Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں

گوپی چند نارنگ

بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    اردو افسانے میں اسلوبیاتی اعتبار سے جو روایتیں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا جو اہم رہی ہیں، تین ہیں۔ پریم چند کی، منٹو کی اور کرشن چندر کی۔ پریم چند کے اسلوب کا تعلق اس عظیم عوامی روایت سے ہے جو پراکرتوں کے سمندر منتھن سے برآمد ہوئی تھی اور جسے کھڑی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پریم چند کی اردو ادنیٰ سی تبدیلی سے ہندی بن جاتی ہے اور ان کی ہندی ادنیٰ سی تبدیلی سے اردو۔ یہی اس کی طاقت ہے اور آج بھی ہندوستان کی عوامی زبان کا لسانی مقدر اسی بولی کے ہاتھ میں ہے۔

    پریم چند کے بعد آنے والے بیسیوں افسانہ نگار ان کی اسلوبیاتی روایت کے پیروکار رہے اور آج تک ہیں۔ منٹو کے ہاں اس کا دوسرا روپ ملتا ہے۔ بات وہی ہے لیکن جیسے سبزے کو کاٹ چھانٹ کر تختے اور روشیں جمادی گئی ہوں۔ پریم چند کے ہاں تصوریت کے اثر سے جو جذباتی آمیزش تھی، اس کے نکال دینے سے گویا وہی چیز جو پہلے سونا تھی، اب منٹو کے ہاں کندن بن گئی۔ منٹو کی زبان میں حیرت انگیز ہمواری اور صفائی ہے جیسے کسی گڑھی بنی چیز (Finished Product) میں ہوتی ہے۔ پریم چند کے ہاں اس کا ٹھیٹھ پن تھا، منٹو کے ہاں اس کا ترشا ہوا روپ ملتا ہے۔ ہر طرح کی اونچ نیچ اور افراط وتفریط سے پاک۔ منٹو کے ہاں ایک بھی لفظ بغیر ضرورت کے استعمال نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے ان کا اسلوب کفایتِ لفظی کا شاہکار ہے۔

    اس کے برعکس کرشن چندر الفاظ کے استعمال کے معاملے میں خاصے فیاض واقع ہوئے ہیں۔ ان کی نثر میں گھلاوٹ، روانی اور چستی ہے۔ یہ رومانیت کے تمام اوصاف سے مزین ہے، دلہن کی طرح سجیلی اور جاذب نظر، لیکن اس کی سحرکاری اور دلآویزی زیادہ دور تک ساتھ نہیں دیتی اور تھوڑی دیر میں سطحی قسم کے رومانی جوش وخروش میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کرشن چندر کے پرستاروں کی اب بھی کمی نہیں۔ لیکن جدید افسانہ کئی برس ہوئے رومانی نثر کی اس روایت کو خیرباد کہہ کر نئے فکری سفر پر روانہ ہو چکا ہے۔ البتہ منٹو کی ہموار اور افراط وتفریط سے پاک زبان آج بھی لائق توجہ ہے اور جدید نسل کے کئی افسانہ نگار اس سے متاثر ہیں۔

    لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کی زندگی کے تقاضے کچھ ایسے ہیں کہ صرف ہمواری اور سادگی وصفائی سے کام نہیں چلتا۔ منٹو کی زبان میں اشاریت کی صلاحیت ہے لیکن جدید ذہن اظہار وبیان کے روایتی سانچوں سے ناآسودہ ہے، اور ان سے کہیں آگے بڑھ کر رمزیت اور علامتیت کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی کہ جن افسانہ نگاروں نے منٹو کی اسلوبیاتی روایت کو اپنایا ہے انھیں کے ہاتھوں استعارہ، علامت اور تمثیل کے عمل سے اس کی معنوی شکل بدل رہی ہے۔

    بیدی نے منٹو اور کرشن چندر کے تقریباً ساتھ ساتھ لکھنا شروع کیا تھا لیکن کرشن چندر اپنی رومانیت اور منٹو اپنی جنسیت کی وجہ سے بہت جلد توجہ کا مرکز بن گئے۔ بیدی کو شروع ہی سے اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ وہ نہ تو کرشن چند جیسی رنگین نثر لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے ہاں منٹو جیسی بے باکی اور بے ساختگی آ سکتی ہے۔ چنانچہ وہ جو کچھ لکھتے، سوچ سوچ کر لکھتے۔ منٹو نے انھیں ایک مرتبہ ٹوکا بھی تھا، ’’تم سوچتے بہت ہو، لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، بیچ میں سوچتے ہو اور بعد میں سوچتے ہو۔‘‘

    بیدی کا کہنا ہے، ’’سکھ اور کچھ ہوں یا نہ ہوں، کاریگر اچھے ہوتے ہیں اور جو کچھ بناتے ہیں ٹھوک بجاکر اور چول سے چول بٹھاکر بناتے ہیں۔‘‘ چنانچہ فن پر توجہ شروع ہی سے بیدی کے مزاج کی خصوصیت بن گئی۔ سوچ سوچ کر لکھنے کی عادت نے انھیں براہ راست اندازِ بیان سے ہٹاکر زبان کے تخئیلی استعمال کی طرف راغب کیا۔ ’’گرہن‘‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے خود لکھا ہے، ’’جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اسے من وعن بیان کر دینے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔‘‘

    مشاہدے کے ظاہری پہلو میں باطنی پہلو تلاش کرنے کا یہی تخیلی عمل رفتہ رفتہ انھیں استعارہ، کنایہ اور اشاریت کی طرف یعنی زبان کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانے کی طرف لے گیا۔ ان کوششوں کے ابتدائی نقوش ’’دانہ ودام‘‘ اور ’’گرہن‘‘ کی کہانیوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ’’رحمان کے جوتے‘‘ میں ایک جوتے کا دوسرے جوتے پر چڑھنا سفر کی علامت ہے۔ یہ سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ کا بھی ہو سکتا ہے اور موت کا بھی۔ بوڑھا رحمان اپنی بیٹی سے ملنے دوسرے شہر جا رہا ہے تو راستے ہی میں اس کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس طرح بیدی ایک سماجی کہاوت کی مدد سے واقعے کے ظاہری اور باطنی پہلو میں معنوی ربط پیدا کر لیتے ہیں۔

    اسی طرح ’’اغوا‘‘ میں زمین کا کڑ توڑنا کنایہ ہے، رائے صاحب کی کنواری بیٹی کنسو کے رام کرنے کا۔ رائے صاحب کا مکان بن رہا ہے۔ علی جو، ایک وجیہ وشکیل کشمیری مزدور، ’’جو نل گاڑنے کے لیے زمین‘‘ کاٹنے پر مقرر ہے، ایک ساتھی کے پوچھنے پر کہتا ہے، ’’ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا، زمین پتھریلی ہے، کڑ بہت محنت سے ٹوٹےگا۔‘‘ لیکن کہانی کے آخر میں جب علی جو ’’دھرتی‘‘ کا کڑ توڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ’’نل‘‘، ’’زمین‘‘ میں ’’پانی‘‘ تک چلا جاتا ہے تو اسی رات وہ کنسو کو بھی لے اڑتا ہے۔

    لیکن وہ کہانی جس میں بیدی نے استعاراتی انداز کو پہلی بار پوری طرح استعمال کیا ہے اور اساطیری فضا ابھار کر پلاٹ کو اس کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا ہے، ’’گرہن‘‘ ہے۔ اس میں ایک گرہن تو چاند کا ہے اور دوسرا گرہن اس زمینی چاند کا ہے جسے عرف عام میں عورت کہتے ہیں اور جسے مرد اپنی خود غرضی اور ہوسناکی کی وجہ سے ہمیشہ گہنانے کے درپے رہتا ہے۔ ہولی ایک نادار، بے بس اور مجبور عورت ہے۔ اس کی ساس راہو ہے اور اس کا شوہر کیتو، جو ہر وقت اس کا خون چوسنے اور اپنا قرض وصول کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہولی کی سسرال سے مایکے بھاگ نکلنے کی کوشش بھی گرہن سے چھوٹنے کی مثال ہے لیکن چاند گرہن سے سماجی جبر کا گرہن کہیں زیادہ اٹل ہے۔ ہولی گھر کے کیتو سے بچ نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو سٹیمر لانچ کے کیتو کتھورام کی گرفت میں آ جاتی ہے جو اسے رات بھر کے لیے سرائے میں لے جاتا ہے اور اس طرح یہ خوبصورت چاند ایک گرہن سے دوسرے گرہن تک مسلسل عذاب کا شکار ہوتا ہے۔

