بیدؔی کا فن، رمزیت، تہہ داری اور مدھم لب و لہجے کا فن ہے۔ تہہ داری اور رمزیت نفسیانی دروں بینی سے پیدا ہوتی ہے اور اس نفسیاتی دروں بینی کو دانش عصر کی سب سے بڑی دین کہا گیا ہے جو رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ فکری اعتبار سے انسانی تہذیب کی تاریخ ذہن کے پیکر محسوس سے تجرید و تعمیم کی طرف ارتقاء کی داستان ہے۔ اسی لیے عہد عتیق کے افسانوں میں کشمکش مرئی اور مادی، کردار جسمانی اور ظاہری خصوصیات سے متصف اور اندازبیان نمایاں برجستہ اور مرصع ہوتا تھا۔ آج کے عالمی انسانوں میں بنیادی کشمکش مرئی اور مادی نہیں نفسیاتی اور داخلی ہے اور کردار حسن و جمال، عمل اور ماورائی طاقتوں سے متصف ہونے کے بجائے پہلو دار اور پیچیدہ ہیں۔ اردو افسانے میں ہنوز اس قسم کی کہانیوں کا عام طور پر چلن نہیں ہوا اور چند افسانہ نگاروں نے اسے برتا تو وہ نفسیات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ سماجی پس منظر کا احسا س کھوبیٹھے۔
بیدی کے افسانے اس جدید افسانوی مزاج سے کافی قریب ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بیدی کے اعصاب پر نہ عورت سوار ہے نہ شاعری نہ وہ محض رومانی ہیں نہ محض جذباتی۔ مہدی افادی نے محمد حسین آزاد کو اردوئے معلیٰ کا ہیرو قرار دیا تھا کہ ان کا اندازِ بیان نہ سرسید کی طرح معقولات کا دست نگر ہے نہ حالی اور شبلی کی طرح سیرت تاریخ اور علم کلام کا۔ یہی بات اردو افسانے کے ہیرو بیدی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ بیدی ہمارے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن سے اگر رومان اور سیاست چھین لیے جائیں تب بھی ان کا قلم اپنی روانی نہ بھولے گا۔
رومان اور سیاست قابل اعتراض موضوعات نہیں لیکن کسی زبان کے افسانوی ادب کا گنے چنے چند موضوعات میں محدود ہوکر رہ جانا اس ادب کے لیے فال نیک نہیں ہے۔ اس سے فکر کی تازگی مجروح ہوتی ہے اور فکر کی تازگی اور بیان کی ندرت ہی تو فن کے معجزے ہیں، رومان اور سیاست میں بڑا نشہ ہوتا ہے۔ دونوں فوری طور پر اعصابی تحریک پیدا کرتے ہیں اور اس فوری تحریک کے جادو کے سہارے نسبتہً خشک اور غیردلچسپ باتیں بھی برداشت کرلی جاتی ہیں مگر ان دونوں کو براہ راست موضوع نہ بنانا بڑی جراَت رندانہ کا کام ہے۔ وزارت کو حریفوں کے لیے وہی چھوڑ سکتا ہے جو خورشید پر بڑھ کر ہاتھ ڈال سکتا ہو۔ اس کے لیے فکر پر اعتماد اور فن پر بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیدی کے افسانوں کا بنیادی موضوع کیا ہے؟ انسان کا بے کل باطن، بے کل اس لیے کہ وہ جلد جلد نہ بدلتے ہوئے بھی ہردم تغیرپذیر سماج کا جزو ہے اور اس تغیر پذیر سماج، اس کے عوامل اس کے خارجی مظاہر، اس کے انسانی رشتوں سے وہ برابر اپنے رابطے کا تعین کرتے رہنے پرمجبور ہے۔ کبھی یہ رابطہ ارتباط کا ہوتا ہے کبھی تصادم کا، کبھی زندہ دلی، کبھی بے دلی، کبھی شکست کبھی تشکیل نو، کبھی وہ سماج کے سانچے میں ڈھلتا ہے کبھی سماج اس کے سانچے میں ڈھلتا ہے اور ان دونوں طریقہ ہائے کار میں ایک ذرا سا جزو اس کی شخصیت کا ایسا بھی رہ جاتا ہے جو اس سانچے سے نکل بھاگتا ہے۔ اور اپنی فطری توانائی کی دہائی دیتا ہے۔
اس بے کل باطن کے مطالعے کے سلسلے میں دوباتیں اور بھی قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ زیر مطالعہ باطن غیرمعمولی یا غیرصحت مند انسانوں کا نہیں ہے۔ البتہ ان انسانوں کو جنہیں ہم ایک مدت سے جانتے اور پہچانتے تھے اچانک ہم انہیں ایک نئے انداز سے دیکھتے ہیں۔ بیدی کو مریضوں اورمجرموں سے شوق نہیں ہے۔ وہ جب ان کا ذکر بھی کرتا ہے تو انہیں انسانی روپ دے کر بڑا بھولا بھالا بڑا صحت مند اور نارمل سا بنادیتا ہے۔ (زین العابدین، ایک چادر میلی سی) وہ عام طور پر اپنے کرداروں کے اس حصے سے متاثر ہوتا ہے جو سماج سے ہم آہنگ ہوچکا ہے۔ لیکن اس ہم آہنگی میں بھی ان کی شخصیت کاایک ریشہ ایک جزو باغیانہ انداز سے الگ ہوکر جبلی خواہشات کی نشاندہی کرتا رہ جاتا ہے۔ بیدی کو نارمل انسانوں کے انہیں غیرنارمل لمحوں سے دلچسپی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیدی کے ہاں نفسیات کا لفظ فرائڈ کے ہم معنی نہیں ہے نہ وہ اسے جنسیات کے مترادف سمجھتے ہیں نہ محض خودکلامی یا تحلیل نفسی کے۔ نفسیات کا لفظ غلطی سے ہمارے یہاں کچھ تحلیل نفسی کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ نفسیات کے معنی یا تو جنسیات کے ہوکر رہ گئے۔ یا غیرصحت مند شخصیتوں کے مطالعے کے۔
