے وہ سلامتی سے ملنے جارہا ہے۔ اب رانو کی شخصیت کا وہ پہلو ملاحظہ ہو جہاں وہ محض ایک عورت ہے۔ چالاک اور مردوں کو قابو میں رکھنے کے فن میں طاق۔ بیدی لکھتے ہیں،
’’ایکا ایکی وہ دیوی سے ایک عام گوشت پوشت کی عورت بن گئی۔ ایک دم چالاک اورعیار۔ حرّافہ۔ کیا کرتی وہ مجبور تھی اور بے بس۔ آدمی پل پل حالات اور واقعات سے اثر پذیر ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بدلتا ہے۔ ورنہ پرماتمانے اتنا بڑا نسوں کا جال نہ بنایا ہوتا۔ وہ تن کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے بھی نتھنے پھولنے لگے جو منگل کو رانو کے دوپٹے میں دکھائی نہ دے ئے۔ ایک بیوی کے مقابلے کے لئے، اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے۔ ایک بیسوا کی سطح پر اتر آئی تھی۔ اپنی نگاہوں کے افق پر اسے سلامتی کا بدن لہراتا ہوا نظر آیا۔‘‘
(ایک چادر میلی سی۔ ص ۸۸)
ایک اور جگہ بیدی نے تنہائی میں منگل اور سلامتیکے ملنے کا منظر بیان کیا ہے۔ یہاں عورتوں کی نازک اور پیچیدہ نفسیات کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ پہلے تو منگل پیش قدمی کرتا ہے اور سلامتی نہیں نہیں کرتی ہوئی پیچھے ہٹتی ہے اور دیوار سے جالگتی ہے۔ سلامتی کے دل میں پچھلے کسی واقعہ کی وجہ سے انتقام کا جذبہ ہے وہ اُسے کسی بہانے سے رسوا کرنا چاہتی ہے۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ منگل کے ہاتھ پکڑتے ہی وہ شور مچا دیگی اور اسے پکڑوا کر اپنی بے عزتی کا بدلہ لے گی لیکن عین وقت پر،
’’سلامتی کی آواز گلے میں اٹک گئی وہ کانپ رہی تھی اور نہ جانتی تھی کہ منگل پر بھی کوئی لرزہ چھا رہا ہے۔ صرف ایک قدم۔ اور سلامتی کے لئے اب سب کچھ ناممکن العمل ہوگیا ہے۔ دونوں برابر آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کی آنکھوں کو تلاش کررہے تھے۔ دو بلوں کی طرح اندھیرے میں گھور رہے تھے۔ ایسے میں صرف عورت کا دماغ کام کرتا ہے۔ مرد کا نہیں۔ جیسے پھر مرد کا کرتا ہے عورت نہیں۔ اس ایک قدم کے فاصلے کو منگل کے بجائے سلامتی نے پاٹ لیا اور اچک کر منگل سے چمٹ گئی۔ اس نے من جانے کے انداز سے منگل کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کا جارحانہ عمل روک لیا اور منگل ایک بیٹھی سی آوازمیں بولا۔ بولو کیا کام تھا۔ (ایک چادر میلی سی۔ ص ۷۹)
یہ وہ مقامات ہیں جہاں قلم کی معمولی سے لغزش بھی تصویر کو پوری طرح مسخ کرسکتی تھی۔ خیال ہوتا ہے کہ مرد ہونے کے باوجود بیدی عورتوں کی صد رنگ شخصیت کے ہر رنگ سے کیونکر آگاہ ہیں ؟ بیدی کا فن یہ ہے کہ کرداروں کی شخصیت کے کسی پہلو کو نمایاں کرنے کے لئے وہ بیانیہ کی مختلف تدابیر سے ایسی فضا تیار کردیتے ہیں کہ سب کچھ حقیقی اورفطری معلوم ہونے لگتا ہے۔ آورد پرآ مد کا یہ گمان، اور فسانے پر حقیقت کا یہ التباس ہی فنکار کی کامیابی ہے۔ اور آخری بات بیدی کی زبان سے متعلق یہ ہے کہ بے شک بیدی اہلِ زبان کی طرح شگفتہ ٹکسالی اور بے عیب زبان نہیں لکھتے۔ کہیں کہیں تو عبارت بھی ناہموار اورخلافِ روز مرہ ہوگئی ہے لیکن بیانیہ کی دوسری خوبیوں اور کہانی کہنے کے فن پر قدرت کی وجہ سے یہ عیب بہت نمایاں نہیں ہوتا۔ اس ناولٹ میں بھی پنجاب کی معاشرت اور ماحول کی وجہ سے کہانی کی فضا کہیں کہیں غیر مانوس ہوگئی ہے۔ پنجاب کی زندگی اور تہذیب سے غیر معمولی محبت کے سبب بیدی کو اتنی آزادی توحاصل ہے۔
’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے حوالے سے بیدی کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ،
۱۔ ناولٹ کے پہلے پیراگراف بلکہ ابتدائی جملے سے ہی کہانی میں ارتقائی عمل شروع ہوجاتا ہے اور کہانی سطح سے اوپر اٹھنے لگتی ہے۔
۲۔ کہانی کا زمانی اور مکانی عرصہ اگرچہ محدود ہے لیکن واقعات کی سرعت اور کرداروں کی نیرنگی کی وجہ سے مناظر تیزی سے بدلتے ہیں اور قاری لمحہ بھر کے لئے بھی فارغ نہیں ہوتا۔
۳۔ کہانی کے اہم اور ثانوی کرداروں میں کسی ایک سے بھی صرف نظر کرکے کہانی کے جملہ ابعاد کو نہیں سمجھا جاسکتا ہر جزئی واقعہ اور ہر ضمنی کردار، مرکزی خیال کو قائم کرنے میں معاون ہے۔
۴۔ بیدی نے ہندو صنمیات اور دیوی دیوتاؤں سے وابستہ عقائد کو کہانی میں شامل کرکے اسے ایک مابعد الطبعیاتی جہت بھی عطا کی ہے۔
۵۔ کرداروں کی نفسیات خصوصاً نسوانی کرداروں کی تہہ دار اور پر پیچ شخصیت کو بیدی نے بڑی خوش اسلوبی اور کامیابی سے پیش کیا ہے۔
۶۔ ناول کے سبھی کردار غیرمہذّب نا تراشیدہ اور اکھڑ ہیں۔ پنجاب کے، متعلق بیدی کا خیال تو یہ ہے کہ اس دھرتی پر ایک ایسا دیس ہے جسکی کوئی مثال پورے روئے زمین پر نہیں۔ جہاں کے مرد اکھڑ اور عورتیں جھکڑ ہیں۔ اکھڑ مردوں کے متعلق تو ان کا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنے اکھڑ پن کی ہی وجہ سے صنفِ نازک کو مرغوب ہے۔ عورت بھی کسی ایسے مرد کو پسند نہیں کرتی جو نقل میں بھی ان کی چال چلے۔
منٹو نے بیدی کے نام اپنے کسی خط میں لکھا تھا کہ ’’بیدی تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔‘‘ ممکن ہے کہ منٹو نے بید کی کہانیوں میں کسی عیب کی طرف توجہ دلائی ہو لیکن کہانی اگر پوری تہہ داری اور معنویت کے ساتھ قاری تک پہونچتی ہے تو سوچ کر لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بیدی کا آرٹ ان کے سوچنے کے عمل کو Justify کرتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.