Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فاقہ کش بدھ

اعجاز بٹٓالوی

فاقہ کش بدھ

اعجاز بٹٓالوی

MORE BYاعجاز بٹٓالوی

    حضرت

    آپ اس واقعہ کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ آپ نے اسے احوالِ واقعی کا نام دیا ہے۔ احوالِ واقعی کچھ وارداتی ہیں اور کچھ واقعاتی۔

    شاید آپ کو یاد ہوگا چند برس ہوئے حلقۂ اربابِ ذوق راولپنڈی میں (کہ راولپنڈی ٹیکسلا کے ہمساے میں ہے) ایک مضمون پڑھتے ہوئے میں نے اسے مجسمے کا تذکرہ کیا تھا۔ اس وقت مسئلہ زیربحث پاکستان کا ثقافتی ماضی تھا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ابھی ہمارے مصوروں اور فنکاروں کو گوتم بدھ کے اس نادر مجسمے سے اپنا رشتہ دریافت کرنا ہے جو لاہور کے عجائب گھر کے ایک تاریک کونے میں رکھا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ ہرادیب، فنکار اور مصور کو اپنے ملک کے روحانی لینڈاسکیپ سے اسی طرح متاثر ہونا چاہیے جسے وہ اپنے ہاں کے درختوں، پہاڑوں اور دریاؤں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ فاقہ کش گوتم کا یہ مجسمہ اس سرزمین پر جسے ہم نے پاکستان کا نام دیا ہے پھلنے پھولنے والی ایک خاص تہذیب کا سربرآوردہ سمبل ہے۔ اسے فراموش کرنے یا مسترد کرنے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے شجرہ نسب کی ایک کڑی سے انکار کردے یا اپنی تہذیبی وراثت سے محض اپنی لاعلمی کی وجہ سے عاق ہوجائے۔

    اِدھر چند سال ہوئے مجسمہ جاپان والے اپنے ہاں ایک بین الاقوامی نمائش میں رکھنے کے لیے ہم سے مستعار لے گئے اور برسوں تک واپس نہ کیا۔ شاید ہم نے بھی واپسی کا تقاضا نہ کیا۔ لاہور کا عجائب گھر اس کے بغیر خالی خالی معلوم ہوتا تھا۔ پچھلے سال جب آپ نے مجھے لاہور کے حلقہ اربابِ ذوق کے سالانہ جلسے میں مقالہ پڑھنے کی دعوت دی تو میں نے پاکستان کے اجتماعی شعور کا ذکر کرتے ہوئے بصد احترام عرض کیا تھا کہ پاکستان کے اجتماعی شعور کے لیے اس میں زمین کا تصور بھی شامل ہوناچاہیے۔ ہم ابھی اس منزل میں ہیں کہ ہم نے اس زمین کو عقلی سطح پر یا جذباتی سطح پر وطن تصور کیا ہے مگر ابھی یہ زمین ہمارے لیے ایک روحانی تجربہ نہیں بنی۔ پاکستان کا تہذیبی ماضی۱۹۴۷ء سے شروع نہیں ہوتا۔ ابھی ہم نے گندھارا آرٹ کو اپنائیت کی نظر سے نہیں دیکھا نہ ہم نے موہنجودارو اور ہڑپے کے دفینوں سے اپنا تہذیبی رشتہ تلاش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کے عجائب گھر میں بدھ کا جو سینکڑوں سال پرانا ایک خوبصورت اور نادر مجسمہ رکھا تھا، جاپان کی حکومت سے جنہوں نے نمائش کے لیے اسے منگوایا تھا، اس کی واپسی کے لیے کوئی تقاضا نہیں کیا جارہا۔