    اس کہانی کی معنویت کا راز یہی ہے کہ اس میں چاند گرہن اور اس سے متعلق اساطیری روایات کا استعمال اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ کہانی کی واقعیت میں ایک طرح کی مابعد الطبیعیاتی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ خارجی حقیقت میں آفاقی حقیقت یا محدود میں لامحدود کی جھلک دیکھنے کی یہی خصوصیت جو گرہن میں ایک بیج کی حیثیت رکھتی ہے، آزادی کے بعد بیدی کی کہانیوں میں ایک مضبوط اور تناور درخت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے اور بیدی کے فن کی خصوصیت خاصہ بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کہانی ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ناول ’’ایک چادر میلی سی‘‘ خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔ بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری بنیادوں کو سمجھنے کے لیے ان دونوں کا نسبتاً تفصیلی تجزیہ کرنا اور الفاظ کے پردوں کو ہٹاکر ان کے پیچھے کے معنوی رشتوں کا پتا چلانا بہت ضروری ہے۔

    (۲)
    ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں بنیادی کردار کا نام اندو ہے۔ اندو پورے چاند کو کہتے ہیں جو مرقع ہے حسن ومحبوبیت کا اور جو پھلوں کو رس اور پھولوں کو رنگ دیتا ہے، جو خون کو ابھارتا ہے اور روح میں بالیدگی پیدا کرتا ہے۔ اندو کو سوم بھی کہتے ہیں جو سوم رس کی رعایت سے آبِ حیات کا مظہر ہے، جس کے بغیرزندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کہانی میں اندو کا جوڑا مدن سے ہے۔ مدن لقب ہے عشق ومحبت کے دیوتا کام دیو کا۔ اندو کو بیدی نے ایک جگہ رتی بھی کہا ہے جس سے ذہن پھر کام دیو کی طرف راجع ہوتا ہے۔ رگ وید (X129) میں کام دیو کو وجود کا جوہر (Primal Germ ofMind) کہا ہے جس سے کائنات کی تخلیق ہوئی۔ یونانی صنمیات میں Eros یا کیوپڈ کا تصور بھی اسی حیثیت سے آیا ہے۔ گویا کرداروں کے ناموں ہی سے سرشٹی کے مثبت اور منفی تتووں (Elements) کے ملنے اور تخلیق کے لامتناہی عمل کے شروع ہونے کا آفاقی احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔

    کہانی کا بنیادی خیال عورت اور مرد کی کوشش کا یہی پراسرار عمل ہے۔ بیدی کا ذہن چونکہ دیو سے زیادہ دیوی کی طرف یا تہذیب کے آبائی تصور سے زیادہ مادری تصور کی طرف راجع ہے (جس کی تفصیل آگے چل کر ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے ضمن میں پیش کی جائےگی) مدن محض آلۂ کار ہے تخلیقی عمل کی تکمیل کا، جنسی کشش کی تشخیص کا یا اندو کو بتدریج ادھورے سے پورا بنانے کا۔ اندو موضوع ہے اور مدن اس کا معروض۔ محبت کی موضوعی جہت کے علاوہ اندو کی دوسری جہتیں اور شانیں بھی ہیں۔ وہ بیٹی بھی ہے، بیوی بھی ہے اور ماں بھی۔ لیکن اول وآخر وہ ماں ہے یا پھر عورت جس کے تصرف میں ساری کائنات ہے اور جس کی ذات ذرے ذرے میں کھپی ہوئی اور چاند ستاروں میں بسی ہوئی ہے اور دھرتی بن کر جس نے آکاش کو اپنی بانھوں میں جکڑ رکھا ہے۔ بیدی جگہ جگہ گوش پوست کی اندو کی ازلی اور ابدی عورت سے تطبیق کرتے ہیں۔

    ’’مدن کی نگاہیں اور اس کے ہاتھوں کے دوشاسن صدیوں سے اس دروپدی کا چیر ہرن کرتے آئے تھے جو عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان، گزوں کے گز کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا تھا۔ دوشاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے لیکن یہ دروپدی وہیں کھڑی تھی، عزت اور پاکیزگی کی سفید ساری میں ملبوس دیوی لگ رہی تھی۔‘‘

    مدن خود ہی پانڈو ہے اور کورو بھی۔ وہ یدھشٹربھی ہے اور دوشاسن بھی۔ وہی حفاظت کرنے والا بھی ہے اور وہی ننگا کرنے والا بھی۔ عورت اور مرد کے تعلقات میں جسم کی لذت کے ساتھ ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ کرشن جو گزوں کے گز کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لیے دیتا ہے، وہ عورت کی اپنی محبت کی سچائی سے وہ گہری وابستگی ہے جو ہر خطرے کے موقع پر اس کی عفت اور پاکیزگی کی ڈھال بن جاتی ہے۔ محبت کی سچائی کے ساتھ عورت کی وابستگی کی مزید توثیق اس وقت ہوتی ہے جب اندو کے حاملہ ہونے سے مدن خائف ہو اٹھتا ہے کہ کہیں یہ مرہی نہ جائے، 

    ’’تجھے کچھ نہ ہوگا۔ اندو۔۔۔ میں تو موت کے منھ سے بھی چھین کے لے آؤں گا تجھے۔ اب ساوتری کی نہیں ستیہ وان کی باری ہے۔‘‘

    لیکن ستیہ وان کی باری کبھی آئی ہے نہ آئے گی۔ یہ ایثاروقربانی کی پتلی ساوتری یعنی اندو ہی کا مقدر ہے کہ ہر بار خون کے دریا سے گزرے اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ایک نئے وجود کو زندگی عطا کرے۔

    ’’کمرے میں وہ اکیلا ہی تھا اور اندو۔۔۔ نند ا ور جسودھا۔۔۔ اور دوسری طرف نندلال۔۔۔‘‘ 

    ’’اب سب کچھ ٹھیک تھا اور اندو شانتی سے اس دنیا کو تک رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا اس نے مدن ہی کے نہیں دنیا بھر کے گناہگاروں کے گناہ معاف کر دیے ہیں اور اب دیوی بن کر دیا اور کرونا کے پرساد بانٹ رہی ہے۔‘‘

    اب اندو جننی ہے جگت ماتا، سب کی ماں۔ وہ جسودھا ہے، دیوی کے بیٹے کرشن یعنی نند لال کو پالنے والی، خود دکھ سہنے اور سب کو سکھ اور شانتی دینے والی۔ تبھی تو اندو نے شادی کی رات مدن سے چھوٹتے ہی کہا تھا، ’’اپنے دکھ مجھے دے دو۔‘‘

    اس موقع پر اگرچہ، ’’آسمان پر کوئی خاص بادل نہ تھے لیکن پانی پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ گھر کی گنگا طغیانی پر تھی اور اس کا پانی کناروں سے نکل نکل کر پوری ترائی اور اس کے آس پاس بسنے والے گاؤں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔‘‘

    تھوڑی دیر میں دل کی کوئی کڑی ٹپکنے لگتی ہے اور ’’ہلکی بارش تیز بارش سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، اسں لیے باہر کا پانی اوپر کی کڑی میں سے ٹپکتا ہوا اندو اور مدن کے بیچ میں ٹپکنے لگا۔‘‘

    ’’برسات‘‘ اور ’’پانی‘‘ پڑنے کے استعارے کا استعمال بیدی نے اس موقع پر جب دھرتی کی کوکھ کھلی ہوئی ہے اور وہ اپنے آکاش سے بغل گیر ہونے اور ’’پانی‘‘ کی صورت میں اس کے بیج کو اپنے اندر جکڑ لینے یا اپنے قرض کو وصول کرنے کے لیے بے قرار ہے، ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں بھی کیا ہے۔ دونوں جگہ یہ بارش تیز نہیں بلکہ ہلکی ہے جو دھرتی کی نس نس، پور پور کو شرابور کر سکتی ہے۔ میں نے اس بات کی طرف پہلے اشارہ کیا ہے کہ اندو یعنی چاند کا دوسرا نام سوم ہے جو ’’پانی‘‘ سے پیدا ہوا اور جسے سوم رس یعنی زندگی کے امرت یا تخلیقی آبی مادے کا دینے والا تصور کیا جاتا ہے۔ وشنو پران سے روایت ہے کہ انوسویا کے بیٹے سوم کا بیاہ رشی دکش کی ۲۷ بیٹیوں سے ہوا تھا، لیکن دل وجان سے وہ چاہتا صرف روہنی کو تھا۔ باقی ۲۶ کے حسد ورقابت سے مجبور ہوکر دکش نے ’’سوم چاند‘‘ کو شراپ دیا تھا کہ ’’تیرا حسن کبھی ایک سا نہیں رہےگا‘‘ اور تو ہمیشہ گھٹتا بڑھتا رہےگا۔

    عورت (اندو) کا سفر بھی تخلیق سے تکمیل اور تکمیل سے تخلیق کی طرف جاری رہتا ہے، کبھی وہ کلی ہے، کبھی پھول اور کبھی مرجھائی ہوئی پنکھڑی، جو ہر بار جب کلی سے پھول بنتی ہے تو ایک نئی کلی کو جنم دیتی ہے۔ روشنی سے تاریکی اور تاریکی سے روشنی یا عدم سے وجود اور وجود سے عدم کے سفر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اندو کبھی سب کچھ ہے کبھی کچھ بھی نہیں۔ کبھی پونم کا چاند ہے اور کبھی اماوس کی رات۔ آخری منظر میں جب مدن اندو سے منحرف ہوکر بازار جانے کی کوشش میں ہے تو بیدی نے لکھا ہے، ’’پھر آج چاندنی کے بجائے اماوس تھی۔۔۔‘‘

    لیکن محبت میں اماوس سے پورنیما اور انکار سے اقرار کا سفر ایک جست میں طے ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں اندو پورے چاند کی صورت ’’مدن کا ہاتھ پکڑ کر اسے ایسی دنیاؤں میں لے جاتی ہے جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔‘‘ اگرچہ عورت کا یہ ہمہ گیر آفاقی تصور اپنی اصل کے اعتبار سے شیومت کے شکتی اور تانترک عقائد سے ملتا جلتا ہے لیکن کہانی کی ساری فضا ویشنو مت سے ماخوذ ہے۔ دروپدی، ساوتری اور سیتا سب ویشنو تصورات ہیں۔ ویشنوؤں کے خاص منتر ’’اوم نمو بھگوتے واسو دیوایا‘‘ سے بھی کئی موقع پر فضا سازی کی گئی ہے۔ اس میں واسو دیو سے مراد کرشن ہیں جو واسو دیو کے بیٹے اور وشنو کے آٹھویں اوتار مانے جاتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کا دن بھی وجے دشمی ہے جو رام کے تعلق سے وشنو کا تہوار ہے۔ ویشنو مت کے ان حوالوں کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ بخلاف ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کے ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کی ساری اساطیری فضا شیومت سے ماخوذ ہے۔

    ناول کا مرکز ومحور یہاں بھی عورت ہے، روح کائنات اور تخلیق کی امین لیکن اس تصور اور اس تصور میں ہلکا سا فرق زاویۂ نگاہ کا ہے۔ وہاں زور اس بات پر تھا کہ عورت زندگی کا زہر پی کر مرد کے لیے امرت فراہم کرتی ہے یا دکھ سہتی اور سکھ دیتی ہے۔ اس کے برعکس ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں واضح طور پر معاملہ حیاتیاتی یعنی عورت کے مرد کو قابو میں لانے اور تولید نسل کے تخلیقی عمل میں اس سے اپنے قرض کے وصول کرنے کا ہے۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں اندو کبھی دروپدی تھی، کبھی ساوتری اور کبھی جنک دلاری سیتا۔ یہ سب کے سب عورت کے مثبت روپ ہیں، محبت، ایثار، عزت، عصمت اور پاکیزگی کی اساطیری روایات سے جگمگاتے ہوئے لیکن ان کے مقابلے پر ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں رانو کے تصور میں مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ ناول کی ساری فضا خون سے لت پت اور تشدد کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے جس کا تعلق واضح طور پر شکتی پوجا، تانترک عقائد، خون کی قربانی اور قتل کی روایت سے ہے۔ ناول کے آغاز ہی سے اس کا اشارہ مل جاتا ہے، ’’آج شام سورج کی ٹکیا بہت لال تھی۔۔۔ آج آسمان کے کوٹلے میں کسی بے گناہ کا قتل ہو گیا تھا۔‘‘

    سورج کا لال ہونا استعارہ ہے قتل کا۔ بیدی نے محض کوٹلہ نہیں، بلکہ سورج کی رعایت سے آسمان کا کوٹلہ کہا ہے، جس سے فوری طور پر ایک ما بعد الطبیعیاتی (Metaphysical) فضا پیدا ہو جاتی ہے اور قتل وخون کا روح کو جکڑ لینے والا تصور سامنے آ جاتا ہے جو شکتی اور دیوی سے مخصوص ہے۔

    ’’کوٹلہ جاترا کی جگہ تھی۔ چودھری کی حویلی کے بازو میں دیوی کا مندر تھا، جو کبھی بھیروں سے بچتی بچاتی اس گاؤں آنکلی تھی اور اس جگہ جہاں اب ایک مندر کھڑا تھا، گھڑی دو گڑھی بسرام کیا تھا، پھر بھاگتی ہوئی جاکر سامنے سیالکوٹ، جموں وغیرہ کی پہاڑیوں میں گم ہو گئی تھی۔‘‘

    دیوی کی دوشانیں ہیں مثبت اور منفی۔ مثبت حیثیت سے وہ پاروتی ہے، اما، یا گوری ہے، نسوانی حسن وجمال اور محبت ووفا شعاری کی تمثیل اور مادرانہ شفقت کا مرقع، لیکن منفی شان میں وہ کالی ہے، درگا ہے اور بھوانی ہے، رنگت کی سیاہ، دیکھنے میں بھیانک اور ہیبت ناک۔ چہرے، دانتوں اور ہاتھوں سے خون ٹپکتا ہوا ور بھیروں کی لاش کو پیروں تلے دبائے وہ وحشیانہ طور پر مسکراتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شومت سے زیادہ تر دیوی یا شکتی کا یہی خونخوار تصور وابستہ ہے۔ شکتی قوتِ تخلیق ہے۔ اس کے ساتھ شو کا تصور محض تکمیلی حیثیت سے آتا ہے۔ شوشکتی کی تجسیم یونی اور لنگم یعنی عورت اور مرد کے اعضائے مخصوص سے کی جاتی ہے جو تانترک عقائد کی رو سے پرستش کا موضوع ہے۔ شکتی ماں بھی ہے اور شو کی بیوی بھی اور بھیروں کے روپ میں اس کی قاتل بھی۔

    منگل اور رانو کے رشتے کی توجیہ مغربی نفسیات کے Oedipus Complex کی رو سے کرنا سامنے کی بات ہے۔ بیدی کے ذہن میں یہ تصور بھی رہا ہوگا لیکن میرا خیال ہے کہ بیدی فرائیڈ کی جنسیات سے اتنے متاثر نہیں، جتنے قدیم ہندوستانی فکر کے نظریۂ جنس سے۔ کرداروں کی تعمیر کاری کے تخلیقی عمل میں وہ شکتی کے ان وسیع تر تصورات سے جن کی رو سے شکتی ماں بھی ہے اور رفیقۂ حیات بھی، کیسے بچ سکے ہوں گے، خصوصاً جبکہ ان کا بچپن ان علاقوں میں گزرا ہے جہاں یہ تصورات قبل تاریخی زمانے سے رائج ہیں۔

    بھیروں تعداد میں ایک سے زیادہ ہیں۔ یہ شو یعنی ازلی مرد کی شانیں ہیں اور سب کی سب وحشی اور تخریب کار۔ شو کی پتنی دیوی انھیں کی رعایت سے بھیروی بھی کہلاتی ہے۔ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں ایک بھیروں تو خود تلو کا ہے، جھگڑا لو، غصیلا اور تشدد پسند۔

    ’’مار ڈالا مار ڈالا۔ ہائے نی کوئی بچاؤ ہائے نی یہ راکھشس۔‘‘

    ’’تلوکے کے دماغ میں آج ہنگامے کی بجائے وہ جاترن گھسی ہوئی تھی اور رات بھر گھسی رہی۔ اندھیرے میں وہ خود مہربان داس تھا اور رانو جاترن۔‘‘ دوسرے بھیروں مہربان داس، گھنشام داس اور بابا ہری داس ہیں جو سازش کرکے نوعمر جاترن یعنی دیوی کی عزت پر حملہ کرتے ہیں۔ ’’دیوی کے پاس تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے ترشول تھا، جس سے اس نے بھیروں کا سر کاٹ کے الگ کر دیا لیکن اس معصوم جاترن کے پاس صرف پیارے پیارے گلاب سے ہاتھ تھے، جنھیں وہ بھیروں کے سامنے جوڑ سکتی تھی۔۔۔ پھر بدن۔۔۔ جیسے تربوز کے گودے کا بنا ہوا، جو مہربان کی چھری سے بچ نہ سکتا تھا۔ شاید اسی لیے اس دن کا سورج غصے میں لال، کہیں گم ہو گیا تھا اور پھر آسمان پر دوج کے چاند کو نچڑنے پیلا ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔‘‘

    لیکن دیوی چونکہ ناقابل تسخیر ہے، وہ جاترن کے بھائی کی شکل میں تلو کے کا خون چوس لیتی ہے، ’’وہ اپنے خون میں بسے ہوئے کپڑوں کو نچوڑ نچوڑ کر لہو اپنے سر پر مل رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دیوی کی روح اس میں چلی آئی ہے اور ایک انتقامی جذبے سے اپنا روپ کروپ اور آنکھیں بھبھوکا کیے بھیروں یا تلوکے کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘‘

    ناول کے آخر میں یہی لڑکا پھر شکتی کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے اور رانو کی بیٹی بڑی کو فروخت ہونے سے بچاتا ہے اور شادی کے ذریعے اس کی رکشا کرتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اگرچہ شکتی کا تصور مابعد الطبیعیاتی طور پر ناول کی معنوی فضا میں پوری طرح بسا ہوا ہے، لیکن دراوڑوں کے مادری تہذیبی دور سے گزرنے کے بعد (جن کے ہاں عورت کو مرکزی اہمیت حاصل تھی) نسل انسانی کا قافلہ جن راہوں سے گزرا ہے اور پدری تہذیب نے اپنے ارتقا کی منازل کو جس طرح طے کیا ہے، اس کے پیش نظر آج کی انسانی برادری میں عورت کا وہ درجہ نہیں رہا۔

    حیاتیاتی طور پر وہ کمزور ہے ہی، سماجی طورپر بھی اس کا درجہ خاصا کمتر ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جو کم ترقی یافتہ یا غیرترقی یافتہ کہے جاتے ہیں، اس لیے زندگی کا وہ ازلی کرب جو عورت مرد دونوں کا مشترکہ ورثہ ہے، عورت کے حصے میں کچھ زیادہ ہی آتا ہے۔ ہمارے ہاں سماجی سطح پر عورت کی بے بسی، محرومی اور بےچارگی شکتی کے قدیم ہمہ گیر تصور کی بالکل ضد ہے۔ بیدی کے ہاں ہندوستانی عورت کے روحانی اور سماجی مقام و مرتبہ کا یہ تضاد کھل کر سامنے آتا ہے۔ عورت کی زندگی جس طرح سے درد کا ساگر ہے، بیدی اس کے احساس کو اپنے مخصوص استعاراتی انداز میں جگہ جگہ اظہار کی سطح تک لے آئے ہیں۔

    ’’بیٹی تو کسی دشمن کے بھی نہ ہو بھگوان! ذرا بڑی ہوئی، ماں باپ نے سسرال ڈھکیل دیا، سسرال والے ناراض ہوئے، مائیکے لڑھکا دیا۔ ہائے یہ کپڑے کی گیند۔ جب اپنے ہی آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہے تو پھر لڑھکنے جوگی بھی نہیں رہتی۔‘‘

    ’’رانو سوچتی۔۔۔ وہ خود بھی تو روٹی کپڑے کے وعدے پر چلی آئی تھی۔ لیکن پاپی پرماتما نے جب اس کی بچی کو زندگی کی سسرال میں بھیجا تو روٹی کپڑے کا بھی وعدہ نہ کیا۔‘‘

    ’’رانو اٹھی۔۔۔ مڑتے ہوئے اس نے جندان کو ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو تو تو جننی ہے ماں! جگت ماتا ہے، تو تو مجھے مت دھتکار۔ جیسے تیسے بھی ہو، مجھے رکھ لے، میرا اس دنیا میں کوئی نہیں۔‘‘

    ’’رانو نے چموں کی طرف دیکھا۔۔۔ جیسے یہ اس کا بچپن تھا، اس کی معصومیت ہی تھی جو رانو کے دکھ کو سمجھ سکتی تھی۔ یہ بچپن اور معصومیت جو کردہ اور ناکردہ گناہوں سے کہیں اوپر تھی۔ رانو کا جی چاہا اسے چھاتی سے لگالے۔ بھینچ لے کہ وہ پھر سے اس کے بدن میں تحلیل ہو جائے اور اس دنیا میں نہ آئے جہاں۔۔۔‘‘

    ’’ہیر نے کہا، اے جوگی تو جھوٹ کہتا ہے، روٹھے یار کو منانے کون جاتا ہے۔ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئی، ایسا کوئی نہ دیکھا جو جانے والوں کو واپس لے آئے۔۔۔‘‘

    ناول میں دو موقعوں پر برات کا منظر ہے، ایک بار جب منگل کو زبردستی پکڑ کر لایا جاتا ہے اور دوسری بار جب جاترن کا بھائی بڑی کو بیاہنے آتا ہے، دونوں جگہ غالباً غیرارادی طور پر شو کا تصور ابھرتا ہے، ’’اور عجیب سی برات، جیسے شوجی پاروتی کو لینے آئے ہوں۔ گلے میں رود راکش کی مالائیں اور سانپ! منھ میں دھتورا اور بھانگ! کمر میں لنگوٹ اور کاندھے پر مرگ چھالا اور ہاتھوں میں ترشول۔۔۔ براتی بندر اور لنگور، شیر اور چیتے اور ہاتھی۔۔۔‘‘

