Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات

خان رضوان

ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی علمی اور تحقیقی خدمات

خان رضوان

MORE BYخان رضوان

     

    ڈاکٹر محمد ایوب قادری (۲۸ جولائی ۱۹۲۶ء۔ ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء) تاریخ و تحقیق کی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ ایک ممتاز محقق، مولف، اور متر جم ہیں، ان کا شمار نابغہ روز گار علمی و ادبی شخصیات میں ہو تا ہے۔ انھیں تا ریخ، سوانح، ادب اور فن اسماء الر جال پر مکمل درک حاصل تھا۔ انھو ں نے تحقیق کے میدان میں دور اندیشی، بالغ النظری، ذہانت و ذکا وت، انتھک ریاضت، باریک بینی اور علمی و فنی آگہی کے ساتھ تا ریخی بصیرت کو بروے کار لاتے ہوئے فن تحقیق کے چراغ کو روشن کیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں ایک مستند اور معتبر محقق کا اعتبار حاصل رہا۔ ایوب قادری بر صغیر کی یکتا ویگا نا اور متنوع ادیب تھے۔ وہ ایسے نا بغئہ روزگار شخصیت تھے جسے زمانہ برسوں میں جنم دیتا ہے۔ ایوب قادری علم کا ایسا خاموش دریا تھے جس کی بے کرانی میں سینکڑوں لہریں تہہ آب رواں دواں ہوں اور سطح آب پر پر بہار سکوت گہرائی وگیرائی کی آگہی دے رہا ہو۔ آپ کی علمی بصیرت و آگہی پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ، 

    اک ہمالہ جس کے قد سے پوری دنیا آشنا 
    اک سمندر اپنی گہرائی سے خود نا آشنا 

    ایوب قادری کا تعلق اتر پر دیش کی اس سر زمین سے ہے جس نے ایک سے ایک لعل وگہر کو جنم دیا جن کی عظمتوں کے نقوش پوری دنیا پر مرتسم ہیں۔ جسے علما، ا دبا اور شعرا کی سر زمین کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ان میں مولانا احمد رضا خان بریلوی، شیام موہن لال جگر بریلوی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پرو فیسر شہریار، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، ڈاکٹر وسیم بریلوی، عقیل نعمانی، افتخار رضوی (انگریزی کے شاعر) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی ریاست کے شہر بریلی کا ایک چھوٹا سا قصبہ آنو لہ ہے جس کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مسلم۔ صنعت حرفت میں اتر پردیش میں قصبہ آنولہ کو جو مقام حاصل ہے قنوج کے علاوہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے، یہ حکومت روہیلہ کا پہلا دار الحکومت بھی رہا ہے۔ جس کے پہلے فر ما ں روانواب علی محمد خان (۱۷۴۹) تھے۔ ان کے گزر جانے کے بعد حافظ رحمت خاں ان کے جانشیں ہوئے، جنہوں نے بریلی کو اپنا مسکن بنایا۔ نواب علی محمد خان اور حافظ الملک حافظ رحمت خاں کے ابتدائی دور میں روہیل کھنڈ کا صدر مقام آنولہ تھا اور اس دور میں یہاں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ 

    اسی آنولہ میں ڈاکٹر ایوب قادری ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان شروع سے علم وادب کا گہوارا رہا ہے۔ تاریخ وانساب اور علوم دینیہ سے دل چسپی اس کا نمایاں وصف رہا ہے اور ایوب قادری کو یہ چیزیں وراثت میں ملی تھیں۔ ان کے مورث اعلی روہیلوں کے عہد میں آنو لہ آئے۔ نواب علی محمد خان والی روہیل کھنڈ نے حضرت شاہ نوری نیازی کی زیارت کے بعد جو بڑی اراضی وقف کی تھی اس کے متولی ان کے جد امجد حکیم احمد اللہ تھے۔ جو اپنے دور کے نا م ور عالم اور خطیب تھے۔ ایوب قادری نے اسی قصبہ میں مروجہ روایت کے تحت سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ تعلیم المومنین آنولہ میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۹ء میں پرائمری کاامتحان اول درجے میں پاس کیااور وظیفے کے مستحق قرار پائے ۱۹۴۲ء میں مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ۱۹۴۷ء میں الہ آباد بورڈ سے میٹرک کا امتحا ن دیا اور فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں انٹر کا امتحان اسلامیہ کالج بدایوں سے پاس کیا۔ اس دوران ان کے والد ماجد ہجرت کرکے پاکستان جاچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب والد کی جدائی برداشت نہیں کرسکے اور بالآخر وہ بھی مئی۱۹۵۱ء میں پاکستان جا پہنچے۔ ابتدا میں والد کے پاس قیام کیا اور پھر روزگار کی تلاش میں کراچی کارخ کیا۔ ستمبر۱۹۵۱ء میں سپلائی اینڈڈولپمنٹ یعنی وزارتِ صنعت، محکمہ رسدوترقیات میں نوکری کرلی۔ 

    دورانِ ملازمت انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو پھر سے شروع کیا اور ۱۹۵۶ء میں اردو کالج سے بی، اے کیا۔ ۱۹۵۷ء میں سید الطاف علی بریلوی نے آل پاکستان ایجوکیشن کانفرنس قائم کی اور ایک سہ ماہی رسالہ ’العلم‘ بھی جاری کیا۔ اسی اثنا میں سید صاحب مرحوم کی ملاقات ڈاکٹر ایوب قادری سے ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں سید صاحب نے ایک پارکھ کی طرح اس جوہر قابل کو پرکھ لیا اور ان کو اپنے رسالہ ’العلم‘ کے لیے مضامین لکھنے پر آمادہ کرلیا۔ چنانچہ قادری صاحب نے مذکورہ رسالہ کے لیے کثرت سے مضامین لکھے۔ اسی دوران ان کی پہلی تصنیف ’مولانا فیض احمد بدایونی‘ شائع ہوئی۔ او ر یہاں سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ ان کی موت پر ہی جا کر ختم ہوا۔ 

    ۱۔ شخصی تحقیق (یعنی تحقیقی سوانح عمریاں) 
    (۱) مولانا فیض احمد بدایونی، کراچی ۱۹۵۷ء 
    (۲) مخدوم جہانیان گشت، کراچی، ۱۹۶۳ء 
    (۳) مولانا محمد احسن نا نوتوی، کراچی، ۱۹۶۶ء 
    (۴) کاروان رفتہ، کراچی، ۱۹۶۳ء 
    (۵) ارباب فضل وکمال (یاد گار بریلی) کراچی، ۱۹۷۰ء 

    ۲۔ تاریخ و تحریکات 
    ۱۔ تبلیغی جماعت تاریخی جائزہ، کراچی، ۱۹۷۱ء 
    ۲۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ’واقعات و شخصیات‘ کراچی، ۱۹۷۶ء 
    ۳۔ غالبیات (غالب اور عصر غالب، کراچی، ۱۹۸۲ء) 
    ۴۔ تراجم
     (۱) تذکرۂ علمائے ہند (رحمان علی) کراچی۱۹۶۱ء (۲) وقائع نصیر خانی (مرزا نصیر الدین) کراچی ۱۹۶۱ء (۳) مجموعہ وصایا اربعہ (شاہ ولی اللہ وغیرہ) حیدر آباد ۱۹۶۴ء (۴) مآثر الامراء (صمصام الدولہ شاہ نواز خاں) تین جلدیں، لاہور ۱۹۶۸ء- ۱۹۷۰ء (۵) فرحة الناظرین (محمد اسلم انصاری) کراچی ۱۹۷۲ء (۶) سیر العارفین (جمالی) لاہور۱۹۷۶ء 

    ترتیب و تدوین 
    (۱) علم و عمل (وقائع عبد القادر خانی) دو جلدیں، کراچی ۱۹۶۰ء 
    (۲) تواریخ عجیب (کالا پانی۔ محمد جعفر تھانیسری) کراچی ۱۹۶۲ء 
    (۳) عہد بنگش کی سیاسی، علمی و ثقافتی تاریخ (تاریخ فرخ آباد) مؤ لف مولوی فرحت اللہ فرخ آبادی، کراچی ۱۹۶۵ء 
    (۴) مقالاتِ یوم عالمگیر، کراچی ۱۹۶۶ء 
    (۵) تذکرہ نوری (مفصل حالات و سوانح حضرت شاہ عبد الحسین نوری مارہروی) لائیل پور۱۹۸۶ء 
    (۶) مرقع ِ شہابی (مفتی انتظام اللہ شہابی) کراچی ۱۹۷۹ء 
    (۷) جنگ نامہ آصف الدولہ و نواب رام پور (خلیفہ محمد معظم عباسی ۴۹۷۱ء) کراچی ۱۹۸۰ء 

    ان کے علاوہ تین کتابوں میں شریک مصنف رہے، 
    (۱) خط و خطاطی، کراچی ۱۹۶۱ء 
    (۲) علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، کراچی ۱۹۷۰ء 
    (۳) نقوشِ سیرت، کراچی ۷۷۹۱ء 

    اس کے علاوہ ڈاکٹر ایوب قادری نے تقریباً تیس سے زائد کتب کے مقدمات تحریر کیے ہیں اور تقریباً دو سو قابل قدر مضامین لکھے جو برصغیر ہندو پاک کے ممتاز علمی و تحقیقی رسائل و جرائد کی زینت بنے۔ 

    مولانا فیض احمد بدا یونی کی اشاعت کے بعد اہل علم کی نظریں ایوب قادری کی طرف اٹھنے لگیں۔ یہ اگرچہ مختصر کتاب تھی، لیکن ان کی تحقیقی وتصنیفی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کے لیے کافی تھی۔ ڈاکٹر معین الحق، جوکہ ہسٹاریکل سوسائٹی کے معتمد تھے انہوں نے اپنے ادارہ میں تحقیقی کاموں میں تعاون اور ریسرچ کے لیے ڈاکٹر ایوب کو اپنے پاس بلالیا۔ انہی دنوں انھوں نے مفوضہ ذمے داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے ۱۹۶۲ء میں اردو سے ایم، اے کرلیا۔ اس کے بعد اردو کالجمیں جزوقتی لکچرار کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے۔ بعد میں اسی کالج میں مستقل لکچرر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۹۸۰ء میں ’اردو نثر کے ارتقا میں علما کا حصہ‘ (شمالی ہند میں ۱۸۵۷ء تک) کے عنوان سے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ 

    اردو کالج سے وابستہ ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی علمی وتحقیقی اور تصنیفی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا۔ اس زمانے کی کاوشوں میں مخدوم جہانیان جہاں گشت، مولانا محمد احسن نانوتوی، ارباب فضل وکمال (بریلی) کی سوانح عمریاں اور ان کے علمی کارناموں کا مفصل تذکرہ اور پھر تبلیغی جماعت کا تاریخی جائزہ اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے واقعات وشخصیات پر ان کی جامع اور وقیع تصانیف ان کے یادگار علمی کارنامے ہیں۔ ان کے علاوہ تراجم میں دو مجموعہ وصایا اربعہ، شاہ ولی اللہ وغیرہ) ماثرالامرا (شاہ نواز خاں کی تصنیف کردہ تین جلدیں) فرحة الناظرین، (محمد اسلم انصاری پسروری) اور ’سید العارفین، (جمالی) اور ترتیب وحواشی میں تواریخ عجیب، (کالا پانی) عہد بنگش کی سیاسی، علمی اور ثقافتی تاریخ، مقالاتِ یوم عالمگیر، تذکرۂ نوری، (حالات شاہ ابوالحسن نوری مارہروی) اور جنگ نامہ آصف الدولہ ونواب رام پور(معظم عباسی) وغیرہ ان کی ایسی کاوشیں ہیں جو علمی دنیا کے لیے مستقل استفادہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

    ۱۹۶۲ء کے بعد ڈاکٹر ایوب کی تصنیف وتالیف میں مزید تیزی آگئی۔ اسی سال یعنی۱۹۶۲ء میں ہی تواریخ عجیب عرف کالا پانی، کو جس کے مصنف جعفر تھا نیسری ہیں، قیمتی اور مفید حواشی کے ساتھ ترتیب دے کر سلمان اکیڈمی سے شائع کرایا۔ مذکورہ بالا تالیف وتصنیف کے علاوہ ڈاکٹرمحمد ایوب قادری کی دوسری تالیفات و تصنیفات بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن یہاں میں صرف دو کتابوں کے تعلق سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تواریخ عجیب اپریل ۱۸۷۹ء میں مکمل ہوئی۔ اس کا دوسرا حصہ کالا پانی کے نام سے ۱۸۸۴ میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا نام اکثر کالا پانی بھی لکھا جاتا ہے۔ جب مولوی محمد جعفر تھانیسری انڈمان سے واپس آئے توان کے احباب واعزہ ان سے طویل زمانہ اسیری کے حالات پوچھنے شروع کیے تو جوابا انھوں نے اس مختصر سی کتاب میں اپنی اسیری، مقدمے، سفر انڈمان، انڈمان کی زندگی اور رہائی کے حالات نہایت دلدوز اور جاں کاہ انداز میں لکھے۔ تا ریخ عجیب دو حصوں پر مشتمل ہے اس کا پہلا حصہ جزائر انڈمان وپورٹ بلیئر کے حالات وواقعات سے متعلق ہے اور دوسرے حصے میں ان جزائر میں مروجہ بتیس مشہور زبانوں کے روز مرے اور محاورے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولوی تھانیسری نے اس کتاب میں ایک جگہ وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے ’’کچھ لوگ جو مجھ سے اردو ناگری اور فارسی سیکھتے تھے انھوں نے فرمائش کی تھی کہ مروجہ اردو پر پورٹ بلیئر میں کوئی ایک کتاب تصنیف کی جائے جس سے یہاں کے لوگوں کو اردو سیکھنے میں مدد مل سکے، در حقیقت یہ کتاب سید احمد شہید کی تحریک کے سلسلے میں مولوی محمد جعفر کی خود نوشت اور ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اس میں ایسے ایسے حالات و واقعات ہیں جو کسی دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں کیے جا سکتے۔ 

    جب ۱۹۳۱ء میں حادثہ بالا کوٹ پیش آیا سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل کوشہید کر دیا گیا تو اس کے بعد اس تحریک کے قائد مولانا ولایت علی صادق پوری ہوئے جو اس وقت دکن میں حاد ثہ عظیم کے بعد وہ فورا ََصادق پور پہنچے مولانا کا انتقال ۱۸۵۲ء میں ہوا۔ اس کے بعد ان کے منچھلے بھائی مولانا عنایت علی امیر مقرر ہوئے، مولاناپر جوش مجاہدتھے اس لیے ہمیشہ انگریزوں سے ان کی جھڑپیں ہوتی تھیں۔ آخر کار ۱۸۵۸ء میں پشاور سے جنرل کاٹن کی سر کردگی میں مجاہدین پر حملہ ہوا اور بڑی تعداد میں مجاہدین شہید ہوئے اورکچھ پہاڑوں میں چھپ گئے۔ مولانا عنایت علی نے استھاواں (بہار شریف) کا رخ کیا مگر راستے میں بہ مقام چمپئی ۱۸۵۸ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا مولانا عنایت علی کے بعد ان کے بھتیجے مولانا عبداللہ ابن مولانا ولایت علی امیر قرار پائے۔ اس بیچ میں میر نصر اللہ اور میر مقصود نے قیادت کی۔ مولانا عبد اللہ نے جب زمام ِکار ہاتھ میں لیا تو اس وقت سب سے اہم واقعہ معرکہ امبیلہ ۱۸۶۲ء پیش آیا جس میں مجایدین نے عزم و استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا، اس وقت تحریک کا ہند وپاک میں سب سے بڑا مر کز صادق پور پٹنہ تھا۔ درحقیقت انگریز وں نے تحریک ِجہاد کو بری طرح کچلا اور مجاہدین ومصلحین کو وہابی کے نام سے موسوم کر کے بدنام کیا۔ سید احمد شہید کی تحریک خالص دینی تحریک تھی، اس تحریک کا اہم ترین عنصر جہاد اور اصل مقصد حکومت ِ الٰہی کا قیام تھا۔ مولانا نے طاغوطی نظام کے خلاف اور سکھا شاہی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس وقت پنجاب میں مساجد اور اسلامی شعائر کی اعلانیہ بے حرمتی ہوتی تھی۔ اور اس علاقے میں مسلمان سخت اذیت وپریشانی میں مبتلا تھے۔ اس علمِ جہاد کے نتیجے میں ۶مئی ۱۸۳۱ء کو سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل نے بالا کوٹ میں جام شہادت نوش کیا۔ 

    اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ذہنی پستی اور غلامی کا شکار تھے ا نھوں نے سید احمد شہید کے بجائے طاغوطی نظام کا ساتھ دیا اور ظالموں کے ساتھ ہو لیے۔ آخر کار اس کا نتیجہ جو ہونا تھا سو ہوا غرض یہ کہ حادثہ بالا کوٹ تاریخ کا ایک اہم اور تاریخی حادثہ ہے۔ جسے تا قیامت بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کی پہلی کتاب مآثر الامرا ہے، جو ایوب قادری کی محنت وجاں فشانی، ترجمہ کی صلاحیت اور ایڈیٹنگ کی خوبی کے لحاظ سے شاہ کار ہے۔ بعض اہل علم کا یہ خیال بالکل بجا ہے کہ اگر ایوب صاحب اس کے علاوہ کچھ نہ لکھتے تب بھی وہ مصنفین کی صف اول کے مستحق ہوتے۔ ماثر الامرا کی تین ضخیم جلدیں دیکھ کر لگتا ہے کہ صاحب ِ تصنیف جنگ آزادی ۱۸۷۵ء کے ممتاز مجاہد مولانا فیض احمد بدایونی کے حالات پر مشتمل مقالہ ہے، اس گرانقدر مقالہ کو پاکستان کے علمی حلقوں میں کافی پسند کیا گیا اور خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان کے موقر روزنامہ ”الجمیعت“ دہلی نے اپنی دو اشاعتوں میں طبع کیا۔ در اصل کتاب ’جنگ آزادی ۱۸۷۵ء میں مصنف مذکور جنگ آزادی کے بہادر اور جانباز مجاہدین کا ذکر کرنا مقصود جانتے ہیں، جنھوں نے ۱۸۷۵ء میں حصہ لے کر ملک وقوم پر اپنی جان نچھاور کردی۔ 

    مولانا فیض احمد کا تعلق ضلع بدایوں (یوپی) کے مشہور عثمانی خاندان سے تھا۔ اس خاندان کے نامور بزرگ محمد دانیال قطری تھے جو عہد شمسی میں بدایوں آکر عہدئہ قضا پر فائز ہوئے۔ اس خاندان کے باعلم بزرگوں نے ہر دور میں عہدئہ قضاء وقضاکو زینت بخشی۔ قاضی رکن الدین (المتوفی ۱۲۴۰ء) قاضی سعدالدین المعروف بہ قاضی سعد بے گواہ (المتو فی ۱۲۸۸ء) مولوی مرید محمد (المتوفی ۱۲۸۷ء) مفتی عبد الغنی (المتوفی ۱۷۴۹ء) بحر العلوم مولانا محمد علی (التوفی ۱۷۸۲ء) مفتی محمد عیوض بدایونی ثم بریلوی، مولانا عبد المجید (المتوفی ۱۸۴۶ء) مولانا فضل رسول (المتوفی ۱۸۷۲ء) مولانا عبد القادر (المتوفی ۱۹۰۱ء) مولانا عبد المقتدر (المتوفی ۱۹۳۱ء) وغیرہ۔ 

    یہ اس خاندان کی وہ نامور ہستیاں ہیں جنھونے اپنے عہد کے عہد ئہ قضا کو وقار بخشا۔ مولانا فیض احمد کے بزرگوں میں مولوی مرید محمد بن ملاّ عبد الشکور نے عہد عالمگیری میں قوم نانگہ سے زبر دست جہاد کیا۔ اسی طرح مفتی محمد عیوض بن مفتی درویش محمد بدایونی، مفتی بریلی نے سب سے پہلے روہیل کھنڈ میں انگریزوں سے ۱۸۶۱ء میں لوہا لیا۔ مولا نا فیض احمد کے پردادا مولانا محمد علی عالم اجل وفاضل ِبے بدل تھے۔ اور ان کے دادا فقہ میں دستگاہ رکھتے تھے۔ ان کے نانا حضرت مولانا عبد المجید فاضل زمانہ وعالم یگانہ تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مولانا فیض احمد کا خانوادہ اہل علم اور فضل کی صف میں کہاں کھڑا تھا۔ اس کتاب کے پیش ِ لفظ میں یہ کہا گیان ہے کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کی تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے اور انقلاب کو انگریزوں نے صرف سپاہیوں کی ایک غیر منظم سازش اور بغاوت سے تعبیر کر کے اہلیان ِ بر صغیر کو ظالم وجابر گردانا اور اس منظم وہمہ گیر تحریک کو قصداََ بدنام کیا گیا۔ 

    ڈاکٹر ایوب قادری کے علمی سفر کا ایک طائرانہ جائزہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے جن موضوعات پر بھی قلم اٹھایاان کا حتیٰ المقدور حق ادا کیا۔ ان کے سامنے علمی تحقیق کے بہت سے موضوعات تھے جن پر وہ کام کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ مشہور عرب شاعر متنبی کی بے وقت موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا کہ جس طرح تیز تلوار اپنی نیام کو کھاجاتی ہے اسی طرح متنبی کی ذہانت نے اس کی زندگی کو مختصر کردیا۔ یہی بات ڈاکٹر محمد ایوب پر بھی صادق آتی ہے۔ ایوب قادری جیسے لوگ کسی بھی قوم کی شان ہوتے ہیں، لیکن جو قوم کسی کو بڑا سمجھنے کے لیے دوسرے معیارات رکھتی ہے اور وہ مردہ پرست ہوتی ہے تو وہ ایوب قادری جیسے لوگوں کو کبھی صحیح مقام نہیں دے سکتی۔ 

    ڈاکٹر ایوب قادری معلومات کا خزانہ رکھتے تھے، اور علم الرجال پر ان کو مہارت حاصل تھی۔ مطالعہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، کتابوں سے ان کو عشق تھا۔ کتابوں اور اپنی تصانیف کے لیے مواد اکٹھا کرنے کے لیے انہوں نے میلوں کے صبرآزما سفر کیے۔ علم کے حصول کے لیے انہوں نے ہر مشکل کو انگیز کیا اور انتھک محنت اور سعی مسلسل سے علمی دنیا میں ایک ممتاز مقام پیدا کیا۔ 

    کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزرگئے 
    جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں 

    ثناء الحق صدیقی علیگ نے اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر محمد ایوب کی تصنیفی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ 

    ”ایوب صاحب کی ہر تحریر میں تحقیق کی شان پائی جاتی تھی۔ ان کو صاحبِ طرز ادیب تو نہیں کہاجاسکتا اور ہر مصنف یا محقق کے لیے صاحبِ طرز ادیب ہونا ضروری بھی نہیں ہے، تاہم ان کی تحریر میں ڈھیلاپن، ابہام، اہمال یا ژولیدگی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں گھٹاؤ اور زورپایا جاتا ہے اور وہ جو کچھ کہتے ہیں، سادہ اور صاف الفاظ میں اور نہایت قطعیت اور اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں۔“ (ثناء الحق صدیقی ایم۔ اے (علیگ) ’’ڈاکٹر محمد ایوب قادری مرحوم‘‘ مشمولہ ’یادگار ایوب قادری‘، ص۵۷)

    ایوب قادری بے پناہ علمی، ادبی اور تخلیقی صلا حیتوں کے مالک تھے۔ وہ اپنی خفتہ خصوصیات کو جلا بخشنے کی غرض سے ہمہ آن یکسوئی کے ساتھ مطالعہ اور تحقیق و تنقید کی جستجو میں غرق رہتے تھے۔ ان کو اللہ تعالی نے جو صلاحیتیں ودیعت کی تھیں وہ خدا داد تھیں، ان کے علمی کاموں میں جتنا ان کی محنت اور لگن کا دخل تھا اتنا ہی ان کی ذہانت کاحصہ بھی شامل تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ انسان کے پاس خواہ کتنا ہی علم ہو، اگر مطالعہ اس کے معمولات زندگی میں شامل نہیں ہے تو اس کا علم فرسودہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنی شادابی کھو دیتا ہے۔ اس کی مثال پانی سے بھری ندی کی ہے۔ ندی میں اگر بہاؤ نہیں ہے تو وہ پانی سڑنے لگتا ہے اور اس میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ قادری صاحب کو کتابوں سے عشق تھا۔ ان کی زندگی میں دوسری دل چسپیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ملازمتیں حاصل ہوجانے کے بعد صرف آسودہ حال زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایوب قادری کا

     ذاتی کتب خانہ ان کے اس عشقِ لازوال کی زندہ اور عمدہ یادگار ہے۔ انہوں نے کتابوں کے حصول اور ماخذ تک پہنچنے کے لیے کافی محنت کی۔ حصولِ علم کے لیے ان کی جاں فشانی اسلاف کی یاد تازہ کرتی ہے۔ 

    ڈاکٹر ایوب قادری کا علمی سفر جاری تھا کہ وہ ایک دن شاہ راہ پر اپنے فکروخیال میں غلطاں چلے جارہے تھے کہ ایک گاڑی نے انہیں ٹکرماردی اور وہ چل بسے پوری علمی دنیا نے اس کا سوگ منایا۔ موت العَالمِ موت العَالمِ کا جملہ بہتوں کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر محمد ایوب صاحب اس کے صحیح مصداق تھے۔ ان کی جلالتِ علمی کا بہت سارے لوگوں کو اس وقت احساس ہوا جب وہ اس دارفانی کو چھوڑکر ملک عدم کو روانہ ہوچکے تھے۔ 

    رخصت ہوا کون حق رسیدہ
    ہر اہل وفا ہے آبدیدہ

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے