بھیا
ہم لوگوں کا وطن مالوف موضع کوریاپار ضلع اعظم گڑھ (اب ضلع مئو) اترپردیش ہے۔ دادا اور نانا دونوں جانب سے ہم لوگ نسلاً شیخ فاروقی ہیں۔ میں نے بھیا کو ایک بار کہتے سنا ہے کہ یہی ایک چیز ہے جس پر ہم لوگ بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں ورنہ اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ والد ماجد مرحوم اپنی خودنوشت سوانح حیات، ’’قصص الجمیل فی سوانح الخلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ہمارا نسب نامہ حضرت شیخ عبداللہ ابن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ اس قول کی تصدیق میرے خسر صاحب مرحوم (خان بہادر محمد نظیر صاحب) کے مورث اعلیٰ محمد عمر صاحب فاروقی بنارسی کے شجرہ سے ہوتی ہے۔ ان کا نسب بھی حضرت عبداللہ ابن فاروقؓ تک پہنچتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں فاروقی شیوخ حضرت شیخ عبداللہ ابن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل سے ہیں۔ 1
یہ بات مشہور ہے کہ ایک بزرگ جن کا نام کوڑیا شاہ جب یہ خطہ غیرآباد تھا، رہتے تھے اور انہی کے نام پر یہ ضلع کوریاپار مشہور ہوا۔ چودھویں صدی کے آخر میں یعنی 1388ء میں جب فیروزشاہ تغلق کا انتقال ہوا تو دہلی کے مشائخ اور علماء بے دین بادشاہوں سے دور رہنے کی وجہ سے دہلی چھوڑنے لگے۔ فیروز شاہ تغلق بزرگوں اور مشائخ کا بڑا قدردان اور معتقد تھا معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے کوئی بزرگ شخص ابراہیم لودھی کے زمانہ میں کوریاپار آکر آباد ہوگئے۔ 2
اسی طرح نانا مرحوم خاں بہادر مولوی محمد نظیر صاحبؒ کے والد جناب مولوی عبدالقادر صاحبؒ کی کتاب حیات سابق کی طبع ثانی کے دیباچہ میں بھیا نے ایک شجرہ بہت محنت سے ترتیب دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نانہال کی طرف سے بھی سلسلہ نسب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ملتا ہے۔ 3
لیکن ہمارے نانہال میں میرے ہوش سنبھالنے تک دینداری تو ضرور تھی لیکن ساتھ میں مذہبی رواداری بھی تھی۔ ہمارے نانا مرحوم اور سبھی بزرگان پابند صوم و صلاۃ تو ضرور تھے لیکن مذہب کی طرف سے وہ کٹرپن نہ تھا جو ہمارے دادی ہالی خاندان کی خصوصیت تھی۔ ہمارے نانا مرحوم میلاد کی محفلیں بڑے ذوق و شوق سے منعقد کراتے اور نذر و نیاز میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ 4
برخلاف اس کے ہمارے دادی ہالی بزرگان میں مذہبی کٹرپن تھا اور ا س میں کسی قسم کی چھوٹ یا مصالحت کی گنجائش قطعی نہیں تھی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد ہمارے کچھ ہمزاد بھائی، جو اس وقت نوجوانی کی حدود میں داخل ہو رہے تھے ترک سکونت کرکے پاکستان چلے گئے تھے اس کے پیچھے کم از کم میرے خیال میں، بوجوہ دیگر ان کے والدین کا مذہبی کٹرپن بھی کسی حدتک کارفرما تھا۔ جس سے فرار حاصل کرنے کی غرص سے، نوجوانی کے ناعاقبت اندیش جوش میں وہ اپنے گھر سے دور چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک عم زاد بھائی ترک سکونت کرکے کراچی میں مقیم ہوئے اور وہاں اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’شجرحیات‘‘ شائع کرایا۔ جس کا ایک افسانہ ’’جس کا محلہ میں تھا ہمارا گھر‘‘ میری بات کی تائید میں لیا جاسکتا ہے۔
خود ہمارے گھر میں مذہبی کٹرپن پوری شدت سے جاری و ساری تھا۔ ان میں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرنا، تلاوتِ کلام پاک اور رمضان کے تیس روزے رکھنا ہمارے گھر کا معمول تھا اور ان سے چھوٹ کا تصور ہی محال تھا۔ دونوں وقت خصوصاً شب کو بعد نماز مغرب والد ماجد مرحوم کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا لازمی تھا۔ کسی قسم کا فیشن، کسی قسم کی تزئین و سامانِ آرایش و آسایش دنیاکے گزر ہمارے گھر میں نہ تھا۔ ان سے ہم لوگ تعلیم ختم کرنے کے بعد خودکفیل ہوئے تو دیکھا اور جانا۔ مذہب کے سلسلہ میں بھی ہمارے اجداد نے ہمیشہ بنیادی باتوں پر زور دیا۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر کے اصول پر تاحیات سختی سے قائم رہے۔
اس سلسلہ میں حُب مال و اولاد کی کوئی وقعت نہ تھی۔ مجھے یاد ہے بات غالباً 1967ء کے آس پاس کی ہے۔ ہمارے خالو جناب سید ارشاد احمد صاحب (جونپوری) جو ان دنوں بغرض ملازمت الہ آباد میں تعینات تھے کے یہاں میلاد شریف تھا جس میں ہم سب ہی لوگ جو وہاں اس موقت موجود تھے، سوائے والد ماجد مرحوم کے، شریک ہوئے۔ رات تقریباً ۱۲بجے تک واپسی ہوئی۔ ظاہر ہے کہ میں بھی صبح دیر تک پڑا سوتا رہا۔ صبح چائے پر والد ماجد مرحوم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کیوں صاحب رات میں لوگوں نے میلاد میں شرکت کی تھی ان میں سے کتنوں نے آج صبح نماز جماعت سے ادا کی، کچھ معلوم ہے آپ کو، پھر مزید فرمایا کہ عموماً جو لوگ محفل میلاد میں شریک ہوتے ہیں ان میں سے کچھ اس امید میں جاتے ہیں کہ میلاد کے بعد مٹھائی تقسیم ہوگی، چائے ملے گی، کچھ رسم دنیا نبھانے کے لیے جاتے ہیں کہ ہم فلاں کے کام میں نہیں شریک ہوں گے تو وہ بھی ہمارے کام میں نہیں آئیں گے اور کچھ لوگ جسے تصوف کی اصطلاح میں عُجب کہتے ہیں کے لیے جاتے ہیں کہ میں نے فلاں جگہ فلاں مولانا کی تقریر سنی واہ کیا عمدہ بیان تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک دن ایک شخص فجر کی جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ بعد نماز اس صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور صورتحال دریافت فرمائی ان کی والدہ نے جواب دیا کہ امیرالمومنین میرا بیٹا چونکہ رات بھر نفل پڑھتا رہا ہے لہٰذا فجر کی نماز گھر ہی ادا کرکے اس وقت سو رہا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس پر اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بہتر ہے کہ آدمی فجر کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرے بہ نسبت اس کے کہ وہ رات بھر نفل پڑھے اور فجر کی نماز کے لیے جماعت میں شریک نہ ہو۔ 5
ہمارے اجداد اللہ ان کے مراتب بلند فرمائے اور ان کے مرقد کو نور سے بھردے۔ اسی اسپرٹ کے قائل تھے جس پر وہ زندگی بھر عمل پیرا رہے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ جتنی مضبوطی سے انہوں نے دین کو ظاہر سے پکڑا تھا اتنی ہی مضبوطی و جانفشانی سے انہوں نے تزکیہ نفس کے ذریعہ قلب کو رذائل سے پاک کرنے کی باقاعدہ جدوجہد بھی کی تھی۔ چنانچہ ہمارے اکابر حضرت شاہ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ اور بعد میں ان کے خلیفہ رشید حضرت شاہ مولانا وصی اللہ صاحب نوراللہ مرقدہم کے باقاعدہ مریدین میں سے تھے اور راہِ سلوک ان کی زیرنگرانی طے کی تھی۔
پروفیسر احمد سعید کی کتاب ’’بزمِ اشرف کے چراغ‘‘ حصہ اول 6 میں ہمارے بڑے ابا جناب حاجی حافظ محمد طٰہٰ صاحبؒ خلیفہ مجاز محبت حضرت تھانویؒ کا ذکر ہے۔ اسی طرح تذکرہ علمائے اعظم گڑھ 7 میں ہمارے دادا حکیم مولوی محمد اصغر صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہمارے بڑے ابا جناب شاہ فضل الرحمٰن صاحبؒ اور تذکرہ علمائے مبارکپور، میں ہمارے ایک اور بڑے اباجناب حاجی عبدالرحمٰن صاحب زاہدؔ رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر خیر ملتا ہے 8 ہمارے والد ماجد مرحوم اپنے سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور اپنے بڑے بھائیوں کا بے حد احترام فرماتے تھے۔ سبھی بھائی خداترسی، زہد، تقویٰ، اخلاق و ادائیگی حقوق العباد کی اعلیٰ ترین مثال تھے اور کون ان میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھا کہنا مشکل تھا۔
ایک عجیب خداداد کیفیت میں نے اپنے بزرگوں میں محسوس کی، وہ یہ کہ سبھی چچا لوگ شکل و شباہت میں ایک دوسرے کی نقل تھے اور میں نے اپنے ہوش سنبھالنے کی عمر سے ان کے وصال تک ان کو ایک ہی نہج پر دیکھا۔ نہایت صاف ستھرے بے داغ کپڑے پہنے ہوئے، شیروانی ٹوپی موزہ جوتہ، سرخی مائل خوب گورا رنگ، دراز قد، دوہرا بدن، قناعت و یقین کے نور سے دمکتے ہوئے چہرے پر بھرپور داڑھی، مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفاست، نزاکت، حِلم، وقار، وبردباری کے پیکر جنہیں دیکھ کر بے اختیار خدا یاد آجائے۔ والذین جاہدوا فینا لنھدینَّہم سبلنا، ان اللہ لمع المحسنین (سورۃ عنکبوت أیت۶۹) ترجمہ: اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سمجھادیں گے ان کو راہیں اپنی، اور بے شک اللہ ساتھ ہے نیکی کرنے والوں کے۔
بھائیوں میں اس قدر محبت تھی کہ فی زمانہ اس کی نظیر محال ہے۔ 1978میں بہ سلسلہ ملازمت جب میں گورکھپور میں تعینات تھا ایک روز چچا مولوی حبیب الرحمٰنؒ سے ملاقات کے لیے ان کے مکان پر گیا تو معلوم ہوا کہ مسجد میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں مسجد میں چلا گیا تو دیکھا کہ صحن مسجد میں چچا مرحوم بیٹھے ہوئے زاروقطار رو رہے ہیں۔ آنکھ سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے جیسے کوئی سوتا پھوٹ نکلا ہو۔ مجھے دیکھا تو بولے ہائے خلیل الرحمٰن چلا گیا مجھ سے چھوٹا تھا لیکن مجھ سے پہلے چلا گیا اور مجھے رونے کے لیے چھوڑ گیا۔ بھیا بھیا کہتے اس کے منھ نہ تھکتا تا۔ اب مجھے کون بھیا کہنے والا ہے۔ مرحوم ہمیشہ مجھے بیٹا اور کبھی میرا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح والد ماجد مرحوم نے بھی ہمیشہ اپنے بھتیجوں سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت فرمائی۔ کہاں گئے وہ لوگ۔ عند ذکرالصالحین تنزیل الرحمۃ۔
اس خاندانی پس منظر اور ان بزرگوں کے بیچ ہمارے بھائی صاحب جناب شمس الرحمٰن فاروقی مدظلہ العالی، جنہیں ہم سب بھیا کہتے ہیں، ۳۰/ ستمبر 1935 کو ضلع پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد مرحوم کانام مولوی محمد خلیل الرحمٰن فاروقیؒ ابن حکیم مولوی محمد اصغرؒ (1910۔ 1972) ہے۔ 1929ء میں سینٹ اینڈ ریوز کالج گورکھپور سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1931 میں آپ نے سینٹرل پیڈا گا جیکل انسٹی ٹیوٹ الہ آباد سے ایل۔ ٹی۔ کا سرٹی فیکیٹ حاصل کرکے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور 37 سالہ محنت کش سرکاری ملازمت کی مدت کمال دیانت داری اور نہایت کام یابی سے گزارنے کے بعد 1968 میں الہ آباد سے رٹائر ہوگئے اور الہ آباد محلہ راجاپور میں دارالسلام کی تعمیر کرواکر اللہ کی عبادت دریاضت و اشاعت دین کے کاموں کے لیے خود کو وقف کردیا لیکن افسوس عمر عزیز نے زیادہ وفانہ کی اور جب ان کے خون جگر سے سینچے گئے چمن کے پھلنے پھولنے کا وقت آیا تو اللہ کے حکم سے کمال بزرگی کی ان کی صوفیانہ وزاہدانہ زندگی کا چراغ 12فروری 1972 کو گل ہوگیا۔
انتقال کے وقت عمر شریف 62 سال تھی۔ اپنے انتقال سے کچھ دن قبل انہوں نے اپنی سوانح قصص الجمیل فی سوانح الخلیل کے نام سے ترتیب دی تھی جو مرحوم کی فطری بے نیازی و نام و شہرت سے عدم دلچسپی کی بناپر ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی اور ان کے انتقال کے بعد 1973 میں بھیا نے اسے شایع کرایا۔ چنانچہ قصص الجمیل میں لکھتے ہیں ’’جس جانفشانی سے میں نے نوکری ختم کی ہے اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ سب ڈپٹی انسپکٹری اور ڈپٹی انسپکٹری کے زمانہ میں اپنی ہرکولیس سائیکل سے جو میں نے 1929 میں والدہ مرحومہ کے عطا کیے ہوئے روپیوں سے خریدی تھی کم از کم پچاس ہزار میل ۳۲ برسوں میں سفر کیا ہے۔ ہاتھوں میں گٹھے اب بھی موجود ہیں‘‘۔ کتاب کے دیباچہ میں بھیا لکھتے ہیں (ان کی شخصیت میں) انکسار تھا لیکن عجز نہ تھا، حِلم تھا لیکن پستی نہ تھی، وصول الی اللہ کی سعی تھی لیکن اس پر کسی قسم کا عجب و غرور نہ تھا‘‘ ایک عارف باللہ کی زندگی کیسی ہوتی ہے اس کا اچھی طرح اندازہ کتاب کے سرسری مطالعہ سے ہی ہوتا ہے۔ کتاب کا ایک ایک حرف اللہ کی کبریائی اور اس کی نعمتوں کے شکرانہ کے احساس میں ڈوبا ہوا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ والد ماجد مرحوم اپنے سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے جب کہ بھیا اپنے ساتھ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میں ہوں اور اگرچہ بہنوں کو شامل کرتے ہوئے ترتیب بناویں تو بھیا تیسرے نمبر پر آتے ہیں اور میں چھٹویں پر ہوں۔ تیرہ بھائی بہنوں کا خاندان اور کمانے والی اکیلی ایک جان والد ماجد مرحوم کی اور وہ بھی اکل حلال سے، لیکن بحمد اللہ ہم ساتوں بھائیوں نے الہ آباد یونیورسی سے ایم۔ اے۔ کیا اِن میں تین نے انگریزی میں، تین نے تاریخ میں اور ایک نے عربی میں ایم اے کیا۔ یہ والد ماجد مرحوم کی بظاہر سخت تربیت اور رزقِ حلال کا ہی ثمرہ تھا۔ تنخواہ اور ٹی اے کے علاوہ ایک پیسہ کی ناجائز کمائی کا تو تصور ہی محال تھا کبھی کسی کا معمولی احسان لینا بھی پسند نہیں فرمایا۔ والد ماجد مرحوم 55۔ 1948 تک گورکھپور میں تعینات رہے۔ جن میں ان کی ایک تعیناتی بانس گاؤں حلقہ کی بھی تھی۔
1978 میں جب میں بانس گاؤں میں تحصیلدار تعینات ہوا تو لامحالہ مجھے والد مرحوم کی یاد آتی رہی کہ جن راہوں پر انہوں نے سائیکل سے دورہ کیا اللہ کے حکم سے اور انہی کے جوتیوں کے طفیل میں انہی راہوں پر میں سرکاری جیپ سے دورہ کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی میں ضلع پریشد کے اسکولوں میں بھی چلا جاتا تھا۔ اس دوران مجھے ایک ٹیچر ملے جنہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں ڈپٹی صاحب کا بیٹا ہوں (والد ماجد مرحوم اسی نام سے جانے جاتے تھے) تو کہنے لگے ارے صاحب ان کے ایسا تو آدمی ملنا مشکل ہے۔ ایک دن صبح وہ کوڑی رام بس اسٹیشن پر اترے اور مجھ سے کہا کہ اپنی سائیکل دن بھر کے لیے مجھے دے دو آج میں اپنی سائیکل نہیں لایا ہوں۔ شام کو پانچ بجے تک میں علاقے کا دورہ کرکے لوٹوں گا تو آپ یہیں مل جائیے گا اور اپنی سائیکل واپس لے لیجیے گا۔
غرض یہ کہ شام کو پانچ بجے تک حسب وعدہ ڈپٹی صاحب دورہ کرکے واپس لوٹے تو میری سائیکل شکریہ کے ساتھ واپس کردی اور ساتھ میں کاغذ کا ایک لفافہ جس میں کچھ مٹھائی تھی وہ بھی مجھے دیا اور کہا کہ یہ تمہارے بچوں کے لیے ہے۔ میں نے کہا ڈپٹی صاحب یہ کیا میں نے تو آپ کو سائیکل دی تھی وہ مجھے واپس مل گئی۔ مٹھائی کیسی؟ ڈپٹی صاحب نے کہا نہیں بھائی تم نے اپنی سائیکل دے کر میرے ساتھ جو احسان کیا تھا اس کا بدلہ میں اسی وقت اتاردینا چاہتا ہوں کیونکہ کل کا کچھ ٹھکانہ نہیں، پھر تمہارا احسان کیوں مجھ پر رہے۔
بھیا کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں تفصیلی حالات مجھے نہیں ملے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ ’’قصص الجمیل‘‘ میں بھی آپ کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ البتہ بچپن سے ہی آپ کے شوق کتب بینی کے بارے میں والد ماجد مرحوم رقم طراز ہیں ’’شمس الرحمٰن بچپن سے ہی کتابوں کے پڑھنے کے شوقین ہیں۔ 1941میں اعظم گڑھ میں ویسلی (Wesley) اسکول کے بالکل سامنے ایک کوٹھے پر ہم لوگ رہتے تھے۔ اس کو ٹھے کے نیچے ایک دفتری کی دوان تھی جو اب بھی ہے۔ اس میں ایک لڑکا جو شمس الرحمٰن سلمہٗ سے بڑی عمر کا تھا اپنے باپ کے ساتھ جلد سازی کیا کرتا تھا۔ اب وہ یہی کام کر رہا ہے۔ یہ سارا کھیل اور دلچسپیاں چھوڑ کر اس کی دکان پر جواردو کی کتابیں جلد سازی کے لیے آتی تھیں اندھیرا ہونے تک پڑھا کرتے تھے۔ ہم لوگوں کے منع کرنے پر بھی کہ آنکھ خراب ہوجائے گی نہیں مانتے تھے۔ ۷۔ ۸ برس کے لڑکے کو پڑھنے کا یہ شوق کم دیکھنے میں آتا ہے۔ 9
میرے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم کوریا پار کے مولوی محمد شریف صاحب ؒ سے حاصل کی تھی بعدہٗ اعظم گڑھ شہر کے ایک مکتب جو باغ پر پیٹو کے نام سے مشہور تھا داخل ہوئے۔ میں نے بھی اس مکتب میں دینی تعلیم حاصل کی ہے لیکن بھیا میرے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔ لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے مکتب میں داخل ہونے کے قبل وہ مکتب کی تعلیم مکمل کرکے انگریزی تعلیم کرنے کی غرض سے ویسلی (Wesley) ہائی اسکول اعظم گڑھ میں داخلہ لے چکے تھے۔
میری یادداشت میں 1948 اور اس کے بعد کے واقعات اچھی طرح محفوظ ہیں۔ 1948 میں والد ماجد مرحوم کے اعظم گڑھ سے تبادلہ کے ساتھ ہم لوگ گورکھپور آگئے تھے اور میرا داخلہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں درجہ پانچ اور بھیا کا داخلہ دسویں جماعت میں ہوا۔ چونکہ میں بہت چھوٹا تھا اس لیے بھیا کے ساتھ ہی اسکول جاتا تھا اور وہی مجھے اپنے درجہ میں بٹھالیتے تھے۔ آخری پریڈ کھیل کود کا ہوتا تھا اور چونکہ میں طبعاً بزدل تھا اس لیے کھیل کود (P.T) میں حصہ نہ لے کر بھیا کی آخری کلاس جو فارسی کی ہوتی تھی اور جس میں معدودے چند طالب علم ہوتے تھے سب سے پیچھے والی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھ جاتا تھا اور کلاس ختم ہونے پر انہی کے ساتھ گھر واپس ہوتا تھا۔ صبح کے وقت اس ٹیم میں کبھی کبھی ہمارے زاد بھائی جناب محمد عزیر فاروقی صاحب جو ان دنوں سینٹ اینڈریوز کالج گورکھپور میں بی۔ اے۔ میں پڑھتے تھے شامل ہوتے تھے۔ بھیا اور عزیز بھائی آگے آگے اور ان کے چند قدم پیچھے میں۔
بھیا نے 1949 میں گورنمنٹ جوبلی اسکول گورکھپور سے ہائی اسکول فرسٹ ڈویژن میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا اس کے بعد 1951میں میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹرکالج گورکھپور سے انٹرمیڈیٹ و 1953میں مہارانا پرتاپ ڈگری کالج گورکھپور سے بی۔ اے کرکے الہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے (انگریزی ادب) میں داخلہ لیا۔ اور 1955 میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا، جس کے اعزاز میں انہیں دو سونے کے تمغے بھی دیے گئے۔ اس زمانہ میں یہ بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی اور الہ آباد یونیورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ کا یہ غیرتحریری دستور تھا کہ سال کے ٹاپر Topper طالب علم کو ڈپارٹمنٹ میں جگہ رہتے لیکچرر شپ کی جگہ مل جاتی تھی لیکن باوجود جگہ ہونے او ربھیا کی بسیار کوششوں کے اربابِ وطن کے تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے انہیں یونیورسٹی میں لیکچرر شپ نہیں مل سکی۔ جب کہ میرٹ لسٹ کے ساتویں و آٹھویں نمبر کے طلبا کو یونیورسٹی میں لیکچرر کی جگہ مل گئی۔ چونکہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے اس لیے بادل نخواستہ انہوں نے ستیش چندر کالج بلیا اور اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کچھ دن کام کیا اور 1958میں آئی۔ اے۔ ایس کے مقابلہ میں شریک ہوئے اور اللہ کے حکم سے پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوکر انڈین پوسٹل سروس میں داخل ہوئے۔
دراصل اللہ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا بھلے ہی انسان کو فوراً مصلحت کا علم نہیں ہوپاتا۔ اگر بھیا اس وقت یونیورسٹی میں لیکچرر تعینات ہوگئے ہوتے تو ممکن ہے ان کے ادبی سرمائے میں کچھ اضافہ ضرور ہوتا جتنا کہ آج ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو ان سے اردو ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ قوم و مخلوق خدا کی خدمت کا کام بھی لینا تھا لہٰذا عمر عزیز کے 36سال بلا امتیاز و تفریق ملت و مذہب کمال فرض شناسی و دیانت داری کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے بعد ملازمت سے 1994 میں رٹائر ہوئے۔ عموماً سرکاری ملازم رٹائرمنٹ کے بعد سے رنجیدہ و ملول نظر آتے ہیں لیکن بھیا رٹائرمنٹ کے کئی سال قبل سے اس کے انتظار میں تھے کہ کب وہ وقت آوے اور وہ دفتری و سرکاری پابندیوں سے آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔
اب بھی محکمہ میں ان کی وہ عزت و لحاظ ہے جو بیشتر افسران کو جو ابھی ملازمت میں ہیں حاصل نہیں۔ ان کی ملازمت کے ویسے تو متعدد واقعات ہیں جن کے لیے ایک دفتر چاہیے لیکن صرف دو واقعات پر اکتفا کروں گا۔ راوی ہمارے عم زاد بھائی محمد یعقوب فاروقی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ کہیں ٹرین میں سفر کر رہے تھے ٹرین میں بہت بھیڑ تھی۔ لہٰذا وہ کھڑے ہوئے تھے۔ ٹرین چلنے پر جیسا کہ طریقہ ہے مسافر ایک دوسرے سے بات کرکے وقت گزارتے ہیں۔ دوران گفتگو جو لوگ برتھ پر بیٹھے ہوئے تھے میں سے ایک نے اپنے صاحب یعنی بھیا کے محاسن بتانے شروع کیے۔ یعقوب بھائی کچھ دیر تو کھڑے سنتے رہے پھر بول پڑے جن صاحب کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ تو میرے بھائی ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ وہ شخص اگرچہ غیرمسلم تھا اپنی سیٹ سے فوراً کھڑا ہوگیا اور ضد کرکے یعقوب بھائی کو برتھ پر بٹھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے صاحب کے بھائی کھڑے رہیں اور میں ان کے سامنے بیٹھا رہوں۔
جن دنوں میں گونڈہ میں ایس۔ ڈی۔ ایم (S.D.M) (1991) تعینات تھا، بھیا کا ایک ماتحت پوسٹل سروس چھوڑ کر ڈپٹی کلکٹری میں آگیاتھا (غالباً مشرا کرکے نام تھا) جب اسے معلوم ہوا کہ میں ان کے گزشتہ صاحب کا بھائی ہوں۔ میرے پاس اٹھتا بیٹھتا اور بھیا کے بارے میں بتاتا تھا کہ ہم لوگ دیگر افسران کے کئی کئی صفحات کے ڈی او D.Oکا کوئی خاص اثر قبول نہیں کرتے تھے اور انہیں پڑھ کر معمول کے مطابق آفس کے لیے مارک کردیتے تھے لیکن فاروقی صاحب کے ایک سطری تنبیہی خط پڑھ کر بدحواس ہوجاتے تھے اور جب تک اس خط کا خاطر خواہ جواب بھیج نہیں دیتے تھے چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ موصوف نے ایسے ایک خط کا مضمون مجھے سنایا بھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں ترسیل کی ناکامی کے المیہ کے بھلے ہی بھیا شاکی رہے ہوں لیکن سرکاری معاملات میں خصوصاً انگریزی زبان میں خطوط لکھوانے میں انہیں کمال کا ایجاز حاصل تھا۔
دوران ملازمت انہوں نے محکمہ ڈاک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیں جن میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل بہار (پٹنہ) چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اترپردیش (لکھنؤ) ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل پوسٹل میٹریلس پی اینڈ ٹی بورڈ نئی دہلی، جوائنٹ سکریٹری ڈپارٹمنٹ آف نان کنونشل انرجی سورسیز حکومت ہند دہلی شامل ہیں۔ دوران ملازمت آپ کی دلچسپی کے موضوع منصوبہ بندی Planning Vigilance & Discipline, Personal Administration رہے ہیں۔ 1984میں آپ انٹرنیشنل کانفرنس ٹورنٹو (کناڈا) میں شریک ہوئے۔ 1984 میں ہی بنکاک میں ہوئی ESCAP کانفرنس میں ملک کی ترجمانی کی۔ 1985میں ماسکو میں ہوئی انڈین سائنس ایکزی بیشن میں آپ نے ہندوستانی وفد کی سربراہی کی۔ 1986میں پاکستان میں ہوئی SAARc کانفرنس میں Rural Energy کے موضوع پر ہندوستانی وفد کی سربراہی کی۔ 1986 میں امریکہ کے چھ شہروں میں منعقدہ Festival on Indian Poetry میں شریک ہوئے۔ آمسٹرڈم اور برسیلس کے مشہور آرٹس میوزیم کا دورہ کیا۔
آپ نے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے ہیں جن میں دسکانس، شکاگو، لاہور، کراچی، کانکوڈیا (مانٹریل) برٹش کولمبیا، کیلی فورنیا، پنسلوانیا، لندن، براڈ فورڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح آپ کی کتابیں ملک و بیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں جن میں علی گڑھ، حیدرآباد، جموں و کشمیر، برٹش کولمبیا، دنکودر، کناڈا، میکانسن، پنسلوانیا، فلاڈیلفیا، شکاگو، جامعہ ملیہ (نئی دہلی) شامل ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی آپ ساؤتھ ایشیا اسٹڈی سینٹر یونیورسٹی آف پنسلوانیا، فلاڈیلفیا کے آنریری ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔ ملک بیرون ملک کی اردو سے تعلق رکھنے والی مختلف اکیڈیمیوں، تنظیموں و اداروں سے آپ کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے ہیں اور آپ کی ادبی خدمات کے لیے آپ کو مختلف انعامات و اعزاز ملے ہیں جن کی تفصیل میں نہ جاکر ان کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنا چاہوں گا۔ لیکن اس کے قبل چھوٹے بھائیوں کے بارے میں بھی چند کلمہ خیر کہنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔
جیسا کہ اوپر آچکا بھیا اپنے سات بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میں یعنی نجم الرحمٰن فارویق (پیدائش1940) ہوں۔ 1960میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور خاندانی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے کچھ دن انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ 1964میں نائب تحصیلدار کا امتحان پاس کرکے باقاعدہ ملازمت شروع کی اور ترقی کرکے 1985 میں پی سی ایس میں داخل ہوا اور مختلف عہدوں پر کام کرتا ہوا ڈپٹی ڈائرکٹر چکبندی ہیڈکوارٹر کے عہدہ سے جولائی 1998میں رٹائر ہوا۔ تب سے لکھنؤ میں ہی قیام ہے۔
مجھ سے دو سال چھوٹے میاں محمد احمد فاروقی (پیدائش 1942) ہیں۔ بچپن میں نہایت خوبصورت اور گورے تھے۔ (بحمداللہ آج بھی ایسے ہی ہیں) لہٰذا ہمارے نانا مرحوم و مغفور انہیں اس زمانہ کے بنارس کے انگریز کلکٹر STUBBS کے نام پر اسٹب صاحب کہا کرتے تھے۔ بزرگوں کے منھ سے نکلی ہوئی میاں محمد احمد سلمہٗ چار ضلعوں میں لگاتار کلکٹر رہے اور 1994میں صوبہ اترپردیش کے بہترین کلکٹر ہونے کے اعتراف میں اس وقت کے وزیر اعظم جناب نرسمہا راؤ صاحب نے انہیں اعزاز بخشا تھا۔ 1961میں الہ آباد یونیورسٹی سے تاریخ میں امتیاز کے ساتھ ایم اے کیا پھر ایل ٹی کرکے کچھ دن ٹیچر رہے۔ بہت جلد اسے چھوڑ کر 1967میں پی سی ایس میں داخل ہوئے۔ جولائی 2002ء میں آئی اے ایس کے سپرٹائم اسکیل میں کام کرتے ہوئے ڈائرکٹر محکمہ صحت عامہ اترپردیش کے عہدہ سے رٹائر ہوئے۔ ان کی ایک خوبی جو سب بھائیوں میں انہیں ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد اس طرح کرتے ہیں کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ نیز والدہ محترمہ کی خدمت میں سب سے آگے رہتے ہیں۔