    پھر خبر ملی کہ یہ مجسمہ واپس لاہور کے عجائب گھر میں پہنچ گیا۔ ہزاروں میل کا سفر اس تراشیدہ سنگ نے بخیر و خوبی طے کرلیا۔ معلوم نہیں اس سفر میں اس کی کیسی کیسی احتیاط کی گئی ہوگی۔ خبر نہیں انشورنس پالیسی کے لیے اس کی قیمت کیا مقرر کی گئی ہوگی لیکن واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ اسے امریکہ کے کسی میوزیم کے ہاتھ بیچنے کو تیار ہوجائیں تو لاکھوں ڈالر دے کر اسے خریدنے والے بھی مل جائیں گے۔ پھر آنے والی نسلیں غیروں کے ہاں یہ چیزیں دیکھ کر اس طرح ماتم کریں گی جیسے اقبال یورپ کی لائبریریوں میں ان کتابوں کو دیکھ کر روتے تھے جو یورپ والے ہمارے ہاں سے اڑا لے گئے۔

    میں نے ابھی آپ سے ملک کے روحانی لینڈاسکیپ کاذکر کیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان والوں نے یورپ کے عظیم ترین صناع اورماہر تعمیرات کار بوزئیے کو اپنے ہاں بلایا تھا کہ وہ مشرقی پنجاب کے دارالسطنت چنڈی گڑھ کا خاکہ مرتب کرے۔ کاربوزئیے پنڈت جواہر لعل نہرو کے خاص دعوت نامے پر ہندوستان آئے۔ اور ہندوستان کے اس خطے میں ایک نئے شہر کاخاکہ بنانے کا ذمہ لے لیا۔ اپنی اس روحانی واردات پر کاربوزئیے نے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس کام کا بیڑا تو اٹھالیا مگر مجھے معلوم ہے کہ اس تخلیق کے لیے مجھے کیسے کیسے کشت اٹھانا پڑے ہیں۔ ہندوستان کی روح سے ناآشنا تھا اورجب تک میری رسائی اس روح تک نہ ہوئی میرے لیے کاغذ پر ایک لکیر کھینچنا بھی ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ پھرمیں مدت تک اس علاقے میں گھومتا رہا۔ گھروں کے اندر جاتا، گلیوں میں پھرتا، مسجدوں اور مندروں کی سیر کرتا اور گرمی کی دوپہروں میں سائے میں چرتی ہوئی گایوں کو دیکھتا اور کھیتوں کی مینڈھوں پر چلتی ہوئی عورتوں کا انداز دیکھتا جو سر پر چھوٹی سی مٹکی میں لسی اٹھائے اپنے شوہروں کے لیے دن کا کھانا لے کر جاتیں۔ مہینو ں کی اس تلاش کے بعد اس ماحول کی روح سے اس حدتک آشنائی ہوئی کہ میں اس ماحول میں کسی نئے شہر کا خواب دیکھ سکوں۔

    آج کل پاکستان والوں نے ڈنمارک کے مشہور صناع اور ماہر تعمیر پروفیسر جیکسن کو بلارکھا ہے کہ وہ نئے دارالسطنت اسلام آباد میں ہماری قومی اسمبلی کی عمارت کا خاکہ تیار کریں۔ موصوف اس علاقے کی عمارات کو دیکھتے پھرتے ہیں۔ کبھی آصف جاہ کے مقبرے کے سامنے جاکھڑے ہوتے ہیں اور کبھی ہرن مینار کو پہروں تکتے رہتے ہیں۔

    مدعا صرف یہ ہے کہ اس علاقے کی تہذیب کی روح تک کسی طور رسائی حاصل ہوسکے۔ اسی کومیں نے تہذیبی اور ثقافتی لینڈاسکیپ کا نام دیا ہے۔ پاکستان کی اس ثقافتی لینڈاسکیپ کا ایک اہم جزو گندھارا آرٹ اور بدھ کے اسطوپے ہیں۔ تایخ کا جو کاروان وادی سندھ میں سے گزر گیا ہے یہ سب اس کے نقش پا ہیں اور جذباتی اور روحانی طور پر پھر اسی راستے کا عرفان حاصل کرنے کا نام تہذیبی خود آگاہی کہلائے گا۔

    سیاست دان مغربی پاکستان کو ایک صوبہ بنانے کاجواز خدا جانے کہاں کہاں سے لائے مگر یہ خیال کسی کو کیوں نہیں آتا کہ موہن جودارو کے سب سے اونچے ٹیلے پر جو بدھ کا اسطوپہ ہے وہ ان اسطوپوں سے مشابہ ہے جو سوات کی وادیوں میں موجود ہیں اور گندھاراکے فن کے نمونے پنجاب اور سندھ کے کھنڈروں سے نکل آئے ہیں۔ ملی اتحاد کی تلاش صرف سیاسی اور وقتی معامدوں کے علاوہ تاریخ اور تہذیب کے سرچشموں میں بھی کرنی چاہیے اور یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں بلھے شاہ اور شاہ لطیف بھٹائی ایک ہی بات تو نہیں کہہ گئے۔

    یہ تاریخی لینڈاسکیپ پشاور سے لے کر سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پشاور اور سوات کا تمام تر علاقہ گندھارا آرٹ کا سرچشمہ تھا اور اس کے آثار پنجاب اور سندھ تک موجود تھے۔ اس تمام علاقے میں بدھ مت کی تعلیمات کے مراکز قائم تھے۔ ٹیکسلا کا مکتب اس سارے علاقے کے طالب علموں کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ریاستوں کے ولی عہد اور شہزادے اسی درس گاہ میں آکر عام طلبہ کے ساتھ بوریہ نشین ہوتے تھے۔ سندھ کی اس تمام وادی پر ان مراکز کی تعلیمات کا اثر تھا۔ اس علاقے میں صوفیانہ شاعری کے کتنے ڈانڈے راہبانہ زندگی کے اس درس سے جاملتے ہیں جن کی تعلیم ان مدرسوں میں ہوتی تھی۔

    گندھارا آرٹ اسی تہذیب کا فنی اظہار ہے۔ فاقہ کش بدھ کا مجسمہ جسے پشاور کے علاقے یوسف زئی کے کھنڈروں سے نکالا گیا تھا۔ اس فن کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس مجسمے میں اس کے چہرے پر کرب اور الوہیت کاایک عجیب و غریب امتزاج ہے۔ گوتم نے حقیقت کا عرفان دکھ کے راستے سے کیا اور اس کے ہاں کشفِ حقیقت فقر اور بے تعلقی کے راستے سے ہوتاہے۔ جاہ پرستی اور دنیا کی مادی محبت عرفانِ حق کے راستے میں حائل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے مجسمہ بہت سی اقدارِ عالیہ کی علامت کا درجہ رکھتا ہے۔

    پچھلے مہینے اڑی اڑی یہ خبر ملی کہ یہ مجسمہ میوزیم کے کسی چوکیدار کے ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا۔ حالات یوں معلوم ہوئے کہ کوئی غیرملکی فوٹو گرافر اس کی تصویر لینا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ فرمایا کہ اول تو جہاں یہ مجسمہ رکھا ہے وہاں روشنی کافی نہیں، دوسرے اس کے پیچھے عجائب گھر والوں نے جو پردہ لٹکا رکھا ہے اس کا رنگ تصویر کے لیے مناسب نہیں اس لیے اٹھاکر باہر کہیں دھوپ میں رکھا جائے۔ اسی لین دین میں یہ مجسمہ چوکیدار کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ آپ نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا فی لحال تو اس خبر کو افواہ کے درجے پر رکھنا چاہیے کیونکہ دل اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ آپ نے مجھ سے مضمون لکھنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ جب تک احوالِ واقعی معلوم نہ ہوجائیں مضمون لکھنا یا احتجاج کرنا بیکار ہوگا۔ پھر پاکستان ٹائمز میں عجائب گھر والوں کی طرف سے ایک مضمون چھپا کہ مجسمہ ٹوٹانہیں بلکہ اس کا ایک جوڑ اپنی جگہ سے الگ ہوگیا تھا جسے پھر مرمت کردیا گیا ہے۔

    اس مضمون کی اشاعت کے بعد میں نے عجائب گھر میں جاکر ایک مرتبہ پھر اس مجسمے کو دیکھا۔ میں اس سے پہلے بھی انگنت مرتبہ اس مجسمے کو دیکھ چکا ہوں اور اس کے ہر روپ اور ہرزاویے سے واقف ہوں اور مجھے افسوس سے آپ کو یہ اطلاع دینا ہے کہ یہ مجسمہ ٹوٹ کر بہت بھونڈے طریقے سے مرمت کردیا گیا ہے۔ یہ کہ اس کا کوئی جوڑاالگ ہوگیا تھا جسے پھر سے اپنی جگہ لگادیا گیا۔ احوالِ واقعی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ مجسمہ ایسی نمایاں جگہ سے ٹوٹا ہے کہ اسے چھپایا نہیں جاسکتا۔ مجسمے کا بایاں بازو اس بری طرح ٹوٹا ہے اور اس کی مرمت اس بے توجہی سے کی گئی ہے کہ اسے دیکھ کر آپ کو اس نوجوان فقیر کاخیال آجاتا ہے جو ریگل کے چوک کے اردگرد اپنا ٹوٹاہوا بازو دکھاکر بھیک مانگتاپھرتا ہے۔ اس سے کبھی بات کیجیے تو وہ کہتا ہے جناب میں فقیر نہیں ہوں ڈاکٹر کی غلطی سے ناکارہ ہوگیا ہوں۔ میں ریل گاڑی میں سوڈا واٹر بیچا کرتا تھا۔ پچھلے سال گاڑی سے گر کر بازو توڑ بیٹھا، ڈاکٹر نے ہڈی ایسی غلط جوڑدی کہ بازو ناکارہ ہوگیا۔ یہاں تو دو بازو والوں کو کام نہیں ملتا، مجھے کون ملازم رکھے گا۔ خدا کے نام کا ایک آنہ دیتے جائیے۔

    آپ کا اختیار ہو تو عجائب گھر والوں سے چند سوال پوچھ لیجیے کہ جب اس مجسمے کو اپنی جگہ سے ہلایا گیا تو عجائب گھر کا کون سا ذمہ دار ملازم اس وقت موجود تھا یا یہ کام چوکیدار کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا؟ کیا اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے ٹرالی یا چوپہیہ گاڑی استعمال کی گئی تھی یا اسے ہاتھوں ہاتھ اٹھایا گیا تھا؟ اگر ٹرالی استعمال کی گئی تھی تو کیا اس پر پیڈ رکھے گئے تھے یا اس کی سطح برہنہ تھی؟ اس لیے تو عجائب گھر سجانے اور نواردات کی حفاظت کرنے کو اور ملکوں نے تعلیم کا الگ شعبہ قرار دے کر اس کی تعلیمِ خاص کا انتظام کر رکھا ہے۔

    گوتم بدھ نے چونک مادی اشیا سے بے تعلقی کاسبق دیا ہے اس لیے اس کے ایک مادی مجسمے کی موت پر رونا اس زاویے سے دیکھیے تو بے محل معلوم ہوگا۔ لیکن کہیں اس مجسمے کو توڑ کر ہم ان اقدار سے ناطہ تو نہیں توڑ رہے جو زندگی کو مادی اقدار سے ماوراء ایک اور حقیقت کی طرف لے جاناچاہتی ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ راہبانہ زندگی کا حسن اور بے تعلقی کاراستہ ہماری جاہ پرستی اور مادی ترقی کے راستے میں حائل ہو رہاہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے