داستان کیا ہے؟
’’داستان طرازی منجملہ فنون سخن ہے، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لئے اچھا فن ہے۔‘‘
غالب
’’ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا رسول بادشاہ، چڑیا لائی مونگ کا دانہ، چڑالایا چانول کا دانہ، دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔‘‘ ان یا ان جیسے لفظوں سے ان کہانیوں کی ابتدا ہوتی ہے جنہیں ہم بچپن میں بصد شوق سنتے ہیں اور جن سے ہماری زندگی زیادہ رنگین وخوشگوار ہو جاتی ہے۔ انھیں کہانیوں کے انتظار میں ہم دن کی گھڑیاں جلد جلد گزارتے ہیں اور شام کی آمد سے خوش ہوتے ہیں۔ وہ شام جو نت نئی کہانیاں اپنے ساتھ لاتی ہے، وہ شام جو ہماری پیاس کو بجھاتی اور ہماری امیدوں کو بارور کرتی ہے، ان کہانیوں کی ادبی اہمیت کالعدم ہو لیکن یہ ہماری نوخیز زندگی کی بعض اہم ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں اور اس کی نشوونما میں ممد ہوتی ہیں۔ بچہ اپنے کو نئی دنیا میں پاتا ہے، اسے ہر شے نئی اور حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے، جیسے انسان اپنے ارتقاء کے ابتدائی منازل میں ہر شے کونئی اور عجیب اور پراسرار پاتا تھا۔ بچہ کی جسمانی نشوونما کے ساتھ اس کے دماغ کی بھی ترقی اور تربیت ہوتی ہے اور اس ترقی اور تربیت میں کہانیاں ایک اہم حصہ لیتی ہیں۔
انسان کی دماغ ترقی کا ایک بڑا سبب تجسس کا مادہ ہے جو مختلف صورتوں میں کارفرما ہے، جو ہمیں نئی نئی چیزوں کی تلاش وجستجو پر آمادہ کرتا ہے، جو ہمیں ہر شے کی ماہیت اور اس کے اسباب پر سے پردہ اٹھانے پر مجبور کرتا ہے اور جو ہمیں دماغی کاہلی سے بچاتا اور کسی چیز کو بھی بغیر جانچ پڑتال کے قبول کرنے نہیں دیتا ہے۔ بچپن میں بھی اس مادہ کی ترقی نہایت اہم ہے اور یہ ترقی کہانیوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ بچہ نئی نئی کہانیوں، نئی نئی باتوں کو سنتا اور سننے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ اس کے گردوپیش کی دنیا ایک طرف تو یہ خیالی دنیا دوسری جانب وسیع ہوتی جاتی ہے اور اس طرح ذوق تجسس کے ساتھ ساتھ اس کے نخل تخیل کی بھی آبیاری ہوتی رہتی ہے اور یہ دماغی قوت بھی ترقی پاتی رہتی ہے۔
تخیل کی اہمیت مثل روز روشن ہے اور کہانیاں بچوں کے تخیل کی ترقی کا ایک مفید ذریعہ ہیں۔ کہانیوں میں ایسی دنیا کا ذکر ہوتا ہے جو بچہ کی جانی ہوئی چوبیس گھنٹوں کی دنیا سے بالکل مختلف ہے، ایسے لوگوں کے حالات زندگی ہوتے ہیں جن سے بچہ واقف نہیں۔ ایسی چیزوں کا بیان ہوتا ہے جو ان دیکھی، غیرمعمولی اور اکثر فوق فطرت ہوتی ہیں۔ الغرض، ان کہانیوں میں ایسی فضا، ایسی جزئیات ہوتی ہیں جن سے بچہ ذاتی واقفیت نہیں رکھتا اور نہ رکھ سکتا ہے، اس لئے بچہ اپنے تخیل سے کام لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس فضا، ان جزئیات کو وہ اپنے تخیل کی مدد سے محسوس کرتا اور سمجھتا ہے۔ اسی تخیل کی مدد سے وہ خود ان کہانیوں کا ہیرو بنتا ہے اور جہاں تک اس کے کچے، نوخیز، محدود تخیل سے ممکن ہوتا ہے، وہ اس خیالی دنیا میں سانس لینے کی کوشش کرتا ہے اور خیالی افراد کے خیالی تجربات سے بہرہ ور ہوتا ہے اور اس طرح اس کی دماغی زندگی زیادہ رنگین وپُرلطف ہو جاتی ہے۔
اس کے جذبات میں بھی ترقی ہوتی ہے اور خصوصاً ہمدردی وترحم کے جذبات ابھرتے ہیں اور دوسروں کی خوشی سے خوش ہونا اور دوسروں کی تکلیف اور مصیبت پر آنسو بہانا سکھاتے ہیں۔ الغرض، یہ کہانیوں کا فیض ہے کہ بچہ اپنی بعض ان قوتوں کو ترقی دیتا ہے جوآدمی کو انسان بناتے ہیں اور جن کے بغیر اس کی زندگی ناتمام رہ جاتی۔
مہذب انسان بھی بچوں اور وحشیوں کی طرح قصہ کہانی کا شائق ہے یعنی انسان تہذیب کے زینوں پر پہنچ کر بھی کہانیوں کو لغوولاطائل نہیں خیال کرتا بلکہ ان کی نوعیت کو بدل کر اپنی مہذب زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ بہرکیف کسی بچہ اور وحشی میں یہ مشابہت ہے کہ دونوں کہانیوں کو پسند کرتے ہیں اور انھیں تعقل اور تنقید کی میزان پر نہیں تولتے۔ کسی بچے یا وحشی کا دماغ نسبتاً غیرترقی یافتہ ہوتا ہے، خصوصاً تخیل کے مقابلہ میں تعقل کمزور ہوتا ہے، وہ نئی چیزوں میں دلچسپی تو لیتا ہے، وہ انوکھی باتوں کو شوق سے تو سنتا ہے لیکن انھیں غیرناقدانہ طور پر مان بھی لیتا ہے۔ کہانیوں کی صحت کو وہ بہ آسانی تسلیم کر لیتا ہے اور انھیں واقعیت کی روشنی میں نہیں دیکھتا اور نہ دیکھ سکتا ہے۔ گردوپیش کے واقعات، جس دنیا میں وہ رہتا ہے وہ اسے حیرت انگیز شعبدوں سے بھری ہوئی نظر آتی ہے، اس لئے یہ ان دیکھی چیزیں، یہ عجیب وغریب قصے اسے بعید از عقل نہیں معلوم ہوتے۔
بہرکیف جیسے وہ کہانیوں کو واقعیت اور حقیقت کی روشنی میں نہیں دیکھتا، اسی طرح وہ انھیں جمالیات اور فن کی کسوٹی پر نہیں جانچتا، یعنی جس غیرناقدانہ طور پر وہ ان کہانیوں کے موضوعات کو تسلیم کر لیتا ہے، اسی طرح وہ ان کی صورت میں حسن مناسبت، ترتیب وارتقاء کی منطقی صحت سے سروکار نہیں رکھتا۔ اسی لئے ان کہانیوں میں حقیقت اور فنی حسن کا عموماً وجود نہیں ہوتا۔ جب بچے کا دماغ ترقی کے مدارج طے کرتا ہے، جب وحشی تہذیب کی منزلوں سے گزرتا ہے تو وہ ان کہانیوں میں ایک کمی محسوس کرتا ہے۔ ان سے اس کی نئی زندگی کی ضرورتیں اب پوری نہیں ہوتیں، وہ انھیں اب پہلے شوق سے نہیں سنتا اور اس کی ذہنی اور دماغ ترقی انھیں پس پشت ڈالنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ دوسری ادبی صنفیں اختراع واخذ کرتا ہے جن سے اس کی نئی پیاس کی تشفی ہوتی ہے۔
میں نے ابھی کہا ہے کہ بچہ اور وحشی دونوں میں تخیل کی نشو ونما تعقل، تمیز کی نشو ونما سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ ان کے تخیل کی پرواز بلند اور تیز تو ہوتی ہے لیکن تعقل اور تمیز کے ماتحت نہیں ہوتی، اس لئے اس پرواز کے نتائج مہذب دماغ کو زیادہ وقیع نہیں معلوم ہوتے، جب وہ ان نتائج پر نظر ڈالتا ہے تو اسے مطلق تشفی نہیں ہوتی اور انھیں بعید از عقل، بیکار، مضحکہ خیز سمجھتا ہے، اسے ان میں ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے جو اس دنیا سے جس میں وہ سانس لیتا ہے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔ وہ اس دنیا میں جانوروں کو چلتا پھرتا، بولتا چالتا، کھاتا پیتا دیکھتا ہے۔ وہ بھی انسان کی طرح محبت، نفرت، غصہ، رنج، ہنسی، خوشی غرض مختلف قسم کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح اسے اس دنیا میں ناقابل یقین واقعات نظر آتے ہیں۔ کبھی وقت کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے تو کبھی یک قلم رک جاتی ہے۔ بچہ ایک آن میں جوان ہو جاتا ہے تو کبھی جوان ہمیشہ جوان نظر آتا ہے۔ برسوں کی راہ ایک لمحہ میں طے ہو جاتی ہے۔ غیرمتوقع طریقے پر بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں اوراسی غیرمتوقع طریقے پر پھر مل کر بچھڑ جاتے ہیں۔
فوق فطرت ہستیاں انسانی دنیا میں نظر آتی ہیں، وہ انسانوں کے ساتھ چلتی پھرتی ہیں اور ان کے معاملات میں ممد یا مخل ہوتی ہیں۔ کہیں ایک ہیبت ناک خونخوار دیو سدّ راہ ہوتا ہے تو کہیں کوئی حسین پری آکر مدد کرتی ہے۔ انسانی دنیا اور اس فوق فطرت دنیا کے حدود متحد ہیں یا ان کے درمیان ایک کشادہ شاہراہ ہے جس پر دونوں اقلیم کے باشندے آسانی کے ساتھ رہروی کر سکتے ہیں۔ فوق فطرت اشیا کی کمی نہیں، فوق فطرت واقعات تو روز مرہ کا قانون ہیں۔ مہذب دماغ ان فوق فطرت کرشموں کو دیکھ کر ہنستا ہے اور ان کا وجود اس کی نظر میں ان کہانیوں کے کم قیمت ہونے کی دلیل ہے لیکن غور کرنے سے ان چیزوں کے وجود کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔
بات یہ ہے کہ انسان کا شعور اس کی ترقی کے ابتدائی منازل میں تہذیب وتربیت سے نابلد تھا۔ وہ جس دنیا میں رہتا تھا، وہ اسے اجنبی اور اس کی دشمن نظر آتی تھی اور وہ ہر چیزوں کو اپنے احساسات ومشاہدات کی روشنی میں دیکھتا تھا، مثلاً وہ شکار کرتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ موت اس کے ہاتھ کا کرشمہ ہے، اسی طرح اسے اپنے کسی دوست یا اپنی محبوبہ کی موت میں درپردہ کسی شکاری کا ہاتھ نظر آتا اور وہ اس شکاری دیوتا کو پوجتا اور اسے دعا اور نذر کی مدد سے تسخیر کرنا چاہتا۔ وہ جانوروں کو انسان کو طرح چلتا پھرتا دیکھتا، اس لئے وہ سمجھتا کہ جانور بھی اسی جیسی کوئی ہستی ہے اور وہ بھی انسانی خصوصیات سے بہرہ ور ہے۔ بچہ اسی طرح سوچتا ہے۔ وہ بھی سمجھتا ہے کہ جانور بھی تکلم، شعور جذبات کے حامل ہیں اس لئے جب اسے چڑا چڑا یا بولتے چالتے، کھچڑی پکاتے نظر آتے تو اسے کوئی تعجب نہ ہوتا، اس دنیا میں اسے کتنی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو اس کی سمجھ سے باہر ہیں اس لئے اسے کسی فوق فطرت واقعہ سے مطلق حیرت نہ ہوتی اور وہ اسے ناقابل وثوق نہیں خیال کرتا۔
قصے کہانیاں اپنے فنی اور ادبی نقائص وحدود کے باوجود بھی ایسی چیزیں نہیں کہ انہیں یک قلم ناقابل اعتناسمجھا جائے۔ ابتدائی قدیم قصے جو عموماً کسی قوم میں متداول نظر آتے ہیں، وہ مختلف دلچسپیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی اس قوم کے شعور وتخیل سے آبیاری ہوتی ہے۔ ان میں اس قوم کے تخیل کی ابتدائی نوخیز قوت پرواز کا عکس نظر آتا ہے۔ ان میں اس قوم کے شعور کی پہلی، معصوم تتلاہٹ سنائی دیتی ہے، اسی آئینہ میں بہت سی وہ چیزیں نظر آتی ہیں جن میں وہ قوم شروع میں دلچسپی لیتی تھی اور جو اس کی دماغی اور جذباتی قوتوں پر پرزور محرکات کا کام کرتی تھیں۔ اسی آئینہ میں وہ سب باتیں نظر آتی ہیں، جن میں اسے یقین کامل تھا اور جنہیں وہ واقعیت اور حقیقت کا جامہ پہناتی تھی۔ اسی آئینہ میں وہ سب تصورات بھی ملتے ہیں جو محض تصورات نہ تھے بلکہ اس کے خیال میں ہونے والے واقعات سے زیادہ مضبوط اور پائدار تھے اور اسی آئینہ میں وہ مافوق العادات ہستیاں، واقعات، چیزیں، وہ وہم وگمان کے مرقعے، وہ مذہبی عقائد بھی اپنی جھلک دکھلاتے ہیں جنھیں وہ صحیح سمجھتی تھی۔ الغرض ان کہانیوں سے کسی قوم کی ابتدائی مجموعی اور اس کے افراد کی انفرادی کاوشوں کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔ بہرکیف یہ چیزیں ایسی ہیں جن کا ادب سے کوئی خاص تعلق نہیں۔
یہ مسلم ہے کہ کہانیوں میں ادبی حسن وقدر وقیمت کی نمایاں کمی ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انھیں ادبی معیار سے جانچنا غلطی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں ایسے کردار ہوتے ہیں جو ناقابل وثوق ہوتے ہیں، ایسے واقعات کا ذکر ہوتا ہے، جنھیں فہم سلیم کبھی تسلیم نہیں کر سکتی اور ان واقعات کی ترتیب وتنظیم وترقی میں فنی اور منطقی نقائص بے شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ دنیائے ادب میں انہیں کبھی وہ مرتبہ نہیں حاصل ہو سکتا ہے جو دوسری ادبی صنفوں کو حاصل ہے، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی بچہ ان ادبی نقائص کو محسوس نہیں کرتا اور وہ ان کہانیوں میں ادبی محاسن کو نہیں ڈھونڈھتا۔ وہ ادبی اور فنی اصول ومحاسن سے واقف نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ جو واقعات ہوں وہ انوکھے اور دلچسپ ہوں اور کہانی میں مسلسل دلچسپ واقعات ہوں اور اس سلسلہ کی ہر کڑی دلکشی رکھتی ہو۔ اگر واقعات دلچسپ نہیں تو پھر کہانی میں اس کا دل نہیں لگتا اور اس میں اسے کوئی مزہ نہیں ملتا۔
جہاں دلچسپی کے تسلسل میں کمی ہوئی، جہاں کوئی کڑی بے لطف ہوئی تو اس کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا، اسے کہانی کے حسن صورت سے کوئی بحث نہیں ہوتی، وہ صرف فوری اور پیش نظر چیزوں میں منہمک ہو سکتا ہے، اس لئے وہ چاہتا ہے کہ ہر واقعہ دلچسپ ہو، سب کچھ ہو لیکن واقعات کی دلچسپی میں کمی نہ ہو۔ اس کی زبان پر برابر یہ کلمہ جاری رہتا ہے، ’’پھر کیا ہوا۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔‘‘ یہی ایک معیار ہے جس سے وہ واقف ہے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس سے ہر کہانی کی وہ جانچ کرتا ہے۔ جو کہانی اس معیار پر پوری اترتی ہے اسے وہ اچھی، قابل قدر سمجھتا ہے اور جو کہانی اس معیار پر پوری نہیں اترتی، اسے وہ کم قیمت خیال کرتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہی ایک معیار ہے جس سے کہانیوں کے حسن وقبح کی جانچ لازم ہے اور یہ معیار محض طفلانہ نہیں۔ ہر فنی کارنامے میں دلچسپی کا وجود ضروری ہے۔ دلچسپی کا فقدان ادب میں اہم ترین عیب شمار کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اعلیٰ اصناف ادب میں ہم اس قسم کی دلچسپی نہیں ڈھونڈتے جیسی ایک بچہ کہانیوں میں تلاش کرتا ہے۔
داستان کہانی کی طویل، پیچیدہ، بھاری بھرکم صورت ہے۔ بچے کا نوخیز دماغ طوالت اور پیچیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسے مختصر، صاف، سیدھا قصہ ہی مرغوب ہوتا ہے۔ اگر یہ طویل ہوا تو پھر اس کی انتہا تک پہنچتے پہنچتے وہ اس کی ابتدا کو بھول جاتاہے۔ اس کے ذہن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ پیچیدہ گتھیوں کو سلجھائے۔ اسے تو ہلکی پھلکی، چھوٹی موٹی باتیں ہی پسند ہوتی ہیں۔ داستان اسے بوجھل معلوم ہوتی ہے لیکن داستان اپنی طوالت، پیچیدگی، بوجھل پن کے باوجود بھی کہانی سے بنیادی طور پر مختلف نہیں۔ یہ بھی دل بہلانے کی ایک صورت ہے۔ اس میں بھی حقیقت وواقعیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس میں بھی اعلیٰ ادبی اور فنی اصول کی کارفرمائی نہیں۔ اس کا بھی مرتبہ دنیائے ادب میں بہت بلند نہیں۔ یہاں بھی جانور بولتے چالتے، چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی ناقابل یقین واقعات ومناظر ملتے ہیں اور یہاں بھی فوق فطرت ہستیوں کے کرشموں سے سابقہ پڑتا ہے۔ الغرض داستانوں کی فضا کہانیوں کی فضا سے مختلف نہیں ہوتی اور یہ فضا اجنبی، حیرت انگیز ہوتی ہے۔ اس میں اور انسانی دنیا کی فضا میں صاف فرق نظر آتا ہے۔
انسان بچپن کی منزل سے گزرتا ہے لیکن گزر نہیں جاتا۔ وہ سن شعور کی اقلیم میں قدم رکھنے کے بعد بچپن کے احساسات، بچپن کی خواہشات سے مکمل قطع تعلق نہیں کرتا۔ بچپن اپنی رنگین و شاداب امیدوں، تمناؤں، امنگوں کے ساتھ اس کی فطرت میں پوشیدہ رہتا ہے اور موقع ملتے ہی پردہ سے باہر نکل آتا ہے اور وقتی طور پر وہ پھر اس گذری ہوئی دنیا میں جا بستا ہے جس سے بظاہر اب اسے کسی قسم کا لگاؤ نہیں۔ بچہ کہانی کا دلدادہ ہوتا ہے اور بڑھ کر بھی وہ اس قسم کی چیز کا متلاشی ہوتا ہے اور داستانوں میں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ دن بھر کے کام سے فارغ ہوکر دل بہلانے کا ذریعہ ڈھونڈتا ہے اور یہ ذریعہ داستان ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ داستان گوئی انسان کا قدیم مشغلہ رہا ہے اور کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر ملک وقوم میں پایا جاتا ہے۔ اردو میں بھی اس مشغلہ کا وجود لازمی تھا اور دوسری ادبی صنفوں کی طرح یہ بھی ایران سے اخذ کیا گیا۔
اس مشغلہ کے لئے خصوصاً کسی اہم شکل میں، فرصت شرط ہے، اس لئے اس کا عروج لازمی طور پر اس وقت ہوا جب بادشاہوں اور امرا میں عیش پرستی آ گئی تھی، جب ان کی عملی زندگی ڈھیلی پڑ گئی تھی، جب ان کے قوی سست ہو گئے تھے، جب وہ کاہلی اور عیش کوشی کے خوگر ہو گئے تھے۔ چنانچہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ سونے سے پہلے وہ کوئی دلچسپ داستان سنتے اور سنتے سو جاتے یعنی داستان گویا ایک قسم کی خواب آور دوا تھی جو انھیں آسانی سے نیند کی دنیا میں پہنچا دیتی تھی یہ یہ کوئی لوری تھی جو اپنے دھیمے، نرم، شیریں ترنم سے انھیں موسیقی کی ہلکی ہلکی موجوں پر بہا لے جاتی۔ ظاہر ہے کہ تیز وتند، عمیق، پیچیدہ ایسی باتیں جو دماغ کو چونکا دیں جو ہمیں غوروفکر پر آمادہ کریں، ایسی باتیں داستانوں میں ممکن نہ تھیں۔ داستان تازیانۂ عمل نہیں ایک دلچسپ مشغلہ ہے۔ ہرزمانہ میں انسان کو اس قسم کے مشغلوں، دل بہلانے کے سازوسامان کی ضرورت رہی ہے اور اس نے اپنی بدلنے والی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے مختلف زمانوں اور قوموں میں مختلف سامان ایجاد کئے ہیں۔ کبڈی سے لے کر ثورافگنی (bull baiting) سب کھیل اسی قسم کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں سراغ رسانی کے قصوں سے اسی قسم کا مصرف لیا جاتا ہے جو کبھی داستانوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ مغرب میں اس قسم کے قصوں کا سیلاب ہے۔ چھوٹے بڑے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کم پڑھے لکھے، ادنی اعلی سب ہی ان کے دلدادہ ہیں، معمولی کلرک ایک طرف تو وزیر و امیر دوسری جانب سبھی ان قصوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ آج کل ’’سنیما بازی‘‘ کا شوق ’’بٹیر بازی‘‘ کا دوسرا روپ ہے۔ جب ہم روزانہ کام سے تھک جاتے ہیں تو سنیما چلے جاتے ہیں اور وہاں کی دلچسپیوں میں اپنی جسمانی تھکن، پریشانیوں، الجھنوں، مشکلوں کو وقتی طور پر بھول جاتے ہیں اور گویا کسی دوسری خواب آور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ کسی زمانہ میں داستان گوئی بھی اسی قسم کا مشغلہ یا فن تھا۔ اس کے نقائص وحدود سے واقفیت تھی اور آج بھی ہے۔ پھر بھی بقول غالبؔ،
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.