ان سے چھوٹے میاں ابوالقاسم فاروقی (پیدائش 1944) نے 1963 میں الہ آباد یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا۔ کچھ دن ٹیچر رہ کر وہ بھی 1969میں پی سی ایس میں داخل ہوئے آج کل آئی اے ایس کے سپرٹائم اسکیل میں کام کر رہے ہیں۔ جھانسی کے کلکٹر رہ چکے ہیں فی الوقت محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ڈائرکٹر ہیں۔ بڑے چھوٹے سب بھائیوں سے یکساں محبت کرتے ہیں۔
میرے پانچویں بھائی میاں نعیم الرحمٰن فاروقی (پیدائش 1950) نہایت زیرک، فہیم اور لایق شخص ہیں۔ 1968 میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے فرسٹ ڈویزن میں کامیاب ہوئے اور سونے کے دو تمغے و وظیفہ حاصل کیا۔ 1970 میں قرون وسطیٰ و جدید تاریخ میں ایم اے فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ انہیں یونیورسٹی میں فوراً ہی لیکچرر شپ کی جگہ مل گئی۔ آئی۔ اے۔ ایس MAIN کے امتحان میں تین بار لگاتار کامیاب ہوئے لیکن ہربار اس بناپر منتخب نہیں کیے گئے کہ آپ تو یونیورسٹی میں کام کر ہی رہے ہیں آئی اے ایس بن کر کیوں ایک امیدوار کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔ بہرکیف درس و تدریس کو ہی انہوں نے اپنا مشغلہ بنایا اور یو۔ جی۔ سی۔ کے وظیفہ پر امریکہ کی دسکانس یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ لوٹ کر لال بہادر شاستری اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے تعینایت ہوئے اور آئی۔ اے۔ ایس میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو تعلیم دیتے رہے لیکن پہاڑ پر صحت موافق نہ آنے کی وجہ سے الہ آباد یونیورسٹی واپس آگئے اور آج کل شعبہ تاریخ قرون وسطیٰ و جدید کے پروفیسر صدر کے عہدہ پر کام کر رہے ہیں۔
(ڈاکٹر سرشفاعت احمد خاں (1944) کے 58سال بعد پہلے مسلمان صدر شعبہ تاریخ ہیں)۔ دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں اور ہندوستان کی تاریخ کی متعدد تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ نہایت پڑھے لکھے سمجھدار اور منکسرالمزاج شخصیت کے مالک ہیں۔ بزرگوں خصوصاً اپنے بڑے بھائیوں کی عزت دل سے کرتے ہیں اور اس معنی میں والد مرحوم کی سنت ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں۔
ان کے توام بھائی میاں شمیم الرحمٰن فاروقی (پیدائش 1950) نے الہ آباد یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا بعدہٗ ایل ٹی کرکے محکمہ تعلیم کی ملازمت میں آگئے۔ دورانِ ملازمت اردو میں بھی ایم اے کیا۔ آج کل ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹریننگ رائے بریلی میں لیکچرر کے عہدہ پر کام کر رہے ہیں اور مستقبل کے استادوں کے استاد ہیں۔
ہمارے سب سے چھوٹے بھائی میاں کلیم الرحمٰن فاروقی (پیدائش 1952) نے الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے پھر ایل ایل بی کیا اور کچھ دن الہ آباد ہائی کورٹ میں وکالت کی لیکن یہ پیشہ مزاج کے موافق نہ ہونے کی بناپر اسے جلد ہی ترک کردیا اور اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد کے دفتر سے وابستہ ہوگئے آج کل بحمداللہ اکاؤنٹس آفیسر کے عہدہ پر کام کر رہے ہیں۔ والد ماجد مرحوم نے بچپن میں ہی انہیں حافظہ کرادیا تھا لہٰذا گزشتہ 30۔ 35سال سے یہ الہ آباد کے پولس ہیڈکوارٹر کی مسجد میں رمضان شریف میں کلام پاک سناتے ہیں اور اس طرح دین و دنیا کی کامیابی انہیں حاصل ہے۔
بھیا کی شادی 1955 میں جبکہ ہم سب چھوٹے بھائی زیر تعلیم تھے۔ قصبہ پھولپور ضلع الہ آباد کے مشہور زمیندار سید عبدالقادر کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ یہ شادی میرے نزدیک نہ صرف یہ کہ بھیا کی زندگی بلکہ ہمارے پورے خاندان کا نقشہ بدلنے کا محرک ثابت ہوئی۔ ہماری بھابھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہایت ہی فہمیدہ، عاقلہ، خوش اخلاق، شوہر کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند سمجھنے والی سمعنا و اطعنا خاتون ہیں۔ بھیا کو آئی اے ایس کے امتحان میں بیٹھنے کی ترغیب ان سے ہی ملی ورنہ اس کے قبل ہمارے خاندان میں اس قسم کے اعلیٰ مقابلہ کے امتحانات میں شریک ہونے اور کامیاب ہونے کے بارے میں ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ادیب و شاعر کو پڑھنے لکھنے و غور و فکر کرنے کے لیے جس گھریلو سکون و عافیت کی ضرورت ہوتی ہے جسے ورڈس ورتھ نے اپنی نظم The Daffodils میں Off when on my couch I lie سے تعبیر کیا ہے بھیا کو بہم پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں اور آج بھی ہیں۔
پھولوں سے انہیں بے حد شغف ہے اور اس کام کے لیے مالی بنگلے کے آؤٹ ہاؤس میں مستقل رہتا ہے۔ الہ آباد ان کے بنگلہ میں سال کے کسی موسم میں آپ جائیں ایک خوبصورت ہرا بھرا وسیع لان جس میں سیکڑوں پھولوں کے گملے اور مختلف ورایٹی کے گلاب کے تختے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ اگرچہ آدھے درجن سے زیادہ خادم وہاں کام کرتے ہیں لیکن ایک خوشگوار خاموشی کا احساس جو فطرت کا خاصہ ہے سارے پر محیط ہے کہیں کوئی آواز نہیں، کسی قسم کا کوئی شوریا ہنگامہ نہیں۔ بھیا اپنی لائبریری میں بند اپنے کام میں مصروف ہوں گے۔ خدام اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے۔
بھابھی اپنے کمرے میں بھیا کے آرام و راحت کے انتظام کی خاموش سعی میں مصروف ملیں گی اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ آپ کا استقبال کرتی ہیں آؤ بھئی آؤ، بیٹھو، کب آئے؟ ہر قسم کی گھریلو فکروں و ذمہ داریوں سے انہوں نے بھیا کو بری کر رکھا ہے اور وہ اپنے تحقیقی و تخلیقی سفر میں سکون کے ساتھ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ بھابی بھی الہ آباد کے لڑکیوں کے ایک کالج کی بانی و پرنسپل رہی ہیں۔ اور اب بھی ان کی نگرانی میں بچیوں کی تعلیم کے تین ادارے چل رہے ہیں۔ قدوائی میموریل گرلس انٹرکالج (1955) کا شمار الہ آباد کے اچھے کالجوں میں ہوتا ہے اور تقریباً دوہزار بچیاں اس میں زیرتعلیم ہیں۔
بھیا کے دوبیٹیاں ہیں بڑی بیٹی مہرافشاں فاروقی و چھوٹی باراں رحمٰن ہیں۔ دونوں بچیوں نے ابتدائی تعلیم کانونٹ کی حاصل کی اور پرائمری درجات سے ایم اے تک فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔ مہرافشاں لندن کی کسی درسگاہ میں درس و تدریس کا کام انجام دے رہی ہیں اور باراں دہلی میں۔ دونوں ہی بیٹیاں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ باراں نے انگریزی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا ہے اس کا ایک موضوع ہی چار موضوعات کے برابر ہے لیکن اس نے اپنے لایق والد کی رہنمائی میں نہایت جانفشانی سے اپنے مشکل ترین مقالہ کو مکمل کیا۔ نورچشمی مہر افشاں کے ماشاء اللہ دو بیٹے یٰسین احمد اور ساحل احمد ہیں۔ چھوٹی بیٹی کے دو بچیاں نیساں و تضمین ہیں۔ سبھی نام بشمول ان کی ماؤں کے نام بھیا کے رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں بچیاں نہایت صرف ستھری وسلیقہ مند عادتوں والی ہیں خصوصاً چھوٹی بچی تضمین بہت ہی پیاری اور اتنی کم عمری میں دینی حمیت سے معمور ہے کہ حیر ت ہوتی ہے۔ ان بچوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نصیبوں والیاں بنادیں اور اپنے دین کا کوئی کام لے لیں۔ میرے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ بھیا کو اپنی بیٹیوں سے زیادہ محبت ہے یا اپنی گڑیا سی نواسیوں سے۔
ابھی میں بھیا کے مکان کی ظاہری زیب و آرائش کا ذکر کر رہا تھا لیکن آپ کو وہاں ان کے شوق HOBBIES کی چیزیں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ اگر جنوب کے پھاٹک سے آپ داخل ہوں گے تو پھاٹک سے ملحق اندر بائیں طرف لان میں ایک حوض بناہوا ہے جس میں طرح طرح کی مچھلیاں پالی گئی ہیں۔ اعلیٰ نسل کے کتے و اچھی قسم کی کار شروع سے بھیا کی کمزوری رہے ہیں۔ لیکن کتے رات کے مخصوص اوقات میں ہی کھلتے ہیں ورنہ دن میں آپ کو احساس بھی نہ ہوگا کہ یہاں کتے بھی ہیں۔ مکان کے اندر بھی دالان میں چڑیوں کے پنجرے ہیں۔ آنگن میں داہنی طرف خاصے وسیع دوجنگلے تعمیر کیے گئے ہیں جن میں طرح طرح کی ننھی منی چڑیاں چہچہاتی رہتی ہیں۔ بلبل۔ مینا۔ گوریا۔ تیتر۔ مور۔ کبوتر وغیرہ پالنا ان کے شوق ہیں۔ ان کے نام بھی رکھتے ہیں۔ جیسے بجلی، بادل، گل رخ وغیرہ۔ لیکن سب اعلیٰ ترین نسل کے ہوں گے بلکہ نایاب زیادہ صحیح لفظ ہے معمولی نسل والوں کا وہاں گذر نہیں۔ جب لکھتے پڑھتے تھک جاتے ہیں تو لائبریری سے نکل کر ان سے باتیں کرتے ہیں ان کو دانہ پانی دیتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، صحت و صفائی کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ کیا خود اپنا خیال رکھے ہوں گے۔ لیکن مجال نہیں کہ ماحول کے سکوت و خاموشی میں کوئی خلل واقع ہو۔
صفائی و ستھرائی کا اسقدر اہتمام ہے کہ باوجود کوشش کے کاغذ کا کوئی ٹکڑا یا تنکا آپ کو فرش پر پڑا ہوا نہیں ملے گا اور اگر کہیں کوئی چیز اتفاقاً زمین پر پڑی ہوئی انہیں نظر آگئی تو کسی ملازم کے کہنے کے بجائے خود اٹھاکر ڈسٹ بین میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔ مزاج میں سلیقہ۔ نفاست و نزاکت بے حد ہے۔ کوئی بھی چیز اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی نہیں ملے گی۔ ان کی شاندار لائبریری میں ہزاروں کتابیں ہیں۔ دو اے۔ سی اور کمپوٹر لگے ہوئے ہیں فرش پر قالین ہے کہ قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہوتی۔ اگر آپ ان سے کسی کتاب کا ذکر کریں اور مانگیں تو ا یک منٹ بھی نہیں لگتا ہے کہ فوراً نکال کر آپ کے سامنے رکھ دیں گے، یہ لو دیکھ لو۔ انتہائی جامہ زیب شخصیت آپ کی ہے۔ شیروانی، سوٹ کچھ بھی آپ زیب تن فرمائیں آپ کو خوب اچھا لگتا ہے۔ بردباری و وقار آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔
مزاج بچپن سے شاہانہ ہے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب وہ طالب علم تھے اس زمانہ میں بھی ٹرین کے فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے تب اے سی کوچ نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ فرسٹ، سیکنڈ، انٹرو تھرڈ ہوا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں جب سگریٹ پینے کا شوق ہوا تو کریون اے Cravon A سگریٹ پیا کرتے تھے جو اچھے خاصے امرا کو بھی نصیب نہیں تھا۔ اسی طرح کھانے پینے کے معاملہ میں بے حد حساس ذوق رکھتے ہیں اور یہ ذوق انہیں نانا مرحوم سے ملا ہے۔ بھیا کے ذوق کے مطابق کھانا تیار کرانے میں بھابی کو اکثر سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کہتی ہیں کہ آج فلاں چیز بنوائی ہے دیکھو تمہارے بھیا کو پسند آجائے۔ افسوس گزشتہ کئی سالوں سے مختلف امراض خصوصاً عارضۂ قلب کی وجہ سے پرہیزی کھانا نوش فرماتے ہیں لیکن ان کے پرہیزی کھانے تیار کرانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
شعر فہمی اور شعرگوئی کا ذوق بھیا کو وراثت میں ملا ہوا ہے۔ اور یہ صلاحیت اکتسابی نہیں بلکہ وہبی ہے۔ چنانچہ والد ماجد مرحوم گو باقاعدہ شاعر تو نہ تھے لیکن شعر کی فہم و شناس رکھتے تھے۔ فن عروض پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ ممکن ہے اپنے وقت میں انہوں نے اشعار بھی کہے ہوں۔ اردو فارسی کے سیکڑوں اشعار نوکِ زبان پر تھے۔ دادا جان مرحوم حکیم مولوی محمد اصغرؒ شعر کہتے تھے اور ان کی ایک مناجات قصص الجمیل فی سوانح الخلیل میں بطور تبرک شامل ہے۔
ہمارے بڑے ابا مولوی عبدالرحمٰن شعر کہتے تھے اور زاہد تخلص کرتے تھے۔ ان کے کلام کا بھی کچھ نمونہ قصص الجمیل میں ملتا ہے۔ ہمارے عم زاد جناب شمس الہدیٰ فاروقی المتخلص قیسی الفاروقی شروع میں قدیم رنگ کے شعر کہتے تھے لیکن بعد میں حضرت جگر مرادآبادی اور حضرت شفیق جونپوری کے تعلق میں آنے پر کلام میں عارفانہ رنگ غالب ہوگیا تھا۔ آں مرحوم نے ایک مجموعہ کلام ’’آئینہ شمس‘‘ کے نام سے ترتیب دیا تھا افسوس کہ وہ مجموعہ آج تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکا۔ آئینہ شمس کے کتابت شدہ کچھ صفحات میں نے خود دیکھے تھے لیکن معلوم نہیں کیوں اور کن حالات میں وہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ بہرحال آئینہ شمس (غیرمطبوعہ) کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں،
اہلِ خرد تو کھوبھی چکے اعتبار عشق
باقی ہے کچھ تو اہلِ جنوں کا بھرم ابھی
کہیں غرورِ آگہی، کہیں فریب بے خودی
مقام بندگی مگر ہنوز بندگی طلب
مجھ کو راہوں میں پلکیں بچھانے تو دو
اے مدینہ کی گلیو غلام آگیا
جان اپنی مدینہ میں دو تو کہوں
جذب کامل مرا کچھ تو کام آگیا
حیف قیسی زیارت سے محروم ہے
دور منزل ہے اور وقت شام آگیا
بھائی مرحوم نے افسانے اور ناول بھی لکھے۔ زیب النساء اور دیگر افسانے۔ ذکر شفیق جونپوری۔ پتھر کی عورت (ناول) طبع ہوئیں۔ ان کی غیرمطبوعہ کتابوں میں حیات جگر، کسک اور دیگر افسانے خواب اور اس کی ماہیت، آئینہ شمس (مجموعہ کلام) شامل ہیں۔
شہر بنارس میں نانا مرحوم مولوی محمد نظیر صاحبؒ نے نیشنل اسکول کے نام سے 10 ایک چھوٹا سا اسکول قائم کیا تھا۔ جواب نیشنل انٹرکالج کے نام سے مشہور ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لیے ایک قدیمی مدرسہ مظہرالعلوم بنارس میں تھا جس کی توسیع نانامرحوم نے کرائی اور اس سے متصل ایک یتیم خانہ بھی تعمیر کرایا، جامعہ مظہر العلوم اور نیشنل اسکول کی امداد کے لیے آں مرحوم نے 1949میں دو ہندوپاک مشاعرے بنارس میں کیے اور اس طرح ہندوپاک مشاعروں کی رسم کی بنیاد ڈالی۔ ان مشاعروں میں اس وقت کے تمام بڑے شعرا شریک ہوئے تھے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان مشاعروں سے بڑا کوئی مشاعرہ شمالی ہند میں پھر نہ ہوا۔ سرسری پرکاش اس زمانے میں ہندوستان کے ہائی کمشنر اور نانا مرحوم کے گہرے دوستوں میں تھے ان کے توسط سے پاکستان کے تمام بڑے شعرا جوق درجوق، ان مشاعروں میں شریک ہوئے۔ 11
نانا مرحوم کے والد ماجد مولوی عبدالقادر وکیل ممبر بورڈ بنارس (1863۔ 1947) المتخلص قادر بنارسی فارسی اور اردو دونوں میں شعر کہتے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے اپنا کوئی دیوان مرتب نہیں کیا۔ تاریخ گوئی میں خاص ملکہ و شہرہ رکھتے تھے۔ ان کے کلام کا کچھ انتخاب ’’احوال آل ملاسابقؒ‘‘ کے ضمیمہ میں شامل کیا گیا ہے۔ رنگ کلام کی پختگی اس بات کی شاہد ہے کہ وہ اپنے وقت کے اساتذہ میں رہے ہوں گے۔ ان کی کئی کتابیں بھی شایع ہوئیں جن میں رہنمائے تاریخ اردو، تاریخ سعید، حیات سابق، اور سفرنامہ حج، قابل ذکر ہیں۔ حضرت قادر بنارسی اپنے والد مولوی خادم حسینؒ کے بارے میں ’حیات سابق‘ 12 میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر و سخن سے بھی کسی قدر مذاق تھا، کبھی نعتیں، غزلیں و قصائد و رباعی وغیرہ تحریر فرماتے اور تخلص اپنا ناظم کرتے تھے۔‘‘
حضرت قادر بنارسی کے کلام کا نمونہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔
تمہارے وحشیوں کا کچھ نرالا سازوساماں تھا
کہ آگے آگے وہ تھے پیچھے پیچھے غول طفلاں تھا
کھلیں مرقد میں آنکھیں تب ہوا معلوم یہ مجھ کو
جو کچھ دنیا میں دیکھا وہ سب خواب پریشاں تھا
ان کے گیسو کی صفت میں سورہ واللیل ہے
والضحیٰ نازل ہوئی ہے روئے روشن کے لیے
نفس امارہ کی اب سفاکیاں حد سے بڑھیں
قید تنہائی ہے واجب ایسے رہزن کے لیے
قید میں بھی حضرت یوسف رہے باغ و بہار
ہر جگہ صحن چمن ہے پاک دامن کے لیے
آج کچھ آپ سے خیرالورا کہنے کو ہیں
ماجرائے دردِ دل یا مصطفےٰ کہنے کو ہیں
کوچۂ دلدار میں تیرا گزر ہونے کو ہے
آج کچھ پیغام ہم بھی اے صبا کہنے کو ہیں
ذرے ذرے میں ظہور اس ذات کا ہے جلوہ گر
ہم اُسی کی شان ہیں اس سے جدا کہنے کو ہیں
عاشق صادق نہ قادر سا کہیں پاؤگے تم
یوں تو عالم میں بہت تم پر فدا کہنے کو ہیں
حضرت قادر بنارسی نے اپنے جدامجد ملا محمد عمر سابقؒ 1810۔ 1720 کا تذکرہ حیات سابقؒ، (1903 میں کیا ہے جس کے مطابق ملا صاحب نے اپنے کلام کا ایک دیوان مرتب کیا تھا لیکن کسی وجہ سے وہ شایع نہیں ہوسکا۔ ان کی مشہور کتاب ’’گنج شامیگاں‘‘ ہے جس میں ملا صاحب نے متقدمین شعراء سے لے کر اپنے عہد تک کے شعراء اور فصحائے اہل عجم و ہند کا تذکرہ تحریر کیا ہے۔
اس کتاب میں ملا صاحب نے اپنے دیوان کا انتخاب اور ایک مختصر مثنوی موسوم بہ سوزوگداز شامل کی ہے۔ حضرت قادر بنارسی ملاصاحب کی شعرگوئی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’کلام میں وہ فصاحت اور سلاست ہے کہ دل یہ چاہتا ہے کہ سنا کیجیے۔ زبان و بندش ایسی پاکیزہ ہے کہ سننے سے طبیعت بے حد محظوظ ہوتی ہے۔ محاورات کی بندش اس خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے کہ اہل عجم سن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔ شروع سے آخر تک دیکھا جائے ابہام واخلاق کا کہیں نام و نشان اس کلام میں نہیں ہے۔ فصاحت ایک ایک لفظ سے ٹپک رہی ہے۔ کلام میں وہ تاثر ہے کہ جس کے پڑھنے سے دل بے چین ہوجاتا ہے۔ 13
قارئین کی دلچسپی کے لیے مثنوی تاثیر عشق کے چند اشعار پیش کرتا ہوں،
جواں مردے کہ میرکارواں بود
بخلق نیک معروف جہاں بود
لطافت عنصر ذاتِ شریفش
نزاکت مایۂ طبع لطیفش
بخلق خوش جہانے کرد تسخیر
بحسن و صورت و معنی جہاں گیر
ناتوانی خویش را از قید دہر آزاد کن
چوں شود اندر طلسم سنگ افسردن چرا
سوار اور د یگر افسانے کے دیباچہ میں بھیا نے اپنے بارے میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے پہلا مصرعہ سات سال کی عمر 1942میں لکھا تھا جو یہ تھا،
معلوم کیا کسی کو مرا حال زار ہے
اس کے بعد انہوں نے ہاتھ سے لکھے گئے رسالہ گلستان (1948) کا تذکرہ کیا ہے وہ دن اور وہ واقعہ میری یادداشت میں محفوظ ہے کیونکہ اس میں مضامین تو زیادہ تر بھیا کے ہوتے تھے لیکن اس کی کتابت ہماری بڑی بہن زہرہ آپا اور میں مل کر کیا کرتے تھے کیونکہ ہم دونوں کا خط نسبتاً صاف تھا (جو اب نہیں رہا) وہ پرچہ مہینہ بھر بھیا کے دوستوں کے درمیان سرکولیٹ ہوتا تھا۔ ویسے ان کے دوستوں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ لکھنے پڑھنے کے علاوہ کھیلوں میں انہیں کرکٹ سے دلچسپی بچپن سے تھی جو آج بھی دیکھنے کی حدتک ہے۔ ان دنوں کینوس کی گیند اور اینٹوں کی وکٹ بناکر ایک ہی محلہ یا مختلف محلوں کی ٹیمیں بناکر کھیل ہوا کرتا تھا۔
اسکول سے چھٹی کے دن میچ ہوا کرتے۔ ایسے سبھی میچوں میں میں اسکورر Scorer (کیونکہ بزدل تھا کھیلنے سے ڈرتا تھا نااہل تھا لہٰذا میچ امپائر نہیں بن سکتا تھا) ہوا کرتا تھا اور بھیا لازمی طور پر اپنی ٹیم کے کپتان ہوتے تھے۔ راز کی بات یہ ہے کہ عموماً ہارتے تھے۔ لیکن یہ سب شوق انہوں نے بہت جلد ترک کردیے باقاعدہ تصنیف میں ان کے ناولٹ ’دلدل سے باہر‘ (1951) کا انہوں نے ذکر کیا ہے جو اس زمانہ کے موقر جریدہ ’’معیار‘‘ (میرٹھ) میں بالاقساط چار قسطوں میں شایع ہوا۔ میں نے بھی اس کی ایک یا دو قسط پڑھی تھی۔
انہیں دنوں کے لکھے گئے ایک افسانہ ’سرخ آندھی‘ کا انگریزی ترجمہ The Scarlet tempest کے عنوان سے 55۔ 1954 میں جب کہ وہ الہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے فائنل انگریزی کے طالب علم تھے، ڈپارٹمنٹ کی میگزین میں شایع ہوا تھا۔ سرخ آندھی سے میری ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن جب میں نے الہ آباد یونیورسٹی (59۔ 1958) میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا تو The Scarlet tempest میں نے بڑے شوق سے پڑھا تھا اور کافی دنوں تک یونیورسٹی میگزین کا وہ شمارہ میرے پاس محفوظ بھی رہا لیکن اب کچھ پتہ نہیں کہ وہ شمارہ مجھ سے کہاں اور کیسے ضائع ہوگیا۔
بہرحال بھیا کے پڑھنے اور لکھنے کا کارواں پورے انہماک اور مستعدی سے جاری رہا لیکن جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں اس دور 66۔ 1950 کے بیچ کے کلام و افکار سے وہ کلیتاً مطمئن نہیں رہے اس لیے اس کے محفوظ کرنے کا کوئی خیال نہیں آیا۔ جون 1966 میں انہوں نے اپنی سرکاری مصروفیتوں و ذمے داریوں کے رہتے ہوئے ’’شب خون‘‘ کا پہلا شمارہ شایع کیا جس میں بیشتر مضامین خود ان کے مختلف ناموں سے لکھے ہوئے تھے۔ شب خون کا اجرا اردو کی ادبی دنیا میں واقعی شب خوں مارنے کے مانند تھا۔ میرے ایک دوست جو یہ جانتے تھے کہ میں فاروقی صاحب موصوف کا چھوٹا بھائی ہوں مجھ سے پرچہ کے نام شب خون پر بحث بھی کی تھی ان کو میرا جواب تھا کہ پرچہ میں جس قسم کے مضامین شائع ہوتے ہیں ان کی مناسبت سے پرچہ کا عنوان ہے کہ نہیں۔ اگر کوئی فرق ہو تو اعتراض کریں۔
بہر کیف بھیا کے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ کسی پرشور پہاڑی جھرنے کی طرح آگے بڑھتا ہی گیا اور اگر میں یہ کہوں کہ مجھ جیسے ناخواندہ شخص کے فہم و ادراک کے باہر کی چیزیں، خصوصاً ان کی شاعری ہوگئی تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے ا یک مجموعہ کلام غالباً ’’گنج سوختہ‘‘ میں ٹی ایس ایلیٹ T.S.Eliot کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایلیٹ کے ایک دوست نے ان سے کہا کہ تمہاری شاعری اتنی مشکل ہے کہ اسے مشکل سے دولوگ سمجھ سکتے ہیں۔ ایلیٹ نے جواب دیا کہ میں انہیں دولوگوں کے لیے لکھتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان دوخوش نصیب لوگوں میں میں شامل نہیں ہوں۔
بہرحال یہ ایک معترضہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ا یک چھوٹے سے جملہ میں ان کی شخصیت چھپی ہوئی ہے۔ وہ اپنی بات، خصوصاً تنقید و تبصرہ نگاری میں، پورے اعتماد و دلیل کے ساتھ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہتے ہیں اس بات کا لحاظ کیے ہوئے بغیر کہ ان کی بات کسی کو پسند آوے گی کہ نہیں۔
ان کے اس اسلوب میں ان کے مددگار ان کا وسیع مطالعہ، ان کی خداداد ذہانت و ذکاوت و انتہائی زبردست یادداشت ہیں۔ پڑھنے کو تو بہت لوگ پڑھتے ہیں لیکن پڑھنے کے بعد اس میں سے کتنا اپنے دماغ میں محفوظ رکھ پاتے ہیں اور محفوظ کیے گئے ذخیرہ کے برمحل استعمال، یہ سب باتیں کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہیں۔ وہ اپنے مضبوط دلایل، وسیع مطالعہ و خلوص بیان سے قاری کو نہ صرف فوراً اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں بلکہ لمحہ فکریہ بھی عطا کرتے ہیں۔ ان کی یہ صلاحیت ان کی طبع زاد تحریروں میں جاری و ساری ہے ہی، شب خون کے مستقل کالم کہتی ہے خلق خدا، میں ان کے مضامین پر آئے ہوئے اعراضات کے جواب جو عموماً وہ خود اپنے نام سے یا کبھی کبھی ادارہ کے نام سے لکھتے ہیں بخوبی واضح ہے۔ بہرحال ان کے کلام و افکار پر کچھ لکھنے کا نہ میں اہل ہوں اور نہ میرے اس تاثراتی مضمون کا موضوع ہے لہٰذا یہ بات یہیں ختم کرتا ہوں۔
علم، عمل، اخلاص و حق پر مضبوطی سے قایم رہنے کی بے خوفی جو ایک مرد مومن کے نشان کہے جاسکتے ہیں، بھیا میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ پچاس سالوں سے مذہب کے نام پر ملک میں جو فرقہ وارانہ فساد ہوتے رہے ہیں، ہر فساد نے انہیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔ اور ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی نہایت بے خوفی سے قوم و ملت کے آنسو پونچھنے کے لیے دامے درمے سخنے جو کچھ وہ کرسکتے تھے کیا ہے۔
اردو رسم الخط کے بقا کی بات ہو، اکبر الہ آبادی کی شاعری ہو یا گجرات کے حالیہ فسادات کے بعد شب خون میں انگریزی کے ٹائمس میگزین میں ایڈورڈ سعید کے مضمون کے ترجمہ بعدہٗ ارباب حکومت کے نام بھیجی گئی ان کی اپیلیں Appeals اور ان کے اداریے اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اردو کے روایتی قسم کے شاعر و ادیب نہیں ہیں، بلکہ ایک حساس اور درد مند دل رکھتے ہیں جو قوم کی خوشحالی و ترقی سے خوش ہوتے ہیں اور ان کی تکلیف دکھ درد سے دکھی ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ان کا ساتھ دیں۔ وہ صرف قلم کے سپاہی نہیں ہیں بلکہ عملی طور پر بھی مردِ مجاہد ہیں۔
الہ آباد کے ایک قبرستان سے ناجائز قبضہ ہٹوانے اور مسلمانوں کے قبضہ میں واپس دلانے کے لیے جس طرح انہوں نے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے عملی طو رپر سرگرم عمل رہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی ذات والا صفات میں اہل اللہ کی شانیں پائی جاتی ہیں۔ ورع، پارسائی، دیانت داری، فیاضی، سخاوت، صلہ رحمی، نیک گفتاری، چھوٹوں پر شفقت، بزرگوں سے عقیدت، پیغمبر و آل اصحاب پیمبر سے محبت و عقیدت، اہل حاجت کی حاجت روائی میں پیش پیش، لیکن شہرت و نام وری سے بے نیاز، حلم و بردباری کا ایک مرصع مرقع ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ بسا اوقات اپنے انعام و اعزازات لینے خود نہیں تشریف لے جاتے۔
رفیق القلب تو اس قدر ہیں کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے نہیں ذبح فرمایا (اس خدمت کے لیے چھوٹے بھائی حافظ کلیم الرحمٰن صاحب بلائے جاتے ہیں) اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ کسی کا خون بہتا ہوا نہیں دیکھ سکتے بھلے ہی مسنون قربانی کے جانور کا کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ قربانی کے وقت آپ کھڑے بھی نہیں ہوتے۔ بہرکیف اپنی بات کی توثیق میں چند واقعات کا ذکر کروں گا۔
بات غالباً 1957 کی ہے۔ ان دنوں بھیا شبلی کالج اعظم گڑھ میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اور ڈگری کلاسیز کو پڑھاتے تھے۔ طعام و قیام ہمارے بڑے ابا، جنہیں ہم لوگ مولانا ابا کہا کرتے تھے، کے ساتھ تھا۔ ہمارے بزرگوں کا یہ طریقہ تھا کہ بعد نماز مغرب رات کا کھانا نوش فرماتے تھے اور بعد نماز عشاء سوجاتے تھے۔ اور مکان کے دورازے بند کردیے جاتے تھے۔ جاڑوں کے دن تھے۔ ایک شام بھیا کو کسی وجہ سے دیر ہوگئی غرض یہ کہ جب وہ مکان واپس لوٹے تو حسب دستور گھر کے دروازے بند ہوچکے تھے اور گھر کے مکین خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ گھر میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھٹکھٹائے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ دروازہ کھٹکھٹانے سے چچا مرحوم کی آنکھ کھل سکتی تھی اور ان کی نیند میں خلل واقع ہوسکتا تھا جو بھیا کو منظور نہ تھا۔ لہٰذا ساری رات برآمدے میں بیٹھ کر گزاردی۔ بزرگوں کا یہ احترام اب عنقا ہے۔ اس واقعہ کے راوی ہمارے عم زاد بھائی صدیق الرحمٰن فاروقی ہیں، جو ان دنوں بھیا کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔
1969 میں میں بہرائچ میں نائب تحصیلدار تعینات تھا اور بھیا لکھنؤ میں ویجی لینس آفیسر Vigilance Officer کے عہدہ پر کام کر رہے تھے اور پی۔ ایم۔ جی آفس (اب سی۔ پی۔ ایم۔ جی) کی پہلی منزل پر بیٹھے تھے۔ ان دنوں میں بخشی کا تالاب لکھنؤ میں چھ ہفتہ کی سول ڈیفینس کی ٹریننگ کے لیے آیا ہوا تھا۔ اس وقت طریقہ یہ تھا کہ سب ٹرینیز Trainees کی تنخواہ ان کے تعیناتی کے ضلعوں سے بذریعہ منی آرڈر آتی تھی۔ ٹریننگ ختم ہونے میں بمشکل دو تین دن رہ گئے تھے لیکن میری تنخواہ نہیں آئی تھی اور میرے پاس جو اثاثہ تھا وہ ختم ہوچکا تھا۔ لہٰذا ہمت کرکے ایک دن ڈرتے ڈرتے میں ان کے دفتر پہنچا۔ آدمی بہت ذہین ہیں فوراً سمجھ گئے کہ کسی اشد ضرورت سے ہی یہ اپنا کام چھوڑ کر آیا ہے۔ پوچھنے پر میں نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔ پہلے تو حسب عادت مجھے ڈانٹا کہ عجیب نالائق ہو معمولی سی بات کے لیے کیوں تکلیف اٹھائی۔ آخر میں کس لیے یہاں ہوں۔ غرض یہ کہ کہہ سن کر میرے لیے چائے منگائی اور اپنی جیب سے رقم نکال کر مجھے دی جو میری ضرورت سے زائد تھی۔ جب میں چلنے لگا تو خود بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور میرے لاکھ نہ نہ کرنے پر بھی مجے چھوڑنے کی غرض سے 25۔ 20 سیڑھیاں طے کرکے نیچے تشریف لائے اور رخصت کیا۔ میرے ذہن میں مالی تنگی کا جو دباؤ تھا وہ ختم ہوچکا تھا۔
دوسرے دن دوپہر کو جب میں لنچ روم سے اپنے خیمہ پر لوٹا تو میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ تمہیں ڈاک خانہ کا ایک انسپکٹر بہت بے چینی سے تلاش کر رہا ہے۔ میں نے سمجھا کہ جس منی آرڈر کا ذکر میں نے بھیا سے کیا تھا۔ اس کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے آیا ہوگا کیونکہ ڈاک و منی آرڈر تو عموماً پوسٹ مین تقسیم کرتے ہیں۔ ابھی ہم لوگ بات کر ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب پھر آگئے۔ اور آتے ہی بغیر کسی جانچ پڑتال کے میرے ہاتھ پر میری تنخواہ کی رقم رکھ دی۔ نیز معذرت خواہ بھی ہوئے کہ نالایقی نیچے والے کرتے ہیں اور بھگتنا ہم لوگوں کو پڑتا ہے۔ میں نے کہا انسپکٹر صاحب میرا مقصد کسی کی شکایت نہ تھی بلکہ اپنی پریشانی کا حل ڈھونڈنے گیا تھا۔ میرے ایک ساتھی بھی محکمہ ڈاک کی مہربانی کے شکار تھے میں نے اس رقم میں سے ان کی بھی مدد کی۔ غیر متوقع طور پر مجھے میری تنخواہ مل گئی اس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میرے دل میں بھیا کی محبت دوچند ہوگئی۔ اور آج اتنے دن گزرنے کے بعد بھی جب وہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
ایک ذرۂ خاک کو آسمان سے نسبت ہی کیا؟ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک دولت دنیوی سے زیادہ قیمتی سرمایہ ثواب آخرت اور رسول اللہ کا ارشاد پاک ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو غیر متوقع طور پر خوش کردے گا اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا۔ نیز فرماتے ہیں کہ بہت سے چھوٹے عمل ایسے ہوتے ہیں جن کو نیت بڑا بنادیتی ہے اور بہت سے بڑے عمل ایسے ہوتے ہیں جن کو نیت چھوٹا بنادیتی ہے۔
بھیا کے لطف و کرم کے اس قسم کے متعدد واقعات سے میری زندگی عبارت ہے شاید ’’کاروانِ ادب‘‘ کے صفحات اس کے متحمل نہ ہوں اور نہ ہی عام قاری کو اس میں کوئی دلچسپی ہوسکتی ہے۔ یہ تو دلوں کے معاملے ہیں۔ نعت پاک لکھنے پر آتے ہیں کہ اس میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ’’عجوزہ یوسف کا گیت‘‘ اور سرنامے کا شعر اس کی زندہ مثال ہے۔ ان کی ایک نعت والد ماجد مرحوم نے قصص الجمیل میں شامل فرمائی ہے۔ محی السنّت حضرت شاہ مولانا محمد احمد صاحب پرتاپ گڑھی رحمتہ اللہ علیہ کے عارفانہ مجموعہ کلام ’’عرفانِ محبت‘‘ پر آپ نے جو تبصرہ لکھا حضرت مولاناؒ نے اس قدر پسند فرمایا کہ اپنی مجالس میں پڑھواکر سنتے تھے۔
اس کا تذکرہ حضرتؒ نے خود مجھ سے پرتاپ گڑھ کی ایک مجلس میں کیا تھا اور جب میں نے بتایا کہ میں نے نہ صرف یہ کہ وہ تبصرہ پڑھا ہے بلکہ میرے پاس محفوظ بھی ہے تو نہایت مسرور ہوئے۔ ثانی اثنین خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ پر شاہ محمود ا حمد رمز کی کتاب پر آپ کا لکھا ہوا تبصرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی قلبی محبت کا بین ثبوت ہے۔ آپ کا یہ جملہ ’’جب میں کسی نوجوان اپنے سے کم عمر اولوالعزم شخص کو دیکھتا ہوں کہ وہ آباواجداد کی میراث کی نہ صرف حفاظت کر رہا ہے بلکہ اس میں اضافہ کے لیے بھی کوشاں ہے تو اس کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے‘‘ آپ کی باطنی کیفیت کا غماز ہے۔
کسی کی غیبت کرنا سخت ناپسند ہے کوئی سوالی ان کے دَر سے خالی ہاتھ نہ جانے پائے اس کی فکر میں رہتے ہیں اور ہر کسی کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اپنے بھائیوں، بہنوں، عم زاد، خالہ زاد نیز ان کے بچوں کی صحت و عافیت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ ان کی خوشی و کامیابی سے خوش ہوتے ہیں اور ان کی پریشانی سے پریشان ہوتے ہیں۔ دور رہ کر بھی بذریعہ فون رابطہ میں رہتے ہیں اور اب محسوس ہوتا ہے گویا ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ اپنے بنگلے میں بھائی بہنوں و ان کے بچوں کو د یکھ کر دل سے خوش ہوتے ہیں اور ضد کرکے زیادہ سے زیادہ قیام کے لیے روکتے ہیں اور بے حد تواضع کرتے ہیں۔ خصوصاً میرے ساتھ تو ان کا معاملہ نہایت شفقت کا ہوتا ہے۔
ان کے بنگلے میں ایک سوٹ مہمانوں کے لیے مخصوص ہے جس میں عموماً میرا قیام رہتا ہے اگرچہ اس میں سہولت کی سب چیزیں ہیں لیکن بار بار آکر دیکھتے ہیں کہ اے۔ سی۔ چل رہا ہے کہ نہیں، اوڑھنے کے لیے کچھ ہے کہ نہیں، باتھ روم میں گیزر کام کر رہا ہے یا نہیں، غرض یہ کہ آرام و سہولت کی چھوٹی سے چھوٹی بات خود دیکھتے ہیں حالانکہ بحمداللہ ان کے وہاں خدمت گاروں کی کمی نہیں ہے جن سے وہ یہ کام کراسکتے ہیں۔ اپنی Esteem موٹر شہر میں جانے کے لیے دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات خود ڈرائیو کرکے لے جاتے ہیں۔ کھانے و ناشتہ میں اہتمام کے لیے بار بار تاکید کرتے ہیں اور کبھی بہ نفس نفیس خود دیکھتے ہیں کہ ناشتہ میں کیا ہے اور کھانے میں کیا پکا ہے۔
والد ماجد مرحوم کے پردہ فرمانے کے بعد گزشتہ ۳۰سالوں سے رمضان کے مہینہ میں چاند رات ہر بھائی کا مع اپنی پوری فیملی کے ساتھ ان کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے جس کے لیے بار بار فون پر اصرار کرکے بلاتے ہیں اور اپنے بنگلے کے اندرونی وسیع دالان میں نہایت پرتکلف افطار و کھانے کا اہتمام کرتے ہیں اور چھوٹے بڑے ہر ایک کو اصرار کرکے کھلاتے ہیں۔ غالباً تیس پینتیس کی نفری ہوتی ہے۔ بارانِ محبت و انوارِ الٰہی کی بارش اس محفل میں ہوتی رہتی ہے۔
دیکھا جائے تو گزشتہ پچاس برسوں سے بھیا کی شخصیت ہمارے پورے خاندان کے لیے ایک NUCLEUS کی حیثیت رکھتی ہے۔ سگے یا عم زاد کی کوئی قید نہیں۔ عمر یا رشتہ میں چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی اہم معاملہ میں فیصلہ کے قبل ان کی رائے و رضامندی نہ لی جائے۔ کسی بیٹے یا بیٹی کی نسبت طے کرنی ہو، بچوں کے نام رکھنے، ان کی تعلیم تربیت، ملازمت، تبادلہ، بیماری اس قسم کے چھوٹے بڑے سبھی شامل ہیں، آپ کی رائے حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ہر تقریب میں آپ کی شرکت لازمی ہے۔ آپ کو ہمارے خاندان میں بچوں کے نام گڈو، پپو قسم کے نہیں ملیں گے بلکہ طٰسین، تضمین، شب نور، موئیبہ، تنزیل، نیساں، دلرس جیسے خوبصورت اور بامعنی نام ملیں گے۔ جو سب بھیا کے رکھے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان کا وجہ خلوص ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے عام ہے۔ ناممکن ہے کہ آپ بھیا سے مل کر آویں اور ان کی شفقت و ان کے لطف و کرم کی ٹھنڈی دلگداز خوشبو آپ کو ہفتوں معطر نہ رکھتی ہو۔
اللہ تعالیٰ تادیر فیض و محبت کے اس سرچشمہ کو قائم رکھیں۔ آمین۔
حواشی
(۱) و (۲) قصص الجمیل فی سوانح الخلیل صفحہ ۱۴
(۳) اصل کتاب حیات سابق کے مولف نانا مرحوم کے والد مولوی محمد عبدالقادر وکیل و ممبر بورڈ بنارس ہیں، جنہوں نے ۱۹۰۴ء میں یہ کتاب لکھی اور ۱۹۰۵ء میں طبع ہوئی۔ جس میں ملا محمد عمر متخلص بہ سابق بنارسی شاگرد رشید مولوی سراج علی خاں آرزو ہمعصر شیخ محمد علی حزیں اصفہانی سے مختصر حالات شیخ موصوف و مولوی صاحب ممدوح و تذکرہ خاندان ملا صاحب نوراللہ مرقدہٗ، درج کیے گئے ہیں۔ بھائی صاحب کے ذریعہ ترتیب دیے گئے شجرہ کے مطابق ہمارے نانا مولوی محمد نظیر صاحبؒ (1954۔ 1883) کا سلسلہ نسب ۲۵ویں نشست پر خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
کتاب کی طبع ثانی ’’احوال آل ملا سابق مع حیات سابق‘‘ کے عنوان سے 1987 میں ہمارے ماموں جناب غفور احمد فاروقی صاحبؒ نے کرائی۔ چنانچہ کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ یہ کوئی بہت مبارک گھڑی تھی جب شیخ ابوالفضل نے اپنا وطن مالوف ملک عرب چھوڑا اور گلبار میں اقامت اختیار کی پھر ان کی اولاد بخارا ہوتی ہوئی اکبر کے زمانۂ حکومت میں (1665۔ 1556) ہندوستان پہنچی۔ کوئی سو برس بعد ان کے اخلاف نے کنیت ضلع مرزا پور میں سکونت اختیار کی اور پھر عظمت و برکت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جب آج سے کوئی ڈھائی سو برس پہلے قاضی عبداللہ المعروف بہ ملا محمد عمر المتخلص بہ سابق نے بنارس کو اپنا وطن قرار دیا بہت سے آج تک ملا سابقؒ کے بسائے ہوئے گھر میں اللہ اور اس کے رسول، علم و دانش و کاروبار و کارزار حیات کا پرچا ہے۔‘‘
(۴) لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ صورت حال زمانہ کی بدلتی ہوئی مدتوں کی وجہ سے تھی ورنہ ہمارے نانہال کے اسلاف بھی تعلق مع اللہ، زہد، ورع، تقویٰ کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔ اس سلسلہ میں ملا محمد عمر کی زندگی کا ایک حیات سابق سے نقل کرتا ہوں۔ ملا عمر نے اپنے مکان میں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی تھی جس میں بیٹھ کر درود و وظائف پڑھا کرتے تھے اور جب اس سے فارغ ہوتے تھے تو طلبا کو درس دیا کرتے تھے مسجد میں چٹائیوں کا فرش تھا جس پر طلبا بیٹھتے تھے اور خود ملا صاحب بھی اسی چٹائی پر بیٹھا کرتے تھے۔ مفتی محمد ابراہیم آپ کے بڑے بیٹے جب سفر سے مکان پر واپس آئے تو ملا صاحب کے لیے ایک قیمتی قالین اپنے ہمراہ لائے اور بطور تحفہ اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں پیش کیا۔ ملا صاحب نے کہا مجھ کو قالین کی ضرورت نہیں ہے اس کو تم اپنے استعمال میں لاؤ۔
مفتی محمد ابراہیمؒ اس ہدیہ کے قبول نہ ہونے سے سنجیدہ ہوئے۔ ملا صاحب کے بعض احباب نے ملا صاحب سے کہا کہ آپ بوجہ فقر و استغنا قالین استعمال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ امر کسی طرح مناسب نہ ہوگا کہ آپ اپنے لایق بیٹے کے دل کو آزردہ کیجیے کہ تب ملا صاحب نے کہا مجھ کو اس ہدیہ کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہیں ہے صرف اس خیال سے قالین کو نہیں لیا کہ استعمال سے نفس سرکش کو استراحت پہنچے گا اور یہ امر میرے مسلک کے خلاف ہے۔ اگر ابراہیم کو اس امر کے بابت اصرار ہے کہ میں اس قالین کو ضرور استعمال کروں تو میں اس شرط کے ساتھ منظور کرسکتا ہوں کہ قالین بچھاکر اس کے اوپر چٹائی بچھادی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔‘‘ (احوال آل ملا سابقؒ مولف غفور احمد فاروقی صفحہ ۳۱۔ ۳۰)
(۵) الفاروق۔ علامہ شبلی نعمانی صفحہ279
(۶)’بزم اشرف کے چراغ‘ پروفیسر احمد سعید حصہ اول صفحہ ۲۱۸۔ ۲۱۳
(۷) تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، مؤلف مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی صفحہ 238۔ 237، صفحہ 254۔ 253۔ یوں تو میرے سبھی بڑے ابا صاحبان، بشمول والد ماجد مرحوم نے نہایت محتاط و تقویٰ کی زندگی گزاری لیکن میرے بڑے ابا شاہ حاجی فضل الرحمٰن صاحب علی الرحمت کی شان ہی کچھ اور تھی۔ چنانچہ مولانا قاسمی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں ’’مولانا دینی معاملات میں بہت محتاط تھے۔ بینک میں کبھی روپیہ جمع نہیں کیا۔ پراوڈنٹ فنڈ کبھی نہیں کٹوایا، مشکوک مال سے بھی پورا پورا اجتناب کرتے تھے اس معاملہ میں اس درجہ اہتمام تھا کہ اگر کبھی سفر میں یا رشتہ داری میں جاتے جنس ساتھ لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے پکا کر کھاتے‘‘ کم و بیش یہی کیفیت والد ماجد مرحوم کی بھی تھی کہ اپنے سرکاری دوروں پر انہوں نے کسی ماتحت کی غذا کبھی قبول نہیں فرمائی بلکہ کھانے کا سارا سامان مع کھانا نکالنے کے لیے برتن ایک بکس میں رکھ کر لے جاتے اور خود پکواکر کھاتے۔
(۸) تذکرہ علمائے مبارکپور تالیف مولانا قاصی اظہر مبارک پوری صفحہ 242
(۹) صفحہ 55
(۱۰) مولوی محمد نظیر صاحبؒ (1954۔ 1883) حضرت قادر بنارسی کے بڑے بیٹے تھے۔ کم عمری ہی میں انٹرنس کا امتحان پاس کرکے قانون گوئی کے مقابلہ میں شریک ہوکر کامیابی حاصل کی اور سرکاری ملازمت شروع کی۔ بہت جلدی اپنی قابلیت، حسن کارکردگی اور دیانت داری کی بناء پر ڈپٹی کلکٹر کے معزز عہدہ پر فائز ہوئے۔ لمبی مدت کے لیے آپ نے کلکٹر کے عہدہ پر بھی کام کیا۔ 1932 میں آپ کو اسپیشل مینیجر کورٹ آف وارڈس مقرر کیا گیا اور اس عہدہ پر آپ نے کالانکر (پرتاپ گڑھ) اور نان پارہ (بہرائچ) ضلعوں میں کام کیا لیکن نان پارہ میں صحت خراب رہنے لگی اس وجہ سے ملازمت ترک کر بنارس واپس آگئے۔ حکومت انگلشیہ نے انہیں خان بہادر اور او۔ بی۔ ای کے خطابات سے نوازا لیکن تب تک آپ میں قوم کی خدمت کا جذبہ پوری طرح بیدار ہوچکا تھا انہوں نے اپنے خطابات حکومت کو واپس کردیے اور 1946 کے الیکشن میں مرزاپور بنارس حلقہ سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور 1951 تک اسمبلی میں نمائندگی کی اور قوم کے مفادات کے لیے سینہ سپر رہے۔
اپنی وفات تک وہ مسلمانوں کے مختلف سماجی و فلاحی اداروں سے وابستہ رہے۔ اور شہر بنارس ہی نہیں بلکہ صوبہ کی سربہ آوردہ شخصیات میں آپ کا شمار تھا۔ مجھے خوب یاد ہے 1957میں جب آپ کا انتقال ہوا تو بنارس کے مشہور روزنامہ ہندی اخبار ’’آج‘‘ نے پہلے صفحہ پر پورے کالم کی موٹی سرخی ’’سیوگیہ ناگرک (لایق شہری آج اٹھ گیا)‘‘ لگائی تھی۔ احوال ملاسابقؒ کے مؤلف (۲) کے لکھتے ہیں۔ ’’آپ شروع ہی سے بڑے ہونہار، خوش کردار اور نیک خلق تھے۔ حسن صورت اس پر مستزاد تھا۔ ان کی ذات والا صفات میں اپنے بزرگوں کی تمام خوبیاں جمع ہوگئی تھیں۔ علم و قلم، دنیاوی جاہ و جلال اور حُب قوم، جذبۂ سخاوت و خدمت خلق اور اللہ و اہل اللہ سے محبت، اقربا پروری اور دوست نوازی ان میں ہر وہ صفت تھی جو ایک اچھے اور سچے مسلمان میں ہوتی ہے۔ بقول فردوسی
اگر گوع ازکار تاں نامدار نہ چنداں بود کاید اندر شمار
آں مرحوم جوہر شناس تھے۔ کم عمری ہی میں انہیں بھیا کی صلاحیتوں کا احساس ہوچلا تھا۔ لہٰذا ان کی بے حد ہمت افزائی فرماتے تھے۔ اپنے سبھی نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہماری نانی صاحبہ، اللہ جنت نصیب کرے، خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان کی تھیں۔ بے حد متقی و پرہیزگار، سادہ آپ کی زندگی تھی۔ نانا اور نانی مرحومین میں مثالی محبت تھی۔ نانامرحوم کے انتقال کے دن ہی صاحب فراش ہوئیں اور چاہ ماہ کے قلیل عرصہ بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
(۱۱) ہمارے ماموں جناب غفور احمد فاروقی (1997۔ 1928) مولوی نظیر احمدؒ کی واحد اولاد نرینہ تھے۔ 1949 میں الہ آباد یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد 1951 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویزن اور پانچویں پوزیشن کے ساتھ ایل ایل بی کیا۔ کچھ دن بنارس سول کورٹ میں خاندانی وراثت کے مطابق پریکٹس کرنے کے بعد 1955 میں جوڈیشیل سروس کے مقابلہ میں کامیاب ہوکر سرکاری ملازمت اختیار کی اور بحمد اللہ کمال دیانت داری اور شاندار ریکارڈ کے ساتھ ملازمت کرکے 1987میں اسپیشل جج کے عہدہ سے رٹائر ہوے۔ اور اپنے آبائی مکان کو آباد فرمایا۔
اس دوران آپ نے ’’حیات سابق‘‘ ثانی کی اشاعت کرائی اور امید تھی کہ کچھ اور گم شدہ جواہر پارے منظرِ عام پر آئیں گے۔ لیکن افسوس صدمہ اجل نے زیادہ مہلت نہ دی اورعارضہ قلب میں مبتلا ہوکر 1997 میں اس دارِفانی سے رخصت ہوئے اور اپنے آبائی قبرستان بنارس میں ہی مدفون ہوئے۔ اللہ ان کے مراتب بلند فرمائے۔ مرحوم کی سب سے بڑی خوبی میرے نزدیک یہ تھی کہ نماز انہوں نے کبھی قضا نہیں کی اور عالم جوانی میں بھی جب کہ عموماً نوجوان دین کی طرف سے بے توجہی برتتے ہیں۔ انہوں نے سفر یا حضر میں نماز ترک نہیں فرمائی اور اس مقصد کے لیے ہمیشہ پتلون کے اندر پاجامہ زیب تن فرماتے تھے۔ نہایت خوب صورت پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ حج بیت اللہ شریف کے بعد داڑھی رکھ لی تھی اور انگریزی لباس ترک کرکے شیروانی ٹوپی زیب تن فرماتے تھے جو ان کو بہت اچھی لگتی تھی۔
(۱۲) (احوال آل ملا سابق صفحہ ۷۱)
(۱۳) صفحہ ۵۸
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.