نفسیات فردکی باطنی کیفیات کے مطالعے کا نام ہے لیکن فرد جہاں فرد واحد ہوتا ہے وہاں اپنے علائق و عوامل کے اعتبار سے سماج کا ایک جزو ہوتا ہے اور اس کا مطالعہ سماجی پس منظر سے بے نیاز ہوکر غیرممکن ہے۔ اسی لیے نفسیات کا سب سے نمایاں پہلو یہی ہے کہ اس کا مطالعہ سماجی پس منظر ہی میں کیا جاسکتا ہے۔ بیدی کو غیرمعمولی سے زیادہ عام انسان ذہن سے سروکار ہے، عام انسانی ذہن نہ جنسیات کے لیے وقف ہے نہ سیاست کے لیے۔ دونوں زندگی کے اہم جزو سہی مگر صرف جزو ہی تو ہیں۔ ان سے اعلیٰ افضل اور برتر تو خود زندگی ہے۔ جس کی یکسانیت جس کے روز شب کی معمولی مصروفیت کے معمولات، چھوٹی چھوٹی شکستیں اور فتوحات سبھی ہزاروں داستانوں کا موضوع بن سکتی ہیں۔
اگر بیدی کے انسانوں کا فکری اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انسان کی جبلی معصومیت ان کا بنیادی موضوع ہے۔ یہ جبلی معصومیت حالات کی تبدیلی اور ماحول کی چیرہ دستی کے ہاتھوں کبھی کبھی ستم ظریفی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کبھی یہ حالات پر طنز بن جاتی ہے کبھی خود ہماری اقدار اور تعصبات پر اور کبھی خود اس معصوم انسان پر جو اپنی معصومیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ بھولا۔ ہمدوش، رحمان کے جوتے۔ پان شاپ۔ کوکھ جلی۔ خط مستقیم اور قوسین، چیچک کے داغ، جب میں چھوٹا تھا۔ گالی۔ حتی کہ گرہن۔ غلامی۔ اغوا۔ لاجونتی اور اپنے دکھ مجھے دیدو جیسی ’’سنگین‘‘ کہانیوں میں بھی اسی معصومیت کا ایک ستم ظریفانہ پہلو نمایاں ہے۔ دوسری قسم کی کہانیوں میں اس معصومیت کے اظہار کی شکل اور بھی زیادہ مشترک اور مماثل ہے ان میں من کی من میں۔ منگل اشتکا۔ لچھمن اور چھوکری کی نوٹ شامل ہیں۔ اس کا تیسرا ذریعہ اظہار۔ زین العابدین۔ بیکار خدا۔ اور لاردے میں نظر آتا ہے اور ایک اور موضوعاتی اشتراک اس بھولے پن او رمعصومیت کے اظہار کا ٹرمینس۔ مہاجرین۔ ردعمل اور موت کے راز میں جھلکتا ہے۔ ایک اور قسم ان کہانیوں کی ہے جس میں اقتصادی اور سماجی عدم مساوات کے خلاف آواز احتجاج بلند کی گئی ہے جس میں ’’حیاتین -ب‘‘ ’’کوارنٹین‘‘ ’’بلادان‘‘ ۔ ’’دس منٹ بارش میں‘‘ شامل ہیں۔
پہلے گروپ کی کہانیوں میں یہ بھولا پن کسی چھوٹے سے نفسیاتی موڑ (TWIST) کی شکل میں نظر آتا ہے جس O.HENRYکی کہانیوں کا سا ہلکا پن تو ہے مگر مزاح کے پہلو کے بجائے نہایت سنگین، دل دوز ہونے کی حدتک متین اور کہیں کہیں الم ناک ہے۔ ’’رحمان کے جوتے‘‘ اور ’’ہمدوش‘‘ دونوں میں ایک چھوٹا سا وہم یا مروجہ تصور کہانی کارمرکز بن جاتا ہے کہ ایک خاص انداز سے اکڑوں بیٹھنا نہیں ہوتا ہے یا جوتے کاجوتے پر سوار ہونا سفر کرنے کی نشانی ہے لیکن کہانی کے کرداروں میں سے کسی نے یہ نہ سوچا تھا کہ یہ دونوں باتیں اس طرح بے محایا ان کی اپنی زندگی میں بھی پیش آئیں گی۔ ’’پان شاپ‘‘ میں دونوں دوست اپنا اخلاص ایک دوسرے سے چھپاتے ہیں دونوں ایک دوسرے کو پان شاپ کے آئینے میں پہچانتے ہیں۔ ’’گالی‘‘ اور ’’کھوکھ جلی‘‘ میں وہی دونوں باتیں یعنی ڈاکیوں کا ایک دوسرے کو سڑی سڑی گالیاں سنانا اور گھمنڈی کی آتشک جو نہایت معیوب اور ناخوشگوار سمجھی جاتی ہے وہی خلوص کی نشانی اور جوانی کی علامت کی حیثیت سے مبارک گردان لی جاتی ہے۔
بیدی کا دوسرا محبوب موضوع گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتیں اور دکھ درد کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ منگل اشتیکا اور لچھمن دونوں میں شادی کی قدرتی سی خواہش المیہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اسی طرح’’چھوکری کی لوٹ‘‘ اور تن کی من میں‘‘ کہانیو ں میں بھی محبت کا ایک نہایت پاکیزہ تصور ملتا ہے۔ تیسرے گروپ کی کہانیوں میں بعض غیرمعمولی اور کسی قدرٹیڑھے میڑھے کردار آتے ہیں ’’زین العابدین‘‘ اور ’’بیکار خدا‘‘ کے ہیرو تو بھٹکی ہوئی معصوم روحیں ہیں جو پاپ اور پنیہ سے پرے ہیں۔ ’’لاروے‘‘ میں محض پستی اور غربت نے کرداروں کو پست بنادیا ہے، اتنا پست کہ انہیں صفائی، اچھی آب و ہوا اور زندگی کا حسن راس نہیں آتا۔ ان سبھی کہانیوں میں بیدی کا وہ فلسفہ حیات بکھرا ہوا ہے جس کا اظہار اور زیادہ کھل کر آخری گروپ کی کہانیوں میں ہوا ہے۔
دراصل بیدی سماجی زندگی کے ADJUSTMENT کو اہمیت دیتے ہیں اور اس عملی نقطۂ نظر کو اپنانے کے لیے اگر اپنی قدیم شخصیت کو تلانجلی بھی دینا پڑے تو اسے ضروری سمجھتے ہیں وہ تلانجلی جو ردعمل میں جلال کے احساس میں جھلکتی ہے یا ٹرمینس میں جے رام کی جرأت میں نظر آتا ہے اور مہاجرین میں مولوی آثم کو حقی میں تبدیل کردیتی ہے اور ’’موت کے راز‘‘ میں ان الفاظ میں گونج اٹھتی ہے،
’’وہ راز یادداشت کی مکمل تحلیل میں پنہاں ہے۔ یادداشت کی تحلیل۔ کیا ہماری نسلیں بھی ہماری یادداشت ہیں؟ اور کیا اس کی مکمل تحلیل پرمیں وہ راز دنیا والوں کے سامنے طشت ازبام کرسکتا ہوں؟ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
زندہ رہنے کی یہ خواہش بیدی کے ہر کردار اور کہانی کے ہر موڑ پر نمایاں ہے۔ مگر یہ خواہش رومانی نہیں محض ایک لمحہ نشاط یا بے پایاں لذت کی تلاش نہیں ہے بلکہ ایک گہرا اور سنگین سمجھوتہ ہے۔ ایک ایسا بارگراں ہے جو لاتعداد مطالبے کرتا ہے اور ہرقدم پر نئے توازن چاہتا ہے اور زندگی کی اس کھٹی مٹھی سی خواہش کے لیے یہ قیمت ہرلمحے ادا کرنا پڑتی ہے وہی قیمت جو ’’اک چادر میلی سی‘‘ میں رانی نے منگل کوادا کی جو لاجونتی نے اپنے جسم کو کانچ کا بناہوا محسوس کرتے ہوئے ادا کی۔ وہی قیمت جسے بعض لوگ قسمت سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔
سارترے نے اپنے ایک ڈرامے ’’کمرے میں‘‘ جہنم کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’جہنم دوسرے لوگوں کانام ہے‘‘ ۔ اگر غیرذات کو دوزخ قرار دے دیاجائے تو کم سے کم یہ ایسی جہنم ضرور ہے جس سے ہر انسان کو ہر لمحے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ گھر میں، بازار میں، دفتر میں، حتی کہ ہمارے خلوت خانوں میں، خیالات اور خوابوں میں بھی ان ہی دوسرے آدمیوں کا عمل دخل ہوتا ہے اور یہ سب کے سب اگر جہنم نہ سہی تو کم سے کم غیردریافت شدہ دنیا ئیں ضرور ہیں جن سے ہر قدم پرہمیں اپنی اندرونی دنیا میں مطابقت اور مناسبت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ سماجی مطابقت کا یہی احساس بیدی کے ہاں نمایاں ہے۔ انسانی زندگی کا اصل انقلاب اس طرزِ عمل میں مناسب ترتیب و توازن پیدا کرنے کا نام ہے۔ تہذیب کو بعض فلسفیوں نے اندرونی جبلتوں اور خواہشوں کی موزوں ترتیب قرار دیا ہے اور یہ جذبات اور جبلی خواہشات جس قدر حسن و خوبی سے کسی قسم کا ٹکراؤ کے بغیر مرتب اور منظم ہوجائیں گے فرد اسی قدر زیادہ مہذب، شائستہ اور ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند کہا جاسکے گا۔ دنیا کے سارے فکری، جذباتی، معاشرتی اور سیاسی انقلابات کا مرکز ثقل شخصیت کی یہی پراسرار توازن پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔
بیدی ہمارے ان ہی نفسیاتی لمحات کے عکاس ہیں۔ اسی لیے ان کا لہجہ مدھم اور آواز دھیمی ہے ان کی کہانیاں دھماکے پر نہیں لطیف سی کَھنک پر ختم ہوتی ہیں جو ذہن کے سامنے ایک لکیر سی بناتی گزرجاتی ہے اور چند ایسے احساسات ہمارے چاروں طرف بکھر جاتے ہیں جو سوالات پوچھتے ہیں اور ہمیں اپنے شور اور اس کی قائم کردہ اتحاد کو ایک بار پھر کھنگالنے پر محبور کردیتے ہیں۔ یہاں مثال کے طور پر صرف ایک تصور کو لیجیے۔ بیدی نے ہندوستانی عورت کے کس روپ کو پیش کیا ہے۔
گرہن۔ چھوکری کی لوٹ۔ بکی۔ گھر میں، بازار میں۔ کوکھ جلی۔ ایک عورت۔
لاجونتی۔ اپنے دکھ مجھے دے دو۔ ایک چادر میلی سی۔
’’اغوا‘‘، ’’حیاتین -ب‘‘، ’’دس منٹ بارش میں‘‘ کی ریٹا اور ’’گرم کوٹ‘‘ کی شمی کا ذکر یہاں جان بوجھ کر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کہانیوں میں وہ عورت ہے جو مظلوم ہے، جو لٹتی ہے اور لٹ جانا کسی قدر پسند بھی کرتی ہے جو لاجو نئی کی طرح دیوی بننے پر بھی راضی نہیں۔ اسے تو وہی مار کھانے والی گوشت پوست کی گرہستن پسند ہے جو ’’گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی۔‘‘ وہ گھر میں بازار میں کی وہ عورت ہے جس میں اور طوائف میں بس وفاکی ایک ہلکی سی لکیر حائل ہے اور جو سارے دکھ لے لینے اور سارے سکھ نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ اس کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ مرد اسے ایک طوائف ہی کے روپ میں دیکھتا رہتا ہے۔ اسے اس سے صرف جسمانی نشاط کی توقع ہوتی ہے وہ اس کی روح کے اندر پھوٹتی ہوئی کونپلوں کو نہیں دیکھتا، وہ ان کلیوں کو نہیں دیکھتا جو ایثار اور گھریلو زندگی کی کومل قربانیوں کی فضا میں کھلتی ہیں۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں مدن سب کچھ پاکر بھی جسم اور صرف جسم کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ عورت ایک جسم سے کہیں آگے بڑھ کر اپنے سارے وجود کو، حتی کہ اپنی جسمانیات کو اپنے گھر اور مدن کے گھروالوں کے وجود میں کھوچکی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ ’’ایک عورت‘‘ کی ہیروئن اپنے لقوہ زدہ رال ٹپکانے والے بچے کے گال پر دیے ہوئے بوسے کو اپنے رخساروں پر محسوس کرکے شرماجاتی ہے اب وہ ماں ہے جس کی مسرتیں محض جسمانی نہیں، جس کا وجود تخلیق نو میں سرایت کرگیا ہے اب وہ نئی کلیوں، نئے پھولوں میں بس کر زندہ ہے۔
لیکن مردوں کی دنیا عورت کو اس شہوانی آنکھ سے دیکھنا چاہتی ہے اس کے اندر کا کام دیو نہیں بدلتا وہ صرف جسم کی آگ میں جلتا ہے اور روحانی آتش کدوں کی مقدس آگ میں عورت کو تنہا جلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اسے اس کے سکھ چاہئیں روپ چاہیے پھولوں کی سیج اور نشاط کی کلیاں چاہئیں اسی لیے سارے دکھ مول لے لینے پر بھی ’’اپنے دکھ دمجھے دے دو‘‘ کی اندو کو چہرے پر پاؤڈر اور گالوں پر روج لگانے کی ضرورت پڑی اور اسی بہیمانہ جذبے کے ماتحت ’’گرہن‘‘ میں گربھ دتی ہولی سے کتھورام نے جی بھر کر قرضہ وصول کیا کہ وہ صرف عورت ہولی کو دیکھتے تھے، وہ اس ہولی کو نہیں جانتے تھے جو ماں بننے والی ہے اور دن رات گھر کا کام کاج اور گھر والوں کی خدمت کرنے اور گالیاں، جھڑکیاں سننے کے بعد اپنے ماں باپ سے ملنے سارنگ دیوگرام جانا چاہتی تھی۔ اس سبب کے باوجود بیدی کے یہاں عورت باغی نہیں ہے، شیو کا سروپ ہے جو زہر پی کر سنسار کو امرت دینے پر بھی آمادہ ہے۔
بیدی کے افسانوں کا رنگ و آہنگ او.ہنری اور چیخوف کے درمیان کا ہے۔ او. ہنری کی کہانیوں کی طرح ان کی کہانیاں محض طنزیہ یا مزاحیہ موڑ پر ختم نہیں ہوتیں اور چیخوف کی سی فکر آلود اور فکر انگیز فضا اور لطیف احساس کے مرغولے ان کی کہانیوں کے اختتام پر قاری کو دیر تک گھیرے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کا فن ہنگامی موضوعات کا ساتھ نہ دے سکا اور اگر ان کی گونج کبھی سنائی دی بھی تو ایک مخصوص انداز میں جس پر ان کی انفرادیت کی مہر ہے۔ یہ انداز احساس کے خلوص اور فکر کی تازگی سے پیدا ہوا ہے۔ بیدی کی کہانیوں میں آراستگی یا جذباتیت کی فراوانی نہیں۔ نہ صنوبر کے سایے ہیں نہ زلف کی گھنیری چھاؤں، یہاں انداز بیان سے زیادہ اہمیت ان زاویوں کو حاصل ہے جن سے وہ زندگی کو پیش کرتے ہیں گویا ہر قدم پر کہہ رہے ہوں۔ ’’زندگی کو ذرا اس زاویے سے دیکھیے، اس کا نام بھی زندگی ہے۔‘‘ اسی لیے افسانے کو تخلیق نو کہا گیا ہے کیونکہ زندگی کی یہ تخلیقی ترتیب نو اس کو نئی معنویت بخش دیتی ہے۔
یہ نیا ز اویہ کون سا ہے؟ اس ضمن میں دو باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ ایک یہ کہ بیدی نے اپنی کہانیوں کا تانا بانا کس طرح بُنا ہے اور خصوصاً ان کہانیوں کے (CLIMAX) یا نقطہ عروج کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔ دوسرے بیدی کی کہانیوں میں سمبالزم اور رمزیت کا استعمال کس طرح ہوا ہے۔
جہاں تک نقاطِ عروج کا سوال ہے بیدی کے یہاں براہ راست نیک اور بد کرداروں کا ٹکراؤ بہت کم ہے ’’حیاتین- ب‘‘ اور ’’گرہن‘‘ کے علاوہ شاید ہی کسی کہانی میں وِلن کا کردار استعمال ہوا ہو۔ اور گرہن میں بھی وہ بدکردار کتھورام المیہ کا سبب نہیں ہے اس کا معاون کردار ہے۔ بیدی کی کہانیوں میں بنیادی کشمکش یا تو فرداور سماج کی ہے جو کبھی کبھی حالات کی شکل میں اور کبھی حالات کی ستم ظریفی کی شکل میں ایک اچانک واقعہ بن کر سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً رحمان کے جوتے۔ ہمدوش۔ وغیرہ میں) یا پھر فرد کی اندرونی کشمکش ہے جو مختلف تغیر پذیر اقدار و تصورات کے ٹکراؤ کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ ایوالانش کا ہیرو صاف الفاظ میں کہتا ہے،
’’انسان اپنے دل اور کردار کے متعلق خود نہیں جانتا کہ فلاں وقت میں کون سا جذبہ کون سا عمل سب سے اوپر جگہ پائے گا۔‘‘
بیدی نے بعض افسانوں میں ناگہانی حادثات سے بھی کام لیا ہے جو واقعات اور کردار وں کو اچانک ایک نیا روپ دے دیتے ہیں اور کہانی کو ایک نیا موڑ بخشتے ہیں لیکن زیادہ تر کہانیوں میں کشمکش تصورات اور اقدار کی ہے۔ نفسیاتی الجھنوں میں خالص داخلی آویزش نہیں ہے۔ بعض کہانیوں میں تصورات و اقدار کا یہ موڑ اتنا قدرتی، ایسا گتھا ہوا ہے کہ تقریباً غیرمحسوس سا ہوگیا ہے۔ بادی النظر میں یہ پتہ چلانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ نقطۂ عروج کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کون سے عناصر و عوامل سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔ مثلاً ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں نقطہ عروج اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پتاجی کی موت کے بعد مدن کا کاروبار چل نکلتا ہے اور ان کا من دوسری عورتوں کے روپ پرلہرانے لگتا ہے اور اچانک اندو کو پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ مدن کو وہ سب کچھ نہیں دے پائی ہے جس کی اسے ضرورت تھی گویا یہا ں آویزش مرد اور عورت کے فطری آدرشوں اور نفسیاتی یا جذباتی مطالبات کی ہے کہ محض مدن اور اندو کی کہانی نہیں آفاقی داستان ہے جو آدم اور حوا سے آج تک دہرائی جارہی ہے۔ لاجونتی میں یہ کشمکش سندرکے دل اور دماغ کی کشمکش ہے دل باعصمت اور پاک دامن عورت کا متجسس ہے جس کے دامن کو راون نے چھواتک نہ ہو اور یہ تصور ہمارے سماج کی دین ہے، تعصبات اور توہمات کا بخشا ہوا ہے۔ دماغ کہتا ہے کہ اگر لاجو مغویہ عورت ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور دل میں بساؤ کی تحریک انصاف کی تحریک ہے لیکن دماغ لاجو کو دیوی تو بناسکا اسے عورت کا روپ واپس نہ دے سکا۔
بیدی کے یہاں زیادہ تر کشمکش جذباتی اور تصوراتی ہے اور اسی وجہ سے ان کی کردار نگاری میں تجرید اور تعمیم کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان تصورات اور جذبات کا حالات سے بڑا گہرا تعلق ہے اور حالات کی ایک کروٹ اچانک ایک ہی قدر کو کچھ کا کچھ بنادیتی ہے۔ ذاتی مفاد کی لگاوٹ نے ’’آلو‘‘ کی ہیروئن سنتو کو لکھی سنگھ کے الفاظ میں ’’رجعت پسند‘‘ بنادیا تھا یا ’’غلامی‘‘ میں پولھو رام ریٹائرمنٹ کی زندگی سے اکتاکر دوبارہ دفتر کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی یہ نفسیاتی بے چارگی زندگی میں کسی نہ کسی قسم معنویت کی یہ تلاش الفاظ کے معنی اور اقدار کا روپ بدل دیتی ہے۔ اس قسم کی کشمکش کی بنیاد پر افسانے لکھنے کے لیے انسانی جذبات کی لطیف ترین تہوں تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے ایک ذہن کی ضرورت ہوتی ہے جو ظاہر سے آگے قدم بڑھاکر باطنی احساس کی رمزیت کو سمجھ سکے۔
بیدی کے افسانے انسان کے باوقار وجود کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ باطنی وقار جو مادی اسباب و حال پر بے نیازی کے ساتھ مسکراسکے، جو حالات سے ہم آہنگ تو ہو مگر ان کا غلام نہ ہو، جو ہمت اور جرات کے ساتھ سر اٹھاکر کھڑا ہوسکے اور اپنی آواز کو پہچان سکے۔ اس کا سب سے زیادہ مثبت اظہار، ’’معاون اور میں‘‘ میں ہوا ہے جس میں پتمبر لال اپنی جیب میں کسی کی چابی کا بوجھ برداشت نہ کرسکا یا پھر ’’من کی من میں‘‘ اور اسی سماجی انصاف، مساوات اور عزت نفس کی جستجو مختلف انداز سے ’’حیاتین- ب‘‘ ۔ ’’دس منٹ بارش میں‘‘ ۔ ’’تلادان‘‘ ۔ ’’لاروے‘‘ اور بعض دوسری کہانیوں میں بکھری ہوئی ہے۔ انسان عزت نفس کے لیے بے قرار ہے وہ صرف اپنے لیے نہیں ساری انسانیت کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے ’’کوارنٹین‘‘ کا بھاگو اس کی مثال ہے۔ اس کی روح ساری کائنات میں سماجانے کے لیے بے چین ہے اس کی ہمدردیاں عالمگیر اس کی دلچسپیاں آفاقی اور اس کے حوصلے بے نہایت ہیں لیکن اس کی اقدار و تصورات۔ وہ اقدار و تصورات جن کے قائم کرنے کا حق ساری مخلوقات میں انسان اور صرف انسان ہی کو تفویض ہوا ہے۔ یہی اقدار و تصورات اس کے زندان و مجس ہیں اور اس کا ضمیران قید خانوں میں زنجیریں پہنے چھوٹا سا عالم بغاوت بلند کیے ہوئے ہے۔
کردار نگاری کے اعتبار سے بیدی کا کینویس زیادہ وسیع نہیں البتہ اس کی گہرائی اتھاہ ہے اس پر رنگوں کی دو تہیں ہیں جو پورے کینویس کو آفتابی بنائے دیتی ہیں۔ کردار ہمارے آپ کے متوسط طبقے کے ہیں نہ کیڈی لاک او رکلب کے چرچے ہیں نہ پریم چند کی چوپالیں اور دھان کے گھیت ہیں لیکن اس متوسط طبقے کو پورے دور کی، کسی قدر طبقاتی رنگ میں ہی سہی، نمائندگی کرنے کا شرف حاصل ہوگیا ہے۔ متوسط طبقے کی کئی تہوں کو اور کئی سطحوں کو بیدی نے پیش کیا ہے۔ یہاں سندر جیسا سوشل ورکر بھی ہے اور مدن جیسا گندہ بیروزے کا بیوپاری بھی۔ رسالہ ’’کہانی‘‘ کے ایڈیٹر بھی اور وزیر خرآباتی جلال بھی۔ سیاسی ورکر لکھی سنگھ بھی ہے۔ بیکری کا کاروبار کرنے والے سندر اور سوہن بھی مگر ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ سب زندگی کو یرقانی اور رومانی آنکھوں سے نہیں دیکھتے حقیقت نگاری آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ زندگی ایک سنگین اور سنجیدہ معاملہ ہے جس میں الجھی ہوئی شاخوں اور کانٹے دار ٹہینوں کے بیچ سے چاند کرنیں بکھیرتا ہے۔ اس میں غالب رنگ مٹیالا ہے، خوشی اور غم دونوں سے الگ مگر مثبت اور صبر آزما حدتک مثبت۔ اگر بیدی کے کھینچے ہوئے مناظر کو پیش نظر رکھا جائے تو ان پر پکاسوکی الجھی ہوئی سنگین اور سخت، کسی حد تک کھردری سطح کی تصویروں ہی کا گمان ہوگا ان میں روبنس یا ریفائل کی رنگینی اور سرمستی نظر نہ آئے گی۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں مدن کی بے راہ روی کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے،
’’مدن اس کے ساتھ ایسی جگہوں پر جانے لگا جہاں روشنی اور سایے عجیب بے قاعدہ سی شکلیں بناتے ہیں نکڑ پر کبھی اندھیرے کی تکون بنتی ہے کہ اوپر کھٹ سے روشنی کی ایک چوکور لہر آکر اسے کاٹ دیتی ہے۔ کوئی تصویر پوری نہیں بنتی۔ معلوم ہوتا ہے بغل سے ایک پاجامہ نکلا اور آسمان کی طرف اڑگیا یا کسی کوٹ نے دیکھنے والے کا منہ پوری طرح ڈھانپ لیا اور کوئی سانس کے لیے تڑپنے لگا جبھی روشنی کی چوکور لہر ایک چوکھٹا سی بن گئی اور اس میں ایک صورت آکر کھڑی ہوگئی۔ دیکھنے والے نے ہاتھ بڑھایا تو وہ آرپار چلا گیا جیسے وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پیچھے کوئی کتا رونے لگا اور طبل نے اس کی آواز ڈبودی۔‘‘
بیدی کی زبان کے بارے میں اکثر مختلف شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیدی کا اندازِبیان رواں اور شستہ نہیں ہوتا کبھی کبھی ان کی زبان میں ناہمواری بھی آجاتی ہے اور یہ الزامات بہت کچھ صحیح بھی ہیں لیکن پنجاب کی زندگی کی اس قدر بے محابا تصویر کشی دو ایک افسانہ نگاروں کے علاوہ شاید ہی کسی نے کی ہے اور بیدی کی عکاسی فوٹو گرافی کی نہیں بلکہ پنجاب کی تہذیبی روح کی عکاسی ہے۔
بیدی کی نثر سے کوئی شعریت کا مطالبہ نہیں کرتاا ورنہ کرنا چاہیے کیونکہ بیدی نثر کو آراستی کے لیے استعمال نہیں کرتے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے بیچ میں سے کسی جملے کی تعریف کرنا یا کسی بیان پر سردھننا مشکل ہے کیونکہ کہانی کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ، کردار، واقعہ، نقطہ، اور پیچ و خم ایک مکمل اکائی کا جزو ہوتا ہے جو ہرلمحہ سننے او رپڑھنے والے کے ذہن، احساس اور نگاہ کو پوری یکسوئی کے ساتھ ایک مرکزی نقطے پر مرکوز کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں الگ الگ ایسے منفرد اور ممتازجملے بہت کم ہوتے ہیں جو باقی عبارت میں سے ابھر کر خراج تحسین وصول کرسکیں۔ زبان اور بیان کا رنگین نہ ہونا عیب نہیں۔ ہاں اس میں بیدی ذرا احتیاط کی مدد سے زیادہ روانی پیدا کرسکتے تھے۔ زیادہ شستگی اور صفائی لاسکتے تھے۔ اس اندازِ بیان اور زبان میں حقیقتوں کی سنگینی اور توانائی ہے یہ مصوری کی نہیں سنگ تراشی اور غار اشگانی کی زبان ہے جس میں پتھر کی صلابت ہے۔
بیدی کے فن کے بارے میں سب سے ا ہم اور نمایاں بات یہ ہے کہ اس کا درو بست (ARCHITECTONIC) فن تعمیر کا سا ہے اس کا مزاج علامتی ہے اور اسی علامت او رمزیت کے سہارے سے وہ اپنے فن کی پوری کائنات خشت بہ خشت چلتے ہیں یہ ایسی بات ہے جسے بیدی سے پہلے اور بیدی سے لے کر اب تک کسی دوسرے فن کار نے اردو افسانے میں استعمال نہیں کیا۔ علامتوں سے فن کبھی یکسر خالی نہیں رہا۔ رمزیت سے بھی ہماری شناسائی خاصی پرانی ہے لیکن بیدی نے جس طرح رمزیت اور علامتوں کو مختلف سطحوں پر استعمال کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے اس کی چند مثالیں ’’دس منٹ بارش میں‘‘ ’’لاجونتی‘‘ اور ’’ایک چادرمیلی سی‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
جب کبھی بیدی کہانی لکھتے ہیں تو وہ محض ایک ہیرو یا ایک ہیروئن کی جذباتی یا نفسیاتی روداد نہیں ہوتی بلکہ اس مرکزی جذبے سے پوری فضا رنگ جاتی ہے۔ مرکزی تصور پیڑ پودوں، پورب کی ہوا، لہراتی ہوئی شاہراہ، چرند پرند، چاند سورج حتی کہ فطرت کے ہر منظر کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے اور افسانہ پڑھنے والے کی توجہ بنیادی تصور کے رنگ و آہنگ کی طرف کھینچ لیتا ہے گویا ان کی ہر کہانی بیک وقت ایک اندرونی اور خارجی مطابقت PARALLELISM سے معمور ہوتی ہے ہر مرکزی خیال ایسا مسلم ہوتا ہے جس کی تال افسانے کی دنیا کی فضا کا ذرہ ذرہ دیتا ہے اور کہانی کا ہر خط جس کے متوازی کھینچا گیا ہے اس لحاظ سے بیدی سے زیادہ محتاط آرٹسٹ ہمارے ہاں کوئی نہیں ہے۔ ’’اک چادر میلی سی‘‘ کے ابتدائی حصے پر غور کیجیے منظر ہی ایساہے جو کہانی کے پہلے حصے کی فضا کو خاموش رمزیت کی زبان میں بیان کردیتا ہے۔
’’آج شام سورج کی ٹکیہ بہت ہی لال تھی۔ آج آسمان کے کوئلے میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا اور اس کے خون کے چھینٹے نیچے بکائن پر پڑتے ہوئے نیچے تلوکے کے صحن میں ٹپک رہے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی کچی دیوار کے پاس جہاں گھر کے لوگ کوڑا پھینکتے تھے۔ ڈبو منہ اٹھا اٹھا کررو رہا تھا۔۔۔‘‘
ان ابتدائی جملوں میں ہی بولتے ہوئے سمبل استعمال کیے گئے ہیں۔ سورج کی ٹکیہ کی سرخی ہی بتارہی ہے کہ تلوکے کا قتل ہونا ہے اور اس کے خون کے چھینٹے جس طرح بکائن پر پڑے ہیں اسی طرح رانی پر پڑیں گے اور رانی پر ہی کیوں گھر بھر پر۔ چنوں پر بھی منگل پر بھی۔ ٹوٹی پھوٹی کچی دیوار بھی سمبل ہی ہے جو رانی کی زندگی کا مظہر بن گئی ہے۔ جہاں گھر کے لوگ کوڑا پھینکتے تھے اس کے بعد کے ڈبوکا رونا بھی اسی قتل کی طرف اشارہ کرتا ہے غرض کاپوری فضا سمبالک ہے اور اس کا کلیدی واقعہ بن جاتا ہے تلوکا کا قتل۔
کبھی کبھی وہ ایک واقعے کو پس منظر کو ابھارنے اور سمبالک فصا پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گرہن میں راہو اور کیتو کا چاند پر حملہ آور ہونا پھر گرہن کے موقعے پر لوگوں کا اشنان کرنا، دان دینا اور دان لینے والے بھکاریوں کی ’’چھوڑدو۔ چھوڑدو دان کا وقت ہے‘‘ کی آوازیں۔۔۔ یہ سب کچھ ہولی کی بپتا کے متوازی استعمال ہوا ہے اور اس کی مظلومیت کو اور زیادہ دردناک بنادیتا ہے۔
اس خاموش سمبالزم اور ان متوازی خطوط کی اہمیت کیا ہے؟ یوں تو بنیادی طور پر یہ سوال تکنیک کا ہے لیکن اب جمالیات کا یہ ایک عام اور مسلمہ قاعدہ ہوگیا ہے کہ لذتِ احساس حقیقت سے زیادہ تخیل میں ہے اور پڑھنے یا دیکھنے والوں کو لطیف اشاروں کی مدد سے اپنے تخیل سے کام لے کر داستان کے کچھ گوشے خود مکمل کرنے پڑیں تو لذت کا احساس کہیں زیادہ ہوجاتا ہے کیونکہ داستان کی تشکیل میں پڑھنے والے کا تخیل بھی کسی قدر شامل ہوجاتا ہے اسی لیے بعض فن کاروں نے ابہام کو بڑی چابک دستی سے برتا ہے۔ بیدی کے یہاں ابہام نہیں ہے، بات واضح اور ہر موڑ نمایا ں ہے مگر پڑھنے والے کے ذہن کو مماثلتیں اور متوازی خطوط کی تلاش میں ایک گونہ لذت ملتی ہے اور کہانی کا جمالیاتی اثر دو چندہوجاتا ہے اور اسے بیدی نے فن کے درجے تک پہنچادیا ہے۔
آخر میں اس ناگزیر سوال پر غور کرنا ضروری ہے کہ بیدی کا اردو افسانہ نگاروں میں کیا مقام ہے؟
فکر کے اعتبار سے بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کے لطیف ترین گوشوں کے نازک مطالعے ہیں۔ اس آئینہ خانے میں انسان اپنے سچے روپ میں نظر آتا ہے اور بیدی اس کے ملمع کی تہوں کو ہٹاکر اس کے کمزور لمحوں میں اسے بے نقاب ہوتے دیکھ لیتے ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بیدی کے افسانے محض نفسیاتی مطالعے یا تحلیل نفسی کی کیس ہسٹری (CASE HISTORIES) نہیں ہیں بلکہ جذبات کی رو اور گداز سے معمور، بصیرت کی تابانی سے روشن، ایسے فن پارے ہیں جن سے فرد کی شخصیت کے لطیف گوشے ہی سامنے نہیں آجاتے بلکہ فرد اور سماج کے پرپیچ رشتے اور انسان کی شخصیت کے دلچسپ اور پراسرار تانے بانے پر روشنی پڑتی ہے۔ زندگی کی زیادہ بامعنی، زیادہ بلیغ زیادہ خیال انگیز اور فکر خیز تشکیل سامنے آتی ہے۔ جس میں احساس کا گداز بھی شامل ہوتا ہے اور فکر کا تجسس اور تجزیہ بھی۔
تکنیک کے اعتبار سے متوازی رمزیت اور تہہ داری کا استعمال جس طرح بیدی نے کیا ہے اس نے اردو افسانے کو ایک نئی منزل پر پہنچادیا ہے۔ ابھی تک اردو افسانے کو اتنا محتاط آرٹسٹ نہیں ملا تھا۔ لفظ کا رنگ اور نغمہ سمجھنے والے تو بہت سے تھے اور اب بھی ہیں لیکن لفظ کو لفظ سمجھنے والے معدودے چند ہی فن کار ہوئے ہیں۔ بڑے سے بڑا آرٹسٹ بھی کبھی کبھی نمائشی آب و رنگ WINDOW DRESSING کے لالچ میں پھنس جاتا ہے اور غیرضروری طور پر اپنے فن پارے کو یا اندازِ بیان کی خوبصورتی یا کسی قسم کی سستی لذت یا آرائش سے سجاکر اس میں دلکشی پیدا کرنا چاہتاہے۔ منٹو جیسا بات کا کھڑا اور قلم کا سچا فن کار بھی کبھی کبھی جنسی عنصر کو افسانوں میں دلچسپی اور دلکشی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ بیدی کے یہاں یہ کمزوری بہت کم ملتی ہے۔
بیدی نے ’’مذاقِ عام‘‘ کے پست پہلوؤں سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ان کے ہاں نمائشی پہلو ہمارے تمام افسانہ نگاروں میں سب سے کم ہے۔ وہ نہ اپنی ذات میں اسیر ہوتے ہیں نہ مذاق عام اور قبول عام کے لالچ میں۔ زندگی کی ایسی بے کم و کاست عکاسی جو رومان کی رنگ آمیزی اور قنوطیت یا دل دوز ظلمت پرستی دونوں سے مغلوب نہ ہو۔ بیدی ہی کا حصہ ہے اور اس سلسلہ میں بیدی کے افسانے منٹو سے بھی زیادہ دوٹوک، قطعی اور حقیقی ہیں۔
بیدی کے کرداروں میں کامیاب کردار بہت سے ہیں لیکن ابھی تک ان کے قلم نے کوئی خوجی کوئی امراؤجان کوئی لیلیٰ پیدا نہیں کی ہے۔ گو لاجونتی، اندو اور رانی اس منزل کی طرف کئی قدم آگے بڑھ گئی ہیں۔ یہ ایک عجیب اور پرلطف بات ہے کہ بیدی کے نسوانی کردار دوسرے تمام کرداروں سے زیادہ توانا اور فنی اعتبار سے بالیدہ ہیں لیکن ہمارے دور میں وہ ایسے دوتین افسانہ نگاروں میں سرفہرست ہیں جن کے قلم سے کسی غیرفانی کردار کی تخلیق کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان کے پاس بصیرت بھی ہے اور سماجی پس منظر کا احساس بھی، بیان کی قدرت بھی ہے اور کردار نگاری والے اس کی تہہ در تہہ پیچیدگیوں سے عہدہ برآہونے کی صلاحیت بھی، اس لیے ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی عظیم کردار ان کی تخلیق ہوگا۔
بلاشبہ بیدی ہمارے دور کے عظیم ترین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جائیں گے اور ان کے مدھم لب و لہجہ، ان کی تہہ داری، رمزیت، ان کی طرحداری اور خلوص کی کھنک ایک زمانے تک اردو دنیا کے کانوں میں گونجتی رہے گی اور اردو افسانے کو راہ دکھاتی رہے گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.