دکن کی دانش گاہوں میں اردو تحقیق اورتنقید
ہندوستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں اب بھی اردو کے ایسے عالم وفاضل اور جنونی قسم کے بلند پایہ ادبا وشعر اموجود ہیں جنھوں نے اردو کی محبت وخدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے ۔اردو کے یہ متوالے حرص وہوس اور سود وزیاں کی پرواہ کیے بغیر اردو ادب میں ایسے تحقیقی،تنقیدی ،تخلیقی اور تاریخی کارنامے انجام دے چکے ہیں کہ جو باعث حیرت ہیں ۔اللہ تعالیٰ اردو کے ایسے قابل ترین ،محنتی اور مخلص بزرگوں کاسایہ اردو کی نئی نسل کو نصیب کرتا رہے تاکہ اردو ادب کے ان روشن دماغوں کی روشنی سے اردو کی نئی نسل اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر کرتی رہے !
علیم صبا نویدی کا شمار بھی اردو کے جیّد عالموں میںہوتا ہے ۔وہ اردو کی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں ۔تامل ناڈو(مدراس)جیسے غیر اردو ادبی ماحول میں رہتے ہوئے انھوں نے اردو شعر وادب کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ حیرت زا ہیں ۔اُن کی حیثیت اردو ادب میں ایک شاعر ،افسانہ نگار ، نقاد،محقق اور تاریخ نویس کی ہے ۔شاعری میں تقریباً تمام اصناف ِ سخن کے ساتھ انھوں نے اپنا جذباتی اور وجدانی رشتہ استوار کیا ہے ۔افسانہ نگاری کے ذریعے بھی اُنھوں نے اپنے تخلیق کار ہونے کا اعتراف کرایا ہے ۔یہ وہی علیم صبا نویدی ہیں جنھوں نے ’’تاریخ ادب اردو تامل ناڈو‘‘(جلد اوّل2017ء میں، ایک ہزار چھ سو صفحات پہ مشتمل اور جلد دوم 2018ء میں ،ایک ہزاردوسو صفحات پہ مشتمل )اردو دنیا کو پیش کی ہے ۔اُن کی علمی، ادبی اور تاریخی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ ناوک حمزہ پوری نے علیم صبا نویدی کو بابا ئے اردو تامل ناڈو کے خطاب سے سرفراز کیا ہے۔جس کا اعتراف اردو ادب کے معتبر ادیب اور نقاد جناب فاروق ارگلی نے بھی کیا ہے۔نئے نئے علمی وادبی موضوعات کی تلاش میں رہنااُن کو اپنے فکر وشعور کا حصہ بنانا علیم صبا نویدی کی انفرادیت اور عادت میں شامل ہے ۔اُن کے تخلیقی ،تحقیقی،تنقیدی اور تاریخی ذہن کی زرخیزیت کمال کی ہے ۔اس بات کا جواز اُن کے ادب پاروں سے مترشح اور نمایاں ہے ۔کسی بھی طرح کا کام کیوں نہ ہو یا کسی بھی منزل تک پہنچنے کا ارادہ کیوں نہ ہو اُسے حاصل کرنے اور کسی مقام ومرتبے پر پہنچنے کے لیے ذوق وشوق کا ہونا شرط اوّل ہے ۔ورنہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے اور ارمان صرف ارمان رہ جاتے ہیں اُن کی تکمیل تبھی ممکن ہے جب انسان محنت ولگن اور ذوق وشوق سے کام کرے گا۔محنت ولگن ذوق وشو ق کے تابع ہوتی ہے ۔
علیم صبا نویدی اسّی (80) سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ۔اُن کا ذہن ودل تخلیقی ،تنقیدی ،تحقیقی اور تاریخی آماجگاہ ہے کہ جس متحرک ،بیدار اور فعال ذہن میں علم وادب کے نئے نئے منصوبے تیار ہوتے ہیں ۔اُن کا مطالعہ بہت وسیع اور مشاہدہ گہرا ہے ۔مطالعے اور مشاہدے کا چولی دامن کاساتھ ہوتا ہے ۔مطالعہ ،انسان کو واقفیت کے ساتھ ساتھ زبان سیکھنے میں مدد کرتا ہے جب کہ مشاہدہ انسان کو حقائق پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔
تحقیق، ایک محنت طلب ،صبر آزما اور حق کی تلاش وجستجو کانام ہے ۔اردو ادب میں اُن محققین کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ درجنوں میں ہے جنھوں نے تحقیق میں اُصولوں کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ محنت کی ہے ۔یہاں تحقیق اور تنقید کے بارے میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تحقیق کسی مسٔلے ،موضوع اور نامعلوم حقیقت کومعلوم کرنے کا نام ہے ۔جب کہ تنقید کسی فن پارے یاادب پارے کے محاسن ومعائب کی عالمانہ انداز میں نشاندہی کرنا ہے۔ جیسا کہ اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ علیم صبا نویدی ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں ۔اُن کی ایک ادبی جہت اُن کے معتبر محقق ہونے سے تعلق رکھتی ہے ۔اُن کی متعدد تحقیقی کتب میں اُن کا تحقیقی وتنقیدی شعور کارفرما نظر آتا ہے ۔’’دکن کی دانش گاہوں میں اردو تحقیق اور تنقید‘‘اُن کا ایک ایسا تحقیقی کارنامہ ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے کے دوران موصوف کی معلومات اور حقائق کی بازیافت میں اُن کی عرق ریزی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔مذکورہ کتاب میں اُنھوں نے دکن میں اردو تحقیق کے ابتدائی مراحل سے لے کر عصر حاضر تک کی تحقیقی سرگرمیوں کا احاطہ کیا ہے ۔بالخصوص انھوں نے دکنی دانش گاہوں ( یونیورسٹیوں )کو موضوع بنایا ہے کہ جہاں کئی اہم ادبی موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ۔اس سلسلے میں کرناٹک،گلبرگہ،مدراس،کیرلا اور حیدر آباد کی دانش گاہوں میں تحقیقی سرگرمیوں کو جانچا پرکھا گیا ہے ۔تحقیق اور تحقیقی کارناموں کے بارے میں علیم صبا نویدی نے بڑی اہم اور معلوماتی باتوں کا انکشاف کیا ہے۔مثلاًا نھوں نے لفظِ ’تحقیق‘کی صراحت ووضاحت ایک جگہ ان الفاظ میں کی ہے :
’’انگریزی میں ریسرچ کے معنی ہیں کسی نئی چیز کی تلاش یا حقیقت اور سچائی کی کھوج لگانا ۔اردو میں اس عمل کو تحقیق کہا جاتا ہے جو حق سے مشتق ہے اور بے حد معنی خیز ہی نہیں بلکہ بڑی وسعتوں کا حامل ہے ۔ تحقیق ،دراصل ایک نفسیاتی قوت اور صلاحیت کا نام ہے جو چند ہی انسانوں کو نصیب ہوتی ہے ۔تحقیق ،ادب اور زندگی دونوں کی راہ بر ہوتی ہے ۔تحقیق جب ادب میں سچائی کی منزل کو چھوتی ہے تو اُس کا اثر زندگی پر بھی عکس ریز ہوتا ہے‘‘
( مشمولہ۔’’دکن کی دانش گاہوں میں اردو تحقیق اور تنقید‘‘ص2)
تحقیق کے بارے میں علیم صبا نویدی کی یہ تعریف جامع اور بڑی معنی خیز معلوم ہوتی ہے ۔تحقیق کو نفسیاتی قوت سے تعبیر کرنا ان معنوں میں بالکل درست ہے کہ ا گر آدمی میں کسی حقیقت تک پہنچنے کا مادہ نہیں ہوگا تو وہ ہرگز تحقیق جیسے مشکل اور صبر آزما کام کو ہاتھ نہیں لگائے گا ۔میں تحقیق کو سچ کا کاروبار کہتا ہوں ۔
زیر نظر تصنیف میں علیم صبا نویدی نے دکن کی دانش گاہوں میں اردو تحقیق وتنقید کو بڑے استدالالی اور عرق ریزی کے ساتھ اُن تمام ابتدائی ،وسطی اور عصری محققین کے تحقیقی کارناموں کا پتا لگایا ہے کہ جنھوں نے اردو شعر وادب کی تقریباً تمام اصناف کے حوالے سے منفرد اور اہم موضوعات پر مقالات تحریر فرمائے ہیں ۔اگر چہ نصیر الدّین ہاشمی کی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘اپنی ضخامت کے ساتھ معلومات کا ایک اہم اور بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے لیکن علیم صبا نویدی نے بالخصوص دانش گاہوں میں اردو تحقیق کی صورتحال سے جس طرز استدلال سے واقف کرایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اُنھوں نے نہایت باریک بینی اور تلاش وجستجو کے ساتھ ایک ایسی تصنیف کو منظر عام پر لایا ہے جس کا مطالعہ اردو میں تحقیق کرنے والوں کے لیے ناگزیر ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عصر حاضر میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں تحقیق اُس پائے کی نہیں ہورہی ہے جس طرح پہلے ہوا کرتی تھی ۔اب ڈگری حاصل کرنے کی اک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے اور کچھ نگران بھی پرموشن کے چکر میں رہتے ہوئے گھٹیا قسم کا مال اپنے کھاتے میں جمع کرواتے رہتے ہیں ۔علیم صبا نویدی نہایت محنتی ،باذوق ،شریف النّفس اور پہاڑوں کا سینہ چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کثیر مطالعے،گہرے مشاہدے ،مسلسل مشق ِ سخن ومشق تحریر نے اُنھیں ایک طرح کا علمی وادبی کمپیوٹر بنادیا ہے ۔دراصل وہ شعر وادب کے ایک ایسے رسیا ہیں جنھوں نے زندگی کا ہر لمحہ اردو کی خدمت کے لیے وقف کررکھا ہے ۔ایسے باکمال ادیب وشاعر اب اردو دنیا میں ناپید ہورہے ہیں ۔اللہ کرے کہ علیم صبا نویدی صحت وتندرستی اور صادق جذبے کے ساتھ اسی طرح اردو کی خدمات انجام دیتے رہیں !
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.