کلائیو اور کیننگ کی درمیانی مدت میں ہندوستان کی معاشرت میں نمایاں تبدیلی ہوئی۔ اس صدی میں مغلوں کے جن صوبہ داروں نے اپنی خود مختار حکومتیں قائم کی تھیں۔ ان میں سے صرف ایک ریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکی۔ مغلوں کی سلطنت مٹ گئی۔ مرہٹوں نے ہندوستان کی مرکزی سلطنت کو برقرار رکھنے اور اسے زیر نگین کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ دکن میں ٹیپوسلطان اپنی سیاسی آزادی کی حفاظت میں لڑتاہوا شہید ہوا۔ مرہٹوں کااقتدار ختم ہوگیا۔ اودھ کی پرشکوہ اور شاندار مملکت مٹ گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قائم کردہ سلطنتِ پنجاب بھی اسی دور میں ختم ہوگئی۔ اس دور نے اپنے پیش رو دور کی تمام علمی، ادبی اور صنعتی ترقیوں کو ختم کردیا۔ طوائف الملوکی کے اس دور میں ہندوستانیوں کا زندگی کے کسی شعبہ میں ترقی کرناناممکن تھا۔ ایک اجنبی قوم کے سیاسی تفوق نے ہندوستانی زندگی کی بنیادیں ہلادیں۔ مغلوں کے زوال کے بعد اگر ہندوستان کی کوئی قوم مرکزیت کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتی تو ہندوستان بہت بڑے سیاسی اور صنعتی نقصان سے بچ جاتا۔ لیکن ایک اجنبی قوم کے سوداگروں کی ایک جماعت نے جس کے پیش نظر محض نفع اندوزی تھی۔ ہندوستان کے بڑے سے بڑے نقصان کو اپنے مفاد کے لیے نظرانداز کردیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس سیاسی غلبہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہرلحاظ سے کمزور کردیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سیاسی غلبہ کے عروج میں بھی نظم و نسق سے رعایا کے حقوق کی نگہداشت کا کام نہیں لارہی تھی۔ ہندوستان کے بہت سے حصوں میں نراج کا دور دورہ تھا۔ کاشت کار، کھیتی باڑی سے غافل تھا اور صناع کو بدحالی نے بیکار بنادیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصہ داروں کو اپنی رعایا کی تعلیم کا زیادہ خیال نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس دور میں جن علمی کاوشوں کا آغاز ہوا وہ ابھی تک جاری ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں ہندوستانیوں کی معاشی حالت کیونکر بہتر ہوسکتی تھی۔ ایک ایسے ملک کو جس کی برآمد، درآمد سے کئی گنا تھی۔ محض درآمد کے لیے مخصوص کردیا۔ اس طرح ہندوستان کی معاشی حالت روزبروز خراب ہوتی گئی۔ ہندوستان کے دستکاروں نے انگلستان کی مشینوں کا حیرت انگیز طور پر مقابلہ کیا۔ وہ اس مقابلہ میں جیت جاتے۔ اگر انہیں بھی کسی قومی حکومت کے تحفظات یا مراعات حاصل ہوتے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان کی صنعت و حرفت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لہٰذا زوال یقینی تھا۔ زوال آیا، بیکاری سے جو لوگ بچ جاتے، انہیں قحط ختم کردیتا۔ قحط سے بچے ہوئے سخت جان و باؤں کا شکار ہوجاتے۔ اس پر بھی ایسٹ انڈیا کمپنی ہر سال اپنے حصہ داروں میں زیادہ سے زیادہ منافع تقسیم کرتی۔ معیارِ زندگی بہت گرگیا۔ افلاس نے ادب اور آرٹ کی تخلیق کے ساتھ ستائش کا جذبہ بھی چھین لیا۔
مغلوں کے زوال سے فنونِ لطیفہ کو سخت نقصان پہنچا۔ فنونِ لطیفہ کے سرپرست مٹ چکے تھے۔ آرٹسٹ، جاگیردار کی سرپرستی سے محروم ہوگیا۔ اس کے لیے کوئی دربار باقی نہ رہا۔ دہلی کے آرٹسٹوں نے حیدرآباد اور لکھنؤ کی راہ لی، چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے سول ملازموں کے لیے فارسی کی تعلیم دلانا ضروری تھا۔ اس لیے کمپنی ابتدا میں ہر سال اپنے چند ملازموں کو دوسرے ملکوں میں بھیجتی رہی۔ لیکن آخرکار کمپنی نے اپنی اسامیوں کے لیے بعض فارسی مدرسے اور اشاعتی ادارے قائم کیے۔ مغلوں کے عہدِ حکومت میں اگرچہ دفتری زبان فارسی تھی لیکن انہوں نے دیسی زبانوں کی بھی سرپرستی کی۔ کمپنی کے عہدِ حکومت میں بھی فارسی کو دفتری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے دوسرے ثلث میں اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔
جنگ پلاسی سے پیشتر فارسی زبان شاہی سرپرستی سے محروم ہوچکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان بھر میں فارسی مدرسے موجود تھے۔ اس قسم کے مدرسے انگریزوں کے آنے سے پیشتر پنجاب میں بھی موجود تھے۔ بعض مقامات میں آج بھی اس قسم کے مدرسے موجود ہیں۔ ان مدرسوں میں مذہب اور ملت سے قطع نظر ہندوستانی طالب علم تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لارڈ مٹکاف کے عہدتک اس قسم کے فارسی مدرسوں کا جال ہندوستان میں بچھا ہوا تھا۔ مغلوں نے فارسی کی ہر طرح حوصلہ افزائی کی۔ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی رعایا کی تعلیمی ضروریات کااحساس کیا تو اس وقت کمپنی ہندوستانیوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دلانے پر آمادہ ہوچکی تھی۔
ابتدا میں ایسٹ انڈیا کے ملازم محض تاجر تھے۔ اس لیے ان میں سے سوائے چند ایک کے دوسروں کو فارسی، اردو، یا بنگالی پڑھنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ فارسی وکیلوں اور فارسی مشینوں سے ان کا کام چل جاتاتھا۔ لیکن جب کمپنی نے ملک گیری شروع کی اور اس کی مملکت میں اضافہ ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے زبان کا مسئلہ آیا۔ چنانچہ فارسی کی طرف توجہ کی گئی۔ کمپنی کے بعض ملازموں نے اس زبان پر پوری دسترس حاصل کرنے کے بعد فارسی کتابوں کے انگریزی میں ترجمے کیے۔ علم و ادب کی تاریخ میں یہ باب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کو فارسی زبان کی تعلیم دینے کے لیے وارن ہیسٹنگز نے کلکتہ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ لیکن یہ مدرسہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔ لارڈویلزلی نے کمپنی کے سول ملازموں کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ اس کا لج کا مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کو فارسی اور دیسی زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینا تھا۔ اس کالج کے لیے بہترین پروفیسر مقرر کیے گئے۔ عربی کے لیے جان بیلی، فارسی کے لیے کرک پیٹرک، فرانسیسی گلیڈون، نیل بنجمن اور ایڈمونسٹون، اور ہندوستانی کے لیے جان گلکراسٹ مقررکیے گئے۔ ان کے علاوہ کئی ایک دوسرے مشاہیر بھی فورٹ ولیم کالج کے اسٹاف میں شامل تھے۔ فورٹ ولیم کالج ہی میں اردو نثر کو سلاست اور روانگی نصیب ہوئی۔ مقفیٰ طرزِ تحریر کو ترک کردیا گیا۔
اردو نے خواہ شمالی ہندوستان میں جنم لیا یا وہ دکن میں پیدا ہوئی۔ اس کی ابتدا فارسی اور دیسی زبانوں کی آمیزش سے ہوئی۔ صدیوں اس سے محض بول چال کا کام لیاگیا۔ جب یہ زبان علمی اور ادبی خیالات کے اظہار کے قابل ہوگئی تو اس میں بلاتکلف اظہارِ خیال ہونے لگا۔ ادبیات اردو کے بعض مستند مؤرخوں کے خیال کے مطابق اردو نظم اور اردو نثر کا آغاز جنوبی ہندوستان میں ہوا۔ یکساں ماحول کی وجہ سے اردو نظم و نثر نے شمال اور جنوب میں یکساں اسلوب بیان اختیار کیا۔ جنوب اور شمال کی ہم عصر اردو نثر مقفیٰ اور مسجع تھی۔ اس اسلوب بیان میں چونکہ معانی کو الفاظ پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اس لیے اردو نثر میں زیادہ مفید کام نہ ہوسکا۔
فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں جدید اردو نثر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اسلوبِ بیان میں سادگی آگئی۔ اظہار مطلب کے لیے آسان الفاظ استعمال ہونے لگے۔ کالج کے ہندوستانی شعبہ میں میرِامن، شیر علی افسوس، میر بہادر علی حسینی، میر کاظم علی جوان، نہال چند لاہوری، للولال جی، بنسی نرائن اور دوسرے مشاہیر ادب شامل تھے۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو کے جن نثر نگاروں نے امتیازی حیثیت اختیار کی۔ ان کا تذکرہ ’’ارباب نثر اردو‘‘ میں کیاگیا ہے۔ فورٹ ولیم کالج نے اردو میں بہت سی علمی کتابیں شائع کیں۔ فورٹ ولیم کالج کے نثر نگاروں نے بہت جلد دہلی کو متاثر کیا۔ لکھنؤ بھی متاثر ہوا۔ اس کالج کے علاوہ دہلی کالج اور آگرہ کالج نے اردو زبان میں بہت سی علمی کتابیں شائع کیں۔ جدید نثر نگاری نے انشاء کو اس حدتک متاثر کیا کہ اس نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ لکھی۔ جو عربی اور فارسی کے الفاظ سے خالی تھی۔ فورٹ ولیم کالج کی سرپرستی میں بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کو چونکہ اس کالج سے کوئی منافع نہیں مل سکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے اسے بند کردیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فارسی کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے ایک انگریزی ہندوستانی لغت اور ایک ہندوستانی گریمر مرتب کی۔ ہندوستانی زبان کے متعلق جان گلکرسٹ کا یہ خیال تھا کہ وہ ہندوستان کی دوسری صوبائی زبانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اور ہندوستان کے ایک وسیع حصہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس لیے وہ ہندوستان میں ایسی نثر پیدا کرنا چاہتا تھا جو ہندوستان میں عام سرکاری زبان کا کام دے سکے۔ لیکن اس زمانہ میں نہ صرف ہندوستانی بلکہ دوسری صوبائی زبانوں میں بھی یہ صلاحیت موجود نہ تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو فارسی کی جگہ دی جاتی۔ فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر میں ایک نیا اسلوب پیدا کیا۔ اردو نثر کا معیار بلند ہونا شروع ہوگیا۔ انشاء اللہ خان انشاؔ نے عام لوگوں کی زبان کو اتنی قوت بخشی کہ اس نے دربار کی مصنوعی زبان کو مسند سے ہٹادیا۔ ۱۸۰۴ میں اس نے شاہ انگلستان کی مدح میں جو قصیدہ لکھا اس میں وہ پوڈر۔ گیلاس اپلٹن اور بگل کے انگریزی الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اس کی ذہانت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے بے شمار ہندی ترکیبیں ایجاد کیں۔ اردو نثر کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب قرآن شریف کا وہ اردو ترجمہ تھا۔ جسے مولانا عبدالقادر دہلوی نے کیا۔ یہ ترجمہ ۱۸۲۲ء میں شائع ہوا۔ مشرقی بنگال میں مولوی کرامت علی نے اردو نثر میں بہت سی مذہبی اور اصلاحی کتابیں لکھیں۔ اسی زمانہ میں بنگالی نثر نے ترقی کی طرف قدم اٹھایا۔ وہ اگرچہ اردو کے بعد میدان میں آئی۔ لیکن چھپائی کی آسانیوں اور بنگال کے درمیانہ طبقہ کی ضرورتوں کے پیش نظر اردو سے آگے نکل گئی۔ اس زمانہ میں اردو نثرکی کتابیں ٹائپ میں چھپتی تھیں۔ لیکن اردو کی ترقی میں ٹائپ کی عدم مقبولیت سنگِ گراں تھی۔ چنانچہ جب ۱۸۳۷ء میں دہلی میں لیتھو گرافی کا پہلا چھاپہ خانہ قائم ہوا تو بہت جلد اردو کی کتابوں کی مانگ بڑھ گئی۔ نیز اردو اخبار بھی نکلنے شروع ہوئے۔ دہلی کالج کے قیام سے اردو میں اعلیٰ درسی نصاب مرتب ہوگیا۔ بنگالی نثر کی طرح اردو نثر پر انگریزی ادب کا براہِ راست اثر نہ پڑا۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء سے پیشتر بنگالی نثر نمایاں ترقی کرچکی تھی۔ لیکن اردو اس سے بہت پیچھے تھی۔ اردو میں لکھنے والے عام طور پر انگریزی نہیں جانتے تھے۔ لیکن بنگالی اہل قلم عام طور پر انگریزی جانتے تھے۔ غالب نے اردو میں ادبی نثر کی بنیاد رکھی۔ غالب کے خطوط میں وہ تمام خوبیاں ہیں جن سے ادبی نثر مزین ہوتی ہے۔
اس صدی میں اردو نظم نے بھی بہت سے دور دیکھے۔ اردو نظم نے اردو نثر سے پہلے اپنے لیے جگہ پیدا کرلی تھی۔ دہلی کے سازشی ماحول اور ہندوستان کے سیاسی مزاج نے مایوسی اور ناامیدی پیدا کر رکھی تھی۔ یاس کی اس شدت نے اردو شاعروں کو متاثر کیا۔ درباری شاعری کی داد دینے والے ختم ہو رہے تھے۔ شاعروں کے پاس افسردگی کے سوا کچھ نہ تھا۔ عوام جہالت اور ناامیدی کا شکار تھے۔ امراء کو بدامنی کا سامنا تھا۔ ان حالات میں شاعر جو کچھ کہہ سکتے تھے۔ وہ ظاہر ہے۔ سوداؔ (۱۷۸۰۔ ۱۷۱۳) نے دہلی کی ویرانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لیکن وہ دہلی ہی میں رہنا چاہتا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ نواب شجاع الدولہ کے دربار (فیض آباد) میں پہنچا۔ شجاع الدولہ کی موت کے بعد آصف الدولہ (۱۷۹۷۔ ۱۷۴۵) نے لکھنو کو اپنی راجدھانی بنایا۔ چنانچہ سوداؔ بھی لکھنؤ پہنچا۔ میرزا محمد رفیع سوداؔ کی ’’شہر آشوب‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہنشاہ دہلی کی فوج کے ’’پیادے ہیں سوڈریں سرمنڈاتے نائی سے‘‘ اور ’’سوار گرپڑیں سوتے میں چارپائی سے‘‘ مسجدیں ویران، اور عمارتیں بے آباد تھیں۔ باغوں میں پھول کی جگہ کمر کمر تک گھاس تھی۔ سوداؔ کی طرح میرتقی میرؔ (متوفی ۱۸۱۰ء) بھی دہلی کی تباہی اور بربادی پیش کرتا ہے۔ دہلی کی بربادی کے بعد لکھنؤ اردو کا مرکز بن گیا۔ چنانچہ میر کو بھی دہلی چھوڑ لکھنؤ جانا پڑا۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے انہیں مدعو کیا۔ لیکن بوڑھے میر کے لیے لکھنؤ چھوڑنا مشکل تھا۔ سودا میں طنز ہے لیکن میرؔ میں درد، سادگی اور جوش۔ میر نے اپنی زندگی کے جو حالات لکھے ہیں۔ ان سے اس زمانہ کے سیاسی اور تمدنی حالات کااندازہ کیا جاسکتا تھا۔ سید انشاء اللہ خاں انشاؔ (۱۸۱۷۔ ۱۷۵۷) کی جدت پسندی دہلی کے درباری اسلوب سے بالکل جداگانہ تھی۔ دہلی میں اسے مقبولیت نہ ہوسکی۔ لکھنؤ میں انشاء نواب سعادت علی خاں (۱۸۱۴۔ ۱۷۸۹) کا مصاحب ہوگیا۔ لیکن شاہی عتاب نے اس کی زندگی کے آخری دنوں کو تلخ کردیا۔ انشاء کی طباعی اور ذہانت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انشاء نے دربار میں ہوتے ہوئے بھی عوام کی زبان استعمال کی۔ اردو شاعری میں عوام کی زبان استعمال کرنے میں نظیراکبرآبادی (متوفی۱۸۲۹) انشاء سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ انشاء اور نظیر ہم عصر تھے۔ درباری شاعروں کی طرح نظیر کا فکر و لغت محدود نہیں۔ اس کے خیالات میں وسعت اور الفاظ میں اثر ہے۔ اس نے ہر اس موضوع پر طبع آزمائی کی جس کا تعلق عوام سے تھا۔ انیسویں صدی میں اردو کی مصنوعی اور حقیقت سے گریزاں شاعری کے خلاف سب سے پہلے اکبر آباد (آگرہ) کے اسی شاعر نے بغاوت کی۔ اردو ادب کی تاریخ و تنقید کے طالب علموں کے لیے نظیر اکبرآبادی ایک وسیع اور حیرت انگیز مطالعہ ہے۔ لکھنؤ دربار کی وجہ سے ردو ادب میں مرثیہ اور ڈرامہ نے نمایاں ترقی کی۔ مرثیہ میں انیس اور دبیر ہم عصر تھے۔ ان کی شاعری محض فصاحت و بلاغت کی نمائش نہ تھی۔ ان کاکلام محض درباری حلقوں کے لیے نہ تھا۔ انہیں ان عظیم الشان واقعات پر کامل اعتقاد تھا۔ جنہیں وہ مختلف پہلوؤں سے اپنے مرثیوں میں بیان کرتے تھے۔ ان کے مخاطب عالم اور عامی دونوں قسم کے لوگ تھے جو سنجیدہ مذہبی مجالس میں جمع ہوتے تھے۔ انیس کی شہرت اور شخصیت، پڑھنے میں ان کی پرتاثیر آواز اور انداز جن کے باعث ان کا کلام دلوں میں ا ترجاتا تھا اور ذوق شاعری جو ان کے خاندان میں موروثی تھا۔ ان خصوصیات کی بدولت اور ان کے ساتھ دبیرؔ کی طباعی کی بدولت جو ان کے ہم پلہ تھے۔ اردو شاعری میں مرثیے کو لاجواب حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہ اصحاب اپنی جولانی طبع کا میدان وسیع کرتے گئے۔ حتی کہ زندگی کے جس قدر واقعات و تجربات ان کو معلوم تھے۔ وہ سب ان کے مرثیے میں نظم ہوگئے۔ ان کے مذہبی عقائد کے باعث ان کے کلام میں خلوص کی موجودگی لازم تھی۔ قدرتی مناظر۔ خانگی زندگی کے نظارے۔ ناموافق حالات میں شجاعت کے کارنامے، گھوڑے اور تلوار کی تعریف، ادائے فرض کے لطیف احساسات، ضمیر کی آواز، عجز و انکسار، محبت، دوستوں اور ہم جلیسوں کی وفاداری اور دیگر ہزاروں باتیں شستہ اور رواں اشعار میں، رزمیہ شاعری کی فراوانی اور شان و شوکت کے ساتھ نظم کی گئی ہیں۔ جب اس زبردست تحریک کا خاتمہ ہوگیا۔ جس کے باعث ورطہاع شاعر زندگی کے اس قدر وسیع اور متنوع واقعات پر زورِ طبع صرف کرنے لگے تھے تو مرثیہ کم تر قابلیت والوں کے ہاتھوں عامیانہ معیار پر آگیا اور اس کااثر وسیع ادبی دنیا کی بجائے محض ایک محدود حلقے تک رہ گیا۔ (۱)
امانت کے ڈرامے ’’اندرسبھا‘‘ نے اردو ادب میں نئی طرح ڈالی۔ لیکن اس زمانہ میں اردو سے کہیں زیادہ بنگالی ڈرامہ کو فروغ حاصل ہوا۔ اس زمانہ میں اگرچہ دربار لکھنؤ کی سرپرستی کے باعث وہاں علم و فن کا چراغ روشن تھا۔ تاہم دہلی میں ابوظفر بہادرشاہ نے شعر و شاعری کی محفل کو گرمائے رکھا۔ وہ خود ایک بلند پایہ شاعر تھا۔ شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ شاہ کا استاد تھا۔ غالبؔ ان دونوں کا ہم عصر تھا۔ لیکن فکر و فن میں اس نے اپنے لیے نئی راہیں نکالیں۔ غالب نے نظم و نثر سے اردو ادب کو متاثر کیا۔ ذوقؔ، غالبؔ اور ظفرؔ کے متعدد نمایاں ہم عصر شاعروں میں مومنؔ بھی تھا۔ مومن ابھی تک اپنے مستحق مرتبہ سے محروم ہے۔ دہلی کا یہ حسین اور نفاست پسند شاعر درباروں سے دور رہا۔ شاید اسی سبب سے اس کے ہاں قصیدوں کی کمی ہے۔ وہ سادگی پر پیچیدگی کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ مشکل پسند ہے۔ اس کا کلام فارسیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مرزا بیدلؔ کے اثر سے مومنؔ اور غالبؔ کے کلام میں مماثلت پائی جاتی ہے،
ڈرتا ہوں آسماں سے بجلی نہ گرپڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا جو دل نہ ہوتا تو غم نہ ہوتا
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خوابِ عدم میں، شب ہجراں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
پھر بہار آئی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خارمغیلاں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مومنؔ کو کسی حالیؔ کی ضرورت ہے!
اٹھارہویں صدی کے آغاز میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہندوستان کی مرکزیت قائم نہ رہ سکی۔ مختلف حکومتیں قائم ہوگئیں۔ لیکن ان سب حکومتوں کی دفتری زبان فارسی ہی رہی۔ دفتری زبان کے ساتھ ساتھ اس زمانہ میں اردو کی طرح ہندوستان کی دوسری صوبجاتی زبانوں نے علمی ضروریات کے لیے قدم اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی کے مٹ جانے کے بعد سارے ہندوستان کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایک صوبجاتی زبان فارسی کی جگہ نہ لے سکی۔ اردو، فارسی کے نقش قدم پر چل رہی تھی۔ لیکن فارسی کے اخراج کے وقت اردو میں ہندوستان کی مشترکہ تعلیمی زبان بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تاہم وہ سارے ہندوستان میں عام بات چیت کی زبان بن گئی۔
ایک ایسے وقت جب کہ خود اردو کی بنیادوں کو مضبوط کیا جارہا تھا۔ مختلف صوبجاتی زبانوں کے احیاء کی تحریک اردو کی فوری ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ٹائپ کی عدم مقبولیت دوسری رکاوٹ تھی۔ جس زمانہ میں اردو کے محرر انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں جانتے تھے۔ تب بنگالی کے ادیب و شاعر انگریزی ادب سے متاثر ہوکر بنگالی کے دامن کو وسیع کر رہے تھے۔ جب اردو زلف و خال کو دانہ و دام بناکر پیش کر رہی تھی۔ تب بنگالی مسائل حیات کے حل میں مصروف تھی۔ بنگال نے اردو سے پہلے ادبی اور تعلیمی حیثیت اختیار کرلی۔ صوبجاتی زبانوں کی وجہ سے عربی، فارسی اور سنسکرت کی اعلیٰ تعلیم ایک جماعت کے لیے مخصوص ہوگئی۔ ہندوستان کی صوبجاتی زبانوں کی یہ تحریک یورپ کی تحریک احیاء سے ملتی جلتی ہے۔ احیاء سے پہلے یورپ کی علمی زبان لاطینی تھی۔ لیکن اس تحریک کے بعد فرانسیسی، انگریزی، جرمن، اطالوی اور دوسری زبانیں علمی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ہندوستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے صوبجاتی زبانوں کو ابھی تک پوری پوری علمی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی۔ برطانوی ہندوستان کے تمام صوبوں میں اعلیٰ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔
متعدد نامور انگریز عالموں کی بدولت عربی، فارسی اور سنسکرت کی بلند مرتبہ کتابوں کے انگریزی میں ترجمے ہوئے۔ ایک انگریز ہی کی بدولت اٹھارہویں صدی کے اختتام پر ناگری اور فارسی ٹائپ ایجاد ہوا۔ اردو والوں نے ٹائپ کو ناپسند کیا۔ اردو پیچھے رہ گئی۔ بنگالیوں نے ٹائپ کو سراہا۔ بنگالی آگے نکل گئی۔ سیرام پور کے عیسائی مشنریوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لیے بنگالی زبان کو اختیار کیا۔ انہوں نے ٹائپ میں بنگالی کتابیں چھاپناشروع کردیں۔ بائیبل کے بنگالی ترجمہ کے علاوہ انہوں نے انگریزی زبان کی کئی ایک مفید کتابوں کو بنگالی میں منتقل کرکے شائع کیا۔ بنگالی نثر کی ترقی میں پروفیسر کیری کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جو شومارشمین نے سیرام پور میں کاغذ کا کارخانہ قائم کیا۔ ولیم وارڈ سیرام پور کے پریس کا نگران تھا۔ ان تینوں کی سرگرمیوں سے بنگالی زبان کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ ۱۸۳۹ء میں بنگالی زبان سرکاری طور پر بنگال کی زبان تسلیم کرلی گئی۔
ولکنز نے فارسی اور اردو کا جو ٹائپ تیار کیا تھا وہ ہندوستان میں اٹھارہویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں استعمال ہونے لگا۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں اردو اور فارسی کی جو کتابیں شائع ہوئیں وہ اسی ٹائپ میں تھیں۔ ۱۸۳۷ کے بعد اردو اور فارسی کے لیے لیتھوگرافی استعمال ہونے لگی۔ ہندوستان کی بہت سی صوبائی زبانوں نے ٹائپ ہی کو اختیار کیے رکھا۔
ہندوستان میں انگریزی اخبار نویسی کی ابتدا کلکتہ میں ہوئی۔ ۱۷۸۰ء میں جیمز آگسٹس ہکی نے کلکتہ سے انگریزی زبان میں ’’بکنیر بنگال گزٹ‘‘ جاری کیا۔ دو سال بعد اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس کے پریس کو بھی ضبط کرلیاگیا۔ ۱۷۸۵ء میں ایک سہ ماہی رسالہ ’’دی ایشیاٹک مسلینی‘‘ جاری ہوا۔ قریب قریب اسی زمانہ میں ہفتہ وار اخبار ’’کلتہ گزٹ‘‘ جاری ہوا۔ ۱۸۱۵ میں یہ اخبار ’’گورنمنٹ گزٹ‘‘ بن گیا۔ ’’گورنمنٹ گزٹ‘‘ کی اخباری حیثیت ۱۸۳۲ء میں ختم ہوگئی۔ ۱۷۸۰ میں مدراس سے اور ۱۷۸۹ میں بمبئی سے انگریزی کے اخبار جاری ہوئے۔ ’’سماچار درپن‘‘ بنگالی زبان کا پہلا اخبار تھا۔ اس کا پہلا پرچہ ۲۳مئی ۱۸۱۸ کو شائع ہوا۔ اس اخبار کے چلانے والے سیرام پور کے عیسائی مشنری تھے۔ اسی سال گنگادھر بھٹاچاریہ نے بنگال سماچار، جاری کیا۔ ۱۸۲۱ء میں راجہ رام موہن رائے نے بنگالی زبان میں ہفتہ وار اخبار ’سمبدکمودی‘ نکالا۔ ایک سال بعد راجہ رام موہن رائے نے فارسی زبان میں ’’مراۃ الاخبار‘‘ جاری کیا۔ یہ اخبار اس زمانہ کے آزاد خیال لوگوں میں بہت مقبول ہوا۔ منشی سداسکھ اور منی رام ٹھاکر کے اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ اور ’’شمش الاخبار‘‘ بھی اسی زمانہ میں شائع ہوئے۔ ۱۸۲۳ء میں بمبئی سے گجراتی زبان میں ’’بمبئی سماچار‘‘ جاری ہوا۔ ۱۸۲۳ میں کلکتہ سے گیارہ اخبار انگریزی میں، نوبنگالی میں اور ایک فارسی میں نکلتے تھے۔
۱۸۳۷ میں اردو صحافت کا آغاز ہوا۔ اس سال بنارس سے ’’خیرخواہِ ہند‘‘ اور دہلی سے ’’سیدالاخبار‘‘ جاری ہوئے۔ ایک سال بعد مولوی باقر حسین نے دہلی سے ’اردو اخبار‘ جاری کیا۔ اس اخبار کی نوعیت ادبی تھی۔ ان اخباروں کے علاوہ دہلی سے بعض دوسرے اخبار بھی شائع ہوئے۔ ان میں مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ ابوظفر بہادرشاہ کا ’اردو اخبار‘ بھی تھا۔ ۱۸۵۰ء میں ہرسکھ رائے نے لاہور سے ’’کوہ نور‘‘ جاری ہوا۔ اسی سال گوجرانوالہ سے ’’گلزار پنجاب‘‘ اور سیالکوٹ سے ’’خورشید عالم‘‘ جاری ہوئے۔ اس زمانہ میں طباعت اور صحافت میں لکھنؤ نے ایک نمایاں حیثیت اختیار کرلی تھی۔ ۱۸۵۰ء میں وہاں تیرہ چھاپہ خانہ تھے۔ دہلی کے ’’صادق الاخبار‘‘ (فارسی) کے اقتباسات کو ابوظفر بہادر شاہ کے مقدمہ میں پیش کیا گیا تا۔ علمی اور تاریخی مضمونوں کے لیے بابو گووند رگھوناتھ کا ’آفتاب ہند‘ (بنارس) اس زمانہ میں بہت مقبول تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہندوستان میں انگریزی، بنگالی، اردو، گجراتی اور فارسی اخباروں کی تعداد بہت کافی تھی۔
۱۸۵۷ء میں اخباروں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ نئے پریس ایکٹ کی رو سے حکومت اپنے پورے اختیارات استعمال کرنے لگی۔ ان پابندیوں کا ہندوستانی اخباروں پربہت برا اثر پڑا۔ لیکن بیس سال کے بعد ہندوستانی صحافت ازسرنو ترقی کرچکی تھی۔ ۱۸۷۸ میں پریس پر پابندیاں لگاتے وقت ہندوستان کی صحافت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انگریزی اور دیسی زبانوں کے اخباروں میں امتیاز کیاگیا۔ سولہویں صدی کے وسط میں پرتگیزوں نے گوا میں دوپریس لگوائے تھے۔ ایک پرتگیزی نے تامل اور ملیالم رسم الخط کے ٹائپ تیار کرلیے۔ چنانچہ ۱۵۵۷ء میں ان میں ایک زبان کی پہلی کتاب ٹائپ میں چھاپی گئی۔ جس زمانہ میں شمالی ہندوستان والے پریس کے تصور سے ناآشنا تھے۔ تب جنوبی ہندوستان کے کئی شہروں میں پرتگیزوں کے ذریعہ دیسی زبانوں کے پریس قائم ہوچکے تھے۔ یہ بات معلوم کرنا باقی ہے کہ اس زمانہ میں پرتگیزی یا کسی دوسری زبان میں کوئی اخبار بھی نکلتا تھا یا نہیں۔ جیمز آگسٹس ہکی نے ہندوستان میں انگریزی زبان کا پہلا اخبار ۱۷۸۰ء میں کلکتہ سے جاری کیا۔ ہندوستان میں چونکہ صحافت کا آغاز حکومت کی مدح یا قصیدہ خوانی سے نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمران جماعت کو شروع ہی سے اخباروں نے متعلق بدگمانی ہوگئی۔ اٹھارہویں صدی میں ہندوستان کے تمام اخبار انگریزی زبان میں شائع ہوتے تھے۔ ان اخباروں کے انگریز ایڈیٹر ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسی پر سخت نکتہ چینی کرتے۔ اس نکتہ چینی کے پیش نظر ۱۷۹۴ء میں سرجان شور کے نزدیک ’’کلکتہ کے اخباروں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کا جاری رہنا بہت خطرناک ہوگا۔‘‘ پانچ سال بعد اخباری نکتہ چینی نے ولزلی سے یہ کہلوایا کہ ’’میں بہت جلد ایڈیٹروں کی پوری جماعت کے لیے ایک قانون مرتب کرنے والا ہوں۔‘‘ ولزی نے مرتب کردہ پریس ایکٹ کی رو سے جب تک کوئی مقرر کردہ افسر اخبار کا معائنہ نہیں کرلیا تھا۔ اس وقت تک اخبار شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو انگلستان بھیج دیا جاتا تھا۔ اس قانون کے ساتھ ہی کلکتہ میں سنسر کامحکمہ بھی قائم ہوگیا۔ اس احتساب نے کمپنی کے مالی معاملات سے متعلق خبروں کی اشاعت ممنوع کردی۔ جہازوں کی آمدورفت کمپنی کی سیاسی سرگرمیوں اور افسروں کے انتظامی امور سے متعلق خبریں شائع کرنا خلافِ قانون قرار دیاگیا۔ ۱۸۰۱ء میں کلکتہ سے ’’گورنمنٹ گزٹ‘‘ جاری کیا گیا۔ اس گزٹ کے اجراء کا مقصد ان اخباروں کے اثر کو کم کرنا تھا جو پریس ایکٹ اور سنسر کی عائد کردہ پابندیوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ۱۸۱۱ء میں اخباروں پر مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔ لارڈ ہیسٹنگز کے عہدِ حکومت میں اخباروں کو نسبتاً آزادی حاصل تھی۔ اس کے حکم سے سنسرشپ کا محکمہ توڑ دیا گیا۔ ۱۸۲۳ء میں جو قانون نافذ کیا گیااس کی رو سے حکومت سے لائسنس حاصل کیے بغیر کوئی شخص اخبار، اشتہار یا کتاب نہیں چھاپ سکتا تھا۔ چھاپہ خانہ کے لیے بھی لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوگیا۔ اس نئے قانون کے خلاف راجہ رام موہن رائے نے کلکتہ کی عدالت عالیہ میں اپیل کی۔ چونکہ فیصلہ ان کے خلاف ہوا تھا، اس لیے انہوں نے پروٹسٹ کے طور پر ’’مراۃالاخبار‘‘ بند کردیا۔ اس سلسلہ میں راجہ رام موہن نے ملک معظم سے بھی اپیل کی تھی۔ ۱۸۲۵ء کے آخری دنوں میں ایک نئے قانون کے ذریعے سرکاری ملازموں کا اخباروں کی ادارت یا ملکیت سے بے تعلق رہناضروری تھا۔ ۱۸۳۵ء میں میکالے کے مرتب کردہ مسودہ نے قانونی صورت اختیار کرلی۔ اس قانون کی بنیاد یہ تھی کہ ہندوستان کے تمام طبقوں کو اظہار خیال کی آزادی ہونا چاہیے۔ اس قانون کے لیے سرچارلس مٹکاف کو گورنر جنرل کے عہدہ سے سبکدوش ہونا پڑا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائرکٹر کے الفاظ میں ’’پریس کی آزادی اس کا ناقابل معافی جرم ہے‘‘ سرچارلس مٹکاف کے قانون کا نتیجہ اخباروں کی تعداد کے اضافہ میں ظاہر ہوا۔ سرچالس مٹکاف کا جانشین لارڈ آک لینڈ بھی اسی قانون کا حامی تھا۔ اس قانون کی رو سے سرکاری ملازموں کو اخباروں کی ادارت یا ملکیت میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی۔ یہ قانون ۱۸۵۷ء تک جاری رہا۔ اس سال اخباروں پر بہت سی پابندیاں لگائی گئیں۔
دیسی زبانوں کی احیاء کی تاریخ میں پنجاب کی پوزیشن جداگانہ تھی۔ پنجاب جہاں مختلف قوموں اور نسلوں کا مقام اتصال ہے۔ وہاں پنجابی زبان مختلف زبانوں کا ایک آمیزہ ہے۔ ہندوستان کے کسی دوسرے صوبہ میں سنسکرت، فارسی اور ترکی کے الفاظ اس کثرت سے نہیں بولے جاتے جتنے پنجاب میں، افغانوں اور مغلوں کے دور میں سلطنت کے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کی سرکاری زبان بھی فارسی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے آخری سالوں میں پنجاب کے مدرسوں میں فارسی اور عربی کتابوں کے علاوہ دینیات اور اخلاق کی تعلیم کے لیے پنجابی زبان کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی تھیں۔ انیسویں صدی میں دوسری صوبائی زبانوں نے نثر میں نمایاں ترقی کی۔ لیکن پنجابی زبان اس ترقی سے محروم رہی۔ تقریباً ایک سو سال تک پنجاب داخلی بے چینیوں اور خارجی حملوں سے تباہ ہوتا رہا۔ اندرونی بے چینی اور بیرونی حملوں نے پنجابیوں کی زندگی کو پریشان کردیا تھا۔
پریشانی کے اس عالم میں کسی نئی زبان کی ترقی کے امکانات کہاں تھے۔ دفتری کام کاج تھوڑا یا بہت جو کچھ بھی تھا، اس دور میں فارسی ہی میں ہوتا رہا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کو جو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا، یکجا کیا۔ زرعی اور تجارتی ترقی کے آثار نمودا رہوئے۔ کپورسنگھ نے مصوری کے نمایاں اور نادر نمونے پیش کیے۔ مہارجہ کے عہد میں دفتری اور خارجی تعلقات کی زبان فارسی ہی رہی۔ اس زمانہ میں ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں صوبائی زبانیں ترقی کر رہی تھیں۔ دہلی نے فارسی ترک کردی تھی۔ لیکن لاہورؔ فارسی سے وابستہ تھا۔ جب انگریزوں نے پنجاب کو فتح کیا تو وہ انگریزی کے ساتھ اردو بھی لائے۔ پنجاب کی دفتری زبان اردو بن گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز سے پنجاب میں اردو کو فروغ ہونا شروع ہوا۔
وارن ہیسٹنگز کے زمانہ میں فارسی ادب دہلی کے سرپرستی سے محروم ہوچکا تھا۔ لیکن اس پر بھی فارسی علوم و فنون اس حدتک باقی تھے کہ وارن ہیسٹنگز نے خواہش کی کہ آکسفورڈ میں فارسی زبان کی تعلیم یونیورسٹی کے نصاب کا ایک جزو قرار دی جائے۔ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی نے نہ صرف سنسکرت عربی، اور فارسی کی پرانی کتابوں کاترجمہ کیا بلکہ اس زمانہ کے کئی ایک مصنفوں کی تازہ کتابوں کا ان کی علمی حیثیت کے پیش نظر انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس زمانہ میں کئی ایک جدید علمی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ تفضل حسین خان جو ۱۷۸۸ سے ۱۷۹۲ تک کلکتہ میں آصف الدولہ کا وکیل رہا۔ یورپ کی بہت سی زبانوں میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے نیوٹن کی بعض کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔
تعلیمی حیثیت سے اٹھارہویں صدی ہندوستان کی تاریک صدی ہے۔ سیاسی بے چینی اور خوف و ہراس کی آندھیں میں مدرسوں کا چراغ کیونکر روشن ہوسکتا تھا؟ بڑی بڑی درس گاہیں شاہی سرپرستی سے محروم ہوکر معدوم ہو رہی تھیں۔ وارن ہیسٹنگز نے ۱۷۸۰ء میں ’’کلکتہ مدرسہ‘‘ قائم کیا۔ ۱۷۹۱ء میں بنارس میں سنسکرت کالج قائم ہوا۔ اس کالج کا مقصد عدالتوں کے لیے پنڈت فراہم کرنا تھا۔ ایک مدت بعد اس کالج کو بنارس کالج میں مدغم کردیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کی تعلیم کے لیے لارڈ ویلزلی نے ۱۸۰۰ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ مدراس اور بمبئی میں بھی اسی قسم کے کالج قائم ہوئے۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں بنگال میں انگریزی زبان نے تیزی سے ترقی کی۔ صوبائی ضرورتوں نے اس دور میں بنگالی زبان کو تقی کرنے کا موقع دیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں چزہ میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا۔ جس میں بنگالی کے ذریعہ تعلیم دی جاتی تھی۔ بنگال میں انگریزی زبان اس قدر مقبول ہو رہی تھی کہ ۱۸۱۷ء میں ہندوکالج کے نام سے ایک غیرسرکاری درس گاہ قائم ہوگئی۔ انگریزی کے علاوہ کلکتہ کے ہندوکالج میں بنگالی اور فارسی پڑھائی جاتی تھی۔ اس کالج کی بدولت بنگالیوں میں سائنٹیفک خیالات نے جگہ پائی۔ قدامت پسند طبقہ بنگال کے ان نوجوانوں کے نئے خیالات سے بہت پریشان ہوا۔ ۱۸۲۴ء میں تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان ’’انگریزی میں نہ صرف روانی بلکہ سلیقہ سے بات چیت کرسکتے تھے۔‘‘ ۱۸۲۸ء میں دہلی کالج اور آگرہ کالج قائم ہوئے۔ ان کالجوں میں بھی انگریزی پڑھنے والوں کی تعداد کافی تھی۔ چونکہ انگریزی خوان کو ملازمت حاصل کرنے میں آسانیاں تھیں۔ اس لیے نوجوان انگریزی تعلیم پر ٹوٹ پڑے۔ انگریزی زبان کی تعلیم کے لیے ہندوستان کے صوبوں میں غیرسرکاری اسکول قائم ہو رہے تھے۔ انگریزی کی مقبولیت دراصل اسے سرکاری زبان بنائے جانے کا مطالبہ تھا۔ لہٰذا سرکاری مدرسوں میں نہ صرف انگریزی پڑھائی جانے لگی بلکہ انگریزی کو مروجہ علوم و فنون کا ذریعہ تعلیم بنادیا گیا۔ اس سے ہندوستان کی دیسی زبان کی ترقی رک گئی۔ چند سال بعد دیسی زبانوں میں دیہاتی تعلیم کا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا۔ لیکن آخر کار وہاں بھی انگریزی جاپہنچی۔ انگریزی کی اس عمومیت کا آگے چل کر دیسی کے ادب پر خوشگوار اثر پڑا۔ دیسی زبان کا ادب تازہ ترین افکار سے مالامال ہونے لگا۔ ۱۸۴۵ء کے بعد ہندوستان میں نئی تعلیمی تجویز پر عمل کیا گیا۔ اس تجویز کی رو سے غیرسرکاری مدرسوں کو مالی مدد ملنا شروع ہوگئی۔ نیز اعلیٰ درجوں کے لیے انگریزی اور ادنےٰ درجوں کے لیے دیسی زبانوں کو ذریعہ تعلیم تجویز کیا گیا۔ اسی تجویز کی رو سے ۱۸۵۷ء میں کلکتہ، بمبئی اور مدراس میں یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔
پلاسی کی جنگ اور ریگولیٹنگ ایکٹ کے نفاذ کی درمیانی مدت میں بنگال ایک ایسی منظم بدنظمی کا شکار رہا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یوں تو ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور حکومت ہندوستان کی اقتصادی تباہی کی ایک طویل داستان ہے۔ لیکن یہ دور فلاکت، افلاس اور تباہی کے افسوس ناک مناظر پیش کرتا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا سب سے زرخیز صوبہ ویران ہوگیا۔ بنگال کی ساری تجارت برآمد پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ تھا۔ کمپنی کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ ہندوستانی مال کو انگلستان میں فروخت کرسکتی تھی۔ دوسری طرف اسے 1717ء میں فرخ سیر کے ایک فرمان کی وجہ سے یہ حق حاصل ہوچکا تھا کہ وہ اپنا مال تجارت چنگی ادا کیے بغیر ہندوستانی بازاروں میں فروخت کرسکتی تھی۔ اس دوگونہ مصیبت نے بنگال کی تجارت اور صنعت کو تباہ کردیا۔ تجارت اور صنعت کی یہی حالت ان تمام ہندوستانی صوبوں کی ہوتی رہی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر آتے گئے۔ کمپنی کی حکومت میں ہندوستان کی زرعی، صنعتی اور تجارتی حالت ہر روز خراب ہوتی گئی۔ انگلستان کے صنعتی اور میکانکی انقلابوں نے ہندوستان کی صنعت و حرفت کو ایک طویل مدت کے لیے بیکار کردیا۔ ہندوستان کی تجارت برآمد پر اتنے زیادہ محاصل لگادیے کہ صناع اور دستکار بیکار ہوکر زرعی مزدوروں کی صف میں شامل ہوتے گئے۔
لارڈ ڈلہوزی کی اصلاحات نے ہندوستان کی تجارت اور لوگوں کی خوشحالی کے لیے نمایاں کام کیا۔ کمپنی کے عہدِحکومت میں ساہوکاروں اور گماشتوں کا دولت مند طبقہ پیدا ہوگیا۔ اس زمانہ میں نوجوانوں کا عام میلان سرکاری نوکری ہوتا گیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی کے الفاظ میں ’’اس دور کی معاشرتی زندگی کے تبصرے میں چار امور کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ اول یہ کہ دیہاتی آبادی کی کثیر تعداد بدستور پرانے طریق پر زندگی بسر کر رہی تھی۔ اگرچہ حکومت اور اقتصادی حالات کے تغیر و تبدل کی وجہ سے نئی باتیں اور نئے امور نامعلوم طور پر ان کی زندگی میں داخل ہوگئے تھے۔ دوسرے یہ کہ شہروں، قصبوں اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی معاشرتی زندگی میں نمایاں تغیر و تبدل اور انقلاب واقع ہوگیا تھا۔ اور انگریزی فیشن پھیل رہا تھا۔ تیسرے نئے اقتصادی اسباب اور ذرائع آمد و رفت کی وجہ سے رفتہ رفتہ نئی عادات اور ضروریات پیدا ہورہی تھیں۔ جو قدامت پرست طبقے کو مذہبی اور اخلاقی نظام کے لیے خطرناک نظر آتی تھیں۔ چوتھے معاشرتی اور سیاسی اصلاح کی کھلی ہوئی تحریک کی وجہ سے وہ حیرت انگیز اور غیرمحسوس کشش جو ایک نامعلوم منزل کی طرف لے جارہی تھی اور بھی مہیب اور خطرناک نظر آنے لگی۔‘‘ (۲)
لارڈ ولیم بیٹنگ نے اس امر کی کوشش کی کہ ہندوستان کے نظم و نسق میں برطانوی آزادی کے جذبہ کو داخل کیا جاسکے۔ ہندوستان پر بڑے بڑے عہدوں کے دروازے کھول دیے گئے۔ تھامس سزو نے یہ اعلان کیا کہ برٹش گورنمنٹ نے ہندوستان پر ٹرسٹ کے طور پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اس گورنمنٹ کا مقصد ہندوستانیوں کو حکومت خود اختیاری کے لیے تربیت دینا ہے۔ اسی عہد میں راجہ رام موہن رائے (۱۷۷۴۔ ۱۸۳۳) نے اپنی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ تحریک بعد میں برہمو سماج کے نام سے وابستہ ہوگئی۔ ستی کے رو سے ہندو عورت کو اپنے متوفی خاوند کے ساتھ ہی جلنا پڑتا تھا۔ راجہ رام موہن رائے کے زمانہ میں بیوہ عورتوں کو زندہ جل مرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ راجہ رام موہن رائے اس رسم کا مخالف تھا۔ لارڈ اور راجہ کے باہمی تعاون سے ۱۴دسمبر ۱۸۲۰ء کو ستی کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ بنگال میں اس قانون کے خلاف اپیل کی گئی۔ یکن پریوی کونسل نے گورنر جنرل کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔
راجہ رام موہن رائے سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور یونانی بھی جانتا تھا۔ اس نے بنگال میں انگریزی تعلیم کی حمایت کی۔ ستی کو خلافِ قانون قرار دیے جانے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ رائے کی موت ے بعد برہمو سماج کی لیڈرشپ مہارشی دیویندر ناتھ ٹیگور (۱۸۱۷۔ ۱۹۰۵) کے ہاتھ میں آئی۔ انگریزی تعیم کی وجہ سے انیسویں صدی کے وسط میں بنگال میں بہت علمی اور اصلاحی سوسائٹیاں قائم ہوگئیں۔
انیسویں صدی میں ہندوستان کامسلمان تعلیمی، تجارتی اور تمدنی لحاظ سے بہت گرچکا تھا۔ وہ انگریزی پڑھنے کی طرف مائل نہیں تھا۔ اس لیے وہ ہندوؤں کے اس نئے درمیانی طبقہ میں شامل نہ ہوسکا جسے انگریزی تعلیم اور سرکاری ملازمت پیدا کر رہی تھی۔ عربی اور فارسی کی درس گاہیں سرپرستوں کے مٹ جانے سے ویران ہو رہی تھیں۔ ان میں جدید اور اعلیٰ تدریس کے لیے رویپہ کہاں سے آتا؟ انگریزی سے مسلمانوں کونفرت تھی۔ عربی اور فارسی کی تعلیم کے لیے اسے کوئی موزوں درس گاہ نہیں ملتی تھی۔ کم و بیش پچاس سال کی تگ و دو کے بعد وہ انگریزی تعلیم کی طرف راغب ہوسکا۔ انیسویں صدی کے پہلے ثلث میں سید احمد بریلوی نے مسلمانوں کے لیے جدوجہد کی۔ ۱۸۲۴ء میں مولانا شاہ عبدالعزیز نے ’’فتح العزیز‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ مولانا عبدالقادر دہلوی نے قرآن مجید کا پہلی مرتبہ اردو میں ترجمہ کیا۔ مشرقی بنگال میں مولوی کرامت علی جونپوری نے مسلمانوں میں اصلاح کا کام کیا۔
اسٹیم سے چلنے والی کشتیوں کی ایجاد کے تقریباً دس سال بعد ہندوستان اور انگلستان کے درمیان دخانی جہازوں کی سروس شروع کی گئی۔ اس سروس کے مالک چونکہ انگریز تھے۔ اس لیے سارا منافع انگلستان چلا جاتا تھا۔ لارڈ ڈلہوزی کے عہدِ حکومت میں تھانہ اور بمبئی کے درمیان پہلی مرتبہ ریل گاڑی چلائی گئی۔ لارڈ ڈلہوزی نے ہندوستان کے طول و عرض میں ریلوے لائنوں کے جال بچھائے جانے کی جواسکیم مرتب کی تھی، اس میں فوجوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے اور برطانیہ کے لیے تجارتی آسانیاں بیان کی گئی ہیں۔ لارڈ ڈلہوزی ہی کے عہد میں ہندوستان میں تین ہزار میل سے زائد ٹیلی گراف کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ ۱۸۵۴ء میں ہندوستان میں پہلی مرتبہ ڈاک کے ٹکٹ استعمال ہوئے۔ اسی سال ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں گیس کے لیمپ استعمال ہونے شروع ہوئے۔
۱۸۵۷ء تک ہندوستان میں انگریزی تعلیم کافی حدتک پھیل چکی تھی۔ انگریزی تعلیم کے سبب ہندوستان کے مختلف صوبوں کے نوجوان فلسفہ، سائنس اور دوسرے علوم کے جدید تصورات سے آشنا ہوئے۔ اس آشنائی نے صوبائی زبان کو ترقی دی۔ اسی انگریزی خواں طبقہ نے آگے چل کر ہندوستان کے سارے صوبوں میں درمیانہ طبقہ کی صورت اختیار کی۔ ا نگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب کی مقبولیت بھی بڑھتی گئی۔
حاشیے
(۱) انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ۔ علامہ عبداللہ یوسف علی۔
(۲) انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ، ص۲۱۱
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.