دلی کا باکمال گویا
اس سے پہلے کہ تان رسؔ خاں کے حالات بیان کروں، بہترہے کہ ان واقعات میں جو بیان کیے گئے ہیں، کتنی واقعیت ہے اور اس کے واقعہ ہونے کے ثبوت کیا ہیں، بیان کردوں۔
یہ حالات جو بیان کیے گئے ہیں، خاندانی بزرگوں اور ان شہزادوں سے منقول ہیں جو زمانۂ غدر میں بیاہے تیاہے تھے۔ اس لیے ان واقعات کے صحیح ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں۔
تان رس خاں
نام قطبؔ بخش تھا اور بادشاہ عالم ثانی کے انتقال کے وقت اس کی عمر پانچ سال کی تھی۔ یہ بہت فریس اور خوش قسمت تھا۔ چند ہی دنوں میں اپنے فنِ آبائی میں معقول ترقی کی۔ قطبؔ بخش ان لوگوں کی نسل سے تھا جو محمد شاہ باد شاہ کے دربار میں بہت بڑھے چڑھے تھے۔ جب قطب بخش کی استادی کی شہرت ہوئی تو بہادر شاہ بادشاہ دہلی کے دربار میں پیش ہوا۔ اس زمانے میں ملازمین شاہی کی تنخواہیں تو بہت کم ہوتی تھیں لیکن انعام و اکرام بہت ملتا تھا۔
گو اس کی تنخواہ بھی بہت کم تھی لیکن میوے اور یخنی کا خرچ دربار شاہی سے بطور یومیہ عطا ہوتا تھا۔ یخنی نے تان رسؔ خاں کے گلے کو لوچ دار بنانے میں بہت مدد دی۔ کیونکہ گوشت کی یخنی 1 اور طاقت بخش میوے گلے کے پٹھوں کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔
بہرحال قطبؔ بخش نے گانے میں بہت ترقی حاصل کی اور تان رسؔ خاں کا خطاب حاصل کیا۔
تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔبائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔
شکاری کتے
اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں قلعے میں دیوان عام کے پیچھے زنا نہ محل واقع تھا، جس کو بیٹھک کہتے تھے اس کے قریب ایک بڑا حوض تھا جس پر سنگِ سرخ کا قدآدم کٹہرا لگا ہوا تھا۔
حوض 2 کے ایک طرف کوٹھے 3 اور دوسری طرف میرزابابر فرزند اکبر شاہ ثانی کی خوبصورت کوٹھی بنی ہوئی تھی اور وہاں سے ذرا ہٹ کر حضرت ابوظفر ولی عہد بہادر کا محل تھا۔ وہاں تان رسؔ خاں بیٹھے گائنوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جب تعلیم ختم کرچکے تو چلنے کا ارادہ کیا، دریچے میں سے دیکھا کہ شاہزادۂ آفاق میرزا بابر بہادر حوض پر کھڑے ہیں اور دو بڑے کتے جو صورت شکل اور قدوقامت میں مثل شیر کے ہیں، ساتھ ہیں۔
تان رسؔ خاں ان کتوں کے خوف سے بڑی دیر تک باہر نہ نکلے لیکن جب بہت دیر ہوگئی تو مجبوراً محل سے باہر آئے اور اس زمانے کے قاعدے کے مطابق منہ پر کپڑا ڈال کر میرزا بابر بہادر سے چھپ کے نکلے مگر صاحب عالم عالمیاں کی نگاہ پڑگئی اور للکار کر کہا، ’’کیوں بے تینو!‘‘
انہوں نے فوراً عرض کیا، ’’غریب پرور!‘‘
صاحب عالم نے فرمایا، ’’کیوں صاحب! اب تو تم الگ الگ جانے لگے۔‘‘
انہوں نے عرض کیا، ’’حضور! فدوی کی کیا مجال، خانہ زادنے دیکھا نہیں تھا۔‘‘
فرمایا، ’’ہاں! اچھا!‘‘
یہ کہہ کر ایک کتے کو چھچکارا اور دوسرے کو بھی للکارا۔ بس کیا تھا گویا کتوں کے بدن میں بجلی کوندگئی۔ نہایت اضطراب کے ساتھ ادھر اُدھر پھرنے لگے۔ کتے آدمی کی باؤلی 4 کھائے ہوئے نہ تھے، ورنہ اس دن موت تو آنکھوں میں پھر ہی گئی تھی۔ آخر کارتان رسؔ خاں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جب جاکر کہیں چھٹکارا ملا اور فرمایا، ’’اچھا جاؤ آئندہ خیال رکھنا۔‘‘
قلعے سے نکالا
جب تان رسؔ خاں کا رسوخ بڑھ گیا اور بادشاہ میں زیادہ پیش ہونے لگے تو زمانہ گردش کا آیا یعنی ایک گائن سے جس کانام پیاریؔ تھا، تعلقات ہوگئے۔ آخر کار بھانڈا پھوٹ گیا اور قلعے سے نکالا ملا۔ تان رسؔ خاں بہت پریشان ہوئے کیونکہ قلعہ سے نکالے ہوئے آدمی کو کون منہ لگاتا۔ ہر ایک نے آنکھیں پھیر لیں اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی۔
قدرِ کمال
اب تان رسؔ خاں اپنی قسمت پر شاکر رہ کر بیٹھ گئے تھے۔ بہت افسردہ تھے کہ حکم شاہی آیا کہ،
’’خطاب، تنخواہ اور معاش بدستور بحال و جاری ہے لیکن آئندہ کے لیے دربار بند اور قلعہ میں آنے کی اجازت نہیں۔‘‘
یہ بہادر شاہ بادشاہ نے از راہ قدرِ کمال کیا کہ تنخواہ اور خطاب کو بحال رکھا اور شہر میں رہنے کی اجازت دی۔ ان اٹھارہ گائنوں کو بھی بادشاہ نے نکال دیا اور وہ مختلف شہزادوں کی سرکاروں میں نوکر ہوگئیں۔
غدر
جب سلطنت دہلی برباد ہوئی تو تان رسؔ خاں نے ریاست الور، جے پور اور جودھ پور میں ملازمتیں کیں۔ اور ہزاروں روپے کے انعام و اکرام بھی پائے۔ حیدرآباد دکن کی شاہانہ داد و دہش کا شہرہ سن کر حیدرآباد آئے اور اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں مرحوم و مغفور کی ملازمت اختیار کرکے بہت عروج حاصل کیا۔ تان رسؔ خاں کے دوفرزند تھے۔۔۔ غلامؔ غوث خاں، امراؤؔ خاں۔
حاضر جوابی
ایک دن تان رس خاں نواب میر محبوب علی خاں کے حضور میں حاضر تھے۔ اعلیٰ حضرت ایک پلنگڑی پر لیٹے ہوئے تھے اور تان رسؔ خاں یہ ٹھمری گا رہے تھے،
’’رات بالم تم ہم سے لڑے تھے۔۔۔‘‘
راگ پورے جوبن پر تھا اور بڈھے تان رسؔ خاں کی آواز اپنے استادانہ کمالات کے جوہر دکھاتی ہوئی دل میں اتر رہی تھی، درودیوار سے اسی ٹھمری کی آواز بازگشت سنائی دیتی تھی۔ ایسا سماں بندھا کہ حضور بے تاب ہوگئے اور فرمایا،
’’واہ تان رسؔ خاں واہ۔۔۔‘‘
اس فقرے کے سنتے ہی تان رسؔ خاں لپک کر قریب پہنچا اور چٹ چٹ بلائیں لے لیں۔ یہ حرکت حضور کو بہت بری معلوم ہوئی۔ آپ نے گرم نگاہوں سے تان رسؔ خاں کو بھی دیکھا اور مڑ کر حاضرین کی طرف بھی نگاہ ڈالی۔ سب لوگ سناٹے میں آگئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے۔ بڈھا تان رسؔ خاں گرم و سرد روزگار اور امیروں اور بادشاہوں کے مزاج سے واقف تھا۔ فوراً بھانپ لیا کہ کیا معاملہ ہے اور جب قریب تھا کہ خرابی اور بے عزتی کے ساتھ نکالا جائے، حواس کو جمع کرکے کہا، ’’قربان جاؤں! مدّت سے آرزو تھی کہ کسی مسلمان بادشاہ کی بلائیں ہوں، ان ہاتھوں نے یا تو حضور بہادر شاہ شاہ کی بلائیں لیں یا آج آپ کی۔‘‘
یہ سن کر میر محبوب علی خاں بہادر مرحوم مسکرادیے اور بات رفع دفع ہوگئی۔
انتقال
تان رسؔ خاں کا انتقال حیدرآباد میں ہوا اور شاہ خاموش صاحب کی درگاہ کے قرب وجوار میں دفن ہوئے ہیں۔ اس طرح دلّی کے بہترین اور مشہور گویے کا انجام ہوا۔ انتقال کے بعد ان کی اولاد نے چاہا کہ لاش کو چند روز کے لیے حیدرآباد سپرد خاک کرکے پھر دلّی لے جائیں لیکن اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں بہادر کے ان کے فرزندوں کو بلوایا اور فرمایا، ’’کیا خدا وہیں ہے یہاں نہیں ہے؟‘‘
اس تہدید کی بنا پر تان رسؔ خاں ہمیشہ کے لیے حیدر آباد دکن کی سرزمین میں آرام گزیں ہوگئے۔ دلّی (قلب ہندوستان) کا آفتاب حیدرآباد میں غروب ہوگیا۔ لیکن اپنی آتشیں کرنوں کا نشان آسمان کمال پر چھوڑ گیا۔
حواشی
(۱) یخنی کا ذکر یہاں اس وجہ سے ہے کہ بہادر شاہ بادشاہ کو یخنی پینے کی عادت تھی اور یہ اس وجہ سے پڑگئی تھی کہ آپ کے فرزند مرزا کیومرثؔ بہادر ولی عہد نے بدمصاحبی کی وجہ سے لالچ میں آکر شیر کی مونچھ کا بال کھلادیا تھا۔ اس طمع میں کہ اگر باپ کی موت واقع ہوجائے تو خود کو بادشاہی مل جائے گی۔ بہرحال جب آپ کی حالت غیر ہوئی تو حکمائے وقت کی قے آور ادویات سے ڈکلے کے ڈکلے خون کے نکلنے لگے اور اتنے کہ چلچیاں بھر جاتی تھیں۔ آخرکار وہ کرچی نکل آئی۔ اسی وجہ سے بہادر شاہ کے معدے میں قوت ہضم نہ رہی تھی۔ چنانچہ شکار کے گوشت کی یخنی پیتے تھے اور ایک گھنٹے کے بعد استفراغ کردیتے تھے۔ چونکہ خود بھی یخنی پیتے تھے اس لیے ملازمین کو بھی اس کے لیے خرچ عطا ہوتا تھا۔
(۲) یہ حوض محمد شاہؔ بادشاہ کے زمانے میں نواڑا، گلاب اور کیوڑے سے بھرا جاتا تھا۔ یہ حوض بہت بڑا اور پرکیف مقام تھا۔
(۳) ان کوٹھوں میں محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں ہرنی بکریاں رہتی تھیں۔ محمد شاہ نے اکسیر کھالی تھی اور ان کوٹھوں میں بہت سی بازاری عورتیں بھر رکھی تھیں۔ انہیں عورتوں کو ہرنی بکریاں کہتے تھے۔
(۴) یعنی منہ کو خون لگا ہوا نہ تھا یا ابھی شکار پر چھوڑے نہ گئے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.