Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرا دریچہ : شناخت کامسئلہ

قمر جمیل

دوسرا دریچہ : شناخت کامسئلہ

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    ہر شاعر کا کلام، ہر مصّور کا آرٹ اپنی شناخت الگ رکھتا ہے۔ میر، غالب، اقبال اور ن م راشد کا کلام اپنی اپنی جگہ منفرد ہے اس زمانے میں جب شاعروں کے مجموعے اپنی شناخت کھورہے ہوں سچے آرٹ کا ظہور مشکل ہے۔ آج ادب پڑھنے والوں اور ادیبوں کی نگاہیں خود اپنی ہی عادتوں کی اس درجہ اسیر ہیں کہ جس کا تھوڑا سا اندازہ آپ کو مسٹر زرنگار کے اس واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ کراچی میں ایک کوٹھی تھی جو چیل والی کوٹھی کہلاتی تھی اور شاید اب بھی چیل والی کو ٹھی کہلاتی ہے۔ مسٹر زرنگار نے پہلے تو اس پرندے کو غور سے دیکھا جو اس کوٹھی پر بنا ہوا ہے ابھی وہ اس پرندے کو غور سے دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک چیل آکر اس پرندے پر بیٹھ گئی موصوف شور مچانے لگے ارے وہ دیکھو اس چیل پر ایک اور چیل آکر بیٹھ گئی ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ مسٹر زرنگار جو ایک شاعر ہیں عوام کی طرح اس بلڈنگ پر بنے ہوئے شاہین کو چیل سمجھ رہے ہیں۔ کم سے کم شاعر کو شاہین اور چیل کا فرق سمجھنا چاہیے۔

    ایک اور واقعہ سن لیجیے قیام پاکستان سے پہلے میں الہ آباد میں زیر تعلیم تھا ہمارے آبائی گاؤں کا نام سکندر پور تھا۔ یہ ایک بستی تھی جو سکندر لودھی نے گھاگھراندی کے قریب آباد کی تھی۔ پہلے یہ خبر آئی کہ برناندی میں سیلاب آگیا ہے۔ پھر یہ اطلاع کہ گھاگھرا ندی میں بھی سیلاب آگیا ہے، میں گھبرایا اور فور اً ریل کے ذریعے اپنے آبائی وطن کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ گیاجہاں سے اسٹیمر مجھے اس گھاٹ تک لے جاسکتا تھا جہاں سے میرا گاؤں کچھ فاصلے پر تھا احتیاطاً میں نے اپنے ملازمین کو گھر والوں کے ذریعے کہلوایا تھا کہ وہ مجھے لینے کے لیے گھاٹ تک آجائیں۔

    بچپن میں جب میں اس قصبے میں آتا تھا تو رات میں جانوروں کی آوازیں سنتا تھا خاص طور پر جاڑے میں ان جانوروں کی آوازوں کا شور اور بڑھ جاتا تھا۔ میری والدہ یہ بتاتی تھیں کہ یہ آوازیں سیاروں کی ہیں وہ کہتی تھیں کہ یہ سیار سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور ہم سے کپڑے مانگ رہے ہیں۔ صبح کا وقت تھا جب میں گھاٹ سے اْترا اور اپنے ملازمین کے ساتھ اپنے قصبے کی طرف چلنے لگا تو مجھے زمین بہت گیلی لگی اور دیکھاکہیں کہیں گھاس بھی اس پر اُگ آئی ہے۔ مجھے ایک جانور بھی دوسرے جانور کے پیچھے بھاگتا ہوا نظر آیا میں سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ وہی سیار ہیں جو رات بھر جاڑے میں ٹھٹھر تے رہتے ہیں میں نے کہا کیوں منشی جی یہ سیار ہیں نا؟

    منشی جی بولے۔ بابو اس کا غم نہیں ہے کہ آپ سیار نہیں پہچانتے غم اس کا ہے کہ آپ کتوں کو بھی نہیں پہچانتے۔

    اب میں اپنے ایک ہم عصر ناصر بغدادی کی ایک کہانی پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جس کا نام ہے بے شناخت یہ لفظ خاصی ایمائیت رکھتا ہے اس سے مراد وہ انسان ہے جو اس صنعتی معاشرے میں اپنی شناخت کھو چکا ہے اور یہ بے شناخت ہجرت زدہ لوگوں کی شناخت بھی ہے۔ کراچی انہی بے شناخت لوگوں کا شہر ہے یعنی ہجرت زدہ لوگوں کا شہر ، لیکن کہانی کار کا ایک دوست روشنی نہیں اندھیرے دیکھتا ہے اور روشنیوں کے اس شہر کو چھوڑ کر کسی دور افتادہ ملک میں چلا جاتا ہے۔ دور افتادہ ملک سے اس کا دوست اسے لکھتا ہے۔ یہاں میں تلاش کے باوجود سکون کا ایک لمحہ حاصل نہیں کر سکا دوسری اذیت ناک بات یہ ہے کہ انجانے لوگوں کی بھیڑ میں اپنی پہچان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہوں! بیشناخت ہونا معاشرتی موت ہی نہیں ذاتی اور مابعد الطبیعیاتی موت بھی ہے ناصر بغدادی سے میری ملاقات تو ہے ہی ممکن ہے کہ اس مجموعے بے شناخت سے آپ کی ملاقات بھی اس سے ہو جائے اور آپ اس التباس میں رہیں کہ فنکار کا مطلب ہے حقیقت کا دوست لیکن اپنی کہانی ابد کا تنہا سفر میں وہ زندگی سے نبرد آزما نہیں ہے اس کے ایک کردار کی آنکھ اپنی قبر میں کھلتی ہے۔ اس کہانی میں شاید وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ زندہ رہنے کی سزا موت ہے۔ وقت کا امیج تخلیق کرنا کسی ایک فنکار کا کام نہیں یہ ایک نسل، ایک مذہب، ایک کلچر کا کام ہے۔ ناصر بغدادی نے وقت کے اس Archetype کی نمائندگی کی ہے جو اس کے اجتماعی کلچر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کہانی سے یہ لگتا ہے کہ ہم اس زمانی کھیل سے آگے کہیں اور رہتے ہیں اور یہ کہ ہماری روح انفرادی ہی نہیں اجتماعی بھی ہے۔ کہانی کار اپنے کردار کو کسی اور طرف لے جانا چاہتا ہے۔ جدید انسان کا المیہ بھی یہی ہے کہ اس کا سفر آگے کی طرف ہے وہ آگے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس زمانے میں جب اس کے ہم عصر علامتوں کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے تھے ناصر بغدادی نے اس حقیقی دنیا کے مسائل کو فراموش نہیں کیا مثلاً چھمو اپنی بہو کے غم میں چمکی کے گلے لپٹ کر رو رہی ہے بہو کی تعزیت کرنے کے لیے اتنی عورتیں جانے کہاں سے آتی جا رہی ہیں۔ چھموان میں سے ہر ایک کے ساتھ مل کر رونے پر مجبور ہے گھر میں جگو اور چھمیا بھی ہیں مگر وہ کہیں اور ہیں۔ چھمو چلا کر کہتی ہے۔

    ’’ ارے میں کہتی ہوں کیا تمھارے دیدوں کا پانی مرگیا ہے۔ تم دونوں آرام سے ہو اور میں جو بھی پرُسے کے لیے آتا ہے اس کے ساتھ روتی ہوں۔ میں بوڑھیا کب تک روتی رہوں گی رونے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘

    ایک لمحہ کے لیے وہ سانس لینے لگی پھر بولی۔

    ’’ اب اگر تم دونوں نے میرا ساتھ نہیں دیا تو میں بھی نہیں روؤں گی۔‘‘

    ’’کیا تم دونوں مجھ بوڑھیا کو رُلارُ لا کر مار ڈالو گی۔‘‘

    یہ ندرت صرف استعجاب پیدا کرنے کے لیے نہیں ہے ناصر بغدادی نے ایک طوائف کی معصوم موت اور اس کے پڑوسیوں کی ذہنی غلاظتوں کو بڑے سلیقے سے دکھایا ہے ایک ماں جو عورتوں کے حقوق کی انجمن سے تعلق رکھتی ہے اپنی بیٹی کو اپنے محبوب سے ملنے نہیں دیتی لیکن آخر کار لڑکی کا محبوب جو اس کے دخل در معقولات سے تنگ آچکا ہے حسینہ کی ماں سے کہہ دیتا ہے کہ وہ حسینہ سے پیار کرتا ہے۔ شبو پنواڑی کے دوست کی بہن کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے تو وہ اس غم میں پاگل ہو جاتی ہے۔ شبو سوچتا ہے کہ یہ مسئلہ اس کا بھی ہے کہانی بیان کرنے والا بھی سوچتا ہے کہ آخر اس کی بھی تو ایک بہن ہے صغرا لیکن ناصر اس حقیقی دنیا میں گرفتار نہیں رہنا چاہتا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ فنکار حقیقت کو برداشت نہیں کرتا یعنی ناصر بغدادی اس حقیقت کو ایک بہتر حقیقت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے یہ اسی کا نہیں ہر آنکھ رکھنے والے کا آدرش ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article14 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے