دور حاضر اور اردو غزل گوئی
طومار اغلاط
’’اکثرغلطیوں کا مجھے احساس ہے۔ بعض غلطیاں ایسی بھی ہیں جنہیں میں نے دانستہ اختیار کیا ہے۔ بعض ایسی ہیں کہ وہ خود اپنی جگہ محاسن ہیں۔ اکثر ایسی بھی ہوں گی جن کا مجھے علم نہیں یا جن کوناقدانہ نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
(دیباچۂ شعلہ طور۔ نوشتہ حضرت جگرؔ مرادآبادی)
سطور بالا میں جگرؔ صاحب نے جس مشرقی انکسار سے کام لیا ہے وہ ہماری ’’روایاتِ شاعرانہ‘‘ کے عین مطابق ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک اغلاط کا تعلق ہے دورِحاضر کے ’’اساتذہ‘‘ میں جگرؔ صاحب کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ یوں تو ’’بادشاہِ متغزلین‘‘ (حسرتؔ موہانی) بھی بے پئے ہی لڑکھڑائے ہیں۔ ’’سلطان العرفان‘‘ (اصغر گونڈوی) بھی باربارگرے ہیں۔ ’’رئیس الفلاسفہ‘‘ (فانیؔ بدایونی) نے بھی ٹھوکریں کھائی ہیں مگرحضرتِ جگرؔ کی ’’مستانہ وار‘‘ لغزشیں آپ اپنا جواب ہیں۔
جن غلطیوں کا آپ کو احساس ہے اور جنہیں آپ نے دانستہ اختیار کیا ہے ان کی تعداد صرف دو ہے۔ ایک اس مصرع میں (بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آہی گیا) ’’مستانہ وار‘‘ کی ترکیب۔ اور دوسرے اس مصرع میں (فخرِ ہندوستان ہے پیارے) ہندوستان کے نون کا اعلان۔ اس کے علاوہ اس شعر میں،
جدھر سے حسن کا اک گوشہ نقاب اٹھا
تمام ذرّے پکارے وہ آفتاب اٹھا
’’آفتاب اٹھا۔‘‘ (جو بظاہر The sun rose کالفظی ترجمہ معلوم ہوتا ہے اور) بمجبوری استعمال کیا گیا ہے، خود آپ کے بقول ذوقِ سلیم کا ایک اجتہاد ہے، ’’جسے رائج ہونا چاہیے۔‘‘
ایسی غلطیاں ’’کہ وہ خود اپنی جگہ محاسن ہیں‘‘ تلاش کے باوجود جگرؔ صاحب کے دیوان میں نہ مل سکیں، آپ کی تقسیم کے مطابق اب صرف ایک ہی قسم کی غلطیاں باقی رہ جاتی ہیں یعنی وہ جن کا غالباً آپ کو علم نہیں۔ چونکہ آپ ایسی غلطیوں کو جاننا چاہتے ہیں لہٰذا سطورِ ذیل کا مطالعہ آپ کے لیے ازبس مفید ہوگا۔
*
میں نہیں بسملِ خیام جگرؔ
حافظِ خوش کلام نے مارا
یہ شعر اگرچہ کل دس لفظوں کا مجموعہ ہے لیکن قادر الکلام شاعر نے اس میں ایک پوری داستان بیان کردی ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ کہ جو باتیں اس میں مذکور نہیں وہ خودبخود سمجھ میں آجاتی ہیں اور واقعہ کی مکمل تصویر آنکھوں میں پھرجاتی ہے۔
ایک بادشاہ سیر و شکار یا جنگ کے ارادے سے اپنی فوجیں لے کر نکلا ہے۔ بحیثیت ملک الشعرائے سلطانیؔ جگر صاحب بھی لشکر کے ہمراہ ہیں۔ چلتے چلتے لشکر ایک مقام پر ٹھہر جاتاہے۔ پڑاؤ ہوتاہے۔ خیمے لگائے جاتے ہیں۔ ایک خیمہ جگرؔ صاحب کے لیے مخصوص ہے۔ رات کوآپ کے خیمہ پر پہرا دینے کے لیے ایک حافظ یعنی محافظ بھی آپ کو ملا ہے اس کا نام ’’خوش کلام‘‘ ہے۔ یہ شخص اگرچہ سپاہی ہے مگر شاعر ہے اور اچھا شاعر ہے۔ اسی بنا پر لوگ اسے ’’خوش کلام‘‘ کہتے ہیں ورنہ درحقیقت اس کااصلی نام کچھ اور ہے جو اب کسی کو یاد نہیں۔ خوشؔ کلام کا خیال ہے کہ وہ جگرؔ صاحب سے کہیں بہتر شعر کہتاہے مگر بدذوق دنیا اس کی قدر نہیں کرتی۔ اسی بنا پر وہ جگرؔ صاحب کا جانی دشمن ہے اور رات دن ان کے دشمنوں کی ہلاکت کی فکرمیں لگا رہتا ہے۔ اس موقع کو اس نے غنیمت جانا۔ طوفانی رات تھی، آندھی چل رہی تھی۔ پچھلے پہر وہ ظالم جگرؔ صاحب کے خیمے میں گھس گیا اور تلوار سے آپ کا سر بری طرح زخمی کردیا۔ بلکہ اپنے نزدیک آپ کو مار ہی ڈالا۔ اپنے جرم کو چھپانے کی اس نے یہ تدبیر کی کہ جگرؔ صاحب کے خیمے کی اور آس پاس کے اوردوتین خیموں کی طنابیں کاٹ دیں تاکہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ طوفانی ہوا سے خیمے گرپڑے اورلوگوں کی ہلاکت کا باعث ہوئے۔۔۔
خیموں کے گرتے ہی ایک شور مچ گیا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ اٹھائے گئے۔ اور تو سب صحیح و سلامت تھے لیکن جگرؔ صاحب خون میں شرابور، بیہوش پڑے تھے۔ لوگوں نے سمجھا کہ چوبِ خیمہ جو آپ کے سر پر لگی ہے تو اس سے سر شق ہوگیا ہے۔ بہرحال آپ کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کی گئیں۔ آپ نے آنکھیں کھولیں۔ اور لوگوں کو بتایا کہ میں چوبِ خیمہ سے زخمی نہیں ہوا ہوں بلکہ میرے محافظ خوشؔ کلام نے مجھے مارا ہے۔
اگرکسی شعر کا مطلب اس کے الفاظ ہی کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے تو یقیناً اس شعر کا یہی مطلب ہے جو ہم نے بیان کیا لیکن جگرؔ صاحب کے مخالفین جو ان کی قادر الکلامی کے قائل نہیں اس مطلب کو غلط ٹھہراتے ہیں اور دو راز کارتاویلیں کرتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’خیام‘‘ (بروزن صیام) سے شاعر کی مراد ایران کامشہور شاعرعمر خیامؔ نیشاپوری ہے۔ اور حافظ کا مطلب محافظ نہیں بلکہ حافظِ شیراز کی طرف اشارہ ہے۔ مگر یہ مخالفین کی زبردستی ہے۔ ورنہ ’’خیام‘‘ (بروزنِ صیام) خیمہ کی جمع ہے۔ مکتوبی مشابہت کی بناپر اسے خیام (بروزنِ ایام) کیونکر سمجھ سکتے ہیں اور بلاوجہ کیوں شاعر کے سریہ الزام لگایا جائے کہ اس نے مشدد (خیام) کومخفف (خیام) کردیا ہے۔ اس لیے کہ بقول مولانا رومؔ،
کار پا کاں راقیاس از خود مگیر
گرچہ ماند درنوشتن شیر و شیر
*
بہار اپنی جگہ پر سدابہار رہے
یہ چاہتا ہے تو تجزیہ بہار نہ کر
اس شعر کا مصرع ثانی پڑھ کر بے اختیار یہ شعر یا دآجاتا ہے،
چہ خوش گفت فایق شاعر غرّا
تشدید در شعر چرّا نہ باشد
تجزیہ بروزن تفعلہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کی ’’ی‘‘ کو مشدد بنایا جائے اِلّا بضرورتِ شعری۔ مگر پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسی ہی ’’ضرورتِ شعری‘‘ ہے تو ’’شعر گفتں چہ ضرور‘‘ یا پھر یہ بات ہے کہ خیامؔ کی تشدید پھسل کر ’’تجزیہ‘
پر آگری ہے۔ وہ ’’خیام‘‘ رہ گیا اور یہ ’’تجزیہ‘‘ بن گیا۔
*
دردِ دل غیرت تری کیا ہوگئی
ان لبوں پر اور ہائےؔ دردِ دل
یہ مانا کہ دوسرے مصرع میں ’’ہائے‘‘ کو بروزن ’’ہا اے‘‘ یا ’’ہارے‘‘ نظم کیا گیا ہے جو یقیناً غلط ہے کیونکہ اس کا تلفظ ’’ہاے‘‘ بروزن ’’کام‘‘ ہے۔ لیکن معترضین اس پر غور نہیں کرتے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ درحقیقت یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ شدتِ درد سے جب انسان آہ کرتا ہے اور ’’ہائے‘‘ کہتا ہے تو وزن اور تلفظ کی رعایت اس کے لیے ناممکن ہوجاتی ہے اور کبھی وہ ’’ہائے‘‘ کو اتنا کھینچتا ہے کہ ’’ہا اے‘‘ بن جاتاہے۔ شاعر نے یہی لطیف نکتہ اس شعر میں پیدا کرناچاہا ہے۔ مگر وہی مثل ہے کہ’’آنکھوں والا ترے جو بن کا تماشہ دیکھے‘‘ طرزِ بیان کی ان نزاکتوں کا سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اگر یہ غلطی ہے تو اسی قسم کی غلطی ہے جسے محاسن میں شمار کرنا چاہیے۔
*
ہاں اس طرف بھی اک نگہ نیشتر نواز
کب سے پھڑک رہی ہے رگِ جانِ آرزو
’’نیشتر نواز‘‘ نگہ کی صفت ہے ’’نگہ نیشتر نواز‘‘ کے معنی ہوئے ’’نشتر پر نوازش کرنے والی نگاہ۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نگاہ، نشتر پر نوازش کس طرح کرسکتی ہے۔ بظاہر اس کی ایک ہی صورت سمجھ میں آتی ہے۔ وہ یہ کہ نگاہ، نشتر سے کہتے کہ تم بہت تھک گئے ہو۔ لاؤ تمہارا کام میں کردوں۔ یعنی تمہاری بجائے میں عاشق کی فصد کھولدوں۔ مگر دشواری یہ ہے کہ اس شعر میں،
ہٹا نہ سینۂ عاشق سے رخ کسی جانب
نگاہِ ناز کو نشتر نواز رہنے دے
’’نشتر نواز‘‘ کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں۔ محبوب کا سر سینۂ عاشق پہ رکھاہوا ہے۔ عاشق کہتا ہے کہ اپنا سر اسی طرح رکھا رہنے دے۔ نگاہِ ناز کو اسی طرح میرے سینہ پر لوٹنے دے۔ تو گویا یہاں نشتر کے معنی ہوئے سینہ۔ کیونکہ نگاہِ ناز سینہ پر نوازش کر رہی ہے نہ کہ نشتر پر۔ نشتر بمعنی سینہ شاید ’’اساتذہ‘‘ نے کہیں لکھا ہو مگر ہمیں اس کی مثال کہیں نہ مل سکی۔
*
دل کی ہر چیز جگمگا اٹھی
آج شاید وہ بے نقاب ہوا
کوئی معمولی شاعر اگر اسی خیال کو نظم کرتا تو یہاں کہتا کہ ’’دل کا ہر ذرّہ جگمگا اٹھا۔‘‘ لیکن جگر نے ’’ہرچیز‘‘ کہہ کر شعر کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔ ایک عامی اس پر یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ عاشق کادل کوئی بنئے کی دکان ہے کہ اس میں نون، تیل، ادرک ’’ہرچیز‘‘ موجود ہے۔ اور بقول مرزا سوداؔ ’’یہ بھی ہے اُلوّ بھی ہے۔‘‘، درحقیقت جگرؔ صاحب نے ’’دل کی ہر چیز‘‘ کہہ کر اس عامیانہ خیال کی تردید کی ہے کہ ’’دل فقط ایک لہو کی بوندہے۔‘‘ علم التشریح اورنفسیات کے ماہر جانتے ہیں کہ دل فقط خون کی ایک بوند یا چند قطروں کے مجموعہ کانام نہیں۔ وہ گوشت کا بنا ہوا ہے۔ اس میں رگیں بھی ہیں اور خون بھی۔ اور اس کے علاوہ اور بھی کتنی چیزیں شامل ہیں اور جذبات و احساسات کامرکز بھی ہے۔
*
طلبِ خُلد نہیں، آرزوِ حور نہیں
تم جو مل جاؤ تو پھر کچھ مجھے منظورؔ نہیں
کلام جگرؔ کی اس خصوصیت پر بہت کم لوگوں کی نظر پہنچی ہے کہ اس میں بعض الفاظ ایسے نئے معنی میں استعمال ہوئے ہیں جو آج تک کسی کو معلوم نہیں۔ ’’منظور‘‘ کے ایک معنی تو و ہی ہیں جو مشہور ہیں۔ مثلاً آپ فرمائیں کہ کہیے آپ کو یہ شرط منظور ہے اور میں کہوں کہ جی ہاں منظور ہے۔ اور دوسرے وہ لغوی معنی جو عام طور پر اردو میں مروج نہیں مگر مرزا غالبؔ کے یہاں اس کی ایک مثال ملتی ہے،
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پرہمیں منظورؔ نہیں
یہاں منظور بمعنی مشہود استعمال ہوا ہے۔ نظر کا اسم مفعول ہے۔ ’’ہمیں منظور نہیں‘‘ کے معنی ہوئے ’’ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ لیکن جگرؔ صاحب نے مذکورِ بالا شعر میں ’’منظور‘‘ بمعنی ’’درکار‘‘ استعمال کیا ہے۔ فنِ لغت سے دلچسپی رکھنے والوں کا فرض ہے کہ حضرتِ جگرؔ کے اس شعر کو محفوظ رکھیں تاکہ آئندہ اردو کے جو لغات مرتب ہوں ان میں اس شعر کے حوالہ سے ’’منظور‘‘ کے یہ نئے معنی بھی درج کردیں۔ اس قسم کی جدتیں جگرؔ صاحب کے یہاں بہت ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،
رشک آتا ہے شہیدانِ وفاپر مجھ کو
ان کی قسمت میں تھا کیا جلد شفاہوجانا
مطلب یہ کہ شہیدانِ وفا بہت جلد ’’شِفا‘‘ ہوگئے۔ یعنی تندرست ہوگئے۔ تو اس طرح ’’شفا‘‘ کے معنی ہوئے ’’تندرست‘‘، یہ معنی بھی نئے ہیں۔ اردومیں شفاپانا یا شفایاب ہونا بولتے ہیں۔
دے چکا جب دل تو کیسا خوف شہرت ہو تو ہو
اب یہ سرجائے تو جائے اور قیامت ہو تو ہو
اردو میں ’’شہرت‘‘ اچھے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ شہرت کے آرزومند رہتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہرقسم کے جائز و ناجائز وسائل سے کام لیتے ہیں۔ شہرت سے خوف کھاتے کسی کونہیں سنا۔ مگر اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ شہرت بدنامی اور رسوائی کا مترادف ہے۔
دیکھا نہ مڑکے تونے ستم گر برا کیا
بیمارِ ہجر منتظرِ بازدید تھا
’’بازدید‘‘ کے معنی ہیں Return visit یعنی کوئی آپ کی ملاقات کو آئے اور پھر آپ اس سے ملنے جائیں تو یہ جوابی ملاقات ’’بازدید‘‘ ہوئی۔ لیکن جگرؔ صاحب کے اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’بازدید‘‘ کے معنی ہیں ’’جاتے جاتے مڑکے دیکھنا۔‘‘ یہ معنی بھی جگرؔ صاحب کی جدتِ طبع کانتیجہ ہیں۔
عدم کی راہ میں رکھا ہے پہلا ہی قدم میں نے
مگر احباب اس کو آخری منزل سمجھتے ہیں
موت، سفرِآخرت، اور قبر کو مجازاً منزلِ اوّل یا پہلی منزل کہتے ہیں۔ زکی،
اب لحد تنگ ہوئی منزلِ اول، دیکھوں
آگے لے جائے مجھے گردشِ ایام کہاں
موت ہے گویا قدم رکھنا ہی راہِ عشق میں
ہم سفر ہونے لگے پہلی ہی منزل سے الگ
جگرؔ صاحب نے اسی پہلی منزل کو آخری منزل بنادیا۔ آپ کے ایک طرفدار کا قول ہے کہ یہ غلطی جگرؔ صاحب کی نہیں بلکہ ان کے احباب کی ہے جنہوں نے پہلی منزل کو آخری منزل سمجھا۔
کیا دن تھے جگرؔ وہ دن جب صحبتِ اصغر میں
مسرور طبیعت تھی محرور مرا دل تھا
گرمی، سردی، خشکی اور تری، مزاج کے خواص میں داخل ہیں۔ جس شخص کے مزاج میں گرمی زیادہ ہو اسے محرورالمزاج کہتے ہیں۔ دل کا محرور ہونا بھی اسی قبیل سے ہے۔ مگر یہ ایک مرض ہے اور بہت برا مرض ہے خدا سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ مگر جہاں تک سنا ہے یہ مرض اڑ کرنہیں لگتا اس لیے کسی کی صحبت کے اثر سے اس کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ شاید جگرؔ صاحب نے محرور بمعنی مسرور استعمال کیا ہے۔ اگر ایسا ہے کو یہ بھی ایک مجتہدانہ جدت ہے۔
نگاہِ اہلِ دل بھی رہ گئی زیروزبر ہوکر
کہاں پہنچے مرے اجزائے ہستی منتشر ہوکر
جگرؔ صاحب کی جدتوں سے فقط اہل ہند ہی نہیں بلکہ عرب والے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ منتشر بروزن مختصر ان کے یہاں موجود نہیں۔ جگرؔ صاحب نے مفعول کا یہ ایک نیا صیغہ ایجاد کیا۔ مانا کہ ازروئے قواعدِ عربی منتشِر (بکسر شین) ہونا چاہیے۔ منتشَر (بفتح شین) غلط ہے۔ مگر اس غلطی سے زبان میں وسعت اور شعرا کے لیے سہولت پیدا ہوگئی۔ منحصر کا قافیہ منتشر تو پہلے سے موجود ہے۔ اب معتبر کے لیے منتشر کا قافیہ بھی نکل آیا۔ اس قسم کی غلطیاں وسعت زبان کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
سفّاک چتونیں بھی ہیں قاتل نظر بھی ہے
کیا چیز ہوگئے ہو تمہیں کچھ خبر بھی ہے
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ چتون کیا چیز ہے مگر یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بعض معشوقوں کے کئی کئی چتونیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ جگرؔ صاحب کا محبوب بھی کئی چتنوں کا مالک تھا (یا ہے ) ورنہ ’’چتونیں‘‘ (بصیغہ جمع) کہنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ اور اگر چتون کو چتونیں اس بناپر کہا گیا کہ اس میں ایک سے زیادہ شکنیں بھی ہوسکتی ہیں تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دو نتھنے ہونے کی بناپر کسی کی ناک کو ’’ناکیں‘‘ کہنا۔
وہ دل توڑ کے بیٹھے تھے مطمئن کہ انہیں
شکستِ شیشۂ دل کی صدا نے لوٹ لیا
عام قاعدہ تو یہی ہے کہ جب کوئی شے ٹوٹتی ہے تو فوراً ہی اس میں سے آواز بھی نکلتی ہے۔ مگر یہ عاشق کا دل بھی عجب چیز ہے کہ ٹوٹنے کے گھنٹہ بھر بعد صدا دیتا ہے۔ جگرؔ صاحب کے محبوب نے جگر صاحب کا دل توڑ ڈالا اس کام سے فارغ ہوے کے بعد منہ دھویا، کنگھی کی، بال سنوارے، سرمہ لگایا، پان کی گلوری بناکر منہ میں رکھی اور گاؤ تکیہ کے سہارے آرام و اطمینان کے ساتھ تخت پر بیٹھ گیا۔ پیک تھوکنے کے لیے فرش پر سے اگالدان اٹھانا چاہتا تھا کہ یکایک ایک دھماکے کی آواز ہوئی۔ غریب کا جی دہل گیا، اگالدان ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا اور فرش کی چاندنی پیک کی چھینٹوں سے جامہ دار میں تبدیل ہوگئی۔ خواصیں دوڑ پڑیں کہ ’’ہے ہے کیا ہوا۔‘‘ بی صاحبہ کو سنبھالا۔ تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ جگرؔ صاحب کا دل تھا جسے توڑنے کے بعد بی صاحبہ اطمینان سے بیٹھ گئی تھیں اور جس نے ٹوٹنے کے پورے 57منٹ 11 سکنڈ بعد آواز دی۔
بیٹھا ہوں مست و بیخود خاموش ہیں فضائیں
کانوں میں آرہی ہیں بھولی ہوئی صدائیں
مست و بیخود کو کا خبر کہ فضا خاموش ہے یا شور سے گونج رہی ہے۔ خیر فرض کرلیا کہ فضا خاموش تھی۔ اور فضا جب خاموش تھی تو کانوں میں صدائیں یقیناً آرہی ہوں گی۔ یہ بات تو سمجھ میں آگئی لیکن یہ معمہ پھر بھی حل نہ ہوا کہ جہاں آپ مست و بیخود بیٹھے ہوئے تھے وہاں کتنی فضائیں تھیں۔ غالباً فضا تو ایک ہی ہوگی لیکن مست و بیخود ہونے کی وجہ سے آپ کو کئی نظرآتی ہوں گی۔ یا پھر یہ کوئی ایسا راز ہے جسے صرف ’’حقائق ومعارف والے‘‘ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
وزن و قافیہ کی ضرورت سے فضا کو بصیغۂ جمع استعمال کرنے کی وباعام ہوتی جارہی ہے اور دورِحاضرکے اکثر شعرا اس سے ’’ناجائز فائدہ‘‘ اٹھا رہے ہیں۔ خود جگرؔ صاحب نے کئی بار اس لفظ کی جان پر ستم کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،
رنگین ہیں فضائیں، جاری ہیں اشکِ خونیں
افسانہ حسن کا ہے اور عشق کی زبان ہے
بھری ہوئی ہیں فضائیں جمالِ غم سے تمام
گناہگارِ نظر لذت عذاب اٹھا
پردہ میں سازِغم کے کس کی ہیں یہ ادائیں
نغمے تڑپ رہے ہیں مسحور ہیں فضائیں
مولانا بلغ العلیٰ عرف حاجی بغلول سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ جانتے ہیں انگور کیا چیز ہے۔ فرمایا یہ تو ہم نہیں جانتے کہ انگور کیا چیز ہے مگر جب ہم حج کے لیے گئے تھے تو مکہ شریف میں روز انگور کھایا کرتے تھے، ہم سمجھتے تھے کہ یہ حکایت محض ایک لطیفہ ہے لیکن جگرؔ صاحب نے بھی اسی قسم کاایک ذاتی تجربہ بیان کیا ہے جس سے خیال ہوتا ہے کہ یہ لطیفہ محض بے بنیاد نہیں۔ جگرؔ صاحب فرماتے ہیں،
نہ جانے محبت ہے کیا چیز لیکن
بڑی ہی محبت سے ہم دیکھتے ہیں
جب آپ کو معلوم ہی نہیں کہ محبت کیا چیز ہے تو پھر جس انداز سے آپ دیکھتے ہیں اسے محبت سے تعبیر کرنا کیا معنی؟ شاید یہی ہیں وہ ’’اسرار و رموز‘‘ جو دورِحاضر کی غزل گوئی کا طرہ امتیاز ہیں۔
یہ راز سن رہے ہیں اک موجِ تہ نشیں سے
ڈوبیں گے ہم جہاں پر اچھلیں گے پھروہیں سے
ایک چھوٹی سی ریاست کے دیوان صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے نواب صاحب نے موٹر خریدی۔ اس کے سلسلہ میں ہارس پاور (Horse Power) کا لفظ بار بار سننے میں آیا۔ اور جس وقت آپ گدی پر بیٹھے تھے تو یہ بھی سنا تھا کہ گورنمنٹ برطانیہ نے حکومت کے پورے اختیارات (full powers) آپ کو عطا کیے ہیں۔ جنگ عظیم کے دوران میں آپ نے سرکار کی بہت کچھ خدمات انجام دیں جس کے صلہ میں گورنر صاحب نے بادشاہ کی طرف سے سرِدربار آپ کو چار حرف کا خطاب عطا کیا۔ آپ نے گورنر صاحب سے کہا کہ حضور ہمیں ایک مِشَم گَم (Machine Gun) بھی عنایت ہو۔ گورنر صاحب نے نے کچھ عذر پیش کیا تو نواب صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ حضور آخر ہم کس رئیں سے کم ہیں۔ حضور کی دعا سے ہم بھی (full horse power) ’’فل ہارس پاور‘‘ ہیں۔ گورنر صاحب ہنسی سے بیتاب ہوگئے۔ کسی لفظ کے صحیح مفہوم سے ناواقف ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ غالباً جگرؔ صاحب نے انگریزی کا لفظ (under current) ’’انڈر کرنٹ‘‘ کہیں سن لیا ہے اور اسی کا ترجمہ ’’موجِ تہ نشیں‘‘ فرمایا ہے۔ حالانکہ موج کا تہ میں بیٹھ جانا قطعاً ناممکن ہے۔ ہاں شعر میں لفظ ’’راز‘‘ کی موجودگی کے باعث اسے بھی کوئی راز کی بات فرض کرلیا جائے تو پھر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
پرانے زمانہ میں دیوانے گریبان پھاڑا کرتے تھے۔ دامن کی دھجیاں اڑایا کرتے تھے۔ لیکن دورِ حاضر کے بعض اساتذہ پر جب جنون کا دورہ پڑتاہے تو جیبیں پھاڑتے ہیں کہ یہ بھی ایک جدت ہے۔ گریبان اور دامن پھاڑنے کی علت تو ظاہر ہے کہ اس میں سہولت ہے لیکن جیب کے پھاڑنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جگرؔ صاحب فرماتے ہیں،
بچ رہا ہو جو کوئی جوشِ جنوں کے ہاتھوں
تار ایسا کوئی اب جیب و گریباں میں نہیں
جنوں کی خیر ہو یارب کہ ضعف کے ہاتھوں
رہا نہ جیب و گریباں پہ اعتبار مجھے
حال و حشت میں ہوا یہ ترے دیوانوں کا
جیب چھوٹی تو گریبان لیے بیٹھے ہیں
بات دراصل یہ ہے کہ جگرؔ صاحب نے دوسرے شعرا کے کلام میں جیب و دامن کی دھجیاں اڑتے دیکھیں اور غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ دامن کی طرح ’’جیب‘‘ بھی پھاڑی جاتی ہے۔ مگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ جیب بھی گریبان ہی کو کہتے ہیں۔ ناواقفیت کی بناپر آپ نے جیب کو پاکٹ (pocket) سمجھ لیا۔ (جس میں فاؤنٹن پن، گھڑی، روپیہ پیسہ، اور رومال وغیرہ رکھتے ہیں ) اور اگر بیان کے ساتھ اس کو بھی پھاڑنا شروع کردیا۔ ایک اور ’’استاد‘‘ نے اسی قسم کا ایک شعر کہا ہے،
تمہاری نذر کو لایا ہوں تحفے
یہ دل ہے یہ کلیجہ یہ جگر ہے
اللہ ری معصومیت، بیچارے کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ جگر اور کلیجہ دو چیزیں نہیں۔ مگر اس کا مقصد تو صرف اتنا ہے کہ جہاں تک ہوسکے تحفوں کی فہرست لمبی ہو۔ اس سے کیا بحث کہ جو کلیجہ ہے وہی جگر ہے۔ چیز ایک ہی سہی نام دو ہیں۔ یہی حال ہمارے جگرؔ صاحب کا ہے کہ جنون کے جوش میں گریباں کے ساتھ جیب بھی پھاڑ ڈالی۔ مگر جب ہوش آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ارے جسے ہم جیب سمجھتے تھے وہ تو گریبان ہی ہے۔
اٹھتے ہی پائے یار کے باغ کا باغ اجڑ گیا
پھول بھی ہیں تباہ سے سبزہ بھی پائمال سا
معلوم ہوتاہے کہ شاعر صاحب کے یار کے پاؤں میں ہل بندھا ہواتھا۔ جیسے ہی وہ دو قدم چلاتمام باغ کُھد گیا۔ اور اگر ’’پائے یار کے اٹھتے ہی‘‘ سے ’’یار کے جاتے ہی‘‘ مراد ہے تو الفاظ سے یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا اور اگر ’’پاؤں اٹھنا‘‘ سے مراد شکست کھاکر بھاگنا ہے تو اس کا بھی یہاں کوئی محل نہیں۔ ممکن ہے پورا شعر ’’عشق حقیقی‘‘ کے بیان میں ہو۔ تو اسے کوئی ’’عارف باللہ‘‘ ہی سمجھ سکتا ہے۔
اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
اتنی ہی بڑھی حسرت جتنا بھی اُدھر دیکھا
عشق کے ہاتھوں سے مفر ہو یا نہ ہو لیکن ’’جتنا‘‘ کے بعد ’’ہی‘‘ سے ضرور مفر حاصل کرنا چاہیے ورنہ اس بے تکی بولی سے بہت سی خرابیوں کا اندیشہ ہے۔
دورِ حاضر کے اکثر اساتذہ ’’سب‘‘ اور ’’سارے‘‘ میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ’’سب‘‘ کی جگہ ’’سارا‘‘ اور ’’سارا‘‘ کی جگہ ’’سب‘‘ بلا امتیاز استعمال کرتے ہیں حالانکہ جیسا ہم پیشتر بیان کرچکے ہیں ’’سب‘‘ کااطلاق مجموعہ افراد پر ہوتا ہے۔ مثلاً
سب لوگ، جدھر وہ ہیں، اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اور ’’سارے کااطلاق فردِ واحد کے کل پر ہوتا ہے۔ مثلاً،
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
جگرؔ صاحب بھی اس بلوائے عام میں شریک ہیں،
آج کن آنکھوں سے یہ جورِ خزاں دیکھا کیے
سب چمن لٹتا رہا اور باغباں دیکھا کیے
اول تو مصرع ثانی میں ’’سب‘‘ زائد محض ہے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ اس کے بغیر شاعر کا مفہوم ادا نہیں ہوتا تو ’’سارا چمن‘‘ کہنا چاہیے۔ مگر شاعر بیچارے کا کیا قصور۔ مصرع میں ’’سارے‘‘ کی گنجائش ہی نہ تھی لہٰذا ’’سب‘‘ سے کام لیا۔ البتہ جہاں جگہ زیاہ ہوتی ہے وہاں ’’سب‘‘ کی جگہ بھی ’’سارا‘‘ ہی استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے اس شعر میں،
تیری ہی نعت میں ہیں مشغول یا محمد
سارے زمین والے کل آسمان والے
جیسا کہ ہم پیشتر کہہ چکے ہیں اساتذہ دورِ حاضر کی تائید میں کسی ’’پرانے اُستاد‘‘ کا شعر تلاش کرنا بے سود ہے اس لیے کہ جس اُستاد نے بھی ’’سب‘‘ کی جگہ ’’سارا‘‘ اور ’’سارا‘‘ کی جگہ ’’سب‘‘ استعمال کیا ہے بضرورتِ شعری ہی کیا ہے ورنہ کسی مستند ادیب کے یہاں نثر میں اس کی مثال نہ ملے گی اور اگر اتفاق سے مل بھی جائے تو اسے لکھنے والے کی غفلت یا سہو القلم پر محمول کرنا چاہیے۔ اسے صحیح سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے ’’مشکور‘‘ کو بمعنی ’’ممنون‘‘ صحیح سمجھنا، محض اس بناپر کہ مولانا شبلیؔ نے اس معنی میں استعمال کیا ہے
مری موت سن کر کیا اس نے ضبط
مگر رنگ چہرہ کا فق ہوگیا
جس طرح اردو کا رسم الخط ایک طرح کا شارٹ ہینڈ ہے اسی طرح جگر صاحب کی زبان بھی شارٹ ہینڈ کے لیے بخوبی استعمال کی جاسکتی ہے۔ کہیں ایک لفظ اور اس سے کام نکلے تین لفظوں کا۔ مثلاً اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’موت‘‘ بجائے‘‘ موت کی خبر ’’استعمال ہوا ہے۔ ہرچند کہ اردو میں لفظ موت اس معنی میں کبھی نہیں آتا اور اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ غلط ہے لیکن اگر اس کی جامعیت کو مدنظر رکھاجائے تو جگرؔ صاحب کی یہ جدت اس قابل ہے کہ اسے رواج دیا جائے۔ اس قسم کے اختصار کی مثالیں آپ کے کلام میں اور بھی ملتی ہیں۔ مثلاً،
یہ جنون بھی کیا جنوں، یہ حال بھی کیا حال ہے
ہم کہے جاتے ہیں کوئی سن رہا ہو یا نہ ہو
دوسرا مصرع اس طرح ہونا چاہیے کہ ’’ہم کہے جاتے ہیں کوئی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو۔‘‘ لیکن اس طرح کہنے میں ’’سن رہا‘‘ مکرر ہوجاتا لہٰذا بنظرِ اختصار آپ نے ایک سن رہا کو حذف کردیا۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے عبارت بے ربط بلکہ ایک حدتک مہمل ہوگئی مگر جو لوگ آپ کے اندازِ کلام سے واقف ہیں انہیں آپ کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔
شکستِ حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کیے سر جھکا کے لوٹ لیا
ازروئے قواعد ’’جلوہ دکھاکے‘‘، ’’نگاہ نیچی کرکے‘‘ اور ’’سر جھکاکے‘‘، ان تینوں فعلوں کو ایک ہی وضع پرہونا ضروری ہے۔ یعنی ’’نگاہ نیچی کیے‘‘ کے بجائے ’’نگاہ نیچی کرکے‘‘ چاہیے۔ مگر ’’نگاہ نیچی کرکے‘‘ مصرع میں نہیں سما سکتا لہٰذا ’’شارٹ ہینڈ‘‘ کے اصول کے مطابق ’’کرکے‘‘ کو ’’کیے‘‘ بنادیا۔
حیاتِ درد سہی پھر بھی آہ کیا کرتے
فنا کی چیز جو ہوتی تو ہم فنا کرتے
’’فنا کی چیز‘‘ مخفف ہے ’’فنا کرنے کی چیز‘‘ کا۔ یہ مانا کہ ’’فنا کی چیز‘‘ خلافِ محاورہ ہے لیکن اگر محاورہ کی پابندی کی جائے تو پھر ’’مختصر نویسی‘‘ نہ ہوسکے گی۔
میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
’’روئے سخن‘‘ کسی کی طرف 1 ہوتا ہے ’’کسی سے‘‘ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ’’میں دور ہوں تو روئے سخن میری طرف کس لیے‘‘ کہنا چاہیے۔ مگر وہی شارٹ ہینڈ والا اصول یہاں بھی کام کر رہا ہے۔
بیان ہوں کیا یہاں کی مشکلیں بس مختصر یہ ہے
وہی اچھے ہیں کچھ جو جس قدر ہیں دور منزل سے
دوسرے مصرع کی عبارت یا تو اس طرح ہوتی کہ ’’وہی کچھ اچھے ہیں جو منزل سے دور ہیں‘‘، اس صورت میں ’’جس قدر‘‘ بے محل ہے۔ یا پھر اس طرح کہتے کہ ’’جو منزل سے جس قدر دور ہیں وہ اتنے ہی اچھے ہیں۔‘‘ موجودہ صورت میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ مصرع ثانی صنعتِ ’’اختصار‘‘ میں ہے یا صنعتِ ’’اطناب‘‘ میں کیونکہ پہلی صورت میں ’’جس قدر‘‘ زائد اور دوسری صورت میں ’’اتنے ہی‘‘ کم ہے۔
جس طرح ضرورتِ شعری کی بنا پر آپ لفظوں، فقروں، جملوں او رمحاوروں کی قطع و برید کرکے انہیں مختصر کردیتے ہیں اسی طرح جہاں گنجائش زیادہ ہوتی ہے وہاں خلا پُر کرنے کے لیے آپ الفاظ کو کھینچ تان کر پھیلا بھی دیتے ہیں۔ مثلاً اس شعر کے پہلے مصرع میں،
عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبارِ نگاہ ویقین رہے
’’نہ‘‘ کی جگہ ’’نہیں‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اور چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
زخم کو مرہم دل، درد کو درماں سمجھا
چارہ گر خوب علاج غمِ پنہاں سمجھا
مصرع اولیٰ میں مرہم کے ساتھ دل کی قید بالکل بیکار ہے۔ ’’زخم کو مرہم۔ درد کو درماں سمجھا‘‘ کہنا کافی ہے ’’دل‘‘ اس میں خواہ مخواہ ٹھونس دیا گیا ہے۔
میں جگرؔ لاکھ ہوں آوارۂ وسرگشت مگر
دل ہر اک حال میں ہے حضرتِ احساں کے قریب
مصرع ثانی میں ’’ہر‘‘ کے بعد ’’اک‘‘ 2 زائدِ محض اور مخل فصاحت ہے۔
دیکھی تری آنکھوں کی کیفیتِ رعنائی
اب کس سے سنبھلتا ہے جامِ مے مینائی
دوسرے مصرع میں ’’مینائی‘‘ محض بضرورت قافیہ لایا گیا ہے ورنہ شعر کا مطلب اس کے بغیر پورا ہوجاتا ہے۔
آکر قفس میں اب یہ کھلا ہے معاملہ
ہم اہل تھے خزاں کے نہ رنگ بہار کے
جب خزاں کی کوئی خاص صفت مذکور نہیں تو بہار کے ’’رنگ‘‘ کا ذکر کس لیے۔ ’’ہم اہل تھے خزاں کے نہ بہار کے‘‘ کہنا بالکل کافی ہے۔
کسی کے سامنے مشکل سے عرضِ حال ہوئی
سنبھل سنبھل کے طبیعت مری نڈھال ہوئی
اردو میں ’’عرض‘‘ جب درخواست کے معنی میں آئے تو مؤنث ہے۔ مثلاً ’’میری عرض یہ ہے‘‘، لیکن ’’عرضِ حال‘‘ کے معنی ہیں ’’اظہارِ حال‘‘۔ اس صورت میں مرکب مصدر ہے۔ لہٰذا ’’عرض‘‘ کے قیاس پر اسے بھی مؤنث سمجھنا غلط ہے۔
بیانِ اہل دل ہے کب اسیر قیل و قال میں
نظر ملی کہ ہوگیا تبادلہ خیال میں
’’تبادلہ‘‘ بمعنی تبادل (exchange) نہ عربی ہے نہ فارسی نہ اردو۔ ’’ایجادِ بندہ‘‘ البتہ کہہ سکتے ہیں۔ اردو میں ’’تبادلہ‘‘ کے معنی ہیں ٹرانسفر (transfer) یعنی بدلی سو اس کا یہاں کوئی محل نہیں۔
تم دکھا دو جسے آنکھیں وہی مخمور رہے
ہم جہاں شیشہ پٹک دیں وہی میخانہ بنے
آنکھیں دکھانا اردو کا ایک خاص محاورہ ہے جس کے معنی ہیں خفگی کی نظر سے دیکھنا۔ 3گھورنا۔ دھمکانا۔ بے مروتی کرنا۔ مگر یہاں شاعر کا یہ مقصود نہیں۔ لہٰذا اپنے مفہوم کو کسی دوسرے طریقہ سے ادا کرنا چاہیے تھا۔ مثلاً یوں کہتے کہ ’’جو تمہاری آنکھ دیکھ لے۔‘‘
’’وہ ایک شے‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے آپ خود ہی سمجھتے ہوں گے۔ انشاؔ کی ’’اس بات‘‘ کی طرف خیال جاتا ہے مگر اس کا یہ موقع نہیں۔ شاید یہ شعر آپ نے تصوف میں کہا ہے۔
کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جارہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے
دوسرے مصرع کی ترتیب بالکل ابتر ہے۔ یا تو ’’سناتا جارہا ہے جس کو جتنا یاد ہے‘‘ ہونا چاہیے۔ یا ’’سناتا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے۔‘‘
سن کے افسانۂ غم باغ میں کملا گئے پھول
شاق گزرا مجھے بلبل کا غزلخواں ہونا
غزلخوانی میں سرور و شادمانی کا مفہوم شامل ہے۔ اسے افسانۂ غم سے تعبیر کرنا مقتضائے حال کے مطابق نہیں۔ غزلخوانی کے بجائے اگر نوحہ خوانی کہتے تو البتہ افسانۂ غم کے مناسب ہوتا۔
اب اس سے بڑھ کے طلسمِ خیال کیا ہوگا
کہ ذرّہ ذرّہ تو تصویر حسن یار ہوا
مصرع ثانی میں ’’کہ‘‘ اور ’’تو‘‘ کا اجتماع صحیح نہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کو حذف کردینا چاہیے۔ اگر ’’کہ‘‘ کو باقی رکھا جائے تو باعتبارِ تقدیم و تاخیر مصرعوں کی ترتیب یوں ہی رہے گی اور اگر ’’کہ‘‘ کو حذف کیا جائے تو مصرع ثانی کو پہلے پڑھنا چاہیے۔
وہ صبح شامِ وصال میرا لپٹ لپٹ کر بلائیں لینا
حیا سے وہ نیچی نیچی نظریں وہ شرم سے آب آب عارض
’’شام وصال‘‘ کے بجائے ’’شب وصال‘‘ چاہیے۔
سحر تک شمع محفل میں نے جل بجھنے کی ٹھانی ہے
ہمیں یہ دیکھنا ہے خاک ہوجاتے ہیں ہم کب تک
پہلے مصرع میں ’’میں‘‘ اور دوسرے میں ’’ہم‘‘ اگر بطورِ صنعتِ ’’ایجاد‘‘ استعمال ہوا ہے تو خیر، ورنہ ’’شترگربہ‘‘ ہے۔ کم از کم ’’اساتذہ‘‘ کواس سے احتراز لازم ہے۔
ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا
بوتل بغل میں تھی کہ دلِ ناصبور تھا
خمار اور سرور دو مختلف کیفیتوں کے نام ہیں۔ جب دلِ ناصبور شراب کی بوتل کا کام کر رہاتھا تو اس سے بیک وقت خمار اور سرور دونوں کا پیدا ہونا کیا معنی؟
اللہ ری وارفتگی شوق کا عالم
میرا بھی پتہ اب سرِمنزل نہیں ملتا
وارفتگی مونث ہے اور عالم مذکر۔ ’’اللہ ری‘‘ کا تعلق ’’عالم‘‘ سے ہے۔ ’’وارفتگی‘‘ سے نہیں۔ لہٰذا ’’اللہ رے‘‘ چاہیے۔ اگر وارفتگی کابیان مقصود ہوتا تو البتہ ’’اللہ ری‘‘ صحیح ہوتا۔
چین اسیرانِ قفس کو یادِ گلشن میں نہیں
دوڑتی ہیں بجلیاں سیلابِ خوں تن میں نہیں
جسم میں خُون کی گردش کو ’’سیلان‘‘ کہتے ہیں سیلاب نہیں۔
جگرؔ بتائیے کچھ حالِ زار خیر تو ہے
یہ کیوں برستی ہیں مایوسیاں نگاہوں سے
منادی اگر واحد ہو تو اس کے لیے فعل بصیغہ جمع اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی کلمۂ تعظیم بھی موجود ہو۔ ورنہ فعل بھی واحد ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا ’’جگر بتائیے‘‘ کہنا صحیح نہیں۔ ’’جگر! بتا‘‘ یا ’’جگر صاحب، بتائیے‘‘ کہا چاہیے۔
تم اس دلِ وحشی کی وفاؤں پر نہ جانا
اپنا نہ رہا جو وہ کسی کا نہ رہے گا
دوسرا مصرع خلاف محاورہ ہے۔ اس طرح ہو تو صحیح ہوجائے: اپنا نہ ہوا جو وہ کسی کابھی نہ ہوگا۔
کرے نہ کام جو بلبل کانالۂ خونیں
نہ غنچے نیند سے چونکیں نہ رنگ و بو آئے
بُو اُردومیں ’’بدبو‘‘ کے معنی میں مستعمل ہے اور بو آنا سڑانڈ آنے کے مترادف ہے۔ لفظِ بو اگرچہ یہاں رنگ کا معطوف علیہ ہے پھر بھی ’’بوآئے‘‘ علیحدہ پڑھا جاتا ہے اور سامع کاذہن ’’بدبو‘‘ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
تعقید لفظی بہرحال بری ہوتی ہے لیکن اس صورت میں اور بھی بری ہوجاتی ہے جب کہ دو متعلق لفظوں کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوجائے۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صرف ایک لفظ کے درمیان میں آجانے سے تعقید کی بدترین شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات مفہوم کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ مثلاً جگرؔ،
زمانہ آج ہی غرق شراب تھا زاہد
کچھ او دیر جو وہ چشم نیم باز رہے
’’کچھ اور دیر‘‘ کی ترکیب جس قدر نامطبوع ہے محتاجِ بیان نہیں۔ لفظ ’’اور‘‘ جسے ’’دیر‘‘ کے بعدآنا چاہیے تھا (یعنی ’’کچھ اور دیر‘‘) ’’دیر‘‘ کے پہلے آکر اس ابتری کا باعث ہوا۔ اسی طرح اس شعر میں،
نسیمِ شوق یہ لائی جوابِ نامۂ درد
کچھ اور دن ابھی تکلیفِ اضطراب اٹھا
’’کچھ دن اور‘‘ کی جگہ ’’کچھ اور دن‘‘ کہا ہے اور دونوں فقروں کے مفہوم کا فرق ظاہر ہے۔
چاہیے عشق میں مجھے آپ ہی کا جمال سا
داغ ہر ایک بدر ساز خم ہر اِک ہلال سا
پہلے مصرع کے ’’سا‘‘ کودراصل ’’جمال‘‘ سے پہلے آنا چاہیے تھا۔ شاعر کو ’’آپ ہی کا سا جمال‘‘ کہنا مقصود ہے۔ مگر ساکی جگہ بدل جانے سے مصرع کا مفہوم ہی بدل گیا۔
جیسا کہ ہم پیشتر کہہ چکے ہیں۔ ’’عربی اور فارسی کے ایسے بہت سے الفاظ اردو میں رائج ہیں جن کے معنی عربی اور فارسی لغت کی رو سے کچھ اور ہیں اور اردو میں کچھ اور۔ ایسے الفاظ کو اب اردو کے الفاظ سمجھنا چاہیے اور مرکبات میں خصوصاً اضافت کے ساتھ ان کا استعمال جائز نہیں۔‘‘ لیکن اس غلطی سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ شاعر صاحب کو یہ معلوم بھی ہو کہ جن الفاظ کو وہ استعمال کر رہے ہوں وہ تغیر معنی کی بناپر اردو کے الفاظ بن چکے ہیں اور اس خاص معنی کے ساتھ انہیں عربی یا فارسی سمجھنا غلط ہے۔ دورِ حاضر کے اکثر ’’اساتذہ‘‘ کے یہاں اس قسم کی لغزشیں پائی جاتی ہیں۔ فعلاً ہم جناب جگرؔ کے کلام سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں،
ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرہ التفات نے مارا
یہاں خطرہ بمعنی خطر استعمال ہوا ہے مگر اس معنی میں عربی ہے نہ فارسی۔ لہٰذا ’’خطرۂ التفات‘‘ کی ترکیب غلط۔
نسیم شوق یہ لائی جواب نامۂ درد
کچھ اور دن ابھی تکلیفِ اضطراب اٹھا
تکلیف بمعنی دُکھ، درد، رنج، نہ عربی ہے نہ فارسی اس لیے ’’تکلیفِ اضطراب‘‘ کی ترکیب ناجائز۔
اِک جامِ آخری تو پینا ہے اور ساقی
اب دستِ شوق کانپے یا پاؤں لرکھڑائیں
یہ حدِّآخری ہے عاشق کی جستجو کی
بن بن کے مٹ رہی ہے ہر شکل آرزو کی
جامِ آخری اور حدِّ آخری دونوں ترکیبیں غلط ہیں۔
پہلے جو ختم ہوگئی یہ داستانِ غم
تو میں کہوں گا عرصۂ محشر دراز تھا
عرصہ کے معنی ہیں میدان۔ اردو میں یہ لفظ بمعنی مدت مستعمل ہے اور اس شعر میں بھی اسی معنی میں آیا ہے اس لیے ’’عرصۂ محشر‘‘ کی ترکیب صحیح نہیں۔
کوئی تو درد مندِ دلِ ناصبور تھا
مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم ساضرور تھا
’’دردمند‘‘ فارسی میں مصیبت زدہ کے معنی میں آتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں غمخوار و ہمدرد۔ اور اسی معنی میں یہاں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے ’’درد مندِ دلِ ناصبور‘‘ کی ترکیب غلط ہے۔
کیا بلاعشقِ تماشہ ساز ہے
اس کاہر انجام اک آغاز ہے
اردو میں تماشہ (تماشا) کے جومعنی مشہور ہیں وہ فارسی یا عربی میں موجود نہیں۔ اس لیے ’’تماشا‘‘ اس خاص معنی کے ساتھ اردو کا لفظ سمجھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں ’’تماشہ ساز‘‘ کی ترکیب صحیح نہیں ہوسکتی۔
خود اپنے نشہ میں جھومتے ہیں وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خراب مستی بنے ہوئے ہیں ہلاک مستی بنا رہے ہیں
ظنِّ غالب ہے کہ جگرؔ صاحب نے یہ شعر ’’تصوف‘‘ میں کہا ہے۔ اس لیے کہ انسان کی یہ قدرت نہیں کہ اپنا منہ آپ چوم لے (اِلاّ آئینہ میں۔ مگر وہ عکس ہے اصل نہیں ) ہاں خدا کو سب قدرت ہے۔ ان اللہ علیٰ کل شیٔ قدیر۔ مگر اس صورت میں یہ دشواری پیش آتی ہے کہ باتفاق جمہور خداکبھی نشہ میں جھومتا نہیں۔ اور اگر محبوبِ مجازی مراد ہے تو وہ اپنا منہ آپ کو کیونکر چوم سکتا ہے۔
ہم ہیں تیرے ودیعتیں تیری
شکرِ راحت، شکایتِ غم کیا
اگر یہ کہنا مقصود ہے کہ ’’ہم تیری ودیعتیں ہیں‘‘ تو ’’تیرے‘‘ بیکار ہے۔ اور اگر یہ مطلب ہے کہ ہم تیرے ہیں اور تونے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ تیری ودیعتیں ہیں تو یہ مفہوم اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک مصرع میں ’’تونے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ‘‘ کااضافہ نہ کیاجائے۔ موجودہ صورت میں مصرع مہمل ہے۔
قسم ہے تیری پشیمان نگاہیوں کی قسم
مجھی کو خود مری شرم ِوفا نے لوٹ لیا
یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات کسی لفظ کی تکرار سے بیان میں زور پیدا ہوجاتا ہے لیکن اس شعر میں ’’قسم‘‘ کی تکرار بالکل بے محل ہے اور ’’قسم ہے‘‘ کا ٹکڑا محض بیکار۔ بلکہ اس سے مصرع پھسپھسا ہوگیا۔
پھر جنوں سامانیوں میں کچھ کمی سی آچلی
آج پھر برہم مزاجِ حسنِ جاناں کیجیے
’’مزاجِ حسن‘‘ کو بھی برہم کیا جاسکتا ہے اور ’’مزاجِ جاناں‘‘ کو بھی (بلکہ دراصل مزاجِ حسن اور مزاجِ جاناں کے ایک ہی معنی ہیں۔ ) لیکن جگرؔ صاحب کو یہ بالکل نئی سوجھی کہ ’’مزاجِ حسنِ جاناں‘‘ کو برہم کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس میں کوئی عارفانہ نکتہ ہو تو ہم نہایت ادب کے ساتھ اپنا اعتراض واپس لیتے ہیں۔
مجھ سا کوئی دیوانہ تجھے کون ملے گا
آ، اے اجل آ، تو بھی مرے ساتھ ہی مرجا
پہلے مصرع میں ’’کوئی‘‘ اور ’’کون‘‘ کا اجتماع بالکل غلط ہے۔ یا تو ’’کون‘‘ کی جگہ ’’کہاں‘‘ لائیں یعنی ’’مجھ سا کوئی دیوانہ تجھے کہاں ملے گا۔‘‘ یا ’’کوئی‘‘ کو حذف کردیں اور ’’مجھ سا دیوانہ تجھے کون ملے گا‘‘ کہیں۔ اس کے بغیر عبارت صحیح نہیں ہوسکتی۔
عطا کر اے جمالِ حسن وہ داغِ محبت بھی
زبانِ عشق میں جس کو گلِ شاداب کہتے ہیں
جمالِ حسن کی ہلکی سی لہر دوڑاکر
نفس نفس کو مرے جگمگادیا تونے
جس طرح کمزور عقیدے کے لوگ ایک پاگل کو ’’عارف باللہ‘‘ سمجھنے لگتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو نقد و نظر کی صلاحیت اورجرأت نہیں رکھتے، مشہور ہوجانے والے شعراکے مہملات کو بھی طرح طرح کے معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حضراتِ شعرا لوگوں کی اس ذہنیت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بے خوف ہوکر جو جی چاہتا ہے کہتے ہیں۔ مندرج بالا دونوں شعروں میں ’’جمالِ حسن‘‘ کی ترکیب یکسر مہمل ہے۔ کیونکہ جمال اور حسن یہ دونوں لفظ فارسی میں مترادف المعنی ہوگئے ہیں۔ لیکن جگرؔ صاحب کے معتقدین سے پوچھیے تو وہ اس ترکیب کو ’’تخیل کی انتہائی پرواز‘‘ سے تعبیر کریں گے۔
پھنکا جاتا ہے دل جس سوزِ غم سے
جہنم میں یہ چنگاری کہاں ہے
پہلے مصرع میں چونکہ ’’جس‘‘ آیا ہے لہٰذا دوسرے مصرع میں ’’یہ‘‘ کی جگہ ’’وہ‘‘ چاہیے تھا۔ یعنی ’’جہنم میں وہ چنگاری کہاں ہے‘‘، اردو زبان کا قاعدہ ہے کہ اسم موصول یعنی ’’جو‘‘ اور ’’جس‘‘ کی ضمیر ہمیشہ ’’وہ‘‘ ہوتی ہے۔
اس تبسم کے تصدّق اس تجاہل کے نثار خود مجھی سے پوچھتے ہیں، ’’کون یہ دیوانہ ہے‘‘
تجاہل تسلیم، مگر جب کسی شخص سے خطاب کیا جاتا ہے تو وہ الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے جو غائب کے لیے مخصوص ہیں۔ ’’کون یہ دیوانہ ہے‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ جگرؔ صاحب کا محبوب کسی تیسرے شخص کی طرف اشارہ کرکے جگرؔ صاحب سے دریافت کر رہا ہے کہ ’’بتاؤ! یہ دیوانہ کون ہے۔‘‘ اگر اسے خود جگرؔ صاحب کے متعلق دریافت کرنا ہوتا تو اس طرح کہتا کہ ’’اے دیوانے تو کون ہے‘‘ اس قسم کے بے تکے خطاب جگرؔ صاحب کے ہاں بہت ہیں۔
یوں ہیں مری نگہ میں نقش و نگار کائنات
عالمِ خواب جس طرح دیدہ نیم باز میں
’’عالمِ خواب‘‘ کے لیے ’’دیدہ نیم باز‘‘ کی قید بالکل بے کار ہے۔ کیا انسان صرف اسی وقت خواب دیکھتا ہے جب کہ اس کی آنکھیں بند اور آدھی کھلی ہوں۔ دیدہ نیم باز کی جگہ دیدۂ خوابیدہ یا دیدۂ خفتہ کہنا چاہیے تھا۔
اسی صورت سُنادیتے ہیں ان کو واردات اپنی
کہ جیسے ہم کسی کی داستانِ خواب کہتے ہیں
اردو میں واردات کے معنی ہیں کوئی ہنگامہ یا حادثہ جیسے قتل، خون، ڈاکہ، چوری وغیرہ۔ مگر ظاہر ہے کہ شاعر اپنے متعلق اس قسم کا کوئی واقعہ محبوب کو نہیں سنارہا ہے۔ اس کی مراد ’’وارداتِ قلب‘‘ سے ہے۔ مگر وہ صرف ’’واردات‘‘ سے یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا اور سامع کاذہن فوراً کسی ہنگامہ یا حادثہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
ان آنکھوں کا نہ پوچھو ضبط جن آنکھوں نے دیکھا ہے
سحر ہونے سے پہلے شمع کا بے نور ہوجانا
اس شعر کی نثر اس طرح ہوگی: ’’جن آنکھوں نے سحر ہونے سے پہلے شمع کا بے نور ہوجانا دیکھا ہے ان کا ضبط نہ پوچھو۔۔۔‘‘ یا۔۔۔ ان آنکھوں کا ضبط نہ پوچھو جنہوں نے سحر ہونے سے پہلے شمع کا بے نور ہوجانادیکھا ہے۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں آنکھوں کی تکرار صحیح نہیں یا تو ’’ان آنکھوں کا‘‘ کے بجائے صرف ’’ان کا‘‘ کہنا چاہیے۔ یا ’’جن آنکھوں‘‘ کے بجائے ’’جنہوں نے‘‘
نقوشِ پر تورنگینی دل دیکھنے والے
کبھی خود کو بھی دیکھ اور خود سے غافل دیکھنے والے
اس شعر میں مخاطب کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں ایک ’’خود سے غافل‘‘ اور دوسری ’’نقوشِ پر تورنگینیٔ دل دیکھنے والے‘‘ نثر کی جائے تو اس طرح ہوگی۔
’’او خود سے غافل! (او) نقوش پر توِرنگینی دل دیکھنے والے! کبھی خود کو بھی دیکھ۔‘‘
اس صورت میں دوسرے مصرع کی ردیف (دیکھنے والے ) برائے بیت ہے۔
شمع چُپ پروانے ششدر، اہلِ دل سب دم بخود
ہائے کیا تصویر کا عالم تری محفل میں ہے
جگر صاحب کے محبوب کی محفل میں شمع ’’چُپ‘‘ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شمع کبھی بولتی بھی ہے۔ اور اگر بولتی نہیں تو یہاں چپ کہنے کا کیا حاصل؟ اور اگر یہ چپ ’’خاموش‘‘ کا ترجمہ ہے تو ایک نئی مشکل کا سامنا ہے۔ کیونکہ فارسی میں شمع کاخاموش ہوجانا شمع کے بجھ جانے کو کہتے ہیں۔ اگر چپ سے مراد ’’بجھی ہوئی‘‘ شمع ہے تو پھر وہاں سچ مچ کے پروانوں کا کیا کام؟
ہاں ترے عہد میں جگر کے سوا
ہر کوئی شادمان ہے پیارے
جگرؔ صاحب نے اس مصرع میں۔ ’’فخرِ ہندوستان ہے پیارے۔‘‘ ہندوستان کے نون کا اعلان جائز بتایا ہے لیکن مذکورہ بالا شعر میں ’’شادمان‘‘ کے نون کے اعلان کے متعلق اپنی رائے کا اظہار نہیں فرمایا لہٰذا قارئین خود فیصلہ کرلیں۔
چیخی ہے کس انداز سے کس کرب و بلا سے
دل ٹوٹ گیا نالۂ بلبل کی صدا سے
’’کرب سے چیخنا‘‘ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ’’بلا سے چیخنا‘‘ کیا معنی؟
سمجھ میں جو نہ آئے اور بے سمجھے نہ رہنے دے
اسی کانام شاید عشق میں نامِ تمنا ہے
جو سمجھ میں نہ آئے اور بے سمجھے نہ رہنے دے، شاید عشق میں اسی کانام، نامِ تمنا ہے۔ بہت خوب۔ اگر یوں کہتے کہ ’’اسی کا نام تمنا ہے‘‘ تو ہر شخص سمجھ سکتا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ’’اسی کانام، نامِ تمنا ہے‘‘ ایک خاصی پہیلی ہے جس کو ’’یا سمجھیں میاں آزاد یا منشی ذکاء اللہ۔‘‘ جگرؔ صاحب کی ایک غزل کا مطلع ہے،
عاشقی یاس کی محکوم ہوئی جاتی ہے
بیکسی اب مرا مفہوم ہوئی جاتی ہے
اسی غزل کا دوسرا شعر ہے،
دل ہوا خاک تپِ غم سے مگر دل کی جگہ
اک خلش سی مجھے معلوم ہوئے جاتی ہے
اس شعر میں جب تک ’’ہوئی‘‘ کو ’’ہوئے‘‘ نہ پڑھیں صحیح مفہوم ادا نہیں ہوسکتا اور اگر ’’ہوئے‘‘ پڑھیں تو ردیف غلط ہو ئی جاتی ہے۔ یہی حال اس شعر کا ہے،
دل دھڑکنا بھی غنیمت ہے تری فرقت میں
کہ خبر تو مجھے معلوم ہوئے جاتی ہے
یہاں بھی ’’ہوئے جاتی ہے‘‘ پڑھنا پڑے گا۔ ورنہ مطلب خبط ہوجائے گا۔
شوق کی انتہا کہو یا کہ فریبِ عاشقی
شورانا الحبیب کا خاصہ مقام ہے
پہلے مصرع میں ’’کہ‘‘ زائد محض ہے لیکن جگہ پر کرنے کے لیے اس کا لانا ضروری تھا۔
محبت عین مجبوری سہی لیکن یہ کیا باعث
مجھے باور نہیں آتا مرامجبور ہوجانا
’’یہ کیا باعث‘‘ کہنا صحیح نہیں۔ ’’اس کا کیا باعث‘‘ چاہیے۔ ’’باورآنا‘‘ بھی محل نظر ہے۔ ’’مرا‘‘ کی جگہ ’’اپنا‘‘ چاہیے۔
لے لیا کام جو لینا تھا غم ہستی نے
گرچہ ثابت نہ ہوئی میری ضرورت مجھ کو
’’میری ضرورت‘‘ کی جگہ ’’اپنی ضرورت‘‘ چاہیے۔
گل ویرانہ کو کیا اہلِ ہوس سے مطلب
ننگ ہے میری پریشانی نکہت مجھ کو
یہاں بھی ’’میری پریشانی‘‘ کی جگہ ’’اپنی پریشانی‘‘ چاہیے۔
ابر رحمت گھر کے جس دن قطرہ زن ہوجائے گا
قطرہ قطرہ غیرتِ دُرِّعدن ہوجائے گا
’’قطرہ زن‘‘ کے معنی ہیں ’’ہرزہ گرد‘‘ اورصلۂ ’’بَر‘‘ کے بغیر مجرد قطرہ زدن کے معنی باریدن کے نہیں آتے لہٰذا اس شعر میں ’’قطرہ زن‘‘ بالکل غلط ہے۔
ٹھونس ٹھانس (جسے اصطلاح میں حشو کہتے ہیں ) دورِحاضر کے ’’اساتذہ‘‘ کے یہاں بھی اسی کثرت سے موجود ہے جیسی ان کے پیش روؤں کے یہاں پائی جاتی ہے۔ جب دیکھتے ہیں کہ کسی جملہ یا فقرہ سے مطلب تو پورا اداہوگیالیکن مصراع پورا نہیں ہوا تو خواہ مخواہ کسی لفظ کا مترادف اس میں ٹھونس دیتے ہیں۔ یہ نامطبوع رسم اِس درجہ عام ہوگئی ہے کہ اب لوگوں کو اسکی ناخوشگواری کااحساس تک نہیں ہوتا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،
جگرؔ، مل گئیں نظروں سے نظریں اور مل کر رہ گئیں
چشم ساقی دیکھ کر کیا جام و ساغر دیکھتے
زاہدِ مسجد نشیں ہیں اور اک ٹوٹا ساظرف
میکدہ میں اہتمام جام و ساغر دیکھتے
اردو میں جام اور ساغر کے ایک ہی معنی ہیں اس لیے جام یا ساغر ایک لفظ محض بیکار ہے۔ اسی طرح اس شعر میں،
یہی صہبا، یہی ساغر، یہی پیمانہ ہے
چشم ساقی ہے کہ میخانہ کا میخانہ ہے
ساغر و پیمانہ چونکہ مترادف ہیں اس لیے دونوں میں سے ایک بیکار ہے۔ نہ صرف اس قدر بلکہ اس ٹھونس ٹھانس کی وجہ سے شعر پست ہوگیا۔ دوسرے مصرع میں چشم ساقی کو میخانہ سے تشبیہ دی گئی ہے لہٰذا پہلے مصرع میں میخانہ کے زیادہ سے زیادہ جتنے لوازم بیان ہوسکتے تھے بیان کرنے چاہیے تھے مثلاً اگر پہلا مصرع اس طرح ہوتا تو کہیں بہتر تھا۔ ع: یہی صہبا، یہی مینا، یہی پیمانہ ہے۔
سرداد گانِ عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے
فراق بھی ہے وصال بھی ہے ہر ایک لحظہ ہر ایک ساعت
فراق کیا ہے وصال کیا ہے جو کوئی پوچھے خبر نہیں ہے
جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا
یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانہ ہے
بیتاب و مضطرب تھے یہ دردِ نہاں سے ہم
کچھ دور آگے بڑھ گئے عمرِ رواں سے ہم
اسی تلاش و تجسس میں کھوگیا ہوں میں
اگر نہیں ہوں تو کیونکر جو ہوں تو کیا ہوں میں
دور ہٹنا نہ منزلِ دل سے
وصل بھی ہے یہیں وصال بھی ہے
عشق اور محبت، لحظہ اور ساعت، شکوہ اور شکایت، حسن اور جمال، بیتاب اور مضطرب، تلاش اور تجسس، وصل اور وصال، اردو میں مترادف ہیں۔ البتہ وصل اور وصال میں یہ فرق ضرور ہے کہ بقولِ شاعر ’’لوگ مرنے کو بھی کہتے ہیں وصال‘‘ لیکن جگرؔ صاحب نے وصال بظاہر اس معنی میں استعمال نہیں کیا۔
اس مضمون میں ہم نے زیادہ تر اغلاطِ زبان سے بحث کی ہے۔ اگر جگرؔ صاحب کے ان تمام اشعار پر بھی تبصرہ کیا جائے جن میں علم بیان و بلاغت کی رو سے خامیاں پائی جاتی ہیں تو ساقیؔ کاایک پورا نمبر اسی کی نذر ہوجائے گا۔
حاشیہ
(۱) روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ۔ غالبؔ
(۲) جگرؔ کی تائید میں کوئی صاحب غالبؔ کا یہ مصرع پیش نہ کریں۔ ع: ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے۔ کیونکہ وہی اعتراض اس پر بھی عائد ہوتا ہے۔ (ح)
(۳) امیر:
آنکھیں دکھلاتے ہو جو بن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
ہزار چشم عنایت ہو پھر بھی کیا حاصل
وہ ایک شے بھی اگر شاملِ نگاہ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.