    شادی کے بعد شو اور پاروتی کی طویل جدائی اور ملن کا ذکر پرانوں میں ملتا ہے۔ ناول میں منگل اپنی شادی کی عجیب وغریب نوعیت کی وجہ سے رانو سے کھنچا ہوا ہے۔ شوجی کی تپیسا بھنگ کرنے اور انھیں پاروتی کی طرف راغب کرنے کے لیے کام دیو اور رتی کی ضرورت پڑی تھی۔ ناول میں رتی کے روپ میں سلامتے ہے جس کے متناسب اعضا کی کشش منگل کے جسم میں جنس کی جوالا کو بھڑکا دیتی ہے۔ لیکن اس موقع پر گھر کی پاروتی رانو راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اشٹم کے چاند کی طرح آدھی نظروں کے سامنے اور آدھی نظروں سے اوجھل،

    ’’رانو کیا چھپا رہی تھی۔ کوئی بات تھی جو ابٹنے، بندی، اخروٹ کی چھال اور رس بھریوں سے اوپر ہوتی ہے جس کا تعلق عورت کی شکل وصورت میں نہیں ہوتا۔ نہ اس کی نسائیت اور اس کی انتہا سے، جسے وہ دھیرے دھیرے سامنے لاتی ہے اور جب لاتی تب پتا چلتا ہے یہ بات تھی، جیسے اشٹم کا چاند اپنا آدھا چھپائے رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ روز بروز ایک ایک پردے، دوپٹے، چولی، انگیا سب کو الگ ڈالتا جاتا ہے اور آخر میں ایک دن ایک رات پورنیما کی روپ میں آکر کیسی بے خودی ومجبوری، کیسی ناداری ولاچاری کے ساتھ اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔‘‘

    منگل جب شراب کے نشے میں لڑکھڑاتا ہوا دروازے تک جاتا ہے اور پھر گھر کے باہر کا گھور اندھیرا دیکھ کر واپس آ جاتا ہے تو سامنے، ’’رانو کھڑی تھی، پونم کا چاند، جو بے صبر ہوکر آدھے سے پورا ہو گیا تھا اور بادلوں کے لحاف وتوشک کو چیرتے پھاڑتے ہوئے نیچے زمین پر اتر آیا تھا۔‘‘

    ’’عورت کا حسنِ ثلاثہ منگل کے سامنے تھا جس سے گیہوں کی روٹی کھانے والا کوئی بھی مرد انکار نہیں کر سکا۔۔۔ اور بیچ میں لطیف سا پردہ۔۔۔ پھر اس حسن پر ایک انگڑائی۔۔۔ سال کے باون ہفتے، ہفتے کے سات دن، دن کے آٹھ پہروں، گھنٹوں اور پلوں میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب چاند لپک کر سورج کو سر سے پاؤں تک گہنا دیتا ہے۔‘‘

    ایک طویل جد وجہد کے بعد یہ ایک طرح سے شکتی کی جیت تھی۔ عورت کی فتح، جس نے اپنے مرد کو اپنے وجود میں تحلیل کر لیا تھا۔ شکست خوردہ سورج، ’’منگل‘‘ شب کے سامنے شرمایا اور بادل کے پردے سے منہ نکال کر اپنی زمین ’’رانو‘‘ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔ شکتی کی اس بھرپور فتح کے موقع پر بیدی نے ہندوستانی عورت کی روحانی عظمت اور سماجی بےبسی کے تضاد کو نظرانداز نہیں کیا۔ ایک طرف تو بےچارگی کی یہ کیفیت ہے، ’’آج آسمان کے کوٹلے پر کوئی نادار اپنی محبت سے سرشار روتا کڑھتا ہوا اپنی پھٹی پرانی چادر اوڑھ کے سو گیا تھا۔‘‘

    اور دوسرے طرف بڑی کی شادی کے سلسلے میں طاقت وعظمت کا یہ منظر،

    ’’رانو ہاں کہے گی تو دنیائیں بس جائیں گی اور اگر نہ کہے گی تو پرلے آ جائےگی۔ مہاپرلے، جس میں کیا انسان اور کیا حیوان کیا پشو اور کیا پنچھی۔ کیا دھرتی اور کیا آکاش، سب ناش ہو جائیں گے۔ سمے کے پاس کوئی نوح نہ رہےگا اور خدا کے پاس کوئی روح۔۔۔ شبد میں جھنکار نہ رہےگی، جیوتی میں پرکاش نہ رہےگا۔‘‘

    شروع میں میں نے کہا تھا کہ شیومت کے پیکروں کی وجہ سے پورے ناول کی معنوی فضا میں قتل وخون کی روایت بسی ہوئی ہے۔ تلوکے کے قتل اور جاترن کی عصمت دری کے بعد خونیں مناظر ایک کے بعد ایک سامنے آتے رہتے ہیں۔ منگل کو جب گھسیٹ کر شادی کے لیے لایا جاتا ہے تو ’’وہ لہولہان تھا۔‘‘ اسی طرح وصل کی رات بوتل کی چھینا جھپٹی میں رانو کے سر سے ’’خون کا فوارہ‘‘ بہہ نکلتا ہے۔ ’’ٹماٹر‘‘ جو کھایا نہیں جا سکا، تلوکے کی خون آلود لاش کی یاد دلاتا ہے۔ وصل کی رات کو پھر یہی ٹماٹر چینی کی ایک ٹوٹی ہوئی رکابی میں ملتا ہے، ’’دل کی شکل کا ٹماٹر جو آٹھ حصوں میں کٹا پڑا تھا۔‘‘ آخری باب میں بڑی کی شادی کے بعد جب رانو مندر کی طرف ہاتھ اٹھا دیتی ہے تو اچانک محسوس ہوتا ہے، ’’جہاں کلس تھے وہیں اندھیرے میں کسی کے ہاتھ پھیلے اور گردن لٹکتی ہوئی نظر آئی۔‘‘

    (۳)
    اوپر کے تجزیوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیدی کے فن میں استعارہ اور اساطیری تصورات کی بنیادی اہمیت ہے۔ اکثر و بیشتر ان کی کہانی کا معنوی ڈھانچا دیومالائی عناصر پر ٹکا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ وہ شعوری یا ارادی طور پر اس ڈھانچے کو خلق کرتے ہیں اور اس پر کہانی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دیومالائی ڈھانچا پلاٹ کی معنوی فضا کے ساتھ ساتھ از خود تعمیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیدی کا تخلیقی عمل کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اپنے کردار اور اس کی نفسیات کے ذریعے زندگی کے بنیادی رازوں تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں۔ جبلتوں کے خود غرضانہ عمل، جسم کے تقاضوں اور روح کی تڑپ کو وہ صرف شعور کی سطح پر نہیں بلکہ ان کی لاشعوری وابستگیوں اور صدیوں کی گونج کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔

    بیدی کے ہاں کوئی واحد واقعہ واقعۂ محض نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں لاکھوں دیکھے اور ان دیکھے واقعات کی نہ ٹوٹنے والی مسلسل کڑی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل میں چونکہ ان کا سفر تجسیم سے تخئیل کی طرف، واقعہ سے لاواقعیت کی طرف، تخصیص سے تعمیم کی طرف اور حقیقت سے عرفان حقیقت کی طرف ہوتا ہے، وہ بار بار استعارہ، کنایہ اور دیومالا کی طرف جھکتے ہیں۔ ان کا اسلوب اس لحاظ سے منٹو اور کرشن چندر دونوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ کرشن چندر واقعات کی سطح تک رہتے ہیں۔ منٹو واقعات کے پیچھے دیکھ سکنے والی نظر رکھتے تھے۔ لیکن بیدی کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ چلتے تو یہ بھی زمین پر ہیں، لیکن ان کا سر آکاش میں، پاؤں پا تال میں ہوتے ہیں۔

    بیدی کا اسلوب پیچیدہ اور گمبھیر ہے۔ ان کے استعارے اکہرے یا دہرے نہیں، پہلودار ہوتے ہیں۔ ان کے مرکزی کردار اکثر و بیشتر ہمہ جہتی (Multidimensional) ہوتے ہیں جن کا ایک رخ واقعاتی اور دوسرا آفاقی وازلی (Archetypal) ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان کی تعمیر کاری میں زماں اور مکاں کی روایتی منطق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی نفسیات میں انسان کے صدیوں کے سوچنے کے عمل کی پرچھائیں پڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں وقت کا لمحۂ موجود صدیوں کے تسلسل میں تحلیل ہو جاتا ہے اور چھوٹا سا گھر پوری کائنات بن کر سامنے آتا ہے۔

    بیدی جس عورت اور مرد کا ذکر کرتے ہیں وہ صرف آج کی عورت اور آج کا مرد نہیں بلکہ اس میں وہ عورت اور وہ مرد شامل ہیں جو لاکھوں کروڑوں سال سے اس زمین کے شدائد جھیل رہے ہیں اور اس کی نعمتوں سے لذت یاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بیدی کے پہلو دار استعاراتی اسلوب کی وجہ سے ان کے کرداروں کے مسائل اور ان کی محبت ونفرت، خوشیاں اور غم، دکھ اور سکھ، مایوسیاں اور محرومیاں نہ صرف انھیں کرداروں ہی کی ہیں، بلکہ ان میں ان بنیادی جذبات اور احساسات کی پرچھائیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں جو صدیوں سے انسان کا مقدر ہیں۔ یہ مابعد الطبیعیاتی فضا بیدی کے فن کی خصوصیت خاصہ ہیں۔

    میں نے شروع میں کہا تھا کہ بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کے اولین نقوش ان کی ابتدائی کہانیوں میں ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔ ان کا پہلا کامیاب استعمال ’’گرہن‘‘ میں کیا گیا تھا لیکن اس وقت بیدی کو بھی اپنی اس قوت کا احساس نہیں تھا۔ آزادی کے بعد ’’لاجونتی‘‘ کی کامیابی نے یقیناً انھیں مزید اس راہ پر ڈالا ہوگا خواہ ایسا لاشعوری طور ہی پر ہوا ہو۔

    ’’کوکھ جلی‘‘ اگرچہ ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی لیکن اس کی اکثر کہانیاں آزادی سے پہلے کی ہیں، لیکن پہلی بار پوری طرح یہ اسلوب ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں کھل کر سامنے آیا۔ اس کے بعد تو جیسے بیدی نے اپنے آپ کو پالیا، یا انھیں اپنے اسلوب کی بنیادوں کا عرفان ہو گیا۔ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ لگ بھگ اسی زمانے میں لکھا گیا۔ اس میں اور اس کے بعد بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کی قوت شفا کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں آزادی کے بعد سب کہانیوں کے تجزیے کی گنجائش تو نہیں البتہ مختصراً چند اشارے کیے جاتے ہیں۔

    ’’لاجونتی‘‘ میں معنوی فضا کی توسیع کے لیے ’’رامائن کی کتھا‘‘، ’’سیتا کے اغوا‘‘ اور ’’دھوبی کی حکایت‘‘ سے مدد لی گئی ہے۔ ’’جوگیا‘‘ میں رنگوں کی حیثیت پہلو دار استعاروں کی ہے اور ان احساسات اور کیفیات کو ابھارا گیا ہے جو رنگوں کے اثر سے طبیعت میں پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ببل‘‘ میں عفت وعصمت کی پاسداری کے لحاظ سے لڑکی کے کرداروں کی سیتا سے تطبیق کی ہے اور خود ببل نٹ کھٹ بالک کرشن ہے جو ہوٹل میں سیتا کو درباری کی ہوس کا شکار ہونے سے بچا لیتا ہے۔ لمبی لڑکی میں گیتا کے سترہویں ادھیاے اور اس کے مہاتم کا تصور ملتا ہے جو اس وقت پڑھا جاتا ہے جب دادی کی زندگی کی کشتی ’’لمبی لڑکی‘‘ کی شادی کے بعد کنارے آ لگتی ہے۔ ’’ٹرمینس سے پرے‘‘ میں اچلا کا شوہر رام گڈکری بیسویں صدی کا رام ہے جو بن باس یعنی دورے پر جاتے ہوئے اپنی سیتا یعنی اچلا کو راس رچانے کے لیے پیچھے اکیلا چھوڑ جاتا ہے۔

    ’’حجام الہ آباد کے‘‘ میں سرسوتی کے سنگم کا لوک پتی جس نے حجامت بنا بنا کے سب کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے، دراصل ہماری موجودہ سیاسی لیڈر شپ یا حکمراں طبقہ ہے۔ یہ غالباً بیدی کی واحد کہانی ہے جس میں استعارے کی باقاعدہ تکرار نے پوری کہانی کو علامتی رنگ دے دیا ہے۔ ’’دیوالہ‘‘ بھابی اور نند کے جنسی جذبات کی کہانی ہے جس میں بیدی نے شادی کے ادارے کے بارے میں بعض سوال اٹھائے ہیں۔ اس کا مرکزی کردار آتش باز لڑکا شیتل ہے جو نہ صرف گوکل اشٹمی کے دن کرشن کی روایت کی پیروی میں رسم کی مٹکی پھوڑتا ہے بلکہ عملاً بھی ’’مٹکی‘‘ پھوڑتا ہے۔ ’’یوکلپٹس‘‘ کی اساطیری علامتیں عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ بیدی کی تازہ کہانیوں میں سے ’’میتھن‘‘ میں کھجوراہو کے مندروں کی جنسی وحدیت کی فضا ہے۔ اس میں جنس کو اکائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مرد اور عورت جنس کے دو پہلو ہیں۔ توام۔ آپس میں جڑے ہوئے۔

    جیمنی کا جڑواں ستاروں کا تصور یونانی اور مصری اساطیر میں بھی ملتا ہے لیکن اس کی ثنویت میں وحدت دیکھنا ہندوستانی ذہن سے متعلق ہے۔ بیدی نے اپنے مخصوص انداز میں جنسی انجذاب کی وحدیت میں تخلیقِ کائنات کی مابعد الطبیعیاتی وحدانیت کی جو معنوی فضا پیدا کی ہے، وہ بڑی حد تک تانترک ہے اور ان کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔

    اس بات کی شکایت عموماً کی جاتی ہے کہ بیدی اب جنس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جس طرح اوپر کے تجزیے سے یہ بات ثابت کی جا چکی ہے کہ دیومالا سے مدد لینے کا رجحان بیدی میں شروع سے تھا لیکن آزادی کے بعد یہ باقاعدہ طور پر ان کے فن کا حصہ بن گیا، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ جنس کے بارے میں لکھنے کا مادہ بیدی میں پہلے سے تھا ( ’’گرہن‘‘ کی چودہ کہانیوں میں سے سات یعنی نصف کے مرکزی خیال کا جنس سے گہرا تعلق ہے ) لیکن آزادی کے بعد اس نے ایک بھرپور رجحان کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ سوچنا غلط نہیں ہے کہ بیدی کو ہندوستانی اساطیر وروایات کے ساتھ شروع ہی سے جو دلچسپی رہی ہوگی، وہ آزادی کے بعد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ انھیں ہندوستانی ذہن کے تصور جنس کا بھی گہرا احساس رہا ہوگا۔

    یہ سامنے کی بات ہے کہ قدیم ہندوستان کا تصور جنس سامی تصور جنس سے یا جدید مغربی تصور جنس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ بہت ہی آزادانہ، کھلا ڈلا اور بھرپور ہے، روح کی لطافت سے شاداب اور خون کی حدت سے تھرتھراتا ہوا۔ سامی تصور کی سخت گیری جو مجازی لگاؤ کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہے، یہاں نام کو بھی نہیں۔ بے شک جسمانی لذت اور حواس کی سرشاری اس کا نقطۂ آغاز ہے لیکن یہ کیفیت اس ہوسناکی اور سفلہ پن کی طرف نہیں لے جاتی جو مغربی مزاج سے مخصوص ہے۔ جسمانی حسن کے آزادانہ اور بیباک اظہار کی وجہ سے یہاں عریانیت کے وہ معنی ہی نہیں، جن سے ہمارے موجودہ ذہن آشنا ہیں۔

    شوشکتی اور وشنو مت کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہ ہندوستان میں اساطیر کی دو اہم ترین روایتیں ہیں اور دونوں میں جنس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے شوشکتی کے سلسلے میں یونی اور لنگم کی پرستش کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ کرشن کی راس لیلا کا مرکز ومحور بھی جنس ہے۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ شوشکتی کے تصور میں دراوڑی ذہن کی کھردری ارضیت کا پہلو نمایاں ہے اور کرشن کی راس لیلا یا سیتا اور رام کے تعلقات میں آریائی ذہن کی آسمانی لطافت کا پہلو نمایاں ہے۔ ان اساطیری تصورات کے علاوہ بیدی کے سامنے ہندوستانی فنونِ لطیفہ کی روایتیں بھی رہی ہیں۔ ہندوستانی مصوری، سنگ تراشی اور موسیقی میں جنس کا عمل دخل دنیا کی کسی بھی تہذیب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں راگ راگنیاں بھی حسیناؤں کے پیکر میں ڈھل کر سامنے آتی ہیں۔ کھجوراہو یا کونارک کی سنگ تراشی ہو یا اجنتا ایلورا، باگھ اور ایراوتی کی مجسمہ سازی یا نقاشی، ہر جگہ جنس کا اظہار آزادانہ اور بھرپور طریقے پر ہوا ہے۔

    اس میں لذت کا پہلو یقیناً ہے لیکن اس عظیم مسرت کے روپ میں جو انسان کو فطرت کا سب سے اہم عطیہ ہے۔ دراصل سارا معاملہ تخلیق کے لامتناہی عمل کا ہے۔ ہندوستانی روایت میں جنس کے جسمانی پہلو کو اس کے روحانی پہلو سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاتا۔ یا پھر یوں کہا جا سکتا ہے کہ جنس کے جسمانی پہلو کی کچھ اس طرح سے تطہیر اور تقدیس کر دی گئی ہے کہ عریانیت عریانیت نہیں رہی۔ بیدی کے ہاں جنس کے ذکر کو اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت ہی بدل جاتی ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے،


    ’’یہ دنیا کتنی پیاری جگہ ہے جہاں کے لوگ خدا نے بنائے اور پھر فرشتوں سے کہا کہ ان کو سجدہ کرو۔ سالیوں کے چلے جانے کے بعدآخر ایک دن ایک رات عظیم ’’وہ‘‘ سامنے بیٹھی ہوتی ہے، ویدوں کے منتر اور شاستروں کے ارتھ جس کی طرف کبھی واضح اور کبھی مبہم اشارے کرتے ہیں۔ بیاہ شادی کے گیت جس کے لیے مرتعش اور بھٹوں میں جس کے لیے اینٹیں پکتی ہیں۔۔۔ اور سبھاؤں میں شور جس کے لیے بڑھتا ہی جاتا ہے، جسے اس کے بچوں کی ماں ہونا ہے، اس لیے وہ اس دھرتی کی طرح ڈرتی سمٹتی ہے، جس میں کسان آتاہے، ہل کاندھے پر ڈالے، جس کا تیز اور تیکھا پھل ابھی ابھی کسی لوہار نے تیز آنچ والی بھٹی میں ڈھالا ہے۔۔۔ سر پرپگڑی باندھے، کلغی سجائے وہ راجا جنک معلوم ہونے لگتا ہے جو دھرتی کو الٹائے گا تو نہ جانے کب سے اس میں دبی ہوئی مٹکی پھوٹ جائےگی اور اس میں سے بڑے ہی صبر، بڑے ہی ایثار، بڑے ہی پیار والی جنک دلاری سیتا پیدا ہوگی جس کے لیے اس کا عظیم ’’وہ‘‘ آتا ہے، ایک ہاتھ میں مقدس کتاب، دوسرے میں شراب لیے۔۔۔‘‘

    تاریخ کے دھندلے ادوار میں وہ ان گنت گوپیوں سے کھیلا ہے، ان کے ساتھ بے شمار راسیں رچائی ہیں اور اس کی آنکھوں میں ڈر ہے، اور محبت اور بہمیت۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس بار کی تروتازہ حسین وجمیل دوشیزہ کے بدن پر قبضہ جمائےگا، بار بار اپنائےگا، بے ہوش ہو ہی جائےگا اور وہ نہیں جانتا وہ محض ایک تنکا ہے، زندگی کے بحر زخار میں صرف ایک بہانہ ہے تخلیق کے اس لامتناہی عمل کو ایک بار چھیڑ دینے کا، ایک بار حرکت میں لے آنے کا اور پھر بھول جانے کا۔۔۔‘‘ (لمبی لڑکی)

    ’’موہن نے ہمیشہ عورت کو مایا کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ باہر سے اور اندر سے اور معلوم ہوتی تھی۔ اچھا اور برا، گناہ اور ثواب کبھی خوبصورت کبھی بدصورت طریقے سے آپس میں گھلے ملے ہوتے تھے۔ پھر جو عورت کپڑوں میں بھری پری دکھائی دیتی وہ دبلی نکلتی اور دبلی دکھائی دینے والی بھری پری۔۔۔! اسے ہی تو مایا کہتے ہیں یالیلا، مثلاً ایسی تندرست عورت جسے دیکھتے ہی گردے میں درد ہونے لگے، اس سے ڈرنا بے کار بات ہے اور ہڈیوں کے ڈھانچے سے الجھنے پہ اتنا بھی نفع نہیں ہوتا تھا جتنا کسی مزدور کو بیس سیر لکڑیاں کاٹنے سے۔ مایا جس کے بارے میں کہیں یہ ہاتھ نہ آئے گی وہی گردن دبائےگی اور مایا کیا ہوتی ہے۔‘‘ (ٹرمینس سے پرے) 

    یہ لے شہوانی حدوں کو بھی چھو سکتی ہے لیکن کتھا سرت ساگر، ہتوا پدیش، شکاسپ تتی اور پرانوں کے سیکڑوں ہزاروں قصے کہانیوں میں شہوانیت کا وہ کون سا پہلو ہے جو بیان نہیں ہوا۔ ان میں عورت کی فطرت اور جسمانی مسرت کے سربستہ رازوں کو کھولنے کی مسلسل کوشش ملتی ہے۔ ہندوستان کے کلاسیکی ادبی سرمایے میں جو مخصوص بے باکی پائی جاتی ہے، وہ چٹخارے کے لیے یا محض اکسانے کے لیے نہیں، اس کا تعلق جسمانی مسرت کی باخبری سے ہے۔ بیدی کے ہاں جنس کا ذکر زیادہ تر اسی لحاظ سے آتا ہے جہاں معاملہ فطرت کے دل کی دھڑکنوں کو سننے، جسمانی کیف وسرور کے عظیم معمے کو سمجھنے، عورت اور مردکے تعلقات کی بھول بھلیوں کے بھید کو جاننے اور کائنات میں اتصالِ باہمی کی پراسرا ریت کی گرہیں کھولنے کا ہو، وہاں جنس کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ناگزیر ہے۔

    (۴)
    اب چند الفاظ بیدی کے اسلوب اور نئے افسانہ کی زبان کے بارے میں۔ نئے افسانہ میں براہ راست انداز بیان سے بچنے اور زبان کو تخیلی سطح پر استعمال کرنے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر اس رجحان کو رمزیہ اندازِ بیان (Oblique Expression) کا رجحان کہا جا سکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ان تینوں اسلوبیاتی روایتوں سے انحراف کرتا ہے جس کا ذکر میں نے مضمون کے شروع میں کیا تھا۔ یعنی پریم چند کی، منٹو کی اور کرشن چندر کی۔ ان تینوں روایتوں کو مجموعی طور پر براہ راست اندازِ بیان (Direct Expression) کی روایت کہا جا سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پرانے افسانہ نگاروں کے ہاں رمزیہ انداز بیان کی مثالیں مل جائیں گی، مثلاً احمد علی کا ’’موت سے پہلے‘‘ یا کرشن چندر کا ’’غالیچہ۔‘‘ لیکن ایسی مثالیں خال خال ہی ہیں جبکہ نئے افسانے میں رمزیہ اور تمثیلی اندازِ بیان نے غالب رجحان کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

    آزادی کے بعد جن افسانہ نگاروں نے براہِ راست اندازِ بیان سے رمزیہ اندازِ بیان کی طرف سفر کیا ہے، ان میں دو نام نہایت اہم ہیں: قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اردو میں پہلی بار اساطیری کہانیاں بیدی نے لکھیں۔ بیدی کے ہاں اساطیر سے مدد لینے کا رجحان ’’گرہن‘‘ سے شروع ہوتا ہے جو سنہ ۴۲ یا اس سے پہلے شائع ہو چکی تھی جبکہ انتظار حسین ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے مجموعہ ’’کنکری‘‘ میں کوئی اساطیری انداز کی کہانی نہیں، البتہ سب سے پہلے حکایت اور داستان کے تمثیلی اسلوب کی باز یافت انتظار حسین نے کی۔ انتظار حسین کے اسلوب کو داستانی تمثیلی اسلوب کی توسیع کہہ سکتے ہیں، جبکہ بیدی کا انداز بیان اساطیری ہے۔

    جدید افسانہ نگاروں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے براہ راست اندازِ بیان کے افسانہ نگار ہوتے ہوئے بھی بعض افسانوں میں رمزیہ اندازِ بیان کو استعمال کیا۔ میری مراد رام لال کے افسانے ’’آنگن‘‘، جوگندر پال کے ’’بازیافت‘‘، اقبال مجید کے ’’پیٹ کا کیچوا‘‘ سے ہے۔ ان سے کچھ ہٹ کر اردو افسانہ میں اس وقت کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں بھی آرائش لفظی، رنگیں بیانی، مرصع کاری اور تشبیہ سازی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے جہاں تشبیہ اور استعارے کے فرق سے بحث کی تھی، اس کی وضاحت کردی تھی کہ زبان کے تخئیلی استعمال کے سلسلے میں استعارے کے مقابلے میں تشبیہ کم تر درجے کی چیز ہے۔ تشبیہ بے شک شعری لوازم میں سے ہے لیکن اول تو اس کی معنوی فضا محدود ہوتی ہے اور استعارے کی لامحدود، دوسرے یہ کہ تشبیہ مشبہ بہ کے ساتھ آتی ہے اور اکثر و بیشتر اس کے ساتھ وجہ شبہ اور حرف تشبیہ کا دُم چھلّا لگا ہوا ہوتا ہے، جس سے نہ صرف طوالت اور لفاظی پیدا ہوتی ہے بلکہ اشاریت بھی مجروح ہوتی ہے۔

    اردو افسانہ میں تشبیہ سے مزین نثر دراصل کرشن چندر کے اسلوب کی توسیع ہے۔ کرشن چندر کے ہاں پھر بھی ایک لطافت، نرمی اور توانائی ہے جبکہ ان لوگوں کے ہاں تشبیہ اور تکرار کی بھرمار سے نثر بے حد کثیف اور گاڑھی ہو گئی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی گاڑھی نثر لکھنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ زبان وادب کی خدمت کررہے ہیں، اردو افسانے پر احسان فرما رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں اپنے گناہ بخشوائے ہوئے وہ افسانہ نگار بھی شامل ہیں، جنھیں افسانوی زبان کا سرے سے شعور ہی نہیں۔ لمبے لمبے جملے، رنگین اور نادر تشبیہیں، منظر نگاری کی بھرمار، تفصیل ہی تفصیل، جزئیات ہی جزئیات، الفاظ ہی الفاظ۔ ادب بے شک الفاظ کا فن ہے لیکن الفاظ کو سیلقے سے برتنے کا، نہ کہ ان کا ڈھیر لگانے اور انھیں بے مصرف استعمال کرنے کا۔

    ان کے مقابلے پر وہ افسانہ نگار ہیں جو سرے سے براہ راست اندازِ بیان کے قائل ہی نہیں اور موجودہ دور میں افسانے کے لیے صرف رمزیہ، علامتی یا تمثیلی اندازِ بیان ہی کو موزوں سمجھتے ہیں۔ میری مراد دیویندر اسر، بلراج مینرا، سریندر پرکاش، انور سجاد، احمد ہمیش، خالدہ اصغر، بلراج کومل اور کمار پاشی جیسے افسانہ نگاروں سے ہے۔ یہ اردو افسانہ کی بلوغت کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اب واضح معنی کے بجائے پوشیدہ معنی کی اہمیت تسلیم کر لی گئی ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ جیسے جیسے افسانہ ترقی کرتا جائےگا، رمزیہ اندازِ بیان کی اہمیت بڑھتی جائےگی۔

    عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اب افسانے کی زبان شاعری کی زبان سے قریب آ گئی ہے، لیکن یہاں شاعری کی زبان سے کرشن چندر اور ان کی صف کے افسانہ نگاروں کی رومانی نثر مراد نہیں، جو طرح دار تو ہے تہہ دار نہیں۔ جدید افسانے میں شاعری کی زبان سے وہ زبان مراد لینا چاہیے جو شاعرانہ وسائل سے کام لیتی ہے یعنی کنایہ، استعارہ، علامت، تمثیل، اشاریت اور رمزیت سے۔ نیز اساطیر، قدیم رسوم وعقائد اور لوک روایات سے مدد لے کر نئے نئے معنوی تلازموں کی دریافت کرتی ہے۔

    آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے افسانہ نگار جب براہ راست اندازِ بیان کی پرانی اسلوبیاتی روایت کو رد کر چکے ہیں تو رمزیہ اندازِ بیان کی نئی روایت کی بنیاد کس اردو پر رکھی جائےگی؟ پریم چند کی زبان تو ارتقائی سفر میں پیچھے رہ گئی ہے۔ کرشن چندر کی زبان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ان دونوں کے بعد منٹو رہ جاتے ہیں یا پھر بیدی۔ بیدی کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا اسلوب اتنا منفرد ہے کہ اس کی پیروی نہ کسی سے ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے، اس لیے نہیں کہ اس کی بنیاد استعارہ یا اساطیر پر ہے (کیونکہ یہ بات تو ان میں اور اکثر جدید افسانہ نگاروں میں وجہ اشتراک ہے) بلکہ اس لیے کہ بیدی کی زبان اردو کے بنیادی دھارے Mainstream سے قدرے ہٹی ہوئی ہے۔ اس طرح لے دے کے فقط منٹو رہ جاتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ منٹو کی زبان بنیادی اردو سے قریب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ قابل قبول ہے۔

    یہاں زبان اور اسلوب کے فرق پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ اسلوب کی دو پرتیں ہوتی ہیں۔ پہلی اظہار کی پرت (Level of Expression) اور دسری معنیاتی پرت (Level of Discourse)، جہاں تک رمزیہ اندازِ بیان کی پہلی پرت کا تعلق ہے یعنی اظہار کا، تو لامحالہ منٹو کی زبان بنیاد کا کام دےگی لیکن معنیاتی پرت تو لفظ کے پوشیدہ معنی پر زور دینے، استعارہ، کنایہ، علامت اور اساطیر سے مدد لینے اور زبان کے زیادہ سے زیادہ تخلیقی استعمال سے تیار ہوگی۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ معنیاتی تہہ داری، استعاراتی گہرائی اور اساطیری روایتوں کے لامحدود خزینوں سے استفادے کی بیدی کی دکھائی ہوئی راہ ہمیشہ روشن رہےگی۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے