Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

داستان کی ٹکنیک

کلیم الدین احمد

داستان کی ٹکنیک

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

    ’’لکھنؤ سے بڑھ کر داستان گوئی کا چرچا اور کہیں کم ہوگا۔ بیس پچیس یاران صادق اور دوستان موافق شب کے وقت کہ پردہ دار عاشقاں ہے، ایک مقام پر جمع ہوئے۔ کوئی گنا چھیل رہا ہے، کوئی پونڈے پر چاقو تیز کر رہا ہے۔ جابجا پیالیوں میں افیون گھل رہی ہے۔ حقیقت تو یوں ہے کہ افیون کا گھولنا اور گنے کا چھیلنا بھی لکھنؤ والوں ہی کا حصہ ہے۔ کہیں چائے تیار ہو رہی ہے اور داستان گو صاحب بہ لحن داؤدی فرما رہے ہیں، لیکن خونخوار ظلماتی کی دختر بلند اختر ملکۂ طاؤسؔ پری چہرہ، نہایت حسین، سحر میں بھی زبردست، نشۂ شراب حسن سے مست اپنے قصر میں جلوہ فرما تھی کہ اس کو خبر گزری کہ قید طلسم کشاکی پردۂ ظلمات میں آتی ہے۔

    یہ اپنے قصر پر آکر بیٹھی تھی۔ اسدؔ کو ارا بے پرسوار کرکے ملازمان آتش بار قلعۂ ظلمات میں لائے۔ چوک میں آکر اسدؔ نے لنگر مارا۔ ارا بہ رکا۔ طاؤس پری چہرہ کی نگاہ آفتاب جمال اسدؔ نامدار پر پڑی۔ عاشق ہوئی۔ راتیں تڑپ کے کاٹیں۔ یکایک یہ خبر سنی پس فردا طلسم کشا کو بیرون قلعۂ ظلمات قتل کریں گے۔ عرض کیا تھا کہ ایک قصر پر آکر بیٹھی تھی۔ وہ وقت آیا کہ اسدؔ کو زیر دار بٹھایا۔ طاؤسؔ حیران تھی کہ میں اس شیر کو کیوں کر بچاؤں۔ ایک ایک فقرے پرسبحان اللہ اور واہ واہ کی تعریف ہوتی جاتی ہے اور داستان گو صاحب کا دماغ عرش بریں سے گزر کر لامکاں کی خبر لاتا ہے۔‘‘

    ایسی فضا میں جس ادب کی تخلیق اورنشو ونما ہوگی، اس میں باریکی، گہرائی اور پیچیدگی کا وجود ممکن نہیں۔ ان خوبیوں کو سمجھنے اور ان سے محظوظ ہونے کے لئے غوروفکر اور دقت نظر کی ضرورت ہے لیکن ایسی جگہ جہاں ’’کوئی گنا چھیل رہا ہے، کوئی پونڈے پر چاقو تیز کر رہا ہے، جا بجا پیالیوں میں افون گھل رہی ہے۔۔۔ کہیں چائے تیار ہو رہی ہے۔‘‘ ایسی جگہ غوروفکر اور دقت نظر کا گزر نہیں ہو سکتا۔ داستان گو اس حقیقت سے شعوری یا غیرشعوری طور پر واقف ہوتا ہے، اس لئے وہ اپنی داستان میں ایسی چیزوں سے عموماً پرہیز کرتا ہے جو غوروفکر کے بعد سمجھ میں آئیں۔ وہ ساری خوبیوں کو اس صفائی سے سطح پر پیش کرتا ہے کہ انہیں یک نظر غلط انداز بھی دیکھ سکتی ہے۔ وہ عروس سخن کو بے نقاب کرتا ہے، وہ اپنی ساری پونجی سربازار لے آتا ہے۔ سامعین بھی بچوں کی طرح سطحی، جزئی، پیش نظر حسن کے خواہاں ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسی قسم کے حسن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی آگے پیچھے نہیں دیکھتے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ جو حصہ وقتی طور پر پیش نظر ہو وہ دلچسپ ہو اور اس کی جزئیات حسین اور آسان فہم ہوں، مثلاً پہلے جملے کو لیجئے، ’’لیکن خونخوار ظلماتی کی دختر بلند اختر ملکۂ طاؤس پری چہرہ نہایت حسین، سحر میں بھی زبردست نشۂ شراب حسن سے مست اپنے قصر میں جلوہ فرما تھی۔‘‘

    ’دختر بلند اختر‘پہلا ٹکڑا ہے جس پر سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدا بلند ہوئی ہوگی، حالانکہ یہ فقرہ ایسا ہے جو ہر شخص کو سوجھ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی غیرمعمولی ذہانت اور بصیرت کی ضرورت نہیں۔ پھر ملکہ طاؤس پری چہرہ کے متعلق تین تعریفی فقرے ہیں، ’’نہایت حسین، سحر میں بھی زبردست، نشۂ شراب سے مست۔‘‘ پہلا فقرہ ’’نہایت حسین‘‘ نہایت معمولی ہے اور ’’بلند اختر‘‘ کی طرح یہ بھی عام جاگیر ہے۔ یہ ہر شخص کے ذہن میں فوراً آئےگا اور اس میں جدّت، باریکی، انفرادیت کا نام ونشان نہیں۔ بہرکیف اسی بات کی تکرار تیسرے فقرے میں ملتی ہے جس میں ’مست‘ زبردست کی رعایت سے لایا گیا ہے، اور بقیہ الفاظ مست کی رعایت سے۔ بظاہر اس میں ’’نہایت حسین‘‘ سے زیادہ ادبیت اور انفرادیت ہے لیکن یہ بھی بلند اختر ہی قسم کا ہے۔ ’’سحر میں بھی زبردست‘‘ محض ایک واقعہ کا اظہار ہے اور بس۔ الفاظ کی نشست صاف اور بندش چست ہے لیکن اس قسم کی عبارت ہر پڑھا لکھا جسے لکھنے کا کچھ بھی ملکہ ہے لکھ لے سکتا ہے۔ حسن اگر کچھ ہے تو محض سطحی۔ ایک مرتبہ سن کر یا پڑھ کر دوبارہ سننے یا پڑھنے کی خواہش نہیں ہوتی اور اگر اسے دوبارہ سنایا پڑھا جائے تو اس کے حسن میں اضافہ نہیں ہوتا اور کوئی نئی خوبی نہیں ملتی۔ سامعین اس سطحی حسن سے محظوظ ہوتے ہیں، جیسے گنا اور چائے ان کے کام ودہن کو عارضی لذت بخشتے ہیں، اسی قسم کی لذت داستان سے ان کے دماغ کو حاصل ہوتی ہے۔

    واقعات کی ترتیب وترقی، ان کے انتخاب وتناسب میں بھی یہی فوری حسن، یہی معیار پیش نظر ہوتا ہے۔ نفس واقعہ سے مطلب نہیں جس میں اکثر تخلیل کی بےلگامی کی انتہا ہوتی ہے، یہاں واقعات کی تنظیم اور ان کے باہمی تعلق سے بحث ہے۔ ان واقعات میں بھی جزئی حسن ہوتا ہے جو نظر کو فوراً جذب کر لیتا ہے اور سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدا بلندی ہوتی ہے۔ واقعات صاف ہوتے ہیں اور بیان میں اتنی صناعی ضرور ہوتی ہے کہ انھیں آسانی سے چشم تخیل دیکھ لے لیکن ان کے انتخاب اور تنظیم میں باریکی، پیچیدگی، گہرائی، رعنائی نہیں ہوتی۔ وہ یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں۔ ہر سین جاذب نظر ہوتا ہے لیکن دیر تک نہیں ٹھہرتا۔ کسی دوسین میں ربط تو ہوتا ہے لیکن یہ ربط شرح وبسط کے ساتھ بیان میں نہیں آتا۔ ہر سین چلتا پھرتا ہو، دلچسپ ہو، ہماری آنکھوں میں اور ہمارے کانوں کو لذت بخشے، بس یہی اصل مدعا ہے۔ زمان ومکان گویا باقی نہیں رہتے، ان کی وجہ سے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ دو متواتر سین میں سالہا سال کا فرق اور سیکڑوں میل کا بعد ہو سکتا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ زمان ومکان کی خلیج پر پل بندی کی جائے۔

    کچھ اسی طرح کی ’’ٹکنیک‘‘ داستان میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً ’’گلزار نسیم‘‘ کو لیجئے۔ اس کے مختلف حصے کسی تصویر کے مختلف سین سے کسی قدر مشابہ ہیں۔ ان حصوں کی سرخیاں ملاحظہ ہوں، داستان تاجؔ الملوک اور زیدؔ الملوک بادشاہ مشرق کی، جانا چاروں شہزادوں کا بہ تجویز کمال تلاش گل بکاؤلی میں، غلام ہونا چاروں شہزادوں کا چوسر کھیل کر دلبرؔ بیسوا سے، جیتنا تاجؔ الملوک کا دلبر بیسوا کو اور چھوڑکر روانہ ہونا تلاش گل بکاؤلیؔ میں، پہنچنا تاج الملوک کا سرنگ کھدواکر باغ بکاؤلی میں اور گل لے کر پھرنا، آوارہ ہونا بکاؤلی کا تاج الملوک کی تلاش میں، پہنچنا تاج الملوک کا ایک اندھے فقیر کے تکئے پر اور آزمانا گل کا، ملنا چاروں شہزادوں کا اور چھن جاناگل بکاؤلیؔ کا تاج الملوک سے، بینا ہونا چشم زینؔ الملوک کا۔۔۔‘‘ یہاں ہر سین ایسا ہے جسے کسی تصویر میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سین میں زینؔ الملوک اندھا ہوتا ہے۔ سین بدلتا ہے اور اب ایک بڑا لشکر کسی ’’میدان‘‘ میں رواں دواں ہے۔ پھر سین بدلتا ہے اور شہر فردوس سامنے ہے۔ دلبرؔ بیسوا چالاکی کرتی ہے اور پھر خود اپنے دام میں پھنس جاتی ہے۔ اب جو سین بدلتا ہے تو ایسا صحرا نظر آتا ہے جہاں،

    سائے کو پتہ نہ تھا شجر کا

    عنقا تھا نام جانور کا

    مرغان ہوا تھے ہوش راہی

    نقش کف پا تھے ریگ ماہی

    وہ دشت کہ جس میں پر تگ ودو

    یا دیگ رواں تھی یادہ رہرو

    یہاں دیو سے معرکہ پڑتا ہے۔ پھر دیو کی مدد سے تاجؔ الملوک حمالہؔ دیونی کے پاس ارم میں پہنچتا اور دیووں کی مدد سے گل بکاؤلیؔ پاتا ہے۔۔۔ زمان ومکان جلد طے ہوتے ہیں۔ ’’پورب‘‘ سے ’’فردوس‘‘ اور پھر ’’ارم‘‘ پہنچنے میں نہ معلوم کتنے سال صرف ہوتے، کتنی مسافت قطع کرنی ہوتی، کتنی دشواریاں پیش آتیں، لیکن یہ سب مرحلے فلمی مشین کے دستے کی ایک گردش میں آسانی سے چشم زدن میں طے ہو جاتے ہیں۔ یہی صورتِ حال تمام داستانوں میں نظر آتی ہے۔ سامعین ’’سنیما بازوں‘‘ کی طرح خیالی تصویروں کو چلتی پھرتی، بولتی چالتی، تیزی سے گزرتی ہوئی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان جاذب نظر گزرنے والی تصویروں کا سلسلہ جاری رہے اور وہ ان دلچسپ بدلنے والی تصویروں میں ایسے محو ہو جاتے ہیں کہ انھیں دنیا وما فیہا کی بالکل خبر نہیں رہتی۔ انھیں اور کسی چیز کی مانگ نہیں ہوتی، سطحی الفاظ اور یہ دلچسپ چلتی پھرتی تصویریں بس یہی ان کا مدعا ہے اور یہ حاصل ہو جاتا ہے۔

    ’’گلزار نسیم‘‘ یا کسی داستان کاتجزیہ کیا جائے تو داستان کے عناصر ترکیبی کا پتہ ملےگا۔ دوسری قسم کے افسانوں کی طرح داستان میں بھی ایک ہیرو ہوتا ہے جو واقعات کا مرکز ہوتا ہے اور ایک ہیروئن ہوتی ہے یا ایک سے زیادہ۔ مختلف واقعات میں جو ربط ہوتا ہے، وہ ہیرو کی ذات کی وجہ سے۔ یہ ہیرو عموماً کوئی بادشاہ یا شاہزادہ اکثر کسی بادشاہ کا سب سے چھوٹا فرزند ہوتا ہے۔ اس انتخاب کی وجہ سے داستان میں ذرا شان وشوکت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عام خیال یہ تھا اور ایک حد تک صحیح بھی تھا کہ بادشاہ کی زندگی میں رنگینی اور بوقلمونی زیادہ ہوتی ہے اور بادشاہوں کو رزم بزم، غرض ہر قسم کے تجربات کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور ان کی زندگی میں گردش لیل ونہار کے زیادہ با اثر مرقعے ہاتھ آ سکتے ہیں۔ ہاں تو یہ شاہزادہ کمر ہمت کَس کر مختلف مہمیں سر کرتا ہے۔ وہ جری بہادر ہوتا ہے۔ ہمیشہ تائید ایزدی اس کے ساتھ رہتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ آخر کار کامیاب ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی کا صرف یہی ماحصل نہیں ہوتا۔

    وہ ایک عدیم المثال ہستی ہوتا ہے۔ سارے انسانی محاسن اس میں کھینچ آتے۔ حسن میں بھی کوئی اس سے ہمسری نہیں رکھتا۔ اس کا نام بے نظیرؔ ہو یا تاجؔ الملوک یا جانؔ عالم وہ ایک ذات کامل ہے جملہ عیوب سے مبرّا۔ ایسی ہستی جس کی مثال اس نامکمل اور ناقص دنیا میں ممکن نہیں۔ اس ذات کامل کو کوئی سمجھدار شخص زندہ حقیقت تسلیم نہیں کر سکتا اور نہ اس کی کوئی انفرادی ہستی ہوتی ہے۔ وہ تکمیل کا محض ایک نشان ہے اور داستان کی بنیاد واقعیت اور حقیقت کے بدلے مثالیت پر قائم ہوتی ہے۔

    اس کامل ہستی کو جہاں اور مہمیں سرکرنی ہوتی ہیں، وہاں عشق کی دشوار گزار منزل سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ اور وہ اس ’’مہم‘‘ میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ غالباً عشق داستانوں کا ہم ترین عنصر ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں دلچسپی بڑھ جاتی ہے، وہاں داستان گو کو مشکلیں بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کی طرز معاشرت مغرب کی طرز معاشرت سے جداگانہ ہے۔ یہاں مرد عورت آزاد نہیں پابند ہیں، اس لئے عشق اگر اسے ہوس پرستی کے الزام سے بچایا جائے تو عجب ’’ٹیڑھی کھیر‘‘ ہے۔ اس مشکل کے احساس نے ادبی رواج کی بنا ڈالی۔ یہ رواج اس ’’روشن خیال‘‘ زمانہ میں غیرفطری اور مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے لیکن اسی کا فیض ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں داستان میں ملتی ہیں جو اس کی عدم موجودگی میں ممکن نہ ہوتیں۔ عشق اور عشق کے لوازات اسی کی دین ہیں۔ مختلف قسم کے جذبات، محبت، نفرت، رقابت، حسرت، تمنا، یاس، امید، غم وغصہ، ہنسی خوشی یہ سب چیزیں داستان کی رنگینی اور دلکشی میں چار چاند لگاتی ہیں۔

