ایک قدم کا فاصلہ:ساحرؔ لدھیانوی
ظ۔انصاری مرحوم نے ساحرؔ کے متعلق بڑی ’پیاری‘رائے دی ہے کہ ’ساحرؔ کی علمی اور فلمی شاعری میں ایک قدم کا فاصلہ ہے‘۔میں نے مناسب سمجھا کہ اسی ’’ایک قدم کے فاصلے‘‘ کو اپنے مضمون کا عنوان بنایا جائے کہ اس ایک قدم کو میں نے محسوس بھی کیا ہے اور والد گرامی مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی کے توسط سے اس کا گواہ بھی رہا ہوں۔یہی وہ ایک قدم کافاصلہ ہے جو ان کی علمی زندگی میں بھی رہا اور بے دریغ عرض کروں کہ عملی زندگی میں بھی دیکھا گیا،بھوگا گیا۔انہی دو ضمنی عنوان پر مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
علمی فاصلہ
پیش تر اس کے کہ میں ’’ایک قدم کا فاصلہ‘‘ طے کروں،ساحرؔ کی شاعری کے متعلق کچھ خیالات کا اظہار کرتا چلوں۔ساحرؔکی شاعری کو ہم تین ابواب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔(یہ وضاحت بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ مذکورہ تینوں ہی ابواب میں ترقی پسند نظریہ کار فرما رہا ہے)اول باب تو وہ ہے جسے بعض ناقدین ِ ادب ’’ایک مخصوص عمر کی شاعری‘‘ سے معنون کرتے ہیں۔دوم وہ کہ جو ہر عہد کے،ہر عمر کے پیمانوں پر کھری اترتی ہے،جسے ساحرؔ کی لازوالیت کہا جائیگا۔اور سوم وہ جو سنیماکے لیے لکھی گئی ہے۔اول اور سوم باب بعضے ٹکرائو کا شکار بھی ہوتا رہا ہے۔ان تین ابوب کو کچھ تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں۔
باب ِ اول:مخصوص عمر کی شاعری
ساحرؔ کی شاعری کا وہ حصہ جہاں ساحرؔ کسی قطعی نوجوان شاعر کی طرح فکر کرتے ہیں،انداز ِ بیاں بھی جہاں نو عمری کا مظاہرہ کرتا ہو،ایسی شاعری مخصوص عمر کی شاعری کہی جا سکتی ہے۔ایام جوانی میں عوام تو خیر جانے دیجیے،خود شاعر بھی ایک خاص زاویے سے سوچتا ہے۔اس کی فکر کے دائرے محدود ہوتے ہیں،بیش تر تغزل کا معاملہ رہا کرتا ہے۔یہی وہ خاص عمر ہے کہ جہاں آدمی معشوق کے گالوں اور بالوں کی شان میں قصیدہ خوانی کرتا ہے،سننے اور پڑھنے والے حضرات بھی ایک خاص عمر تک محبوب کے گال،بال،بانہیں،ہجرو وصال،لب و عارض وغیرہ عنوانات سے محظوظ ہوتے ہیں۔جیسے جیسے سامعین اور قارئین کی عمر بڑھتی ہے،شعور بالیدہ ہو جاتا ہے،ویسے ویسے دوسرے مضامین ان کی ترجیحات میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔درمیانی عمر تک تو خیر پھر بھی آدمی بڑے شوق سے معشوق کے جسم کا تذکرہ پسند کرتا ہے لیکن وسط عمری سے کچھ آگے عورت کا جسم اور اس کا بیان اپنی لذت کم کرتا جاتا ہے۔یہی وہ خوبی یا خامی ہے جو ساحرؔکی باب ِ اول کی شاعری کو ناقدین میں غیر پسند کا درجہ دلواتی ہے۔
اس معاملہ کی ایک زندہ مثال میں عرض کروں کہ والد ِگرامی خلیل فرحتؔ کارنجوی صاحب نے اپنی شعری نگارشات کا انتخاب شروع کیا۔میں یہ دیکھ کر سخت حیرت میں تھا کہ حضرت میرے پسند یدہ شعروں کو بے دریغ حذف کرتے جا رہے ہیں،میری قطعی نوجوانی کا عالم تھا،حضرت سے دریافت کیا کہ آپ اپنے اتنے اچھے شعروں کو خارج از دیوان کیوں کیے جارہے ہیں،جواب ملا’بیٹے،یہ شاعری اوائل ِ عمری میں ہی پسند آتی ہے‘،معاملہ صاف ہوا۔ٹھیک اسی طرح خود مجھے اپنی ابتدائی شاعری میں وہ کیف محسوس نہیں ہوتا جو اس وقت لہک لہک کر پڑھنے میں مجھے اور سامعین کو محسوس ہوتا تھا۔یہ ایک ایسی نفیساتی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ’تلخیاں‘میں اسی قماش کی بیش تر امثلہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
ترا گداز بدن،تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین خیالوں میں محو ہو رہتا
باب ِ دوم: ساحرؔکی لازوالیت
یقین جانیئے کہ سنیما کا شدید اثر اگرچہ نہ بھی ہوتا تو ’باب ِ دوم‘ کی شاعری ساحرؔ کو ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔اس نہج کی شاعری میں تفکر کا کینواس خاصہ وسیع ہے۔بلکہ کہیں کہیں کمیون ازم کے ڈھانچے سے بھی آگے بہت آگے بڑھ کر سوچا گیا ہے۔جہاں غم ِجہاں کو غمِ دلبر پر مقدم جانا گیا ہے،جہاں اسوسی ایشن کے مینی فیسٹو کے علاوہ عالمِ انسانیت کا کرب شاعر اپنے اندر محسوس کرتاہے،اور پھر اس کرب سے جو شاعری منصہ شہود پر آتی ہے،وہ ساحرؔ کی لازوالیت پر دال ہوتی ہے۔اس سلسلے کی چند مثالیں ملاحظہ کریں۔
سعیِ بقائے شوکتِ اسکندری کی خیر
ماحول ِ خشت بار میں شیشہ گری کی خیر
غریب ِ شہر کے تن پہ لباس باقی ہے
امیر ِ شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
اور اب آخر میں اس مضمون کے اول حصے کا لب ِ لباب۔وہی ’ایک قدم کا فاصلہ‘۔روسی ادیب و ناولسٹ فیوڈر ڈاسٹایوفسکی کے شاہکار ناول ’کرائم اینڈ پنشمینٹ‘ پر مشتمل رمیش سہگل کے ۱۹۵۸ میں آئے سنیما ’’پھر صبح ہوگی‘‘ کے نغمہ نگار ساحرؔ تھے۔اس سنیما کا ایک دوگانہ ’’پھر نہ کجیے مری گستاخ نگاہی کا گلہ‘‘،اس گیت کا پہلا شعر ملاحظہ کریں۔
ہیرو کہتا ہے ؎
پھر نہ کجیے مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھئے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو
جواباً ہیروئن کہتی ہے ؎
میں کہاں تک نہ نگاہوں کو پلٹنے دیتی
آپ کے دل نے کئی بار پکارا مجھ کو
اس گیت کے متعلق والد ِ مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی صاحب نے ساحرؔلدھیانوی کو خط لکھا کہ ’’ایک ہی شاعر کے تخلیق کردہ گیت کے دو شعر،اول شعر ’پھر نہکجیے مری ۔۔‘معیار کے اعتبار سے عرش ِ بریں تک جا ٹکا اور اسی شاعر کا دوسرا شعر’میں کہاں تک نہ ۔۔۔‘بہ اعتبار ِ معیار تحت الثریٰ میں جا گھسا،ایک ہی گیت کے دو شعروں میں اتنا بڑا تفاوت کیسے ممکن ہو سکتا ہے‘‘،اس استفسار کے جواب میں ساحرؔ فرماتے ہیں کہ ’’پھر نہ کجیے مری گستاخ نگاہی کا گلہ‘والا شعرمیرے دیوان ’تلخیاں‘سے ماخوذ ہے اور اس کے بعد والا شعر’میں کہاں تک نہ نگاہوں کو پلٹنے دیتی‘سنیماکے لیے لکھا گیا‘‘۔(مکتوب ِ ساحرؔ بنام خلیل فرحتؔ کارنجوی محررہ ۸ نومبر ۱۹۶۰،مذکورہ خط ’مکتوبات ِ ساحرؔ‘ ’سہ ماہی اردوساحرؔ نمبر ‘میں شامل ہے) غرض کہ اول شعر آمد اور دوم آورد کا نتیجہ ہے۔ہر چند کہ ساحر کا اول الذکر شعر ’پھر نہ کیجئے مری گستاخ نگاہی کا گلہ‘ دراصل مولانا حسرت موہانی سے مستفید محسوس ہوتا ہے۔حسرت نے کہا تھا کہ،
ہم نہ کہتے تھے بناوٹ ہے یہ سارا غصّہ
ہنس کے لو،پھر وہ انہوں نے ہمیں دیکھا،دیکھو
یہ ساحرؔ کا سنیما میں ابتدائی زمانہ تھا۔اور اس وقت تک ساحرؔ کی علمی اور فلمی شاعری میں زمین و آسماں کا فرق قارئین محسوس کر سکتے ہیں۔مدعا یہ ہے کہ اس دور تک ساحرؔ اپنی تخلیقیت سنیما میں منتقل نہ کر پائے تھے۔اور ظ۔انصاری والا ’ایک قدم‘ابھی کئی قدموں پر محیط تھا۔
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ساحرؔ کے عہد میں ہندوستانی سنیما بجائے خود زبردست اشتراکیت پسند رہا۔بڑے بڑے ہدایت کار کمیون ازم کی رو میں بہہ رہے تھے،حتیٰ کہ اداکار،کہانی کار،نغمہ نگار،مکالمہ نگار بھی خود کو اشتراکیت سے دور نہ رکھ پائے تھے۔گرودت،بلراج ساہنی،سنیل دت،ستیہ جیت رے،بمل رائے و دیگر حضرات ساحرؔکے ہم قبیلہ رہے۔ساحرؔ کے گیتوں میں بیش تر شاعری ان کے شعری مجموعوں سے مشتق ہے۔بعضے لفظوںکے ہیر پھیر سے اور بعضے بجنسہٰ۔شعری مجموعے سے سنیما کی یہی ترسیل ’ایک قدم کا فاصلہ‘ ہے۔ملاحظہ کریں۔
’تلخیاں ‘ میں شامل نظم ’چکلے‘ ؎
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں،کہاں ہیں،محافظ خودی کے
ثنا خوان ِ تقدیس ِ مشرق کہاں ہیں؟
دس بند پر مشتمل نظم کا ٹیپ کا بند ’ایک قدم کا فاصلہ‘ طے کرتے ہوئے یہ شکل اختیارکرتا ہے کہ ’’جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہے‘ اور اس نظم کے چھ بند سنیما ’’پیاسہ‘‘ میں شامل کیے جاتے ہیں۔مزید ان چھ بندوں میں بھی فارسیت آمیز الفاظ کی تشکیل میں ترمیم کی جاتی ہے۔’تلخیاں‘ میں شامل غزل’تنگ آچے ہیں کشمکش ِ زندگی سے ہم‘،یہی غزل کچھ شعروں کے اضافے سے ’’پیاسہ‘‘ میں شامل کی گئی۔اسی مجموعے میں شامل چھ بند کی نظم’’کبھی کبھی‘‘جب سنیما میں شامل کی جاتی ہے تو نظم کا مکمل تھیم بدل جاتا ہے۔سنیما میں شامل چار بند کا گیت محض خانہ پوری ہو کر رہ جاتا ہے۔’تلخیاں‘ والی ’کبھی کبھی‘کا تسلسل،روانی اور نفس ِ مضمون کا ستیاناس کرساحرؔ نے محض ’’سیٹ‘‘ کی ضرورت پوری کی ہے،جس کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔
یہاں مجھے بے ساختہ میرزا عبدالقادر بیدلؔ یاد آگئے،
بمی رفع کجی مشکل بود از طبع کج طینت
بزور سیل نتواں راست کردن قالب پل را
(سیلاب کے زور سے پل کے قالب کو سیدھا نہیں کیا جا سکتا)
نظم’’خوبصورت موڑ‘‘ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ‘ کو بغیر یک لفظی تصرف کے ساحرؔ نے سنیما میں شامل کر لیا اور ایک شاہکار کو واقعی شاہکارکا درجہ مل گیا۔’آئو کہ کوئی خواب بنیں‘میں شامل ساحرؔکی ایک عمدہ غزل ’دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے‘،اس غزل کے مطلع کو ساحرؔ نے ایک گیت کے مکھڑے کے طور پر استعمال کیا۔گیت میں ما بقیہ اشعار خالص سنیما کے لیے لکھے گئے ہیں۔اسی مجموعے سے ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘نظم کچھ تفریط کے ساتھ سنیما میں لی گئی۔
ایسی کئی ایک مثالیں یہاں دی جا سکتی ہیں کہ جنہیں ’’ایک قدم کا فاصلہ‘‘سے موسوم کیا جائے۔لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہ ہوگا کہ ساحرؔ نے کلیتاً سنیما کے لیے لکھی گئی شاعری میں ایک خاص مزاج کو برقرار رکھا۔سطحی نغموں میں بھی ادبیت کی چاشنی ضرور مل جاتی ہے۔اپنے دیوان سے شعری نگارشات کو ایک قدم کے فاصلے سے سنیما میں پرو دینا بھی ساحرـؔ ہی کا کمال ہے۔امریکی فلسفی جان ہاسپرس نے کہا تھا کہ’’اپنے اعمال سے ہم صرف دوسرے لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ فطرت کے وقوعات کا رخ بھی بدل دیتے ہیں‘‘(این انٹروڈکشن ٹو فلاسوفیکل اینالائسیس،یونیورسٹی آف کیلیفورنیہ پریس ۱۹۵۶ صفحہ نمبر ۴۹۸)مذکورہ بالا بیان کے عین مطابق ساحرؔ نے اپنے ’عمل‘ سے وقوعات ِ فطرت کا رخ بدل دیا۔ان ہی کی کوششوں سے ریڈیو پر نغمہ نگاران کے نام پڑھے جانے لگے،گیت لکھنے کے بعد دُھن بنائی جانے لگی،یہ جادو بلا شبہ کوئی ساحر ہی کر سکتا تھا۔
عملی فاصلہ
زہد را من آشنائی دادہ ام با عاشقی
ورنہ عمرے ہردورا باہم نفاق افتادہ بود
(شبلی نعمانی)
مضمون کے دوسرے حصہ کی جانب بڑھتے ہیں،یہاں بھی ساحرؔ اور مدِ مقابل میں ہمیشہ ایک قدم کا فاصلہ رہا۔ساحرؔ کے معاشقوں کا حساب رکھیں تو’یکے می رود دیگر آید بجائے‘ کے عین مصداق امر کول،پریم چودھری،سدھا ملہوترا،لتا منگیشکر،ہاجرہ مسرور اور پھر امرتا پریتم۔ساحرؔمسلسل ناکامیوں سے سرفراز ہوتے رہے اور ہر مرتبہ ’اے۔ایچ۔ساحرؔ اور ساحرؔ لدھیانوی‘ نیز ’ساحر لدھیانوی اور معاشقہ کی کامیابی‘ میں یہی ’ایک قدم کا فاصلہ ‘ مانع رہا۔مذکورہ بالا معاشقوں میں سب سے زیادہ طویل،مشہور یا بدنام معاشقہ امرتا پرتیم والا رہا۔
ساحرؔ لدھیانوی اور امرتا پرتیم کی محبت کہنے کی بجائے میں اسے’امرتا کی محبت‘ کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔خود ساحرؔ ہی کے لفظوں میں،
؎ تم مجھے بھول بھی جائو تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
یہ امرتا کی ہی محبت تھی جس نے تادمِ آخر اپنی یک طرفہ محبت کو کم نہ ہونے دیا۔جنون کی حد تک محبت کرنا،دنیا و مافیہا کی فکروں سے آزادفنکارہ کا شیوہ بن گیا۔محبت اور اس کے برملا اور بے تامل اظہار میں امرتا کو دنیا کے قیود وبند سے کبھی کسی زمانے میں کوئی فرق نہ پڑا۔امرتا کور سے امرتا پریتم (۱۹۳۶ تا ۱۹۶۰) کے اس سفر میں ریل گاڑی کی زنجیر بظاہر تو امرتا نے کھینچی لیکن اس کے پسِ پردہ ہاتھ ساحرؔ لدھیانوی کا ہی رہا۔اپنی ۲۴ سالہ ازدواجی زندگی کو سان پر رکھ کرا مرتا پریتم نے عشق کی معراج حاصل کی۔تاہم یہ معراج بھی یک طرفگی کا ہی شکار رہی۔اور ایسے عالم میں کہ جہاں ’خود کوزہ و خود کوزہ گر وخود گلِ کوزہ‘ کی سی کیفیت ہو،وہاں عشق کی نیرنگی بھی قابلِ دید ہوتی ہے۔ساحرؔ محبت تو کرتے تھے لیکن اظہار ِ محبت اور تکمیلِ محبت کے قائل نہ ہوپائے۔اس کے برعکس ساحرؔ کے عشق میں سرشار امرتا جس شدت سے محبت کرتی تھیں اسی شدت سے نہ بانگِ دہل اس کے اظہار میں بھی عار محسوس نہ کی۔چنداں امثلہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’دل کی تہوں میں سب سے پہلا درد جس کے چہرے کی تابانی میں دیکھا،وہ اس مذہب کا تھا،جس مذہب کے لوگوں کے برتن بھی اچھوت قرار دیے جاتے تھے۔یہی چہرہ تھا جو میرے اندر کے انسان کو اتنا فراخ بنا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت،تقسیم کے ہاتھوں تباہ ہو کر بھی ،دونوں مذاہب کے ظلم،بنا کسی رعایت کے یا جانبداریت کے تحریر کرسکی۔یہ چہرہ نہ ہوتا تو ’پنجر‘ناول کی تقدیر جانے کیا ہوتی۔بیس اکیس برس کی تھی،جب قیاسی چہرہ اس زمیں پر دیکھا تھا،یہ ’شی‘ کی مانند روز آگ میں نہانے والی حالت تھی۔یہاں تک کہ ۱۹۵۷ میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا،فون پر خبر سنتے ہی سر سے پائوں تک میں تاپ میں جھلس گئی۔خدایا! یہ سنہیڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے۔جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے۔اب کل عالم بھی پڑھ لے تو مجھ کو کیا۔اس روز شام کے وقت ایک پریس نے رپورٹر بھیجافوٹوگرافر بھی،وہ جب تصویر لینے لگا،اس نے کاغذ اور قلم کے ذریعے و لنحہ گرفت میں لینا چاہا جو کسی نظم کے وقت تصنیف ہوتا ہے۔میں نے سامنے میز پر کاغذ رکھا اور ہاتھ میں قلم پکڑ کر نظم لکھنے کی بجائے ،،ایک بے خودی کے عالم میں اس کا نام لکھنے لگ گئی ۔جس کے لیے سنہیڑے لکھے تھے۔ساحر۔ساحر۔ساحر۔سارا کاغذ بھر گیا۔ پریس کے لوگ چلے گئے تو میں اکیلی بیٹھی کوہوش سی لوٹی۔صبح کو اخبار میں تصویر نکلے گی تو میز کے کاغذ پر یہ ساحر۔ساحر کی گردان۔۔۔اوخدایا!مجنوں کے لیلیٰ لیلیٰ پکارنے والی حالت میں نے اس روز اپنے جسم پت بِتائی۔یہ علیحدہ بات ہے کہ کیمرے کا فوکس میرے ہاتھ کے اوپر تھا،کاغذ پر نہیں،اس لیے دوسرے دن کے اخبار میں کاغذ پر سے کچھ نہیں پڑھا جا سکتا تھا۔(کچھ نہیں پڑھا جا سکتا تھا،اس بات کی تسلی کے بعد ایک درد بھی اس میں شامل ہوگیا۔کاغذ خالی دکھائی دیتا ہے۔لیکن خدا جانتا ہے کہ یہ خالی نہیں تھا)۔ساحرؔ کو میں تھوڑا ’اشو‘ ناول میں لکھا،پھر ’ایک سی انیتا‘میں اور پھر ’دلی دیا گلیاں‘ میں ساگر کے روپ میں۔نظمیں کئی لکھی تھیں،سنہیڑے سب سے طویل نظم،چیتر نام کی ساری نظمیں اور ایک آخری نظم ’آگ دی ایہہ بات ہے،تو ہے ایہہ بات پائی سی‘۔لکھ کر لگا۔کہ اب چودہ برس کا بن باس کاٹ ک آزاد ہوگئی تھی۔لیکن بیتے ہوئے سال۔تن پر پہنے کپڑے ایسے نہیں ہوتے۔یہ جسم کے تِل بن جاتے ہیں۔گو زبان سے کچھ نہیں کہتے،جسم پر چپ چاپ پڑے رہتے ہیں۔بلغاریہ کے جنوب کی طرف ’دارنا‘ کے مقام پرٹھہری ہوئی تھی جس کے ایک طرف سمندر تھا،ایک طرف جنگل،ایک طرف پہاڑ۔وہاں ایک شب یوں لگا جیسے سمندر کی جانب سے ایک کشتی آئی ہو،اور کشتی میں سے کوئی اتر کر،دریچے کی راہ سے۔سالم کا سالم۔میرے ہوٹل کے کمرے میں آگیا ہو۔ہوش و بے خودی مل سی گئیں۔اس رات نظم لکھی تھی۔’تیریاں یاداں بہت دیر ہوئی جلا وطن ہوئیاں۔‘‘(امرتا پریتم کی خود نوشت’رسیدی ٹکٹ‘،مطبوعہ مکتبہء اردو ادب،لاہوری گیٹ،لاہور ۱۹۷۶ صفحہ نمبر ۲۴ تا ۲۵)
اس میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ’ ساحرؔ لدھیانوی‘یہ نام امرتا کے رگ و پے میں سرایت کرچکا تھا۔وہ جس قدر محبت میں ڈوبی ساحرؔ کی طرف بڑھتیں،ساحرؔ اتنی ہی سبک رفتاری سے پیچھے ہولیتے۔یہ معاملہ روز اول سے تادمِ آخر چلتا رہا۔مزید فرماتی ہیں،
’’(دوسری بار۔اس قسم کا موقعہ اس وقت دیکھا تھا،جب ایک دن ساحرؔ آیا تو اس کو ہلکا سا بخار تھا۔اس کے گلے میں درد تھا۔سانس کھنچا کھنچا تھا۔اس روز اس کے گلے اور چھاتی پر وکس ملی تھی،کتنی دیر ملتی رہی تھی۔اور لگا تھا۔یوں پائوں کے بل کھڑی،میں پوروں سے،انگلیوں سے اور ہتھیلیوں کے ساتھ،اس کی چھاتی کو ہولے ہولے ملتی ہوئی ساری عمر بِتا سکتی ہوں۔میرے بیچ کی ،خالص عورت،کو اس پل دنیا کے کسی قلم کاغذ کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر ۳۲ )
یہاں بھی ہم امرتا پرتیم کے والہانہ اور بے باکانہ عشق کی خوبصورت تصویر ملاحظہ کرتے ہیں۔جہاں امرتا کے مزاج میں ٹھہرائو تھا،وہیں ساحرؔ بلا کے شوخ و چنچل واقع ہوئے تھے۔بقول شاعر لکھنوی،
تو نہیں نیند سہی، نیند نہیں موت سہی
کوئی آجائے شبِ غم کا مقدر بن کے
اسی ذیل میں آگے امرتا رقم طراز ہیں،
’’۱۹۶۰۔یہ سال میری زندگی کا سب سے اداس سال تھا۔زندگی کے کیلنڈروں سے پھٹے ہوئے ورق کی طرح۔دل نے گھر کی دہلیزوں سے باہر قدم رکھ لیا تھا،لیکن سامنے کوئی راستہ نہ تھا،اس لیے گھبرا کے کانپنے لگا تھا۔ساحرؔ کو بمبئی فون کرنے کے لیے فون کے پاس گئی تھی کہ عجیب اتفاق ہوا تھا۔اس روز کے بلٹز میں تصویر بھی تھی اور خبر بھی کہ ساحرؔ کو زندگی کی اک نئی محبت مل گئی ہے،ہاتھ فون کے ڈائل سے کچھ انچ پرے،خلا میں کھڑے رہ گئے۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر۳۹ )
یہاں مراد سدھا ملہوترا سے ہے۔کوئی عجب نہ تھاکہ یہ تصویر بھی سچی تھی اور بلٹز میں چھپی خبر بھی سچی۔لیکن امرتا کے عشق کو ابھی دوام ملنا باقی تھا لہٰذا سدھا ملہوترا کے ساتھ ساحرؔ کچھ زیادہ دن نباہ نہ کر سکے۔اور پھر بقول خلیل فرحتؔ مرحوم،
اٹھیے فرحتؔ پھر کسی مہوش پہ ڈورے ڈالیے
فطرتاً ہر ماہ وش دل کا برا ہوتا نہیں
امرتا مزید گویا ہوتی ہیں،
’’ملک کی تقسیم سے پہلے تک۔میرے پاس ایک چیز جو سنبھال سنبھال کر رکھا کرتی تھی۔یہ ساحرؔ کی نظم’تاج محل‘ تھی جو اس نے فریم کرواکر مجھے دی تھی۔لیکن ملک کی تقسیم کے بعد جو کچھ میرے پاس آہستہ آہستہ جمع ہوا ہے۔آج اپنی الماری کا اندرونی خانہ ٹٹولنے لگی ہوں۔تو دبے ہوئے خزانے ایسا معلوم ہوا ہے۔ایک،ٹالسٹائی کی قبرسے لایا ہوا پتا ہے اور ایک کاغذ کا گول ٹکڑا۔جس کے ایک طرف چھپا ہوا ہے۔’ایشین رائٹرز کانفرس‘ اور دوسری طرف ہاتھ سے لکھا ہواہے۔ساحرؔ لدھیانوی۔یہ کانفرس کے موقع کا بیچ ہے جو کانفرس میں شامل ہر ادیب کو ملا تھا۔میں نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر لگایا ہوا تھا اور ساحرؔ نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر کہ ساحرؔ نے اپنے والا اتار کر میرے کوٹ پر لگادیا اور میرے والا اپنے کوٹ پر لگالیا۔اورآج وہ کاغذ کا ٹکڑا،ٹالسٹائی کی قبر سے لائے ہوئے پتے کے ساتھ پڑا ہے۔مجھے یوں محسوس ہورہا ہے۔گویا یہ بھی میں نے ایک پتے کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی قبر پر سے توڑا ہو۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر۷۵ تا ۷۶)
ساحرؔ کا اپنے نام کا بیچ امرتا کے کوٹ پر لگا دینا اس بات کی طرف تو اشارہ کرتا ہے کہ ساحرؔ بھی امرتا کے عشق میں گرفتار تھے تاہم تاہم محض عشق تک ہی رہا بلکہ مشروط عشق تک۔اور جہاں تک نام کا تعلق ہے،بقول شمیم فرحتؔ صاحب،
ہمارے نام سے تم کو پکارتے ہوں گے
تمہارے نام سے ہم کو پکارنے والے
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امرتا پریتم پنجابی ادب کی ایک مایہ ناز ادیبہ ہیں تاہم اس سے بھی کون انکار کرے کہ امرتا کو عالمی بلکہ آفاقی شہرت ساحرؔ کے نام سے وابستگی ہی نے دلوائی۔
’’ایک دفعہ ایک اردو مشاعرے پر لوگ ساحرؔ سے آٹوگراف لے رہ تھے۔کچھ لوگ منتشر ہوئے تو میں نے ہنس کر ہاتھ کی ہتھیلی اس کے آگے کردی اور کہا:’آٹوگراف‘!۔ساحرؔ نے ہاتھ میں پکڑے پین کی سیاہی اپنے انگوٹھے پر لگا کر وہ انگوٹھا میری ہتھیلی پر لگا دیا جیسے میری ہتھیلی کے کاغذ پر دستخط کردیے۔اس میرے کاغذ کی کیا عبارت تھی جس کے اوپر اس نے دستخظ کیے،یہ سب ہوائوں کے حوالے ہے یہ عبارت نہ کبھی اس نے پڑھی ،نہ زندگی نے،اسی لیے کہہ سکتی ہوں،ساحرؔ ایک خیال تھا۔ہوا میں چمکتا ہوا،شاید میرے اپنے ہی خیالوں کا ایک جادو۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر۸۴)
’’امروز کو معلوم ہے۔میں نے ساحرؔ سے محبت کی تھی۔یہ معلوم ہونا اپنے آپ میں اہم بات نہیں ہے۔اس سے پرے۔۔جو کچھ بہت اہم اور بڑا ہے،وہ امروز کا میری ناکامی کو اپنی ناکامی سمجھ لینا ہے۔امروز جب ساحرؔ کی کتاب ’آئو،کوئی خواب بنیں‘ کا ٹائیٹل بنا رہا تھا،تو ہاتھ میں کاغذ تھامے کمرے سے باہر آگیا۔بیرونی کمرے میں،میں اور دیویندر بیٹھے ہوئے تھے۔اس نے ٹائیٹل دکھایا۔دیویندر تنہا دوست ہے جس سے میں ساحرؔ کی بات کر لیتی تھی۔اس لیے دیویندر نے کچھ ماضی میں گہرا اتر کر ایک بار ٹائیٹل کی طرف دیکھا،ایک بار میری طرف ۔لیکن مجھ سے اور دیویندر سے کہیں زیادہ امروز نے ماضی کے عمق میں اتر کر کہا،
’سالا،خواب بُننے کی بات کرتا ہے،بَننے کی نہیں!‘
میں ہنس پڑی:
’سالا جولاہا،ساری عمر خواب ہی بُنتا رہا،کسی کا خواب نہ بَنا!‘
میں دیویندر،امروز کتنی دیر تک ہنستے رہے۔سمیت اس درد کے جو اس قسم کے موقع پر،اس قسم کی ہنسی میں شامل ہوتا ہے۔کبھی حیران ہوجاتی ہوں۔امروز نے مجھے کس طرح اپنایا ہے،بہ معہ اس سوز کے جو اس کی اپنی مسرتوں کا مخالف ہے!۔۔ایک بار ہنس کر کہا تھا:
’ایمو!اگر تجھے ساحرؔ مل جاتا ،پھر تم نے نہیں ملنا تھا!‘
اور وہ مجھے،مجھ سے بھی آگے اپنا کر کہنا لگا:
’میں نے تو ضرور ملنا تھا،چاہے تمہیں۔۔۔۔ساحرؔ کے گھر نماز پڑھتی کو جا ڈھونڈتا۔‘سوچتی ہوں۔۔کیا خدا اس قسم کے انسان سے کہیں الگ ہوتا ہے۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر۸۸)
امروز کی ہم اسے قربانی کہیں یا شعوری ڈھلائو،لیکن یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ امرتا اور ساحرؔ کے جتنے قصے امروز باہر لوگوں کی زبانی سنا کرتے تھے،اس سے ماسوا بذاتِ خود امرتا انہیں گھر ہی میں سنایا کرتی تھیں۔اس کی گواہی کئی حضرات نے دی ہے۔امروز اور امرتا کا یہ کیسا باہمی ارتباط تھا خداجانے۔یا شاید مطابقت کی جیتی جاگتی تصویر۔ندا فاضلی بھائی سے ایک مرتبہ میں نے اس متعلق دریافت کیا تھا۔ندا بھائی کہتے تھے کہ ’بھیا جب معاملہ روزی روٹی کی کشاکش سے ابدی آزادی اور عیش والی زندگی کا سامنے ہو تو بڑے بڑوں کی خودداری اور انانیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔‘
’رسیدی ٹکٹ‘ میں ایک جگہ امرتا نے بڑا دلچسپ واقعہ درج کیا ہے۔اب اس واقعہ میں کس درجہ صداقت ہے،واللہ ا علم بالصواب۔
’’یہ ان دنوں کی بات ہے،جب میرا بیٹامیرے جسم کی امید بنا تھا۔۱۹۴۶ کے آخری دنوں کی بات۔اخباروں اور کتابوں میں کئی وہ حادثے پڑھے تھے۔کہ ایک ہونے والی ماں کے کمرے میں جس طرح کی تصویریں ہوں،یا جس قسم کی صورت وہ دل میں لاوے،بچے کے خط و خال ویسے ہی بن جاتے ہیں۔اور میرے تخیل نے جیسے دنیا سے چھپ کر اس لمحے میں میرے کانوں میں کہا۔۔اگر میں ساحرؔ کا چہرہ ہر وقت اپنی یادوں کے سامنے رکھوں ،تومیرے بچے کی صورت اس کے مشابہ ہوجائے گی۔جو زندگی میں نہیں پایا تھا،جانتی ہوں،یہ اسی کو پالینے کی کرشمے ایسی سعی تھی۔خدا کی طرح پیدائش دینے کی سعی۔جسم کا ایک آزاد فعل۔صرف فطری میلانات سے آزاد نہیں،گوشت و خون کی حقیقت سے بھی آزاد۔سنک اور دیوانگی کے اس عالم میں جب ۳ جولائی ۱۹۴۷ کو پیدائش عمل میں آئی،اول مرتبہ اس کا منہ دیکھا،اپنے خداہونے کا یقین آگیا۔اور بچے کے چہرے کی نشوونما کے ساتھ یہ خیال بھی نشوونما پاتا رہا کہ اس کی صورت واقعی میں ساحر سے مشابہ ہے۔خیر!دیوانگی کی آخری چوٹی پر پائوں رکھ کر ہمیشہ کھڑے نہیں رہا جا سکتا۔پائوں کو بیٹھنے کے لیے زمین کا قطعہ چاہیے،اس لیے آئندہ برسوں میں اس کا تذکرہ ایک پری کہانی کی طرح کرنے لگ گئی۔ایک بار یہ بات میں نے ساحرؔ کو بھی سنائی،اپنے آپ پر ہنستے ہوئے اس کے کسی اور ردِ عمل کی خبر نہیں ،صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ہنس پڑا اور اس نے صرف اتنا کہا،’ویری پُوور ٹیسٹ!(Very Poor Taste) ‘۔ساحرؔ کو زندگی کا سب سے بڑا ایک کمپلیکس ہے۔کہ وہ خوب رو نہیں۔اسی میں سے اس نے میرے پُوور ٹیسٹ کی بات کہی۔اس سے پیش تر بھی ایک بات واقعہ ہوئی تھی۔ایک روز اس نے میری بچی کو گود میں بٹھا کر کہا تھا کہ۔’تم کو ایک کہانی سنائوں‘۔اور جب میری بچی کہانی سننے کے لیے تیار ہو گئی تو وہ سنانے لگا۔
’ایک تھا لکڑہارا ۔ وہ شب و روز جنگل میں لکڑیاں چیر تا تھا۔ پھر ایک روز اس نے جنگل میں ایک شہزادی کو دیکھا۔بڑی حسین! لکڑہارے کا جی چاہا وہ شہزادی کو لے کو دوڑ جائے۔۔ ‘ پھر۔۔ میری بیٹی کہانی میں ہوں کرنے کی عمر کی تھی۔ اس لیے بڑی توجہ سے کہانی سن رہی تھی۔ میں صرف ہنس رہی تھی ۔کہانی میں دخل نہیں دے رہی تھی ۔ وہ کہہ رہا تھا تھا۔۔
’ لیکن تھا تو لکڑہارا نا‘ وہ شہزادی کو صرف دیکھتا رہا دور فاصلے پر کھڑے ہوکر ، اور پھر اداس ہو کر لکڑیاں کاٹنے لگ پڑا۔ سچی کہانی ہے نا ؟‘ہاں! میں نے بھی دیکھا تھا تھا ۔معلوم نہیں بچی نے یہ کیوں کہا۔۔ ساحرؔ ہنستا ہوا میری طرف دیکھنے لگا ۔ ’دیکھ لو اس کو بھی معلوم ہے!‘ اور بچی سے پوچھنے لگا۔ تم وہاں ہی تھی نہ جنگل میں؟‘بچی نے ہاں میں سر ہلایا ۔ ساحر نے پھر اس کو گود میں بیٹھی ہوئی سے پوچھا۔’ اچھا تم نے اس کو لکڑہارے کو بھی دیکھا تھا نا؟‘ بھلا کون تھا تھا؟ ‘ بچے کو اس لمحے کوئی الہام اترا لگتا تھا۔کہنے لگی۔’ آپ !‘ساحرؔ نے پھر پوچھا۔’ اور وہ شہزادی کون تھی ؟‘ ’ماما‘۔ بچی ہنسنے لگ پڑی۔ساحرؔ مجھ سے کہنے لگا ۔’ دیکھا بچوں کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔‘پھر برسوں بیت گئے۔۱۹۶۰ میں جب میں بمبئی گئی تو ان دنوں راجندر سنگھ بیدی زبان دوست تھے۔اکثر ملا کرتے۔ایک شام بیٹھے باتیں کر رہے رھے کہ اچانک سے پوچھا۔’پرکاش پنڈت سے ایک بات سنی تھی کہ نوراج ساحرؔ کا بیٹا ہے۔‘اس شام میں نے بیدی صاحب کو اپنے اس عالمِ دیوانگی کی بات سنائی،کہا۔’یہ تخیل کا سچ ہے،حقیقت کا سچ نہیں!‘۔انہی دنوں ایک روز نوراج نے بھی سوال کیا۔اس کی عمر قریب تیرہ سال تھی۔’ایک بات پوچھوں،سچ سچ بتا دوگی؟‘’ہاں‘۔کیا میں ساحرؔ انکل کا بیٹا ہوں؟‘۔’نہیں‘۔’لیکن اگر ہوں تو بتا دیجیے،مجھے ساحرؔ انکل اچھے لگتے ہیں‘۔’ہاں بیٹے!مجھے بھی اچھے لگتے ہیں،لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو تم کو ضرور بتا دیتی!‘۔سچ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔میرے بچے کو یقین آگیا۔سوچتی ہوں تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا،تاہم وہ صرف میرے لیے تھا،صرف میرے لیے،اس قدر کہ وہ ساحرؔ کے لیے بھی نہیں۔لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا،تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا،کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میںبجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔کبھی ایک بار۔اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی،لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طئے نہیں ہوتا تھا۔اس وقت بھی تخیل کی کرامات کا سہارا لیا تھا۔اس کے جانے کے بعد،میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی،محسوس ہوتا تھا۔۔۔جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی۔ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا۔وہ پاس ہے۔سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔پھر برسوں بعد،اپنے اس احساس کو میں نے ’ایک تھی انیتا‘ناول میں قلم بند کیا۔لیکن ساحرؔ کو ابھی تک سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں ۔‘‘(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر۱۱۶ تا ۱۱۹)
’’سینتیس سال لمبی ایک تسلی ہے،جس کا نام اوتار ہے۔یہی دوست ہے جو آج بھی میرے منہ سے ساحرؔ کی بیماری کا حال سن کر بمبئی گئی تو اس ہسپتال تک بھی پہنچ گئی،جہاں ساحرؔ تھا۔جاکر اس کے سینے پر سر رکھ کر رو پڑی۔اس کی پیشانی چومی اور رو کر اس کاحال دریافت کرتی رہی۔میرے پاس آئی تو کہنے لگی۔’گئی تھی،اس کے سینے پر سر رکھا تو محسوس ہوا،یہ میں نہیں ،تو ہے۔تیری جگہ گئی تھی،تو بن کر!‘۔یہ دوستی کی کیسی بلندیا ں ہیں،کبھی کبھی میری اپنی آنکھیں بھی چندھیاجاتی ہیں‘‘۔(’رسیدی ٹکٹ‘،محولہ بالا، صفحہ نمبر ۱۲۴)
مندرجہ بالا اقتباسات کی شمولیت،بادی النظر میں بے جا اضافہ قرار پا سکتی ہے،تاہم مذکورہ موادساحرؔ اور امرتا کے تعلقِ باہمی کی تفہیم کے لیے از حد ضروری ہے۔امرتا پریتم کی ۱۷۸ صفحات پر مشتمل خود نوشت’رسیدی ٹکٹ‘ میں ساحرؔ کا ذکر صرف متذکرہ بالا اقتباسات میں ہی شامل رہا ہے۔لہٰذا قاری گرچہ محض ’رسیدی ٹکٹ‘ کے حوالے سے امرتا کے تعلقِ خاطر کو جاننے کا خواہش مند ہو تو مندرجہ بالا رشحات نہایت مفید ثابت ہوں گے۔’رسیدی ٹکٹ‘ کے منظر نامہ کو ہم گرچہ ’تصویر کا ایک رخ‘ قرار دیں تو ساحرؔ کی جانب سے ’تصویر کا دوسرا رخ‘ قطعی طور پر دھندلا اور لایعنی سا معلوم پڑتا ہے۔تاہم یہ تو لازماً ہوگیا کہ دنیائے ادب کو ساحر امرتا کی ایک لازوال عشقیہ داستان میسر آگئی۔
اوپر تحریر کردہ نکات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ساحرؔ اورامرتا پریتم کے معاملاتِ عشقی میں ساحرؔ کی جانب سے خود سپردگی کا عالم کچھ کم کم ہی رہا۔جب کہ امرتا کی اولین ازدواجی زندگی (۱۹۳۶ تا ۱۹۶۰) کے دوران بھی امرتا پر ساحرؔ چھائے رہے اور پھر امروز کے ساتھ والی قطعی مطابقتی دور میں بھی ساحرؔلدھیانوی کسی آسیب کی طرح امرتا پر اثر انداز رہے۔لیکن یہاں بھی ساحرؔ امرتا کے عشق کی معراج سے ایک قدم کے فاصلے پر ہی کھڑے کھڑے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
بقول معین احسن جذبی،
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا ، دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے،طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
غرض کہ ساحرؔ لدھیانوی کی علمی اور عملی دونوں ہی زندگیوں میں ’ایک قدم کا فاصلہ‘ نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ ایک قدم کا فاصلہ ہے جو انہیں ترقی پسندیوں کے ہجوم میں سب سے زیادہ پرکشش شاعر کا درجہ دلواتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.