ایک خواب اور بھی اے ہمت دشوار پسند
’’ایک خواب اور‘‘ اردو کے ممتاز معروف ترقی پسند شاعر سردار جعفری کا تازہ ترین مجموعہ کلام ہے۔ یہ مجموعہ سردار جعفری کے آخری مجموعہ کلام ’’پتھر کی دیوار‘‘ کے تقریباً دس سال بعد شائع ہوا ہے اور اس طرح اس میں ان کے آخری دس سال یعنی ۱۹۵۳ء سے لے کر۱۹۶۴ء کے آخر تک کا کلام جمع ہے۔ مجموعہ کی کتابت، طباعت اور سرورق، روشن اور دیدہ زیب ہے۔
سردار جعفری کی شاعری، جدید شاعری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادب کی وہ تحریک جو اردو میں ترقی پسند ادب کے نام سے مشہور ہے اور جس کا آغاز آج سے تقریباً تیس سال پہلے ہوا تھا، اس نسبتاً طویل مدت میں کئی پر پیچ راستوں سے گذری ہے اور اس پر قومی اور بین الاقوامی واقعات اور تاریخ کا اثر پڑا ہے۔ کبھی اس پر شدت اور جوش کی و الہانہ کیفیتیں طاری ہوئی ہیں، کبھی خیال ونظر کی ایسی گتھیوں میں پھنسی ہے جن میں شوریدگی زیادہ بصیرت کم تھی اور کبھی انفرادی اور اجتماعی شعور اور نفسیاتی کیفیتوں کا اس میں حسین، ایسا پر اثر اور صنا عانہ اظہار ہوا ہے کہ اس نے فن کی سب سے بلند چوٹیوں کو چھو لیا ہے۔
جعفری کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اردو کی ترقی پسندی ادبی اخلاقی اپنی پوری آب و تاب اور اپنے تمام پیچ و خم کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ گذشتہ تیس سال میں جعفری نے جو شعری تخلیقات کی ہیں، اس کا ابتدائی سرا اقبال اور جوش کی شاعری کے ساتھ ملتا ہے، جو اس صدی کی بیسویں اور تیسویں دہائی تک نظریاتی اعتبار سے شاعری پر حادی تھے لیکن جب تیسویں دہائی اور اس کے بعد کے زمانے میں قومی اور بین الاقوامی طور پر اشتراکی تحریکوں اور نظریات کا عروج ہوا اور ہمارے ملک کی قومی آزادی کی تحریک بھی اس سے متاثر ہوئی اور مزدوروں، کسانوں اور انقلابی دانشوروں نے اس تحریک کو بائیں طرف موڑ دیا، تب اردو شعر کے میدان مین اس کا سہر اسردار جعفری کے سر پر ہے کہ انھوں نے اپنے تمام ہم عصروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ واضح اور شعوری طور پر اس کا م کو انجام دیا۔
بعض لوگ یقیناً اس بات پر چیں بہ جبیں ہوں گے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جعفری مبلغ اور خطیب زیادہ ہیں اور شاعر کم۔ ایسے معترض خود ترقی پسندوں کے حلقے میں بھی موجود ہیں۔ لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو یہ دراصل کافی پرانی بحث ہے۔ البتہ جدید زمانے میں یہ ہمارے سامنے نئی طرح سے ضرور آئی ہے۔ جعفری کی شاعری پر اس قسم کا اعتراض کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو ان خیالات، تصورات اور نظریات سے ہی اختلاف کرتے ہیں جو سردار جعفری کے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ لوگ غالب کا یہ شعر مسکرا کر سن لیں گے،
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور اس پر زیادہ غور کرنے کے بعد چپکے سے نعوذباللہ کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیں گے لیکن سردار جعفری جب یہ کہتے ہیں،
آہ اے ناداں !خیالی دیوتاؤں کو نہ پوج
ذہن میں بنتے ہیں جو ایسے خداؤں کو نہ پوج
اور آخر میں اعلان کرتے ہیں،
یہ خدا، یہ دیوتا دو روز ہی رہ پائیں گے
جہل سے پیدا ہوئے ہیں علم سے مر جائیں گے
تب پھر ان صاحبوں کو وہ زمین ہی اپنے پاؤں کے نیچے سے کھسکتی ہوئی معلوم ہوگی جس پر آسمانی الہام اور تو ہم پرستی کی بوسیدہ مذہبی اور مابعد الطبیعاتی عمارت صدیوں سے کھڑی ہوئی ہے۔ (ظاہر ہے کہ سردار جعفری کی ایسی شاعری جس میں اس قسم کے انقلابی نظریات کا اتنے جوش اور یقین کے ساتھ اظہار کیا گیا ہے، ان قدامت پرستوں کے لیے جو شاعری کو تفریح و تفنن اور سطحی لذت اندوزی کا وسیلہ سمجھتے ہیں، بہت ہی تکلیف دہ ہوگی لیکن کوئی بھی ایمان دار نقاد شاعری کی ایک صنف کی حیثیت سے اس قسم کی شاعری کو اس کا مناسب مقام دینے سے درگزر نہیں کر سکتا ہے۔)
لیکن آج کل ایسے بھی لوگ ہیں جو شعر میں باطنی کیفیات، مبہم اور پیچیدہ نفسیاتی واردات اور ان کے اظہار کے لیے نئے اسلوب، نئے استعاروں، انوکھے اور غیرمانوس انداز بیان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم اس قسم کی نئی فنی کاوش کو، اگر وہ کامیاب ہو، مسترد نہیں کر سکتے۔ نئے زمانے میں فرد اور جماعت یقینی نئے حالات، زندگی کے نئے رشتوں اور تعلقات سے دو چار ہیں اور ان کا اظہار نئے انداز سے کیا جا رہا ہے اور کیا جائےگا۔ مشکل یہ ہے کہ بعض لوگ اس نئی با طینت کو ہی، ا س نئے طرز اظہار کو ہی شاعری کا اصل اور واجد جوہر سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کا میدان اس قدر وسیع ہے کہ اگر اس میں ایک طرف باریک نگاری کی گنجائش ہے، جس طرح کہ مصوری میں چھوٹے چھوٹے نازک اور لطیف مینا توروں (Miniaturs) کی، تو دوسری طرف وسیع سطحوں پر توانا اور مضبوط خطوں اور روشن رنگوں کے امتزاج سے بنائی ہوئی تصویروں کی بھی ہے۔
میکسکو کے عوام کی انقلابی جدوجہد کا ایک نتیجہ یہ بھی بر آمد ہوا کہ وہاں کے آرٹسٹوں نے عمارتوں کی دیواروں پر بڑی بڑی اور عوام کے انقلابی مزاج سے ہم آہنگ، بے حدزور دار اور پرجوش تصویریں (دیواری یا میورال تصویر کشی) بنانے کا فن اختراع کیا۔ اور اب اسے عالم گیر مقبولیت حاصل ہے۔ سردار جعفری کی بڑی نظموں میں ایسی ہی بڑی دیواری مصوری کی سی کیفیت ہے۔ ان کے خط واضح اور توانا ہیں، ان کا آہنگ بلند اور پر جوش ہے اور یقینی اپنے بہترین معنوں میں ان کا انداز خطیبا نہ ہے۔ اس لیے کہ وہ ہمارے عوام کے بڑے بڑے مجمعوں میں سنانے کے لیے بھی کہی گئی ہیں اور یہ ان کی خوبی ہے، ان کی کمزوری نہیں۔
کیا مولانا روم کی مثنوی کا، میر انیس کے مر ثیوں کا، اقبال کے شکوے کا، شکسپیئر کے ڈراموں کا انداز خطیبانہ نہیں؟ یہ سب تخلیقات بھی عوام کے مجمعوں میں سنانے کے لیے کہی گئی تھیں۔ جعفری کی طویل نظمیں اسی صنف کی ہیں۔ ان میں سادگی، روانی اور خلوص ہے اور وہ سننے والوں پر سیدھا اور براہ راست اثر ڈالتی ہیں اور کامیاب ہیں۔
اشتراکی تحریک کے تجربے کے بعد
سردار جعفری کے نئے مجموعے ایک خواب اور میں ان کی بعض نظمیں پہلے دور کی نظموں کے مقابلے میں زیادہ گہرے شعور اور زیادہ فکری پختگی کا پتہ دیتی ہیں۔ تیس سال شعر لکھنے کے بعد اور تیس سال کی جمہوری اور اشتراکی تحریک کے تجربے کے بعد، سردار سے اس قسم کی پختگی کی امید بھی کی جا سکتی تھی۔ نئی دنیا بنانے کی جدوجہد میں ہم کو بہت سے تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں۔ خود اشترا کی تحریک کبھی اندھے کٹرپن اور کبھی موقع پر ستانہ ڈھیلے پن کا شکار ہوئی ہے۔
ہم نے معروضی حقیقتوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے گریز بھی کیا ہے۔ اپنی غلطیوں کو مان کر اپنی اصلاح کرنے میں دیر بھی لگائی ہے۔ ان کیفیتوں کا ہی اظہار ایک خواب اور کے عنوان کی نظم میں ہے۔ اس نظم کے یہ دو شعر، جو ایک بار پڑھنے کے بعد دل پر نقش ہو جاتے ہیں (چونکہ وہ ایک تلخ حقیقت کا اظہار ہونے کے باوجود بے حد سچے ہیں) اثر پذیری میں اپنی مثال نہیں رکھتے ہیں۔
دیکھتی پھرتی ہے ایک ایک کا منھ خاموشی
جانے کیا بات ہے شرمندہ ہے انداز خطاب
دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھر تے ہیں سوال
اور مجرم کی طرح ان سے گریزاں ہے جواب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.