    بہرکیف ہیرو یعنی وہی شہزادہ کسی حسین شہزادی پر عاشق ہوتا ہے لیکن یہ عشق ملاقات، ربط، ذاتی کشش کا نتیجہ نہیں، عموماً یہ عشق نادیدہ ہوتا ہے۔ کسی شہزادی کے حسن کا شہرہ سن کر شہزادہ اس پر عاشق ہو جاتا ہے یا کسی کی تصویر دیکھ کر یہ جذبہ ابھرتا ہے یا کسی غیرمتوقع طور پر سامنا ہوتا ہے اور آنکھیں چار ہوتے ہی تیر عشق دل کے پار ہوتا ہے یعنی محبت ’پہلی نظر‘میں پیدا ہوتی ہے جیسے، ’’طاؤس پری چہرہ کی نگاہ آفتاب جمال اسدؔ نامدار پر پڑی، عاشق ہوئی۔‘‘ یہ طریقہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس قدر خلاف فطرت نہیں جتنا تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں مرد عورت آزادی سے نہیں مل سکتے، جہاں ان کی زندگی کے دائرے عام طور پر الگ الگ رہتے ہیں، وہاں شہرۂ حسن تصویر، اچانک ملاقات، یہ چیزیں بہ آسانی محرکات، زبردست محرکات کا کام کر سکتی ہیں۔

    یہ عشق کی مہم آسانی سے تو سر نہیں ہوتی اور نہ ایسا ہونا چاہئے ورنہ داستان وہیں ختم ہو جائےگی اور داستان بس اسی قدر ہوگی کہ ایک شہزادہ تھا، وہ کسی شہزادی پر عاشق ہوا، دونوں کی شادی ہوئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔ ہر داستان کا ماحصل تو بس اسی قدر ہے لیکن داستان گو اس پر قناعت کیسے کر سکتے تھے۔ اس لئے انھوں نے ایک ترکیب نکالی یعنی حصول مطلب میں روڑے اٹکائے۔ معشوق یا اس کے والدین کوئی ایسی شرط پیش کرتے ہیں جس کو پورا کرنا مشکل ہو، جو ہر کس وناکس کے بس کی بات نہ ہو، جس کے لئے غیرمعمولی جرأت وطاقت یا ذہانت کی ضرورت ہو یا کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ عاشق ومعشوق جدا ہو جاتے ہیں اور عاشق آوارہ و پریشان وسرگرداں پھرتا ہے یا قید سخت میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر مدتوں کے بعد مشکلوں کو حل کرتا یا قید سے نجات پاتا ہے۔

    کبھی عاشق ومعشوق دونوں مبتلائے بلا ہوتے ہیں اور طرح طرح کی مصیبتیں اٹھاکر آخر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اپنی باقی عمر ہنسی خوشی بسر کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو داستان پھر فوراً ختم ہو جاتی اور اس میں کوئی دلکشی ممکن نہ ہوتی، اس لئے یہ رکاوٹیں، دشواریاں، تکلیفیں قصے کو پیچیدہ بناتی ہیں اور اس کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں اور بہت سے ایسے انسانی جذبات کی نمایش کے لئے مواقع پیش آتے ہیں جو دوسری صورت میں ممکن نہ ہوتے۔

    یہ رکاوٹیں اکثر کسی فوق فطرت ہستی کی مداخلت سے پیدا ہوتی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ داستان میں اس قسم کے عنصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔ عموماً اس عنصر کی موجودگی داستان کے کم قیمت ہونے کی کافی دلیل سمجھی جاتی ہے، حالانکہ یہ کچھ داستانوں پر منحصر نہیں، ہر زبان میں اور غالباً ہر صنف ادب میں یہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں ضرور پایا جاتا ہے، اس لئے محض اس وجہ سے داستان کو مورد الزام سمجھنا صحیح نہیں۔ اگر داستانوں میں زندگی انسانی تجربات و خیالات کا وہ نفیس، گہرا اور زبردست انکشاف ہوتا جو مثلاً شیکسپیرؔ کے ڈراموں یا دانتے ؔ کی ڈوائن کو میڈی میں ملتا ہے تو پھر یہ مافوق العادت عناصر مضحک اور مورد الزام نہ سمجھے جاتے۔ بہرکیف داستانوں میں مافوق العادت چیزوں کی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان چیزوں میں پہلے لوگوں کو یقین تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ خدا نے اس دنیا اور اس دنیا کے باشندوں کے علاوہ کوئی دوسری دنیا بھی پیدا کی ہے اور اس دوسری دنیا میں ایسی ہستیاں بستی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں لیکن جو اپنی مرضی کے مطابق ہمارے سامنے ظاہر بھی ہو سکتی ہیں اور ہمارے معاملات میں دخل دراندازی بھی کر سکتی ہیں۔

    اس دنیا کا ایک نام کوہ قاف ہے، جہاں پریاں بستی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ یہ یقین وہ زندہ یقین نہ تھا جو یونانیوں کو اپنے دیوتاؤں اور دیویوں میں تھا لیکن ایک قسم کا یقین، ہلکا سہی، کمزور سہی ضرور تھا۔ اس کے علاوہ یہ دوسری دنیا اور اس کے باشندے سامعین یا قارئین کے مادۂ تجسس کو بھڑکاتے اور ان کے تخیل پر تازیانہ کا کام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ داستان میں رنگینی، پیچیدگی، بوقلمونی، دلچسپی کا بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پھر جب ہم ان جنوں، دیووں، پریوں کو انسان کی طرح بولتے چالتے، ہنستے روتے، محبت ونفرت کرتے، ہمدردی وترحم یا غیض وغضب کے جذبات سے متاثر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے اور ہم اپنے جذبات وخیالات پر زیادہ اعتماد محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ اجنبی ہستیاں انسان سے مختلف نہیں بلکہ انسان ہی جیسی مگر انسان سے زیادہ ترقی یافتہ نظر آتی ہیں یعنی فرق بس اسی قدر ہے جتنا افریقہ کی وحشی قوموں اور مغربی اقوام میں۔ اگر کوئی مغربی قوم اپنی تازہ ترین ایجادوں کے ساتھ کسی ایسی قوم میں جا پہنچے جسے تہذیب اور تہذیب یافتہ قوموں سے اب تک کوئی تعلق نہیں رہا ہے تو غالباً اس وحشی قوم کی نظر میں وہ مغربی قوم جن وپری جیسی معلوم ہوگی۔

    ہاں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص عنصر کی وجہ سے داستانوں کو یک قلم نظرانداز کر دینا دانش مندی سے بعید ہے۔ ہم اس کا خیرمقدم نہ کریں لیکن ہمیں اسے قبول کر لینا چاہئے۔ جن دیو، پری سامنے آئے تو آنے دیجئے اور دیکھئے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ انسان سے مشابہ ہیں۔ کبھی داستان میں رکاوٹیں پیداکرتے ہیں تو کبھی مشکلوں کو آسان کر دیتے ہیں۔ کبھی کوئی جن کسی شہزادی پر عاشق ہوتا ہے تو کبھی کوئی شہزادہ کسی پری پر مائل ہوتا ہے۔ جادو، طلسم، طلسمی اشیاء کی نیرنگی تو ہر جگہ ہے۔ غرض یہ سب چیزیں مستعمل ہیں اور ان سے طرح طرح کا مصرف لیا جاتا ہے۔ کبھی ان کی وجہ سے داستان میں گتھیاں پڑ جاتی ہیں تو پھر انہی کی مدد سے کھل بھی جاتی ہیں۔ جب داستان گو کو مشکل پیش آتی ہے تو وہ فطری ذرایع کے بدلے ان غیرفطری یا غیرمتوقع، خلاف قیاس ذریعوں سے مصرف لیتا ہے اور اسے ان سے مصرف لینے کا حق حاصل ہے۔

    بہرکیف ’’بیس پچیس یاران صادق اور دوستان موافق‘‘ کا جمع ہوکر داستان سننا اور بات ہے اور اس کا بغور ’’فرصت کے وقت مطالعہ کرنا‘‘ اور بات ہے۔ جب ہم غوروفکر کے ساتھ پڑھتے ہیں، جب ہم کسی چیز کی جانب اپنی پوری توجہ مبذول کرتے ہیں تو ہمیں جزئی اور پیش نظر چیزوں سے تشفی نہیں ہوتی۔ ہم کچھ اور چاہتے ہیں اور فنی اور جمالیاتی معیار کو بروئےکار لاتے ہیں۔ داستان گو اس حقیقت سے واقف تھے اور وہ داستان گوئی کو اپنے حدود میں فنی طور سے برتتے تھے یعنی وہ چند اصول پیش نظر رکھتے تھے۔ ان اصول کو کسی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے،

    ’’ظاہر ہے کہ نفس قصص اور افسانہ کے واسطے چند مراتب لازم وواجب ہیں۔۔۔ اول مطلب مطول وخوشنما جس کی تمہید وبندش میں تو ارد مضمون وتکرار بیان ہو۔ مدت دراز تک اختتام کے سامعین مشتاق رہیں۔ دوم بجز مدعائے خوش ترکیب ومطلب دلچسپ کوئی مضمون سامعہ خراش وہزل۔۔۔ درج نہ کیا جائے۔۔۔ سیوم لطافت زبان وفصاحتِ بیان، چہارم عبارت سریع الفہم کہ واسطے فن قصہ کے لازم ہے۔ پنجم تمہید قصہ میں بجنسہ تواریخ گزشتہ کا لطف حاصل ہو نقل و اصل میں ہرگز فرق نہ ہو سکے۔‘‘

    ان جملوں سے ظاہر ہے کہ داستان گوئی ایک دلچسپ مشغلہ ہونے کے ساتھ فنی حیثیت بھی رکھتی تھی اور ہر کس وناکس داستان گو نہیں ہوسکتا تھا۔ داستان میں تخیل کی بے لگامی ایک اہم عیب سمجھا جاتا ہے لیکن اس بے لگامی کے سبب سے کوئی خرابی نہ ہوتی۔ اگر اس کا برابر خیال رکھا جاتا کہ ’’تمہید قصہ میں بجنسہ تواریخ گزشتہ کا لطف حاصل ہو، نقل واصل میں ہرگز فرق نہ ہو سکے۔‘‘ ان لفظوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قصہ گوئی کے اہم ترین اصول سے واقفیت تھی۔ قصہ کو قابل وثوق بنانے کے لئے ایسی طرز، ایسا لب ولہجہ اختیار کرنا چاہئے جس سے یہ معلوم ہو کہ کسی اصلی واقعہ کا بیان ہو رہا ہے اور شروع میں ایسی جزئیات ہوں جن میں واقعیت بدرجۂ اتم موجود ہو، کوئی ایسی بات نہ ہو جو مستبعد یا ناممکن ہو اور جب قابل وثوق فضا پیدا ہو جائے تو پھر قدم آگے بڑھے اور خیالی مرقعوں کو سامنے لایا جائے۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ داستان گو ہمیشہ اس اصول کو پیش نظر رکھتے تھے اور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ سچی فضا پیدا کر سکتے تھے لیکن یہی غنیمت ہے کہ وہ اس اصول سے ناواقف نہ تھے اور اپنے حدود کے اندر وہ اس پر عمل کرنا چاہتے تھے۔ آج بھی اس اصول کی وہی اہمیت ہے جو پہلے تھی۔

    دوسرا اہم نکتہ داستانوں کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے اور اس نکتے سے بھی داستان گو باخبر تھے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ داستان کہانی کی طویل، پیچیدہ، بھاری بھرکم صورت ہے۔ طوالت اور پیچیدگی کی وجہ سے ایک خرابی کا احتمال ہے اور وہ تکرار ہے۔ لفظی اور واقعاتی، کسی چیز کی تکرار سے سامعین یا قارئین کی طبیعت بہت جلد مکدر ہو جاتی ہے اور کچھ ضرور نہیں کہ یہ تکرار کھلی ہوئی ہو۔ کسی لفظ، فقرے یا جملہ کی صریحی بے فائدہ تکرار بے لطفی کا باعث ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی خاص واقعہ کو بار بار دہرانے سے بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ اکثر یہ تکرار کھلی ہوئی نہیں ہوتی یعنی کوئی ایک لفظ، جملہ یا واقعہ بار بار پیش نہیں ہوتا بلکہ تکرار کی کسی حد تک پردہ پوشی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ ایک ہی قسم کی باتوں کو ذرا بدل بدل کر کہا جاتا ہے لیکن اس بہروپ کے باوجود بھی حساس طبیعت اس نقص سے فوراً واقف ہو جاتی ہے۔ بہرکیف تکرار صریحی ہو یا پس پردہ، ایک عیب ہے اور اسے عیب شمار کیا جاتا تھا۔

    اسی لئے کہا ہے کہ، ’’تمہید وبندش میں توارد مضمون وتکرار بیان نہ ہو۔‘‘ اس تکرار سے دلچسپی میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور داستان گوئی کا اصل الاصول یہ کہ دلچسپ ہو اور دلچسپ ہو اور برابر دلچسپ ہو۔ اتنی دلچسپ ہو کہ ’’مدت دراز تک اختتام کے سامعین مشتاق رہیں۔‘‘ اور وہ برابر ’’پھر کیا ہوا۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔‘‘ کی صدا بلند کرتے رہیں۔ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ داستان گو اس مقصد میں ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں، خصوصاً تکرار ایک ایسا عیب ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔ ایک ہی قسم کے مواقع، ایک ہی رنگ کے واقعات برابر پیش آتے ہیں، اس لئے تکرار ناگزیر ہو جاتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ایک لمبی داستان میں اس قسم کی تکرار سے بچنا مشکل ہے اور داستان گو اس کی کوشش ضرور کرتے تھے کہ الفاظ کے رد وبدل سے تکرار کی پردہ پوشی کی جائے۔

    الفاظ سے داستان گو خاص دلچسپی رکھتے تھے، جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ’’وہ لطافت زبان وفصاحت بیان‘‘ اور اسی قسم کے محاسن کو اپنی انشا میں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ الفاظ ذریعۂ اظہار ہیں اور دلچسپ سے دلچسپ واقعہ بھی بے لطف معلوم ہو سکتا ہے، اگر اسے اچھے خوبصورت لفظوں میں نہ بیان کیا جائے، ساتھ ساتھ ان کی نظر سامعین یا قارئین پر بھی تھی اور وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جو آسانی سے سمجھ میں آ جائیں اسی لئے کہتے ہیں کہ عبارت سریع الفہم ہو۔ غالباً کسی دوسری صنف سخن کے لئے یہ خصوصیت اس قدر اہم نہیں جتنی یہ قصہ گوئی کے لئے ہے۔ اگر ہر بات آسانی سے سمجھ میں نہ آ جائے تو پھر قصہ میں دلچسپی کا قائم رکھنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جائے۔ اکثر سریع الفہمی سطحیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور داستان گو اردو شعرا کی طرح الفاظ سے کھیلنے لگتے ہیں۔ ’لطافت زبان وفصاحت بیان‘ لفاظی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

    بہرکیف داستان گوئی ایک فن ہے اور اپنے حدود ونقائص کے باوجود ایک دلچسپ فن ہے اور اس قدر کم قیمت نہیں کہ ہم اسے یک قلم نظرانداز کر سکیں۔ افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ میں اس فن کے جاننے اور برتنے والے نہیں ملتے اور اب یہ فن دنیائے ادب میں زندہ فن کی حیثیت نہیں رکھتا اور کوئی دوسری صنف سخن اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم کولرجؔ کے الفاظ پر عمل کریں تو داستانوں سے کافی لطف حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بے اعتقادی کو بہ رضا ورغبت معرض التوا میں ڈال دیں، اگر ہم تخیل کی اس موہوم پیداوار کا عارضی طور پر اعتبار کر لیں تو ہمارے لئے ایک دلچسپ دنیا کا دروازہ کھل جائےگا اور اس دنیا کی سیر محض تضییع اوقات نہ ہوگی، بلکہ ہمارے تخیل، ہمارے دماغ ہماری روح کو تازگی اور فرحت بخشےگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے