دختر کشمیر : کشمیر کی نمائندگی کرنے والی معتبر آواز
صنف نازک ہونے کے باوجود عورت بڑی بہادر ،سخت محنتی اور اپنے آپ کو ثابت کرنے کی قوت اور صلاحیت رکھتی ہے۔اس میں ضبط کرنے کا مادہ اور برداشت کرنے کی بے پناہ استعداد اور قابلیت ہے۔عورت کو یہ امیتاز حاصل ہے کہ اس کی گود ہی انسان کی پہلی دانش گاہ ہے ۔ اس مقدس ہستی کی گود میں ہی قومیں پلتی ہیں اور اس قابل اور لائق ہوجاتی ہیں کہ وہ دنیا میں ترقی کی منازل کو آسانی سے طے کر سکیں۔دنیا کی رونق اسی ہستی کی بدولت ہے ۔کائنات کی کوئی دوسری شئے اتنی پر رونق اور توجہ طلب نہیں۔اس کے کئی عکس ،کئی رنگ اور کئی روپ ہیں۔کبھی یہ بہن کے روپ میں دلار اور شفقت کا اظہار کرتی ہے تو کبھی شریک حیات بن کر زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے کا فریضہ نبھاتی ہے۔یہ ماں بن کر اپنی مامتا اور لاڈ سے نوخیز پھولوں کی تربیت کرتی ہے اور انہیں پروان چڑھا کر اس قابل بناتی ہے کہ وہ انسانیت کے سچے خیر خواہ اور بہترین زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اچھے اور نیک انسانوں میں شمار ہوجائیں۔
اس نے ہر دور میں اپنی اہمیت منوائی۔اس نے وہ دور بھی دیکھا جب بیوی بن کر یہ مرد کی تابع دار اور محکوم ہوتی تھی اور اس کے ساتھ غلاماں کا سا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔اس کے شوہر پر اس کا اتنا حق تھا کہ وہ چاہیے جتنی سختی اس سے برتے اس کو برداشت کرنا پڑتی تھی اور اس کرب سے بھی گزری جب اسے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلنا پڑتا تھا۔کبھی اس کو شیطان کا آلہ کار مانا گیا تو کبھی اس پر یہ الزام آیا کہ اس نے آدم کو جنت سے نکلوانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔کبھی اس کے وجود کو انبساط کا سامان مانا گیا، اس سے چھیڑ چھاڑ اور اس کی مختلف اداؤں کو تفریح اور غم غلط کرنے کا ذریعہ مانا گیا تو کبھی اس نے خود طوائف کا لباس زیب تن کیا اور خود کو سامان تفریح بنایا۔اتنے کڑے امتحانوں اور آزمائیشوں کے بعد بھی عورت نے ہر دور میں خود کو ثابت کیا اور پدری معاشرے میں اپنی پہچان ،شناخت اور اپنے ہونے کا اعلان کیا۔اس نے بڑی محنت ،جانفشانی ،عزم اور ارادے سے سماجی نظریے کو بدلا اور خود ہی اپنے زور قلم سے اپنے کردار کو وقار عطا کیا ۔
اس نے مختلف مشاغل روپ اور جون اختیار کئے۔کبھی یہ سورن کماری بنی تو کبھی اس نے اپنی پہچان ہوم وتی دیوی کے روپ میں کرائی۔اس نے رشید جہاں ، عصمت چغتائی اور قرت العین حیدر کی صورت میں اپنی شناخت بنائی تو کبھی ماہ لقا چندہ بائی اور لطف النساء کے روپ میں آکر اپنے احساسات وجذبات کی ترجمانی کی۔کبھی یہ رکمنی دیوی کے جون میں آکر اپنی کلاء اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگی تو کبھی مرنالی سارا بائی اور اندررانی رحمان کے روپ میں آکر اس نے رقص و موسیقی کو پروان چڑھایا۔ غرض اس کے کئی روپ ہیں اور کئی رنگ۔خدا تعالی نے عورت سے زیادہ نازک ،ملائم احساسات و جذبات رکھنے والی،شفقت اور محبت کی دیوی ،باہمت ،متنوع صلاحیتوں کی مالک اور پرکشش ہستی پیدا نہیں کی۔
دیگر شعبہ جات اور فنون کی طرح ادب میں بھی خواتیں کا حصہ ہے۔انہوں نے ادب کے باغ کو سیراب اور اس کی آبپاشی کی کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ انہوں نے اپنے احساسات اور جذبات بڑی چابکدستی اور فنکاری سے کبھی افسانے کے ذریعے بیان کئے تو کبھی شاعری کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔بین الاقومی سطح کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر کئی نام خواتین افسانہ نگاروں اور شاعرات کے ایسے آتے ہیں جہنوں نے اردو زبان کو اپنے مسائل اور احساسات کا وسیلہ اظہار بنایا۔ جموں و کشمیر میں بھی ایسے بہت سارے نام سامنے آتے ہیں جہنوں نے اپنے ناولوں ،افسانوں ، غزلوں اور نظموں میں اپنے مسائل ،دکھ درد ،پریشانیاں ،نسوانی احساسات اور زندگی کے نشیب و فراز کو موضوع بنایا۔
کشمیر میں اردو خواتین افسانہ نگاروں کے ناموں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔بہت کم قلیل خواتین افسانہ نگار یہاں کے ادبی منظر نامے کا حصہ بن سکی ہیں۔جن خواتین اہل قلم نے اپنا منفرد مقام اور الگ پہچان بنائی ان میں ایک اہم اور معتبر نام ترنم ریاض کا ہے۔ترنم ریاض نے ترجمے کے باغات لگائیں ، تحقیقی و تنقیدی مضامین کے پھول کھلائیں ، ناول سپرد قلم کئے ، شاعری کی زمین کو سینچا اور فن افسانہ نگاری میں بھی اپنے جوہر دکھائیں ۔ ترنم ریاض اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر افسانوی دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔اردو کے چوٹی کے ناقد گوپی چند نارنگ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ٫
چند دہائیاں پہلے ترنم ریاض وادی کشمیر کے ایک گل نورس کی حثیت سے ادب کے دشت بے اماں میں داخل ہوئی تھیں جہاں زمین سخت اور آسمان دور ہے۔ادب کی دنیا عجیب کشاکش کی دنیا ہے جہاں اچھے اچھوں کا ملمع دھلتے دیر نہیں لگتی۔ترنم ریاض اپنی لگن، دلسوزی ،انہماک اور ان تھک محنت کی وجہ سے معاصر اردو شاعری اور فکشن دونوں میں اپنی الگ پہچان بنا چکی ہیں اور معروف حیثیت رکھتی ہیں۔یہ وقت ہی طے کرے گا کہ وہ شاعری میں آگے ہیں یا فکشن میں، آثار تو فکشن کے ہی نظر آتے ہیں۔
ترنم ریاض نے اپنی محنت اور تخلیقی صلاحیتوں سے سخت زمین کو ہموار کیا، اتنا بلند مقام پایا کہ دور آسمان قریب ہوا اور جو فکشن میں آگے رہنے کے آثار نظر آرہے تھے وہ سچ ثابت ہوئے۔
مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کرنے والے ادباء کی تشنگی ایک صنف سے نہیں مٹتی ان کو نئے جہاں کی تلاش ہوتی ہے۔ ترنم ریاض کا مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنے جوہر دکھانا اس امر کا ثبوت فراہم کر رہا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ایک نئے جہاں کی متلاشی تھیں۔ انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے باوجود ادبیت کو قائم اور فنی معیار کو برقرار رکھا۔روزمرہ کے واقعات کو سادہ اور عام فہم زبان میں قاری کی نظر کرنا ان کا خاص وصف ہے۔ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود اپنے اندر ادبی معیار اور فنی رچاؤ رکھتی ہے۔چونکہ کشمیر سے تعلق تھا اور اپنا پورا بچپن کشمیر میں ہی گزارا اس لیے یہاں کے قدرتی مناظر ، سردیاں،گرمیاں،کھانے کی اشیاء ،مقامات، زبان اور لب و لہجہ سب کچھ ان کے افسانوں میں درآیا ہے۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے قاری کشمیری کلچر،تہذیب ،ثقافت ،معاشرت سے متعارف ہوتا ہے۔ تقریبا ہر افسانوی مجموعے میں چند افسانے ضرور ایسے ہیں جن میں وہ کشمیری کلچرل کی نمائندگی کرتی ہیں۔سردیوں میں کشمیر میں کانگڑی کو استعمال میں لانا عام ہے۔کانگڑی کشمیر کے کلچر کا حصہ ہے۔یمبرزل ان کا مشہور و معروف افسانہ ہے۔ یہ جملہ دیکھیں۔
یوسف نے پھرن کے اندر سے آگ سے بھری کانگڑی باہر نکال کر سبز گل بوٹوں والے قالین کے عین درمیان رکھ دی
یہ تنگ زمین ترنم ریاض کا مشہور افسانہ ہے۔ایک ماں جو اپنی ممتا ،لاڈپیار اور اپنا دلارو اپنے بہن کے لڑکے پر نچھاور کرتی ہے۔بچے کی موجودگی اس کے دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتی ہے۔بچہ فطرت کادلدادہ ہے۔کبھی وہ پھولوں کو غور سے دیکھتا ہے تو کبھی تتلی کا پیچھا کرتا ہے،کبھی گھاس میں چھپے مینڈکوں کو بھگاتا ہے تو کبھی چنار کے تنے کے گرد گول گول گھومتا ہے ،اپنی دھن میں مگن ،گھاس پر لیٹا ،نیلے آسمان کو تکتا ہے۔پرندوں کے نام پوچھتا ہے اور انہیں یاد رکھتا ہے ، موسیقی پر فریفتہ بچے سے جب پوچھا جاتا ہے کہ یہ لمبی پلکیں کہاں سے لائے تو وہ توتلی زبان میں جواب دیتا ہے کہ باجار سے ، کتنے میں دو لوپے میں۔ماں سے بڑ کر لارڈ کرنے والی اس کے لیے کھلونے لاتی ہے اور وہ کھلونے ایک کونے میں ڈھیر کی شکل لاپرواہی سے پڑے تھے کیونکہ بچہ اب بڑا ہو گیا تھا۔اپنے آس پاس کا اسے ادراک ہوگیا تھا، عادات بدل گئے تھے ،طور طریقے ،انداز اور ڈھنگ بدل گیا تھا۔اب اس کا دل کھلونوں سے نہیں بہلتا بلکہ وہ کمرے میں جاکر تکیوں اور سرہانوں کو مورچہ بناتا ہے،لکڑی کو بندوق بناکر منہ سے فائرنگ کی آواز نکالتا ہے۔دیگر بچے پلاسٹک کی بندوقین لیے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔یہ جیسا حکم دیتا ہے وہ ویسا ہی کرتے ہیں۔اس افسانے میں بھی کشمیر کے حالات و واقعات اور مناظر فطرت کی عکاسی کی گئی ہے۔جہاں روز رن کے میدان کا منظر ہو ، گولیوں کی گن گرج اور بندوق لیے افراد گھوم پھر رہے ہوں، اس خطے کے بچے بھی اس طرح کے کھیل کے شوقین بن جاتے ہیں اور آس پاس کی نقل اتار کر دل بہلاتے ہیں۔ایک اقتباس دیکھیں
شی ادھر نہیں جانا ۔فائرنگ ہو رہی ہے۔وہ مجھے خبردار کرتے کوئے سرگوشی سے بولی۔اندر جھانکا تو عجیب منظر دیکھا۔سارے گھر کے تکیے اور سرہانے ایک کے اوپر ایک اس طرح رکھے ہوئے تھے جیسے ریت کی تھیلیاں رکھ کر مورچے بنائے جاتے ہیں۔وہ درمیان میں اوندھا لیٹا ہوا ایک بڑی سی لکڑی کو بندوق کی طرح پکڑے منہ سے مختلف طرح کی گولیوں کی آوازیں نکال رہا ہے اور اس کے دائیں بائیں میرے دونوں بچے اپنی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بندوقین لیے اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
فطرت کے دلدادہ جب ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں دن رات بندوق ،گولیاں ،دھماکے ، افراتفری مچی ہو وہاں کے بچے بھی اسی طرح کے کھیل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ پھر پیانو، جلترنگ ، گٹار ،ٹیڈی بیئر ، بولنے والا طوطا ، گاڑیوں اور غباروں کے ساتھ نہیں کھیلتے بلکہ اپنے آس پاس کی نقل اتارتے ہیں۔
ترنم ریاض کی خوبی ہے کہ وہ اپنے موضوعات عام زندگی سے چنتی ہیں اور عام فہم زبان میں بیان کردیتی ہیں۔انہیں عورتوں کی زبان پر قدرت ہے اور اپنے افسانوں میں دلکش ،انوکھی اور خوبصورت زبان استعمال کرتی ہیں۔ان کے لکھے جملوں کو پڑھ کر بعض دفعہ نثر کے بجائے نظم کا گماں ہوتا ہے۔اپنے احساسات اور جذبات کو بڑی مہارت اور فن کاری سے اپنے افسانوں میں پیش کرتی ہیں۔ان کے افسانوں میں عورتوں کے مسائل بھی ہیں اور نفسیاتی الجھنیں بھی، غربت کو بھی موضوع بنایا ہے اور سماجی نابرابری کی عکاسی بھی کی ہے،ان کے یہاں عورتوں کے احساسات بھی ہیں اور انسانی جذبات کے تہ در تہ پہلوؤں بھی۔وہ اپنے افسانوں میں متنوع موضوعات اور ماحول کی عکاسی کرنا جانتی ہیں۔دور جدید کی نفسیاتی الجھنیں ہوں یا اکیلے پن کا کرب ، ناامیدی ،ناکامی ، حسرتیں ،تمنائیں،ذمہ داریاں ،ان کی کہانیوں میں انسان کا دکھ بھی ہے اور کائنات کا غم بھی۔ان کے افسانوں میں نیا پن ، ایک خاص مدعا اور مقصدیت ہے جو قاری کے ذہن پر تاثر چھوڑتے ہیں۔ صغیرا افراہیم ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
ترنم ریاض اپنے موضوعات عام زندگی سے چنتی ہیں۔ان کے یہاں علامتیں ان کی فکری زمین سے پھوٹتی ہیں۔وہ کہانی کی بنت میں فضا اور ماحول سے بھی علامتیں یا اشارے اکھٹا کرتی ہیں۔وہ کبھی ایک مصور کی طرح کہانی کے کینوس پر مختلف رنگوں کے ذریعے مختلف شیڈس ابھارتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی سنگ تراش کی طرح مجسموں کی رگوں میں خون کی روانی اور حرارت شامل کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
ترنم ریاض کے یہاں زندگی کے تلخ حقائق ، انسانیت ،ہمدردی ، اخوت ،محبت اور کشمیری معاشرے کے گوناگوں پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے۔کشمیر سے عملی واقفیت رکھنے کے سبب یہاں کے سماجی، سیاسی مسائل اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی تصویر اپنے افسانوں میں فنکاری سے کھینچتی ہیں۔بڑی بےباک اور نڈر ہیں اور یہاں کے حالات و واقعات، ظلم و جبر ، ابتر صورتحال حال، بے یقینی، بے بسی ، گھٹن زدہ ماحول ، ڈر اور خوف ، گمشدگی کے واقعات ، بندوقوں کی گن گرج، بم پھٹنے کے واقعات کو بڑی بے باکی سے اپنے افسانوں میں کبھی علامتوں کے ذریعے تو کبھی براہ راست بیان کرتی ہیں۔ یمبرزل کشمیر کے پر آشوب حالات ،درد وکرب ، انتشار اور بدامنی کی دل خراش کہانی سناتا ہوا افسانہ ہے۔اس افسانے کا اقتباس دیکھیں جس میں بم پھٹنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس دن شہر کے سب سے بڑے چوک میں بم پھٹا تھا۔کچھ فوجی جوان زخمی ہوئے تھے۔کچھ عمارتیں جلی تھیں۔ہر روز اسی طرح کا کچھ نہ کچھ ہوا کرتا تھا۔سکون کی لے پر بہتے وقت میں کچھ ایسا انتشار اٹھا کہ آٹھوں پہر اتھل پتھل ہو گئے۔
ترنم ریاض نہ صرف کشمیر کے حالات و واقعات کو بیان کرنے کی قدرت رکھتی ہیں بلکہ عورت کے مسائل اور نفسیاتی کشمکش کو بھی اپنے افسانوں کا موضوعات بناتی ہیں ۔ناخدا افسانے میں شوہر کا اپنی بیوی سے برتاؤ اور بیوی کے نفسیاتی کی خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے۔شوہر رات کے کسی بھی پہر گھر آتا ہے اور جب چاہیے چلا جاتا ہے۔شوہر کے رویے سے بیوی جینا بھول گئی ہے اور اپنی بیٹی منی کو بھی بھول گئی ہے۔جب اس کی ماں اس گھر میں آتی ہے تو وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آتی ہے اور جینا شروع کر دیتی ہے۔اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرے ،وہ پی ایچ ڈی کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے ۔اس کا ذکر جب وہ اپنے شوہر سے کرتی ہے تو وہ جھگڑا شروع کر دیتا ہے۔اس طرح اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔دبے الفاظ میں اس افسانے میں یہ پیغام ملتا ہے کہ جن لڑکیوں کے میکے والے ان کے سسرال نہیں آتے جاتے ،ان کی خبرگیری نہیں کرتے ،یہ نہیں دیکھتے وہ کس حال میں ہیں ۔ان کے شوہر ان سے تحکمانہ لہجہ روا رکھتے ہیں انہیں بیوی نہیں بلکہ نوکرانی سمجھتے ہیں۔وہ اپنا دکھ درد کس سے بانٹے۔وہ ساری روداد ماں کو بتاتی ہے کیونکہ
گوکہ میں نے شادی اپنی مرضی سے کی تھی لیکن میں گھر سے بھاگی تو نہیں تھی جو میں گھر والوں سے کچھ نہ کہتی۔
ماں جب گھر آتی ہے تو شوہر کا رویہ بدل جاتا ہے اور تحکمانہ انداز بدل کر دوستانہ ہوجاتا ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں افسانویت اور کہانی پن دیکھنے کو ملتا ہے۔بیشیر افسانوں میں مصنفہ خود کہانی سناتی ہیں۔ادیب جو کچھ تخلیق کرتا ہے اصل میں وہ اس کا نظریہ اور ردعمل ہوتا ہے۔ترنم ریاض بھی اپنے افسانوں کے ذریعے اپنا ردعمل ہی بیان کرتی نظر آتی ہیں۔خود اقرار کرتی ہیں کہ
افسانے میرے لیے اپنے ردعمل کے اظہار کا وسیلہ ہیں،لیکن یہ وسیلہ بے ہنگم نہیں ہے۔میں افسانے میں کہانی پن پر مکمل یقین رکھتی ہوں کہ وہ افسانویت کے بنیادی اور اہم تقاضوں کو پورا کرے۔
افسانوی مجموعہ - یہ تنگ زمین - ابتدائیہ ص۔13
مجموعی طور پر ترنم ریاض کے افسانوں میں صرف کشمیر کی مکمل عکاسی ہی نہیں ملتی بلکہ وہ سادہ زبان میں زیادہ کہنے کے فن سے بھی واقف نظر آتی ہیں۔ان کے یہاں متنوع کہانیاں اور رنگا رنگ موضوعات ہیں۔سماجی ،سیاسی ، نفسیاتی کسی بھی موضوع کو بیان کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔اس ضمن میں ان کے مندرجہ ذیل افسانے مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔تجربہ گاہ، تیڈی بئیر ، کمرشل ایریا ، متاع گم گشتہ ، ہم تو ڈوبے ہیں صنم ، میرا کے شام ، ایسے مانوس صیاد سے ، گندے نالے کے کنارے ، سورج مکھی ، مرا رخت سفر آنسو، ایجاد کی ماں اور میرا پیا گھر آیا وغیرہ۔ان کے افسانوں میں دلچسپ اسلوب ، دلکش زبان، فنی چابکدستی اور کردار نگاری میں ماہرانہ گرفت ان کے افسانوں کو منفرد بناتے ہیں اور قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.