Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

براڈکاسٹر ہونا کیا معنی رکھتا ہے

اے۔ ایس بخاری

براڈکاسٹر ہونا کیا معنی رکھتا ہے

اے۔ ایس بخاری

MORE BYاے۔ ایس بخاری

    کچھ عرصے کاذکر ہے۔ میں ایک دن اپنے دفتر میں ایک فائل کھولے بیٹھا تھا۔ میرے سامنے موضع مرید پور کے ایک صاحب کاخط تھا۔ جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ مرید پور میں بھی فوراً دس کیلوواٹ کا ایک ریڈیو اسٹیشن کھولاجائے۔ ورنہ مریدپور کے ڈیڑھ سو باشندے سب کے سب ریڈیو کابائیکاٹ کردیں گے۔ میں سوچ رہاتھا کہ جواب میں کیا کہوں جس سے اس مجاہد کاجوش ٹھنڈا ہوجائے۔ اور ریڈیو کامحکمہ اس حادثہ عظیم سے بچ جائے جس کی وہ دھمکی دے رہے ہیں۔ میں اسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ یکایک میرے کمرے میں دلی کے اسٹیشن ڈائرکٹر صاحب مسٹر لکھشماؔ نن مع اپنی مونچھوں کے داخل ہوئے۔

    میں سہم گیا۔ میں طبعاً بہت ڈرپوک ہوں اور اسٹیشن ڈائرکٹروں سے تو میں بہت ہی ڈرتا ہوں۔ کیونکہ یہ اصحاب جب ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہزارہا سننے والوں کے وکیل بن کر آتے ہیں۔ اورجب کوئی نئی تجویز پیش کرتے ہیں اس کی تمہید یہی ہوتی ہے کہ ’’ہمارے ہزارہاسننے والے جن کی خوشنودی پرہمارے محکمہ کی بہبود کاانحصار ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ یوں ہو اور یوں نہ ہو۔‘‘ اس لیے جب بھی کوئی اسٹیشن ڈائرکٹر صاحب میرے کمرے میں داخل ہوں، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ساٹھ ہزار ریڈیو کے شائقین مجھ پر دھاوا بولنے والے ہیں۔ اور پھر میں مسٹر لکھشماؔنن سے تو بہت زیادہ خوف کھاتا ہوں کیونکہ وہ ہر وقت بغل میں ایک چھوٹی سی چھڑی دبائے پھرتے ہیں۔ جو مختصر مگر ہرلحاظ سے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔

    ان کی شکل دیکھتے ہی میں نے کہا۔ ’’کہیے حضرت، ہمارے ہزارہا سننے والے جن کی خوشنودی پر ہمارے محکمے کی بہبود کاانحصار ہے۔ آج کیا چاہتے ہیں۔‘‘ مسٹر لکھشماؔنن خلاف توقع ہنس دیے۔ جس سے مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا اورکہنے لگے ’’اب کے جوتجویز میں لے کر آیا ہوں اس میں سننے والوں کی مرضی کو کچھ دخل نہیں۔ جو تجویز میں آج لے کر آیا ہوں وہ میری اپنی تجویز ہے۔ بات یہ ہے کہ مجھ سے ایک حماقت ہوگئی ہے جس کاخمیازہ اب آپ کو بھگتنا ہوگا۔ ہم نے تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کر رکھاہے۔ جس میں باری باری مختلف قسم کے لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے، وہ ہوناکیا معنی رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’مجھے تو یہ کچھ بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن خیر فرمائیے۔‘‘ کڑک کر بولے ’’تو آپ اکیلے کی رائے ہمارے ہزارہا سننے والوں کے مقابلے میں جن کی خوشنودی پر۔۔۔ خیر تو بہرحال تقریروں کے اس سلسلے میں اب کے براڈ کاسٹر کی باری ہے، اس لیے آپ اس مضمون پر ایک تقریر کردیجیے کہ براڈ کاسٹر ہوناکیا معنی رکھتاہے۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’جہاں تک میں اندازہ لگاسکتاہوں۔ آپ کے ہزاہاسننے والے جن کی خوشنودی پر محکمے کی بہبود کا وغیرہ وغیرہ ہے وہ تو براڈ کاسٹر کو ایک بے معنی سا انسان سمجھتے ہیں۔ تو براڈکاسٹر کامعنی رکھنا یعنی کیا معنی؟‘‘ اس پر وہ اس قدر بپھرے کہ غصے کے مارے زبان میں لکنت آگئی۔ کہنے لگے ’’بس صاحب میں اپنے سننے والوں کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں ہوں۔ ورنہ میں بھی آپ کو ایسی کھری کھری سناؤں گا کہ آپ سن ہوکر رہ جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اگر آپ حکیم کے مشورہ سے مجبور ہیں تو ایسی تقریر کے لیے تو مجھ سے کسی بڑے افسر کو انتخاب کرناچاہیے جن کا کلام سندہو۔ اور جو تمام حالات پر ایک بلندنقطۂ نظر سے روشنی ڈال سکیں۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’تقریر ہندوستانی میں ہوگی اس لیے کسی بڑے افسر کو تکلیف دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے کہا ’’توپھر جو ہونہار نوجوان ریڈیواسٹیشن پر کام کرتے ہیں انہیں یہ تقریر کرنی چاہیے۔ وہ براڈکاسٹنگ کی مشکلات کو بھی مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اور اس کی مسرتوں کو بھی۔ میں تو یہاں دفتر میں بیٹھا ہوں، فائلوں کی تلاوت میں مشغول رہتا ہوں، یہاں نہ مائکرو فون ہے نہ لاؤڈ اسپیکر، نہ یہاں اہل علم کے قافلے آتے ہیں، نہ اہل فن کے طائفے۔ اصل میں کشتی کے ملاح تو آپ لوگ ہیں۔ جو رات دن پروگرام وضع کرتے رہتے ہیں۔ میں تو یہاں کنارے پر بیٹھا ہوں، میری تقریر میں وہ بات کہاں پیدا ہوسکتی ہے جو آپ لوگوں کی تقریر میں ہوگی۔‘‘ اس پر مسٹر لکھشماؔنن بولے ’’ہم لوگوں کو آپ نے کوئی بیکار سمجھ رکھا ہے۔ جو ہم تقریریں کرتے پھریں۔ ہمیں ضروری کاموں ہی سے فرصت کہاں۔‘‘

    یقین مانیے اس سے مجھے بے انتہا ندامت ہوئی۔ لیکن اسے میری طبیعت کی پستی کہہ لیجیے۔ یہ گوارا نہ ہوا کہ اپنی بیکاری کا اعتراف کرکے تقریر کی ہامی بھرلوں۔ چنانچہ میں نے پھر انکار کردیا۔

    مسٹر لکھشماؔنن یکلخت اٹھ کھڑے ہوئے۔ میری طرف قہر کی نظروں سے دیکھا۔ اور اپنی چھڑی آسمان کی طرف اٹھاکر بولے۔ ’’اگر آپ یہ تقریر اپنے ذمہ نہ لیں گے تو میں۔۔۔ تو میں۔۔۔‘‘

    اس کے بعد وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوگئے اور پھر دانت پیس کر بولے، ’’اگر آپ یہ تقریر اپنے ذمہ نہ لیں گے تو میں اپنی مونچھیں منڈا ڈالوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ او رمیں پھر موضع مرید پور کی بڑھتی ہوئی بے چینی پر غور کرنے لگا۔

    دوسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ مسٹر لکھشماؔنن کی مونچھیں سچ مچ ندارد ہیں۔ وہ مونچھیں جن پر ٹرانسٹر کے کھمبوں کا دھوکا ہوتا تھا، وہ مونچھیں جو دہلی کے مشہور اور قابل دید مقامات میں شمار ہوتی تھیں۔

    مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ میں نے دل میں سوچا جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ مثل ہے کہ گئی مونچھ پھر ہاتھ آتی نہیں اور ایک اور مثل ہے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں مونچھ۔ لیکن اگر اب بھی میں تقریر کرنے پر آمادہ ہوجاؤں تو کم از کم ان سے آنکھیں ملانے کے قابل تو ہوجاؤں گا، ورنہ جب مسٹر لکھشماؔنن کے باحمیت چہرے پر نظر پڑے گی دل چاہے گا جنگل میں دھونی رماکر بیٹھ جاؤں۔ چنانچہ میں نے دل کڑاکرکے ٹیلیفون پر ان سے کہا کہ حضرت میں تقریر کرنے کو تیار ہوں اور پھر جھٹ ٹیلیفون بند کردیا۔ تاکہ میری ہچکیوں اور سسکیوں کی آواز ان کے کان تک نہ پہنچے۔

    چند دن بعد معلوم ہوا کہ مونچھیں منڈوانے کا میری تقریر سے کچھ تعلق نہ تھا۔ مسٹر لکھشماؔنن کی بیگم صاحبہ نے پہلے ہی سے حکم دے رکھا تھا کہ مونچھیں صاف کردی جائیں۔

    تو بہرحال یہ وہ حالات ہیں جن کے ماتحت میں بن بلائے آپ کی خدمت میں حاضر ہواہوں، اس لیے میں آپ کی سمع خراشی کے لیے تہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔ میں اُس صاحبِ ذوق سے معافی مانگتا ہوں جو مس ٹھمری بائی یا استاد خیال خاں کی آس میں ریڈیو کھولے بیٹھے تھے اور جن کے لیے میری تقریر سوہان روح ہو رہی ہے۔ ان ہوٹل والوں سے معافی مانگتا ہوں جن کے خریدار میری تقریر کی وجہ سے ایک ایک کرکے سب باہرچلے گئے ہیں۔ ان اہل زبان حضرات سے معافی مانگتا ہوں جن کو میرا لہجہ ناگوار معلوم ہو رہا ہے اور جو میری زبان کی غلطیوں پر پیچ و تاب کھارہے ہیں۔ ان زباں داں حضرات سے معافی مانگتا ہوں جو ہندوستانی نہیں جانتے یا کم از کم میری زبان کو ہندوستانی نہیں سمجھتے۔ اس میاں بیوی سے معافی مانگتا ہوں جن کی باہمی اخلاص کی گفتگو میں میں مخل ہو رہا ہوں، اس اخبار نویس دوست سے بھی معافی مانگتا ہوں جس کے فرض کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے اخبار میں میری تقریر کی دھجیاں اڑادے۔ لیکن جس کی طبعی شرافت کا یہ تقاضہ ہے کہ میری کوتاہیوں کو نظرانداز کردے۔ اس دل جلے سے معافی مانگتا ہوں جس کی تقریر مجھ سے بہت بہتر تھی لیکن اسٹیشن ڈائرکٹر صاحب نے اسے پچھلے ہفتے ردّکردیا۔ ان اصحاب سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ جنہوں نے ریڈیو کا لائسنس تک نہیں لیا۔ اور جن کا گناہ اس وقت میری تقریر کی وجہ سے گناہ بے لذت ہو رہا ہے۔ اور آخر میں ان غائب حضرات سے معافی مانگتا ہوں جنہوں نے ریڈیو بند کر رکھا ہے اور گھڑی پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ کب میری تقریر کا وقت ختم ہو اور وہ ریڈیو کھولیں۔

    تو اب میں کیا کہوں۔ کہ ریڈیو والوں پر کیا گزرتی ہے یا بقول اسٹیشن ڈائرکٹر صاحب کے براڈ کاسٹر ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اشارہ کافی ہوتا ہے تو جو کچھ میں اب تک عرض کرچکا ہو ں اس سے آپ اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ خدا کے ان حقیر بندوں کو جو آپ کے کانوں کی ضیافت کا سامان مہیا کرنے پر مقرر ہیں۔ کس رکھ رکھاؤ کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے دو ایک باتیں جو مجھے اور کہنی ہیں سوچتا ہوں کیونکر کہوں اور کس زبان میں کہوں کہ آپ کی سماعت پر گراں نہ گزرے۔ ریڈیو والوں کو تو آپ نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھو چنانچہ ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ عمر عزیز پھونکیں مارنے ہی میں ختم ہوجائے اور قدم اٹھانے کی نوبت بھی نہ آئے۔ مثال کے طور پر یہی دیکھ لیجیے کہ میں براڈ کاسٹر کا حال بیان کر رہا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ آپ کو براڈکاسٹر کا لفظ ہی بیہودہ اور ثقیل معلوم ہوگا۔ لیکن اس میں ہمارا کیا قصور، میں اس سے بہتر لفظ کہاں سے لاؤں۔

    ریڈیو کے قدردانوں نے یوں تو ریڈیو والوں کے لیے وقتاً فوقتاً بڑے بڑے جذباتی نام تجویز کیے ہیں لیکن اُ ن میں سے بیشتر ایسے ہیں کہ آپ کے سامنے دہراؤں تو آپ ہی کہیں گے کہ وہ دیکھو ریڈیو لوگوں کے اخلاق کو بگاڑ رہا ہے۔ لہٰذا مجبورہوں کہ یہی بیہودہ اور ثقیل لفظ استعمال کروں۔ اگر براڈ کاسٹر کی بجائے اپنے آپ کو ریڈیو والے کہیں تو لوگ فوراً پوچھنے لگتے ہیں کہ آپ کی دکان کہاں ہے۔ ایک دوست سے میں نے یہ تکلیف بیان کی تو کہنے لگے ’’تو کیو ں نہیں سوچ ساچ کر کوئی اچھا سا نام اپنے لیے تجویز کرلیتے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’آپ ہی فرمائیے۔‘‘ بولے۔ ’’یہ ریڈیو کا دھندا تو ہوا کا کھیل ہے۔ تم چوکیدار۔ نمبردار کے وزن پر اپنا نام’’ہوادار‘‘ کیوں نہیں رکھ لیتے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ لفظ تو مجھے کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ بولے ’’ذرا غور تو کرو، نیا لفظ تو ہمیشہ غیرمانوس معلوم ہوتاہے۔ اگر ہوا کی مناسبت سے تم ہوادار کا لفظ اختیار کرلو تو زبان کی کئی اور دقتیں رفع ہوجائیں گی۔ جو لوگ تم لوگوں سے ہمیشہ اپنی تقریریں کراناچاہتے ہیں وہ ہوا خواہ کہلائیں گے اور جو لوگ ریڈیو کی خواہ مخواہ مخالفت کرتے ہیں وہ گویا ہوا سے لڑتے ہیں اور چاہو تو ان کی باتوں کو بادِ مخالف کہہ لو۔ جو ہدیہ یا نذرانہ تم اہل فن کی خدمت میں پیش کرتے ہو وہ ہوائی رزق کہلائے گا۔ اور جو شخص گھر میں ریڈیو تو لگاتا ہے لیکن لائسنس کی فیس ادا نہیں کرتا وہ جوتی چور کے وزن پر ہوا چور کہلائے گا یا آدم خور کے وزن پر ہوا خور۔ اور اس کا یہ جرم عدالتوں میں ہوا خوری کے نام سے مشہور ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’حضرت ہم نئے الفاظ وضع کرنے سے باز آئے۔ براڈکاسٹر ثقیل اور بیہودہ سہی لیکن اس پر سر پھٹول تو نہ ہوگی۔

    پہلے ٹرانسمشن کا لفظ بھی اسی طرح بیہودہ اور ثقیل معلوم ہوتا تھا، جب اس کی بجائے محفل یا مجلس کالفظ استعال کرنے لگے تو کسی نے تمغہ تو نہ بھیجا۔ البتہ ایک دیندار بزرگ پیچھے پڑگئے کہ ’’کیوں صاحب کہاں محفلِ میلاد اورمجلسِ عزا اور کہاں ریڈیو والوں کی دھماچوکڑی؟ آپ کومحفل یا مجلس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔‘‘ اور بعض حضرات نے کہا کہ ’’کیوں صاحب مجلس کسے کہتے ہیں؟ یہ لفظ تو آج تک ہم نے کبھی نہیں سنا۔ او رنہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ کوئی آسان سا لفظ استعمال کیجیے۔‘‘ اس پر مجلس کی جگہ سبھا کالفظ استعمال ہونے لگا۔ اس پر بھی کسی نے تمغہ نہ بھیجا۔ البتہ چند مہربانوں نے نہایت ملائمت سے یہ ضرور سمجھایا کہ اگر یہ لفظ بدلا نہ گیا تو ہم ریڈیو اسٹیشن کو آگ لگادیں گے۔ اور کم از کم ایک اسٹیشن ڈائرکٹر یا اس کے بدلے میں دوپروگرام اسٹیشنوں کو قتل کرڈالیں گے۔ بات پریاں زبان کٹتی ہے۔ ساٹھ ہزار سننے والے ہیں اور یوں سمجھیے کہ ہر سننے والے نے ریڈیو والوں کے پاؤں میں ایک زنجیر ڈال رکھی ہے جس کو وہ خدا جانے کیا خدشہ محسوس کرکے وقتاً فوقتاً کھینچتا رہتا ہے۔ گویا ریل والوں کی اس نصیحت پر عمل کرتا ہے کہ اگر اپنی حفاظت چاہتے ہو۔ تو کھینچو زنجیر کو۔ چنانچہ اب خیال آتا ہے کہ ٹرانسمشن کا لفظ ہی رہنے دیتے تو بہتر ہوتا۔

    میرے دوست یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ میں بھی چپ ہو رہا۔ لیکن میری زبان خاموش تھی۔ دل خاموش نہ تھا۔ دل کہہ رہاتھا کہ کیا سچ مچ ٹرانسمشن کا لفظ ہی رہنے دیتے تو بہتر ہوتا۔ تم تو کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں براڈ کاسٹر کی سب سے بڑی آرزو یہ ہونی چاہیے کہ یہاں کے ریڈیو کو خدا ہندوستان ہی کا رنگ و روغن نصیب کرے۔ کیا یہ محض لاف زنی تھی یا کیا اس آرزو میں اتنی قوت نہیں کہ مشکلات کا مقابلہ کرسکے۔

    دل کے اس سوال نے مجھے لاجواب کردیا۔ اور جب کہ صرف دو تین منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ میں چاہتاہوں آپ سے مشورہ کرلوں کہ اس آرزو کے پورا کرنے کی کیا ترکیب ہے۔ وہ کیا ترکیب ہے جس سے اس مشین میں جو سمندر پار سے یہاں آئی ہے اور جو ریڈیو کہلاتی ہے۔ ہندوستانی دل کی سی دھڑکن پیدا ہوجائے؟ وہ کیا ترکیب ہے۔ جس سے یہ بات پیدا ہوجائے کہ جب ساٹھ ہزاریا لاکھ یا دس لاکھ یا دس کروڑ گھروں کے اندر ریڈیو کے لاؤڈاسپیکر یک آواز ہوکر بولیں تو آپ کاکان پہچانے اور دل گواہی دے کہ یہ ہندوستان کی آواز ہے۔ جو تہذیب اور فن اس مشین کے ذریعے سے کانوں کے راستے دلوں میں سرایت کرے وہ ہندوستان کی بہترین تہذیب اور ہندوستان کا بہترین فن ہو۔ جس سے دلوں میں امنگیں پیدا ہوں اور دماغوں میں اجالا ہوجائے، یہ بات ہو تو براڈکاسٹر صحیح معنوں میں آپ کا ہوادار کہلانے کا مستحق ہوگا۔ ورنہ یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے ہی ہاتھوں سے ایک دوسرے کا گلا گھونٹتے رہے تو ریڈیو پر صرف زخمی تہذیب اور سسکتے ہوئے فن کی چیخیں سنائی دیا کریں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم سننے والے اور بولنے والے دونوں ایک دوسرے کے گلے سے اپنا اپنا ہاتھ ہٹالیں۔ اپنی کہیں اور دوسرے کی سنیں۔ کچھ عرصے کا ذکر ہے۔ دلی سے ایک جوشیلا اخبار نکلا کرتا تھا جس کا نام تھا ’’سُنادیؔ۔‘‘

    اس سے آپ کو بھی انکار نہ ہوگا کہ اس نام میں ایک خوش دلی اور خوش طبعی ضرور پائی جاتی ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کا اصول یہی ہو کہ ’’سُنادی‘‘ ۔ تو تہذیب کو بچانے کے لیے چندایسے لوگوں کو تلاش کرنا پڑے گا جن کا اصول یہ ہوگا کہ ’’کبھی کبھی سن بھی لی۔‘‘ اگر یہ نہ ہوا تو حق و راستی اور خوش مذاتی اور تہذیب یہ سب خوبیاں گونگی ہوکر رہ جائیں گی اور ریڈیو کی حالت اس بزدل خوشامدی کی سی ہوجائے گی۔ جس کا جھوٹ بھی جھوٹ ہوتا ہے اور سچ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔ دنیا میں باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک تو خدا لگتی بات، اور دوسری وہ بات جو زمانہ سازی کی غرض سے زمانے کی ہوا کو دیکھ کر کی جائے۔ گویا ہوالگتی بات۔ میں سمجھتا ہوں وہ دن ریڈیو کے لیے موت کا دن ہوگا جب اس پر ہمارے ہزارہا سننے والے جن کی خوشنودی پر ہمارے محکمے کی بہبود کا انحصار ہے صرف ہوا لگتی بات سننا چاہیں گے اور خدا لگتی بات سننا گوارا نہ کریں گے۔ میں نے آج آپ سے خدا لگتی، اور ہوا لگتی دونوں قسم کی باتیں کی ہیں۔ نہ معلوم آپ کو کون سی باتیں پسند آئیں۔ شاید دونوں بُری معلوم ہوئیں بہرحال یہ بیہودہ سے بیہودہ کلام بھی آخر ختم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اب میں بھی اس کلام کو ختم کرتا ہوں۔ مقطع افسوس ہے کہ میں نے نہیں لکھا۔

    (یہ تقریر ۲۰/دسمبر ۳۸ء کو دلی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوچکی ہے۔)

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے