Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیباچہ

MORE BYناصر عباس نیر

    شاعری کا وجود لفظ پر منحصر ہے، لیکن سب شاعر لفظ کو وجود کا رتبہ نہیں دیتے، نہ دے پاتے ہیں، نہ یہ جان پاتے ہیں کہ لفظ محض ذریعہ ہے نہ آدمی کی خدمت پر مامور کوئی شے۔ اس بات سے بہت فرق پڑتا ہے کہ لکھنے والا، لفظ کا کیا تصور کرتا ہے اور اس سے کس نوع کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ اگر وہ لفظ کو شے سمجھتا ہے تو ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدلنے میں حرج دیکھتا ہے نہ قباحت۔ وہ ہر لفظ کی انفرادیت کا تصور رکھتا ہے نہ اس کااحترام کرتا ہے۔ نیز اس کے لیے لفظ اپنی فوری، قابل محسوس ابلاغی افادیت کے سبب اہم ہے۔ اسی طرح جو لکھنے والے لفظ کو اپنی باندی سمجھتے ہیں، وہ لفظ اور اپنے بیچ ناقابل عبور فاصلہ قائم کرلیتے ہیں۔ ان کے یہاں بے شمار، ہر طرح کے الفاظ ہوسکتے ہیں جو ان کے اشارے کے منتظر بھی ہوسکتے ہیں، وہ ایک چھوٹی سی بات کو دس پیرایوں میں بیان کرکے اپنی طاقت و طلاقت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، لیکن لفظ اور ان کے بیچ بیگانگی قائم رہتی ہے جو آقا اور باندی میں ہوتی ہے۔ یہ بیگانگی ان کی شاعری میں صرف ظاہر ہی نہیں ہوتی، شاعری کی اصل وروح کو مسخ بھی کرتی ہے۔ کم شعرا ہیں جو لفظ کو وجود کا رتبہ دیتے ہیں۔

    یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ آدمی کی اپنی اختراع ہونے کے باوجود، زبان اور آدمی میں ایک فاصلہ ہے۔ اس کااحساس ہر آدمی کو عموماً اور تخلیق کار کو خصوصاً ہوتا ہے ؛وہ اپنی کئی حالتوں کے اظہارمیں لفظ کو ناکافی محسوس کرتے ہیں، اس لیے خاموشی کے پیرائے خلق کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک طرف زبان کے مسلسل مجازی استعمال سے اور دوسری طرف زبان کے اساسی جدلیاتی رشتوں کی شکست کی مدد سے، زبان و آدمی کے فاصلے کو کم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ زبان کو وجود کا مرتبہ دے کر بھی یہ فاصلہ کم کیاجاتاہے۔ وجودکیا ہے؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ یہ شے نہیں ہے ؛ یہ قابل ِ تبادلہ نہیں ہے اور اس پر قیمت و افادیت درج نہیں ہے۔

    نینا عادل، لفظ کو شے نہیں، وجود کا رتبہ دیتی ہیں۔ شے جگہ گھیرتی ہے، جب کہ وجود اپنی حد رکھنے کے باوجود، اپنی حدوں کو وسیع کرنے کی مسلسل سعی کرتا ہے اور دوسروں سے نئے نئے رشتے استوار کرتا ہے (مجاز، لفظ کی حدوں کو وسیع کرنے اور نئے رشتے وضع کرنے کے سوا کیا ہے) ۔ اسی لیے ہر وجود ایک پیراڈاکس ہے۔ سارے پیراڈاکس لفظ ہی میں بالآخر ظاہر ہوتے ہیں۔ اپنے مجموعے کا عنوان شبد رکھتے ہوئے، شاعرہ کے ذہن میں لفظ کے وجود ہونے کا لاشعوری احساس کہیں نہ کہیں کام کررہا تھا۔ لفظ کی جگہ شبد کے استعمال کا سبب بھی شاید یہی ہے کہ لفظ کے تلازمات، شبد کے تلازموں سے جدا ہیں ؛لفظ شبد میں ایک نوع کا وجودی اسرار ہے، جو لفظلفظ میں نہیں ہے۔ اس عنوان کی نظم میں نینا عادل نے شبد کو واقعی وجود محسوس کیا ہے۔ واضح رہے کہ لفظ کو وجود کا مرتبہ دینے کا مطلب، اپنی طرح سمجھنا نہیں، بلکہ خود لفظ یاشبد کی اپنی جداگانہ وجودی حیثیت کو محسوس کرنا ہے، یعنی لفظ کیسے تخلیق کار کی تنہائی (جو اس کا مقدر ہے) بانٹتا ہی نہیں، تخلیق کے سرچشمے تک رسائی میں مدد بھی دیتا ہے۔ ایسے میں آدمی لفظ پر حاکم ہوتا ہے نہ لفظ آدمی پر۔ اس نظم میں وہ شبد کاحسی تصور بھی کرتی ہیں، اس کی تپش، اس کی خوشبو کو بھی محسوس کرتی ہیں اور اس کے معنی کی ست رنگ گرہ اور بھید کو بھی گرفت میں لیتی ہیں۔ شبد اپنے پوری ہستی کا اظہار خود اپنے وجودکی تینوں سطحوں ـ( دال، مدلول اور وراے لفظ بھید) سے کرتا ہے، کسی جدلیاتی احساس کے بغیر! اس سب میں ایک خاص نوع کی رومانویت ہے، ایسی رومانویت جو چیزوں کو قدرے پراسرار انداز میں قابل محسوس بنا کر پیش کرتی ہے۔ یہ ان کی دوسری نظموں میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔

    نینا عادل کی شاعری کسی ایک اسلوب میں نہیں لکھی گئی۔ وہ جانتی ہیں کہ کسی تخلیق کار کے لیے کوئی خاص اسلوب وضع کرلینا مشکل نہیں ہے۔ جب آپ چیزوں کو ایک خاص طرح سے دیکھنے لگتے ہیں، کسی مخصوص نظریے یا آئیڈیالوجی کا سہارا لے لیتے ہیں تو خود بہ خود آپ کاایک مخصوص اسلوب بن جاتا ہے (اردو کے کئی شاعروں کو یاد کیجے جو اپنی مخصوص لفظیات اور پیرایوں کے سبب پہچانے جاتے ہیں) ۔ مخصوص اسلوب کے بعد سب کچھ سہل دکھائی دینے لگتا ہے، یعنی ایک ہی رنگ اور ڈھب کا۔ کوئی شے آپ کے تصورات کو توڑنے یا للکارنے کے لیے سامنے نہیں آتی۔ نینا عادل سے یہ بات مخفی نہیں کہ خاص اسلوب اختیار کرنے اور اسے جاری رکھنے کا دوسرا مطلب خود کو کلیشے کے سپرد کرنا ہے، یعنی اپنے لیے جبر، بلکہ اس سے بڑھ کر موت کا کاخود اہتما م کرناہے۔ اس کلیشے اورجبر سے آزادی کی صورت اس کے سوا کیا ہے کہ تخلیق کار اسلوب کی مسلسل تلاش کرے۔ افضال احمد سید نے یہی بات اپنی نظم کون شاعر رہ سکتا ہے میں کہی ہے۔ نظموں کو مرجانے سے بچانے کے لیے /ہر روز ان لفظوں کو جدا کرنا پڑتا ہے /اور ان جیسے لفظوں کے حملے سے پہلے /نئے لفظ پہنچانے پڑتے ہیں /جو ایسا کرسکتا ہے /شاعر رہ سکتا ہے۔ گویا صرف وہی آدمی بہ طور شاعر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے جومسلسل نئے اسلوب کی تلا ش کرتا ہے۔

    نیناکا جبر اور آزادی کا تصور سادہ اور یک رخا نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو وہ ان کا تصور لسانی سطح پر کرتی ہیں اور اپنی نظموں کو خود اپنے لفظوں کے جبرسے بچاتی ہیں۔ اس کے بعد جبر وآزادی کے حدودکا تصور وہ فکری و تجریدی انداز کے بجائے، روزمرہ زندگی کے تجربات کی مدد سے کرتی ہیں۔ کلاسیکی زمانوں میں زندگی کے بھید جاننے کے لیے سامنے کی، روزمرہ زندگی کو ترک کیا جاتا تھا۔ عظیم تجریدی تصورات وضع کیے جاتے تھے اور ان کی روشنی میں زندگی کے گہرے معانی کی تلاش کی جاتی تھی۔ مگر جدید تخلیق کار نے حقیقی روزمرہ زندگی کے ترک کو انسان کے جرم کبیرہ کے طور پر پہچانا۔ اس نے زندگی کا، نہ اس کے بھیدوں کا انکار کیا۔ اس پر یہ الہام اترا کہ زندگی اپنے بڑے بھید اکثر اپنے روزمرہ مظاہر اور عام سی چیزوں میں کھولنے سے نہیں شرماتی۔ چوں کہ یہ تجربات کثیر، متنوع، متضاد ہیں، اس لیے نینا عادل نہ جبر کی کوئی ایک شکل دیکھتی ہیں نہ آزادی ونجات کا کوئی واحد راستہ۔ وہ روزمرہ تجربات پر اسی مراقباتی انداز میں لکھتی ہیں جو کلاسیکی عہد کے تخلیق کاروں سے مخصوص تھا اور ان میں روشنی و تاریکی کی ازلی قوتوں کو دیکھتی ہیں۔ ایک اور بات بھی ہے۔ روزمرہ چیزوں کی طرف صرف ہمارے زمانے کے تخلیق کاروں کا رویہ ہی نہیں بدلا، خود یہ چیزیں بھی تبدیل ہوئی ہیں اور ان کی ہماری حقیقی، سماجی اور ذہنی و احساساتی دنیا میں جگہ بھی تبدیل ہوئی ہے۔ ان کے اسلوب کا مسئلہ اس حقیقت سے الگ نہیں ہے۔ یوں بھی جدید یت کے عہد سے تخلیق کاروں نے اسلوب کے سوال کو میکانکی سمجھنا ترک کردیا تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کی نظموں کا سب سے اہم موتیف، آزادی ہے۔

    ان کے لیے پر ومیتھیس، آزادی کی لازوال علامت ہے۔ روزمرہ زندگی کے جبر کو سمجھنے اور اس سے آزادی کے لیے پرومیتھیس کی اساطیری اور کبیری علامت طرف رجوع، اچھا خاصا معمائی (Problematic) ہے۔ لیکن ان کی نظموں کے مجموعی تناظر میں یہ علامت دراصل خود کو عام حقیقی تجربات کے متواز ی پیش کرتی ہے اور تناقض کا اثرپیدا کرتی ہے۔ پرو میتھیس خود دیوتا ہے، انسانوں کے لیے آگ چراتا ہے اور نتیجے میں دیوتائوں کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ پرومیتھیس کی لائی آگ سے انسانی تہذیب وتخلیق و آزادی کی بنیاد رکھی گئی۔ یوں انسانی تہذیب ۔۔اور آزادی وتخلیق ۔۔۔کا آغاز ہی دیوتائوں کے غضب سے ہوااور انسان ایک مقدس گناہ کی زد پر آیا۔ یوں آدمی کی بنیادی حقیقت ہی نہیں، خود انسانی تہذیب اور اس کے جملہ مظاہر پیراڈاکس کا شکار ہوئے۔ مقدس گناہ سے بڑا پیراڈاکس کیا ہوگا؟ اس میں گناہ وتقدیس کی ضدیں باہم ہوگئی ہیں! نینا عادل آگ کے شکریے کے ساتھ نظم میں کہتی ہیں کہ، مقدس گناہوں میں بھیگی ہوئی/آگ تاپی نہ ہوتی اگر چند پل۔۔۔تو حرف کی یہ طہارت (جس سے ان کی نظمیں تعمیر ہوئی ہیں) ممکن نہیں تھی۔ مقدس گناہوں کی آگ کہیں باہر نہیں، تخیل کے اس منطقے میں جلتی ہے جہاں جبر سے آزادی کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ خود تخلیق، ایک کھیل ہے، تماشاہے!

