دہلی 1945ء میں
یہ سنہ دنیا کی تاریخ میں جرمنی کی شکست کی وجہ سے تو شاید ہمیشہ اہمیت رکھے لیکن میں نے اس مضمون کا عنوان کسی سیاسی واقعہ کی وجہ سے ہرگز نہیں رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سال مئی کی چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں میرا دہلی جانا ہوا۔ اور چند روز کے قیام میں حسب معمول اپنے علم دوست احباب سے ملا۔ آبادی کی کثرت سے شہر ذرا گندہ ہوگیا ہے اور گرانی نے پوشاک کی صفائی اورنفاست کو بھی گھٹادیا ہے۔ تاہم شعر و سخن کا ذوق اور زبان کی چاشنی ابھی برقرار ہے۔ جامع مسجد کی نواح میں سودے والوں کی آوازیں اورراہ گیروں کے آوازے اور پھبتیاں دہلی والوں کی شوخیٔ طبع اورظریف مزاجی کا ثبوت دینے کے لیے اب بھی ویسی ہی پھڑکا دینے والی ہیں جیسی چالیس برس پہلے تھیں۔ رات کو گلیوں میں گزرنے والے اپنی سریلی آواز سے خود اپنا اور اس طرف کے رہنے والوں کا دل خوش کرتے ہیں۔ فرق اتنا ہوگیا ہے کہ بجائے ظفرؔ اور داغؔ کی غزلوں اور موسمی گیتوں کے اب سینما کے مقبول راگ گائے جاتے ہیں۔ باہر والوں کو یہاں کے آزاد منش اور بے فکروں کی بات چیت اور میل جول کا طریقہ شاید پسند نہ آئے۔ لیکن دہلی والے کے لیے ان میں ایک خاص کشش ہے اور یہی وجہ ہے کہ چند سال قبل جب باہر کے ایک ادیب نے دہلی والوں کی زبان اور علم کے متعلق شکایت کی تھی تو مجھے صدمہ ہوا۔ اس ستم ظریف نے تو مجھ سے اور مرزا فرحت اللہ بیگ سے کھلے مجمع میں چھٹتے ہی کہا کہ آپ ایسی جگہ ملے ہیں جہاں علمی صحبت اور خوش مذاقی کا کال ہے۔ اگرمیرے وطن میں ملتے تو آپ کاایسے اصحاب سے تعارف کراتا جن سے مل کرآپ کادل خوش ہوتا۔ میں نے ان ادیب صاحب کو تو اس وقت شائستہ جواب دے دیا اور وہ کچھ سٹ پٹا سے بھی گئے۔ لیکن ممکن ہے کہ ان کے ہم خیال باہر کے اورتعلیم یافتہ بھی دہلی میں موجود ہوں اس لیے ایسی غلط فہمیوں کے رفع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اور یہی اس مضمون کے لکھنے کی غرض ہے۔
گزشتہ صدی کے آخر اور موجودہ صدی کے شروع میں دہلی کے ذہین اور طباع لوگ کثرت سے باہر چلے گئے۔ لیکن اس مبارک خطہ کی خدادا د ذہانت نے اس نقصان کو کبھی محسوس ہونے نہ دیا۔ اور ہر محلے کی گلی کوچے میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے کردار صحیح ذوق اورلطافتِ زبان سے باہر والے استفادہ کرسکتے ہیں۔ گزشتہ چالیس برس سے باہر رہنے کی وجہ سے میرے دوستوں اورعزیزوں کا دائرہ بہت محدود ہوگیا ہے اور اس مرتبہ میرا قیام بھی وہاں صرف پانچ روز رہا لیکن جن چند محترم ہستیوں سے ملنا ہوا ان کے اخلاق، طرز زندگی اور علمی اور ادبی کارنامے میرے دعوے کی روشن دلیل ہیں۔ لیجیے سنیے :
میں اول مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے گیا۔ یہ ہاپڑ کے رہنے والے ہیں جس کو مضافات دہلی میں سے سمجھنا چاہیے۔ علی گڑھ میں تعلیم پائی اور وہیں سے بی۔ اے پاس کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بانی کالج سرسید اور ان کے طباع فرزند جسٹس محمود کے طالب علموں سے ذاتی تعلقات رہتے تھے۔ انہی دنوں میں مولوی عبدالحق صاحب کو حالیؔ سے بھی تعارف حاصل ہوگیا۔ اور جو فیضان اردوزبان کی آئندہ خدمت کے لیے مولوی عبدالحق صاحب کو حالیؔ سے نصیب ہوا وہ ان کے مضامین اور تقریروں سے واضح ہے۔ تعلیم ختم کرنے کے بعد مولوی صاحب حیدرآباد چلے آئے۔ جہاں سرشتہ تعلیمات میں عرصہ تک ملازم رہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام میں ان کانمایاں حصہ ہے۔ دارالترجمہ کو مولوی صاحب ہی نے قائم کیا اور جب تک وہ چل نہ گیا اس کے ناظم رہے۔ بعدمیں جامعہ عثمانیہ کے اردو کے شعبہ کے صدر مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب کے مضامین، مقدمے اور مصححہ کتابیں ان کے علم و فضل کے مسلم ثبوت ہیں۔ انجمن ترقی اردو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے طفیل پیدا تو ہوگئی تھی لیکن سابق معتمدین کی گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے اس کو پروان چڑھنا نصیب نہیں ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس ناتواں بچے کی نگہداشت اور پرورش اس محبت اور ایثار سے کی کہ اب وہ ایک طاقت ور جوان ہوگیا ہے۔ اورملک اور قوم کی خدمت نہایت مستعدی اور دلیری سے انجام دے رہا ہے۔ مولوی صاحب طالب علموں کے ہمیشہ دوست رہے۔ اور ان کی شفقت اور دستگیری سے بہت سے ہونہار دولتِ علم سے مالا مال ہوگئے۔ طبیعت میں سادگی ہے۔ لیکن بے انتہا غیور ہیں۔ قومی جذبہ رکھتے ہیں اور تعصب اور مذہبی تنگ نظریوں سے پاک ہیں۔
جس روز میں مولوی صاحب سے ملنے گیا ان کو تیز بخار تھا۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ ان کی تیمارداری کر رہے تھے۔ یہ مولوی صاحب کے کردار کی جاذبیت ہے کہ انہوں نے پنڈت جی کو ایسا گرویدہ کرلیا ہے کہ وہ ان کے ہاں رہ پڑے ہیں۔ دتا تریہ صاحب خود اردو زبان کے فاضل اور پایہ کے ادیب ہیں۔ اردو نظم و نثر کی ترقی کی تعریف جب لکھی جائے گی تو پنڈت جی کا نام اس میں نمایاں نظر آئے گا۔ خوش رو، ستودہ خصال، قدیم دہلی کی وضع داری اور اخلاق کو دیکھنا ہو تو انہیں دیکھ لو۔ مجھ سے مرزا فرحت اللہ بیگ کے متعلق دریافت کرنے لگے کہ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔ جب سے پنشن ہوئی ہے صحت اچھی نہیں رہتی۔ پھر بھی اردو زبان کی خدمت میں منہمک ہیں اور مضامین کا سلسلہ جاری ہے۔ جب رخصت ہونے لگا تو پنڈت جی نے پوچھا کہاں ٹھیرے ہو۔ میں نے کہا پنڈت کے کوچے میں۔ فرمانے لگے۔ ایک زمانہ میں ڈپٹی نظام الدین خاں اور میر مہدی مجروح سے ملنے اکثر وہاں جایا کرتا تھا۔ میں نے کہا ڈپٹی نظام الدین خاں کا مکان تو مجھے معلوم ہے لیکن میر مہدی مجروحؔ تو شاید فراش خانہ میں رہتے تھے۔ یہ میں نے اس بناپر کہا کہ میر مہدی مجروحؔ سے میری دادی کا رشتہ تھا۔ اور ان کے بعض اقارب فراش خانہ میں رہتے ہیں۔ پنڈت جی کہنے لگے یہ بہت دنوں کی باتیں ہیں۔ آپ کی عمر کم ہے۔ میر مہدی مجروحؔ آخروقت تک پنڈت کے کوچے میں رہے۔
دوسرے روز جب صبح کو میں مولوی صاحب کی خیریت کو گیا تو ان کا مزاج بہتر تھا۔ نواب منظور جنگ بہادر کا ذکر ہونے لگا۔ جو میرے اور مولوی صاحب دونوں کے گہرے دوست ہیں۔ اتنے میں سید ہاشمی فرید آبادی آگئے۔ اس روز ان کو کسی شادی کی محفل میں جانا تھا۔ اس لیے ریشمی کپڑے کی نہایت نفیس شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ سفید مخمل کے سلیم شاہی جوتے کو جس پر کلابتون کا کام ہوا تھا دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا۔ اور میں نے کہا ہاشمی صاحب ابھی ٹھاٹ چلے جاتے ہیں کہنے لگے کیا پوچھتے ہو۔ لیکن یہ سب سامانِ زیبائش حیدرآباد کا ہی ہے۔ ہاشمی صاحب کے والد نواب سید احمد شفیع مرحوم گو فرید آباد کے جاگیردار تھے لیکن ہاشمی صاحب کی بول چال اور طرز تکلم میں ان کی ننہیال یعنی لوہارو والوں کا اثر غالب ہے۔ بذلہ گوئی، لن ترانی، کسی کو نہ گانٹھنا۔ اور اگر عیب جوئی پہ آجائیں تو مخالف کے پرخچے اڑادیں۔ لیکن ساتھ ہی دوستوں کے دوست، ذہین، طباع، عالم، فاضل، پختہ کار شعر گو، منجھے ہوئے نثر نویس۔ باہر والوں کی ذرا ان سے نبھنی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ دہلی کے اس آزاد منش اور صاف گو طبقے سے ہیں کہ جہاں کسی سے چوک ہوئی اور انہوں نے لولو بنادیا۔ ہاشمی صاحب نظم کم لکھتے ہیں۔ لیکن جب طبع آزمائی کرتے ہیں تو جدت اور ظاہری حسن کے علاوہ ان کے کلام میں حقیقت کی گہرائیاں بھی نظر آتی ہیں۔
اسی روز میں مشتاق احمد زاہدی سے ملنے گیا۔ یہ رشتے میں میرے بھائی بھی ہیں۔ ان کے نانا حافظ عزیزالدین مرحوم اور میرے نانا کپتان حسین علی مرحوم چچازاد بھائی تھے۔ دونوں شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی اولاد۔ زاہدی صاحب نہیں تھے ان کے بیٹے آصف سے ملاقات ہوئی۔ شام کو مشتاق احمد زاہدی خود ملنے کے لیے پنڈت کے کوچے چلے آئے۔ بہت دیر تک بات چیت ہوتی رہی۔ زاہدی صاحب کی عمر اڑسٹھ برس کی ہے۔ لیکن ان کی آواز کا خاص رس اور طبیعت کی شوخی اب تک موجود ہے۔ دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں تعلیم پائی۔ بعد میں علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا۔ دونوں جگہ ان کی انگریزی اور اردو کی قابلیت کی دھاک رہی۔ ابتدائی زمانے کے اردو رسالوں میں مضامین لکھتے رہے۔ ملازمت کے سلسلے میں بہاول پور چلے گئے۔ جہاں پہلے تاریخ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ بعد میں بہاول پور کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ چند سال ہوئے پنشن لے کر دہلی آگئے ہیں۔ صحت اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی علمی شوق چلا جاتا ہے۔ رسالوں میں بھی ان کے مضامین چھپتے ہیں۔ ریڈیو پر بھی بعض اوقات تقریر کرتے ہیں۔ گھر پر بھی جو احباب اور آشنا آتے ہیں ان سے ادب و فن پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اردو نہایت سلیس لکھتے ہیں۔ خیالات میں جدید رجحان ہے۔ لیکن رائے ہمیشہ معقول ہوتی ہے۔ زاہدی صاحب دہلی کے شرفاکے ایسے طبقے کی مثال ہیں جس نے مغربی تعلیم سے فیض تو حاصل کیا ہے لیکن اپنی تہذیب کو نہیں گنوایا ہے۔
تیسرے روز میں اپنے پرانے دوست خواجہ عبدالمجید صاحب سے ملنے مٹیا محل گیا۔ یہ عمر میں مجھ سے چھ سات برس بڑے ہیں۔ ان کے والد بزرگوار عبدالرحیم خاں صاحب حیدرآباد میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کے عہدہ پر فائز تھے۔ خواجہ صاحب نے مدرسہ کی تعلیم حیدرآباد میں ہی پائی اورنظام کالج میں بھی پڑھا۔ لیکن بعد میں دہلی آگئے۔ اور سینٹ اسٹیفنز کالج سے پنجاب یونیورسٹی کا بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ خواجہ صاحب کا خاندان ہمیشہ دہلی کے شرفا میں شمار ہوتا رہا ہے۔ اور علم و فضل کا سرپرست رہا ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کے خسر کرم اللہ خان صاحب مرحوم جو ننھے خان صاحب کے نام سے مشہور تھے خود اچھے شاعرتھے۔ شیداؔ تخلص تھا۔ لیکن ان کی بڑی خوبی شعراء کی قدردانی اور ہمت افزائی تھی۔ مشاعرے کی محفلوں کا اہتمام بڑے شوق سے کرتے تھے۔ خاندان کی اس روایت کو اب خواجہ صاحب کے لائق صاحبزادے خواجہ محمد شفیع نہایت خوبی سے نبھا رہے ہیں۔ خواجہ عبدالمجید صاحب شاعر نہیں لیکن شعر وسخن کے قدردان ضرور ہیں۔ نثر اچھی لکھتے ہیں۔ ان کے خیالات میں ہمیشہ اچھوتا پن ہوتا ہے۔ سینٹ اسٹیفنز کالج میں پہلے اعزازی طور سے فارسی کے پروفیسر رہے۔ پھر شاید کچھ اصولاً معاوضہ بھی لیا ہو۔ لیکن اتنا کہ وہ ان کی سواری اور ناشتہ کے خرچ کے لیے کافی ہوتا ہوگا۔ بزرگوں کی جائداد کی آمدنی کافی ہے جس میں خواجہ صاحب نے اپنے حسن تدبیر سے اضافہ کیا ہے۔ جو مسلمان رؤسا کے لیے قابل تقلید ہے۔ خواجہ صاحب ہنس مکھ، مرنج مرنجان، وضع کے پابند، خوش لباس، اب انگرکھا اورشیروانی پہنتے ہیں، ایک زمانہ میں انگریزی لباس کا شوق تھا۔ اور بولر ہیٹ بھی لگاتے تھے۔ میں جب مکان پر پہنچا تو خواجہ صاحب ناشتہ تو کرچکے تھے لیکن چائے نہیں پی تھی۔ مجھے محبت سے شریک کرنا چاہا۔ لیکن میں گھر سے ناشتہ کرکے روانہ ہوا تھا اس لیے معذرت کی۔ مزاج پرسی کے بعد میں نے صاحبزادے کو پوچھا۔ کہنے لگے انشاء اللہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ اتنے میں خواجہ محمد شفیع مسکراتے ہوئے آگئے۔ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ میں نے کہا شفیع صاحب پچھلی مرتبہ آپ نے جو مشاعرہ کی مجلس کا اہتمام کیا تھا اس کی یاد ابھی تازہ ہے۔ کہنے لگے آج اتوار ہے مجلس منعقد ہوگی۔ ضرور تشریف لائیے۔ میری اس روز ایک عزیز کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت تھی۔ اس لیے میں نے عذر کیا۔ فرمایا۔ شام کے چھ بجے آجائیے۔ اور جب تک ٹھیرسکیں ٹھیریے گا۔ میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا۔ پھر فرزند صاحب نے محترم باپ سے کہا یہ بقائی صاحب کے صاحبزادے آپ سے مضمون مانگنے آئے ہیں۔ خاص نمبر نکالنے والے ہیں۔ خواجہ عبدالمجید صاحب نے فرمایا۔ جلدتو میں مضمون نہیں لکھ سکتا لیکن ایک تقریر میں نے کچھ عرصہ ہوا ایک مجلس میں کی تھی اسے آپ شائع کرسکتے ہیں۔ وہ اب تک نہیں چھپی ہے۔ میری یہ باتیں بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ باوجود ستر برس کے سن ہونے کے ابھی علمی ذوق ویسا ہی تازہ ہے جیسا جوانی میں تھا۔
شام کوجب میں خواجہ شفیع کی مجلس میں پہنچا تو وہ اپنے ناول ’’ناکام‘‘ کا وہ باب جس میں عید کا ذکر ہے پڑھ رہے تھے۔ مرصع نگاری میں محمد حسین آزاد کا تتبع کیا ہے۔ لیکن اب ایسے مشاق ہوگئے ہیں کہ اس طرز کو گویا خود اپنا کرلیا ہے۔ پاکیزہ زبان، لطیف خیالات اور تلمیحات، نفیس استعارے اور تشبیہیں، پڑھتے بھی بڑے جوش سے ہیں۔ خود محو ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی جادو بیانی سے محسور کردیتے ہیں۔ میرا دل اس خاندانی امیرزادے کے ذوق و شوق کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا اور دل سے دعا نکلی کہ خدا اس نوجوان کی عمر میں ترقی دے۔ دلی کا آئندہ نام ایسے ہی نوجوانوں سے چلے گا۔
خواجہ محمد شفیع کی نثر خوانی کے بعد مشاعرہ شروع ہوا۔ مجمع زیادہ تھا۔ ہر قسم کے لوگ تھے۔ ہندو، مسلمان، جوان، بڈھے یہاں تک کہ اپاہج اور نابینا بھی موجود تھے۔ اس روزبارش بھی تھی۔ ایک بزرگ بیساکھی بغلوں میں دبائے مینہ سے چوڑا ہوئے پہنچے۔ حالت سقیم تھی لیکن شفیع صاحب نے ان کا تپاک سے استقبال کیا۔ خود جوتے اتارے اور تخت پر جہاں بجلی کا پنکھا چل رہا تھا بٹھا دیا تاکہ ان کے کپڑے سوکھ جائیں۔ سرمرزا اسمٰعیل اورسرشانتی بھٹناگر کے صاحبزادے سامنے فرش پر بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ مجلس میں ایک آغا صاحب ایرانی بھی تھے۔ شفیع صاحب شعر کوخوب سمجھتے ہیں اور جلد سمجھتے ہیں۔ اور دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ اس لیے شعراء ان کے شیدائی ہوگئے ہیں۔ مجلس میں بہت سے نوجوان شاعر بھی موجود تھے جن کی گرمیٔ طبع اور موسیقیت ناقابل قدر تھی۔ مجھے سب میں زیادہ ’فیض‘ کا کلام پسند آیا۔ یہ فطری اور قومی احساسات کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔ زبان شیریں، بندشیں نازک اور تشبیہات لطیف ہوتی ہیں۔ مشاعرے کے رنگ نے مجھ کو بجائے ساڑھے آٹھ بجے اٹھنے کے دس بجے تک نہ اٹھنے دیا۔ اور وہ بھی بادل ناخواستہ۔ اگر اس رات دعوت نہ ہوتی تو اور زیادہ دیر تک مجلس کا لطف اٹھاتا۔
تیسرے روزصبح میں خواجہ عبدالمجید صاحب سے مل کر مرزامحمد سعید کے پاس چلا گیا۔ ننہیال کی طرف سے ان کا تعلق میر ببر علی سے ہے جو دہلی کے ممتاز لوگوں میں خیال کیے جاتے تھے۔ میرزا صاحب کی شادی نواب محمد علی صاحب مرحوم کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ اس طرح ان کا تعلق سرسید کے گھرانے سے بھی ہے۔ میرزا صاحب ابتدا سے بلا کے ذہین، مہذب اور خوددار ہیں۔ خودداری کی وجہ سے انہوں نے قبل ازوقت پنشن لے لی۔ شروع ملازمت شاید علی گڑھ سے ہوئی۔ جہاں کچھ عرصہ لیکچرار ہے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے۔ چند سال گورنمنٹ آف انڈیا کے محکمہ تعلیمات میں اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ جب سرکار ہند نے انڈین ایجوکیشنل سروس میں ہندوستانیوں کو بھی مقرر کرنا شروع کیا تو میرزا صاحب بھی اس معزز سروس میں آگئے۔ میرزا صاحب کی عزت ان کے عہدوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا طرۂ امتیاز، ان کا علمی تبحر، نفیس ذوق اور اعلیٰ کردار ہیں۔ میرزا صاحب انگریزی زبان اور ادب کے اچھے ماہر ہیں۔ اور فرانسیسی سے بھی واقفیت ہے لیکن ان کا نام ادبی تاریخ میں ان کی اردو تصنیفات اور تالیفات کی بناپر رہے گا۔ گزشتہ صدی میں اردو ناول محض ایک عشقیہ ڈھکوسلا ہوتا تھا۔
میرزا صاحب ان ادیبوں میں ہیں جنہوں نے کردار اور حقیقت نگاری کامیلان پیدا کیا۔ خود ناول لکھے اور چونکہ زبردست نقاد ہیں اس لیے اپنے مضامین سے بھی افسانہ نویسی میں اصلاح کی۔ ریڈیو پر ان کے عالمانہ تبصرے سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ میرزا صاحب حق پرست اور فلسفی مزاج ہیں۔ اسلام کے باطنی فرقوں کے متعلق جوان کی تالیف ہے اس سے ان کے وسیع مطالعہ اور نصفت پسندی کا ا ندازہ ہوسکتا ہے۔ ان کی تحریر کا رنگ عالمانہ ہے لیکن زبان صاف ستھری اور طرزبیان روشن۔ باوجود متانت کے طبیعت میں ظرافت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے خوب ہنستے بولتے ہیں۔
چوتھے روز دوشنبہ تھا۔ میں اپنے محترم اور بزرگ عنایت فرما خواجہ حسن نظامی سے ملنے حضرت نظام الدین اولیا کی بستی میں گیا۔ خواجہ صاحب مجھ کو میری طالب علمی کے زمانہ سے جانتے ہیں اور ہمارے خاندان کے افراد سے بھی گہری راہ و رسم ہے۔ میں بھی خواجہ صاحب کی علمی اور ادبی قابلیت کا ہمیشہ مداح رہا ہوں۔ اردو زبان اور ادب کی ترقی میں ان کانام ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اپنے طرز کے آپ موجد ہیں۔ زبان سادہ لیکن شگفتہ۔ بیان میں روانی اور تعقید سے پاک۔ مضمون کے لحاظ سے اچھوتا پن اور اس میں مذہبیت اورروحانیت کا اثر۔ لاتعداد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ جن سے انہماک اور حقیقی علمی شغف عیاں ہے۔ مجھے کتابوں سے زیادہ اخبار منادی میں ان کا روزنامچہ پسند ہے۔ جس کو میں ہمیشہ شوق سے پڑھتا ہوں۔ اس میں یہ اپنے حالات نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب کے اس شعبہ میں ان کا رتبہ وہی ہے جو انگریزی ادب میں اس زبان کے مشہور ڈائری نویسوں کا۔ اردو ادب سے خواجہ صاحب کو حقیقی محبت ہے۔ اس عمر میں بھی جبکہ ان کا سن ستر سال کے قریب ہے دہلی میں شاید ہی کوئی شعر وسخن کی محفل ہوتی ہو جس میں خواجہ صاحب شرکت نہ فرماتے ہوں۔ اردو زبان کی ترقی کے لیے دہلی سے باہر بھی دور دراز سفرکرتے ہیں۔ چنانچہ حیدرآباد تک تشریف لاتے ہیں۔ باوجود اپنی دیگر مصروفیتوں کے کاتب ہمیشہ سامنے بیٹھا رہتا ہے۔ اور اصلاح و تصحیح کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مرتبہ خواجہ صاحب سے نیازحاصل نہ ہوسکا۔ میں دیر میں پہنچا۔ کاتب نے اصرار سے ٹھیرانا بھی چاہا اور کہا کہ خواجہ صاحب کی واپسی کا وقت ہوگیا ہے۔ لیکن لو اور دھوپ کی شدت بڑھ گئی تھی اس لیے واپس چلا آیا۔
شام کو یونین کلب میں میری دعوت تھی۔ یہ محض تفریحی کلب ہے اور اس کو میرے چند دوستوں نے اڑتیس برس قبل کالج چھوڑنے کے بعد قائم کیا تھا۔ تاکہ کالج کے کھیل کے میدان میں جو دلچسپی کے سامان تھے وہ اس کلب کے قیام میں مہیا ہوجائیں۔ اڑتیس برس کے عرصے میں کلب کے اصل بانی اکثر دوسرے عالم میں چلے گئے ہیں لیکن جن مقاصد کے لیے کلب بنائی گئی تھی وہ اب بھی پیش نظر ہیں۔ ہر ملت اور پیشے کے لوگ کلب کے ممبر ہیں۔ تاجر، ساہوکار، وکیل، سرکاری ملازم، پروفیسر، سی۔ آئی۔ ڈی کے عہدیدار۔ لیکن یہاں کلب میں سب محض تفریح کی غرض سے جمع ہوتے ہیں تاکہ دن بھر کے مشاغل سے جو کوفت اور پستی طبیعت میں پیدا ہوجاتی ہے وہ رفع ہوجائے۔ میرے پرانے دوست لالہ دھنی چند جو کلب کے ابتدامیں سکریٹری تھے بہت جگہ سے کاروبار کے سلسلہ میں پھر پھراکر اب دہلی آگئے ہیں۔ اور اب پھر کلب کی روح رواں ہیں۔ میرا تعلق ابتداسے قائم ہے۔ اورجب کبھی میں دہلی آتا ہوں شام کے وقت ہمیشہ کلب میں جاتا ہوں۔ اور اپنے قدیم شناساؤں سے مل کر طالب علمی کے زمانہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ لالہ امیر چند کھنہ جو رائے سری رام صاحب مصنف خمخانہ جاوید کے داماد ہیں یونین کلب کے ممتاز رکن ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ امیر چند خمخانہ جاوید کے باقی حصوں کی اشاعت آپ کااخلاقی فرض ہے۔ اگر آپ یہ کام کردیں گے تو رائے سری رام صاحب کی روح خوش ہوگی۔ فرمایا مجھے کب انکار ہے۔ آپ ہی کیفیؔ صاحب اور میرزا فرحت اللہ بیگ صاحب اور مولانا عبدالحق صاحب سے کہہ کر کتاب کے بقیہ حصے کے چھپنے کا انتظام کرادیجیے۔ جو مصارف عائدہوں گے میں بخوشی ادا کروں گا۔ چنانچہ یہ کام اب میرے پیش نطر ہے۔ ’’خمخانہ جاوید‘‘ اردو شعراء کا سب میں جامع تذکرہ ہے۔ اور جب مسالہ جمع ہوچکا ہے۔ اور روپیہ اشاعت کے لیے موجود ہے تو بقیہ حصہ کی تکمیل ضرور ہوجانی چاہیے۔ یونین کلب میں ہی رادھاکشن صاحب کھنہ نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کے اقتصادی مسائل‘‘ کا ایک نسخہ مجھ کو ہدیتہً پیش کیا۔ اس تفریحی کلب میں بھی صاحبِ ذوق کے لیے علمی دلچسپی کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں۔
پانچویں روز چونکہ میرے جانے کا دن تھا اس لیے اپنے علم دوست احباب سے ملنے کے لیے نہ جاسکا۔ اورقریبی رشتہ داروں اورعزیزوں سے بات چیت میں مصروف رہا۔ دہلی کے ہر پھیرے میں جامعہ ملیہ کے محترماساتذہ خصوصاً ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر مجیب سے ملنے کا معمول رہا ہے۔ اس مرتبہ قیام کی مدت کم ہونے کی وجہ سے ان احباب سے مل نہ سکا۔ ڈاکٹر عابد حسین کی ادبی قابلیت اور اعلیٰ کردار میری نظر میں بے حد وقعت رکھتے ہیں۔ فلسفہ اوردقیق علم کی کتابوں کے ترجمہ میں ان کاجواب نہیں ہے۔ مولوی عنایت اللہ مرحوم افسانہ اورتاریخ کی کتابوں کے ترجمہ کے میدان میں بیشک امام کادرجہ رکھتے تھے۔ لیکن نفسیات، مابعد الطبیعات اور ذہنی علوم کے پیچیدہ اور لطیف مضامین کو یورپی زبان سے ڈاکٹر عابد حسین نے اردو میں اس کمال سے ترجمہ کیا ہے کہ اول تو وہ ترجمہ نہیں معلوم ہوتا، دوسرے اصل الفاظ کے مفہوم کا کوئی پہلو نہیں چھٹتا۔ ان کی تحریر میں علمی وقارکے ساتھ شادابی بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب پانی پت کے رہنے والے اور مولانا حالی کے خاندان سے ہیں۔ دہلی والے پانی پت کو اپنے ہی شہر کا ایک محلہ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں انتہادرجہ کی سادگی اور خلوص ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ طالب علم جو ایسے استاد کے شاگرد ہوں۔
اس مرتبہ مجھ کو مولوی احتشام الدین صاحب حقی(۱) سے بھی نہ ملنے کا افسوس رہا۔ یہ اپنے خاندانی مکان واقع تراہابہرام خاں میں رہتے ہیں۔ نہایت ذہین اور طباع ہیں۔ طبیعت موزوں پائی ہے۔ سارے دیوانِ حافظ کاترجمہ نظم میں کیا ہے۔ تاریخی تحقیق کی طرف بھی میلان ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر ان کی تالیفات قابل قدر ہیں۔ لیکن مولوی عبدالحق صاحب کی دوربین نگاہ نے ان کو آج کل اردولغت کی تدوین پر لگا رکھا ہے۔ احتشام الدین صاحب بے حد محنت اور انہماک سے اس کام میں مصروف ہیں۔ اور ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ کے لیے یادگار رہ جائے گا۔ اس خاندان میں علم وفضل کی خدمت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کے زمانہ سے جاری ہے۔
دہلی کے مسلمان محلوں میں قدیم شاعروں اور ادیبوں کے چشم و چراغ ابھی باقی ہیں۔ اور شہر کی آئندہ امیدیں انہی سے وابستہ ہیں۔ کشمیری دروازہ کے قریب مولوی محمد حسین آزاد کے پوتے آغا محمد اشرف ایسے مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے اپنی تحریر اورتقریر سے ملک اوربیرونِ ملک میں کافی شہرت حاصل کرلی ہے۔
گلی بتاشان میں مولانا نذیر احمد مرحوم کاخاندان تین پشت سے اردو کی خدمت کر رہا ہے۔ مولانا کے صاحبزادے مولوی بشیرالدین احمد مرحوم ریاست حیدرآباد میں تعلقہ دار تھے۔ یہ عہدہ سرکار انگریزی کے کلکٹری کے عہدہ کے برابر ہے۔ لیکن مولوی بشیرالدین احمد صاحب کانام ان کی اردو تصنیفات اور تالیفات سے باقی رہے گا۔ مولوی بشیر الدین احمد صاحب کے سنجھلے صاحبزادے شاہد احمد صاحب اردو کے اچھے ادیب ہیں۔ رسالہ ’’ساقی‘‘ عرصہ سے نکال رہے ہیں۔ جو جنگ سے پہلے بہت آب و تاب سے نکلتا تھا۔ اب بھی ادبی معیار اعلیٰ ہے۔ مولانا نذیراحمد صاحب مرحوم میرے استاد تھے۔ تین برس تک شاگردی کا فخر حاصل رہا۔ جب کبھی دہلی جاتا ہوں گلی بتاشاں کو احترام اورادب کی نگاہ سے دیکھ لیتا ہوں۔
فراش خانہ میں خان بہادر میر ناصرعلی کے پوتے انصار ناصری افسانہ نویسی میں خاصا نام پیدا کرچکے ہیں۔ میرناصر علی مرحوم کو مجھ سے خاص محبت تھی۔ ’’صلائے عام‘‘ کے بعض پرچوں میں میرے چند خط بھی انہوں نے شائع فرمائے تھے۔ حالانکہ اس وقت میں کالج سے نیا نکلا تھا اور ایسی بزرگ ہستیوں کے سامنے بالکل طفلِ مکتب تھا۔
گلی قاسم جان میں اگر نیرؔ، علائیؔ اور غالبؔ کی یادگار دیکھنی ہو تو ابوالمعظم نواب سراج الدین خاں سائلؔ کو دیکھ لو۔ مشین، وضعدار، نوابی آن بان۔ اسی برس کے قریب سن ہے لیکن آوازمیں ترنم اور گونج اب تک باقی ہے۔ ایک زمانہ میں مشاعرہ میں غزل پڑھتے تھے تو چھاجاتے تھے۔ مٹیا محل میں حضرت وحید الدین بیخودؔ کی ذاتِ گرامی اب تک طالبانِ فن کو فیض پہنچا رہی ہے۔ پچاس برس سے اردو زبان کے شعراءمیں جگت استاد مانے جاتے ہیں۔ چیلوں کے کوچے میں نوعمر طباعوں میں رازق اورصادق الخیری ہیں جو رسالہ عصمت کواچھے معیار پر چلانے کے علاوہ اردو ادب کی خود اپنے قلم سے خدمت کر رہے ہیں۔
جامع مسجد کی نواح سے متعدد اخبار اور رسالے نکلتے ہیں۔ دہلی کے اس حصہ کو لندن کی فلیٹ اسٹریٹ Fleet Street سمجھنا چاہیے۔ اردو زبان کی مناسبت سے یہ محلہ جو پہلے مچھلی والان کہلاتا تھا اب اردو بازار کے نام سے مشہور ہوگیا ہے۔ (۲)
اکثر جریدہ نگارمتوسط عمر کے ہیں۔ اس لیے میں ان میں سے صرف دو سے ذاتی طور پر واقف ہوں۔ ایک مولانا واحدی صاحب اوردوسرے سید یوسف بخاری۔ مولانا واحدی تو مجھ سے شاید بہت چھوٹے نہیں ہیں ان پر حضرت خواجہ حسن نظامی کی ہمیشہ نظر عنایت رہی ہے۔ ادبی او رمعنوی یگانگت کے لحاظ سے ان دونوں کی آپس میں محبت اور الفت حضرت سلطان نظام الدین اولیا ؒ اور حضرت امیرخسرو کی دوستی کو یاد دلاتی ہے۔ واحدی صاحب کی تحریر نہایت پختہ اور مطالب سے پر ہوتی ہے۔ سید یوسف صاحب امام جامع مسجد کے بھتیجے ہیں۔ ان کی تحریر میں دہلی کی ٹھیٹ بول چال اور خاص محاورے پائے جاتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان دو کے علاوہ سید عزیز حسن بقائی اورشوکت فہمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ دہلی سے باہر رہنے کی وجہ سے میں ان سے ذاتی طور پر واقف نہ ہوں تو کیا۔ لیکن ان کی سلیس اور مدلل تحریریں خود ان کی قابلیت اور ذہانت کا ثبوت ہیں۔
دہلی سے حال میں ایک رسالہ ’’ادیب‘‘ کے عنوان سے جاری ہوا ہے۔ چند پرچے میری نظر سے بھی حیدرآباد میں گزرے۔ معیار بلند ہے اور اس کے لائق مدیر فصیح الدین صاحب ہارڈنگ لائبریری کے سکریٹری ہیں۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ خواجہ محمد شفیع صاحب کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور اردو شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ زبان کی ترقی کے لیے باقاعدہ مجلسیں اور مشاعرے بھی کرتے ہیں۔ انشاء اللہ آئندہ پھیرے میں ان کی مجلسوں کے رنگ کے دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ خواجہ حسن نظامی کے روزنامچہ سے ان کا سرسری حال تو معلوم ہوتا رہتا ہے۔
مضمون ختم ہوا۔ چند دن میں جن ادیبوں سے میری ملاقات ہوئی اس سے آپ کے ذہن میں دہلی کے باکمال لوگوں اور علمی چرچوں کا تصور شاید ہوگیا ہو۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ اگر کسی شخص کو یہاں قحط الرجال یافقدان علم نظر آئے تو کہاں تک صحیح ہے۔ مجھے تو اس ضمن میں ایک انگریزی کہانی یاد آجاتی ہے جس کا عنوان Eyes and no Eyes تھا۔ چشم بینا کے لیے سب کچھ ہے اور کوتاہ نظر کے لیے کچھ بھی نہیں۔
حاشیے:
(۱) عربی ضرب الامثال میں دنیا کو اکثر پل اورگزرگاہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بعض تیزی سے گزرجاتے ہیں۔ بعض دیر لگاتے ہیں۔ مضمون کو لکھنے کے بعد ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ احتشام الدین صاحب کے انتقال کی خبر آئی۔ کل من علیھا فان۔ ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ حق مغرفت فرمائے۔
(۲) میری پھپی صاحبہ جو خان بہادر ڈپٹی امیر علی کی بیوی تھیں فرمایا کرتی تھیں کہ قلعہ اور جامع مسجد کے درمیانی حصے میں جہاں آج کل پریڈ کا میدان اور ملحقہ آراضی ہے دہلی کی آبادی میں یعنی غدر سے پہلے دو بڑے بازار تھے۔ ایک کا نام خانم کا بازار تھا اور دوسرے کا اردو بازار۔ غدر کے بعد قلعہ کی حفاظت اور فوجی ضرورت کے تحت ان بازاروں کو مسمار کردیا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.