    ایک اورنظم میں وہ کئی زنجیروں کا ذکر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر انھیں کسی ایک زنجیر کا انتخاب کرنا ہو تو وہ آزادی کی زنجیر منتخب کریں گی۔ آزادی کی زنجیر میں بھی ٹھیک وہی پیراڈاکس ہے جو مقدس گناہ میں ہے۔ یہاں بھی آزادی وزنجیر کی ضدیں یکجا ہوگئی ہیں!

    صف اوّل کے فکشن نگار خالد جاوید نے شبد کے پہلے ایڈیشن کا زبردست دیباچہ لکھا ہے جس میں متعدد بصیرت افروز باتیں کہی ہیں مگر وہ نظموں کے متن سے اعتنا نہیں کرتے، اس سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں ایک پل کو بھی یہ بات نہ آئی کہ اسے ایک عورت نے لکھا ہے۔ یہ حیران کن حد تک کسی فیشن ایبل رجحان سے خالی شاعری ہے۔ یہاں نہ تانیثیت کی نام نہاد دانشورانہ جہت نظر آتی ہے اور نہ ہی کچی پکّی رومان زدگی میں لپٹی ہوئی نسوانی بغاوت۔ یہاں جو بھی ہورہاہے وہ صرف اور صرف ”انسانی ذات“کی سطح پر ہو رہا ہے۔ راقم جب اس کتاب کو پڑھ رہا تھا کہ کئی جگہ اسے لگا کہ اسے ایک عورت ہی نے لکھا ہے۔ فیشن ایبل تانیثی رجحان کی حد تک خالد جاوید کی بات بالکل ٹھیک ہے، لیکن ہم کیوں اصرار کریں کہ اس میں لکھنے والی عورت کی موجودگی منہا ہوگئی ہے؟ کیا عورت ہوکر لکھنے میں کسی گناہ کا مرتکب ہونا ہے؟ کیا عورت، جب تک اپنے عورت ہونے کے اوّلین احساس اور اس سے وابستہ حقیقی تجربات کو تج نہیں دیتی، انھیں فراموش نہیں کردیتی، انھیں بوجھ یا گناہ سمجھ کر کہیں پھینک نہیں دیتی، وہ انسانی ذات کا اظہار نہیں کرسکتی؟ سب سے بڑھ کر اگر انسانی ذات ایک ایسی تجرید ہے (اور وہ ہے) جس میں سب انسانوں کی کوئی مشترکہ روح کھنچ کر آگئی ہے تو کیا اس میں عورت کا تجربہ حیات ـ(جو لازم نہیں کہ سماجی جبر ہی سے عبارت ہو) شامل نہیں ہوگا؟ ہمیں ماننا چاہیے کہ انسانی ذات کا تصور بڑی حد تک مردانہ اور اشرافیائی ہے۔ شبد کی متعدد نظموں میں نہ صرف تانیثی صیغہ استعمال ہوا ہے، بلکہ جنوبی ایشیائی سماج میں عورت کے تجربات کا تخلیقی پیرائے میں اظہار بھی ہواہے۔ ایک جگہ ا س عورت کو وہ چاردیواری میں چنا ہوا کہتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ عورت کی تقدیر نہیں ہے، اس پر مسلط کی گئی حالت ہے۔ عورت کو خود پر مسلط کی گئی حالت کو لکھنا چاہیے، اگر اسے اپنی نجات و آزادی کی واقعی فکر ہے۔ مسلط کی گئی حالت کے علاوہ حالتوں کو بھی عورت کو لکھنا چاہیے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انھیں لکھا کیسے گیا ہے؟ کیا سادہ، ٹھیک ٹھیک عکاسی کی گئی ہے یا ان نظموں کو واقعی ایک کھیل کی مانند اختراع کیا گیا ہے۔ کھیل، کسی واقعی شے کی نقل نہیں ہوتا مگر واقعی چیزوں کی اصل وماہیت کا سراغ پانے میں سب سے زیادہ مدد دیتا ہے۔ ہمیں اپنی جمالیات کے پیمانوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

    جدید شاعری کا بڑ احصہ روزمرہ، چھوٹے چھوٹے تجربات پر مبنی ہے۔ نینا عادل نے بھی کئی نظموں میں اپنے روز مرہ ۔۔اپنی اصلی حالت۔۔کو لکھا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، روزمرہ کے تجربات کثیر، متنوع اور متضاد ہیں، اس لیے ان کی شاعری میں بھی یہ عناصر در آئے ہیں۔ ان کی نظمیں ایک طرح کی نہیں ہیں، نہ غزلیں۔ اسی طرح ان کاکوئی ایک مخصوص اسلوب بھی نہیں ہے۔ وہ کہیں روزمرہ، بے تکلف انداز میں لکھتی ہیں جہاں تخیل ومشاہدے کی سرحد دھندلا جاتی ہے اور سائے وروشنی کا عجب تماشا دکھائی دینے لگتا ہے ؛ کہیں وہ شاعری کا رسمی انداز کام میں لاتی ہیں اور شاعری کے سب روایتی لوازمات (بہ شمول عروض) کا لحاظ رکھتی ہیں اور ایک قسم کے لاشخصی مگر پر اثر انداز میں قاری سے کلام کرتی ہیں۔ کہیں زبان سادہ، عام فہم ہے اور کہیں کھڑی بولی(خصوصاگیت میں) ہے۔ کہیں نظم اور کہیں گیت اور کہیں ان دونوں کا امتزاج۔ ان سب کا تعلق ان کے آزادی کے تصور سے ہے۔ وہ صرف سماجی و تہذیبی ونفسی سطح پرہی نہیں زبان واسلوب کی سطح پر بھی آزادی چاہتی ہیں۔ وہ جب کہتی ہیں میں کراچی کے ساحل پہ چلتے ہوئے کیسے گنگا کی لہروں پہ رکھتی قدم؟ تو جنوبی ایشیائی تہذیب کی اس آزادی کی بات کرتی ہیں جسے کئی سیاسی واقعات نے محال بنادیا ہے۔ انھوں نے کراچی کا نوحہ بھی لکھا ہے۔ کراچی کو وہ اپنی چاک دامانی کا قصہ کہتی ہیں اور اپنے سینے کے سمندر کو کراچی کہتی ہیں۔ اپنی نجی ذات کے کناروں کو تمدنی ذات سے ملانے کا باعث دونوں کا تار تار ہونا ہے۔ شہر آدمی کو تحفظ، معاش، مواقع، شناخت ہی نہیں دیتا، اسے اپنے اظہار کے لیے وسیع و متنوع سپیس بھی دیتا ہے۔ صنعتی عہد کے ابتدائی عرصے میں شہر کو ایسے ہجوم کے طور پر پہچانا گیا تھا جس میں آدمی کی شناخت گم ہوجاتی ہے، مگر اب شہر سے آدمی کو تعلق اس سے کم پراسرار نہیں ہے جو کبھی فطرت سے ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ادیبوں نے اپنے شہروں پر لکھا ہے۔ نینا عادل کراچی کی خاک پر بوٹوں کے نشانوں کے گہرے ہونے کا ذکر کرتی ہیں اور کہتی محسوس ہوتی ہیں کہ ان کے سبب کراچی کی روح آزاد نہیں ہورہی؛ کراچی اپنی ثقافتی تخلیقی روح کو کسی آسیب کے زیر اثر محسوس کرتا ہے۔ نظم آؤ نا میں وہ من کی آزادی کا نغمہ لکھتی ہیں۔ فصل گندم کی تیار ہے یا لاؤ نان جویں خلوتِ خاص میں گہرے تلازمات کی حامل لائنیں ہے جو ممنوعات کو توڑنے اور پوری ہستی کی آزادی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اس سے ملنے و الی سرشاری میں ڈوبی ہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں تخلیقیت کے جشن کا تصور رکھتی ہیں۔ یہ جشن شاعری کی تخلیق کے دوران ہی میں ممکن ہے۔ عام سی چیزوں سے شاعری خلق کرنا، دنیا کی ہر شے کو اس جشن میں شریک کرنے کی طرف قدم ہے۔ نظم تجسیم کی ان دو لائنوں میں ان کی نظموں کی شعریات کھنچ کر آگئی ہے۔ (اور یہ لائنیں ایک عورت ہی لکھ سکتی ہے۔)

    گرم روٹی پہ گھی، پیاز، چٹنی، محبت کے دو بول

    سنگیت!

    یہاں ہلکا سا ابہام ہے کہ کیا سنگیت گرم روٹی پہ گھی ڈالنے سے پیدا ہوا ہے یا ایک طرف یہ بے رنگ روزمرہ ہے اور دوسری طرف کائنات میں جاری ازلی سنگیت ہے جو بے رنگ روزمرہ کو گوار ابناتا ہے۔ ان کی باقی نظمیں پڑھیں تو پہلی بات درست محسوس ہوتی ہے۔ وہ سنگیت یعنی تخلیقیت کو کہیں باہر سے نہیں، کسی مابعد الطبیعی سرچشمے یا روایت وتاریخ سے نہیں، خود اسی اپنی روزمرہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلق میں دیکھتی ہیں۔ اس سے ان کی شاعری کسی پہلے سے موجود نظریے یاتصور کی ترسیل کا بوجھ اٹھانے سے محفوظ رہتی ہے۔ یہ بوجھ اٹھانے کے لیے اصلاح پسند کافی ہیں۔ واضح رہے کہ روزمرہ دنیا کو لکھنے کا مطلب اسے دہرانا نہیں، اس کو منقلب کرناہے، اس دنیا کے ساتھ خاص نوع کا۔۔یعنی فنکارانہ۔۔ تعلق قائم کرکے۔ نینا عادل نے یہی کام کیا ہے۔ وہ موجود دنیا، جیسی بھی ہے، ا س کا انکار نہیں کرتیں۔ وہ اسے سب سطحوں پر محسوس کرتی ہیں اور اپنے احساسات کے ساتھ لفظ کی وجودی دنیا میں سفر کرتی ہیں۔ اس سے ان کی شاعری میں ایک عجب غنائیت اور طرح طرح کی حسی تمثالیں اور ایک خاص قسم کا بیانیہ انداز پیدا ہوا ہے۔ اس بنا پر ان کی نظم سامنے کی باتوں پر منحصر ہونے کے باوجود اس کا مثنیٰ ہوتی ہے نہ اس کی کوئی پرخلوص ترجمان۔ ایک نئی تخیلی دنیا ہوتی ہے۔ اس نوع کی شاعری لکھنے کے دوران میں وہ اس یقین کو حاصل کرتی ہیں کہ دنیا سے آدمی کے تعلق کا معتبر ذریعہ آرٹ ہی ہے۔ نظم رقص میں ان کا یہی یقین ظاہر ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے، ا س سے آدمی کو اپنے سب سوالوں کے جواب نہ ملیں، خاص طور پر اس سوال کاجواب کہ آدمی کو معمولی جسم اور غیر معمولی ذہن دے کر اسے دونیم کیوں رکھا گیا ہے ۔۔۔ مگر اس سے آدمی وکائنات کے بیچ ایک پر آہنگ وپر نشاط اور بیگانگی سے ناآشنا رشتہ ضرور وجود میں آجاتا ہے۔ اس رشتے کو نینا عادل کہیں چڑھتی ندی، کہیں آگ اور کہیں رقص کے استعاروں میں پیش کرتی ہیں۔ رقص میں چڑھتی ندی اور آگ دونوں شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ نظم رقص میں فنون ِ جاوداں کی آرزو کرتی ہیں کہ شاید اس طرح وہ خدا ملے جو آج تک نہیں ملا۔ ایک تخلیق کار کے طور پر وہ جانتی ہیں کہ سب فنون فانی ہیں، بس عمروں کا فرق ہے۔ کسی کی ایک دن اور کسی کی ایک قرن اور کسی کی ہزاروں برس۔ ہم فانی انسان، جاوداں فن کی آرزو ہی کر سکتے ہیں اور یہی آرزو ہمیں فن کی تخلیق کے راستے کا مسافر بنائے رکھتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نینا اگر کسی خدا کا تصور رکھتی ہیں تو اسے وہ فنون جاوداں کے ذریعے ہی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ خدا کا تصور ایک ابدی جمال کے طور پر کرتی محسوس ہوتی ہیں۔

    نظم کی شعریات کے اسرار کا محرم، غزل کی شعریات کو برتنے میں جدت دکھا سکے، ایساکم ہوتا ہے۔ کلاسیکی عہد میں بھی شعرا غزل اور نظم کی متعدد ہیئتوں کو اختیار کیا کرتے تھے مگر اپنا مخصوص انداز (جس کا حصول کلاسیکی شاعر کا مطمح نظر ہوا کرتا تھا) کسی ایک صنف ہی میں ظاہر کر پاتے۔ اگرچہ انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی کینن کے زیر اثر غزل و نظم میں جدل کی صورت پیدا ہوئی اور آگے غزل مردود ٹھہرائی جانے لگی، تاہم سوائے چند شعرا کے سب نے دونوں اصناف میں لکھا ہے۔ ان کے یہاں بھی یا غزل اوّل درجے کی ہے یا نظم۔ چندشعرا ہی استثنا کا درجہ رکھتے ہیں۔ نینا عادل کی مثال بھی استثنائی ہے۔ ان کی غزل، ان کی نظم سے کم نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں کی شعریات اور انھیں تشکیل دینے یا ان کے کرافٹ کو یکساں اہمیت دیتی ہیں۔ شاعری کو اظہار ِ ذات سمجھنے کے تصور نے شاعری کو جہاں بے ساختگی دی، وہاں اس کی فنی حیثیت کے سلسلے میں بے نیازی کا رویہ بھی پیدا کیا۔ نینا عادل شاعری (غزل ونظم) کے نفسی و فنی پہلوؤں کو یکساں اہمیت دیتی ہیں۔ ان کے لیے اصناف کی ہیئت واسلوب وتیکنیک، ان کی شعری ذات سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ وہ بلاشبہ فنی اصولوں اور رسمیات میں تجربے کرتی ہیں، مگر وہاں جہاں انھیں ہیئت واسلوب وتیکنیک کے ناکافی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے غزل میں ایک اپنا اسلوب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مصرعوں کے بیچ چھوٹے چھوٹے وقفوں کا اہتمام کرتی ہیں، تاکہ آپ انھیں پڑھتے ہوئے رکیں، بسرام کریں، ان کے آہنگ کی ہر ہر لرزش کو محسوس کریں، ہر ہر امیج کی انفرادیت کا احساس کریں اور پھر ان سب کو ملا کر ایک کل کا تصور کریں۔ وہ اصوات کی تکرار وتضاد سے بہ یک وقت کام لیتی ہیں۔ کہیں مختصر بحر استعمال کرتی ہیں اور کہیں قدرے طویل۔ اسی طرح ذو القافیتین اور ذوالردیفین میں غزل لکھی ہے جسے لکھنا آسان نہیں ہے۔ کئی مقامات پر ان کی غزل میں گیت کا سا آہنگ اور گیت ہی کی لفظیات ہیں۔ یہ آہنگ اور لفظیات ایک حد تک ان کی نظموں میں بھی موجود ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی شعری ذات میں کہیں میرابائی کا آرکی ٹائپ براجمان ہے۔ غز ل میں بھی کئی مقامات پر ان کے لہجے میں ایک خاص نرمی، گھلاوٹ اور خود سپردگی کا انداز ہے، جو قاری کو میرابائی کی یاد دلاتا ہے۔ تاہم ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اپنی نظم کو غزل میں یا غزل کو نظم میں رلا ملا دیتی ہیں۔ انھیں دونوں کی شعریات اور ان کی فنی حدود کا مکمل شعور اور لحاظ ہے۔

    امید ہے پاکستانی قارئین بھی اس مجموعے کا استقبال اسی گرم جوشی سے کریں گے جس کا یہ مستحق ہے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے